تشقیق جدلی کی وضاحت:-
یہاں جدل سے مراد بحث و مباحثہ ہے. اس طریقے میں کسی بهی زیربحث مسئلے کی ممکنہ شقوں ( پہلوءوں) کو فردا فردا زیربحث لا کر حقیقت تک رسائی حاصل کی جاتی ہے. یہ طریقہ نہ صرف دلچسپ ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات اس سے حقیقت تک رسائی مختصر وقت میں ہوجاتی ہے. تمام عقلی علوم مثلا ریاضی میں یہ طریقہ بکثرت مستعمل ہے. مثلا تیرہ کا عدد یا جفت ہے یا طاق ہے. چونکہ یہ عدد دو پر پورا تقسیم نہیں ہوتا لہذا اس کے جفت ہونیکی شق غلط ثابت ہوئی، اور چونکہ یہاں تیسری کوئی شق عقلا ممکن ہی نہیں لہذا اس کا طاق ہونا از خود ثابت ہوگیا. یہ ایک سادہ مثال ہے.اس کی مزید وضاحت قدرے مشکل مثال سے کی جاتی ہے. مثلا سو روپیہ کچهہ مردوں،عورتوں اور بچوں میں یوں تقسیم کرنا ہے کہ ہر مرد کو چار روپے ، ہر عورت کو تین روپے اور ہر بچے کو پچاس پیسے ملیں لیکن مردوں ، عورتوں اور بچوں کی مجموعی تعداد بهی سو ہی رہے. فرض کیجئیے کہ مردوں کی تعداد”الف” عورتوں کی تعداد “ب” اور بچوں کی تعداد “ج”ہے مذکورہ شرح کے حساب سے رقم تقسیم کرنے سے ایک مساوات یہ بنے گی : 4 الف + 3 ب + 1/2 ج =100. ہم نے کسر کو دور کیا تو تو یہ مساوات یوں بنی : 8 الف + 6ب + ج =200. چونکہ مردوں، عورتوں اور بچوں کی مجموعی تعداد بهی سو ہی ہے لہذا دوسری مساوات الف+ ب + ج =100 کو مذکورہ بالا مساوات سے منہا کرنے سے نئی مساوات یوں حاصل ہوئی : 7 الف + 5 ب = 100 ، بالفاظ دیگر آخری مساوات یوں ہوگی : 7 الف =100-5ب.
اس مساوات میں اگر “ب” کی قیمت کسی ایسے صحیح عدد میں معلوم ہوجائے جس سے “الف” کی بهی صحیح قیمت برآمد ہوسکے تو مردوں، عورتوں اور بچوں کی تعداد معلوم ہوسکے گی . یہاں بظاہر ممکن ہے کہ “ب” کی قیمت ایک ہو،دو ہو، تین ہو یا کوئی بهی اور عدد ہو ، سب شقیں اور احتمالات موجود ہیں. اب ہم اگر ایک ایک شق کی فردا فردا پڑتال کرتے جائیں تو ‘ ب’ کی قیمت اگر چهہ یا تیرہ ہو تو ،الف، کی صحیح اعداد میں قیمت دس یا پانچ برآمد ہوگی. جبکہ باقی تمام شقیں غلط ٹهریں گی. اگر مرد دس اور عورتیں چهہ ہوں تو بچوں کی تعداد( 100-16)=84 ہوگی. اگر مرد پانچ اور عورتیں تیرہ ہوں تو بچوں کی تعداد(100-18)=82 ہوگی. دونوں صورتوں میں مردوں ، عورتوں اور بچوں کی تعداد بهی سو ہی رہیگی اور مذکورہ شرح کے حساب سے انہیں جو رقم ملے گی اس کی میزان بهی سو روپیہ ہوگی.
دینی اصول و فروع میں بهی تشقیق جدلی کو بروےکار لایا جاتا ہے. مثلا سورہ فاتحہ کی ابتدائی آیات میں یہی طریقہ استعمال کیا گیا ہے. کسی کی اطاعت کی جائے یا اتباع کیا جائے ، اس کی اطاعت و اتباع کے صرف اور صرف تین محرکات اور عوامل ہی سامنے آئیں گے . مطاع و متبوع یا تو صاحب کمال ہو یا صاحب احسان ( محسن ) ہو یا صاحب اقتدار ہو. مثلا شاگرد اپنے استاد کی اطاعت و اتباع پر اس لئے آمادہ ہوتا ہے کہ وہ استاد کو متعلقہ فن میں صاحب کمال سمجهتا ہے. مریض، طبیب کی اطاعت اس لئے کرتا ہے کہ وہ طبیب کو فن طب میں صاحب کمال سمجهتے ہوئے اس سے فائدہ اٹهانا چاہتا ہے. بچے والدین کی اطاعت و اتباع اس لئے کرتے ہیں کہ وہ والدین کو ایسا محسن و مشفق پاتے ہیں کہ ان کے خیال میں والدین کا یہ احسان اور ان کی شفقت بے لوث ہوتی ہے. کچهہ لوگ ایسے بهی ہوتے ہیں جو نہ کسی کے کمال کو پہچانتے ہیں اور اگر پہچان بهی لیں تو قدر نہیں کرتے اور نہ ہی وہ کسی کے احسان کو خاطر میں لاتے ہیں. یہ ” لاتوں کے بهوت باتوں سے نہیں مانتے” کا مکمل مصداق ہوتے ہیں. جو صاحب اقتدار ہوگا وہی ایسے لوگوں کو سیدها کرسکتا ہے.
اب دیکهئیے سورہ فاتحہ کی پہلی آیت ” الحمد للہ رب العلمین ” میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ حقیقی صاحب کمال صرف اللہ تعالی ہے. دوسری آیت”الرحمن الرحیم” سے واضح ہے کہ حقیقی محسن بهی وہی ہے اور تیسری آیت ” مالک یوم الدین” میں یہ بتایا گیا ہے کہ حقیقی صاحب اقتدار بهی وہی ہے. لہذا سب سے زیادہ اطاعت و اتباع بهی اسی کی ہونی چاہئیے…لیکن ٹهرئیے ! دوسرے انسانوں کی مشروط اطاعت و اتباع پر تو ہر انسان مجبور بهی ہے اور مامور بهی . مثلا بچے والدین کی ، شاگرد اساتذہ کی ، مرید اپنے شیخ کی ، رعایا اپنی حکومت کی اطاعت و اتباع کرتی ہے ، لہذا اللہ تعالی کا اس سے بڑهہ کر کوئی اور حق ایسا ہونا چاہئیے جس میں دوسروں کی شرکت کو وہ ہرگز قبول اور گوارا نہ کرے. اس کا یہ حق ” عبادت” ہے. چنانچہ اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے( کہ تم اپنی زبان سے خود یہ کہو ) ایاک نعبد و ایاک نستعین کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجهہ ہی سے ( مافوق الاسباب امور، یعنی امور غیرعادیہ میں) مدد مانگتے ہیں.
