تاریخ اسلام کو عقائد کی بنیاد نا بنائیے

تاریخ کا مطالعہ کیسے کیا جائے؟ اس پر ہم پہلے کچھ تحاریر پیش کرچکے ہیں ، یہ تحریر تاریخی مطالعہ کے متعلق ایک بہت جداگانہ اور دلچسپ نقطہ نظر پیش کرتی ہے۔ نوٹ ہمارا رائٹر کی ہر بات سے متفق ہونا ضروری نہیں ۔ ایڈمن

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

سوشل میڈیا پہ( بالخصوص محرم الحرام کے دنوں میں)، تاریخ اسلام کی بابت، کچھ گمنام پرانی تاریخی کتب کے بوسیدہ اوراق شئیر کئے جاتے ہیں، کچھ جدید “دانشوروں” کے اقوال پوسٹ ہوتے ہیں اور کچھ “اتحادِ امت” کے نام سے لیکچرز کے ویڈیو کلپ لگائے جاتے ہیں۔ اور ان سب کی بنیاد، محض مشکوک تاریخی افسانے ہوتے ہیں۔ بہرحال، نوجوان نسل، ان حوالوں سے متاثر ہوکر، صحابہ کے کردار بارے بدگمان ہوجاتی ہے۔ صحابہ کے کردار کا مشکوک ہونا، گویا پورے دین کا مشکوک ہونا ہے۔ دوستوں کا اصرار تھا کہ درست اسلامی تاریخ پہ کچھ لکھا جائے۔ اسکی بجائے، خدا نے خاکسار کے ذہن میں ڈالا کہ کیوں نہ نوجوانوں کو خود تاریخ کا صحیح تجزیہ کرنے کا طریقہ بتایا جائے جس سے وہ خودحق بات تک پہنچ سکیں اور اسلام کے اولیں شاہدین بارے بدگمان نہ ہوں۔ یہ کام ایک الگ کتاب کا متقاضی تھا۔ الیکشن اور سیاست کی دلداہ قوم میں چند ہی ہونگے جو ایسے موضوعات کے لئے وقت نکالیں گے، پس کافی اختصار سے کام لیتے ہوئے، چند اقساط میں بات سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ اہل ذوق سے گذارش ہے کہ یا توہر قسط کو اپنی اپنی وال پہ کاپی پیسٹ کریں(زیرنظر پوسٹ سمیت)یا پھر آدھی ادھوری بات لے کرشیئر نہ کریں کیونکہ اس سے سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔(سلیم جاوید)

خاکسار کا مقصد آپکو تاریخ اسلام کے واقعات سنانا نہیں بلکہ تاریخ پڑھنے کے اسلوب سے متعارف کرانا ہے۔میں نے یہ مضمون اپنے ان دوستوں کیلئے لکھا ہے جو عقیدہ سے زیادہ لاجک اور منطق کو اہمیت دیتے ہیں۔جہاں تک”ہم عقیدہ” دوستوں کا تعلق ہے تو ان سے صرف یہی عرض کرنا کافی ہوگا کہ جب بھی” اسلامی تاریخ” پڑھیں تو اسے ایک مجرم سمجھ کر، عقل کے کٹہرے میں پیش کر کے پڑھیں،جبکہ اسکے بالمقابل، جب بھی قرآن کو پڑھیں تو اپنی عقل کو مجرم سمجھ کر، قرآن کی حقانیت کی تصدیق کرتے پڑھیں،چاہے عقل مانے یا نہ مانے۔

آمدم برسرموضوع!

آپکو جب بھی تاریخ اسلام کا کوئ واقعہ پڑھنے سننے کو ملے تو ان کو چار اہم “ٹولز” TOOLS کے ذریعہ پرکھا کریں۔اس چھلنی سے گذارنے کے بعد، آپ واقعات کو حقیقی انداز میں سمجھ سکیں گے۔تاہم، ان ٹولز پر بات کرنے سے پہلے، اسلامی تواریخ بارے ایک مختصر تبصرہ بطور تمہید آپکے سامنے رکھنا مناسب سمجھتا ہوں۔

تاریخِ اسلام اور پاکستانی صحافت:

اسلامک ہسٹری اور موجودہ پاکستانی صحافت میں کوئ خاص فرق نہیں کہ یہاں بھی ” خبر” کو”وقوعہ” کی بنیاد پر نہیں بلکہ”پاپولیرٹی” کی بنیاد پہ رپورٹ کیا جاتا ہے۔ (جیسے چند سال قبل، ہمارا میڈیا ،لال مسجد میں ہزاروں بچیوں کی جلی لاشوں کو رپورٹ کرتا رہا ہے۔ہوسکتا ہے کہ سو سال بعد، “جنگ” اخبار کی یہ خبر” تاریخی حوالہ” بن جائے اور اگر کوئ ان مقتول بچیوں کا نام و پتہ پوچھنے کی منطقی جسارت کرے گا تو گستاخ یا وہابی قرار پائے)۔ہمارے اکثر اسلامی تاریخ نویس حضرات ،موجودہ دور کے پاکستانی اینکرز سے مختلف نہیں تھے لیکن اپنے وہ بھی بڑے ناموں کی وجہ سے اب “سند”قرار پاچکےہیں۔(اس لئے میں نے ہسٹری پڑھنے کیلئے چار ٹولز استعمال کرنے کی درخواست کی ہے)۔

میری اس بات کو مثال سے سمجھنے، حال کا ایک واقعہ یاد کیجئے۔میڈیا کا معروف نام ،ڈاکٹر شاہد مسعود، کروڑوں لوگوں کو اپنے کسی “سورس” کے واسطے سے” 35 پنکچروں” کی کہانی سناتا رہا لیکن جب عدالت میں جھوٹ کا پول کھلا تو ڈھٹائ سے کہہ دیا کہ میں نے تو فلاں سے سنا تھا اس لئے بیان کردیا۔لیکن مستقبل کا نوجوان، ڈاکٹر شاہد مسعود کا حوالہ دیتے ہوئے کہے گاجناب! یہ آپکی صحافت اتنا بڑا نام ایک بات کہہ رہا ہے تو کیا وہ جھوٹ بول سکتا ہے؟ایسے ہی بعض تاریخ نویسوں کے نام، کچھ زیادہ ہی معتبر قرار پاچکے ہیں۔پس سمجھ لیجئے کہ جیسے آج حکومت وقت کو”ہربرائ کی جڑ” پینٹ کیا جاتا ہے کیونکہ اس سے ریٹنگ بڑھتی ہے، یہی حال،پرانے تاریخ دانوں کا بھی تھا کہ ریٹنگ یعنی عوام کو خوش کرنے کے چکر میں، حقائق کو فسانہ عجم کی بھینٹ چڑھاتے گئے۔

اسلام کی اولیں حکومت کی اپوزیشن کون تھی؟ یہود( کہ جن کو جلاوطن کیا گیاتھا)۔دراصل،حضرت عمر کے دور تک یہ واضح ہوگیا تھا کہ اسلام کے ساتھ مسلح مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت عثمان کے دور سے اپوزیشن نےاپنی سٹریٹیجی تبدیل کی اور مسلمانوں کواندر سے توڑنے کا پروگرام بناکر، ان میں تفریق پیدا کرنے کے لئے، پراپیگنڈے کا سہارا لیا تھا۔

آپ کو اسلامی مورخین میں اکثر عجمی ملیں گے یا چند وہ عرب مصنف جو حجاز سے باہر کے ہونگے کیونکہ حجاز کے عرب، عالم کفر میں بھی کبھی جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ (یوں بھی عرب قبائل کی باہمی دشمنی ظاہر و باہر ہوتی تھی، وہ لمبی سازشیں نہیں کیا کرتے تھے)۔ایسی لمبی پلاننگ کرنا جیسے” دور دراز علاقوں میں حضرت عثمان کے خلاف جھوٹے واقعات پہ مبنی خفیہ خطوط کا پھیلانا وغیرہ، صرف یہودی ذہنیت کا کام تھا۔۔(نبی اکرم کے ہوتے بھی یہود نے جنگ خندق کے موقع پر اپنی اس صلاحیت کا مظاہرہ کا تھا)۔اسی یہودی ذہنیت نے اسلام کی جڑ کاٹنے کے لئے تاریٰخ کو سبوتاژ کیا۔

ابتدائ عرب لوگ، لکھنے پڑھنے والے نہ تھے، انکو اپنے حاٖفظے پر بھروسہ ہوتا تھالہذا، خود صحابہ نے تو تاریخ نہیں لکھی۔لکھنے پڑھنےوالے عجمی لوگ نمودار ہوئے اور ان میں اکثر کی اسلام سے وابستگی مشکوک تھی جنکا پہلا حملہ، مرکزی حکومت سے عامتہ الناس کو بدظن کرنا تھا۔شومئ قسمت، علی و معاویہ کی باہمی لڑائ میں ظاہری طور پر امیر معاویہ کا پلا بھاری رہا پس اکثر تاریخی کتب میں امیر معاویہ کو بہت برا آدمی پینٹ کیا گیا(حالانکہ امیر معاویہ اس عمرفاروق کی سلیکشن تھی جو انصاف کی خاطر، اپنے سگے بیٹے کو بھی سزائے موت دے دیتا ہے)۔مجھے یقین ہے کہ اگر حضرت علی جیت جاتے اور حکومت بنا لیتے تو یہ دشمنان اسلام، حضرت علی کی مرکزی حکومت کے خلاف ایساہی لٹریچر تیار کرتے اس لئے کہ ان کا مقصد صرف مسلمانوں میں نفاق پھیلانا تھا۔

ظاہر ہے کہ ہر دور میں حکومت مخالٖف بات کو فطرتا” عوامی پذیرائ ملا کرتی ہے آج بھی دیکھ لیں، وہ اینکر اور صحافی عوام میں زیادہ مقبول ہوگا جو حکومت کے بخئے ادھیڑتے (حکومت، اول تو اپنی طاقت کے زعم میں ، اس پراپیگنڈے کی پرواہ نہیں کرتی جسکی وجہ سے، الزام حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے، دوسرے اگر حکومت اپنی صفائ دینے کی کوشش بھی کرے تو عوام لفٹ نہیں کراتے)۔ہر دور میں، اپوزیشن کی بات کو ہی عوامی پذیرائ ملتی ہے پس بنو امیہ کے خلاف پراپیگنڈہ آسان تھا ،رہی سہی کسر واقعہ کربلا نے پوری کردی اور فتنہ سازوں نے اس دلدوز واقعہ کی آڑ میں صحابہ کے کردار پہ نامعقول جرح شروع کردی۔

جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو میرے لئے ،صحابہ کے مقام کا تعین کرنے کا پیمانہ قرآن ہے، نہ کہ ہسٹری۔میری درخواست فقط اتنی ہے کہ سانحہ کربلا کی آڑ میں، جمیع صحابہ کی توہین نہ کی جائے(البتہ، یزید کو صحابی ثابت کرنے کی کوشش بھی نہ کی جائے)۔خود کو مسلم سیکولرگردانتے ہوئے دوستوں کو یاددہانی کراؤں گا کہ “سیکولرزم” میں اگر کسی شخص کیلئے، عقیدہ وذات ورنگ و صنف کی بنا کر تقدیس قبول نہیں ہے تو انہی چیزوں کی بنا پر کسی کی تذلیل و تحقیر بھی روا نہیں ہے –

