عربی زبان کے بعض کلمات اردو میں بهی مستعمل ہیں لیکن معنی میں فرق ہوسکتا ہے. مثلا جاہل کا لفظ اردو میں اپنے اندر اہانت کا پہلو لئے ہوئے ہے. کسی جاہل کو بهی جاہل کہنا اشتعال انگیز ہے جبکہ قرآن کریم میں عام ناواقف اور بےخبر کو بهی جاہل کہا گیا ہے اور اس میں اہانت نہیں پائی جاتی. یحسبهم الجاهل اغنیآء من التعفف.” یعنی ناواقف شخص ان ( زکوه اور صدقات کے مستحق) لوگوں کو غنی سمجهہ لیتا ہے کہ کسی سے کچهہ مانگتے نہیں” ( البقره 273) اور مثلا ضلال کو اردو میں گمراہی کے مذموم معنی میں لیا جاتا ہے لیکن عربی میں سادہ لاعلمی اور بےخبری کو بهی ضلال کہہ دیا جاتا ہے. برادران یوسف علیہ السلام نے اپنے والد ماجد کے متعلق کہا تها .؛- ان ابانا لفی ضلال مبین . ” کہ ہمارے ابا جان کو ان باتوں کا بالکل پتہ ہی نہیں” . ( یوسف8)
یہی حال لفظ بغاوت کا ہے. سورہ الحجرات میں :- فان بغت احداهما علی الاخری( اگر ایک جماعت دوسری پر زیادتی کرے) کے کلمات میں سرے سے حدت و شدت ہے ہی نہیں.اسی لئے سیاق کلام میں مسلمانوں کی باہم اخوت کا بهی ذکر ہے ، لیکن اردو میں باغی کے لفظ سے سخت ناگوار تاثر ابهرتا ہے. یہی حال لفظ خروج کا بهی ہے. اردو میں ماضی بعید میں یہ لفظ چنداں معیوب نہ تها لیکن دور حاضر میں اس سے بهی ناخوشگوار تاثر پیدا ہوتا ہے. جیسے علامہ شبلی نے سیرت النبی میں کئی مقامات پر مال غنیمت کو لوٹ کا مال لکها ہے. لیکن دور حاضر میں لوٹ کا مال تو وہ ہوتا ہے جسے ڈاکووں نے لوگوں سے چهینا ہو. وقت گزرنے کے ساتهہ ساتهہ الفاظ کے معانی یا ان کے تاثرات میں فرق پڑتا رہتا ہے. خلیفہ کے انتخاب کے طریق کار میں مثبت اور مستقل اصلاح کے لئے سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی مہمات اور اصلاحی تحریکوں پر دور حاضر میں اردو زبان میں خروج کا عنوان بهی ہمیں تو خلاف ادب دکهائی دیتا ہے.
پس وہ بغاوت تو یقینا مذموم و مردود ہے جو کفر و نفاق، بغض و عناد، افتراق و انتشار ، عداوت و فرقہ واریت اور ضلال و بدعت پر مبنی ہو. قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ اور خوارج اسی طرح کے باغی ہیں. اردو زبان میں بغاوت کا عموما یہی مذموم معنی لیا جاتا ہے. لیکن عربی زبان میں بعض اوقات بغاوت کا مفہوم مذموم و مردود تو کجا بلکہ محمود نہ سہی تو پهر بهی غیرمذموم اور اس کا مرتکب عنداللہ ماجور ہوتا ہے. کیونکہ ایسی بغاوت اصلاح احوال کی خاطر خلوص نیت پر مبنی ہوتی ہے اور اس کا مرتکب محض خطائے اجتہادی کا شکار ہوتا ہے اور خطائے اجتہادی پر بهی عنداللہ وہ اکہرے اجر کا مستحق ہوتا ہے. ٹهیک اسی معنی میں سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف بغاوت کی نسبت کی تو وہ انہیں خطائے اجتہادی پر سمجهتے تهے ورنہ وہ ہرگز یہ نہ فرماتے کہ ہمارے اور ان کے مقتولین دونوں جنت میں ہوں گے اور یہ بهی نہ فرماتے کہ ہم میں سے اور ان میں سے جس نے بهی اللہ کی رضا کی خاطر باہم قتال کیا ہے وہ سب جنتی ہیں. ایسی تاریخی روایات جو کتاب اللہ کے مدلول کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں انہیں بلاجهجک بشرح صدر قبول کرنا ہوگا اور جو ہم آہنگ نہ ہوں وہ مردود و متروک ہوں گی. مثلا ابومخنف لوط بن یحی، ابوجناب کلبی، ہشام بن محمد بن السائب وغیرہ وغیرہ کذاب ،مفتری اور جلے بهنے رافضی راویوں کی ایسی روایات ملعون و مردود ہوں گی.
چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اگر لفظ بغاوت کی حضرت معاویہ رض کی طرف نسبت کرتے تهے تو انہیں اپنا بهائی بهی قرار دیتے تهے. مثلا شیعہ عالم عبداللہ بن الحمیری لکهتے ہیں کہ حضرت جعفر صادق رح نے حضرت محمد باقر رح سے نقل کیا ہے کہ حضرت علی رض اپنے محاربین کی طرف شرک و نفاق کو منسوب نہیں کرتے تهے بلکہ فرماتے تهے:- هم اخواننا بغوا علینا” کہ وہ ہمارے بهائی ہیں جنہوں نے ہم پر زیادتی کی ہے.( قرب الاسناد، صفحہ 45 طبع قدیم) اور اسی کتاب میں حضرت علی رض کا قول ہے کہ ہم نے اپنے مخالفین سے تکفیر کی بنا پر قتال نہیں کیا اور نہ ہی ہمارے مخالفین نے ہمیں کافر قرار دے کر ہم سے قتال کیا ہے، ولکنا راءینا اننا علی حق و راءوا انهم علی حق( ایضا صفحہ45)” لیکن ہم نے سمجها ہے کہ ہم ( ان سے اپنی بیعت کے مطالبے میں) حق پر ہیں اور انہوں نے سمجها ہے کہ وہ ہم سے ( قاتلین عثمان رض سے پہلے قصاص لینے کے اپنے مطالبے میں) حق پر ہیں. الغرض حضرت علی رض نے حضرت معاویہ رض اور ان کے ساتهیوں کو کسی مذموم معنی میں نہیں بلکہ انہیں خطائے اجتہادی پر قرار دیتے ہوئے باغی کہا ہے. چونکہ خطائے اجتہادی پر بهی مجتہد کو اکہرا اجر ملتا ہے ، اسی لئے تو حضرت علی رض نے فرمایا کہ ہمارے اور ان کے مقتولین دونوں جنتی ہیں.
حضرت علی رض ہی کی اتباع میں ہمارے جن اکابر نے حضرت معاویہ رض کو باغی یا مخطی قرار دیا ہے تو الا ماشاءاللہ ان میں سے کسی کا بهی مقصود حضرت معاویہ رض کی توہین و تنقیص نہیں بلکہ ٹهیک ٹهیک اسی معنی غیرمذموم کو انہوں نے اختیار کیا ہے جو حضرت علی رض کا لفظ بغاوت سے مفہوم تها. اس کے باوجود ہمارے بعض اکابر کا یہ اقدام اس لئے تسامح ہے کہ حضرت علی رض کا مقام و مرتبہ حضرت معاویہ رض سے بہت بلند ہے اور وصف صحابیت بهی حضرت علی اور حضرت معاویہ( رضی اللہ عنهما) دونوں میں مشترک ہے. دونوں حضرات بموجب نصوص قرآنی حسن عاقبت کے اعتبار سے معلوم العاقبہ ہیں اور بعد والے اپنی عاقبت کے علم کے اعتبار سے مجہول العاقبہ ہیں. اس لئے حضرت علی رض کو تو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے چهوٹے بهائی اور اپنے سے کم تر مرتبے کے صحابی رسول کو غیرمذموم معنی میں باغی اور مخطی قرار دیں لیکن بعد والوں کو یہ حق حاصل نہیں. کیونکہ اردو زبان میں تو باغی کا لفظ اکثر و بیشتر مذموم معنی میں ہی استعمال ہوتا ہے .
یہاں اولی صورت یہی ہے کہ ان مشاجرات میں صحابہ کرام کی عظیم اکثریت، حضرت عمر بن عبدالعزیزرح، امام ابوحنیفہ ، امام احمد بن حنبل ، امام حسن بصری اورشیخ عبدالقادر جیلانی وغیرہ وغیرہ متقدمین اکابر کے موقف کے مطابق توقف اور سکوت سے کام لیا جائے. تاہم جن حضرات نے حضرت علی رض کی اتباع کی ہے وہ بهی عنداللہ ماجور ہیں. کیونکہ ان حضرات کا بهی عقیدہ ہے کہ بعد میں حضرت علی رض اور پهر حضرت حسن رض سے مصالحت کے بعد حضرت معاویہ رض کو باغی سمجهنا درست نہیں اور ان کا یہ بهی عقیدہ ہے کہ بعد والوں میں کوئی بڑے سا بڑا ولی بهی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بهی صحابی کے مقام و مرتبہ کو ہرگز( پهر دہرائیے) ہرگز نہیں پہنچ سکتا. پس ان اکابر حضرات کے احترام میں بهی ہم کوئی کمی نہیں کرتے، گو مشاجرات صحابہ کے متعلق ان کے موقف کو ہم خلاف اولی اور مرجوح سمجهتے ہیں.
