حدیث قرطاس اور منکرین حدیث:
منکرین حدیث حدیث قرطاس کے حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر یہ بہتان لگاتے ہیں کہ انہوں نے اس میں ایک جملہ کہا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی منکرحدیث تھے ۔وہ حدیث یہ ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں:” یعنی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض نے شدت اختیار کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک کاغذ لاؤ۔ میں تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں۔” پھر تم ہرگز نہیں بھولو گے۔ (صحیح بخاری کتاب العلم)اس فرمان کے بعد ایک مکالمہ شروع ہوا جس کے بعض فقرے مختلف سندوں میں بیان ہوئے ہیں اور بعض بالکل محذوف ہیں، حضرت عمر نے حاضرین سے کہا:ان رسول اللہ ﷺ قد غلبہ الوجع ” اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہے۔”یعنی بہتر ہے کہ اس وقت آپ کو تکلیف نہ دی جائے، پھر کہنے لگے:وعندکم القران ” اور تمہارے پاس قرآن موجود ہے۔”بخاری باب مرض النبی ﷺ)ایک روایت کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” حسبنا کتاب اللہ” ہمارے پاس اللہ کی شریعت ہے، وہ ہمارے لیے کافی ہے۔
منکرین حدیث نے سارے منظر نامے اور بحث کو چھوڑ کر حضرت عمر کے ان جملوں کو اچک لیا اور انہیں انکے انکار حدیث کی دلیل کے طور پر پیش کردیا۔ حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ساری زندگی اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ وہ قرآن کے ساتھ حدیث کو بھی حجت سمجھتے تھے۔ لہٰذا ”حسبناکتاب اللہ”سےصرف قرآن مرادلینایااس سےانکارحدیث کاثبوت نکالنا خودمتکلم کےمنہ میں اپنےالفاظ ڈالناہے۔حضرت عمررضی اللہ عنہ سنت کی تعلیم کوکس قدراہم سمجھتےتھےایک مرتبہ جمعہ کےخطبے میں ارشاد فرمایا:
“اے اللہ!میں شہروں کےاُمراء پرتجھ کو گواہ کرتاہوں میں نے ان کو لوگوں پر صرف اس لئے مقرر کیا ہے کہ وہ ان میں عدل قائم کریں اور ان لوگوں کو دین اور نبی حضرت محمدﷺ کی سنت کی تعلیم دیں۔(صحیح مسلم جلد۱۔ صفحہ ۲۳۷)۔ ایک اور حدیث میں حضرت عمررضی اللہ عنہ فرماتےہیں:فرائض اور سنت کو اسی طرح سیکھو جس طرح قرآن سیکھتے ہو۔(جامع البیان العلم جلد۲۔ صفحہ ۱۲۳)
حضرت عمر نے کثرت روایت سے منع کیا:
منکرین حدیث ایک اور اشکال یہ بھی پیش کرتے ہیں کہ حضرت عمر کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے جھوٹی حدیثیں اتنی بڑھ گئی تھیں کہ حضرت عمر کو روایت حدیث پر پابندی لگا دینی پڑی بلکہ اسے بالکل روک دینا پڑا۔حقیقت میں اس دعوی کی کوئی تاریخی سند موجود نہیں ۔ فی الواقع اس زمانے میں وضع حدیث کا کوئی فتنہ رونما نہیں ہوا تھا۔ تاریخ اس کے ذکر سے بالکل خالی ہے۔ حضرت عمر جس وجہ سے کثرت روایت کو پسند نہ کرتے تھے وہ دراصل یہ تھی کہ جنوبی حجاز کے مختصر خطے کے سوا اس وقت تک عرب میں قرآن مجید کی عام اشاعت نہ ہوئی تھی۔ عرب کا بیشتر حصہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ کے آخری حصے میں اسلام کے زیر نگیں آیا تھا اور عام باشندگان عرب کی تعلیم کا انتظام ابھی پوری طرح شروع بھی نہ ہوا تھا کہ حضورﷺ کی وفات اور پھر خلافت صدیقی میں فتنۂ ارتداد کے رونما ہونے سے یہ کام درہم برہم ہو گیا تھا۔ حضرت عمر کا عہد وہ تھا جس میں مسلمانوں کو اطمینان کے ساتھ عوام کی تعلیم کے لیے کام کرنے کا موقع ملا۔ اس وقت یہ ضروری تھا کہ پہلے ساری قوم کو قرآن کے علم سے روشناس کرا دیا جائے اور ایسا کوئی کام نہ کیا جائے جس سے قرآن کے ساتھ کوئی دوسری چیز خلط ملط ہو جانے کا اندیشہ ہو۔ اگر صحابہ جو حضور ﷺ کی طرف سے لوگوں کو قرآن پہنچا رہے تھے، ساتھ ساتھ حضور ﷺ کی احادیث بھی بیان کرتے جاتے تو سخت خطرہ تھا کہ بدویوں کی ایک بڑی تعداد آیات قرآنی کو احادیث نبوی کے ساتھ گڈمڈ کر کے یاد کر لیتی۔ یہ وہی حکمت تھی جسکو دیکھتے ہوئے شروع میں حضور ﷺ نے بھی صحابہ کو کتابت حدیث سے منع فرمایا تھا۔ تفصیل کے لیے یہ
تحریر
دیکھیے۔
اعتراض :حضرت عمر رضی الله عنه نے تین کبار صحابہ کو کثرت روایت کے جرم میں قید کیا۔ وہ صحابہ یہ تھے ۱۔ حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنه ۲۔ حضرت ابوالدرداء رضی الله عنه ٣- حضرت ابوزر غفاری رضی الله عنه
