گزشتہ تحاریر میں ہم نے محققین اسم و رجال کے حوالہ سے اہم تاریخی کتاب طبری میں موجود دروغ گو اور کذاب راویوں کے بارے میں تفصیل پیش کی تھی. ‘ تاریخ طبری مصادر و روایات ‘ کے ذیل میں لکھا تھا کہ جنگ جمل و صفین کے واقعہ کی روایات طبری نے ابو مخنف سے روایت کی ۔اس تحریر میں ہم اس راوی ابو مخنف لوط کی ان روایات میں سے تین مشہور روایات پر تجزیہ پیش کررہے ہیں، اس سے ناصرف اس اہم واقعہ کی حقیقت سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ ابومخنف اور اس جیسے دوسرے راویوں کی مکاری اور طریقہ واردات بھی کھل کر سامنے آجائے گا۔ تحریر نا چاہتے ہوئے بھی طویل ہوگئی، قارئین کے مزاج کا لحاظ رکھتے ہوئے چار قسطوں میں پیش کی جارہی ہے۔
تحریر کے اہم موضوعات:-
1. جنگ صفین کے بعد تحکیم کا واقعہ
2. فیصلے کے وضا حت طلب امور
3. فیصلہ پر ایک نظر
4. ثالثوں کی شخصیت پر کیے گئے اعتراضات کا جائزہ
جنگ جمل اور صفین کاپس منظر :۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے قصاص لینے کے مسئلے پر امت دو حصوں میں بٹ گئی تھی ۔ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھ صحابہ کی جماعت کا یہ موقف تھا کہ ہم علی رضی اللہ عنہ کی بیعت اس وقت کر یں گے جب تک عثمان رضی اللہ عنہ کے خون ناحق کا قصاص لیا جائے گا ، جب کہ علی رضی اللہ عنہ کا مطالبہ تھا کہ یہ لوگ بیعت کرلیں پھر بعد میں جب حالات سازگار ہوجائیں گے تو قصاص لے لیا جائے گا۔معاویہ رضی اللہ عنہ اور انکے ساتھیوں کا موقف یہ تھا کہ چونکہ قاتلین عثمان ہی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت قبول کرنے پر مجبور کرکے سب سے پہلے ان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور ملک کے انتظام و تدبیر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے تمام فیصلوں میں وہ پوری طرح دخیل ہیں اسی لئے حضرت علی رضی اللہ نہ خون عثمان کا قصاص لے پارہے ہیں اور نہ ہی اس صورتحال کے برقرار رہتے ہوئے وہ قصاص لے سکیں گے ، لہذا فتنہ کے سدباب کی بس یہی صورت ہے کہ یا تو وہ خود قصاص لیکر ان قاتل سبائیوں سے اپنی گلو خلاصی کریں یا پھر ان قاتلوں کو ہمارے حوالہ کردیں تاکہ ہم انکو کیفرکردار تک پہنچا کر پوری ملت اسلامیہ کے زخمی دلوں کو سکون پہنچا سکیں، یہ مطالبات ان بلوائیوں/ سبائیوں/قاتلان عثمان کے لیے انتہائی تباہ کن تھے اس لیے ان کی ریشہ دوانیوں اور کوششوں سے ان دونوں گروہوں میں اختلاف بڑھتے گئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی ان میں دو جنگیں جنگ جمل اور جنگ صفین ہوگئیں ۔ صفین میں جب جنگ زوروں پر تھی تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نےدونوں طرف ہونے والے مسلمانوں کے اس جانی نقصان سے بچنے کے لیے حضرت علی کو قرآن پر مصالحت کی دعوت دی جس کو انہوں نے فورا منظور کرلیا اور دونوں طرف جنگ بندی کا اعلان ہوگیا۔
اس جگہ ہم نے تاریخ کی ان مکذوبہ سبائی تفصیلات کو بیان کرنے سے قصدا گریز کیا ہے جن میں بیان کیا گیا ہے اپنی شکست کو قریب دیکھ کر معاویہ اور عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے قرآن کی بے حرمتی کرتے ہوئے اسے نیزوں پر بلند کردیا تاکہ علی کی فوج منتشر ہوجائے اورہم شکست سے بچ جائیں اور یہ کہ علی رضی اللہ عنہ اس جنگ بندی پر راضی نہیں تھے ، باربار اپنی تقریروں (جن میں معاویہ اور مخالف صحابہ کو منافق اور دھوکے باز کہنے اور گالیاں دینے کا ذکر ہے ) کے ذریعے اپنے ساتھیوں کو جنگ جاری رکھنے پر اصرار کرتے اور ابھارتےرہے ، لیکن آپ رضی اللہ عنہ کی اپنی جماعت کے سامنے ایک نہ چلی اور آخر بادل نخواستہ تحکیم پر رضا مند ہوئے۔ ان روایات میں راویوں کا جھوٹ اور بہتان کئی باتوں سے ظاہر ہے،