سب و شتم:
یہی حال لفظ ” سب ” ( بتشدید با ) کا ہے کہ اردو میں یہ لفظ ہمیشہ گالی گلوچ کے مذموم معنی میں لیا جاتا ہے لیکن عربی میں ہرجگہ اس سے مذموم معنی مراد نہیں ہوتا بلکہ فریق مخالف کی رائے کی سختی سے مخالفت کرنے اور اپنی رائے کے درست ہونے پر زور و شور سے استدلال کرنے پر بهی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے. یہاں ہم ابومخنف لوط بن یحی جیسے راوی ہی کی ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ:- مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ کوفہ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے عامل کی حیثیت سے سات سال اور کچهہ مہینے رہے. وہ بہترین سیرت کے مالک تهے اور عافیت کو تمام لوگوں سے زیادہ پسند کرتے تهے البتہ وہ حضرت علی رض کی مذمت اور انہیں برا بهلا کہنا نہیں چهوڑتے تهے، روایت کے آخر میں یہ الفاظ ہیں.” حضرت مغیرہ رض کهڑے ہوئے اور حضرت علی اور حضرت عثمان(رضی اللہ عنهما) کے بارے میں وہی کچهہ کہا جو وہ کہا کرتے تهے،ان کے الفاظ یہ تهے- اے اللہ! عثمان بن عفان رض پر رحم فرما اور ان سے درگزر فرما اور ان کے بہتر عمل کی انہیں جزا دے کیونکہ انہوں نے تیری کتاب پر عمل کیا اور تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی اور ہماری بات ایک کردی اور ہمارے خونوں کو بچایا اور مظلوم ہوکر قتل ہوگئے. یا اللہ ! ان کے مددگاروں، دوستوں، محبت کرنے والوں اور ان کے قصاص کا مطالبہ کرنے والوں پر رحم فرما اور ان کے قاتلوں کے لئیے بددعا کرتے تهے(تاریخ طبری4/188). اس روایت سے نام نہاد سب و شتم کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے.
ایک شخص حضرت سہل بن سعد کے پاس آیا اور بولا کہ امیر مدینہ منبر پر کهڑے ہوکر ہم پر ( اصحاب علی رض) سب و شتم کرتا ہے. حضرت سہل نے پوچها وہ کیا کہتا ہے؟ اس نے کہا کہ وہ حضرت علی رض کو ابوتراب کہتا ہے. حضرت سہل ہنس پڑے اور فرمایا کہ خدا کی قسم اس نام سے تو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکارا ہے اور آپ کے نزدیک ان کا اس سے پیارا نام کوئی نہ تها.( صحیح بخاری،کتاب المناقب،باب مناقب علی رض1/525) اسی سے سمجهہ لیجئیے کہ لفظ ” سب” کی آڑ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ناحق مورد طعن بنایا جاتا ہے. بلکہ اگر سب و شتم کی واقعی ناخوشگوار روایات موجود ہوں تو وہ بهی قطعا جهوٹی ہیں.
یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ موجودہ گئے گزرے دور میں بهی اگر کسی شخص کے باپ کو کوئی گالی گلوچ کرتا ہو اور اس کی توہین کے مسلسل درپے ہو تو وہ ہرگز ایسے شخص کی ضیافت اور میزبانی کو اور اس کی طرف سے کسی بهی طرح کے تحائف و هدایا اور انعامات و عطایا کو قبول نہیں کرے گا. حالانکہ حضرات حسنین( رضی اللہ عنهما) اور ان کے اقارب و احباب وغیرہ کا حال تو یہ تها کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ امیر معاویہ رض کے پاس تشریف لے گئے تو حضرت معاویہ رض نے آپ سے کہا کہ میں آپ کو اتنا بڑا عطیہ دوں گا کہ اس سے پہلے کبهی کسی نے نہیں دیا ہوگا تو آپ کو چالیس لاکهہ دینار دئیے. ایک مرتبہ حضرات حسنین رض دونوں حضرت معاویہ رض کے پاس گئے تو انہیں فورا دو لاکهہ درہم دئے اور کہا اس سے پہلے اس طرح عطیہ کسی نے نہیں دیا ہوگا، تو حضرت حسین رض نے جواب دیا کہ ہم سے افضل کسی شخص کو بهی آپ نے نہیں دیا ہوگا. ایک مرتبہ حضرت حسن رض اور حضرت عبداللہ بن جعفر رض نے امیر معاویہ رض کے پاس کسی کو مالی مدد کے لئے بهیجا تو آپ نے دونوں یا دونوں میں سے ہر ایک کو ایک ایک لاکهہ درہم بهجوائے. یہ واقعہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حیات طیبہ میں پیش آیا تها. اس پر حضرت علی رض نے اپنے ان اعزہ پر قدرے ناراضگی کا اظہار فرمایا تو انہوں نے عرض کیا کہ آپ نے تو ہمیں دیا نہیں تها بلکہ معاویہ رض نے ہم پر سخاوت کی ہے.( البدایہ والنهایہ 8/130)
ایک مرتبہ حضرت حسن اور حضرت عبداللہ بن زبیر( رضی اللہ عنهما) حضرت معاویہ رض کے پاس گئے تو حضرت معاویہ رض نے حضرت حسن رض سے کہا اے رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے بیٹے خوش آمدید اور تین لاکهہ درہم آپ کو دئیے. حضرت عبداللہ بن زبیر رض سے کہا اے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی پهوپهی کے بیٹے خوش آمدید اور ایک لاکهہ درہم آپ کو دئیے. ایک مرتبہ حضرت معاویہ رض نے حضرت حسن رض کو ایک لاکهہ درہم بهیجے، جو آپ نے اسی وقت اپنی مجلس کے دس مردوں میں تقسیم فرمادیے ، ہر ایک کو دس ہزار درہم ملے. ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن جعفر طیار رض کو ایک لاکهہ درہم بهیجے جو ان سے ان کی اہلیہ فاطمہ نے لے لئے. حضرت معاویہ رض حضرت عبداللہ بن جعفر طیار رض کو ہر سال دس لاکهہ درہم بهیجا کرتے تهے. اس سالانہ عطیے کے علاوہ ویسے بهی بڑی بڑی رقوم انہیں دیتے رہتے تهے. حضرات حسنین رض اور ان کے چچازاد بهائی حضرت عبداللہ بن جعفر رض کے علاوہ حضرت معاویہ رض حضرت عائشہ صدیقہ رض ، حضرت عبداللہ بن زبیررض، حضرت عبداللہ بن عباس رض وغیرہ وغیرہ کو بهی گرانقدر نقد عطیات دیتے رہتے تهے. جن کی کچهہ تفصیل حافظ ابن کثیر رح نے بیان کی ہے.( ایضا 8/131).