تشقیق جدلی میں اگر عقلی و دینی مسلمات کو یا کم ازکم فریق مخالف کے ( صحیح ہوں یا غلط) مسلمات کو سامنے رکها جائے تو حق و باطل میں امتیاز کا یہ طریقہ مختصر بهی ہے اور اس میں خطاء اور دهوکے کا احتمال بهی نسبتا بہت کم ہوتا ہے. فریق مخالف حق کو طوعا یا کرها قبول کرے گا یا جلد ہی راہ فرار اختیار کرنے میں ہی اپنی عافیت محسوس کرے گا.
ہم تشقیق جدلی کی روشنی میں خلفائے راشدین میں یگانگت کے ثبوت پر مضامین کا آغاز کررہے ہیں۔ ہمارے ایسے تمام مضامین میں سبھی متعلقہ حضرات کی اعانت مقصود ہےاہانت ہرگز نہیں، لیکن کوئی اس اعانت کو خوامخواہ اہانت سمجھ بیٹھےتو یہ اس کے فہم کا قصور ہے۔ ہم فکری لغزشوں کا علمی تعاقب کرکےاتحاد و اتفاق کی نہ کہ افتراق و انتشار کی راہ ہموار کررہے ہیں۔ فکری لغزشوں کی اصلاح ہمیں ایک دوسرے سے دور نہیں بلکہ قریب کرتی ہے جبکہ ناحق الجھنے اور الجھانے کی بجائےسمجھنا اور سمجھانا مقصود ہو۔ وباللہ التوفیق.
٭٭٭٭
غالب مغلوب کی بحث
اس دلچسپ بحث سے پہلےتمہیدا عرض ہے کہ ہمارے امامیہ بھائی اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اگرچہ ان کے بقول اسد اللہ الغالب وھو الغالب علی کل غالب تھے، اس کے باوجود ان کے خیال کے مطابق انہیں اللہ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) نے خلفائے ثلاثہ کے دور میں صبر کا حکم دے رکھا تھااور صبر ان پر واجب تھاخواہ کچھ بھی ہوتا رہےوہ اپنی زوالفقار کو نیام میں پڑے رہنے کی حالت کو برقرار و بحال رکھنے اور صبر و تحمل پر قائم دائم رہنے کی وصیت کے پابند تھے۔ اس مفروضے کو صحیح سمجھ لیا جائےتو اس سے متعدد سنگین خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔
اولا اس سے اللہ تعالی کے متعلق تاثر یہ پیدا ہوتا ہےکہ اس نے اپنے رسول کے ذریعہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کچھ یوں وصیت فرمائی تھی ” اے میرے پیارے رسول کے پیارے وصی مبارک ہو کہ میں نے تمہیں اسداللہ الغالب وھو الغالب علی کل غالب ہونیکے بلند و بالا مرتبے پر فائز کردیا ہے لیکن خبردار اگر تمہارے گھر کو جلا بھی دیا جائےتو جلتا رہے،باغ فدک سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا سے چھین لیا جائے تو چھنتا رہے، تمہاری خلافت پر غاصبانہ قبضہ کرلیا جائےتو ہوتا رہے، نماز تراویح کی(مبینہ) بدعت جاری ہوتی ہے تو ہوتی رہے، (مبینہ)شرعی متعہ پر پابندی لگتی ہے تو لگی رہے، کچھ پاکدامن خواتین پر ( مبینہ طور پر) ظالموں نے قبضہ کر رکھا ہے تو یہ قبضہ ہوتا رہے، لوگوں پر طرح طرح کے ظلم ہورہے ہوں تو جاری رہیں لیکن کبھی بھی ان انتہائی(مبینہ) نامساعد اور ناخوشگوار حالات کو بدلنے کے لئے مداخلت و مدافعت نہ کر بیٹھنا بلکہ صبر و تحمل پر قائم و دائم رہناتم پر فرض کردیا گیا ہے، بلکہ تمہیں بعد میں کسی مرحلے پر خلافت و امارت عملا حاصل بھی ہوجائے تو بھی ان تمام کیفیات کو بحال رکھنا تم پر فرض عین ہے”
چنانچہ امامیہ حضرات کی مشہور کتاب اصول کافی کی کتاب الروضہ صفحہ۱۹ پر حضرت علی کی زبان مبارک سے کہلوایا گیا ہے:-
قد علمت الولاة قبلی اعمالاخالفوا فیھا رسول اللہ متعمدین لخلافه ناقضین لعھدہ ومغیرین لسنته ولو حملت الناس علی ترکھا وحولتھا الی مواضعھا والی ما کانت فی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ لتفرق عنی جندی٠الخ۔
” یعنی مجھ سے پہلے حکام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے عہد کی خلاف ورزی کرتے ہوئےآپ کی سنت کو تبدیل کرتے ہوئےکئی کام کئے ہیں۔ اب اگر میں ( اپنے دور خلافت میں ) لوگوں کو ان کاموں کے چھوڑنے پر آمادہ کروں اور میں ان کاموں کو ان کی اصلی صورت میں ایسے ہی کردوں جیسے یہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے زمانے میں تھےتو میرا لشکر مجھ سے جدا ہو جائےگا ” پھر اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسی روایت کے مطابق جو کچھ فرمایا اس کا ترجمہ یوں ہے کہ ” کہ اگر میں فدک فاطمہ علیھاالسلام کو واپس کردوں اور جو قطعات اراضی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے کچھ لوگوں کو دئیے تھےمگر انہیں نہیں ملے ،میں انہیں دلادوں اور ظلم کے کچھ فیصلے جو کئے گئے ہیں انہیں مسترد کردوں اور کچھہ عورتیں جو لوگوں کے ناحق قبضے میں ہیں ان کو ان کے شوہروں پر لوٹا دوں اور لوگوں کو قرآن پر عمل کرنے کا حکم دوں اور مالی وظیفوں کا حکم منسوخ کرکےلوگوں کو برابر دینا شروع کردوں جیسا کہ رسول اللہ برابر دیتے تھے اور موزوں پر مسح کرنے کو منع کردوں تو لوگ مجھ سے جدا ہوجائیں گے۔ والله میں نے لوگوں کو حکم دیا کہ رمضان میں فرض نماز کے سوا اور کوئی نماز نہ پڑھیں اور میں نے ان کو بتایا کہ نوافل کو باجماعت پڑھنا بدعت ہے تو میرے لشکر کے کچھ لوگوں نے ان لوگوں سے جو میرے ساتھ جنگ کررہے ہیں یہ کہنا شروع کردیا کہ اے اہل اسلام عمر رض کی سنت کو تبدیل کیا جارہا ہے ، یہ شخص ہمیں رمضان میں نوافل باجماعت( تراویح) پڑھنے سے روک رہا ہے ”