یہ روایات اور آگے جن روایات کا ذکر آئے گا یہ تاریخ طبری اردو ایڈیشن دارالاشاعت کراچی جلد تین صفحہ 620تا650 پر دیکهی جا سکتی ہیں. . تفصیل ان روایات پر تبصرہ میں بهی آگے آئے گی۔
جنگ صفین کے بعد تحکیم :-
جنگ بندی کے بعد تحکیم ہوئی یعنی کتاب اللہ کے حکم کےمطابق حضرت علی رضی اللہ کی طرف سے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ثالث مقرر ہوئے کہ یہ دونوں کتاب وسنت کے مطابق نزاعی معاملہ کا جو فیصلہ کریں گے وہ فریقین کے لئے قابل قبول ہوگا۔اس فیصلہ کی شرائط کے متعلق جو ابتدائی دستاویز تیار ہوئیں وہ تاریخ کی سب بڑی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں ہم طوالت سے بچنے کے لیے اس کے بنیادی نکات کو بیان کرتے ہیں۔
1. حضرت علی رضی اللہ اور انکے تمام ساتھیوں اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور انکے تمام ساتھیوں کو مساویہ طور پر اہل ایمان تسلیم کیا گیا۔
2. دونوں ثالثوں کی عدالت اور انصاف پر فریقین نے اپنے کامل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ان کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ ایسا فیصلہ کریں جس سے یہ عارضی جنگ بندی مستقل اور پائیدار امن کی صورت اختیار کرے اور دوبارہ اختلاف و جنگ کی صورت پیدا نہ ہونے پائے۔
3. ثالثوں پر ذمہ داری ڈالی گئی کہ وہ اپنا فیصلہ تحریری طور پر پیش کریں۔
4. شہادت و مشاورت اور دوسرے تمام ضروری مراحل سے گذرنے کے بعد ثالثوں کے فیصلہ سنانے کے لیے رمضان کا مہینہ مقرر کیا گیا۔
ثالثوں کا فیصلہ :۔
یہ معاہدہ چونکہ خیر القرون میں نبی کامل کے تربیت یافتہ جید اصحاب کی ان دو جماعتوں کے درمیان ہوا تھا جن سے پاکیزہ اور لائق تقلید انسانی گروہ کا روئے زمین پر تصور نہیں کیا جاسکتا ، اس لیے اس تحکیم کے لیے جس طرح کی بہترین شرائط رکھی گئی تھیں ‘فیصلہ بھی انہی کے مطابق آنا یقینی تھا ۔ جبکہ تاریخی روایتوں میں یہاں بات کو بڑے طریقے سے ایک الگ رخ پر موڑ کر فتنہ کا دروازہ کھول دیا گیا،۔تاریخ اس فیصلہ کی تفصیلات میں ان سبائی راویوں کی روایتوں کی بنیاد پر کچھ اور ہی کہانیاں سناتی ہے ۔ معاہدہ کی شرائط پرغور کیجیے ان میں کن باتون کو اہمیت دی گئی اور روایات کیا فیصلہ سناتی ہیں ۔ جنگیں اور پھرمعاہدہ قاتلان عثمان سے قصاص کےمتعلق ہوا اور تاریخ میں یہ سبائی روای انتہائی مکاری سے فیصلہ میں بالکل الٹ خلافت کا تنازعہ بتاتے ہیں اور پھراپنے غیظ القلب کی تسکین کے لیے اصحاب کا ایک دوسرے کو گالیاں دینا، برا بھلا کہنا دکھاتے ہیں ۔ تاریخ طبری، ان اثیر اور ابن خلدون وغیرہ نے فیصلہ کی جو تفصیلات دیں انکا خلاصہ یہ ہے۔
“دونوں ثالث مجمع میں آئےجہاں دونوں طرف چار چار سو اصحاب کرام رضوان اللہ اور ان کے علاوہ کچھ غیر جانبدار جید صحابہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ موجود تھے۔حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ تقریر کرنے کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہم دونوں اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ ہم علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ دونوں کو خلافت سے معزول کرلیں، پھر لوگ باہمی مشورہ سے جس کو پسند کریں خلیفہ کی حیثیت سے منتخب کرلیں، لہذا میں علی اور معاویہ دونوں کو معزول کرکے معاملہ آپ لوگوں کے ہاتھ میں دیتا ہوں کہ اب آپ جسے چاہیں اپنا نیا امیر بنالیں۔
