جب “الکتاب “یعنی خدا کا آخری سچا کلام ہمیں محبوبِ خدا کی محبوب ہستیوں کے بارے میں خداوندی رضا کی خبر یوں دیرہا ہوں، رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ…. اور ایک ایسے صاحب اٹھیں جن کی رات اور دن کی کارگذاری سے ہم بےخبر ہیں ….اور جس کے اندر خیر پر بھی ہم مطلع نہیں ….اور وہ انہی اصحاب عظیم الشان کیطرف ایسی چیزیں منسوب کرے ، جسے ہم کسی ادنی درجے کے نیکوکار کے بارے میں بھی تصور کریں، تو ہمارے عقیدے اور عقیدت کی ساری دیواریں ، چھتیں مع بنیادوں کے دھڑام سے گر جائیں ، تب لازماً ہمیں کھڑے ہوکر یہ اعلان کرنا پڑیگا کہ معاذاللہ انہ بھتان مبین..
جب تاریخ کانام لے کر ان گلاب چہروں پر نسلی اور مذہبی تعصب کی بدبو ڈالی جائیگی، تو لازم ٹھہرتا ہے کہ تاریخ کا تفحص اور تحقیق کیا جائے، اس یقین کے ساتھ کہ سچا کلام خداوند کا ہے اور وہ ان ہستیوں کے بارے میں محض رضا ہی رضا اور معافی ہی معافی کا ذکر کرتا ہے..
صحابہ کا تعلق صرف ہماری عقیدت سے نہیں، عقیدے سے بھی ہے..اور عقیدہ کی بنیاد قرآن و حدیث ہیں ،اس لیے دور صحابہ کے متعلق کتب تاریخ اور تاریخی روایات کا مطالعه کرتے ہوے بھی وہی قانون پیش نظر رکھنا ضروری ہے جو ہم کتب حدیث پڑھتے ہوے رکھتے ہیں۔۔ قرآن و حدیث میں صحابہ کی تعریف کی گئی ہے اب اگرانکے مقابلے کوئی انکی تنقیص کرے تو اس کی قبولیت کے لیے ہم اس سے وہ معیار بھی مانگیں جو قرآن و حدیث میں تعریف میں کی گئی روایات کو حاصل ہے ۔
جب ہم کوئی حدیث پڑھتے ہیں تو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ آیا یہ بات حقيقت میں حدیث رسول صلى الله عليه وسلم ہے یا نہیں؟ اور کسی حدیث کا صحیح یا غیر صحیح ہونا جاننا ہو تو ہمیں اسکی سند نیز اسکے متن کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں ، علماء حدیث اور اصول حدیث کے ماہرین اور فقهاء امت نے اپنی زندگیاں اس تحقیق میں صرف کردیں اور ہمارے لیے ایسے قانون و ضوابط چھوڑ گئے جن سے ہم راہنمائی لے کر درست غلط روایت میں فرق کرتے ہیں ، ..
لیکن افسوس تاریخی روایات کی جانچ پھٹک میں یہ “چستی” نہیں دکھائی جاتی، جبکہ یہاں زیادہ تحقیق کی ضرورت ہے خاص طور پر ان تاریخی روایات کی جن میں دور صحابہ کرام کے واقعات بیان ہوئے ہیں، کیونکہ یہ معامله ان ہستیوں سے متعلق ہے جو نبی آخر الزمان صلى الله عليه وسلم کے تیار کردہ ہیں، جو حاملین علوم نبوت ہیں، جنکے واسطے سے دین حنیف آگے چلا ہے ، قرآن جن کی تعریف سے بھرا ہے۔..
بد قسمتی سے آج ایسے لوگ بھی پیدا ہو گئے ہیں جن کی اپنی حیثیت کچھ بھی نہیں ہوتی لیکن وہ بیٹھ کر صحابہ کرام پر تنقید کرتے ہیں، انکے درمیان ہونے والے اختلافات پر فیصلے دینے کے لیے عدالتیں لگاتے ہیں، اور بنیاد انہی تاریخی روایات کو بنایا جاتا ہے۔ ..