حضرات حسنین رضی اللہ تعالی عنهما کے لئے گرانقدر عطیات و تحائف کا ذکر شیعہ مورخ اور نہج البلاغہ کے شارح ابن حدید معتزلی شیعی نے بهی کیا ہے کہ امیر معاویہ رض پہلے شخص تهے جنہوں نے دس دس لاکهہ درہم تک دئیے اور اس طرح کے عطیات حضرت عبد اللہ بن عباس رض اور حضرت عبداللہ بن جعفر طیار رض کو بهی دیئے جاتے تهے.(شرح نہج البلاغہ لابن ابی الحدید 2/823).
ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اگر حضرت معاویہ رض اپنے ماتحت حاکموں کے ذریعہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ پر مبینہ انداز میں سب و شتم کرانے والے ہوتے تو یہ حضرات ہرگز ہرگز ان عطیات کو قبول نہ کرتے اور نہ ہی حضرات حسنین رضی اللہ عنهما امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس کبهی جایا کرتے.
اگر ہم علی سبیل التنزل ( اپنے موقف سے نیچے اترتے ہوئے) روافض کے اس موقف کو تهوڑی دیر کے لئے تسلیم بهی کرلیں کہ حضرت عمار بن یاسر رض کے بارے میں متعلقہ حدیث کے کلمات الفئتہ الباغیہ سے مراد حضرت معاویہ رض اور ان کے سبهی ساتهی ییں اور یہ بهی مان لیں کہ بعض روایات کے یہ کلمات کہ حضرت عمار رض انہیں جنت کی طرف اور یہ لوگ انہیں جہنم کی طرف بلا رہے ہوں گے ‘صحیح ہیں تو بهی روافض کے ہاتهہ کچهہ نہیں آتا. خوب غور کیجئیے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے جب اپنا خواب اپنے والد ماجد حضرت یعقوب علیہ السلام پر پیش کیا تو سیاق کلام میں حضرت یعقوب علیہ السلام نے یہ بهی فرمایا تها کہ اللہ تجهہ پر اور آل یعقوب پر ایسے ہی اپنی نعمت کو پورا کرے گا جیسا کہ وہ پہلے اسے تیرے آباء ابراہیم اور اسحق ( علیهما السلام ) پر پورا کرچکا ہے. یہاں آل یعقوب میں یقینا ( پهر دہرائیے یقینا ) برادران یوسف علیہ السلام بهی داخل ہیں. بالفاظ دیگر اللہ تعالی نے برادران یوسف کے حسن عاقبت کی خبر حضرت یعقوب علیہ السلام کو پہلے ہی دے رکهی تهی. اب بتائیے جب بعد میں برادران یوسف نے اپنے باپ کو دهوکہ دیا ، حضرت یوسف علیہ السلام کے باہم قتل کا مشورہ کیا پهر انہیں ویراں کنویں میں پهینک آئے اور گهر آکر باپ سے جهوٹ بولا ، اپنے باپ کو سالہاسال کے لئے اتنا پریشان کئے رکها کہ شدت غم سے ان کی بینائی تک متاثر ہوئی. یوں انہوں نے حق اخوت ، حق ابوت اور پهر حق نبوت سب حقوق کو سالہاسال تک بری طرح پامال کئیے رکها تو کیا وہ اپنے ان کارناموں سے باہم ایکدوسرے کو جنت کی طرف بلا رہے تهے یا جہنم کی دعوت دے رہے تهے؟ اگر جنت کی طرف بلا رہے تهے تو اس کی وضاحت مطلوب ہے. اگر جہنم کی طرف بلا رہے تهے تو کیا ان کے حسن عاقبت کی جو پیشگی خبر عالم الغیب والشهادہ اللہ تعالی نے حضرت یعقوب علیہ السلام اور ان کے ذریعہ حضرت یوسف علیہ السلام کو دے رکهی تهی وہ آڑے نہیں آئی اور کیا اس بشارت نے بالآخر انہیں پهر سے جنت کے راستے پر نہیں ڈال دیا؟. پس بعینہہ اسی طرح جب سیدنا حضرت علی اور پهر سیدنا حضرت حسن ( رضی اللہ عنهما) سے حضرت معاویہ رض کی صلح ہوگئی اور سیدنا حضرت حسن رض کے ذریعہ باہم مصالحت کی بشارت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دے رکهی تهی تو حضرت معاویہ رض اپنے مخلص ساتهیوں سمیت پهر سے اس قرآنی آیت کا مصداق ہوگئے کہ جن لوگوں نے فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کیا اور اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد و قتال کیا اور جنہوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کیا اور اللہ کی راہ میں جہاد و قتال کیا، ان کا درجہ گو باہم برابر نہیں بلکہ فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کرنے والوں کا مقام و مرتبہ بلند ہے ، تاہم اللہ نے ہر ایک سے حسنی ( بهلائی) کا وعدہ کر رکها ہے. اور حضرت معاویہ رض اور ان کے مخلص ساتهی پهر سے اس قرآنی آیت کا مصداق بهی ہوگئے کہ جن کے لئے ہماری طرف سے حسنی ( بهلائی) کا فیصلہ پہلے سے ہوچکا وہ اس جہنم سے دور رکهے جائیں گے.وہ تو اس کی آواز تک بهی سننے نہیں پائیں گے اور وہ اپنی من پسند آسائشوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے. بتائیے روافص کو کیا ملا؟؟. ان فی ذالک لذکری لمن کان له قلب او القی السمع وهو شهید.