اس کے بعد حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ جو کچھ میرے ساتھی نے ابھی کہا اسے آپ لوگوں نے سن لیا کہ انہوں نے اپنے آدمی علی رضی اللہ کو معزول کردیا میں بھی انکی طرح علی رضی اللہ عنہ کو معزول کرتا ہوں اور اپنے آدمی معاویہ رضی اللہ کو خلافت پر قائم رکھتا ہوں۔ یہ سنکر حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو سے کہا تم نے یہ کیا کیا ؟ خدا تمہیں توفیق نہ دے ، تم نے تو ہمیں دھوکہ دیا ہے اور گنہگار بنے ، تمہاری مثال تو اس کتے کی ہے جس پر بوجھ لادو تو بھی ہانپے ، اس کے جواب میں حضرت عمرو نے کہا کہ تمہاری مثال اس گدھے کی ہے جو بوجھ ڈھوئے پھرتا ہے۔ دوسرے صحابہ نے حضرت ابوموسی کو طعنے دینے شروع کیے ۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ نے کہا کہ ابو موسی تمہارے حال پر افسوس ہے کہ تم عمرو کی چالوں کے مقابلے میں بہت کمزور نکلے، حضرت عبد الرحمان بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابو موسی اگر اس سے پہلے مر گئے ہوتے تو ان کے حق میں ذیادہ اچھا ہوتا “۔
پھر حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ مجمع سے اٹھ کر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور انکو خلافت کی مبارکباد پیش کی ، دوسری طرف حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ اتنے شرمندہ تھے کہ وہ پھر حضرت علی رضی کو منہ بھی نہ دکھا سکے اور سیدھے مکہ چلے گئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ پہنچ کر اپنی تقریروں میں مخالف صحابہ کو برا بھلا کہا اور دوبارہ جنگ کی تیاریاں شروع کردیں۔ لیکن ان کے لوگوں نے انکا ساتھ نہ دیااور خوارج کے فتنے نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے مزید ایک درد سر پیدا کردیا تھا۔
روایات میں فیصلے کے متعلق پیش کی گئی تفصیلات کے وضا حت طلب امور :۔
1. فیصلہ کی تقریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ دونوں خلیفہ تھے، پھر حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ نے دونوں کو معزول کردیا اور عمر و رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو برقرار رکھا،حالانکہ یہ کسی گری پڑی تاریخی روایت سے بھی ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ سے پہلے یا بعد میں اپنی خلافت کا اعلان کرکے اسکے لیے کسی ایک شخص سے بھی بیعت لی ہو ، اس کے مقابلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر بیعت ہوچکی تھی اور انہیں امیرالمومنین و خلیفۃ المسلمین کی حیثیت سے تسلیم کیا جا چکا تھا، صرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور انکے ساتھ اصحابہ نے فی الحال بیعت نہیں کی تھی ، وہ بھی اس لیے نہیں کہ وہ خود خلافت کے مدعی تھے بلکہ اس لیے کہ انکا مطالبہ تھا کہ پہلے قاتلان عثمان غنی سے قصاص لے لیا جائے پھر ہم بیعت کریں گے، پھر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلافت پر قائم رکھنے اور علی رضی اللہ عنہ کو معزول کرنے کی داستانیں کس بنیاد پر ؟
2. تحکیم کی دستاویز میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ ثالثوں کا فیصلہ تحریری ہوگا، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ثالثوں نے محض تقریریں کیں ،اگر فیصلہ تحریری شکل میں نہیں تھا تو فریقین کی طرف سے شریک مجلس چار چار سو اصحاب اور ان کے علاوہ دوسرے غیر جانبدار بزرگ حضرات میں سے کسی نے تحریری فیصلہ کا مطالبہ کیوں نہیں کیا ؟ روایت دونوں کا مناظرہ دکھاتی ہے جبکہ یہاں تحریری فیصلہ پڑھ کر سنایا جانا تھا۔
