کچھ لوگوں کی تحقیق کے مطابق طارق بن ذیادہ کے کشتیاں جلانے کا واقعہ من گھڑت ہے ، معروف تاریخی مصادر میں اس واقعہ کا ذکر نہیں ملتا۔ چند دن پہلے ایک علامہ ملحد نے اس تحقیق کو اپنی طبع زاد ریسرچ کے طور پر پیش کرتے ہوئے یہ طعنہ کسا کہ مسلمانوں کو شروع سے غلط علم دیا جاتاہے ، انہیں جو کچھ پڑھایا جاتا ہے و ہ حقیقت کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ وہ اسی پر ایمان لے آتے ہیں تحقیق کی جرات صرف ملحدین ہی کرتے ہیں۔۔۔
تبصرہ:
جن لوگوں نے اس واقعہ کا انکار کیا ان میں سے مفتی تقی عثمانی اور وحیدالدین خان صاحب کا نام عموما لیا جاتا ہے، مفتی صاحب نے اپنے اندلس کے سفرنامے میں اس متعلق لکھا تھا کہ سپین کی تاریخ کے سب سے بڑے مورخ المقری نے اسکا تذکرہ نہیں کیا ۔اسکی تصحیح بعد میں انہوں نے اپنے رسالے ‘ البلاغ میں پیش کردی تھی، اسکا تذکرہ آگے آئے گا، وحیدالدین خان صاحب کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ اس واقعہ کا تذکرہ چھٹی صدی کے بعد کے ایک دو مورخین نے کیا ہے اس سے پہلے ابن خلدون وغیرہ نے نہیں کیا ۔۔
ہم مفتی تقی عثمانی صاحب کی البلاغ میں پبلش ہونے والی تصحیح پیش کررہے ہیں اسی میں وحید الدین خان صاحب کے اعتراض کا جواب بھی موجود ہے۔
مفتی صاحب لکھتے ہیں :
میں نے اندلس کے سفرنامے میں جو ‘اندلس میں چند روز’ کے عنوان سے الگ بھی شائع ہوا ہے اور ‘دنیا مرے آگے’ کا حصہ بھی ہے، اندلس کی فتح کے وقت طارق بن زیاد کی کشتیاں جلانے کا ذکر کیا ہے لیکن ساتھ ہی حاشیہ میں یہ لکھا کہ قدیم تواریخ میں مجھے اس کا ذکر نہیں ملا ، اب جناب وقار چیمہ صاحب نے اپنے ایک مکتوب کے ذریعے مجھے مطلع کیا ہے کہ کن تواریخ میں اس کا ذکر موجود ہے ، چنانچہ ان کے توجہ دلانے پر میں اس سفرنامے میں تبدیلی کر رہا ہوں ، اور ان کا شکر گزار ہوں۔ ا ن کا یہ مکتوب ذیل میں پیش خدمت ہے، جزاھم اللہ تعالی خیرا۔
محترم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب
السلام علیکم و رحمہ اللہ و بر کاتہ
امید ہے آپ بفضل اللہ تعالی خیریت سے ہوں گے، جناب جیسی وسیع المطالعہ شخصیت کے علم میں یقیناً ہوگا کہ ہمارے ملک کا سیکولر میڈیا اسلام اور اسلامی تاریخ کی عظیم شخصیات کے خلاف ہرزہ سرائی کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہے۔ بعض انگریزی اخبارات خاص طور پر اس کام میں پیش پیش ہیں ۔پچھلے کچھ عرصے میں محمد بن قاسم اور جلال الدین خوارزم کے بارے میں گمراہ کن مضامین ان اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں ۔ اسی سیاق میں ایسے ہی اخبار سے منسلک ایک شخص سے گفتگو کے دوران طارق بن زیاد کے کشتیاں جلانے کے حوالے سے بات ہوئی تو اس نے آنجناب کی کتاب اندلس میں چند روز کا حوالہ دیا ہے کہ آپ تحقیق بھی یہی ہے کہ معروف تاریخی مصادر میں اس واقعہ کا ذکر نہیں۔ اس حوالے سے آپ نے خصوصیت سے المقری کی نفح الطیب کا ذکر کیا۔(حاشیہ بر صفحہ 24)
