ہم سمجهتے ہیں کہ سیدنا حضرت علی اور سیدنا حضرت معاویہ ( رضی اللہ عنهما) دونوں اپنی اپنی جگہ پر حق بجانب تهے جس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ حدیث ” اقضاهم علی” کے مصداق کامل تهے. بہترین قاضی ہمیشہ انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکهتا ہے اور انتظامی تقاضوں پر اس کی نظر نہیں ہوتی. قاتلین عثمان ( رضی اللہ عنہ) کی شرعی شہادتوں کے مطابق صحیح تعیین نہایت دشوار تهی. کسی بڑے سے بڑے ملزم کو بهی شرعی فیصلے کے بغیر مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا. کیونکہ محمد بن ابی بکر اور مالک بن اشتعر نخعی جیسے لوگوں کا جرم عدالتی تقاضوں کے مطابق ثابت نہیں ہوسکا تها ، اس لئے حضرت علی کرم اللہ وجہ نے انہیں اگر صوبوں پر عامل (گورنر) مقرر کیا تو وہ اپنی جگہ پر اس میں حق بجانب تهے. جہاں تک انتظامی تقاضوں کا تعلق ہے تو کسی مشتبہ شخص کو گهر کا چوکیدار مقرر کرنا بهی مناسب نہیں چہ جائیکہ اسے صوبے کا عامل بنا دیا جائے. حضرت معاویہ بہترین منتظم تهے. بہترین قاضی بہترین منتظم نہیں ہوسکتا اور بہترین منتظم بہترین قاضی نہیں ہوسکتا. یہی وجہ ہے کہ تمام مہذب معاشروں میں عدلیہ کو انتظامیہ سے الگ رکهنے پر زور دیا جاتا ہے. بہترین منتظم ہونے کی حیثیت سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اپنی جگہ پر یہ سمجهنے میں حق بجانب تهے کہ جن لوگوں پر قتل عثمان کے قوی الزامات اور شبہات ہیں انہیں یوں عامل مقرر کیا جائے تو قاتلین عثمان سے قصاص لینا کیسے ممکن ہے؟
اگر حضرت علی کرم اللہ وجہ کو غلبہ حاصل ہوجاتا تو قاتلین عثمان( رضی اللہ عنہ) اور دیگر مفسدین میں سے کوئی ایک بهی کیفرکردار کو نہ پہنچ پاتا کیونکہ حضرت علی کرم اللہ وجہ شرعی شہادتوں کے بغیر کسی کو مجرم قرار نہیں دے سکتے تهے. حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذہن سراسر انتظامی تها اگر انہیں غلبہ حاصل ہوجاتا تو آٹے کے ساتهہ گهن بهی پس جاتا. کیونکہ وہ ہر مشکوک اور مشتبہ شخص پر یقینا ہاتهہ ڈالتے. اللہ تعالی نے دونوں اصحاب رسول( صلی اللہ علیہ وسلم) کو یوں بچایا کہ دونوں طرف کے مفسدین کی اپنی ہی اشتعال انگیزی سے بالآخر جنگ تک نوبت پہنچی کہ جس میں اکثریت انہی مفسدین کی کام آئی اور وہ اپنے کیفرکردار کو خود اپنے ہاتهوں سے پہنچ گئے. جو لوگ مخلص تهے ان میں سے بهی کچھ درجہ شہادت پر فائز ہوئے ہوں تو اس سے بالآخر دینی فائدہ ہی ہوا کہ ان کی شہادت مفسدین اور باغیوں کی بکثرت ہلاکت کا ذریعہ بنی. صحابہ کرام ( رضی اللہ عنهم ) بہت ہی کم ان جنگوں میں شریک ہوئے.یہ جو شور مچایا جاتا ہے کہ ہزاروں صحابہ کرام ان جنگوں میں شہید ہو گئے تهے تو ایسا دعوی کرنے والے زیادہ نہیں تو ایک سو اصحاب ہی کی اصلی اور معتبر فہرست مہیا فرمائیں.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مورد وحی اور معصوم عن الخطاء ہونے کی وجہ سے مدنی ریاست کے بیک وقت منتظم اعلی، قاضی اور فوج کے سربراه تهے. بعض اوقات کسی مسئلے میں انتظامی اور عدالتی تقاضے باہم متصادم ہوتے ہیں. کبهی انتظامی اور کبهی عدالتی تقاضوں کو مقدم رکهنا ہوتا ہے مثلا حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے قتل کا مشورہ دیا جو انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق تها لیکن انتظامی تقاضوں کے منافی تها. چنانچہ آپ نے فرمایا کہ میں ایسا کروں تو مخالفین کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے اصحاب کو قتل کرتے ہیں. یہ خود ہی اپنے انجام کو پہنچے گا. بعد میں اس کی رسوائی سب پر خوب عیاں ہوگئی تو واضح ہوا کہ آپ کا اس کے متعلق رویہ بالکل مناسب تها. اور مثلا آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی خواہش تهی کہ بیت اللہ کی عمارت اسی طرح بنائی جائے جیسے اسے حضرت ابراهیم اور ان کے صاحبزادے حضرت اسمعیل(علیهما السلام ) نے تعمیر کیا تها. لیکن انتظامی تقاضوں کے پیش نظر آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنها سے فرمایا کہ ( انصاف پر مبنی) اپنی اس خواہش کو پورا کروں تو تیری قوم نے ابهی ابهی اسلام قبول کیا ہے، انہیں پریشانی ہوگی کہ یہ کیا ہورہا ہے.
