کسی بھی قوم کا رابطہ اگر اپنے ماضی سے ٹوٹ جاۓ تو اس قوم کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی گناہ کے نتیجے میں پیدہ ہونے والے بچے کہ کوئی کچرے کے ڈھیر پر پھینک جاۓ اور وہ اپنے حقیقی نام و نسب کی تلاش میں ہمیشہ سر گرداں رہے …..جن لوگوں کا اپنے ماضی سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے انکے اندر نفسیاتی مسائل پیدہ ہوتے ہیں یہ نفسیاتی مسائل مختلف انداز سے شخصیات افراد اور اقوام پر اثر انداز ہوتے ہیں
ایسے لوگ جھوٹے سہاروں کو تلاش کرتے ہیں جیسے جدید استعماری دنیا کا بے تاج بادشاہ امریکہ یہ لوگ کبھی مصر کے اہراموں میں تو کبھی روم و یونان کے مقابر میں اور کبھی دفن شدہ مایا تہذیب میں اپنی اصل کھوجتے پھرتے ہیں اور صرف کھوجتے ہی نہیں بلکہ اسکو پوری دنیا پر رائج کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں یہ جدید استعماری پھندے پوری کی پوری تہذیبوں کو کسی بھوکے عفریت کی طرح نگل رہے ہیں …
دوسرا اثر ایسی اقوام پر یہ پڑتا ہے کہ انکی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی تاریخی برتری کو ثابت کرنے کیلئے دوسروں کی تاریخ کو بھی مسخ کر دیا جائے اسکو استشراق کہتے ہیں۔مستشرقین کی اسلام کے خلاف نیشہ زنی اتنی ڈھکی چھپی ہوتی ہے کہ ایک صاحب بصیرت اور صاحب علم شخص ہی کو اس کا احساس ہو سکتا ہے، ان میں حق و باطل ، علم اور جہل مکس ہے۔ طریقہ واردات یہ ہے کہ پہلے تعریف کرکے قاری کو خوش کرتے اور خود کو غیر جانبدار اور حقائق کو تسلیم کرنے والا شو کرتے ہیں، ”تحقیق“ (Research)کے نام سے جہاں کہیں بھی ان کی مقصدبراری ہوتی ہو، روایت خواہ علمی اصول کی رُوسے یا صحت واستناد کے اعتبار سے کتنی ہی وہبات، مشکوک یا بے تکی کیوں نہ ہو اس کو نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اور پوری جسارت سے ”سائنٹفک“ بتاکر بڑی آب وتاب کے ساتھ پیش کرتے ہیں اگلے ہی لمحے کسی متعلقہ پہلو پر ایسے ہٹ کرجاتے ہیں کہ قاری کے وہم گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ کیسا زہر انجیکٹ کرگئے ہیں اور وہ انکا ہم خیال بن جاتا ہے، گویا شربت کے جام میں زہر گھول کر پیش کرتے ہیں۔ یہاں ایک ذہین اور حساس تعلیم یافتہ انسان کے ذہن میں بھی (اگر ان موضوعات پر وسیع اور گہری نظر نہ رکھتا ہو) شکوک وشبہات پیدا ہوتے جاتے ہیں اور سلف صالحین وعلماء راسخین کی شخصیتوں سے اعتماد ختم ہوتا جاتا ہے۔
اس استشراقی غلاظت نے اپنی فکر و تہذیب اور تاریخ پر لاکھوں مسلمانوں کو شرمندہ کیا۔ عالم عرب میں طہٰ حسین اور بر صغیر میں سر سید اس فکر کے شدید متاثرین میں شمار کیے جا سکتے ہیں ۔انکے فکری مغالطوں سے دین کا جو شعبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ ” تاریخ اسلامی ” ہے ۔
اسلاف نے تاریخی روایات سے استفادے کیلئے جو نظام تشکیل دیا اسے ” جرح و تعدیل ” کے نام سے پہچانا جاتا ہے جسکی بنیاد اس نص قرآنی پر ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے:
اے اہل ایمان! اگر آپ لوگوں کے پاس کوئی فاسق خبر لے آئے تو اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کسی گروہ کو جہالت میں نقصان پہنچا بیٹھیں اور پھر اپنے فعل پر نادم ہوں۔ الحجرات 49:6
