مشاجرات صحابہ کرام ( رضوان اللہ تعالی علیهم اجمعین) کے متعلق جناب پروفیسرظفراحمد صاحب کی ایک تحریر کچھ قسطوں میں پیش کی جارہی ہے . یہ تحریر صحابہ کے آپس کے اختلافات کے متعلق پائی جانے والی بہت سی بڑی غلط فہمیوں کی حقیقت واضح کرتی ہے۔ اس تحریر کا مقصد کسی کی دل آزاری ہرگز نہیں ہے بلکہ اتحاد بین المسلمین کی خاطر فکری لغزشوں کے علمی تعاقب کی طرف صحیح رہنمائی مقصود ہے.بشکریہ مسعود احمد صاحب(ایڈمن)
٭٭٭٭
قرآن کریم کی رو سے صحابہ کرام ( مهاجرین و انصار اور فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والے مولفتہ القلوب) کی حسن عاقبت یقینی اور قطعی ہے. اس کے برعکس بعد کے لوگوں میں سے کسی کی بهی حسن عاقبت کا یقینی اور قطعی علم صرف اللہ تعالی کو ہے. لہذا مخلوق کے علم کے اعتبار سے صحابہ کرام معلوم العاقبہ اور بعد والے سب کے سب مجہول العاقبہ ہیں. مجہول العاقبہ حضرات کو عقلا و نقلا ہرگز ( پهر دہرائیے ہرگز ) یہ حق حاصل نہیں کہ وہ معلوم العاقبہ صحابہ کرام کے مشاجرات میں حکم (فیصل) بن کر کسی کو باغی، مخطی وغیرہ وغیرہ قرار دیں. یہاں سکوت اور توقف واجب ہے. جن غیراصحابی حضرات سے اس سلسلے میں خطائے اجتہادی سرزد ہوئی ہے ان کا ذہن اس اہم نکتہ کی طرف منتقل نہیں ہوا. متاخرین کے برعکس متقدمین اکابر حضرات سکوت و توقف کے ہی قائل تهے. مثلا ملا علی قاری کی شرح الفقہہ الاکبر( ص 102) میں ہے.؛-
سئل احمد عن امر علی و عائشہ فقال تلک امتہ قد خلت لها ما کسبت و لکم ما کسبتم ولا تسئلون عن ما کانوا یعملون.
یعنی حضرت امام احمد بن حنبل سے حضرت علی اور حضرت عائشہ ( رضی اللہ عنهما) کے اختلافی معاملہ کے متعلق پوچها گیا تو انہوں نے قرآن کی آیت پڑهہ دی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ یہ ایک جماعت تهی جو گزر چکی وہ اپنے اعمال کی ذمہ دار ہے اور تم اپنے اعمال کے ذمہ دار ہو. پس تم سے ان کے کئیے کا نہیں پوچها جائیگا.
اور مثلا امام ذهبی رح نے سیر اعلام النبلاء ( جلد3 ص142) میں لکها ہے کہ ؛-
قال الاوزاعی سئل رجل الحسن البصری عن علی و عثمان فقال کانت لهذا سابقتہ و لهذا سابقتہ ولهذا قرابتہ و لهذا قرابتہ و ابتلی هذا و عوفی هذا. فسئله عن علی و معاویہ فقال کانت لهذا قرابتہ ولهذا قرابتہ و لهذا سابقتہ و لیس لهذا سابقتہ و ابتلیا جمیعا.
امام اوزاعی رح فرماتے ہیں کہ کسی نے حضرت حسن بصری رح سے حضرت علی و حضرت عثمان ( رضی اللہ عنهما) کے متعلق پوچها تو انہوں نے فرمایا ، انہیں بهی قبول اسلام میں سبقت حاصل ہے اور انہیں بهی. انہیں بهی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتهہ قریبی رشتہ داری کا شرف حاصل ہے اور انہیں بهی. حضرت علی( کرم اللہ وجہ) کو آزمائش سے دوچار ہونا پڑا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ( مظلومانہ شهادت کے بعد) عافیت پا گئے. اس نے پهر حضرت علی اور حضرت معاویہ( رضی اللہ عنهما) کے متعلق پوچها تو آپ نے فرمایا کہ انہیں بهی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت حاصل ہے اور انہیں بهی اور انہیں(حضرت علی رض کو) قبول اسلام میں سبقت حاصل ہے اور انہیں (حضرت معاویہ رض کو) نہیں. آزمائیش دونوں کو پیش آئی.