حضرت علی کرم اللہ وجہ اقضاهم علی کا مصداق ہونے کی بناء پر ہر حال میں عدالتی تقاضوں کو ملحوظ رکهنے پر اپنی جبلت اور طبیعت کے اعتبار سے مجبور تهے. آخر میں انہیں بهی احساس ہوا کہ انتظامی تقاضوں کو یکسر نظرانداز کرنے سے امن عامہ برقرار نہیں رہ سکتا ، چنانچہ جنگ صفین سے واپسی پر آپ نے فرمایا . اے لوگو ! تم معاویہ کی حکومت کو ناپسند مت کرو، کیونکہ اگر تم نے ان کو گم کردیا تو دیکهو گے کہ سر اپنے شانوں سے ایسے کٹ کٹ کر گریں گے جیسے حنظل کا پهل اپنے درخت سے گرتا ہے.(البدایہ والنهایہ ج8 ص131)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی حیات طیبہ میں قصہ افک ( حضرت عائشہ رض پر بہتان کا واقعہ) بظاہر ایک نہایت تکلیف دہ حادثہ تها لیکن اللہ تعالی نے فرمایا ؛- لاتحسبوہ شرالکم بل هو خیرلکم ۔یعنی تم اسے اپنے لئے برا خیال نہ کرو بلکہ یہ تمہارے لئے اچها ہے .. ( سورہ نور). اسی طرح ہمیں مشاجرات صحابہ کرام میں مثبت پہلو کو سامنے رکهنا چاہئیے. تفاضل انبیاء کا شرعی حکم یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی بهی رسول یا نبی کی فضیلت و منقبت اس انداز سے بیان نہ کی جائے کہ جس سے کسی دوسرے نبی کی توهین ہوتی ہو. تفاضل صحابہ میں بهی اسی اصول کو مدنظر رکهنا چاہئیے.
آج اس پرفتن دور میں ایسا لٹریچر سامنے آرہا ہے کہ جس میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت اس انداز میں بیان کی گئی ہے کہ اس کے مطالعہ سے عام ناواقف لوگوں کے ذہن میں سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ناحق شبهات جنم لیتے ہیں اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کے حق میں اس انداز سے باتیں کی جاتی ہیں کہ اس سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف ناحق شبهات پیدا ہونے لگتے ہیں. مشاجرات صحابہ کا موضوع نہایت نازک اور حساس ہے یہاں بڑے بڑے لوگوں کے قدم بهی ڈگمگانے لگتے ہیں. کیا یہاں متقدمین اکابر کا سکوت اور توقف ہی سلامتی کا بہترین راستہ نہیں؟؟ اگر کسی کو محاکمہ کا شوق ہے تو تفاضل انبیاء کی طرح تفاضل صحابہ میں بهی شدید احتیاط کی ضرورت ہے . آج امامیہ حضرات کی اسمآءالرجال کی کتب بهی منظرعام پر ہیں . اس امر کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ فریقین کی اسماءالرجال کی کتب سے ایسے راویوں کے حالات پر مزید تحقیقی نظر ڈالی جائے جو دونوں کشتیوں میں سوار ہوکر شعوری یا غیر شعوری طور پر تخریب و تفریق کا سبب بنتے رہے ہیں. تاریخی روایات کے بیشتر راوی کذاب مجہول الحال ہیں. اکثر روایتیں منقطع ہیں، شاید ہی کوئی روایات ایسی ہوں جو اصول روایت و درایت کی متحمل ہوسکیں. بعض متقدمین حضرات کی طرف منسوب تاریخی کتب میں جو نہایت قابل اعتراض مواد موجود ہے تو یہ بهی سوچنا چاہئیے کہ اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ ان کتب میں اہل باطل کی طرف سے مذموم مقاصد کے لئے مواد بهرتی نہ کیا گیا ہو. آج صحابہ کرام کے متعلق کتاب اللہ کی نصوص صریحہ کو تو معاذاللہ طاق نسیان پر رکهہ دیا گیا ہے اور ان غلیظ روایات کا اسیر ہو کر طرح طرح کے وسوسوں کو پرورش پانے کا موقع فراہم کیا جارہا ہے. اللہ تعالی ہماری حفاظت فرمائے اور عقل سلیم کی نعمت اور هدایت کی نعمت سے نوازے.( آمین)
سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ سابقون الاولون میں شامل ہیں. سورہ نور کی آیت استخفلاف کا مصداق ہونے کی بناء پر خلفائے راشدین میں داخل اور احق بالخلافتہ ہیں . دراصل خلافت راشدہ علی منهاج النبوه رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے. وقت گزرنے کے ساتهہ ساتهہ اس معجزے کی مدت کے اختتام کے اسباب پیدا ہوئے. خلافت راشدہ علی منهاج النبوہ کی اپنے ابتدائی ادوار میں بے مثال کامیابی کی بڑی وجہ یہ تهی کہ نہ صرف خلفائے راشدین احسن الخلائق تهے بلکہ مسلم رعایا بهی بہترین اخلاق و کردار کی حامل تهی. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آخری دور اور حضرت علی رضی اللہ کے زمانے میں نو مسلموں کی بہت بڑی تعداد کے ساتهہ ساتهہ سبائیوں اور منافقین کی خاصی تعداد بهی موجود تهی. حضرت علی کرم اللہ وجہ خلیفہ راشد علی منهاج النبوہ ہونے کی بناء پر تقوی اور پرہیزگاری کے انتہائی بلند مقام پر فائز تهے. حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے سلسلے میں وہ مشکوک اور مشتبہ لوگوں پر کهلا ہاتهہ ڈالنے سے اس لئے گریزاں تهے کہ کہیں بےقصور لوگ بهی گرفت میں نہ آجائیں. خلفائے راشدین کے بعد کی خلافت کتنی ہی عمدہ کیوں نہ ہو لیکن وہ علی منهاج النبوہ والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزہ کی حامل نہیں تهی. خلفائے راشدین علی منهاج النبوہ مقام تقوی سے قطعا نیچے نہیں اتر سکتے تهے ، ادھر فتوی یہ ہے کہ امن و امان کی برقراری کے لئے ہر مشتبہ شخص پر ایک حد تک سختی روا ہے ورنہ جرائم کا استیصال ناممکن ہے. ان حالات میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جیسی شخصیت کا ہونا نعمت عظمی سے کم نہیں جن کی وجہ سے حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ دونوں طرف کے مفسدین کی اپنی اشتعال انگیزی سے جنگ صفین میں یہی لوگ زیادہ تر لقمہ اجل بنے. ان میں سبائیوں کی اکثریت بهی اپنے انجام کو پہنچی. اس کے باوجود جو بچ رہے بعد کے حالات میں مختارثقفی اور حجاج بن یوسف جیسے لوگ اللہ تعالی نے ان پر مسلط کردیے. یہ مقام عبرت ہے کہ اللہ تعالی نے ایسے غیبی اسباب پیدا فرمائے کہ قاتلین عثمان اور قاتلین حسین (رضی اللہ عنهما) ایک سال کے اندر ہی اندر اپنے کیفرکردار کو پہنچ گئے. اگرچہ ان حوادث میں بہت سے نیک لوگوں کو بهی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اور کئی ایک مرتبہ شہادت پر بهی فائز ہوئے لیکن مفسدین کی اکثریت ایسی مرعوب و مغلوب ہوئی کہ سبائی تحریک زیرزمین کام کرنے پر مجبور ہوگئی. اور کوئی چوتهی صدی ہجری میں جاکر انہیں کچهہ ابهرنے کا موقع ملا.