یہاں لازما یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ مذکورہ( مبینہ) خطاب اور کلمات سے اگر اپنی انتہائی مجبوری ، لاچاری اور مغلوبیت ظاہر فرما رہے ہیں تو انہیں اسد اللہ الغالب کہنا کیسے درست ہوا؟؟ اگر شیر کو پنجرے میں بند کردیا جائےتو وہ شیر ہی رہے گا بھیڑ نہیں بن جائیگا، لیکن اسے غالب نہیں مغلوب کہا جائے گا۔ تو حالات کی ستم ظریفی یا ساتھیوں کی بیوفائی نے اگر مذکورہ( مبینہ) کلمات آپ کی زبان سےنکلوائے ہوں تو بہرحال آپ کو ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) اسداللہ المغلوب قرار دینا ہوگا۔ اس صورت میں آپ کو اسداللہ الغالب کہنے کا حق تو ہمیں حاصل ہےہمارے امامیہ بھائیوں کو ہرگز نہیں۔
ثانیا اگر اسداللہ الغالب وھوالغالب علی کل غالب اور عالم الغیب ہونے کے باوجود آپ کو صبر سے کام لینے کا حکم تھا تو امامیہ حضرات کے نزدیک اللہ تعالی پر عدل بھی واجب ہے۔ یہ کیسا عدل ہے کہ اسداللہ الغالب اور صاحب اختیار ہونے کے باوجود اپنے اور اپنے گھرانے کے افراد بلکہ پوری امت مسلمہ کے مفاد کو نظرانداز کرتے ہو ئےآپ کو صبر کا حکم ہو۔ اختیار دینے کے بعد اختیار کے استعمال پر پابندی لگادی جائے تو اسے اختیار کہنا ہی خلاف عقل ہے نیز اس طرح کا مشروط اختیار کسی کو دینا جس سے اختیار کے استعمال کی نوبت ہی نہ آنے پائے محض فعل عبث قرار پائے گا۔ اور اللہ کی طرف فعل عبث کی نسبت کرنا بالاتفاق کفر ہے۔
ثالثا اگر اسد اللہ الغالب ہونے کے باوجود حضرت علی رضی اللہ عنہ کو صبر کا حکم تھا تو اس امکان کی نفی ہرگز نہیں ہوسکتی کہ غالب ہونے کے باوجود آپ کو تقیہ کا بھی حکم ہو یعنی دل میں کچھ ہو اور زبان پر کچھ اور ہو۔ آپ کے ( مبینہ) مذکورہ بالا کلمات سےبدیہی طور پر آپ کی جو بےبسی ، لاچاری ، عاجزی اور مغلوبیت ظاہر ہورہی ہے تو غالب ہونیکی صورت میں لازما اسے تقیہ پر محمول کرنا ہوگا۔ جب آپ پر اپنے دورخلافت میں بھی غالب ہونے کے باوجود تقیہ واجب تھا تو خلفائے ثلاثہ کے دور میں تو بطریق اولی واجب ہوا۔
رابعا جب غالب ہونے کے باوجود آپ پر تقیہ واجب تھا تو خلفائے ثلاثہ خصوصا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کےدور کے جمع کئے ہوئے قرآن کو آپ نے اصلی کہہ دیا ہو تو تقیہ کے امکان کے پیش نظر قرآن تو ( معاذاللہ) غیر معتبر ہی رہے گا اور اگر آپ نے مغلوب ہونے کی حالت میں قرآن کے صحیح ہونیکی تصدیق فرمائی ہو تو تقیہ کا احتمال تو مزید بڑھ جاتا ہے۔ لہذا قرآن تو ( معاذاللہ) پھر بھی غیر معتبر ہی رہے گا۔
خامسا اگر اسد اللہ الغالب ہونے کے باوجود آپ پر صبر اور تقیہ واجب تھا تو ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص مثلا عامر یہ دعوی داغ دے کہ” آپ نے خلفائے ثلاثہ کے دور میں صبر سے اور اپنے دور میں تقیہ سے بھرپور کام لیا تھا ۔ آپ درپردہ حضرت معاویہ کے ساتھ تھے ۔ ان کی قولی یا فعلی مخالفت آپ صرف ( معاذاللہ) تقیہ کی بنا پر کررہے تھے۔ آپ نے نہج البلاغہ کے خطبات کے مطابق اپنے بے وفا ساتھیوں کی سخت شکایت کی ہے، پس آپ نے درپردہ تقیہ فرماکر بنوامیہ اور بنو عباس کو ایسا استحکام بخشا کہ شیعہ کو ان کے لئے تر لقمہ بنا دیا” عامر کے ایسے بیہودہ دعوی کو ہم تو جھٹلا سکتے ہیں لیکن مذکورہ مفروضات کو صحیح سمجھ لینے بلکہ انہیں عقیدہ بنانے کی صورت میں ہمارے امامیہ بھائی عامر کے اس بیہودہ دعوے کو کیسے غلط قرار دیں گے؟
الغرض حضرت علی رض کو ایک طرف اسد اللہ الغالب قرار دینا اور دوسری طرف ان کی (مفروضہ ) مظلومیت کی دہائی بھی دیتے چلے جانا اور یہ کہنا کہ انہیں صبر کا حکم تھا سراسر خلاف عقل ، ناقابل تسلیم اور اللہ اور اس کے رسول کی سخت توہین ہے۔ ہر عقلمند یہی فیصلہ کرے گا اور اس حقیقت ثابتہ کو تسلیم کرے گا کہ خلفائےاربعہ باہم شیر وشکر تھے ۔ ان کے درمیان گرم یا سرد آویزش کی اندوہناک کہانیاں محض افسانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عزیمت وشجاعت اور حمیت و غیرت کسی بھی شک و شبھ سے بالا تر ہے۔ آپ نے خلفائے ثلاثہ سے بھرپور تعاون فرمایا،مثلا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ جب بیت المقدس تشریف لے گئے تو قائم مقام خلیفہ کے لئے ان کی نظرانتخاب صرف اور صرف حضرت علی رض پر ہی پڑی اور انہیں کو اپنا قائم مقام مقرر فرمایا۔ اس سے بڑھ کر باہمی محبت اور بھرپور اعتماد کی مثال اور کیا مل سکتی ہے؟