اب تاریخی روایات کا حال یہ ہے کہ کتب تاریخ میں بہت سی روایات کی تو سند ہی بیان نہیں ہوئی، چھٹی ساتویں صدی ہجری کا کوئی مؤرخ دور صحابہ کا کوئی واقعه لکھتا ہے کہ یہ ہوا تھا وہ ہوا تھا ..لیکن سند کوئی نہیں … اسی طرح روایات کی ایک کثیر تعداد ایسی ہے جسکی سند تو مذکور ہوتی ہے لیکن اس سند میں مذکور راویوں کے بارے میں کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا کہ وہ کون تھے؟ قابل اعتماد تھے یا نہیں؟ (یعنی مجھول راوی)، اور ایک بہت بڑا ذخیرہ ایسا ہے جنکی سند میں وہ راوی ہوتے ہیں جنکے جھوٹے اور مجروح ہونے پر علماء جرح وتعديل کا اتفاق ہوتا ہے (جیسے ابو مخنف لوط بن يحيى ،واقدی ہشام كلبى وغيره) ، لہذا تاریخی روایات کی صحت و عدم صحت کا فیصلہ کے لیے امام طبری رحمة الله عليه کی “تاريخ الامم والملوك” (تاریخ طبری) کی طرف رجوع کیا جائے، کیونکہ امام طبری دور صحابہ کی تاریخ کو سندوں کے ساتھ بیان کرتے ہیں جس سے روایت کو جانچ پھٹک میں آسانی رہتی ہے,طبری نے زیادہ تر روایات انہی مشہور دروغ گو راویوں سے لی ہیں اس لیے کسی روایت کی سند میں انکے نام کی موجودگی ہی روایت کا فیصلہ کر دیتی ہے ، نیز امام طبری کا زمانہ صحابہ سے بنسبت دوسرے مؤرخين کے قریب تر ہے، اور پھر دوسرے مؤرخين اكثر امام طبری سے ہی نقل کرتے ہیں …
آپ جب بھی کوئی تاریخ کی کتاب پڑھیں تو جو روایت آپ پڑھ رہے ہیں اسکی سند دیکھیں، واقعه دیکھیں … کتاب کے مصنف کی اپنی ذاتی رائے کی طرف مائل نہ ہوں ، روایت کو اصول روایت پر پرکھیں نہ کہ مصنف کی ذاتی رائے پر ..
صحابہ کرام (رض) کے بارے میں تاریخی روایات پڑھتے ہووے دو اہم باتیں ذہن میں رکھیں :
نمبر ایک : ہمارا عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام عليهم السلام کے بعد حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کے اصحاب کرام رضوان الله عليهم اجمعين تمام دوسرے انسانوں سے افضل و اعلى ہیں ، خود نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے تین زمانوں کو بہترین زمانہ قرار دیا ہے جس میں سے سب سے پہلا زمانہ آپ صلى الله عليه وسلم اور صحابہ کا زمانہ ہے.
نمبر دو : یہ بات ذہن میں رہے کہ اہل سنت کے نزدیک انبیاء کرام اور ملائكه کے علاوہ کوئی معصوم نہیں، لہذا صحابہ کرام انفرادی طور پر معصوم نہیں، ہاں صحابہ کا اجماع معصوم ہے ، کیونکہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت غلط بات پر اجماع نہیں کر سکتی، لہذا جس بات پر صحابہ کرام کا اجماع ہو چکا وہ اجماع معصوم ہے …
خلاصہ یہ کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ انبیاء کے بعد صحابہ کرم خير البشر ہیں لیکن وہ معصوم نہیں۔ ..
لہذا تاریخی روایات کا مطالعه کرتے ہوئے اگر کوئی ایسی روایت ملے جس میں کسی صحابی پر حرف آتا ہو تو ، اگر تو وہ روایات مستند نہیں، اسکی کوئی سند نہیں، یا سند تو ہے لیکن اس میں راوی مجہول ہوں، یا راوی مجروح ہوں تو اس روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا ..
اور اگر کوئی روایت اصول حدیث و درایت کی رو سے صحیح ہو تو پھر یہ ان باتوں میں شمار کیا جائے گا جس میں وہ معصوم نہیں ، انسے غلطی ہو سکتی ہے ہے…. اور معامله اللہ پر چھوڑ دیا جائے ..کیونکہ اللہ نے ان کے لیے قرآن میں وکلا وعداللہ الحسنی کا وعدہ کیا ہوا .. اپنی عدالت لگا کر صحابہ کرام کو کٹہرے میں کھڑے کرنا بہرحال آج کے زمانے کے لوگوں کو کوئی اختيار نہیں … ہو سکتا ہے الله نے انکی لغزشیں معاف کردی ہوں اور ہم ان پر طعن کرکے اپنی عاقبت خراب کر رہے ہوں
طرفہ تماشا یہ کہ کئی ایسے لوگ بھی جنکو روایت حدیث کے مسلمہ طریقے پر اطمینان نہیں اور صحیح احادیث کو بھی اسی وجہ سے بیک قلم مسترد کرتے ہیں کہ جی اس میں خلط کا امکان بہرحال ہے، وہ تعصبِ لسانی، تعصبِ مذہبی، تعصب مسلکی اور تعصب قومی میں گندھی ایک خبر کو “اسلامی خبر “کا نام دے کر استناد واعتماد کی سنگھاسن پر بٹھا دیتے ہیں اور پھر چاہے اس کے سامنے قرآن کا رونا رووں،احادیثِ صحیحہ سے دلائل کے انبار کھڑے کردو، مگر مستند ہے ان کا فرمایا ہوا، بلکہ ان متعصب دریدہ دہنوں کا فرمایا ہوا………مجال ہے کہ وہ ٹھس سے مس بھی ہوں گے.. اللہ ہدایت دے