3. روایت کے مطابق حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کی (معاذ اللہ) ناسمجھی ، بیوقوفی اور حضرت عمرو رضی اللہ عنہ کی چالاکی کے باوجود دونوں کا کوئی متفقہ فیصلہ سامنے نہیں آیا ، نا مجمع نے دونوں کی تقریروں کے بعد متفقہ طور پر کسی کو منتخب کیا ۔ پھر وہ کون سا فیصلہ ہے جس پر حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ کو خلافت کی مبارکباد دی اور حضرت علی رضی اللہ نے اس پر اپنی ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے اسے رد کیا ؟
4. اس نام نہاد فیصلہ کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ نے اپنی خلافت کی عام بیعت کیوں نہیں لی ؟ کیا انہوں نے بھی فیصلہ کو رد کردیا تھا ؟۔
5. راوی کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے فیصلہ کی علی الاعلان مخالفت اور دونوں ثالثوں کو مجرم گردانے کے بعد شام پر دوبارہ چڑھائی کرنے کی تیاریاں شروع ہوئیں لیکن خارجیوں کے فتنے نے اپنی طرف متوجہ کردیا۔پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس کمزوری سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فاعدہ اٹھا کر کوفہ پر چڑھائی کیوں نہ کی، اگر وہ خلافت چاہتے تھے تو یہ تو علی رضی اللہ عنہ کو راستے سے ہٹانے کا بہترین موقع تھا، اس ناکام فیصلہ کے بعد جنگ بندی مستقل کیسے ہوگئی، دوبارہ دونوں میں اختلاف کیوں نہ سامنے آیا ؟
6. یہ چند امور وضاحت طلب ہیں جو اس وقت تک وضاحت طلب ہی رہیں گے جب تک ان روایتوں کے راوی ابو مخنف لوط بن یحیی کی ان دروغ بافیوں کو صحیح تسلیم کیا جاتا رہے گا ۔
غور طلب امور:
ان وضاحت طلب امور کے علاوہ فیصلہ سے پہلے اور فیصلہ کے بعد کے حالات و واقعات کو بنیاد بنا کر یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اس واقعہ کے متعلق تاریخی کتابوں میں مذکور ثالثوں کے فیصلے کی یہ تمام تفصیلات قطعا غلط ، گھڑی ہوئی اور محض اصحاب سے بدظن کرنے کی ایک سبائی سازش ہیں۔اصل فیصلہ مجموعی طور پر انتہائی کامیاب اور فریقین کے لیے قابل قبول اور عام مسلمانوں کے بہترین مفاد میں تھا کیونکہ :
1. دونوں ثالث ناصرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ بعد کے بھی سارے خلفائے راشدین اور صحابہ کے قابل اعتماد لوگ تھے اور ان کی فہم فراست، تدبر و سیاست اور فقہ و دیانت کو دیکھتے ہوئے ان کو ہر دور میں بڑی بڑی ذمہ داریاں اور عہدے عطا کیے گئے تھے ۔یہ بات ناممکن تھی کہ وہ صرف اس ایک مسئلہ میں فتنہ کا دروازہ کھولنے والا انتہائی غیر دانشمندانہ فیصلہ کرتے ۔
2. اگر ثالثوں نے اپنی ذمہ داریوں کو قطعا فراموش کرکے اور خدانخواستہ دین و دیانت کو بالائے طاق رکھ کر یہ غلط فیصلہ دیا ہوتا تو مجلس میں موجود آٹھ سو سے زائد چیدہ و نمائندہ اصحاب کرام رضوان اللہ خاموش تماشائی نہ بنے رہتے۔ ایسا تو آج کے گئے گذرے دور میں بھی نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ عہد صحابہ رضی اللہ میں جہاں منبر پر کھڑے خلیفہ کو دو چادریں پہننے پر پوچھ لیا جاتا تھا کہ سب کو مال غنیمت سے ایک چادر ملی اس نے دو کہاں سے لائیں۔
3. ثالثوں کے تقرر کا مقصد یہی تھا کہ نزاعی مسئلہ ‘ جنگ کے بجائے امن کے ماحول میں طے ہوجائے اور امت خون خرابہ سے محفوظ ہوجائے، یہ بات واضح ہے کہ ثالثوں کے فیصلہ کے بعد رفتہ رفتہ کشیدگی کم ہوتی گئی اور پھر دوبارہ جنگ کی نوبت نہیں آئی، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ثالثوں کے اصل فیصلے (جس کو تاریخ سے غائب کردیا گیا ) سے فریقین مطمئن ہوگئے تھے۔.