اور مثلا دمیری کی حیوه الحیوان ( جلد 1 ص350) میں ہے.
و قد سئل عن علی و معاویہ ( رضی اللہ عنهما) فقال(عمربن عبدالعزیز) تلک دمآء طهراللہ منها سیوفنا افلا نطهر من الخوض فیهم السنتنا.
حضرت عمر بن عبدالعزیز رح سے حضرت علی اور حضرت معاویہ( رضی اللہ عنهما) کے متعلق پوچها گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے ان خونوں میں ہماری تلواروں کو رنگین ہونے سے بچایا تو کیا اب ہمیں اپنی زبانوں کو ان معاملات کی چهان بین سے نہیں بچانا چاہئیے؟
اور مثلا علامہ ابن حجر مکی رح اپنی کتاب الخیرات الحسان(ص57) میں امام ابوحنیفہ رحمتہ علیہ کے متعلق لکهتے ہیں ؛-
سئل عن علی و معاویہ و قتلی صفین فقال اخاف علی اللہ عن اقدم بشئ یسئلنی عنه ولو سکت لم اسئل عنه بل عن ما کلفت به فالاشتغال به اولی.
حضرت امام ابوحنیفہ رح سے حضرت علی اور حضرت معاویہ(رضی اللہ عنهما) اور جنگ صفین کے مقتولین کے بارہ میں پوچها گیا تو انہوں نے جواب دیا میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں کہ اس معاملے میں کوئی ایسی بات کہہ دوں جس کے متعلق اللہ تعالی مجهہ سے پوچهے اور اگر میں خاموش رہوں تو مجهہ سے ان کے متعلق پوچها نہیں جائیگا. مجهہ سے صرف انہی ذمہ داریوں سے متعلق پوچها جائیگا جن کا میں شرعا مکلف اور پابند ہوں. لہذا مجهے اپنے انہی اعمال میں مشغول رہنا بہتر ہے.
اور مثلا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب غنیتہ الطالبین(ص140) میں لکهتے ہیں؛-
نسلم امرهم الی اللہ عزوجل علی ما کان و جری من اختلاف علی و طلحہ و الزبیر و عائشہ و معاویہ ( رضی اللہ عنهم).
یعنی ہم اس اختلاف میں جو علی، طلحہ، زبیر، عائشہ اور معاویہ( رضی اللہ تعالی عنهم) کے درمیان پیش آیا تو ہم ان کے معاملے کو اللہ عزوجل کے سپرد کرتے ہیں.
اور مثلا علامہ قرطبی رح اپنی تفسیر الجامع لاحکام القرآن(ج16ص322) میں حضرت حسن بصری رح کے متعلق لکهتے ہیں؛-
قال شهده اصحاب محمد و نهینا و علموا و جهلنا و اجتمعوا فاتبعنا واختفوا فوقفنا.
حضرت حسن بصری رح کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا قتال تها جس میں اصحاب محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) موجود تهے،ہم تو غیرحاضر تهے. انہیں حالات کا صحیح علم تها، ہم تو بےخبر رہے. جس پر اصحاب متفق ہوئے تو ہم نے اس کی پیروی کی اور جس بات میں انہوں نے اختلاف کیا تو ہم نے توقف اختیار کیا.
اور مثلا یہی امام قرطبی رح اپنی تفسیر(ج16ص361) میں لکهتے ہیں ؛-
لایجوز ان ینسب الی احد من الصحابہ خطا مقطوع به اذ کانوا کلهم اجتهدوا فی ما فعلوه و ارادوااللہ عزوجل وهم کهم لنا آئمه و قد تعبدنا بالکف عن ما شجر بینهم.
صحابہ کرام میں سے کسی کی طرف بهی یقین کے ساتهہ خطا کو منسوب کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ سب نے اپنے طور پر اجتہاد سے کام لیا اور وہ اللہ کی رضا کا ارادہ رکهتے تهے اور وہ سب کے سب ہمارے پیشوا ہیں. ہم ان کے بارے میں اپنی زبان کو بند رکهنے میں ہی اللہ کی رضا خیال کرتے ہیں.
اور مثلا شرح عقیدہ طحاویہ میں ہے؛-
وقعد عن القتال اکثر الاکابر…..یعنی اکابر صحابہ کرام کی اکثریت باہم خانہ جنگی میں شریک نہیں ہوئی.