ہمارے امامیہ بھائی اگر ہماری سابقہ معروضات کو درخور اعتناء نہیں سمجھتے اور اپنا یہ اصرار جاری رکھتے ہیں کہ خلفائے ثلاثہ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ ناخوش تھے تو ہم اپنے بھائیوں کا دل نہیں توڑنا چاہتے۔ پس اگر خلفائے راشدین میں سے پہلے تین خلفاء چوتھے خلیفہ حضرت علی رض کے خلاف ( معاذاللہ) کسی گرم یا سرد آویزش میں مبتلا یا مصروف تھے تو وہ سیدنا علی رض کے مقابلے میں یا تو غالب ہوں گے یا مغلوب ہوں گے۔ اگر اس ( مفروضہ) صورت میں ان خلفائے ثلاثہ کو غالب قرار دیا جائے تو سیدنا علی رض کو ہمارے یہ بھائی کس منہ سے اسداللہ الغالب وھو الغالب علی کل غالب ٹھہرائیں گے؟؟ بلاشبہہ اللہ کے بندے کبھی مجبور و مغلوب بلکہ مقتول بھی ہوجاتے ہیں جیسے حضرت زکریا علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت یحی علیہ السلام دشمنوں کے ہاتھوں دھوکے سے نہیں بلکہ مجبور و مغلوب ہوکر شہید ہوئے، لیکن ان میں سے کسی کو بھی اسداللہ الغالب کا لقب نہیں دیا گیا۔ یہاں یہ یاد رہے کہ یہ دونوں حضرات صاحب شریعت نبی نہیں تھے بلکہ تورات ہی کی تعلیم دینے کے لئے غیرتشریعی نبی تھے۔ تشریعی یا صاحب شریعت نبی یعنی رسول اپنے مخالفین سے مغلوب نہیں ہوا کرتا ورنہ رسولوں کی بعثت کے مقاصد ہی پورے نہیں ہوسکتے۔
اگر دوسری شق اختیار کی جائے کہ خلفائے ثلاثہ مغلوب تھے اور حضرت علی رض ان پر غالب تھے تو غالب کا کوئی بھی حق مغلوب کیسے چھین سکتا ہے؟؟ تو ان خلفائے ثلاثہ کو ( معاذاللہ) ظالم و غاصب قرار دینا کیسے درست ہوگا؟؟ نیز حضرت علی رض نے غالب ہونے کے باوجود اپنا حق خلافت خود کیوں نہیں لیا؟؟ اگر کہا جائے کہ انہوں نے غالب ہونے کے باوجود صبر سے کام لیا، تو ہم نےاپنی سابقہ سطور میں اس باطل مفروضے کا شافی،کافی اور وافی جواب دے دیا ہے، لیکن اس کے باوجود ہمارے امامیہ بھائی مطمئن نہ ہوئے ہوں تو پھر بھی ہم ان کی دل شکنی نہیں کرتے، مگر ہم یہ کہنے میں تو بہرحال حق بجانب ہیں کہ یہ ( مبینہ) سنت علی رض سب کے لئے مشعل راہ ہونی چاہئیے۔ہم کیوں بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کیوں ہمارے بھائیوں نے اودھم مچا کر باہم انتشار و افتراق کی راہ ہموار کر رکھی ہے؟؟
نیز یہ بات یہیں تک ختم نہیں ہوجاتی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے غالب ہونے کے باوجود مبینہ طور پر جس صبر سے کام لیا اور اپنا حق خلافت اپنے ہاتھ میں نہیں لیا تواس سے امت مسلمہ کو یا تو فائدہ ہوا یا نقصان ہوا ، یا نقصان تو ہوا لیکن اگر حضرت علی رض اپنا حق خلافت لینے کے لئے دوڑ دھوپ کرتے تو مسلمانوں کا زیادہ نقصان ہوجاتا۔ اگر حضرت علی رض کے بہ اختیار خود خلیفہ نہ بننے سے امت کو فائدہ ہورہا تھا تو آپ کا پہلا خلیفہ ہونا ناگزیر نہ ہوا کہ اس کے بغیر بھی امت مسلمہ کو فائدہ تو پہنچ ہی رہا تھا۔ اگر دوسری شق اختیار کی جائے کہ امت کا نقصان ہوا تو لازما اس ( مفروضے کی) صورت میں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ حضرت علی رض نے غالب ہونے کے باوجود اپنا حق نہ لیکر اور خلیفہ اول نہ بن کر بلکہ خلفائے ثلاثہ سے مکمل تعاون فرماکر ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) امت مسلمہ کا نقصان کردیا، تو یہ ایسا سنگین الزام ہے کہ کوئی مسلمان بھی ایسا الزام سیدنا علی رض پر نہ لگائے گا۔ایسا کرنا تو بجائے خود ایک کبیرہ گناہ ہے۔ ہم تو سیدنا علی رض کی ایسی تذلیل و توہین کا تصور تک بھی نہیں کرسکتے، ہمارے بھائیوں کو ہی ایسی جسارت ” مبارک ہو “۔