لہذا،ایک سیکولر شخص بھلے تاریخ اسلام کو زمینی حقائق اورمروجہ منطق کے طور پر سٹڈی کرے ،مگر اسکو گروہ صحابہ کی تحقیر کرنے کا ہرگز حق نہیں(سیکولرز ، کسی اقلیتی گروہ کی تحقیر کو برا خیال کرتے ہیں تو دنیا کی کل آبادی کے چوتھائ حصے کے مذہبی اکابرین کی اہانت کیونکر گوارا کرسکتے ہیں۔اپنے سیکولرزم پر مکرر غور کیجئے گا)۔

اس ضروری تمہید کے بعد، اگلی قسط میں انشاء اللہ، ان چار ٹولز کا بیان شروع ہوگا جسکی مدد سے آپ کسی تاریخی واقعہ کی حقیقت، اہمیت اور درست حیثیت کا اندازہ کرسکیں گے۔اسکے بعد آپ رائے قائم کرنے میں آزاد ہیں ،چاہے وہ مسلمانوں کے سواد اعظم کی جانب ہو یا دوسری جانب۔

اوپر عرض کیا تھا کہ اگر آپ چار ٹولز کی عینک لگا کر تاریخ پڑھیں گے تو امید ہے بہت سی الجھنیں رفع ہوجایں گی۔اس قسط میں پہلے ٹول کی وضاحت کی جائے گی۔

1۔ پہلا ٹول”عام انسانی منطق”

تاریخ کو سمجھنےکاپہلاٹول،”انسانی منطق” ہے(اس لئے انسان کوعقل کی نعمت سے بہرہ ور کیا گیا کہ اسے استعمال میں لائے۔ (اولی الالباب)۔

آپ ہر وقت یہ ذہن میں رکھیں کہ “گذشتہ تاریخ” پڑھنے کا فائدہ ہی کیا ہے؟ آپکو معلوم ہونا چاہئے کہ بہتر معاشرے کی تشکیل کیلئے ماضی کی غلطیوں کا ادراک ضروری ہے – ماضی کی غلطی کی درست نشاندہی کیلیے، لازم ہے کہ ماضی کو واقعہ صحیح رپورٹ کیا گیا ہو۔ چونکہ ہم عام ہسٹری نہیں پڑھ رہے بلکہ تاریخ اسلام پڑھ رہے ہیں تو واقعات کے تجزئیے میں اپنے لاجک کے استعمال کے بعد ہم قرآن کو بھی دیکھیں گے ۔اگر تاریخ کا قرآن و حدیث سے بظاہر تعارض نظر آئے تو ان میں لوجیکل تطبیق کی پوری کوشش کریں گے۔ اگریہ نہ ہوسکے تو پھر آپ کی چوائیس ہے کہ ہسٹری کو چھوڑ دیں یا عقیدہ کو ۔مناسب تو پھر بھی یہی ہوگا کہ قرآن کے مقابل ہسٹری کو رد کیا جائے کیونکہ قرآنی اخبار کی حفاظت میں غیرمعمولی احتیاط برتی گئ ہے۔(یہاں قرآن کو بطور عقیدہ کی بجائے” سٹینڈرڈہسٹری ریفرنس” لیا جائے)۔

پہلے عرض کرچکا ہوں کہ میرا مقصود، آپکو تاریخی واقعات کی تٖفصیلات سے نہیں بلکہ تاریخی تجزئے کے طریقہ کار سے آگاہ کرنا ہے پس منطق اورقرآن کی تطبیق کیسے ہوتی ہے؟ اس کے لئے ایک عام معروف تاریخی واقعہ کو مثال بناتے ہیں:

1۔ ہم تواتر سے سنتے ہیں کہ اسلام سے پہلے عرب لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔اس بارے میں تاریخ میں یہ روایات بھی ہیں کہ ایک صحابی نے اپنی بچی کو زندہ دفن کرنے کا دلدوز واقعہ حضور کو تفصیل سے سنا یا تو سرکار ؑ رو پڑے۔(کہ میں اسکے لئے قبر کھود رہا تھا، وہ معصوم اپنے دوپٹے سے میرا پسینہ پونچھ رہی تھی وغیرہ)

2۔حضرت عمر کے سخت دل ہونے کے ثبوت میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ لوگ، اپنی بچیوں کودفن کرنے، انکی خدمات حاصل کرتے تھے۔

3۔ مکہ میں ایک قبرستان کے متعلق یہی کہا جاتا ہے کہ یہاں زندہ درگور کرنے والی بچیاں دفن ہیں۔

آخر میں ان سب تاریخی روایات سے یہ نتیجہ نکالاجاتا ہےکہ عربوں میں عورت ایک گھٹیا ترین چیز گنی جاتی تھی (گویا اس تاریخی واقعہ کا ماحصل، اس دور میں عورت کی حیثیت کا تعین کرناہوا)۔آیئے کہ اس عام واقعہ کو منطق کی سان پہ پرکھ کر دیکھتے ہیں کہ کیا ہم درست نتیجہ تک پہنچے ہیں؟

1۔ اگر عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کرتے تھے تو پھر عرب میں اتنی عورتیں کہاں سے آئیں کہ ایک آدمی 4،4 شادیاں کرلیتا تھا؟اور اگر یہ دفن کرنا، عام رواج یا عزت کی بات تھی تو سرداران مکہ، سب سے پہلے یہ کام کرتے لیکن انکی بیٹیاں تو زندہ تھیں۔ابوسفیان کی بیٹی، حضور کی بیوی بنی۔

2۔معصوم بچی والے واقعہ میں دوپٹہ کا ذکر ہے۔عرب کی بڑی عورتوں میں دوپٹے کا رواج نہیں تو بچی کا دوپٹہ کہاں سے آیا؟معلوم ہوتا ہے،کسی نے اسلام کی خوبیاں بتانے، نیک نیتی سے ایک متاثرکن واقعہ تصنیف کیا ہے۔

3۔ حضرت عمر، اگر اس کام کے لئے مشہور تھے توانکی بیٹی، سیدہ حفصہ کیسے بچ گئ؟ جنکی حضور سے شادی کے وقت 27 سال عمر تھی؟یعنی اسلام سے پہلے پیدا ہوئ تھیں۔

4۔جہاں تک قبرستان کا تعلق ہے تو اسکی کوئ کتابی سند نہیں کہ یہ اسی کام کے لئے مخصوص تھا۔

5۔اسکے علاوہ، اگر یہ کام اتنا ہی عام تھا تو تقریبا سوالاکھ صحابہ میں سے اور کس کس نے بیٹی دفن کرنے کا اقرار کیا؟ وغیرہ وغیرہ

جب واقعہ منطقی چھلنی سے گذراتو مشکوک ہوگیا اور جب اصل واقعہ ہی مشکوک ہوگیا تو اسکی بنیاد پر اخذکردہ نتیجہ (یعنی عرب میں عورت گویا جانور سے بھی بدتر تھی) بھی بے حیثیت ہوگیا بلکہ مذکورہ نتیجہ کو تو خود تاریخ ہی سے رد کیا جاسکتا ہے۔

تاریخ ہی بتاتی ہے کہ عرب کے خاندانی لوگوں میں زنا کرنا ایک عار تھا۔(فتح مکہ کے موقع پر ہندہ کی گفتگو ملاحظہ کیجئے)۔اگرچہ عرب مرد، عورت کیلئے ترستے پھرتے تھے، گاہے زنا بھی کرلیتے تھے مگر کبھی کسی نے عورت کا”ریپ” نہیں کیا تھا۔اکیلی عورت لمبے سفر پہ جاتی تو احتراما” ساتھ ہوجاتے تھے۔بلکہ عورت ایک قیمتی چیز تھی جو منہ مانگے مہر پر اپنا شوہر پسند کرتی تھی ۔ مطلب یہ کہ عربوں میں عام طور پر، عورت، محٖفوظ اور قابل عزت تھی۔( ہر وہ معاشرہ جہاں ہم جنس پرستی نہیں ہوگی، وہاں عورت کی عزت و قیمت ہوگی)۔

مذکورہ بالامنطقی بحث کے بعد، بطور’ خالص سیکولر’ میرے لئے اس واقعہ کا نتیجہ “مٹی پاؤ” نکلے گا مگر بطور’مسلم سیکولر’ میرے لئے یہ اڑچن ہے کہ یہاں قرآن بطور ہسٹری کے سامنے آجاتا ہے جو ہمکو دفن شدہ بچی کا استغاثہ سناتا ہے( بائی ذنب قتلت)۔یہ آیت بتاتی ہے کہ واقعہ ہواہے۔منطق بتاتی ہے کہ افسانہ ہے۔لہذا ہم اس آیت کی اور اپنی مذکورہ منطق کی تطبیق کرنے کی کوشش کریں گے۔

آپ نے سنا ہوگا سندھ کےوڈیرے اپنی جاگیر کو تقسیم سے بچانے کےلئے بہنوں بیٹیوں کی قرآن سے شادی کردیتے ہیں اس کے بعد یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ سندھ کے جاگیرداری نظام میں عورت پاؤں کی جوتی ہے۔تو کیا سندھ کےجاگیردار واقعی ایسا کرتے ہیں؟اگر ایسا ہے توپھر بے نظیر سے لیکر فریال تالپور تک عورتیں کہاں کی ہیں؟اصل بات یہ ہے کہ شاذونادر کسی نے ایسا کیا ہے مگر چونکہ “قرآن سے شادی” والی رسم ایسی عجیب و منفرد ہے جو اور کسی علاقے میں ہے’ نہیں تو کہا گیا کہ سندھ میں یوں”بھی” ہوتا ہے۔وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ،”بھی” ہٹ گیا تو جملہ ہوگیا کہ سندھ میں یوں ہوتا ہے (اور اگر کسی نے اعتراض نہ کیا تو”بھی” کی جگہ”ہی” لگ جائے گا کہ سندھ میں یوں ہی ہوتا ہے)۔اسکے بعد سندھیوں کے متعلق جو آراء قائم ہونگی، وہ ظاہر ہیں۔آپ ذرا اس مثال کی اب عربوں کی مذکورہ بالا رسم پہ تطبیق کیجئے۔!