عر ض ہے کہ اگر چہ یہ درست ہے کہ خاص ساحل پر اترنے کی تفصیل تو المقری (المتوفی ۱۰۴۱) نے اس واقعہ کا ذکر نہیں کیا لیکن تھوڑا
آگے اس نے صراحتہ ذکر کیا ہے لکھتا ہے:
ترجمہ : طارق نے رمضان 94 میں مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ اس جگہ پر پڑاؤ ڈالا اور ذریق نے اپنے لشکر میں سے ایک پہلوان جس کی طاقت جنگجوانہ صلاحیتیں قابل اعتما د تھیں ‘کو طارق بن زیاد کے لشکر کی خبر لینے بھی بھیجا۔ یہ پہلوان طارق کے لشکر کو قلیل سمجھ کر ان پر حملہ آور ہوا، اتنے میں مسلمانوں کے لشکر نے اس پر جوابی حملہ کیا تو اس نےر اہ فرار اختیار کی اور تیزی سے دوڑا کہ مسلمانوں کی پہنچ سے دور چلا گیا ، اور واپس جاکر ذریق کو بتایا کہ طارق اور اسکا لشکر وہ لوگ ہیں کہ جو اپنی کشتیاں اس لئے جلا چکے ہیں کہ کہیں انکو واپسی کا خیال نہ آجائے، انکے دو ہی مقاصد ہیں، تمہارے پاؤں تلے موجود سرزمین یا جام شہادت، تیسری کوئی چیز انکو قبول نہیں، نیز انکی خوداعتمادی کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے صف آرا ہونے کے لیے سخت زمین کے بجائے نرم زمین کا انتخاب کرلیا ہے ، اب ان کے لیے ہماری دھرتی پہ کوئی جائے پنا نہیں (لہذا وہ جم کے لڑیں گے اور پھر فتح یا شہادت دونوں میں ایک انکا مقدر بنے گی)
(نفح الطیب للمقری ج۱ ص۲۵۸)
المقری سے پہلے الادریسی التوفی ۵۶۰س ھ نے بھی واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ (یہ ابن خلدون سے بھی پہلے کے مورخ ہیں )
ترجمہ : اس پہاڑ کا نام جبل الطارق اس لئے پڑ گیا ہے کہ جب طارق بن زیاد نے اپنے ساتھیوں سمیت برابر نامی جگہ پار کی تو وہی پہ خیمہ زن ہوگئے اور اسی پہاڑ کو اپنی پشت پہ رکھ دیا، اس وقت طارق کو محسوس ہوا کہ عرب انکے عزم وہمت کو شک بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں ، تو اس نے اپنی تمام کشتیاں جلا ڈالنے کا حکم دیا ، جس کے بعد ظاہر ہے کہ عزم و ہمت کے کوہ گراں پہ اعتماد کے سوا کیا چارہ باقی رہ جاتا تھا؟
( نزہۃ المشتاق فی اختراق الاٰفاق طبع عالم الکتاب بیروت ج۲ ص۵۴۰)
چھٹی صدی ہجری کے ایک اور اندلسی موٰرخ ابن الکرد بوس نے بھی واقعہ کا مختصرا ذکر کیا ہے۔ طارق بن زیاد کے لشکر سمیت
ساحل پر اترنے کے بیان کے موٰرخ مذکور نے لکھا ہے:
ترجمہ : قرطبہ کی طرف چل پڑے تو سبھی کشتیاں جلا ڈالیں اور اپنے ساتھیوں سے کہا ، اب تمہارے پاس دو ہی راستے رہ گئے ، یا تو میدان جہاد میں داد شجاعت دو اور کفار پر ٹوٹ پڑو یا پھر موت کو گلے سے لگا لو کیونکہ اب آگے دشمن اور پیچھے سمندر۔۔۔تیسرا کوئی راستہ نہیں۔
( الاکتفاء فی اخبار الخلفاء لابن الکردبوس طبع الجامعۃ الاسلامیہ المدینہ المنورہ ج۲ ص۱۰۰۷)
بعد ازاں الحمیری المتوفی ۹۰۰ھ نے الاادریسی کی عبارت بعینہ نقل کی ہے۔ ( الردض المعطار فی خبر الاقطار طبع موٰسسۃ ناصر للثقافۃ۔ بیروت ج ۱ ص ۲۲۴)
اگر آپ مناسب اور ضروری خیال کریں تو مذکورہ حوالہ جات کی تصدیق کے بعد اپنی تصنیف میں اس بارے میں وضاحت فرمادیں۔
جزاک اللہ خیرا
(ماہنامہ البلاغ کراچی, شمارہ ربیع الثانی ، 1436ھ)