اگر تیسری شق اختیار کی جائے کہ مسلمانوں کا نقصان تو ہوا لیکن اگر حضرت علی رض اپنا حق لینے کی کوشش کرتے تو ان کا زیادہ نقصان ہوجاتا، تو اس صورت میں مزید یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رض کی مبینہ خلافت بلافصل کا باقاعدہ صاف ،واضح اور غیرمبہم اعلان فرمایا تھا یا محض اشارات و کنایات سے کام لیا تھا؟؟ اگر باقاعدہ اعلان فرمایا تھا تو جن لوگوں نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا کھلم کھلا ساتھ دیا ، یا تو انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبینہ واضح اعلان اور حکم کا صاف صاف انکار کردیا ہوگا یا اقرار کے باوجود کھلم کھلا نافرمانی کی ہوگی۔ دونوں صورتوں میں حضرت علی رض بھلا کون سے مسلمانوں کی ایسی رعایت فرما رہے تھے، کیونکہ پہلی صورت میں یہ لوگ کھلم کھلا کافر اور دوسری صورت میں پرلے درجے کے فاسق و فاجر سمجھے جائیں گے۔ حضرت علی رض اسداللہ الغالب ہونے کی حیثیت میں اپنے مٹھی بھر ساتھیوں کے ہمراہ جہاد فرماتے تو اگر یہ مٹھی بھر مسلمان ساتھی مرتبہ شہادت پر بھی فائز ہوجاتے تو بھی حضرت علی رض اپنے مبینہ مخالفین پر غالب آکر اور حاکم اعلی بن کر علی رءووس الاشہاد لوگوں کو دین کی ازسر نو دعوت دیتے اور ان کی رہنمائی فرماتے۔
اگر کہا جائے کہ حضرت علی رض غیب دان تھے اور انہیں معلوم تھا کہ لوگوں پر غلبہ حاصل ہو بھی جائے تو بھی یہ لوگ راہ راست پر نہیں آئیں گے اس لئے آپ خاموش رہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اسی مبینہ علم غیب کی بنا پر حضرت علی رض کو معلوم تھا کہ وہ بالآخر حضرت معاویہ رض سے صلح کرلیں گے اور ان کے صاحبزادے حضرت حسن رضی اللہ عنہ تو حکومت ہی امیر معاویہ رض کے سپرد کردیں گے تو جنگ صفین کا کیا مقصد ہوا؟؟جس میں خون خرابہ بھی ہوا۔ جب علم غیب کی بنا پر آپ کو پہلے سے معلوم تھا کہ مبینہ طور پر مجہول النسب زیاد بالآخر امیرمعاویہ رض سے جا ملے گا اور اس کا خبیث ترین بیٹا عبیداللہ بن زیاد سانحہ کربلا کے اہم ذمہ داروں میں سے ہوگا تو آپ نے ایسے شخص کو عامل ( گورنر) مقرر کرکے اور لوگوں پر مسلط کرکے اس کی کیوں قدرافزائی کی؟؟ جب شیرخدا حضرت علی رض اور شیرخدا کے شیر بیٹے حضرت حسن رض دونوں کو ( مبینہ طور پر) عالم الغیب ہونیکی بنا پر بخوبی پیشگی علم تھا کہ حضرت معاویہ رض کا بیٹا یزید سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی کربلا میں شہادت اور ان پر مظالم ڈھانے کا ( مبینہ طور پر) اولین ذمہ دار ہوگا تو اس کا صاف مطلب تو یہ ہوا کہ دونوں ائمہ کرام علیھماالرضوان نے ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) تیسرے امام سیدنا حسین رض کی انتہائی مظلومانہ اور سنگ دلانہ شہادت کا خود ہی پہلے سے بندوبست کررکھا تھا۔ ان دونوں آئمہ کرام کی اس توہین و تحقیر کا ہم تو تصور بھی نہیں کرسکتے ، ہمارے امامیہ بھائی اس جسارت کے مرتکب ہوں تو وہ عنداللہ اپنے اعمال کے خود ہی ذمہ دار ہیں۔ ہاں اگر یہ کہا جائے کہ یہ حضرات غیب دان نہیں تھے تو کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا۔ قرآن کا بھی یہی فیصلہ ہے:- قل لا یعلم من فی السموات والارض الغیب الا الله۔( النمل ۶۵) ” کہہ دیجئیے کہ آسمانوں اور زمینوں میں اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا”۔ تو صاف معلوم ہوا کہ یہ مفروضے اور ان پر رکھی جانے والی بنیادیں ہی غلط ہیں۔
اب دوسری ذیلی شق کی طرف آئیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رض کی خلافت کا اعلان اشارات و کنایات میں کیا تھا، تو اشارات و کنایات سے عقائد کب ثابت ہوتے ہیں؟ اللہ تعالی اور اس کے رسول نے دوسرے عقائد توحید و رسالت وغیرہ کو بھی کیوں نہ اشارات و کنایات میں بیان فرمایا؟ جو لوگ ان اشارات و کنایات کو سمجھ نہ پائے ان کا قصور کیا ہے؟ اگر صحابہ کرام ان اشارات و کنایات کو سمجھ نہیں پائے تھے تو بعد کے لوگ انہیں کیسے سمجھ گئے؟ اگر صحابہ کرام سمجھ گئے تھے تو بات وہیں آکر ٹھہری کہ حضرت علی رض نے ان کے خلاف جہاد فرماکر اپنا حق کیوں نہیں لیا؟؟
الغرض حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ دیگر خلفاء کے خلاف عناد اور کسی سرد جنگ میں مصروف نہ تھے۔ وہ سب باہم شیر و شکر تھے۔ خلفائے راشدین کی یہ کرامت ہے کہ کوئی بھی ان میں تفریق نہیں کرسکتا ورنہ وہ ایسے لاینحل اشکالات میں پھنس جائے گا جن سے باہر نکل آنا اس کے لئے ہرگز ممکن نہ ہوگا،اور مغز کھپائی کے باوجود اسے کوئی راہ نہیں ملے گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ سیدنا علی رض کے بہ اختیار خود خلیفہ اول نہ بننے سے امت مسلمہ کا نہ تو فائدہ ہوا اور نہ ہی نقصان ہوا، یا فائدہ تو ہوا لیکن اگر حضرت علی رض پہلے خلیفہ ہوتے تو فائدہ زیادہ ہوتا، غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ یہ بھی دراصل نقصان ہی کی صورتیں ہیں اور اس شق میں داخل ہیں جو اوپر زیربحث لائی جا چکی ہے۔
اسلام اور کفر کی بحث :