لہذا، سندھ میں “قرآن سے شادی” اور عرب میں “زندہ بچی کا دفن” ایک جیسا شاذ واقعہ ہے۔اب ایک سیکولر مسلم کیلئے اگلا سوال کھڑا ہوتا ہے کہ ایک شاذ واقعہ کو قرآن نے اہمیت کیوں دی ہے؟تو قرآن پہ غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن ، عورت ذات کی کمزوری کے پیش نظر، بعض فردی معاملات میں بھی انکا ایک مضبوط وکیل بن کر کھڑا ہوتا ہے،چاہےحضرت خولہ کاواقعہ ہو(28 پارہ کا شروع)،حضرت عائشہ کی بات ہو(سورہ نور)، حضرت مریم کا قصہ ہو یا اس زندہ درگور بچی کی بات۔(یہ ہے قرآن کا حقوق نسواں بارےرویہ )۔

یہاں تک کے منطقی آپریشن سے مندرجہ ذیل صورتحال بنے گی۔

ایک خالص سیکولر کا فوکس صرف ہسٹری ہوگی اور اس پر جرح کے بعد اسکے لئے اس واقعہ پہ مزید غوروفکر محض وقت کا زیاں ٹھہرے گا۔

ایک خالص مذہبی کا فوکس صرف قرآن ہوگا اور وہ اس آیت کی تجوید، فضائل یا پھر اسکا کسی تعویذ میں استعمال ہی سوچا کرے گا۔

ایک فالتو آدمی (مذہبی یا غیر مذہبی) کا فوکس فقط داستان سرائ پر ہوگا اور اسے خود بھی پتہ نہیں ہوگا کہ کیوں وہ گھنٹوں اس پہ رقت آمیز تقریر کیا کرتا ہے۔

تاہم مسلم سیکولر(غیر جانبدار مسلم)، تاریخ اور قرآن کی تطبیق کرے گا اور اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ کسی بھی زمانے میں اگر صنف نازک پر ظلم و تعدی کیا جائے تو اسکے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی پہلی ذمہ داری ایک مسلمان پر عائد ہوتی ہے۔

برادرن محترم!

مذکورہ بالا کیس کو صرف پہلا ٹول سمجھنے کیلئے بطور مثال لیا گیا ہے۔ اگر آپ اسی طرح، ہراسلامی تاریخی واقعہ کو، عام لاجک اور قرآن کے ترازو میں برابر تولتے جائیں گے تو کافی سارارطب ویابس یہیں نکل جائےگا۔

اسکے بعد، اگلے تین ٹولز کو باری باری استعمال کیا جائے تو شاید تاریخی افسانہ وحقیقت میں امتیاز کرنا آسان ہوجائے۔

2۔ دوسرا ٹول”متعلقہ زمانے سے آگاہی”

آپ اگرتاریخ اسلام کا مطالعہ کسی نتیجہ تک پہنچنےکےلئے کر رہے ہیں تو کسی واقعہ کا سیرئس تجزئہ کرنے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لیں کہ “زیر بحث واقعہ کو متعلقہ زمانے کے سماج نے کتنا سئریس لیا تھا؟”۔

(البتہ اگر اسلامی تاریخ سے محض، داستان طرازی کا لطف اٹھانا ہے تو بہتر ہے کہ” داستان امیر حمزہ” پڑھ لی جائے)۔

اپنی اس بات کو سمجھانے کے لئے،اسلامی تاریخ سے ،ایک ہی شخصیت سے متعلق دو تاریخی واقعات درج کروں گا۔

یہ حضرت عائشہ ہیں۔

ان سے منسلک ایک واقعہ، ہماری موجودہ سوسائٹی کےلئے عجیب ہےمگر اسوقت نہیں تھا۔ (چھوٹی عمر میں شادی کرنا)۔ انہی کا دوسرا واقعہ، آجکے کلچر میں، نارمل ہے(اور اس زمانے میں بھی اتنا انوکھا واقعہ نہیں تھا) مگراس کی وجہ سے مدینہ کی سوسائٹی میں بھونچال آگیا تھا۔ (تہمت کا قصہ)۔

اب آپ بتائیے، ان دو واقعات کی تاریخ پڑھتے ہوئے، آپ کس واقعہ کےلئے، اپنا وقت اور انرجی استعمال کریں گے؟

ہونا یہ چاہیئے کہ جس واقعہ کو اس زمانے کی سوسایٹئ نے سیریس لیا، ہم بھی اسی پہ زیادہ ریسرچ کریں( یعنی حضرت عایشہ پہ تہمت کا قصہ ) مگر ہمارے پاس ضایع کرنے کو وقت اور انرجی بہت ہے لہذا ہمارے مباحث،ابھی تک پہلے واقعہ پر چل رہے ہیں(کہ شادی کے وقت عایشہ کی عمر کیا تھی؟)۔

بھائ، متعلقہ سوسائٹی نے اگر عائشہ کی عمر کو اس لئے سیریس نہیں لیا تھا کہ اس زمانے میں یہ کوئ ایشو ہی نہیں تھاتو ہم کو بھی اس کی تفصیلات پہ سر کھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ دوسرا ایشو، ایسا تھا جسکے لئے قرآن کو مداخلت کرنا پڑی تھی۔

برسبیل تذکرہ، آپ کبھی اس پہ سوچیں کہ حضرت عایشہ کی صفائ میں قرآن کیوں اترا تھا؟

اسلئے نہیں کہ وہ حضور کی بیوی تھیں۔

قرآن نے ہی بتایا کہ ایک پیغمبر کی بیوی نے خیانت کی تھی(چاہے جس حد تک بھی کی)، پیغمبروں کی اولاد،دین سے باغی ہوئ تھی مگر اس میں پیغمبر کا کیا قصور؟

بات یوں ہے کہ گذشتہ پیغمبروں کے جانشین، دعوتِ دین کے مسئول نہ تھے مگرچونکہ صحابہ کو، نبی کی مسند سنبھال کر، دین کی بنیاد بننا تھا تو صحابہ کے کردار کا دفاع بھی ضروری تھا۔ ابن ابی جیسے منافق کی ایک شکایت، ایک نوجوان صحابی، حضرت زید، نے لگائ۔ دونوں کی عمروں کے تفاوت کی وجہ سے لوگ، زید کی بات کو کمزور کہنے لگے تو زید کی حمایت میں قرآن اترا۔ کیوں؟ اس لئے کہ اگر صحابی کی بات کچی ثابت ہوجاتی تو دین کی بنیاد ہل جاتی۔ اسی طرح، حضرت عایشہ کے واسطے سے دینی علم کا جتنا بڑا حصہ نقل ہونے والا تھا (جو علم خدواندی میں طے شدہ تھا)، اس لحاظ سے اس ہستی کے کردار کی حفاظت ضروری تھی۔ (ورنہ دین کا بڑا حصہ مشکوک ٹھہرتا)۔

اسلئے عرض کیا کرتا ہوں کہ تاریخ کی آڑ میں صحابہ کی کردار کشی نہ کی جائے کیونکہ اس گروہ کے ہر فرد کے ہر فعل پہ خدا خود ہمہ وقت نگران رہتا تھا۔ 3سینئر صحابہ کا کردار، جنگ تبوک میں منافقین جیسا ہوتا نظر آیا تو قرآن نے انکو چھانٹ کر الگ کیا، سزا دی اور معافی کا بھی اعلان کیا۔ رضی اللہ کا سرٹیفیکٹ دنیا ہی میں دینے کی بھی یہی حکمت تھی کہ اس جماعت کا تقدس متعین ہوجائے۔

اگر آپ اجازت دیں تو میں یہ بھی عرض کردوں کہ قرآن نے صحابہ کی رینکنگ بھی کی ہے۔ ہجرت والے، بدر والے، بیعت رضوان والے، اور انصار برابر نہیں ہیں۔ اس بنا پر حضرت علی، تو کیا، حضرت حسین بھی امیر معاویہ سے بہرحال افضل ہیں۔ مگر، کسی مسلمان کو حق نہیں کہ تاریخ کے تناظر میں ، کسی ادنی صحابی کی توہین کرے۔ بہرحال، یہ الگ موضوع ہے۔

ہم واپس اپنے موضوع پہ آتے ہیں(یعنی متعلقہ زمانے سے آگاہی) اور اس ضمن میں ایک مثال، واقعہ کربلا کی لیتے ہیں۔

اس بات پہ حیرت ہوتی ہے کہ واقعہ کربلا کو اس زمانے کی سوسائٹی نے اتنا سیرئس نہیں لیا ،جتنا ہم لے رہے ہیں۔ نواسہ رسول کی شہادت کے جذباتی تعلق کو اگر الگ کرلیں تو معلوم ہوتا ہے کہ خود اہل بیت نے بھی اس ایشو کو حد سے زیادہ سیرئیس نہیں لیا۔ آپ اس بارے میں مختلف راویوں کے گوناگوں بیانات کی بجائے، اس وقت کے “آن گراؤنڈ” حقائق دیکھیں۔

سانحہ کربلا سے کچھ عرصہ قبل ہی ،ایک بڑا واقعہ عثمان کی شہادت کا ہوا تھا۔لوگ باہر نکل آئے، لڑ پڑے۔ تاریخ بتاتی ہے 86 ہزار قتل ہوئے(میں تعداد میں اختلاف کرتا ہوں)۔ اگر یہ سچ بھی ہے تو اسکا مطلب ہے، لاکھوں کی فوجیں تھیں(دسواں حصہ ہی قتل ہوا ہوگا)، اس میں حضرت علی کے حامی بھی لاکھ دو لاکھ تو ہونگے، وہ سب کربلا کے وقت کہاں چلے گئے تھے کہ امام حسین کے ساتھ صرف 72 رہ گئے؟ خود خاندان بنو ہاشم نے امام حسین کے کاز کو سیریس کیوں نہ لیا کہ انکو صرف عورتوں بچوں کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا تھا؟

سوال یہ بھی اٹھتا ہےکہ اس دلدوز سانحے کے بعد بھی،یزیدی حکومت نے اپنی ایڈمنسٹریشن میں تبدیلی نہ کی۔ آج کی نام نہاد اپوزیشن کے پریشر سے وزیرکو استعفی دینا پڑتا ہے تواس وقت یزیدی گورنر کیوں معطل نہ کئے گئے؟ معلوم ہوا، اس وقت کی سول سوسائٹی نے کوئ پریشر ڈالا ہی نہیں تھا۔ کیوں؟

میں تجزئہ نہیں کررہا، صرف سوال پوچھ رہا ہوں ۔ اگرزمینی حقائق سے آپکو محسوس ہو جائے کہ اس دور کے سماج نے واقعہ کربلا کو ، حضرت عائشہ والے واقعے جتنی اہمیت دی ہے تو پھر آپ ضرور اس بارے بھی تاریخ کی ایک ایک کتاب ڈھونڈھ ڈھوندھ کر پڑھیں ورنہ سمجھ جائیں کہ کسی مقصد کے تحت،اس سانحے میں رنگ آمیزی کی گئ۔

واقعہ کربلا اور واقعہ افک کی مثال صرف مذکورہ بالا”ٹول” کا میکینیزم سمجھانے کے لئے دی ہے۔ اگر چاہیں تو تاریخ اسلام کے کسی بھی واقعے کو” منطق” اور” متعلقہ زمانے میں اسکی اہمیت” کی بنیاد پر جانچ لیں اور سمجھ لیں کہ آدھا کام ہوگیا۔ یعنی اب کم ازکم آپ یہ مطمئن ہوگئے کہ ایک حقیقی اور اہم واقعہ پر اپنا وقت اور انرجی صرف کرنے لگے ہیں۔

اب اگلے دو ٹولز، ان شاءاللہ، آپکو واقعہ کی پوری کیمسٹری سمجھا دیں گے۔

تاریخ اسلام کو پہلے دو ٹولز کی چھلنی سے گزارنے کے بعد، آپکے پاس دلچسپی کے بہت کم موضوعات بچیں گے۔ تاہم، ان باقی ماندہ موضوعات کے تجزئہ کے لئے، اب ایسا علمی کام شروع ہوگا جو وقت اور ذہن چاہتا ہے یعنی “راوی کے بارے تحقیق”۔ (لیکن خیر، اسکا بھی ایک آسان فارمولا عرض کردیتا ہوں)۔