یہاں یہ بهی معلوم ہونا چاہئیے کہ کئی ایک محققین کے نزدیک متعلقہ حدیث کے یہ کلمات کہ عماررض تو ان لوگوں کو جنت کی طرف اور وہ اسے آگ کی طرف بلا رہے ہوں گے ہرگز حدیث نبوی کا حصہ نہیں ہیں بلکہ مدرج یعنی بعد میں بڑهائے گئے ہیں.اس کے لئے فتح الباری شرح بخاری جیسی کتب کے متعلقہ مضامین دیکهے جاسکتے ہیں. اگر یہ الفاظ واقعی حدیث کا حصہ ہیں تو بهی صحابہ کرام رض کی یہ کرامت ہے کہ روافض کے ہاتهہ پهر بهی کچهہ نہیں آتا جیسا کہ اوپر مذکور ہوچکا.
ہم نے علی سبیل التنزل روافض وغیرہ کے غلط موقف کو بغرض بحث تهوڑی دیر کے لئے جو صحیح تسلیم کیا تها تو اس کا مقصد صرف یہ واضح کرنا تها کہ صحابہ کرام کی یہ کرامت ہے کہ روافض وغیرہ کے غلط موقف کو درست ماننے کی صورت میں بهی ان کے ہاتهہ کچهہ نہیں آتا اور صحابہ کرام کے یقینی حسن عاقبت کی محکم قرآنی خبریں مخالف روایات وغیرہ سے ہرگز متاثر نہیں ہوتیں.یہ ایسا ہی ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بحث و مباحثہ کے اصول تسلیم کے تحت تهوڑی دیر کے لئے ستارے ، چاند اور سورج کو رب تسلیم کیا اور یوں مشرکین پر ان کی غلطی واضح کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ حقیقی رب تو وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا یعنی پوری کائینات کا خالق و مالک ہے. یہاں بهی اصل حقیقت یہ ہے کہ صحابہ کرام رض اگرچہ معصوم عن الخطاء نہیں لیکن قرآن کریم سے ثابت ہے کہ وہ کبائر پر ہرگز اصرار کرنے والے نہیں تهے. سورہ حجرات میں انہیں مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اللہ نے تمہارے لئے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں مزین کردیا ہے. وکرہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان اولئک هم الراشدون.فضلا من اللہ و نعمة والله عليم حكيم (الحجرات 7-8).” اور اس نے کفر اور گناہ اور نافرمانی کو تمہارے لئے ناپسندیدہ بنادیا.یہی لوگ ہیں جو راشد ( ہدایت والے ) ہیں اور یہ اللہ کی طرف سے فضل اور نعمت کی وجہ سے ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے.”
پس جن لوگوں نے حضرت علی اور حضرت معاویہ ( رضی اللہ عنهما) کے اختلاف کو ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) حق و باطل کا اختلاف قرار دیا انہوں نے سخت ٹهوکر کهائی ہے. اللہ انہیں معاف فرمائے.کیونکہ حضرت علی رض اور حضرت معاویہ رض کا اختلاف چند دنوں یا مہینوں پر نہیں بلکہ سالوں پر محیط ہے. اتنے عرصہ تک باطل پر ( مبینہ) اصرار کبیرہ گناہ پر اصرار کے مترادف ہے ، جس کی بهرپور نفی قرآن کریم سے ہورہی ہے. ہم قبل ازیں بیان کرچکے ہیں کہ عربی زبان کے بعض کلمات اردو میں مختلف معنوی تاثر لئے ہوئے ہوتے ہیں. حضرت علی رض ہرگزہرگز حضرت معاویہ رض اور ان کے مخلص ساتهیوں کو کسی مذموم معنی میں نہیں بلکہ غیرمذموم معنی میں باغی قرار دیتے تهے، یعنی وہ انہیں خطائے اجتہادی پر سمجهتے تهے اور چونکہ خطائے اجتہادی پر بهی مجتہد کو اکہرا اجر ملتا ہے اس لئے وہ ان کو جنتی بهی قرار دیتے تهے. ہر باطل یقینا خطا بهی ہے لیکن ہر خطا کو ہرگز باطل نہیں کہا جاسکتا. اللہ تعالی باطل پر قائم کسی شخص یا جماعت کو اکہرا تو کجا بلکہ اگر وہ چاہے تو ان کا مواخذہ کرسکتا ہے.