4. مزید ابو مخنف لوط مردود کی ان وضعی داستانوں پر یقین کرنے سے صحابہ کرام جیسی مقدس جماعت کی جو گھناؤنی تصویر ابھرتی ہے وہ تو اپنی جگہ اس کے ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا ہوگاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ (نعوذ باللہ) وہ بد قسمت انسان تھے جن کا نہ کوئی سچا ہمدرد اور خیرخواہ تھا اور نہ انکی بات کو کوئی تسلیم کرتا تھا اور خود آپ اس قدر کمزور قوت فیصلہ کے مالک تھے کہ ہر دفعہ آپ کو دوسروں کی رائے تسلیم کرنی پڑتی تھی۔آپ ابو موسی کے بجائے مالک بن اشتر کو ثالث بنانا چاہتے تھے لیکن آپکی مرضی نہ چلی ، آپ قرآن کو نیزوں پر اٹھانے کے بعد بھی جنگ جاری رکھنا چاہتے تھے، آپ نے اس کے لیے جوش آور تقریریں کیں اور دین کا واسطہ دیکر بھی جنگ کا حکم دیا لیکن کسی نے نا سنی ، اس کے علاوہ تحکیم کے فیصلہ کے بعد عراق جاکر بھی دوبارہ شام پر چڑھائی کرنے کے لیے اپنے حواریوں کو حکم دیا لیکن آپ ایسے کمزور اور مجبور خلیفہ تھے کہ آپ کے واسطے دینے پر بھی کسی نے آپکی بات نہ ما نی۔
نعوذ باللہ من ھذہ الخرافات الباطلہ۔
ثالثوں کی شخصیت
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ :۔
واقعہ تحکیم کی بنیاد پر حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ پر دو بہتان لگائے جاتے ہیں کہ اول یہ کہ آپ نہایت مغفل، بیوقوف اور سفینہ قسم کے آدمی تھے ، اس لیے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ آپ کو چکمہ دینے میں کامیاب ہوگئے ، دوئم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آپ پر پہلے سے ہی اعتماد نہیں تھا وہ کسی اور کو ثالث بنانا چاہتے تھے۔
یہ دونوں باتیں حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ کے زندگی کے ریکارڈ کے خلاف ہیں حقیقت میں آپ وہ شخص تھے جنکی زیرکی ودانائی، تدبر وسیاست، فہم فراست اور فقہ و دیانت داری پر نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ بعد کے سارے خلفا ئے راشدین نے بھرپور اعتماد کرتے ہوئے ان کو اہم علمی ، سیاسی عہدوں کی ذمہ داری دی تھی ، (انکی تفصیلات تاریخ اور انکی زندگی پر لکھی گئی کسی کتاب میں پڑھی جاسکتی ہے)۔ پھر حضرت ابو موسی سے منسوب کوئی ایسا جھوٹا واقعہ بھی کسی تاریخی کتاب تک میں تحکیم سے پہلے کا نہیں ملتا جس سے انکی سفاہت پر کچھ روشنی پڑتی ہو بلکہ اس کے برعکس ان کے عبقری صفت ہونے کے ایسے حالات ملتے ہیں جن سے ان کے صحابہ میں امتیازی مقام کا پتا چلتا ہے۔ پھر اچانک ان کی بے عقلی اور سفاہت کی باتیں اور ان پر یہ بے اعتمادی کیسے سامنے آگئی ۔ ؟
سچائی یہ ہے کہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے ثالثوں کی دستاویز وں میں درج شرائط کی پوری پابندی کرتے ہوئے کتاب وسنت کی ہدایت میں جنگ صفین کے اسباب کا پتا لگایا اور فریقین کے موقف کی خوبیوں و خامیوں کا جائزہ لیا اور پوری غیر جانبداری کے ساتھ غوروخوض کرنے ، نیز استصواب رائے کےبعد انہوں نے جو فیصلہ دیا وہ فیصلہ نہ صرف فریقین بلکہ بلا اختلاف تمام مسلمانوں نے تسلیم کیا ، فیصلہ کی تحریر کا متن تو سبائیوں کی ہاتھ کی صفائی کی وجہ سے تاریخ میں نہ آسکا ، لیکن فیصلہ کی برکات کو سبائی چھپانے پر قدرت نہیں رکھتے تھے . فیصلہ کے بعد نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان کوئی جنگ ہوئی اور نہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے خون عثمان کے قصاص کا مطالبہ ہوا اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے انہیں شام کی گورنری سے معزولی کے لیے اصرار ہوا ۔ اس فتنہ کا پوری طرح سدباب ہوگیا جس کے لیے ثالثوں کا تقرر ہوا تھا۔
اس شاندار کامیابی کے ہوتے بھلا حضرت ابو موسی کیوں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منہ چھپا کر مکہ جاتے ؟ بلکہ واقعہ تو یہ ہے کہ حضرت ابو موسی کی یہ بے لوث و مخلصانہ خدمت اور انکی شاندار کامیابی انکی نسلوں تک کیلئے سرمایہ افتخار بنی رہی ، چنانچہ مشہور شاعر ذی الرمہ نے ان کے پوتے حضرت بلال بن برید بن ابی موسی رضی اللہ عنہ کی شان میں قصیدہ کہتے ہوئے اس شاندارکارنامہ کا ذکر اس طرح کیا ہے۔