3۔ تیسرا ٹول”تاریخ نویس کا تعارف”

ایک تو ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے پاس “مورخین “نہیں ہوتے بلکہ صرف “تاریخ نویس “ہی ہیں۔ دوسرے یہ کہ اسماء الرجال ایک فن ہے، جو” حدیث” کے روایوں کے کردار سے متعلق ہے مگربدقسمتی سے” تاریخ” کے راویوں کے لئے کوئ پیمانہ مقرر نہیں بلکہ جسکو جو راوی اپنے موقف سے قریب تر لگا، اسکی روایت بیان کردی۔ (یاد رکھئے کہ ہر حدیث، تاریخ ہے مگر ہر تاریخ، حدیث نہیں ہے)۔ جیسے آجکل جس پارٹی کے ورکروں کو اپنی پارٹی سے لگاؤ والا صحافی ملا، وہ انکے نزدیک غیرجانبدار اور دانشور ہے جبکہ مخالف نکتہ نظر والا فقط” لفافہ صحافی” ہے۔ یقین جانئے، تاریخ نویسوں کے معاملے میں اس سے بھی بدتر صورتحال ہے۔

آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ، نہ صرف جعلی ٹویٹر اکاؤنٹ بن جایا کرتے ہیں بلکہ سنیئر صحافیوں (جیسے جاوید چوہدری وغیرہ) کے نام سے، انہی کے سٹائل میں، جعلی کالم تک لکھے جاتے ہیں حتی کہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی حال، پرانی تاریخی کتب کا ہے۔

حدیث کے معاملے میں تو کچھ نہ کچھ تفتیش ہوسکتی تھی کہ بہرحال، وہ دین کا معاملہ تھا جس پہ امت کا ایک کثیر طبقہ ، روزانہ متواترعمل پیما ہوتا تھا(یہ عمل کا تواتر بھی ایک کرایٹیریا ہوتا ہے)۔ لیکن تاریخی افسانے؟ خدا کی پناہ۔۔یہ گویاداستان گوئ کا مقابلہ تھا۔ اہل تشیع نے کربلا کے واقعہ پر سو سو مضمون باندھے تو اہلسنت کے شیر بھی پیچھے نہ رہے۔ حضرت عثمان کی شہادت پر بھی دلدوز پیرائے لکھے گئے۔ غرض، غیر معروف راویوں کے نام سے ایک دھما چوکڑی مچی ہوئ ہے۔ اہلسنت کے اپنے پسندیدہ مورخ، اہل تشیع کے اپنے ہیں اور دونوں اپنے اپنے حوالے دیکر خوش ہیں۔

پھر زمانہ قدیم کے ان تاریخ دانوں کی دیانت، تعصب یا ریٹنگ کمپیٹیشن کو ایک طرف رکھیں، زمانہ جدید کے جو سکالرز، انہی تاریخی وارداتوں سے اپنے تجزئے پیش کیا کرتے ہیں، انکی دیانت پہ بھی سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔

دیکھئے، ایک ہوتا ہے”علمی مغالطہ”، یعنی کسی کے پاس غلط معلومات پہنچ گئیں اور انہی پر تجزئہ کر بیٹھا۔ مگرایک ہوتی ہے “علمی خیانت”، یعنی ایک آدمی کو تصویر کے دونوں رخ معلوم ہیں لیکن” بوجوہ”، وہ آپکو صرف ایک ایک رخ دکھاتا ہے۔ مثلا”آج کل دو کالم نگارہیں جو بظاہر غیرجانبدار سمجھے جاتے ہیں، ایک سلیم صافی اور دوسرا نصرت جاوید۔ دونوں نے ایک کالم لکھا۔ دونوں کالموں میں نواز شریف کی کچھ خامیاں بھی بیان کی گئیں اور چند ایک خوبیوں کا بھی اعتراف کیا گیا۔ یہ دونوں کالم میرے سامنے ہیں مگر میں نواز شریف کو صرف برا آدمی ثابت کرنا چاہتا ہوں۔ اب میں یوں کرتا ہوں کہ دونوں حضرات کے کالمز کاصرف وہ حصہ جو نواز شریف کی خامیاں بیان کرتا ہے، بطور حوالہ لیکر یہ ثابت کرتا ہوں کہ دیکھئے جناب، ایسے غیرجانبدار کالم نگار بھی اسکو برا کہتے ہیں تو میرا یہ عمل”علمی خیانت” کہلائے گا۔

آپکو برا تو لگے گا مگر اپنی بات کی وضاحت میں، زمانہ جدید کے عظیم داعی اسلامی انقلاب مولانا مودودی کی ایک ایسی علمی خیانت کی مثال دوں گا۔ انہوں نے امیہ دور کے دو غیر جانبدار مورخین کی کتب کے حوالے دئے۔ بددیانتی یہ کی کہ دونوں کی کتابوں سے صرف وہ پیرا گراف بطورحوالہ چن لئے جو امیر معاویہ کے خلاف جاتے تھے اور پھر انکو ثبوت بنا کر، اپنی کتاب “خلافت و ملوکیت” لکھی۔ جبکہ جن کتب سے حوالہ لیا، انکے مصنفین نے انہی کتب میں امیرمعاویہ کی چند خوبیوں کو بھی بیان کیا ہے مگر موددوی صاحب محض اپنا مقدمہ مضبوط بنانے اسے گول کرگئے۔ تو جب مولانا مودودی جیسا جدید دور کا مفکر، اپنے موقف کی خاطر، حوالہ جات میں قطع وبرید کرسکتا ہے تو دور گذشتہ کے مجہول مصنفین پہ کیا اعتبار کہ انکے لکھے کو قرآن سمجھا جائے؟

مذکورہ بحث سے یہ مراد نہیں کہ سارے ہی تاریخ نویس متعصب تھےاور ان میں سے، کوئ ایک بھی غیر جانبدارنہیں تھا۔ اس لئے کہ ایسا ہونا فطرت سے بعید ہے۔ (اگرچہ میری ناقص معلومات میں، 19 مشہور تاریخ دانوں میں 13 معروف شیعہ حضرات ہیں)۔ ہر گروہ میں منصف مزاجوں کا پایا جانا فطری امر ہے مگر ایک عام قاری، اسماء الرجال بارے ایسی جرح وتعدیل بھلا کیسے کرے؟

پس اسکے لئے، خاکسار آپکو دوسرا ٹول دے رہا ہے کہ تاریخ اسلام کی پہلی صدی کی کسی روایت کے راوی کو جانچنے کےلئےتین موٹی موٹی باتیں پلّے باندھ لیں۔

1۔ اگر روایت، حدیث کی کتب میں ہے تو کم از کم راوی درست قرار دیا جائے، آگے عبارت پہ جرح ہوگی۔

2۔ اگر روایت، تاریخ کی کتب میں ہے تو دیکھا جائے کہ سب سے پہلاراوی ، کس علاقے سے تعلق رکھتا ہے۔ اگر غیر عرب ہے مگر تاریخ ،ابتدائے اسلام کی بیان کررہا تو اسکو مشکوک سمجھا جائے۔

3۔ اگر راوی، عرب ہے مگر شامی یا عراقی ہے تو بھی مشکوک ہے اور اسکی روایت قابل اعتبار نہیں۔ اس لئے کہ وہ دومخالف پارٹیوں میں سے کسی ایک سے لازما” تعلق رکھتاہوگا۔

تاریخی طور پر ، صرف اس راوی کی راویت کو قابل اعتبار گردانا جائے جو حجاز کا عرب ہو کہ انکے ہاں جھوٹ بولنا عیب تھا۔ (اگرچہ یہ کوئ حتمی قانون نہیں لیکن آپ اکثر اسے کارگر پائیں گے)۔

جہاں تک واقعہ کربلا کا تعلق ہے تو اس بارے اہل تشیع ہی زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ ان سے چار سوال پوچھ لئے جائیں تو آپکے لئے اس واقعہ کا تجزیہ آسان ہوگا۔

1۔ واقعہ کربلا کے اولیں رپورٹر کا تعلق کس علاقے سے تھا؟(ابومخنف)

2۔ کیا وہ غیرجانبدار تھا یادونوں پارٹیوں میں سے کسی ایک کا سرگرم کارکن تھا؟

3۔ واقعہ کربلا کا اولیں ماخذ (مقتل الحسین) کا کوئ قلمی نسخہ دنیا میں کہیں دستیاب ہے؟

4۔ اس اولیں رپورٹ کا بعد میں آنے والے جن تاریخ نویسوں نے حوالہ دیا تو وقت کے ساتھ ساتھ ،خاندان حسین میں سے بعض قریبی ناموں کو وہ کیوں حذف کرتے چلے گئے؟۔

جب آپکو ان سوالات کا جواب مل جائے تو شاید مزید تاریخ نویسوں کے تعارف کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

اب یہاں تک کی گذارشات کو دہرا لیں پھر آگے چلتے ہیں۔

آپ کے سامنے اسلام کی پہلی صدی کا کوئ واقعہ بیان ہو تو اسکو اہمیت دیا کریں۔ (پہلی صدی کے بعد کے ادوار کی عقائد کے ضمن میں اہمیت نہیں ہے)۔ پہلی صدی کے کسی واقعہ کو اول۔ منطق اور قرآن دونوں کے ترازو میں تول لیں۔ کوئ تعارض نہ پائیں تو اب اسکے پہلے راوی کی جائے رہائش کی معلومات لیں۔ پہلی صدی کے واقعہ کا پہلا راوی، حجاز کا رہایشی ہے تو یہ واقعہ دوسرا ٹسٹ پاس کرگیا ہے ورنہ مشکوک ہے۔

اسکے بعد اگلے دو ٹولز کا استعمال کرنا ہوگا۔

اب چوتھے اور آخری ٹول کی بات ہوگی۔ پچھلی گفتگو کو باردگر تازہ کرلیں۔

ہمارے اس مضمون کاموضوع یہ ہےکہ تاریخ اسلام کی بعض روایات(خصوصا” پہلی صدی کی) ایسی ہیں جو آدمی کا عقیدہ ڈگمگا دیا کرتی ہیں۔ ایک عام قاری فیصلہ نہیں کرپاتا کہ کونسی روایت کو قبول کرے یا رد کرے؟ پس ان روایات کی حقیقت تک پہنچنے کیلئے، چار سادہ قسم کے ٹسٹ عرض کیئے گئے۔

جب کوئ تاریخی روایت، پہلے تین ٹسٹ پاس کرلے تو اب اس روایت پہ مغز کھپائ حق بنتا ہے۔ پس اب چوتھا ٹول استعمال میں لایئے۔

4۔ چوتھا ٹول” تحلیلِ روایت”

فرض کریں، اب آپ ایسی تاریخی روایت تک پہنچ گئے جسکے راوی دیانت دارہیں اور عبارت مستند ہے(بالخصوص، اسلام کے ابتدائ دور کی بابت)، تو پھر بھی آپ فورا” اس کی بنیاد پر، صحابہ بارے اپنا عقیدہ نہ بنائیں۔

