تحریف اور دروغ گوئی کا طریقہ کار:
ان راویوں نے اصل روایات کو مسخ کرنے کے لیے درج ذیل طریقے اختیار کیے۔
۱:بالکل ہی غلط بات اپنی طرف سے گھڑ کر ان کی طرف منسوب کی..اور جھوٹ باندھ..
۲:اصل واقعہ ایک حقیقت تھا..مگر یا تو اس سے کچھ گھٹا دیا، یا کبھی بڑھا دیا ..یہاں تک کہ اس کی اصل شکل بگاڑ دی اور اپنی حقیقت سے اس کو ہٹادیا..
۳:کسی واقعہ کو بغیر سیاق وسباق کے بیان کردیا..جس سے وہ اپنے معنیٰ اور مقصد سے منحرف ہوگیا..
۴:واقعات کی غلط تاویل اور تفسیر کی..
۵:کمیوں اور خطاؤں کو خوب کنگھال کر بیان کیا اور حقائق ومحاسن کو چھپا لیا..
۶: تاریخی واقعات کے لئے اپنی طرف سے رنگ برنگے اور دلچسپ انداز کے رسائل لکھ کر علماء اور اہل سنت کی مشہور شخصیات کی طرف منسوب کیا..
بعد میں جب تاریخ کی بڑی کتابیں مرتب ہوئیں تو مصنفین نے موضوع متعلق ہر فرقہ کی روایت، کتاب، رسالہ کو ان میں جمع کردیا ، جیسا کہ طبری کی روایات کے مصادر میں تفصیل گزر چکی ۔ اور انہی روایات کو بعد کے مسلمان ‘اسلامی تاریخ ‘ سمجھ بیٹھے ۔ فرقہ باطلہ کے علاوہ مسلمانوں میں سے کئی جدت پسند محققین نے بھی عوام کو صرف یہ بتایا کہ یہ روایات اسلامی تاریخ کی بڑی کتابوں یعقوبی، مسعودی، طبری، ابن سعد اور ابن ہشام وغیرہ سے نقل کی ہیں ۔اسی طرح یہ روایات درسی کتابوں میں بھی شامل ہوتی گئیں ۔
دروغ گوئی کے کچھ نمونے:
1. یہ ہے غیاث ابن ابراہیم ….جس کے بارے میں شیوخِ حدیث یک زبان ہیں کہ وہ اپنی طرف سے روایات گھڑتا ہے…ایک دن مہدی کے پاس آیا، تو دیکھا کہ اس کے پاس ایک کبوتر ہے..تو اس نے حدیث، “لا سبق الا فی نصل او حافر “کے ساتھ “او جناح “بڑھا دیا..یعنی اپنا دال دلیہ کرنے کی خاطر ‘کبوتر اڑانے کو بھی حلال کرادیا…
مہدی نے اس وقت تو اسے انعام دے کر رخصت کردیا ..جب وہ باہر نکلا تو مہدی نے کہا، “اس نے جھوٹ بولا “اور حکم دیا کہ کبوتر کو ذبح کردیا جائے.. (ابن حیان : مجروح من المحدثین والضعفاءوالمتروکین ۳۳/۱، ابن جوزی الاحادیث الموضوعہ ۴۲/۱)
2. یہ قاضی ابوالبختری ہے..ہارون الرشید مدینہ منورہ آیا ہوا ہے..منبر پر چڑھتا ہے، تو اسنے قباء اور کمربند پہن رکھا ہے..تب قاضی صاحب آگے بڑھتے ہیں اور جھوٹی حدیث سناتے ہیں کہ حضورﷺ یہ دونوں چیزیں پہنا کرتے تھے…
وہ تو شکر ہے کہ یحیٰی بن معین ر.ح وہاں موجود تھے، سب کے سامنے ہی اسے جھٹلا دیا..(حوالہ مندرجہ بالا)
3. یہ عبدالکریم ابن ابی العوجاء ہے…اسے جب عباسی گورنر محمد بن سلیمان بن علی العباسی کے پاس لایا گیا اور وہاں سے اس کے لئے موت کا حکم جاری ہوا، تو اس نے آخری لمحات میں اعتراف کیا کہ میں نے چار ہزار ایسی احادیث وضع کر کے پھیلا دی ہیں، جن میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال قرار دیا ہے..