اگر امام منصوص من اللہ بھی ہو، معصوم عن الخطا بھی ہو، مفترض الطاعہ بھی ہو یعنی ہر معاملے میں اس کی اطاعت فرض ہو اور سب سے بڑھ کر اگر وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دیگر تمام انبیاء علیھم السلام سے افضل بھی ہو اور امامیہ حضرات کی اصول کافی جیسی کتب کی روایات کے مطابق مورد وحی بھی ہو خواہ متنبی قادیان مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح وحی کی تاویل در تاویل سے جو بھی کیفیت و نوعیت متعین کی جائے تو یقینا ایسے ائمہ کرام کا مرتبہ انبیاء علیھم السلام سے بھی بڑھ کر ہوگا۔ اب اگر کوئی شخص کسی نبی کا احترام تو بہت کرتا ہو لیکن اس کی نبوت کا منکر ہو مثلا وہ یہ کہتا ہو کہ میں حضرت موسی علیہ السلام کو نہایت متقی اور پرہیزگار مانتا ہوں لیکن انہیں منصوص من اللہ رسول نہیں مانتا تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالی نے پکے کافر قرار دیا ہے جو بعض رسولوں کو مانیں اور بعض کا انکار کریں :- اولئک ھم الکافرون حقا(النسآء ۱۵۱)
اب دیکھئیے کہ امت محمدیہ کی عظیم اکثریت امامیہ حضرات کے ائمہ کرام رضوان اللہ علیھم کا بےحد احترام تو کرتی ہے لیکن ان میں سے کسی کو بھی ہرگز ہرگز معصوم عن الخطا، منصوص من اللہ ، مفترض الطاعہ اور مورد وحی نہیں مانتی۔ جہاں تک فضیلت کا تعلق ہے تو امت مسلمہ کی یہ عظیم اکثریت امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام جعفرصادق ( رحمھم اللہ تعالی ) وغیرہ وغیرہ کسی کو بھی نبیوں سے افضل ہونا تو درکنار کسی بھی صحابی رسول سے بھی کم تر جانتی ہے۔ اب امت مسلمہ کے جو لوگ مخصوص نظریہ امامت کے صاف منکر ہیں وہ یا تو مسلم ہوں گے یا غیرمسلم ہوں گے۔ اگر مسلم ہیں تو اصطلاحی عقیدہ امامت کی اہمیت پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ یہ کیسا عقیدہ ہے کہ اس کا اقرار کرنے والا اور اس کا صاف انکار کرنے والا دونوں ہی مسلم ہوں؟ ہمارے امامیہ بھائیوں کو ہرگز ناراض ہونے کا حق نہیں،اگر ہم بصد ادب یہ پوچھیں کہ اس صورت میں یہ مخصوص عقیدہ امامت واقعی عقیدہ ہے یا ( معاذاللہ) کھلونا ہے۔
اگر عقیدہ امامت کا انکار کرنے والی یہ عظیم اکثریت (معاذاللہ) غیرمسلم ہے تو اتحاد بین المسلمین کے یہ نعرے محض دھوکہ ہوں گے۔ پس دیگر عقائد توحید،رسالت اور آخرت کی طرح اگر عقیدہ امامت کو بھی اصول دین میں شمار کیا جائے جیسا کہ امامیہ حضرات کرتے ہیں تو اس کےمنکر کو لازما غیرمسلم قرار دینا ہوگا تو ہمارے امامیہ بھائی کس منطق کی رو سے ہمیں اتحاد بین المسلمین کی دعوت دے رہے ہیں اور کون سی عقلی بنیادوں پر وطن عزیز میں مجلس وحدت المسلمین جیسی جماعتیں قائم فرما رہے ہیں؟ اگر غلوآمیز مخصوص عقیدہ امامت جھوٹا ہے اور اس کا کھلے دل سے اعتراف کرلیا جائےتو چشم ما روشن دل ما شاد۔ اگر یہ سچا ہے تو آخرت میں اگر اللہ تعالی نے ہمارے امامیہ بھائیوں سے پوچھ لیا کہ تم نے اصول دین میں شامل عقیدہ امامت کے منکرین کو مسلم کیوں قرار دیا تھا اور اتحاد بین المسلمین کے نعروں اور وحدت المسلمین جیسی جماعتوں کے قیام سے اس عقیدے کی توہین کیوں کی تھی اور اسے کھلونا کیوں بنا رکھا تھا تو اس سوال کے جواب باصواب کی امامیہ حضرات کو ابھی سے فکر ہونی چاہئیے۔ پیشہ ورانہ مناظرانہ رجحان (mood) سے نکل کر خلوت میں اس پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ یہ اتحاد بین المسلمین عقلی بنیادوں پر تبھی تو ممکن ہے کہ امامیہ بھائیوں کی اقلیت اہل سنت کی عظیم اکثریت کے سامنے اس عقیدہ امامت سے دستبرداری اختیار کرے۔ فھل انتم منتھون ؟؟
اگر امامیہ حضرات ہم سے یہ مطالبہ کریں کہ تم اس مخصوص عقیدہ امامت کو کیوں قبول نہیں کرتے تاکہ اتحاد بین المسلمین کی خواہش کو واقعی عقلی بنیادیں فراہم ہوجائیں تو ہمارا جواب یہ ہے کہ آپ کے نزدیک ان ائمہ کرام پر وحی بھی اترتی ہے ، انہیں تحلیل و تحریم کے اختیارات بھی حاصل ہیں تو خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی پر نزول وحی کی جو بھی صورت متعین کی جائے اس سے عقیدہ ختم نبوت کی نفی لازما ہوجاتی ہے۔ جس پر بھی وحی کا نزول ہو وہ ہمارے نزدیک اصطلاحی نبی ہے،خواہ اسے نبی کہنے کی بجائے امام یا کچھ اور کہا جائے۔ نام کے بدلنے سے حقیقت تبدیل نہیں ہوا کرتی اور یہاں تکلیف دہ بات یہ بھی ہے کہ اکثر امامیہ حضرات کے نزدیک امام کا درجہ تو نبی سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔ پس اس صورت میں باہم اتحاد و اتفاق کی عقلی بنیار صرف یہی رہ جاتی ہے کہ اتحاد بین المسلمین کی بجائے اتحاد بین الباکستانیین کی اصطلاح اختیار کی جائے اور وحدت المسلمین کی بجائے وحدت الباکستانیین ( پاکستانیوں میں وحدت) کی بنیاد پر جماعتیں قائم کی جائیں، تو ایسی جماعت کا دائرہ عمل بھی وسیع تر ہوگا کیونکہ اس میں ہندو ، سکھ عیسائی وغیرہ غیرمسلم بھی بخوشی شامل ہوسکیں گے اور ایسی سیاسی جماعتیں ملک میں مثلا مسلم لیگ،پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف وغیرہ وغیرہ موجود بھی ہیں۔ اندریں حالات ہمارے امامیہ بھائیوں کو وحدت المسلمین کے نام سے علیحدہ کوئی دوکان کھول رکھنے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے جس کا مذکورہ بالا تفصیلات کی روشنی میں سکہ اور سودا کاسد ( کھوٹا ) بھی ہے۔ البتہ اسے وحدت الشیعہ کا نام دیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔
اگر کہا جائے کہ مخصوص عقیدہ امامت کو ماننے والا مومن بھی ہے اور مسلم بھی ہے اور اس کا انکار کرنے والا مومن نہیں صرف مسلم ہے تو مزید سوال پیدا ہوگا کہ مخصوص عقیدہ امامت کا منکر یہ مسلم جنت میں جائے گا ، جھنم میں جائے گا، یا کچھ عرصہ جھنم میں رہ کر جنت میں جائے گا یا جنت میں تو جائے گا لیکن جنت میں اس کے درجات نسبتا کم ہوں گے؟ اگر ایسا مسلم جنت میں جائے گا تو عقیدہ امامت کی اہمیت پھر محل نظر ہوگئی۔ اگر وہ جھنم میں جائے گا تو پھر اسے مسلم قرار دینے کا تکلف ہی کیوں برتا گیا؟ سیدھا اسے غیرمسلم اور کافر قرار دیا جاتا۔ نیز اس صورت میں اتحاد بین المسلمین کے نعروں کا بےکار اور محض دھوکہ ہونا پھر بھی ثابت ہورہا ہے۔ اگر وہ جھنم میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد جنت میں جائے گا یا جنت میں اس کے درجات ‘ مومنین ‘ کی نسبت کم تر ہوں گے تو باقی عقائد توحید ، رسالت اور ایمان بالآخرت کا بھی یہی حشر ہونا چاہئیے تھا کہ ان کا انکار کرنے والے بھی بالآخر جنت میں جا پہنچیں یا جنت میں ان کے درجات نسبتہ کم ہوں۔ آخر یہ عجیب و غریب عقیدہ امامت دیگر اسلامی عقائد سے مختلف اور انجام کے اعتبار سے مستثنی کیوں ہے؟؟
پس یہ بات بار بار سوچنے کی ہے کہ اگر امامیہ کے نزدیک اصول دین میں شامل مخصوص عقیدہ امامت کا کھلا انکار کرنے والے کسی فرد یا جماعت کا ایمان تو نہیں لیکن اسلام قائم و دائم رہتا ہے تو اصول دین میں شامل دیگر عقائد توحید ، رسالت اور آخرت وغیرہ کا انکار کرنے والوں مثلا یہود و نصاری ، ہنود و مجوس وغیرہ وغیرہ کو دائرہ اسلام سے باہر رکھنے کا کون سا عقلی جواز ہے؟ مومن و مسلم میں امتیاز کے جس فارمولے، کلیے اور ضابطے کو ہمارے امامیہ بھائی ہم اہل سنت پر چسپاں کرکے ہمیں ازراہ کرم مومنین میں نہیں لیکن مسلمانوں میں شمار کرتے ہیں تو اسی فارمولے کو یہود و نصاری ، ہنود و مجوس وغیرہ وغیرہ پر کیوں لاگو نہیں کیا جاسکتا؟؟ انہیں بھی آپ مومن نہ سہی لیکن مسلم تو کہا کریں۔ اگر دیگر اہل مذاہب ہمارے امامیہ بھائیوں کے دشمن ہیں تو دشمن کے ساتھ بھی تو انصاف ہونا چاہئیے۔ قرآن کریم میں ہے:- ولا یجرمنکم شنآن قوم علی ان لا تعدلوا۔( المآئدہ ) ” یعنی کسی قوم سے دشمنی تمہیں اس پر آمادہ نہ کرے کہ تم نا انصافی سے کام لینے لگو”
اگر دوست ہیں تو دوستوں کے حقوق دشمنوں سے بھی کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے امامیہ بھائی ایسا کریں تو مومن و مسلم کے اس فارمولے میں وسعت پیدا ہوجائیگی اور عقیدہ امامت پر بجا طور پر قیاس کرتے ہوئے ان کے لئے یہ کہنا درست ہوجائے گا کہ تمام اصول دین ( عقائد ) توحید ، رسالت ، آخرت اور امامت وغیرہ (معاذاللہ ثم معاذاللہ) نہایت ہی خوبصورت کھلونے ہیں کہ پرآشوب دنیوی زندگی میں غم و اندوہ اور رنج و افسردگی سے باہر نکلنے کے لئے ان کھلونوں سے خوب جی بھر کر کھیلا جاسکتا ہے اور جب کسی کا جی بھر جائے اور وہ ان میں سے نہ صرف عقیدہ امامت بلکہ کسی بھی عقیدے کے کھلونے کو توڑ ڈالے تو بھی بس اس کا ایمان تو جاتا رہے گا لیکن اسلام پھر بھی پکا وکا ہی رہے گا۔( جل جلالہ ) یعنی اپنی کج فکری کو کسی منطقی انجام تک پہنچانا ہی ہوگا ورنہ اس خودساختہ عقیدہ امامت سے دستبردار ہوئے بغیر بات نہیں بنتی۔ پس ثابت ہوا کہ مخصوص عقیدہ امامت محض غلو ہے اور اس کی آڑ میں خلفائے راشدین میں تفریق کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ وھوالمطلوب
یہاں یہ یاد رہے کہ امامیہ حضرات کی چوٹی کی کتاب اصول کافی میں اماموں کے اوصاف پر جو ابواب قائم کیے گئے ہیں ان کا سرسری مطالعہ ہی چشم کشا اور دلچسپ رہے گا اور ہم نے ائمہ کے جو اوصاف بیان کیے ہیں ان کا پورا پورا ثبوت مزید بہت سی معلومات کے ساتھ قارئین کرام کو مل جائے گا۔