اس جرح و تعدیل کے ماہر حضرات مورخین و محدثین ہیں اسکی نص بھی قرآن سے بیان ہوتی ہے ۔
ترجمہ : اور جب ان کے پاس پہنچتی ہے کوئی خبر امن یا خوف کی تو اس کو مشہور کرديتے ہیں اور اگر اس کو پہنچا ديتے رسولؐ تک اور اپنے اولو الامر (علماء و حکام) تک تو جان لیتے اس (کی حقیقت) کو جو ان میں قوتِ استنباط (حقیقت نکالنے کی اہلیت) رکھتے ہیں اس کی اور اگر نہ ہوتا فضل ﷲ کا تم پر اور اس کی مہربانی تو البتہ تم پيچھے ہو ليتے شیطان کے سواۓ چند (اشخاص) کے۔النساء/83؛
علما امت نے مستقل تاریخ اسلامی سے متعلق ایسی کتب لکھی ہیں جن میں تاریخی روایت کے نتیجے میں پیدہ ہونے والے اشکالات کا حل موجود ہے۔ ابن تیمیہ رح کی منہاج السنہ ، ابن العربی رح کی العواصم من القواصم، حضرت شاہ ولی الله دھلوی رح کی ازالة الخفاء عن خلافت الخلفاء وغیرہ۔ اسی طرح ماضی قریب اس موضوعات پر سینکڑوں کتابیں لکھی گئی۔
تاریخ کو اس فہم سلف سے ہٹ کر مستشرقین کے طریقے پر مجرد اخبار و آحاد کی بنیاد پر سمجھنا ایسے علمی مغالطوں میں مبتلاء کرتا ہے کہ فکر و نظر کا رخ ہی تبدیل ہو کر رہ جاتا ہے۔جب ہماری میزان ہی ٹیڑھی ہوگی اور ہمارے ماپنے کے آلات ہی غلط ہونگے تو مطالعہ تاریخ کا مقصود ہی فوت ہو جائےگا ….
1. تاریخ جسکا مقصود ہمیں ہمارے اسلاف کے کارناموں سے آگاہی دلانا ہے۔
2. تاریخ جسکا مقصود ہمارا تعلق اپنی علمی سیاسی فکری اخلاقی اقدار سے جوڑنا ہے ۔
3. تاریخ جسکا مقصود اپنی اصلاح اور اپنے مستقبل کی بنیادیں اپنی جڑوں پر استوار کرنا ہے اگر یہ تاریخ سلف کی فکر و نظر سے ہٹ کر دیکھی جاۓ تو نری جاہلیت دکھائی دیگی …
آپ اپنے باطل پیمانوں کو لیکر پہنچ جائیے اور اسلامی تاریخ کو ماپنا شروع کیجئے نتیجہ ہمیشہ منفی ہی آئے گا کیونکہ آپکے پیمانوں میں شدید کھوٹ ہے وہ باٹ جو آپ نے ترازو کے دوسرے پلڑے میں رکھے ہیں گھسے ہوے ہیں ..
یہ باطل پیمانے ہمیں اپنی تاریخ کے معروف کرداروں کو باطل دکھاتے ہیں جو ظلم کے خلاف کھڑا ہو ان سے وہی ظالم دکھائی دیتا ہے۔
یہ وہ عینک ہے جسے پہن کر محمود غزنوی ڈاکو دکھائی دیتا ہے، شہاب الدین غوری غاصب نظر آتا ہے، عالمگیر جیسا درویش صفت حاکم منافق دکھائی دیتا، ابدالی شر پسند ہوجاتا ہے، ایوبی و زنگی ملوک بیبرس مطلق العنان حاکم غرض یہ سلسلہ یہیں رکتا دکھائی نہیں دیتا بلکہ دامن صحابہ رض تک کو تار تار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اب جو بھی راستے کی دیوار بننے کی کوشش کرے وہ اسلاف پرست وکیل صفائی ناقابل قبول و غیر مقبول ہوگا ..
یہ فکری مغالطے دو دھاری تلوار ہیں ایک طرف تو یہ اسلامی تاریخ کا وہ چہرہ پیش کرتے ہیں کہ سر شرم سے جھک جائے تو دوسری طرف اپنے ہی اسلاف پر بد اعتمادی کی فضاء قائم کر دیتے ہیں اور دعوی ہوتا ہے بے لاگ تحقیق …..
پہلے تو مجددین اسلام پر سے اعتماد اٹھایا جاتا ہے اسلام کا سب سے بڑا امر حکومت اسلامی کے قیام کو قرار دیا جاتا ہے اور پھر یہ سوال ہوتا ہے یہ فقہاء ، محدثین ، مورخین ، مجددین کیا کرتے رہے یہاں تک کہ شیخ السلام ابن تیمیہ رح جیسے مجدد کے تمام تجدیدی و احیائی کام پر بھی سوالیہ نشان لگ جاتا ہے کہ وہ بھی ایسی کوئی تحریک بپا کرنے میں ناکام رہے کہ اقتدار جاہلیت کے ہاتھوں سے نکل کر اسلام کے ہاتھوں میں آ جاتا …..