یہی بات اور متقدمین حضرات مثلا علامہ ابن کثیر رح نے بهی لکهی ہے کہ ان دنوں دسیوں ہزار صحابہ کرام زندہ موجود تهے لیکن بہت ہی کم حضرات نے ان جنگوں میں حصہ لیا.
اوپر تفصیل سے مشاجرات صحابہ کے متعلق متقدمین کے موقف کی عبارات آپ نے ملاحظہ فرمائیں اور یہ کہ صحابہ کرام کی اکثریت نے ان محاربات میں حصہ نہیں لیا. اگر اس دور کے صحابہ کرام کی اکثریت قطعیت سے یہ فیصلہ نہ کرسکی کہ کون حق پر ہے اور کون باغی یا مخطی ہے تو بعد والے یہ فیصلہ کیسے کرسکتے ہیں؟ یہاں یہ بهی یاد رہے کہ خطاء اور نسیان اپنی اصل کے اعتبار سے قابل مواخذہ نہ ہوتے تو اللہ تعالی ہمیں یہ دعا ہی کیوں سکهاتا؛- ربنا لا تواخذنا ان نسینا او اخطانا..الآیہ.. یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالی خود ہی عدم مواخذہ کی دعا سکهائے پهر نسیان اور خطاء پر مواخذہ بهی فرمانے لگے. لیکن قتل خطاء اس سے ایک حد تک مستثنی ہے. اس پر آخرت میں مواخذہ نہ بهی ہو تو بهی دنیا میں مقتول کے ورثاء کو دیت دینا ہوگی. لگاتار دو ماہ کے روزے رکهنے ہوں گے وغیرہ وغیرہ. لہذا یہ سمجهنا درست نہیں کہ صحابہ کرام حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو باغی نہیں بلکہ خطائے اجتہادی پر سمجهتے تهے اور خطائے اجتہادی چونکہ معاف ہے اس لئے انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتهہ دینا ضروری نہ سمجها.
ایسی مبینہ خطاء صحابہ کرام کے لئے نظرانداز کئے جانے کے لائق نہیں ہوسکتی تهی جس میں مسلمانوں کے خون بہنے کے بهی قوی خدشات تهے. وہ اگر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو یقین قطعی کے ساتهہ خطائے اجتہادی پر سمجهتے تو اتمام حجت کے لئے یقینا حضرت معاویہ پر ان کی غلطی کو خوب واضح کرتے. اگر وہ پهر بهی تسلیم نہ کرتے تو یقینا سورہ حجرات میں مذکور متعلقہ حکم کے تحت حضرت علی کرم اللہ وجہ کا بهرپور ساتهہ دیتے اور گهروں میں نہ بیٹهہ رہتے.
اور مثلا بروایت حکیم الامت مولانا اشرف علی تهانوی کسی شخص نے مولانا نعیم لکهنوی رح سے حضرت علی اور حضرت معاویہ( رضی اللہ عنهما) کے متعلق پوچها تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ یہ سوال تمہارا ہے یا کسی اور کا؟ اس شخص نے کہا کہ فلاں حافظ صاحب نے پوچها ہے. مولانا لکهنوی صاحب کے پوچهنے پر اس شخص نے بتایا کہ حافظ صاحب جوتے فروخت کرتے ہیں اور میں کپڑے رنگتا ہوں. مولانا نے فرمایا کہ تم دونوں مطمئن رہو قیامت کے دن ان حضرات کا مقدمہ تم پر پیش نہیں ہوگا اس لئے تم کپڑے رنگتے رہو اور حافظ صاحب جوتے فروخت کرتے رہیں.
مندرجہ بالا عبارات سے خوب واضح ہورہا ہے کہ اکابر صحابہ کرام ( رضی اللہ عنهم) کی اکثریت نے ان جنگوں سے اجتناب کیا. اس کے بعد متقدمین اکابرامت مثلا حضرت حسن بصری، حضرت عمربن عبدالعزیز، امام ابوحنیفہ، امام احمدبن حنبل، شیخ عبدالقادر جیلانی اور علامہ قرطبی ( رحمهم اللہ تعالی) وغیرہ حضرات نے توقف اور سکوت اختیار کیا.