حفاظت قرآن کی بحث:
اگر حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جمع و تدوین قرآن کو تسلیم نہ بھی کیا جائے تو اس سے تو کسی کو بھی انکار نہیں ہوسکتا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لغت قریش والے قرآن کو باقی رکھا اور اس کی نقول تمام صوبوں میں بھجوائیں اور باقی نسخے ضائع کرادیے۔ اب اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ راشد نہ مانا جائے بلکہ ( معاذاللہ) انہیں فاسق و فاجر قرار دیا جائے تو قرآن کریم سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ اس صورت میں ممکن ہے کہ اس طرح کی آیات : انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون ۔ “کہ ہم نے ہی اس نصیحت ( قرآن ) کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں،” خود حضرت عثمان رض نے لوگوں کو ( معاذاللہ) دھوکہ دینے کے لئے اپنی طرف سے ڈال دی ہوں۔ اگر کہا جائے کہ حضرت علی رض نے اس قرآن کے صحیح ہونیکی تصدیق و توثیق فرمادی تھی تو حضرت عثمان رض کو ( معاذاللہ) ناقابل اعتماد ٹھہرانے کی ( مفروضہ) صورت میں یہ دعوی کچھ ایسا ہی ہے جیسے یہ کہا جائے کہ تورات کی جمع و تدوین تو فرعون کے سپرد تھی لیکن حضرت موسی علیہ السلام نے اس جمع و تدوین کے صحیح ہونے کی توثیق فرمادی تھی،یا انجیل کو ان یہودیوں نے جمع کیا تھا جو حضرت عیسی علیہ السلام کو مصلوب کرانے کی سرتوڑ کوششوں میں لگے ہوئے تھے لیکن حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کے حواریوں نے اس جمع و تدوین کے صحیح ہونے کی تصدیق فرمادی تھی۔ ظاہر ہے کہ کوئی عقلمند ایسے نامعقول مفروضات کو صحیح قرار نہیں دے سکتا۔
نیز جب حضرت علی رضی اللہ عنہ امامیہ حضرات کے بھرپور اصرار اور اعتراف کے مطابق اسد اللہ الغالب ہیں تو قرآن کریم کی جمع و تدوین خود انہیں کو کرنی چاہئیے تھی نہ کہ یہ کام ( معاذاللہ) منافقین یا فساق و فجار سے لیا جاتا۔ بےشک اللہ تعالی کبھی کسی فاسق سے بھی دین کو مدد پہنچاتا ہے لیکن ایسے تو نہیں پہنچاتا کہ اس کا دین ہی سراسر مشتبہ اور مشکوک ہوکر رہ جائے۔ اگر حضرت علی رض کو (معاذاللہ) مجبور و مغلوب قرار دیا جائے تو اللہ پر الزام آئے گا کہ ایسے ائمہ بھیجے جو قرآن کی ( مفروضہ صحیح) جمع و تدوین تک سے قاصر رہے۔ نیز اس ( مفروضہ) صورت میں حضرت علی رض کو اپنی جان،مال اور عزت کی حفاظت کے لئے خلاف حقیقت بات کہنے کی بھی گنجائش ہوگی خواہ اسے اصطلاحی طور پر تقیہ و کتمان کا یا کوئی اور نام دے دیا جائے۔ بلکہ گنجائش تو درکنار، اگر ایسے تقیہ و کتمان کو واجب قرار دیا جائے تو سوچیے کہ حضرت علی رض کی مبینہ تصدیق و توثیق کا بھی کیا اعتبار رہا؟ اس ( مفروضہ) صورت میں حضرت علی رض اور ان کے مٹھی بھر ساتھیوں کو تقیہ کا ثواب تو مل گیا ہوگا اور ان کے مبینہ مخالفین کو جھوٹ بولنے پر اور قرآن کریم کی (معاذاللہ) غلط یا کم از کم مشکوک اور غیرمعتبر جمع و تدوین پر گناہ کبیرہ ہوا ہوگا لیکن قرآن کریم تو (معاذاللہ) بہرحال مشکوک ہی رہے گا۔
اگر کہا جائے کہ حضرت علی رض اپنے دورخلافت میں مجبور و مغلوب نہ تھے اور انہوں نے موجودہ قرآن کریم کے صحیح ہونے کی تصدیق فرمادی تھی تو حضرت علی رض یا تو واقعی اپنے دورخلافت میں مجبور و مغلوب نہیں تھے بلکہ با اختیار حاکم اعلی تھے، یا وہ مجبور و مغلوب تھے اور اپنی حکومت کو بچانے اور مخالفین کو قابو میں رکھنے کے لئے تقیہ و کتمان سے کام لیا کرتے تھے۔ پہلی شق اختیار کی جائے تو نہ صرف یہ ثابت ہوگیا کہ پہلے خلفاء نے قرآن کریم کی جمع و تدوین میں ہرگز کسی خیانت سے کام نہیں لیا بلکہ ان کے دیگر کام مثلا متعہ پر مکمل پابندی ، اذان و اقامت کے مروجہ کلمات ، رمضان المبارک میں نماز تراویح کا باجماعت اجراء، باغ فدک اور اموال فے کے متعلق ان کی پالیسی وغیرہ وغیرہ سب درست تھے ورنہ حضرت علی رض اور کچھ نہیں تو کم از کم قرآن کی صحیح جمع و تدوین اور باغ فدک کو حضرات حسنین رضی اللہ عنھما وغیرہ شرعی ورثاء کے حوالے کرنے کے تو یقینا پابند تھے۔
اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے ایام خلافت میں (معاذاللہ) مجبور و مغلوب تھے اور تقیہ و کتمان کے پردے میں زندگی گزار رہے تھے،جیسا کہ امامیہ حضرات کی کتب یہی ظاہر کررہی ہیں، تو قرآن کریم کے متعلق اشکال باقی رہے گا۔ لہذا پہلی شق ہی درست ہے۔ پس خلفائے راشدین سب باہم شیروشکر تھے۔ سب نے اپنے اپنے دور میں حسب موقع و حسب ضرورت قرآن کریم اور دین اسلام کی حتی الوسع خدمت کی۔
(جاری ہے)