4. یہ ہے مغیرہ بن سعید بَجَلی کوفی…جس نے بقول اعمش سب سے پہلے حضرات شیخین کریمین کی تنقیص کی…اس نے ہمیشہ اہل بیت کی طرف جھوٹ اور بکواس کی نسبت کی ..ابن عدی اس سورما کے بارے میں فرماتے ہیں، حضرت علی ر.ض سے جھوٹی روایتوں کے بیان کرنے میں اس سے بڑھ کر بدنام کوئی نہیں.. (ابن حجر …لسان المیزان ۷۵/۶)
5. یہ ہے ابوالخطاب محمد بن ابی زینب…جسکی برائی کے لئے اتنی ہی بات کافی ہے کہ حضرت جعفر صادق ر.ح اس کو برا کہا کرتے تھے..اس نے وہ غلط سلط روایات چلائی کہ خود حضرت سید ر.ح کو اس کی برائی کرنی پڑی…
6. یہ حضرت ابن عباس ر.ض ہیں.ان کے پاس ایک تحریر لائ گئ اور کہا گیا کہ حضرت اس میں حضرت علی ر.ض کے فیصلے تحریر ہیں..آپ نے مطالعہ فرما کر ایک ذراع کے بقدر چھوڑ کر باقی ساری تحریر مٹادی..(مسلم شریف ۸۳/۱)
7. یہ اعمش ہے..انہوں نے کوفہ کے ایک بزرگ صورت انسان کو دیکھا، جو تین طلاق والی عورت کے بارے میں حضرت علی ر.ض کے کئے فیصلے میں تحریف کررہا تھا..آپ نے دریافت فرمایا، “بڑے میاں! یہ کیا کررہے ہو “؟
کہنے لگا، “کیا کروں؟ لوگ مجبور کررہے ہیں “(ابن عدی..الکامل فی الضعفاء ۱۴۸/۱)
جب حدیث کہ جسکی نقل اور تدوین خود دور ِ صحابہ میں ہوئی اور جس کے لئے نقد وپرکھ کے بےشمار پیمانے مقرر کئے گئے..بےشمار علماء نے اپنی زندگیاں اس مبارک مشغلے میں صرف کردیں..دورِ صحابہ سے لے کر تدوینِ عمومی کے دور تک ہرزمانے میں علماء نے حدیث کی نقل ،تدوین اور حفاظت کی ہر ممکن کوشش کی. اس سب کے باوجود اس میں بھی موضوع اور من گھڑت احادیث کثرت سے داخل کردی گئیں…تو تاریخی واقعات، جنکی طرف دورِ عباسی سے پہلے اہل السنہ کی طرف سے سنجیدہ توجہ بھی نہیں دی گئ اور بےدھڑک رافضیوں، سبائیوں اور دوسرے باطل فرقوں کے جھوٹے، فرضی اور تعصب سے گھڑے واقعات کو تاریخ کا نام دے کر “تاریخ کا حصہ بنا دینا کیا مشکل کام تھا ؟”اور یہی ہوا ….جب تک حق پہنچتا اور علماءِ محقیقین اس طرف متوجہ ہوتے، اس زمانے کے متعلق “تاریخِ اسلام “مدون ہوچکی تھی..سارے سیاسی، مسلکی، مذہبی، قومی اور فکری اختلافات کے ساتھ جو ملغوبہ بنا، ظاہر ہے، کسی سمجھدار پر مخفی نہیں کہ کس معیار کا ہوگا اور اس سے استناد کرنے میں کتنی احتیاط کی ضرورت ہے..!!!
تاریخ اسلام پر جھوٹ کے اثرات :
دروغ گوراویوں کے اس مخصوص مکتبہٴ فکر نے ہماری پوری تاریخِ اسلامی پر عام طور سے اور قرونِ ثلاثہ پر خاص طور سے بہت سے زہریلے اور بُرے اثرات چھوڑے ، مقامِ فکر یہ ہے کہ ان دروغ گو اور گذّاب( اور متہم بالکذب) لوگوں کی روایات ہماری تاریخ ، ادب اور دینی تصانیف میں سرایت کر گئیں، اور ان کے ایک بڑے اور معتدبہ حصہ کو اپنے جھوٹ سے فاسد کرڈالا، جس کے نتیجہ میں ثقہ روایات کے ساتھ ابا طیل، خرافات و متنا قضات،ان کتابوں میں شامل ہوگئیں.
کذّاب اور دروغ گو رایوں کی یہ موضوع ومن گھڑت اور نصوص شریعت و حاملینِ دین متین سے متصادم روایات ہی امتِ مسلمہ میں افتراق و انتشار اور تمام گروہی اختلافات کی اساس و بنیاد ہیں، جن کو صراطِ مستقیم سے منحرف فرقوں نے جب مذہبی قداست کا لبادہ اوڑھا دیا تو اس مکتبہٴ فکر کے ماننے والوں نے ان روایات کو دین اور رجال پر طعن کرنے ، گمراہ افکارکی نصرت و تائید ، مسلمہ حقائق اور متوارث تاریخ اسلامی میں تشکیک پیدا کرنے کے لیے بطور سلاح کے استعمال کرنا شروع کردیا۔
امتِ مسلمہ کا درد رکھنے والا منصف مزاج محقق ضرور اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ ان دروغ گو مکتبہ فکر کے گمراہ لوگوں نے اپنے مخصوص افکار و عقائد کی بنیاد اپنے مکتبہٴ فکر کے ان مخصوص اور دروغ گو رایوں کی روایات پر رکھی ہے، اور قرآنِ کریم اور سنتِ صحیحہ و دیگر نصوصِ شریعت کو درخور اعتنا نہیں سمجھا۔
اگر یہ گمراہ فرقے آج بھی قرآنِ کریم، سنتِ صحیحہ اور دیگر متواتر و قطعی نصوص شریعت کی طرف رجوع کریں گے تو امتِ مسلمہ میں ہر طرح کے اختلاف ختم ہو جائیں اور یہ امت پھر سے ایک جسد و قلب کی مانند متفق و متحد ہو جائے گی،امتِ مسلمہ کے اتحاد کا یہی ایک نسخہ کیمیا ہے۔