چونکہ بغاوت اور باغی کے الفاظ دور حاضر کی اردو زبان میں عموما ناخوشگوار معنی میں لئے جاتے ہیں لہذا حضرت معاویہ رض کے لئے دور حاضر کی اردو میں باغی باغی کی رٹ لگائے جانا اور ساتهہ ہی ان کی صحابیت کی تعریف بهی کیے جانا ایک متضاد طرز عمل ہے جو نفسیات کی زبان میں دوہری شخصیت (double personality) کے حامل کسی شخص کا ہی کام ہوسکتا ہے. سورہ آل عمران میں ہے:- ولقد نصرکم اللہ ببدر و انتم اذله ( آل عمران 123).” اور بے شک اللہ نے (غزوہ) بدر میں تمہاری مدد فرمائی جبکہ تم نہایت کمزور تهے” دیکهئیے یہاں غزوہ بدر میں شریک صحابہ کرام کو اللہ تعالی نے ” اذله ‘ فرمایا ہے جو ذلیل کی جمع ہے. اب اگر کوئی شخص اردو میں اس کا ترجمہ یوں کرے “جبکہ تم ذلیل تهے” اور صحابہ کرام رض کے لئے دور حاضر کی اردو میں لفظ ذلیل کی بار بار رٹ لگاتا جائے اور ساتهہ ہی ان کی صحابیت کی تعریف بهی کرتا جائے تو اس کی عقل و خرد پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے. بعینہہ اسی طرح دور حاضر میں عربی لفظ ” بغی” کا اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے فہم و دانش کو خیرباد نہیں کہنا چاہئیے ورنہ کل کلاں کوئی احمق یا ملحد ” ووجدک ضالا فهدی ” میں “ضالا” کا اردو میں ایسا ترجمہ کرسکتا ہے کہ جس سے توہین رسالت لازم آئے.
آئیے اب ہم یہ بهی دیکهیں کہ حضرت علی رض جو حضرت معاویہ رض کو خطائے اجتہادی پر سمجهتے تهے اور اسی مفہوم کے تحت وہ غیرمذموم معنی میں ( آجکل کی اردو میں نہیں بلکہ) اپنے زمانہ کی عربی میں باغی کہتے تهے تو یہاں وہ خطائے اجتہادی سے کیا مراد لیتے تهے؟ اگر اس کی وضاحت خود حضرت علی رض کی زبان مبارک سے ہوجائے تو من و شما کے لئے کج بحثی کی گنجائش ہی کب باقی رہتی ہے؟ بعض اوقات اجتہادی اختلاف صواب و خطا کا نہیں بلکہ اولی اور خلاف اولی کا ہوتا ہے اور اگر اختلاف ایسے اہم معاملے میں ہو جس سے امت کا اجتماعی مفاد یا ضرر وابستہ ہو تو خلاف اولی موقف اختیار کرنے والے فریق کو خطائے اجتہادی کا مرتکب کہا جاسکتا ہے، حالانکہ اس کا موقف فی نفسہ ( بذات خود) غلط نہیں ہوتا بلکہ فریقین اپنے اپنے دلائل کی رو سے حق بجانب ہوتے ہیں. پس خوب سمجهہ لیجئیے کہ سیدنا حضرت علی اور سیدنا حضرت معاویہ( رضی اللہ عنهما) اپنے باہمی اختلاف کو ہرگز ہرگز صواب و خطا کا نہیں بلکہ اولی و خلاف اولی کا اختلاف سمجهتے تهے. جس کا نمایاں ترین ثبوت یہ ہے کہ صفین سے واپسی پر سیدنا حضرت علی رض نے فرمایا کہ اے لوگو! تم معاویہ کی امارت و اقتدار کو ناپسند مت کرو، کیونکہ اگر تم نے ان کو گم کردیا تو دیکهو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے جس طرح حنظل کا پهل اپنے پودے سے گرتا ہے” ( البدایہ والنہایہ8/131). اگر حضرت علی رض کا خیال ہوتا کہ حضرت معاویہ رض کا موقف خلاف اولی نہیں بلکہ بالکل غلط ہے تو وہ ان کی امارت کو پسندیدہ کیوں قرار دیتے؟
