اسلامی تاریخ پر لکھی گئی کوئی کتاب جب کسی مسلمان قاری کے مطالعہ میں آتی ہے تو وہ قرون اولی اور صحابہ کی زندگی کے واقعات کو اسی حسن ظن اور عقیدت کے ساتھ پڑھنا شروع کرتا ہے جو قرآن و حدیث کے ذریعے اس کے ذہن میں بیٹھی ہوتی ہے، لیکن آہستہ آہستہ جب تاریخ اپنا رنگ دکھانا شروع کرتی ہے اور وہ صحابہ کے کردار کو مجروح کرنے والی روایات پڑھتا ہے تو پریشان ہو جاتا کہ یہ کیسے خیرالقرون کا تذکرہ ہے؟ قرآن نے تو ہمیں بتاتا ہے کہ تم نے ایمان لانا ہے تو اس طرح ایمان لاؤ جس طرح یہ صحابہ لائے تب تمہار ا ایمان قابل قبول ہوگا، اور تاریخ انہیں بے ایمان ثابت کررہی ہے ۔ ۔ قرآن وحدیث انکی صداقت، شجاعت، اخلاص، سچاہی، ہدایت یافتہ ہونے کے سرٹیفکیٹ دیتے نظر آتے ہیں (اولئک ھم الراشدون، مفلحون، صدیقون وغیرہ)اور تاریخ ( نعوذ بااللہ) انہیں چور ، ڈاکو ، مکار، منافق اور بد اخلاق ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ یہ باتیں اسکے لیے بہت عجیب اوراسکی توقعات کے بالکل برعکس ہوتی ہیں۔ شاید اس میں قصور کتاب کے فرنٹ پیج پرتاریخ کے ساتھ استعمال کیے گئے لفظ ‘اسلام’ کا بھی ہوتا ہے جو قاری کو شروع میں ہی اعتماد دلا دیتا ہے اور وہ اسے ایک اسلامی کتاب کے جذبے سے پڑھنا شروع کرتا ہے لیکن پھر دروغ گو راویوں کی ملاوٹ، واقعہ نگاری اور جذبات نگاری اسے کنفیوز کردیتی ہے.
یہاں یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ جب آپ کے بقول تاریخ اسلامی اتنی ہی مستند و محفوظ اور اعلی ہے تو پھر یہ ملاوٹ کی باتیں کیوں ؟
تاریخ کے موضوع پر تفصیلی بات سے پہلے اس سوال کی وضاحت ضروری ہے۔
تاریخ کے دو حصے ہیں ۔ تاریخ کا ایک حصہ وہ ہے جو حضرات صحابہءکرام رضی اللہ عنہم کی ذوات برکات کے متعلق ہے اور دوسرا حصہ اس دور اور اس سے پہلے اور بعد کے ادوار کے قوم قبیلوں، انکے علاقوں، رسم و رواج، تہذیب و تمدن کے متعلق ہے۔
پہلے حصے کو دیکھیں تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور کے اختتام سے شورش اور فساد شروع ہوتا ہے۔ کئی مذہبی، قومی اور مسلکی گروہ پیدا ہوتے ہیں ..سیاسی زورآزمائ اپنے عروج پراوردمشقی کوفی اختلاف سر چڑھ کر بولتا نظر آتا ہے ۔۔ پھر اموی دور شروع ہوتا ہے ۔۔ عباسی علوی اسکے خلاف جدوجہد کرتے ہیں ، امویوں کی حکومت کے بعد عرب سے اخراج ہوتا ہے عباسی حکمران بنتے ہیں اور پھر اس دور میں تاریخ کی تدوین کی ابتداء ہوتی ہے۔…
اس سارے انتشار فرقہ بازی نے تاریخ پر بھی اپنا اثر چھوڑا۔روایت کرنے والے جو صحابہ کے مخالف فرقوں جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے اپنی روایات میں صحابہ کے دور کے واقعات کو اپنے اختلافِ فکر کے زیراثر لاکر اپنی اصل شکل سے بگاڑ کر ایک خاص نہج پر ظاہر کیا . بہت سارے گمراہ عقائد و افکار کے حامل راویوں نے قرونِ ثلاثہ سے متعلق واقعات کو اپنے مذہبی رجحانات و نظریاتی افکار کے تحت حقائق کو نظر انداز کرکے اس طرح بیان کیا کہ حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین کے بارے میں بہت سارے مطاعن پید ہوتے چلے گئے۔
اس زمانے کے احوال میں معمولی نظر کرنے والا بھی جان لیتا ہے کہ اسوقت تین طرح کے لوگ اٹھے تھے، جنکا حصہ اس زمانے کی تاریخ کی تدوین میں پڑا..