تو دوسری طرف ……
یہ فکر ہمیں بتاتی ہے کہ اسلامی کی عظیم الشان سیاسی قوت صرف تیس سال میں پارہ پارہ ہو گئی اسکے بعد جو اسلام نے دنیا پر حکومت کی وہ نری جاہلیت تھی یعنی اسلامی غالب ہوکر بھی مغلوب تھا حاکم ہوکر بھی محکوم تھا احسن ہوکر بھی اسفل تھا اعلیٰ ہوکر بھی ادنی تھا ……
یہ فکر کتنی تباہ کن ہے اسکا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ ایک طرف تو اسکی کدال اسلامی سیاست کی عظیم الشان عمارت کی جڑیں کھودتی دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف اسلاف کی شخصیات پر مکمل بد اعتمادی پیدہ کر دیتی ہے یہ ایک ایسی روشن خیالی ہے جو اپنی حقیقت میں اندھیرا نہیں اندھیر ہے …..
اس فکر کے اثرات ان نفوس قدسی پر پڑتے ہیں جنہوں نے مکتب نبوت سے براہ راست فیض حاصل کیا تھا
سید ابو الحسن علی ندوی رح ایک جگہ لکھتے ہیں !
لوگ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جب اسلامی دعوت اپنے سب سے بڑے داعی کے ہاتھوں اپنے دور عروج میں کوئی دیر پا اور گہرے نقوش مرتسم نہ کر سکی اور جب اس دعوت پر ایمان لانے والے اپنے نبی علیہ سلام کی آنکھ بند ہوتے ہی اسلام کے وفادار اور امین نہ رہ سکے اور رسول الله صل الله علیہ وسلم نے انھیں جس صراط مستقیم پر چھوڑا تھا ان میں سے معدودے چند آدمی ہی اسپر گامزن رہے تو ہم یہ کیسے تسلیم کر سکتے ہیں کہ ان کے اندر نفوس کے تزکیہ کی صلاحیت ہے وہ انسان کو حیوانیت کی پستی سے نکال کر انسانیت کی بلند چوٹی تک پہنچا سکتی ہے اور ہم کس امید پر اس وقت دنیا کی قوموں اور غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دے سکتے ہیں ”
ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے کیا اسلام کا نظام عالی شان صرف تیس سال چل سکا اس روایت کے راویوں کی چھان پھٹک سلف کی آراء پر بحث تو ایک طرف ذرا عقل ہی استعمال کیجئے اپنی فطرت سلیم کو آواز دیجئے آج دنیا میں اسلام کے غلبے کی بات کرنے والے جب اپنی بنیادوں میں یہ عقیدہ لیے بیٹھے ہونگے کہ امت کی سیاسی عمارت اسلام کے ابتدائی تین ادوار میں ہی ڈھے گئی وہ تین ادوار جنکی تعریف خود زبان نبوی سے ہوئی ہے
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ‘‘(<23>undefined) (بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں پھر جو ان کے بعد آئيں پھر جو ان کے بعد آئيں)۔
یہی وہ لوگ تھے بے شک یہی وہ لوگ تھے جنکے ہاتھوں فریضہ اقامت دین تکمیل کو پہنچا
امام قاضی احمد القلشانیؒ المتوفی سن 863ھ” فرماتے ہیں :
سلف صالحین سے مراد وہ پہلی نسل ہے کہ جو راسخون فی العلم تھے، ہدایت نبوی کے ساتھ ہدایت یافتہ تھے۔ جو سنت کے محافظ تھے۔ انہیں اللہ تعالی نے اپنے دین کو قائم کرنے کے لیے چن لیا تھا اور ان سے راضی ہوا تھا کہ وہ اس امت میں دین کے امام بنیں۔ انہوں نے امت کی نصیحت چاہنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور انہوں نے رب کی رضا کے لیے اپنے آپ کو قربان کردیا۔
اور یہاں یہ سوال کہ ان اقامت دین کے معماروں نے ہی وہ عمارت ڈھا دی جسکی بنیادوں میں انکا خوں شامل ہے
افسوس صد افسوس
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
لیکن ہمیں کتاب الله کی گواہی کافی ہے
وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّـهِ ۚ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ ۚ أُولَـٰئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ ﴿٧﴾
اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کے رسول موجود ہیں، اگر وه تمہارا کہا کرتے رہے بہت امور میں، تو تم مشکل میں پڑجاؤ لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناه کو اور نافرمانی کو تمہارے نگاہوں میں ناپسندیده بنا دیا ہے، یہی لوگ راه یافتہ ہیں .
ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی تاریخ سے اپنی مرضی کا گند چننے کے بجاۓ سلف کے مستقیم راستہ پر چلا جاۓ کیونکہ یہی راستہ ہمیں منزل مقصود کی طرف لے جا سکتا ہے …..
حسیب احمد حسیب