خوب غور کیجئیے جس طرح غزوہ بنی نضیر میں یہودیوں کے کهجوروں کے درخت کاٹنے کے نبوی حکم کی ایک حد تک تعمیل ناگزیر تهی لیکن ساتهہ ہی صحابہ کرام کی ایک جماعت کی طرف سے عدم تعمیل بهی مسلمانوں کے بہترین مفاد میں تهی. اسی طرح سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت بهی اگرچہ شرعا مطلوب تهی لیکن ساتهہ ہی صحابہ کرام کی ایک جماعت کی طرف سے عدم بیعت بهی امت کے بہترین مفاد میں تهی. جس طرح غزوہ بنی نضیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی عدم تعمیل پر پیدا ہونے والے اشکال کا اللہ تعالی نے سورہ حشر میں یہ کہہ کر ازالہ فرمایا کہ یہ سب کچهہ اللہ کے حکم سے ہوا ، یعنی کسی بهی فریق پر کوئی الزام نہیں ہے ، اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہ کی بیعت نہ کرنے سے پیدا ہونے والے اشکال کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ فرما کر ازالہ فرما دیا کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے ، اللہ تعالی اس کے ذریعے سے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں کے درمیان صلح کروائے گا. چنانچہ اس صلح کے بعد فریقین پر کوئی الزام باقی نہ رہا.
ہمیں ایمان اس لئے عزیز ہے کہ اس کے مقابلے میں کفر موجود ہے، عافیت اس لئے مطلوب ہے کہ اس کے مقابلے میں بلاء اور مصیبت موجود ہے ، صحت اس لئے مطلوب ہے کہ اس کے مقابلے میں مرض موجود ہے ، علم اس لئے مطلوب ہے کہ اس کے مقابلے میں جہالت موجود ہے ، تقوی اس لئے مطلوب ہے کہ اس کے مقابلے میں فسق و فجور موجود ہے ، هدایت اس لئے مطلوب ہے کہ اس کے مقابلے میں کفر و ضلال موجود ہے ، غنا اس لئے مطلوب ہے کہ اس کے مقابلے میں فقروفاقہ موجود ہے. اسی طرح صحابہ کرام کے خلاف دلوں میں کینے کا نہ ہونا ہمیں اس لئے مطلوب ہے کہ اس کے مقابلے میں ان معلوم العاقبہ صحابہ کرام کے خلاف بغض و کینہ بهی موجود ہے اور رہے گا. تبهی تو سورہ حشر میں ہمیں یہ دعا سکهائی گئی ہے؛-
ربنا اغفرلنا ولاخونناالذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین آمنوا ربنا انک رءوف رحیم…اے ہمارے رب ! ہمیں اور ہمارے بهائیوں کو بخش دے وہ جنہوں نے ایمان میں ہم سے سبقت کی اور جو ایمان لائے ہمارے دلوں میں ان لوگوں کے لئے کوئی کینہ نہ ہونے دے. ائے ہمارے رب! بے شک تو شفقت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے..(سورۃ الحشر)
اگر دنیا میں اصحاب رسول کے خلاف کینہ موجود ہی نہ ہو تو دعا سکهانا معاذاللہ عبث اور بے مقصد قرار پاتا. اللہ اور اس کا کلام ہر عیب سے پاک ہے. مشیت الہیہ کا تقاضا یہی ہے ..ولایزالون مختلفین الا من رحم ربک و لذالک خلقهم ۔ یہ لوگ باہم ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے مگر جس پر تیرا رب رحم فرمائے اور اسی لئے ان کو پیدا کیا ہے.. ( هود)
یہاں یہ بهی غور کرنا چاہئیے کہ اگر مشاجرات صحابہ کرام کے بعض حوادث پیش ہی نہ آتے تو صحابہ کرام کے خلاف دلوں میں کینے کا کوئی سبب ہی موجود نہ ہوتا. اللہ تعالی نے ہمیں آزمائش میں ڈال دیا لیکن کمال رحمت اور مہربانی سے ہمیں کینے سے محفوظ رکهنے کے لئے مذکورہ بالا دعا بهی سکهادی جس سے اہل حق اور اہل باطل میں بخوبی امتیاز بهی ہوگیا.