بنی اسرائیل کے گوسالہ پرستی کے معاملے میں بهی حضرت موسی علیہ السلام کا حضرت هارون علیہ السلام سے اختلاف دراصل اولی اور خلاف اولی ہی کا تها. حضرت موسی علیہ السلام نے حضرت هارون علیہ السلام کے اس موقف کو خلاف اولی سمجها کہ گئوسالہ پرستی پر انہوں نے مجرموں کا فورا مواخذہ نہیں فرمایا تها. حضرت موسی علیہ السلام یہ خیال کرتے تهے کہ حضرت هارون علیہ السلام کے اس خلاف اولی موقف سے امت موسویہ کا نقصان ہوا ہے. اسی لئے غصے کے عالم میں انہوں نے حضرت هارون پر سختی فرمائی لیکن حضرت هارون علیہ السلام کی وضاحت پر وہ مطمئن ہوگئے. بعینہہ اسی طرح حضرت علی رض یہ خیال فرماتے تهے کہ حضرت معاویہ رض کا خلاف اولی موقف پر اصرار امت محمدیہ کے مفاد میں نہیں ہے. اسی لئے انہوں نے حضرت معاویہ رض کے خلاف لشکرکشی فرمائی. اگر سیدنا حضرت علی رض کو سیدنا معاویہ رض سے بالمشافہ گفتگو کا موقع ملتا جیسے انہیں جنگ جمل سے پہلے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنها اور ان کے ساتهیوں سے بالواسطہ اور پهر بلاواسطہ رابطے کا موقع ملا تها اور باہم رنجش و اختلاف دور ہوگیا تها، اسی طرح حضرت معاویہ رض سے بهی ان کا اختلاف دور ہوجاتا. لیکن جس طرح جنگ جمل کے موقع پر سبائیوں پر مشتمل حقیقی ملعون اور خبیث اصل باغی ٹولے نے دهوکہ دہی سے جنگ چهیڑ دی، اسی طرح جنگ صفین سے پہلے کی فریقین کی پرخلوص مصالحانہ مساعی پر بهی اسی حقیقی اور باغی مفسد ٹولے نے پانی پهیر دیا اور اشتعال انگیزی پر قائم رہے.
اللہ تعالی کی حکمت بالغہ کے تحت اس کا مفید اثر یہ ہوا کہ بالآخر جنگ برپا ہوئی جس میں ان ہی مفسدین کی بڑی تعداد اپنے کیفرکردار کو پہنچ گئی اور جو فریقین میں سے مخلص لوگ مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے تو حضرت علی رض نے بجا طور پر ارشاد فرمایا کہ ہمارے اور ان کے مقتولین دونوں جنت میں ہیں. الغرض یہ جنگ درحقیقت امت مسلمہ کے لئے ایسے ہی مفید ثابت ہوئی جیسے حضرت عائشہ صدیقہ رض پر منافقین کی شرارت سے بہتان والا واقعہ بظاہر اذیت ناک ہونے کے باوجود اپنے نتائج کے اعتبار سے مفید ہی ثابت ہوا. اللہ تعالی کا ارشاد ہے:-لاتحسبوه شرالکم بل هو خیرلکم(النور11).” اس ( واقعہ افک ) کو تم اپنے حق میں برا نہ سمجهو بلکہ یہ تمہارے لئے اچها ہے”.
ان مباحث میں ابهی ہم نے اوپر سورہ حجرات کی جن دو آیات کا حوالہ دیا تها تو دوسری آیت کے آخر میں اللہ تعالی کے دو اسمائے حسنی علیم اور حکیم لائے گئے ہیں.یعنی اگرچہ صحابہ کرام کو ایمان محبوب ہے اور وہ ان کے دلوں میں خوب مزین ہے اور اگرچہ ان کے لئے کفر، فسوق اور عصیان کو اللہ تعالی نے ناپسندیدہ کردیا ہے اور اگرچہ اللہ تعالی کا ان پر خاص الخاص فضل و کرم اور احسان و امتنان ہے لیکن اس کے باوجود اگر کسی وقت ان میں باہم انتظامی امور میں اختلافات کی بنا پر جنگ بهی ہوجائے تو اس میں بهی علیم و حکیم اللہ تعالی کی حکمتیں مضمر ہوں گی. چنانچہ اگلی ہی آیات میں ہے کہ اگر مسلمانوں کی دو جماعتوں میں جنگ ہوجائے تو بهی وہ باہم بهائی بهائی ہی ہیں.تم اپنے بهائیوں میں صلح کرادیا کرو. علیم و حکیم اللہ تعالی نے اپنے پیشگی علم اور حکمت بالغہ کے تحت صلح کرانے کا یہ عظیم شرف اپنے محبوب ترین بندے ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب ترین نواسے سیدنا حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کو عطا فرمایا. جو شروع ہی سے مسلمانوں کی باہم جنگ کو ناپسند فرمایا کرتے تهے اور یہ حکیمانہ قول بهی ان کی زبان پر جاری رہتا تها کہ اللہ تعالی نبوت و خلافت کو ایک ہی خاندان میں جمع نہیں کرے گا. ان جنگوں کے ذریعے مفسدین کی بڑی تعداد کو اللہ تعالی نے کیفرکردار تک پہنچا دیا. بچے کهچے مفسدین بهی بالآخر زیرزمین جانے اور پهر عرصہ دراز کے بعد نمودار ہونے پر مجبور ہوئے.