عبارت کے جملوں کی نحوی و لغوی کے ساتھ ساتھ معنوی تحلیل کرنا، ہمارا چوتھا ٹول یا پیمانہ ہے جسکے بعد، آپ اپنی رائے بنانے میں آزاد ہیں۔ نحوی یا لغوی تحلیل کو صاحبان علم کیلئے چھوڑ دیجئے۔ معنوی تحلیل کو عام مجالس کے تناظر میں سمجھئے۔

دیکھئے، کتابوں کی لکھی عبارت اور” فیس ٹو فیس” گفتگو میں فرق ہوتا ہے۔ ایک آدمی، کسی دوسرے کے متعلق رائے کااظہار کرتا تو ان دونوں کے باہمی رشتہ کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔ آپس کا تعلق بھی الفاظ کا مفہوم بدل دیا کرتا ہے۔ مثلا”،جب کوئ باپ، غصے میں اپنےبیٹے کو حرامی کہتا ہے تو اس لفظ کی بنیاد پر بیٹے کا” ڈی این اے “نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح، کوئ شخص، اپنے دشمن کے بارے کہے کہ وہ بڑا استاد آدمی ہے تو اسکا مطلب “پروفیسر” نہیں لیا جاتا۔

چاہے کتنا پرانا اور بزرگ تاریخ نویس ہو اوراس نے چاہے کسی صحابی سے کوئ بات سنی ہو اور لفظ بہ لفظ بھی درج کردی ہو، پھر بھی، ظاہر ہے کہ کتابت میں لہجہ نقل نہیں کرسکتا۔ لہجے کا فرق، جملے کامفہوم دل دیتا ہے۔ تحریرمیں، فقرے کے درمیان،سکتہ یا وقفہ آگے پیچھے ہونے سے بھی مطلب بدل جایا کرتا ہے

مثلا”، ایک انگریزی جملے کودلیل بنا لیتے ہیں۔ کسی نے مندرجہ ذیل کہاوت کہی جو بغیر سکتہ اور وقفہ کے درج ہوگئ۔

A woman without her man is nothing.

جو سن رہا تھا ،اسکو تو لہجے کے فرق سے اندازہ ہو گیاکہ بات کا مطلب کیا ہے؟ مگر لکھتے ہوئے،اس نے جملہ بغیر کومہ، وقفہ لکھ دیا تھا۔

اب بعد میں اسی جملے کو دو آدمیوں نے ٹھیک لکھنے کی کوشش کی تو دونوں کے مطلب کا فرق ملاحظہ فرمائیں۔ ایک نے ایک کومہ ڈالا تو جملہ یوں بنا۔

A woman, without her man is nothing.

(ایک عورت، مرد کے بغیر کچھ نہیں)

دوسرے نے، دو کومے ڈالے تو جملہ یوں ہوگیا

A woman, without her, man is nothing.

(ایک عورت، جسکے بغیر، مرد کچھ نہیں)

دیکھئے، صرف کومہ بدلنے سے عبارت کا مفہوم کیا سے کیا ہوگیا۔ پس کتابت کرنے والے کی چھوٹی سی غلطی سے بھی تاریخ بدل سکتی ہے۔

یادش بخیر، جنرل ایوب خان نے بڑی “محنت” سے کتاب لکھی تھی (friends, not masters)، مگر ستم ظریفوں نے بازار میں ، کومہ کی جگہ بدل کر، اصل کہانی عیاں کردی تھی کہ (friends not, Masters)۔

پھر یہ بھی آپکو پتہ ہے کہ پہلے پرنٹنگ پریس نہیں ہوتے تھے کہ ایک ہی کتاب کی ہزاروں کاپیاں چھاپ دیں۔ شاگرد لوگ،بقلم خود ایک کتاب کی کئ کئ نقول تیار کرتے تھے۔ اسی نقل کے دوران، ایک آدھا لفظ، کم یا زیادہ ہوجائے تو بھی عبارت کا مفہوم بدل جاتا ہے۔

مثلا”۔ ایک جملہ ہے کہ امریکہ کی ائرپورٹ پر پاکستانی وزیروں کی تلاشی لی گئ اور”جرابیں اتروا لی گئیں”۔۔۔اس جملے کے اس آخری حصے میں، صرف ایک لفظ “تک” شامل کرنے سے دیکھئے کیا مفہوم برآمد ہوتا ہے۔ کہ امریکہ کے ائرپورٹ پر پاکستانی وزیروں کے تلاشی لی گئ اورجرابیں تک اتروا لی گئیں۔ اب اس جملے کا مطلب ہے کہ الف ننگا کردیا گیا۔ بات عام تلاشی سے بے عزتی تک پہنچ گئ۔ تارٰیخ پڑھتے، ان باتوں کا بھی دھیان رکھنا پڑے گا، اسی لئے تاریخ دانی کو سائنس کہا گیا ہے۔

اس ساری گفتگو سے مقصد میرا یہ ہے کہ آجکل فیسبک وغیرہ پر، کوئ آپکے ساتھ کسی پرانی کتاب کا ایک سکین شدہ ورق شئر کرے گا جس میں( مثلا”) ایک صحابی نے گواہی دی ہوگی کہ امیر معاویہ کے دور میں، حضرت علی کو،بر سر منبر گالیاں دی جاتی تھیں۔ پہلے آپ منطقی طور پر سوچیں کی وہ صحابہ جو روم اور ایران کےشاہی دربار میں تن تنہا قاصد بن کر جاتے تھے اور انکو خوٖف نہیں آتا تھا تو کیا وہ سب (نعوذ باللہ)اتنے بے غیرت ہوگئے کہ انکے ایک سینئر ساتھی کو ہر جمعہ گالیاں دی جاتی تھیں اور وہ دبک کر بیٹھ گئے تھے؟اسکے بعد، اگلی بات سوچیں کہ اگر واقعی ایسا تھا اور سارے لوگ حضرت علی کے خلاف ہوگئے تھے تو حضرت علی میں اتنی بھی مومنانہ اور داعیانہ اخلاقی قوت نہ تھی جو دل کھینچ لیا کرتی ہے؟، وہ لوگوں کو اپنا کیوں نہ بنا سکے؟

میں دعوی سے کہتا ہوں کہ ہر وہ تاریخی واقعہ ، جس سے صحابہ کی توہین ہوتی ہو، کسی عجمی کی یا غیرحجازی عرب کی روایت ہوگی۔

برادران کرام!

یہ چاروں ٹولز میں نے آپکے سامنے رکھ دیئے۔ مقصود صرف یہ ہے تاریخ کو پڑھیں، سمجھیں، قبول کریں یا رد کریں مگر اس کی بنیاد پر اپنا عقیدہ تشکیل نہ دیا کریں۔

مضمون یہاں ختم ہوجاتا ہے مگر میرا جی چاہتا ہے کہ آخری گذارش لکھنے سے قبل، پہلی صدی ہجری کے دو عظیم سانحوں (شہادت عثمان اور شہادت حسین) پر بھی اختصار سے ایک ایک قسط پیش کروں۔ چنانچہ اگلی دو اقساط میں ” قتل عثمان” اور “سانحہ کربلا” بارے بات ہوگی ان شاء اللہ۔

تاریخی واقعات کو پرکھنے کے ٹول اور دو واقعات کی تحقیق:

جیسا کہ شروع مٰیں عرض کیا تھا کہ میرا مقصد، آپکو تاریخ سنانا نہیں بلکہ تاریخی تجزیئے کا طریقہ کار بتانا ہے، جس کے لئے یہ چار ٹولز یا پیمانے آپکی خدمت میں پیش کئے۔ تاہم، میرا ارادہ ہے کہ ابتدائ اسلام کے ایک افسوسناک واقعات کا انہی ٹولز کے استعمال سے ایک مختصر جائزہ لےکر، آپکے سامنے رکھوں کہ اسکے بغیر موضوع تشنہ رہے گا۔

1۔ قتلِ عثمان۔

سرکار دوعالم کی رحلت کے بعد، قتلِ عثمان، اس امت کا سب سے بڑا سانحہ تھا۔مگر میں آپکو افسانوی داستان طرازی میں نہیں الجھاؤں گا بلکہ چند ٹھوس حقائق کی طرف متوجہ کروں گا۔ مکرر عرض کرتا ہوں کہ تاریخ نہیں سناؤں گا، صرف سوالات رکھتا جاؤں گا۔

حضرت عثمان، جیسے بھی تھے، پیغمبر اسلام کے تیسرے جانشین تھے جنکی قانونی حکومت کو حضرت علی سمیت سب نے تسلیم کیا تھا۔ مدینہ، عالم اسلام کا کیپیٹل تھا اورعثمان کے گھرکو پریزیڈنٹ ہاؤس یا ایوان وزیر اعظم سمجھ لیں۔

اب تصور کیجئے کہ باہر سےکچھ گمنام لوگوں کو ایک ٹولہ آتا ہے اور پیغمبر کے خلیفہ کو، کیپیٹل کے اندر نہیں بلکہ اسکے گھر میں جاکر قتل دیتا ہے۔ چیف آف آرمی سٹاف چاہے یحیی خان جیساہی کیوں نہ ہو، اسکو جی ایچ کیو میں گھس کر کچھ لوگ مار جائیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آرمی کے شیر دل جوان کہاں تھے؟ اتنا تو شاید آجکل کے بزدل معاشرے بھی برداشت نہ کریں کہ انکے محلے دار کے گھر کا گھیراؤ کرکے کچھ لوگ بیٹھ جائیں پھر چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے، کسی کو قتل کردیں اور محلے دار ٹس سے مس نہ ہوں۔

عثمان کو قتل کرنے کے بعد، رات کی تاریکی میں چپکے سے دفن کیا گیا۔ کیوں؟

وہ علی شیر خدا کہاں تھا جو باب خیبر کو اکھاڑ دیتا تھا؟ اگر کسی کو عثمان سے رنج بھی تھا تو اسکو اتنی ‘شرم’ نہ آئ کہ نبی کی مسند کی بے حرمتی کی جارہی۔ دیکھئے، میں یہ جذباتی ڈایلاگ بڑھاتا چلا جاؤں تو شاید آپکوحضرت علی کی پالیسی سے بدظن کرسکوں لیکن نتیجہ اسکے سوا کچھ نہ ہوگا کہ اپنی اور آپکی آخرت تباہ کربیٹھوں گا۔ (یہ ان لوگوں اشارہ ہے جو نبی کے نواسہ کے مظلومانہ قتل کی اڑ میں ، صحابہ کو بے غیرتی اور منافقت کے طعنے دیتے ہیں، وہ یہ سمجھ لیں کہ یہ طعنے قتل عثمان کی آڑ میں ، حضرت علی اور انکی اولاد کو بھی دئے جاسکتے ہیں)۔

گذارش یہ ہےکہ واقعات ویسےنہیں ہوئے جیسا کہ افسانہ نگار تاریخ نویسوں نے بدنیتی یا خوش نیتی سے تصنیف فرمائے ہیں۔

اگرچہ بفضل خدا، یہ خاکسار آپکے سامنے ان واقعات کا وہ صحیح رخ رکھ سکتا ہے جو آپکے دل میں، صحابہ کی عظمت دوبالا کردے گا مگر چونکہ یہ سلسلہ، صرف تاریخ کے مکروہ چہرہ کو آشکار کرنے کےلئے شروع کیا ہے، لہذا، اس تفصیل کو کسی الگ موقع کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔

بعض گربہ مسکین لکھاری ، حضرت عثمان کو بہت سادہ اور کمزور سا حکمران پینٹ کرتے ہیں کہ جسکو حکومت چلانا نہیں آتی تھی۔ عجیب بات یہ کہ حضرت علی کے 4سالہ دور میں کوئ کام نہ ہوسکا تو انکو حالات کی خرابی کی بنا پر رعایت دی جاتی ہے،پر وہی رعایت، حضرت عثمان کو کیوں نہیں دی جاتی؟جبکہ حضرت علی کےوقت تو فتنہ ظاہر تھا مگر حضرت عثمان کو توابتدائ پوشیدہ فتنے کا سامنا تھا جسکی صرف ٹاپ لیول شوری کو خبر تھی۔

میں عرض کرتا ہوں کہ حضرت عثمان، عمر اورابوبکر سے کم دبنگ نہ تھے۔ حضرت ابوبکر، منبر رسول پر،احتراما” ایک درجہ نیچے بیٹھا کرتے تھے اورعمر،ان سے ایک درجہ نیچے۔ حضرت عثمان ، واپس اوپر حضور والے درجے پر بیٹھنے لگے کہ اگر درجہ بدرجہ نیچے جانے کا رواج بن گیا تو گڑھے کھودنا پڑیں گے۔ کیا عاشق رسول صحابہ کے سامنے یہ اقدام، جرائت رندانہ کا متقاضی نہیں؟(مگرچونکہ صحابہ ۔۔ عقل والے عاشقین رسول تھے اسلئے حضرت عثمان پہ توہین رسالت کا مقدمہ نہ بنا)۔ آپ حضرت عثمان کے جی دار ہونے کا اندازہ اس سے بھی لگائیے کہ جان پہ بن گئ مگرنہ جھکے ،نہ ہی استعفی دیا( ورنہ تو یار لوگ ایک دھرنے کے نتیجے میں بھی دل چھوڑ بیٹھتے ہیں)۔

ادھرکچھ نام نہاد تجزیہ کارحضرات،حضرت عثمان کو ایک ایسا شریف اور سادہ دل حکمران (دوسرے الفاظ میں بے وقوف) گردانتے ہیں جس سے اسکا سیکرٹری فراڈ کرتا رہتا تھا۔

یعنی ایک ایسا زیرک بزنس مین جو اتنا مخلص اور سرمایہ دار ہے کہ 10 ہزار گھوڑے و اونٹ بمع جنگی سامان، صرف ایک جنگی مہم کے لئے عطیہ کر دیتا ہےاور وہ بیچارہ اتنا (نعوذ باللہ)بدھو ہے کہ اسکا سیکرٹری، اسکی لاعلمی میں اسکی اسٹیمپ استعمال کرکے، خودحکومتی فیصلے کرلیتا ہے؟ چہ خوب!۔ افسانہ نویسو، کچھ تو عقل کی بات کرو۔

لہذا، براہ کرم، ہمدردی کی آڑ میں حضرت عثمان کو بدعنوان ثابت کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔

ان پرایک الزام یہ بھی لگایا جاتا ہے انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو بڑی بڑی پوسٹوں پہ فائز کیا۔ کوئ بتا سکتا ہے، کس کو اور کونسا اعلی عہدہ دیا؟ہاں، اپنا پرسنل سیکرٹری یعنی منشی انہوں نے اپنے ہم قبیلہ” مروان” کو بنایا جسکے متعلق تاریخ نویس صاحبان کہتے ہیں کہ اتنا چالاک تھا کہ اسی نے بنو امیہ حکومت کی بنیاد رکھی جو 3 سو سال چلی۔ اگر یہ سچ ہے تو یہ ثبوت ہے اسکے ٹیلنٹ کا، پھر تو حضرت عثمان نے میرٹ پر سلیکشن کی تھی، اسکے اندرکے حال کو خدا کے سوا کون جانتا؟

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت عثمان کا سیکرٹری مروان، انکی لاعلمی میں حکومت چلا رہا تھا توبتائیے کون کون سے بڑے فیصلے اس نے کئے؟۔ حضرت عثمان کے دور میں، جدہ کی” سی پورٹ” بنی اور اسلام کا پہلا بحری جنگی جہاز تیار کیا گیا۔ اگر یہ فیصلہ، مروان نے کیا تو پھر تو وہ شاباش کا مستحق ہوا بھائ۔

گورنر شام، حضرت امیر معاویہ، حضرت عثمان کے عزیز تھے مگر انکی نامزدگی ، حضرت عمر جیسے مردم شناس نے کی تھی نہ کہ حضرت عثمان نے۔

برسبیل تذکرہ، حضرت عمر کے دور میں، دو مضبوط سلطنتیں یعنی روم اور ایران، مملکت اسلامی میں ضم ہوئیں مگروہاں ایک بیوروکریسی(ایلیٹ کلاس) کا صدیوں پرانا نیٹ ورک موجود تھا۔ یہ دونوں حکومتیں، عربوں کو ویسے ہی اجڈ اور جاہل تصور کرتی تھیں جیسے ہمارے پنجابی بیوروکریٹ، افغان طالبان کو۔ انکو قابو میں رکھنے،حضرت عمر نے، ایران کے کیپیٹل” مدائن” میں سلمان فارسی کی اپانٹمنٹ کی جو فارس کی ایک قدیم نوبل فیملی سے تعلق رکھتے تھے اور ایران کی ایلیٹ کلاس کے لئے قابل قبول تھے۔ دوسری طرف، ملک شام میں” دمشق”، قیصر کا سرمائ کیپیٹل تھا۔ شامی لوگوں نے ابوسفیان کو بطور مکی سردار، قیصر کے دربار میں مذاکرات کرتے دیکھا تھا۔ تجارتی قافلوں کے سربراہ کے طور پر بھی، ابوسفیان، وہاں کی بزنس کلاس میں بطور سردار متعارف تھے۔ ابوسفیان کے دمشق کی طرف، سالانہ بزنس ٹورز میں انکا بیٹا معاویہ بھی ساتھ ہوتا تھا۔ پس حضرت عمر جیسے صاحب فراست کو معلوم تھا کہ دمشق کی ایلیٹ کلاس، ایسے آدمی کی گورنر شپ میں ایزی فیل کرے گی جوانکے سٹیٹس کے مطابق ہوگا۔

معذرت کہ میں موضوع سے ہٹ گیا ہوں۔ کہنا یہ تھا کہ حضرت عثمان کی شہادت کے وقت، مدینہ میں صحابہ نے کوئ خاص کردار ادا نہیں کیا لیکن شہادت کے فورا” بعد، ساری عوام کھڑی ہوگئ اور دو گروپوں میں تقسیم ہوگئ تو اسکا مطلب یہی ہے کہ وہ لوگ نہ ڈرپوک تھے نہ کمزور بلکہ پیچیدہ حالات نے انکو ششدر کردیا تھا( جنکا نتیجہ انکے وہم وخیال میں بھی ایسا نہیں تھا جیسا ہوگیا تھا)۔ اس گومگٍو کے عالم میں ان سے بڑے فیصلے نہ ہوسکے اور یہی مشیت ایزدی تھی۔

لہذا،، اپنے ایمان کی فکر کیجئے،اپنے ذہن کو استعمال کیجئے اور تاریخ کے مشکوک راویوں کو سچا ثابت کرنے، رسول کے سچے ساتھیوں کی توہین سے پریز کیجئے۔

تاریخ اسلام پر ریسرچ بارے،جدید یورپ کی طرح دوغلا معیار نہیں ہونا چاہیئے کہ جہاں نبی کے کارٹون بنانے کو تو آزادی اظہار رائے کہا جائے جبکہ “ہولوکاسٹ” واقعے کو ڈسکس کرنا جرم ٹھہرے۔ البتہ، ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ تاریخ کا تجزیہ بطور رپورٹر کریں نہ کہ عدالت لگا کر فرد جرم عائد کریں۔ معلوم نہیں کیوں ہماری یہ روش ہے کہ دور عثمانی پہ جرح کرنا تو روشن خیالی کہلاتی ہے مگر سانحہ کربلا کا تجزیہ کرنا، گستاخی بن جاتا ہے۔

ذیل میں ہم، ان احباب کی خدمت میں چند گذارشات پیش کررہے ہیں جو سانحہ کربلا کی تاریخی سٹڈی کرنے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔

سانحہ کربلا۔

سانحہ کربلا کے ایک فریق یعنی نواسہ رسول کی محبت، جزو ایمان ہونا چاہیئے مگر اس سانحہ کو اسقدر جذباتی غلو میں لپیٹ دیا گیا کہ آپ جونہی، اس بارے کوئ سوال اٹھاتے ہیں، ہر طرف سے “اتحاد امت” کے نام پہ زباں بندی کی کوشش شروع ہوجاتی ہے۔

پچھلے دنوں، ایک ایسےقلمکار، جنکاماٹو ہے :”علم کی دنیا جذبات کی دنیا نہیں ہوتی”، انہوں نے واقعہ کربلا کی آڑ میں صحابہ کرام کو رگید کر رکھ دیا۔ میں نے کچھ جواب میں عرض کیا تو فورا” فرمایا”کیا آپ یزیدکی وکالت کرنا چاہتے ہو جس نےرسول کی نسل کو تہہ تیغ کردیا؟”

عرض کیا، یزید کی وکالت کون بدبخت کررہا لیکن یہ فرمایئے کہ اگر رسول کی نسل تہہ تیغ ہوگئ تھی تو پھر”بارہ امام” کس کی اولاد ہیں؟بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا اسلام نسلی دین ہے؟اور یہ بھی کہ کیا کسی کی نسل، بیٹی سے چلتی ہے؟اور یہ بھی کہ باقی بیٹیوں کی اولاد کی کوئ تٖفصیل؟۔۔۔۔ایویں ہی جذباتی رنگ بازی۔

کسی بھی واقعہ کو جب غلو سے بیان کیا جائے گا تو ظاہر ہے کہ عقائد پہ اثر پڑے گا ہی۔ سانحہ کربلا میں رائ کا پہاڑ بنا گیا اور اس میں عوام ہی نہیں، اس امت کے مشاہیر کا بھی خاصا ہاتھ ہے۔ مثلا”خواجہ معین الدین اجمیری فرماتے ہیں”حقا کہ بنا لاالہ است حسین” یعنی اسلام کی بنیاد ہی حسین ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ عمارت، بنیاد سے شروع ہوتی ہے۔ اگر اسلام کی بنیاد امام حسین ہیں تو پھر سرکار دوعالم سے لیکر، انکے والد حضرت علی تک ، سب صحابہ کیا تھے؟ اگر وہ لوگ بنیاد نہیں تھے تو بدر و احد میں کس چیز کےلئے خون بہایا گیا؟

اسی طرح،ایک اور معروف مفکر کا مصرعہ ہے:”اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد”۔۔سوال یہ ہے کہ اسلام “مر” کب گیا تھا؟ اور زندہ کس طرح ہوا؟ امام حسین کے بعد 200 سال بنو امیہ کی حکومت اپنی پرانی ڈگر پہ چلتی رہی توکیا نئ زندگی مل گئ تھی اسلام کو؟ (سوائے اسکے کہ مسلم امت دو فرقوں میں بٹ گئ)۔