ابوک تلافی الدین و الناس بعد ما
تشاءوا و بیت الدین منقطع الکسر
ترجمہ ؛ آپ کے باپ تو وہ تھے جنہوں نے دین اور اہل دین کی اس وقت شیرازہ بندی کی جب دین کا قصر گرنے کے قریب پہنچ گیا تھا۔
فشداصارالدین ایام اذرح
وردحروباقد لقحن الی عقرٖ
انہوں نے اذرح والے دنوں میں دین کے خیمہ کی طنابیں کس دیں اور ان جنگوں کو روک دیا جو اسلام کی نسل منقطع کرنے کا سبب بن رہی تھیں۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ :۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی ، اسلام کے مایہ ناز جرنیل فاتح مصر اور ‘دہاۃ عرب’ میں شمار ہونے والے حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ بھی سبائیوں کی دو طرفہ سازشوں سے تاریخ کی مظلوم شخصیتوں میں شامل ہوگئے۔ جب خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں مصر کی گورنری سے معزول کرکے انکی جگہ حضرت عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا تو انکے اس فیصلہ پر عمرو رضی اللہ عنہ کی ناراضگی کولے کر خلیفہ ثالث پر اقرباپروری کا الزام لگانے کے لیے سبائیوں نے ان ( حضرت عمرو) کے خوب خوب فضائل بیان کیے، جب یہی عمرو مسلمانوں کے اختلاف سے پریشان ہو کر افہام تفہیم اور اصلاح کے لیے حضر ت معاویہ کے پاس شام گئے اور انکے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان مصالحت کے ذریعے سبائی قاتلان عثمان سے قصاص لینے کے لیے راہیں ہموار کرنے کرنے لگئے تو یہی سبائی ان کے دشمن بن گئے ان پر ناصرف میدان جنگ میں قرآن نیزوں پر بلند کرانے ، ثالثی کے فیصلے میں عیاری دکھلانے وغیرہ جیسے بڑے الزام لگا دیے بلکہ ان کواپنی روایتوں میں دوسروں کی زبان سے خوب گالیاں بھی دلوائیں۔ غرضیکہ وہی شخصیت جسے عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہمہ صفات موصوف قرار دیا گیا اسے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلاف میں ہمہ عیوب قرار دیدیا گیا۔ یہ ہے سبائیت کا دوہرا معیار جسے صحیح تاریخی اسلام قرار دیکر جلیل القدر اصحاب رسول کی کردار کشی کی جارہی ہے۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ پر ثالثی کے فیصلہ میں عیاری دکھلانے کے الزام کی حقیقت اوپر تحکیم اور حضرت موسی اشعری رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں بیان کی جاچکی ہے کہ اس فیصلہ کی دی گئی تفصیلات سب گھڑی ہوئی ہیں۔
آپ پر سب سے بڑے اعتراض کا سبب ابو مخنف کی وہ روایت ہو جس میں بتایا گیا ہے کہ آپ کے مشورہ کے مطابق ایک جنگی چال کے طور پر جنگ صفین میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے لشکر سے قرآن کو نیزوں پر بلند کروایا تاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں پھوٹ پڑ جائے ۔ ابو مخنف کی اس روایت کو لے کر رافضیوں اور نام نہاد سنیوں نے عمرو رضی اللہ عنہ کے خلاف اپنے دل کی کالک سےکئی کئی صفحے کالے کیے ہیں۔حالانکہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ ابن کثیر میں اس روایت کے ساتھ اسی واقعہ کے متعلق امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی بھی ایک باسند روایت نقل کی ہے، ان ناقدین اصحاب کواس سبائی کی روایت تو نظر آگئی اسی صفحہ پر یہ روایت نظر نہیں آئی جسے ایک صحابی روایت کررہے ہیں۔
” حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ہم صفین میں تھے تو جب اہل شام کے ساتھ جنگ خوب زور پکڑ گئی ، شامی ایک ٹیلے پر چڑھ گئے ، پھر حضرت عمر بن العاص رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ علی رضی اللہ عنہ کی طرف قرآن بھیج کر ان کو کتاب اللہ کی طرف دعوت دیں، وہ ہرگز انکار نہ کریں گے، تب قرآن لیکر ایک آدمی معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے آیا پھر اس نے کہا کہ ہمارے اور آپ کے درمیان یہ اللہ کی کتاب فیصلہ کرنے والی ہے تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں میں تو اس کا ذیادہ حقدار ہوں ، ٹھیک ہے ہمارے اور تمہارے درمیان یہ کتاب اللہ ہے جو فیصلہ کرے “۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے جنگ صفین میں شرکت کرنے والے صحابی حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے پتا چلتا ہے کہ عمر و بن العاص رضی اللہ کے مشورے سے نہ تو قرآن کو نیزوں پر بلند کرکے بے حرمتی کی گئی ، نہ علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں تفرقہ پھیلانے کے لیے اور شکست سے بچنے کے لیے یہ ایک جنگی چال تھی ۔ حضرت عمر و رضی اللہ عنہ کو اس بات کا احساس تھا کہ سبائیوں اور قاتلان عثمان نے اپنی جان بچانے کے لیے یہ جنگ ایک چال کے طور پر مسلمانوں کے درمیان شروع کروا دی ہے جس سے دونوں طرف مسلمان شہید ہورہے ہیں ، انہوں نے مسلمانوں کو اس بڑے جانی نقصان سے بچانے کے لیے یہ مخلصانہ کوشش کی اور ایک آدمی کو قرآن دے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج کر ان کو یہ پیش کش کی ہم اس فتنہ میں قرآن کو اپنا حکم بنا لیں اور اسی کے مطابق فیصلہ کرلیں، جسے علی رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر منظور کرلیا کہ میں تو قرآن کے فیصلہ کی طرف دعوت دینے اور اس پر عمل کرنے کا ذیادہ حقدار ہوں ، چنانچہ بعد میں اسی مشورہ کے مطابق واقعہ تحکیم ہوا اور اللہ نے مسلمانوں کو حضرت عمرہ بن العاص رضی اللہ عنہ کے ذریعے ایک بڑے جانی نقصان اور فتنہ سے بچا لیا۔
غور کریں کہ اس واضح اور ایک صحابی کی مستند روایت کی تاریخ ابن کثیر میں موجودگی کے باوجود کس طرح ابو مخنف سبائی کی اس داستان کا انتخاب کرکے گرما گرم سرخیوں کے ساتھ اسلامی تاریخی کتابوں میں پیش کیا گیا ہے۔
ابو مخنف جنگ صفین والی اپنی گھڑی ہوئی اوپر پیش کردہ روایت میں آگے حضرت علی رضی اللہ کی ایک تقریر بھی پیش کرتا ہے جو انہوں حضرت عمر و بن العاص کی اس ‘ جنگی چال ‘ کو سمجھ کر عراق والوں کے سامنے کی ۔ پڑھیے اور سردھنیے
” یہ معاویہ، یہ عمرو بن العاص، یہ ابن ابی معیط اور حبیب بن مسلمہ اور یہ ابن ابی سرح اور ضحاک بن قیس نہ اصحاب دین ہیں نہ اصحاب قرآن ، میں انہیں تم سے ذیادہ جانتا ہوں، بچپن سے ان کا میرا ساتھ رہا ہے، یہ بدترین بچے تھے اور بدترین مرد ہیں، انہوں نے قرآن بلند کرنے کی یہ حرکت محض دھوکہ دینے کے لیے کی ہے ، خود انہیں قرآن سے کچھ تعلق نہیں ہے”۔
کیا اس پر یقین کیا جاسکتا ہے کہ داماد رسول حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان جلیل القدر اصحاب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ، حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ، حضرت ابن ابی معیط رضی اللہ عنہ حضرت حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ حضرت ابن ابی سرح رضی اللہ عنہ اور حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتنی بازاری زبان استعمال کی ہو ؟
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان اعتماد یافتہ صحابیوں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ دین وایمان سے خارج گردان سکتے تھے ؟ بدترین بچے اور بدترین مرد کون ہیں ؟
وہ کاتب وحی حضرت معاویہ رضی اللہ جن کے لیے حضور نے ھادی ومہدی کی دعا کی ، وہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ جنکو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے غزوہ ذات السلاسل کا کمانڈر مقر ر فرمایا اور ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ جیسے اجلہ صحابہ کو انکی ماتحتی میں جہاد کرنے کے لیے بھیجا اور اپنی وفات تک انہیں عمان کا والی مقرر کیے رکھا ؟
کیا یہ اپنے مقصد کے لیے قرآن شہید کر ان کے اوراق نیزوں پر بلند کراسکتے ہیں؟ کیا ان کے ساتھ پانچ سو لوگ اور صحابہ قرآن کی اس طرح بے حرمتی کرسکتے ہیں؟
سب سے بڑھ کر خود حضرت علی رضی اللہ عنہ قرآن کے نیزوں پر بلند ہونے کے بعد بھی ایسی جنگ جاری رکھنے کے لیے تقریر کرسکتے ہیں جس کے نتیجے میں قرآن کا لوگوں کے پاؤں تلے روندھے جانے کا خدشہ ہو ؟