ان مباحث سے یہ معلوم ہوا کہ مشاجرات صحابہ کرام میں بہترین موقف سکوت و توقف کا ہے یا حضرت علی رض کی پیروی میں حضرت معاویہ رض کے موقف کو خلاف اولی تو قرار دیا جاسکتا ہے غلط ہرگز نہیں.گو یہ دوسرا موقف صحابہ کرام کے بعد کے ادوار کے لوگوں کے لئے مرجوح اور خلاف اولی ہے کیونکہ ہم اپنے علم کے اعتبار سے مجہول العاقبہ اور صحابہ کرام رض معلوم العاقبہ ہیں. وما علینا الا البلاغ.
صحابہ کرام ( رضی اللہ عنهم ) کی تعدیل اور ان کے خلاف جهوٹے مطاعن و مثالب کی مدلل تردید ہمارا شرعی فریضہ ہے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امی تهے اور آپ نے اپنے دست مبارک سے کسی کو بسم اللہ تک بهی لکهہ کر نہیں دی . سارا قرآن آپ نے کاتبین صحابہ کرام سے لکهوایا. فرامین و احکام ، معاهدات اور حکمرانوں کو دعوتی خطوط وغیرہ بهی آپ نے اپنے اصحاب سے ہی لکهوائے. فتح مکہ کے بعد ان کاتبین میں آپ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو بهی شامل فرما لیا، تاکہ فتح مکہ کے بعد اسلام قبول کرنے والے اہل مکہ پر بهی آنے والی نسلیں بهرپور اعتماد قائم رکهیں.
صحابہ کرام سے اعتماد اٹهہ جائے تو قرآن کریم سے بلکہ پورے دین سے ہی اعتماد اٹهہ جاتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہی ( معاذاللہ ثم معاذاللہ)عبث اور بیکار قرار پاتی ہے. آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) خاتم النبیں ہیں دین کی حفاظت اور اسے آئندہ نسلوں تک پہنچانے کی بهرپور ذمہ داری انہی صحابہ کرام ہی کی تهی جسے انہوں نے علی وجہ الکمال پورا کیا. دشمنان صحابہ کی شروع سے ہی یہ کوشش رہی کہ صحابہ کرام کو ( معاذاللہ) فاسق و فاجر اور خائن تو کیا سرے سے ان کے ایمان ہی کو مشتبهہ قرار دیا جائے تاکہ قرآن کریم کو ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) محرف قرار دینے کی ان کی ناپاک مساعی کے لئے راہ ہموار ہوسکے. قرآن کریم میں ہے ؛-انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحفظون.” کہ ہم نے ہی اس نصیحت(قرآن ) کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں”. قرآن کریم تبهی کتاب نصیحت ہوسکتا ہے جبکہ نہ صرف اس کے کلمات محفوظ ہوں بلکہ اس کے مجملات کی وضاحت یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی، فعلی اور تقریری سنت نہ صرف احادیث صحیحہ کی صورت میں آئندہ نسلوں تک منتقل ہو بلکہ اس کا بہت بڑا حصہ تعامل امت کے یقینی ذریعے سے بهی لوگوں تک پہنچے. صحابہ کرام کے بعد کے حکمران خواه بذات خود اچهے ہوں یا نہ ہوں اس سے وہ اسباب ہرگز خلل پذیر نہیں ہوئے جن کے تحت اللہ تعالی نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی اپنے وعدے کے مطابق خود حفاظت فرمائی ، کیونکہ اللہ تعالی نے جہاں قرآن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا تو یہ بهی ارشاد فرمایا :-ثم ان علینا بیانه” کہ اس کی تشریح و توضیح یعنی بیان قرآن بهی ہمارے ہی ذمہ ہے. اسی بیان قرآن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت مبارکہ اور اپنے اسوہ حسنہ سے صحابہ کرام کے ذریعہ امت تک پہنچایا. پس یزید بن معاویہ اور بعد کے حکمران اپنے اعمال و افعال اور گفتار و کردار کے لحاظ سے اچهے ہوں یا نہ ہوں ، ان سے دین کا کوئی حقیقی مفاد یا ضرر وابستہ نہ رہا، ورنہ قرآن اور بیان قرآن کی حفاظت و سالمیت کے ربانی وعدے کو ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) جهٹلانا ہوگا. ان مباحث میں برادران یوسف کا ذکر بهی متعدد بار ہوا ہے. جن کے حسن عاقبت کی خبر قرآن کریم نے دی ہے لہذا ہر طرح کے شک و شبهہ سے بالاتر ہے. حالانکہ قرآن کریم سے ہی معلوم ہورہا ہے کہ وہ سالہاسال تک حق اخوت ، ابوت اور نبوت سبهی کو بری طرح پامال کرنے کے کبیرہ گناہوں میں مبتلا رہے. شاید یہی وجہ ہے کہ تحریر و تقریر اور عام بول چال میں برادران یوسف مثلا یهودا بن یعقوب کے نام کے ساتهہ ” حضرت” کا سابقہ اور ” رضی اللہ عنہ” کا لاحقہ وغیرہ نہیں لگایا جاتا.
( تحریر پروفیسر ظفر احمد صاحب دامت برکاتہم)