1۔ایک طبقہ تو وہ تھا، جو بنی امیہ کی تعریف میں لگا اور یوں اپنی دال روٹی حلال کردی..
2۔دوسرا وہ جو تدوین ِتاریخ کو تب تک نامکمل سمجھتا رہا،جب تک کہ اس میں ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنہم بلکہ سارے بنی عبدشمس کو نہ لتھاڑ دے..
3۔تیسرا طبقہ اہل انصاف کا ہے، جنہوں نے یہ خیال کیا کہ انصاف یہ ہے کہ کسی مسئلہ کے بارے میں ہر مذہب اور مسلک کی روایات کو جمع کیا جائے..وجہ اس کی کچھ بھی ہو، بہرحال رطب ویابس جو پہلے دو فکری جماعتوں نے الگ لگ جمع کیا تھا، اس تیسری جماعت نے سے جمع کرکے پیش کردیا..مثلاً طبری، ابن عساکر اور ابن کثیر رحمہم اللہ..وغیرہ..، جنہوں نے ایک طرف لوط بن یحییٰ الشیعی کی روایات لی، تو سیف بن عمر العراقی کی روایات کو بھی ساتھ ذکر دیا..
اس ٹولے نے ان واقعات کے راویوں کے نام بھی ساتھ ساتھ ذکر کردئے…، تاکہ حق کا متلاشی راویوں کی تحقیق کر کے حق تک پہنچ سکے..اب یہ جو چوچو کا مربہ ہم تک پہنچا، جس میں ہر سیاہ وسفید کو جمع کیا ہے، یہ ساری سرگزشت تاریخ نہیں کہلا ئ جا سکتی..یہ تو ایک مادہ ہے، قابل تحقیق اور تفحص، جس میں سے ہم نے چن کر اپنی تاریخ نکالنی ہے.کرید کر، کھود کر…..کہ موتی آسانی سے نہیں ملا کرتے..
تاریخ کا دوسرا حصہ جو زمانے اور تمدن کے احوال کے متعلق ہے۔۔ مسلم مورخین نے پہلے اور بعد کے زمانوں،قوم ،قبیلوں ، علاقوں اور انکے رسم و رواج، تہذیب و تمدن کے متعلق جو کچھ لکھا اور جس انداز میں انفارمیشن اکٹھی کی اور ترتیب دی وہ واقعی لائق تحسین ہے ۔ کسی بھی دور، اسکی معاشرت وغیرہ کے متعلق اتنی زبردست انفارمیشن اکٹھی کرنا اور پھر اس کا اس بہترین اور جامع انداز میں تذکرہ انہی کا خاصہ تھا …۔تاریخ کے اس دوسرے حصے کے متعلق ہی کہا جاتا ہے کہ یہ ہمارے لیے فخر کی چیز ہے۔
پہلا حصہ جو صحابہ کے متعلق ہے وہ مخالف فرقوں کی دشمنیوں، نفرتوں کی وجہ سے متاثر ہوا اس لیے ہم اس حصہ کی تاریخی روایت پر اعتماد کرنے سے پہلے ان روایات کی تحقیق ضروری سمجھتے ہیں ۔ اگلی تحاریر میں تاریخ کے اس حصے پر تحقیقات پیش کی جائے گی۔