بعض اوقات تاریخی جزئیات میں تحقیق سے قول شاذ قطعا درست اور قول مشہور قطعا غلط ثابت ہوتا ہے . مثلا تمام اہل سیر و مغاذی زمنی اعتبار سے غزوہ تبوک کو مقدم اور حج ابی بکر صدیق(رض) کو موخر سمجهتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے . مجلہ السیرہ عالمی ( زوار اکیڈمی پبلیکیشنز ناظم آباد 4 کراچی) شمارہ نمبر 13 میں ناقابل تردید عقلی و نقلی شواهد سے ثابت کیا جا چکا ہے کہ حج ابی بکر صدیق( رض) مقدم اور غزوہ تبوک موخر ہے. اور مثلا شمارہ نمبر 32 اور 33 میں ناقابل تردید دلائل سے ثابت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کا مہینہ ربیع الاول ہماری قمری هجری تقویم کا ہرگز ( بار بار دہرائیے ) ہرگز نہیں بلکہ اس دور میں رائج نسی والی ( قمریہ شمسی تقویم) کا مہینہ ہے. خالص قمری تقویم کا مہینہ رمضان المبارک ہے جو تیسری صدی کے نامور ماہرانساب و ایام زبیر بن بکار نے باکل درست بیان کیا ہے. لیکن اسے قول شاذ سمجهتے ہوئے ناحق نظرانداز کردیا گیا. اس سے یہ معلوم ہوا کہ مشاجرات صحابہ کرام میں توقف و سکوت یا فریقین کو مصیب ( حق بجانب) قرار دینے کا موقف اہل سنت والجماعت میں سے ایک قلیل جماعت کا بهی ہو تو بهی یہی موقف اقرب الی الصواب ہے.
حضرت موسی علیہ السلام نے اپنے بڑے بهائی حضرت هارون علیہ السلام کو داڑهی سے پکڑ کر اپنی طرف کهینچا تو یہ دونوں حضرات وصف نبوت میں باہم شریک ہیں اور حضرت موسی علیہ السلام کا مقام و مرتبہ حضرت هارون علیہ السلام سے بلند ہے لیکن دوسروں کو ہرگز حق نہیں پہنچتا کہ وہ حضرت هارون علیہ السلام کی توهین پر اتر آئیں بعینہ اسی طرح حضرت علی اور حضرت معاویہ ( رضی اللہ عنهما) وصف صحابیت میں شریک ہیں . حضرت علی کرم اللہ وجہ کا مقام و مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بلند ہے . اگر انہوں نے حضرت معاویہ اور ان کے ساتهیوں کو باغی یا مخطی قرار دیا تو بعد والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ حضرت معاویہ کے متعلق یہی رویہ اختیار کریں.خصوصا جبکہ بعد والے اپنے علم کے اعتبار سے مجہول العاقبہ اور صحابہ کرام معلوم العاقبہ ہیں.
خلفائے راشدین کی خلافت کے علی منهاج النبوہ ( par excellentt) کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس کے بعد خلافت راشدہ ہو ہی نہیں سکتی . خلافت تو ایک طرف رہی ملوکیت بهی راشدہ ہوسکتی ہے. اللہ تعالی نے بنی اسرائیل پر اپنے جو احسانات بیان فرمائے ان میں یہ بهی ہے ؛- وجعلکم ملوکا۔ملوکیت نعمت جبهی ہوسکتی ہے جبکہ یہ ملوکیت راشدہ ہو. تمام صحابہ کرام راشد تهے. حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت بهی راشدہ تهی اور آپ خلیفہ راشد تهے. اگر اسے ملوکیت عاضہ ( کاٹنے والی) بهی کہا جائے تو اس معنی میں درست ہے کہ یہ مفسدین اور سبائیوں کے لئے عاضہ ہی تهی. خلفائے راشدین تقوی کے انتہائی بلند مقام پر فائز ہونیکی وجہ سے کسی مشتبہ شخص پر ہاتهہ ہی نہیں ڈالتے تهے ، دیکهئیے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے قاتل فیروز لوءلوء مجوسی نے ایک انداز سے قتل کی دهمکی دے ڈالی تهی ، اسی طرح ابن ملجم خارجی نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کو اپنے انداز میں قتل کی دهمکی دے ڈالی تهی لیکن لوگوں کے کہنے کے باوجود دونوں خلفائے راشدین نے انہیں اپنی گرفت میں یہ کہتے ہوے نہیں لیا کہ انہوں نے ابهی کسی جرم کا ارتکاب تو نہیں کیا . اس طرح کی مراعات ان مفسدوں کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہرگز دینے کے لئے تیار نہیں تهے ، اسی لئے ان کی حکومت ان مفسدوں کے لئے ملوکیت عاضہ ہی ثابت ہوئی.
تحریر مولانا ظفر احمد