تبصرہ
:
۱۔ حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنه
حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنه قدیم الاسلام اور کبار صحابہ میں شامل تھے۔ حضرت عمر رضی الله عنه انکی بہت عزت کرتے تھے۔ جب فاروق اعظم نے اپنے عہد خلافت میں ان کو عراق بھیجا تو یہ کہ کر اہل عراق کو ممنون کیا: “میں نے اپنی ذات پر تم کو ترجیح دے کر عبدالله کو تمہارے پاس بھیجا ہے” چنانچہ فاروقی خلافت کے زمانہ میں آپ عراق میں مقیم رہے۔ حضرت عمر رضی الله عنه نے آپ کو شرعی مسائل و اخلاق سکھانے کے لئیے عراق بھیجا تھا۔ ظاہر ہے کہ بعض احکام قرآن سے ماخوذ و منقول ہوتے ہیں اور زیادہ تر حديث نبوی سے۔ پھر حضرت عمر رضی الله عنه کثرت روایت کے جرم میں آپ کو قید کیسے کر سکتے تھے؟ خصوصاً جب کہ آپ نے ان کو عراق بھیجا ہی اس لئیے تھا کہ ان کو شرعی مسائل سکھائیں۔
۲-۳۔ حضرت ابو الدرداء و ابوذر رضی الله عنهم:
یہ دونوں صحابی سرے سے کثیر الروایت تھے ہی نہیں! ابوالدرداء رضی الله عنه ملک شام میں اسی طرح معلم تھے جس طرح عبدالله بن مسعود رضی الله عنه عراق میں۔ ابوالدرداء رضی الله عنه جب کہ شام کے معلم و فقیہ تھے تو حضرت عمر رضی الله عنه ان کو قید میں کیسے ڈال سکتے تھے؟ کیا کوئ صاحب عقل و خرد اس بات کو باور کر سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی الله عنه کا مقصد یہ تھا کہ حضرت عبدالله رضی الله عنه اور ابوالدرداء رضی الله عنه حدیثوں کو چھپا کر رکھیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ احکام دین کو چھپانے کے مرتکب ہوتے۔ جہاں تک حضرت ابوزر رضی الله عنه کا تعلق ہے ان کی مرویات حضرت ابو ہریرہ کی روائت کردہ احادیث کے مقابلہ میں پاسنگ کی حیثیت بھی نہیں رکھتیں۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ابوزر رضی الله عنه کو تو قید میں ڈالا جاتا اور ابوھریرہ رضی الله عنه محفوظ رہتے؟ اگر یہ کہا جائے کہ ابوھریرہ رضی الله عنه حضرت عمر رضی الله عنه کے ڈر سے زیادہ حدیثیں روایت نہیں کرتے تھے تو پھر ابوزر رضی الله عنه کے نہ ڈرنے کی کیا وجہ تھی؟
خلاصہ کلام یہ کہ جو صحابہ کثرت روایات میں معروف تھے مثلاً ابن عباس، ابوہریرہ، عائشہ اور جابر بن عبدالله رضی الله عنهم، عبدالله بن مسعود رضی الله عنه بھی ان میں شامل تھے۔ ان میں سے کسی کے بارے میں بھی یہ منقول نہیں کہ حضرت عمر نے اس سے کچھ تعرض کیا ہو۔یہ بات کسی طرح قریب عقل و قیاس نہیں کہ حضرت عمر رضی الله عنه ابوھریرہ رضی الله عنه جیسے شخص سے تو کچھ تعرض نہ کریں جو صحابہ میں علی الاطلاق سب سے زیادہ حدیثیں روایت کرنے والے تھے اور عبدالله بن مسعود رضی الله عنه جیسے قلیل الروایت صحابہ کو قید و بند میں ڈال دیں حالانکہ یہ کثرت روایت میں ہرگز معروف نہ تھے۔
ہم نے معتبر کتب میں اس روایت کو تلاش کرنے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ امام ابن حزم رحمہ الله کی کتاب ” الاحکام” میں اس روایت کا ذکر ملا ۔ ابن حزم نے اس روایت کو منقطع قرار دیا اس لیے کہ اس کے راوی ابراہیم بن عبدالرحمٰن کا سماع حضرت عمر سے ثابت نہیں۔ امام بیہقی نے بھی یہی لکھا ہے۔ امام ابن حزم رحمہ الله فرماتے ہیں کہ :
” اس روایت پر کذب و وضح کے آثار نمایاں ہیں۔ اس لئے کہ یا تو حضرت عمر رضی الله عنه نے ان صحابہ کو وضح حدیث سے متہم کیا جو بجائے خود غلط ہے۔ بصوردیگراگروہ صحابہ احادیث صحيحہ روایت کرتے تھے اور آپ نے انہیں منع کیا تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ حضرت عمر رضی الله عنه نے حديث نبوی کی نشر و اشاعت سے روکا اور اس کے چھپانے پر مجبور کیا جو اسلام کے خلاف ایک عظیم بغاوت ہے حالانکہ حضرت فاروق اعظم رضی الله عنه کا دامن اس سے پاک ہے اور کوئ مسلم یہ کہنے کی جسارت نہیں کر سکتا۔ تیسری صورت یہ ہے کہ وہ صحابہ متہم بالکذب نہ تھے اور آپ نے بلاوجہ ان کو قید و بند میں ڈالا تو یہ ایک عظیم ظلم ہے۔ اب جو شخص اپنے مذہب فاسد پر ایسی ملعون روایات سے استناد کرتا ہے وہ جونسا خبیث راستہ چاہے اپنے لئیے اختیار کرے۔”
(الاحکام لابن حزم ج ۲-ص۱۹۳)