علامہ قرطبی رح نے یہ بهی لکها ہے کہ ان اختلافی امور میں یقین اور قطعیت کے ساتهہ خطاء کو صحابہ کرام کی طرف منسوب کرنا سرے سے جائز ہی نہیں. تو بتائیے کہ ہمارے اکثر متاخرین کا یہ خیال کیسے درست ہوا کہ ان جنگوں میں حضرت علی (رضی اللہ عنہ) یقینا حق پر اور حضرت معاویہ ( رضی اللہ عنہ) یقینا خطاء پر تهے. بعض حضرات نے تو اس موقف پر اجماع امت تک کا بهی ناحق دعوی فرما دیا ہے. یہ ان حضرات کی خطائے اجتہادی ہے جس پر وہ ان شاءاللہ ماخوذ نہیں ہوں گے. لیکن خطاء بہرحال خطاء ہے. جب اس بات میں اختلاف پیدا ہوجائے کہ کوئی صحابی رسول خطاء اجتہادی پر ہے یا غیراصحابی حضرات صحابی کی طرف خطائے اجتہادی کے انتساب میں خود خطائےاجتہادی پر ہیں ؟ تو اس اختلاف میں اصول ” اهون البلیتین” (lesser evil) کے تحت صحابی کی بجائے غیرصحابی کو خطائےاجتہادی پر قرار دینا ہی صحیح ہوگا. جب صحابی کی طرف خطائےاجتہادی منسوب کی جائے تو اس کا جواب یہ پیش کیا جاتا ہے کہ خطائے اجتہادی سرے سے قابل مواخذہ ہی نہیں بلکہ مجتہد کو اس کی غلطی پر بهی اکہرا اجر ملتا ہے لہذا صحابی پر خطائے اجتہادی منسوب کرنے سے اس کی تنقیص نہیں ہوتی. پس اگر ہم غیرصحابی کی طرف خطائےاجتہادی منسوب کریں تو اس کی توہین بهی نہیں ہوتی. اور ادب کا تقاضا یہ بهی ہے کہ بعض ناگزیر صورتوں میں صحابی کی بجائے غیرصحابی کی طرف خطائے اجتہادی کو منسوب کیا جائے. یہاں اس حقیقت کو بهی نظرانداز کیا گیا ہے کہ اجتہادی اختلاف میں ہمیشہ صواب اور خطاء کا ہی اختلاف نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ اختلاف اولی و خلاف اولی، احسن و حسن ، افضل و مفضول اور راجح اور مرجوح کا بهی تو ہوسکتا ہے. اختلاف تنوع تو ایک طرف رہا بعض اوقات اختلاف تضاد میں بهی فریقین مصیب(حق بجانب) ہوتے ہیں. مثلا غزوہ بنی نظیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر کچهہ اصحاب نے تو یہودیوں کے کهجور کے درخت کاٹے اور کچهہ نے نہیں کاٹے. دونوں کا عمل بالکل متضاد ہے لیکن فریقین اپنی اپنی جگہ پر حق بجانب تهے. مشاجرات صحابہ کرام میں محاکمہ سرے سے خلاف ادب ہے. کوئی اس کے بغیر نہ رہ سکے تو فریقین کو حق بجانب قرار دیا جاسکتا ہے یا اس سے نیچے اترتے ہوئے اسے اولی و خلاف اولی کا اختلاف سمجها جا سکتا ہے. دیکهئیے نماز میں رفع یدین و عدم رفع یدین وغیرہ بیشتر فروعی اختلافات میں فقہی مسائل کی ناگزیر تحقیق کے پیش نظر ہم اولی اور خلاف اولی سے آگے نہیں بڑهہ سکتے یہاں کسی کو بهی خطائےاجتہادی پر سمجهنا صحیح نہیں. مشاجرات صحابہ کرام میں محاکمہ تو سراسر غیرضروری ہے اور فقہی مسائل کے برعکس اس کی کوئی ناگزیر صورت سرے سے ہی نہیں پهر بهی محاکمے کا شوق بےچین کرے تو ہمیں فریقین کو مصیب(حق بجانب) سمجهنا چاہئیے یا پهر اولی اور خلاف اولی سے آگے نہیں بڑهنا چاہئیے. ورنہ امام ابوحنیفہ اور امام احمد بن حنبل وغیرہ کی طرح سکوت اور توقف ہی بہتر ہے. ہم یہاں امام ابوحنیفہ رح کی اتباع چهوڑ کر متاخرین اکابر حضرات کی پیروی کو کیوں ضروری سمجهتے ہیں؟
(جاری ہے)