غور فرمائیں کہ یہ سبائی دروغ گو راوی صحابہ و اہلبیت کے کردار کو مجروع کرنے کے لیے کس حد تک گئے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ذمہ بھی ایک ایسی تقریر لگادی جو بالکل ان کے شایان شان نہیں۔ اور پھر حیرت ہے ان سنی مورخین پر جنہوں نے بغیر تحقیق کے ان کہانیوں کو اسلامی تاریخ کے نام پر اپنی کتابوں میں ذکر کردیا ۔ مزید حضرت علی رضی اللہ عنہ کیسے حضرت معاویہ کے خلاف یہ زبان درازی کرسکتے ہیں حالانکہ تاریخ بتاتی ہے کہ وہ خودلوگوں کو اس سے روکتے تھے ۔
“جنگ صفین کے سلسلے میں جو لوگ حضرت معاویہ کے متعلق زبان درازی کرتے تھے، تو آپ نے انہیں اس سے روک دیتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ امارت معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا نہ سمجھو، کیونکہ وہ جس وقت نہ ہوں گے تو تم سروں کو گردنوں سے اڑتے ہوئے دیکھو گے ۔
( تاریخ ابن کثیر جلد8 صفحہ 131)
حقیقت میں جنگ صفین کو ختم کروا کر ثالثی کے ذریعے مستقل جنگ بندی کروادینا ہی حضرت عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ کا وہ کارنامہ تھا جس نے سبائیوں کی مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کے لیے کی جانے والی ساری محنتوں اور تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا ، اس لیے انہوں نے انہی واقعات کو لے کر انکی کردار کشی کی مہم چلائی ۔
افسوس یہ ہے کہ ابو مخنف کے بیانات کو تاریخ طبری کے صفحات میں دیکھ کر بلا تحقیق اسے نقل کرنے والوں نے سبائیوں کے ہاتھ اتنے مضبوط کردیئے ہیں کہ آج یہ روایتیں ہماری ایف اے ، بی اے، ایم اے کی تاریخ اسلام کی درسی کتابوں میں بھی بغیر کسی تحقیق و تبصرہ کے اسی طر ح نقل ہوتی آرہی ہیں اور امت کا ایک اچھا خاصہ طبقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعمد صحابہ حضرت معاویہ، حضرت عمرو بن العاص، حضرت ابو موسی اشعری رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف سے سوء ظنی کا شکار ہے۔
اوپر تفصیل سے یہ بات واضح ہوئی کہ یہ ساری داستانیں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ کے کردار کو مجروح کرنے کے لیے وضع کی گئیں ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ہماری اس تفصیل کا مطلب یہ نہیں کہ صحابہ میں اختلاف ہو ا ہی نہیں یا ان سے غلطی ہو ہی نہیں سکتی ، ہم اس بات کے قائل ہیں کہ صحابہ معصوم عن الخطا نہیں ہیں ، بعض احادیث میں بھی انکے اختلاف اور غلطیوں کا ذکر ہے ، ہمیں ان تاریخی روایات سے اختلاف ہے جن میں تمام صحابہ پر کرپشن، اقربا پروری، منافقت، سیاسی جوڑ توڑ اور کھینچا تانی کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ قرآن و حدیث تمام صحابہ کے عادل ہونے پر شاہد ہیں ہی ، تاریخ سے بھی سیکڑوں مثالیں دیں جاسکتیں ہیں جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کا اختلاف شرعیت کے مطابق ہوتا تھا اور ان کا دامن ان گالیوں اور غیر اخلاقی زبان کے استعمال سے پاک ہوتا تھاجو انکے اختلاف کے واقعات میں سبائی راویوں کی ان روایتوں میں ان کے ذمہ تھونپی گئی ہیں۔
صحابہ اختلاف کے اصولوں جو انہیں دین نے سکھائے تھے’ کے پوری طرح پابند تھے انکے اختلاف میں بھی امت کے لیے نمونہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علی اور معاویہ کے درمیان قاتلان عثمان کے مسئلہ پر اختلاف کے باوجود ادب و احترام کا تعلق تھا ،چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ دینی مسئلے پر فتوی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہی لیتے تھے ۔ مزید شیعہ کی اپنی کتابیں گواہ ہیں کہ حضرت علی، حسن اور حسین رضی اللہ عنہ ، حضر ت عبداللہ بن عباس رضی اللہ حضرت معاویہ کا احترام کرتے اور انکے اختلاف کو دینی اختلاف سمجھتے تھے۔ مضمون کی طوالت کے خدشے سے ہم صرف علی رضی اللہ عنہ کا حوالہ دیتے ہیں۔ شیعہ کی مشہور کتاب نہج البلاغہ میں ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تمام شہریوں کی طرف گشتی مراسلہ جاری کیا کہ صفین میں ہمارے اور اہل شام کے درمیان جو جنگ ہوئی اس سے کوئی غلط فہمی پیدا نہ ہو، ہمارا رب، نبی اوردعوت ایک ہے ۔ ہم شامیوں کے مقابلے میں اللہ و رسول پر ایمان و یقین میں ذیادہ نہیں اور نہ وہ ہم سے ذیادہ ہیں ۔ ہمارا اختلاف صرف قتل عثمان میں ہے ۔
( نہج البلاغہ جلد2، صفحہ 114)
اللھم ثبت قلبی علی دینک