آجکل فیس بک پر ایک مرحوم اہلحدیث عالم(مولانا اسحق) کے ویڈیو کلپ شیئر کئے جاتے ہیں اورچونکہ وہ اہل تشیع کو درست ثابت کرتے ہیں لہذا انکو اتحاد امت کا سمبل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہی موصوف، ایک ویڈیو میں فرماتے ہیں کہ یزید چھوٹی برائ تھا اور معاویہ اس سے بڑی برائ۔ ماشاء اللہ۔ یعنی امیر معاویہ کو گالی دینے سے ہی اتحاد امت ممکن ہے؟

بلکہ انہی مولانا اسحق کے ایک ویڈیو کلپ نے، امام حسین کا کردار مشکوک بنا دیا۔ اب تک ہم یہ سمجھتے تھے کہ امام حسین، یزید کی ڈکٹیٹر شپ کو چیلنج کرنے نکلے تھے مگر مولانا اسحق تو امام حسین کے ایک خط کے ریفرینس سے بتاتے ہیں کہ وہ امیر معاویہ کے خلاف بھی مسلح کاروائی کرنا چاہتے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر امام حسن نے اہل بیت کی طرف سے امیر معاویہ کو خلیفہ مان لیا تھا اور صلح کرلی تھی تو حسین کے طرز عمل کو کیا کہا جائے گا؟چونکہ میں حسین کی ذات کو دوغلا نہیں سمجھ سکتا اسلئے،مولانا اسحاق جیسوں کو انکی تاریخ سمیت، رد کرتا ہوں۔

برسبیل تذکرہ، ایک مغالطہ بڑا عام کیا گیا ہے کہ امیر معاویہ نے حضرت علی کے خلاف بغاوت کی تھی۔ بھائ انہوں نے حضرت علی کی بیعت ہی نہیں کی تو بغاوت کیسے ہوگئ؟اسلام ایک جمہوری مذہب ہے، وہ آپکو مکمل اجازت دیتا ہے کہ آپ اگر خلیفہ کی بیعت نہیں کرنا چاہتے تو نہ کریں مگراکثریتی قانون کا احترام کرتے ہوئے، سوسائٹی کا امن خراب نہ کریں(یا ہجرت کرجائیں)۔ خود حضرت علی نے 6 ماہ تک حضرت ابوبکر کی بیعت نہیں کی تو کیا وہ بغاوت تھی؟ (اب یہ الگ موضوع ہے کہ انہوں نے کیوں نہ کی؟)

ہمارے نزدیک، حضرت علی ، خلیفہ رابع ہونے کے ہر طرح حقدار ہیں۔اسلئے بھی کہ وہ افضل تھے، اور اس لئے بھی کہ حضرت عمر نے جن 6 آدمیوں کو خلافت کے قابل سمجھا تھا، ان میں سے 3 زندہ تھے۔ باقی دو نے خلافت سے معذرت کرلی تھی تو اب حضرت علی کا حق بنتا تھا۔ تاہم حضرت علی کی بیعت نہ کرنا، کفر نہیں تھا۔

امیر معاویہ نے حضرت علی کی بیعت اس لئے نہ کی کہ وہ سمجھتے تھے انکے لشکر میں قاتلان عثمان موجود ہیں، جنکو پہلے سزا دینا ضروری ہے۔ جو بات شاید انکو نہیں معلوم تھی، وہ یہ کہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے متقی بزرگ بھی حضرت علی کے لشکر میں شامل تھے جنکی کھوپڑی،عقل سے خالی تھی’بعد میں انکو خوارج کہا گیاتھا۔ (جیسے آجکل، نظام خلافت والے خودکش ” فقہاء” بھی موجود ہیں) –ایسے متقی بےوقوفوں کو ڈیل کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے؟اسکا آپ اسی سے اندازہ لگائیں کہ آپکے اسلام آباد کی لال مسجد کا ملا بگڑ بیٹھا تو 6 ماہ تک سیاسی وعسکری قیادت کو کو وقت پڑا رہا کہ اس سے کیسے نمٹیں؟

حضرت علی کی سامنے سنجیدہ مشکلات تھیں کہ انکو صرف خلافت نہیں، امت کو بھی سنبھالنا تھا۔ بہرحال، حضرت علی کی شہادت کے بعد، انکے جانشین حضرت امام حسن نے امیرمعاویہ سے صلح کرلی۔ کیوں؟ اور کیسے؟ کی تفصیلات چھوڑیئے، واقعہ یہ ہے کہ وہ معاویہ کے حق میں دستبردار ہوگئے۔

اب یہ کہا جاتا ہے کہ امیر معاویہ اپنے بیٹے یزید کو نامزد کرکے، اسلام میں وراثتی سیاست کی بنیاد رکھی( حالانکہ یہ اس زمانے میں دنیا بھر کا ریاستی دستور تھا۔صرف پہلےتین خلفاء استثنی تھے۔ آخر حضرت علی کے بعد، حضرت حسن بھی تو انکے بیٹے ہی تھے نا اور وہ یزیدبن معاویہ سے پہلے علی کے جانشین نامزد کئے گئے تھے۔ (پاکستان میں وراثتی سیاست کو کفر بنا دیا گیا ہے حالانکہ نبیوں نے اپنے مشن کے لئے، خدا سے وارث مانگا ہے)۔

یزید کیسا آدمی تھا؟ہمیں اسکی تفصیل سے غرض نہیں، مگر، یاد رکھئے کہ یزید کی حکمرانی غیر قانونی نہ تھی۔ جب امام حسن نے، امیر معاویہ سے صلح کا پیکٹ کیا تو اس میں یہ شرط نہیں رکھی تھی کہ آئندہ حکومت 1973 کے آئین کے تحت بنےگی اور الیکشن ہونگے۔ موقع، دستور اور مصلحت کے مطابق، امیر معاویہ نے اپنے بیٹے کو آئندہ نامزد کردیا اور لوگوں کو اسکی بیعت لینے کو کہا۔ چاہے جس طریقے سے بھی بیعت لی گئ(دھن، دھونس، دھاندھلی)مگر اکثریت نے بیعت کرلی تو یزید کی حکومت قانونی ہوگئ۔

جملہ معترضہ عرض ہے کہ شریعت نے خلیفہ یا حکمران چننے کا کوئ حتمی طریقہ مقرر نہیں کیا)البتہ یہ عام دستور تھا کہ لوگ، خلیفہ کے ہاتھ پہ بیعت کرتے تھے جو ڈیموکریسی کی طرف مشیر ہے۔ اور یہ بھی واضح ہوکہ امام حسین کا یزید کے خلاف مسلح جدوجہد کرنا بھی” غیر قانونی” نہ تھا کہ اسوقت کی اپوزیشن کے پاس یہی آپشن ہوتاتھا۔

طوالت کی معذرت مگر اسکی تفصیل میں جانا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

حضرت امام حسین نے یزیدکی بیعت نہیں کی تھی(اور یہ انکا شرعی حق تھا)۔ پھر، بحیثیت اپوزیشن، یہ بھی انکا حق تھا کہ جس حکومت کو غلط سمجھتے ہیں، اسکو بدل دیں۔ ظاہر ہے کہ اس زمانے میں، حکمران کو بدلنے کا طریقہ، دھرنے اور پہیہ جام نہیں تھا بلکہ مسلح جدوجہد تھی(اور یہی آردڑ آف دی ڈے تھا(.

اب کیا آپ سمجھتے ہیں امام حسین اتنے سادہ تھے کہ اپنے قبیلے کو ساتھ لئے بغیر، محض 72 عورتوں بچوں کے ساتھ نظام بدلنے کھڑے ہوگئے تھے؟ بات یہ تھی کہ یزیدکو لوگوں نے صرف امن کی قیمت پرقبول کیا تھا۔ پھر،عراقی قبائل ، شامیوں کے مقابل خود کو سیکنڈ ریٹ شہری سمجھ کر زیادہ دکھی تھے۔ کوفہ کے قبائلی سرداروں نے ،امام حسین کو خفیہ خطوط لکھے کہ وہ مسلح جدوجہد کے لئے تیار ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ امام حسین، مدینہ میں رہ کر، ان خطوط کو پبلک نہیں کرسکتے تھے۔ (ایسی مہمات میں رازداری شرط ہوتی ہے لہذا، اپنے خیر خواہوں کو بھی یہ خطوط نہیں دکھا سکتے تھے)۔ جن کو دکھائے(ابن عباس) انہوں نے کوفیوں پہ اعتماد نہ کرنے کا مشورہ دیا۔ بہرحال، بنی ہاشم نے اسلئے امام کو اکیلے کوفہ جانے دیا کہ وہ اسکو ابتدائ مذاکرات کا سفر سمجھ رہے تھے۔ اگر وہ اسکو جنگی مہم سمجھتے تو ضرور امام کے ساتھ جاتے(کس کے خواب و خیال میں ہوگا کہ نبی کے خاندان پہ کوئ ہاتھ اٹھانے کی جرات کرے گا؟)

امام صاحب کو کوفہ پہنچ کر، ابن زیاد کی چال سمجھ آگئ تو انہوں نے خون خرابے سے بچنے کی پوری کوشش کی، مگر جنہوں نے یہ جال پھیلایا تھا ، وہ انکو کیسے زندہ چھوڑتے؟۔ جیسے جنرل ضیاء اور بھٹو بارے کہا جاتا تھا کہ قبر ایک ہے، بندے دو ہیں، ایسے ہی حسین کا زندہ رہ جانا، غداروں کی موت تھی۔

مگر اس بہیمانہ واقعہ کو چھوڑ کر، اہلبیت کے ساتھ کوئ ظلم نہیں کیا گیا، نہ واقعہ کربلا سے پہلے، نہ بعد میں۔ حضرت امام زین العابدین(حضرت حسین کے صاحبزادے) کے متعلق روایت ہے کہ انکی وفات کے بعد پتہ چلا، 200 گھرانے ایسے تھے جنکا راشن، وہ رات کو چپکے سے انکے گھر بوری میں پھینک آتے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انکی یہ دولت، یا تو شاہی وظیفہ تھا یا انکی اپنی جاگیر۔ہر دو صورت میں، انکو پوری معاشی آزادی حاصل تھی۔

امام حسین کے کے بعد، 150 سال بنو امیہ رہے اور اہل تشیع کے امام صاحبان بھی عزت سے مدینہ میں رہے۔ صرف امام رضا کو خلیفہ مامون نے زہر دینے کو کوشش کی تھی تو مامون، بنو امیہ سے نہیں تھا بلکہ امام حسین کا ہی کزن تھا(بنو عباس)

بہرحال، جو کچھ بھی کہا جائے، لیکن ایک مسلمان کا ضمیر، یزید کو معاف نہیں کرسکتا۔ چاہے نواسہ رسول کو یزید کی لاعلمی میں ہی شہید کیا گیا ہو، مگر کم از کم اسکے بعد توذمہ داران کو سزا دینا چاہئے تھا۔ یزید نے تو انکو عہدوں سے برطرف تک نہیں کیا۔ ایسے میں ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کا یزید کی تعریف کرنا، انتہائ زیادتی ہے۔

