تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری کے سامنے کون سے امور اور اہداف ہونے چاہئیں یہ بات تاریخ کے مطالعہ سے زیادہ اہم ہے۔ ہاں یہ بات ہے اُس قوم کیلئے جو تاریخ پڑھتی بھی ہو اور اُس سے سبق بھی لیتی ہو. تاریخ کو پڑھنا اور اُس کے نتائج اپنے زمانے میں محسوس کرنا اور مستقبل کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا، زندہ قوموں کیلئے یہ تینوں کڑیاں یکساں اہمیت رکھتی ہیں۔
ہمارے ہاں جن دانش وروں کو علم سے زیادہ شہرت عزیز ہوتی ہے، اُن کے ہاں اسکالر اور ماڈرنسٹ کہلانے کا معیار یہ ہے کہ اپنے ماضی پر کیچڑ اچھالیں، تاریخ ساز شخصیات کی تنقیص کریں، اسلام کی تاریخ سے لغزشیں ہی ڈھونڈ لائیں، تب ہی وہ سمجھتے ہیں کہ دانش ور کہلائیں گے۔کوئی مانے یا نہ مانے انسان کا حال اُس کے ماضی سے جڑا ہوتا ہے. ماضی کی شخصیات تو ضرور مرجاتی ہیں لیکن ان کا تذکرہ اور چھوڑے ہوئے اثرات نہیں مرتے، معاشرہ ان اثرات کو لیے ہوئے آگے بڑھتا رہتا ہے جیسے جوانی بچپنے سے جڑی ہوتی ہے اور عمر رسیدہ اپنی جوانی کو نہیں بھولتا۔
قرآن مجید بھی تاریخ بشری کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ تلاوت کرنے والا اگر صاحب بصیرت ہو تو قرآن مجید اُس کے سامنے قوموں کی کامیابی اور ناکامی کے اصول رکھتا ہے۔ اپنے مخاطبین کے مسائل اُن کی تاریخ سے جوڑتا ہے۔ اُن کے سامنے اخلاقی اور عمرانی اصول رکھتا ہے۔ ترقی اور زوال کے اصول بتاتا ہے۔قوموں کی سرفرازی اور ناکامی کے اسباب ابن خلدون نے بھی بتائے ہیں۔ہمیں تاریخ کا مطالعہ نئے زاویے سے کرنا ہے، جس کا مقصد ناک بھوں چڑھانا نہ ہو، علامہ محمود محمد شاکر کے بقول بے جان روح میں جان ڈالنا اور اتھاہ گہرائی سے نکل کر اپنے زمانے کو سمجھنا، ماضی کو حال سے جوڑنا، وقائع سے حقائق نکالنا، غیر جانبداری برتنا، مؤرخین سے جہاں سہواً یا عمداً لغزش ہوئی ہے اُس کی حقائق سے اصلاح کرنا۔
ہمارے تاریخ کے مطالعے کی دو جہتیں ہیں۔ ایک ہماری سیاسی تاریخ ہے اور دوسری ثقافتی اور علمی۔ سیاسی تاریخ میں اُتار چڑھاؤ معمول کی بات ہے البتہ یہ اعزاز صرف مسلمانوں کو حاصل ہے کہ ان کی علمی ترقی مغرب کی ترقی کی طرح حکومت کی مرہون منت نہیں ہے۔ یہ بات ہماری تاریخ میں عام ہے کہ سیاسی حالات ابتر ہیں یا حاکم وقت ظالم ہے مگر دوسری طرف علمی میدان روز بروز ترقی پر ہے۔
مغرب کی تاریخ اوراسلامی تاریخ کی مبادیات میں بھی فرق ہے ۔مغرب کا اصول حیات افادیت ہے جبکہ اسلام کی تاریخ ایمانیات سے مربوط ہے .مغربی وقائع نگار اور مؤرخ کے نزدیک اخلاقی معیار اور ہیں اور ہمارے ہاں اور۔ وہ کسی شخصیت کا تذکرہ محض اُس کے کارناموں کو دیکھ کر کرتے ہیں۔ سوسائٹی کو جو فائدہ اُس سے ہوا وہی اُن کیلئے اہمیت رکھتا ہے۔ اس لئے ان کی تاریح پڑھتے ہوئے ہمیں کامیاب شخصیات سے واسطہ پڑتا ہے گویا مغرب کی نامور شخصیات معصوم ہوتی ہیں۔مسلم مؤرخ کے نزدیک اخلاقی اور ایمانی پیمانہ سب سے اہم ہوتا ہے اس لئے اُن کے تذکروں میں اخلاقی بے ضابطگی سے وہ صرف نظر نہیں کرتے۔ ہماری وسعت نظری اور دیانت داری ہی جدید مؤرخ کے نزدیک ہمارا عیب ہے۔جدید مؤرخ کے نزدیک اپنے عیوب ہی بیان کرتے چلے جانا تاریخ کا صحیح مطالعہ ہے۔ ہمیں اپنا نقطہ نظر محولہ بالا اصولوں کے مطابق بدلنا ہوگا۔ اجتماعی شعور کا احساس زندہ قوم کا شعار ہوتا ہے۔
مطالعے کے چند آداب:-
تاریخ کا مطالعے کے بعد کسی ایسے شخص کو بُرا کہنا یا گالیاں دینا جو اس دنیا کے تماشاگاہ سے رخصت ہوچکا ہے جوانمردی نہیں، ہاں کسی گذرے ہوئے سے محبت کا اظہار اوراُس کے لئے دعائے خیر کرنا اُس کی برائیوں کی نیک تاویل کرنا کوئی عیب کی بات نہیں ہے،تاریخی کتابوں کا مطالعہ کرنے والا جس قدر بے جا تعصب میں مبتلا ہوگا اُسی قدر اس کو تاریخی مطالعہ کا نفع کم ہوگا.
(مطالعہ تاریخ چند مبادیات، ڈاکٹرمحمد عبدہ،! ترجمہ: محمد زکریا)