بنا بریں، جب لوگ، واقعہ کربلا کو ڈسکس کرتے ہیں تو یزید اور حسین کا تقابل کرتے ہیں، حالانکہ انکا تو آپس میں کوئ جوڑ ہی نہیں۔ تقابل تو امام حسن اورامام حسین کی سٹریٹجی کا ہونا چاہیئے،یزید تو ویسے ہی تاریخ کا ایک راندہ درگاہ کردار ہے۔

میرا تو یہ موقف ہے کہ امام حسن کی مفاہمانہ پالیسی، امام حسین کہ جارحانہ پالیسی سے بہتر تھی۔ تاہم جو لوگ، امام حسین کی بہادری کے مداح ہیں، وہ بھی اس غلو سے بچیں کہ امام حسین نے ہی اسلام بچایا۔ واضح رہے کہ امام حسین کے گھرانے کے تڑپتے بچوں اور ننگے سر بین کرتی عورتوں کا نقشہ کھینچ کر لوگوں کو رلانے والے، یزید کے ظلم سے زیادہ، اہل بیت کی بزدلی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔

مذکورہ بالا مختصر تبصرے کے بعد، کل ان شاء اللہ اس مضمون کی آخری قسط پیش کی جائے گی۔ دوستوں سے درخواست ہے کہ اس سارے مضمون کو اپنے حلقہ احباب میں(بالخصوص عصری تعلیم یافتہ احباب میں) ایک دینی خدمت سمجھ کر شیئر کریں۔

یہ عاصی وکم علم مضمون نگار، اپنے لئے اور دوستوں کیلئے، خدا سے اخلاص نیت کی دعا مانگتا ہے۔

تاریخ بطور”موضوع” ایک سائنس ہےاورسائنسی تجزیہ، عقیدے، جذبات اورتعصب سے ماورا ہوتا ہے۔ فیصلہ کیجئے کہ آپ تاریخِ اسلام کو ایک مسلمان کی نظر سے دیکھنا چاہتے ہیں یا مغرب کے پیمانے سے؟۔

معافی چاہتا ہوں، اگرآپکو”بےلاگ لبرل” تجزیہ کرنا ہےتوتاریخ کی عدالت میں معاویہ اور عثمان ہی نہیں بلکہ علی اور حسین کو بھی طلب کیا جائے گا۔ پھر”بےلاگ” تجزیوں کی کالک، حسین کے نانا تک بھی پہنچے گی۔

اب مکدی گل یہ ہے کہ خالص سیکولر حضرات کیلئے تاریخ اسلام پہ تبصرے فرمانے کی کوئ تک نہیں بنتی۔ اس لئے کہ جب انکے لئے قرآن و حدیث ہی قابلِ اعتبار نہیں تو ہسٹری بھلا کیسے معیارِ حق و باطل قرار پائ جو خود مسلمانوں کے نزدیک قابل اعتماد نہیں؟

حیرت ہوتی ہے جب لبرل حضرات،امام حسین کی مظلومیت کی آڑ لیکر، اسلام کے خلاف اپنے جی کے پھپھولے پھوڑتے ہیں۔ بھائ، اس مسئلہ میں لبرلز کا کوئ لینا دینا بنتا نہیں اس لئے کہ یہ مسلمانوں کے دو مذہبی گروپوں کی لڑائ تھی اور امام حسین کوئ لبرل ایجنڈا لاگوکرنے، میدان میں نہیں اترے تھے۔

رہے “مسلم سیکولرز” جو خود کو “جمہوریت پسند” قرار دیتے ہیں اور اس ناطے، یزید کی مخالفت اورامام حسین کی حمایت کرتے ہیں تو اصولا” انکا بھی یہاں دخل نہیں بنتا۔ کیونکہ وہ یہ موقف رکھتے ہیں کہ ایسے تمام مذہبی ایشوز جو زمانہ حال میں مسلمانوں کے مادی مسائل پہ اثر انداز نہ ہوتے ہوں، انکو ڈسکس کرنا محض وقت کا زیاں ہوتا ہے۔

بہرکیف! خاکسارکادعوی ہےکہ تاریخِ اسلام کو سمجھنا، کسی بے ایمان شخص کے بس کی بات نہیں۔ اسلئے کہ سطحی منطق، ان لوگوں کی سٹرٹیجی کو کیسے سمجھ سکتی ہےجو اپنے دشمن کو قتل کرنے،اسکے سینے پہ سوار،خنجر اسکی گردن پہ رکھے ہوں، اورجب دشمن انکے چہرے پر تھوک دے تو وہ یہ کہہ کراسے چھوڑ دیں کہ اب میرا غصہ،اللہ کےلئے نہیں رہا تو میں تمکواپنی ذات کےلئے قتل نہیں کرنا چاہتا؟۔

ابتدائ تاریخ اسلام کو سمجھنے کےلئے، پہلے صحابہ کامزاج سمجھنا ضروری ہے ۔پس تاریخِ اسلام سے رغبت رکھنے والوں کونصیحت کرتا ہوں کہ پہلے صحابہ کےزمانہ کے رواج اوراس پاک جماعت کے مجموعی کردار کو سمجھنے، “حیات الصحابہ” نامی کتاب کا مطالعہ کیجئے۔ اس مقبول عام کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ مصنف نے اپنی طرف سے کوئ ایک جملہ اس میں نہیں لکھا بلکہ صرف، صحابہ بارے سب میسراحادیث کو مختلف عنوانات میں جمع کرلیاہے اورفیصلہ قاری کے ذہن اورایمان پہ چھوڑ دیا ہے۔

4۔ آخری گذارش

عزیز دوستو!صحابہ میں رنجش اور لڑائ ہوئی تھی مگراتنے قتل اور مظالم بہرحال نہیں ہوئے جو تاریخ نے”ریکارڈ” فرمائے ہیں۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل ضروری باتوں کا دھیان رہے تو بہترہے۔

1۔ یہ بہت ممکن ہےکہ دو گروہ آپس میں اختلاف کریں اور دونوں حق پہ ہوں(بلکہ اختلاف تو ہوتا ہی اہل حق میں ہے جنکا کوئ نظریہ اور آدرش ہو، اہل باطل کاکیا اختلاف ہوگاجنکا ہدف پیٹ بھرنا ہو چاہے کسی طریقے سے ہو؟)۔ قرآن بتاتا ہے کہ موسٰی اور ہارون، موسٰی اور خضر میں اختلاف ہوا۔

2۔ دونوں اہل حق میں ایک ہی زیادہ حق پر ہوگا مگر اس سے دوسرے کی شان میں کمی نہیں آتی۔ قرآن بتاتا ہے کہ داؤد نے فیصلہ کیا مگر انکےبیٹے سلمان نے انکے برخلاف فیصلہ کیا جو کہ زیادہ درست تھا۔ دونوں نبی رہے اور کسی کو معزول نہیں کیا گیا۔

3۔ معاویہ اورعلی کی فوج میں موجود صحابی،کیا ایک دوسرے کو قتل کرکے بھی جنت جائیں گے؟۔ جی ہاں،ام حارثہ کی حدیث یاد کیجئے۔ حارثہ کو حضور کے سامنے، مسلمان کے تیر نے شہید کیا اور سرکار نےانکے لئے جنت کی بشارت دی۔

4۔ معاویہ اورعلی کے علاوہ بھی صحابہ میں آپس میں رنجش ہوجایا کرتی تھی کہ یہ انسانی فطرت ہے۔ قرآن میں آیاہےکہ اہل جنت جب جنت میں جائیں گے تو انکے دلوں کو اس کینے سے پاک کیا جائے گا جو دنیا میں تھا۔ اسکا مطلب ہے مومنین میں آپس میں رنجش اور خفگی ہوجایا کرتی ہے۔

خاکسار حیران ہوتا ہے جب ہندو پاک کے کچھ لکھاری حضرات، صحابہ کے فیصلوں کی غلطیاں نکال کر، انکی نیتوں پہ حملے کرتے ہیں۔ فارسی میں ایک مثال ہے” امور مملکت را خسرواں می دانند”۔ عثمان،علی اورمعاویہ، جو کچھ بھی تھے، اپنے زمانے کے حکمران تھے اور موجودہ کئ کئ ممالک پہ مشتمل علاقہ انکے زیرنگیں تھا۔ کسی حکمران کی پالیسی کا تجزیہ کوئ حکمران ہی کرسکتا ہے مگر افسوس کہ ایسے ٹٹ پونجئے، جنکو اپنے گھر کی بیٹھک چلانا نہیں آتی، وہ انکےطرزحکمرانی میں کیڑے نکالتے ہیں اوربزعم خود، انکو صحیح فیصلے سجھاتے ہیں۔

قصہ کوتاہ، تاریخ کے جنگل میں،عقائد کی پگڈنڈی پہ، بہت سنبھل کرچلنا پڑتا ہے بالخصوص ان حالات میں جب جھوٹ کی گرد نے راہ کھوٹی کررکھی ہو۔ صحابہ بارے، سوچ کر کمنٹ کیا کیجئے۔ ایسا نہ ہو کہ گرد چھٹے تو پتہ چلے، گھوڑے کی بجائے گدھے پر سوار تھے۔ بقول شاعر:

فسوف تری اذانکشف الغبار۔۔۔۔۔ءافرس تحت رِجلک ام حمار

بنابریں،عالم اسلام کو جس قدراتحاد اوریگانگت کی آج ضرورت ہے،وہ ماضی میں کبھی نہیں تھی۔ اور یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ خواہی نہ خواہی، پاکستان ہی عالمِ اسلام کا فکری کیپیٹل ہے۔ یہ ملک گوناگوں،عقائد، کلچر، نسلوں اور جذبوں کا عکاس ہے۔ خداکے فضل سے، اسلام کے بارے بھی ،ہمارے ہاں کوئ شاہی مفتی نہیں ہے بلکہ 1973 کے آئین نے، ہمکو اسلامی نظریاتی کونسل کا ایک خوبصورت تحفہ دیا ہے۔ اس کونسل میں علماء، پاکستان کے عوام کی نمائندہ پارٹیوں کے مشورے سے چنے جاتے ہیں۔ ہر فرقہ اور مسلک کا عالم، باہمی رضامندی سے ایک ایک ایشو کو سوچتا ہےاور مشترکہ فیصلہ آتا ہے جو عوام کو قابل قبول ہوتا ہے(ہونا چاہئے بھی)۔ امید ہے شان صحابہ اور شان اہل بیت وغیرہ جیسے حساس ایشو بھی اسی فورم پہ حل ہونگے مگر اسکے لئے جمہوری اداروں کا تسلسل ضروری ہے۔ ہماری جمہوریت ابھی خام ہے مگر، کہتے ہیں کہ پانی، اپنے راستے خود بنا لیتا ہے۔ جمہوریت میں یہ طاقت ہے کہ یہ اپنا محاسبہ خود کرلیا کرتی ہے

اس مضمون کو نیک نیتی سے لکھا گیا، اسکے باوجود اگر کسی کو ناگوار گذرا ہو توخاکسار تہہ دل سے معذرت خواہ ہے۔

وما علینا الا البلاغ

تحریر محمد سلیم