اسلام سے پیشتر دنیا کے کسی ملک اورکسی قوم کو یہ توفیق میسر نہیں ہوئی کہ وہ فن تاریخ نویسی کی طرف متوجہ ہوتی یا اپنے بزرگوں کی صحیح تاریخ مدوّن ومرتب کرتی ۔ حالت یہ تھی کہ تاریخ بغیر سند کے مبالغہ امیز قصے کہانیوں اور مشہور شاعروں کے اشعار میں ہی ملتی تھی۔ ا س کے لیے بائیبل کے صحیفوں ، یونان کے تخیلاتی کرداروں اورمہابھارت ورامائن کے افسانوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
تاریخ کو باقاعدہ ایک فن کی شکل میں مسلمانوں نے آکر راءج کیا ۔احادیث نبوی کی حفاظت وروایت میں جس احتیاط سے کام لیا گیا اُس کی نطیر انسانی نسل ہرگز ہرگز پیش نہیں کرسکتی،اصولِ حدیث واسماء الرجال وغیرہ مستقل علوم محض حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت وحفاظت کے لئے مسلمانوں نے ایجاد کئے،
روایات کی چھان بین اور تحقیق وتدقیق کے لئے جو محکم اصول مسلمانوں نے ایجاد کئے اُن کی مثال دنیا نے اپنی اس طویل عمر میں کبھی نہیں دیکھی تھی۔اسی سلسلہ اوراسی طرز وانداز میں انہوں نے اپنے خلفاء،امراء سلاطین، علماء وغیرہ کے حالات قلم بند کئے، مسلمانوں کی تاریخ نویسی دنیا کے لئے ایک نئی چیز اوربالکل غیر مترقبہ مگر بے حد ضروری سامان تھا،
دوسری قومیں جب اپنی بائیبل اورمہا بھارت وغیرہ کتابوں کو مایۂ ناز تاریخی سرمایہ سمجھتی ہیں تو انسان حیران رہ جاتا ہے اور مسلمان ہیں کہ اپنی مستند تاریخ کو تاریخی کتابوں کی الماری سے نکال کر جُدا کرتے نظر آتے ہیں۔
آج یورپی مؤرخین فن تاریخ کے متعلق بڑی بڑی موشگافیوں سے کام لیتے ہوئے نظر آتے ہیں اورمسلمان ان سے مرعوب اوراُن کے کمالِ فن کی داد دینے میں پورے خلوص سے کام لے رہے ہیں ؛لیکن ان کو یہ بھی معلوم نہیں کہ شمالی افریقہ کے رہنے والے ایک اندلسی عرب خاندان کے مسلمان مؤرخ ابن خلدون کے مقدمہ تاریخ کی خوشہ چینی نے تمام یورپ اور ساری دنیا کو فن تاریخ کے متعلق وہ وہ باتیں سمجھا اور بُجھا دی ہیں کہ مؤرخین یورپ کی تمام مؤرخانہ سعی وکوشش کے مجموعہ کو مرقدابن خلدون کے مجاور کی خدمت میں جاروب بناکر مؤدبانہ پیش کیا جاسکتا ہے۔
ابن اسحاق، ابن ہشام،ابن الاثیر ،طبری وغیرہ سے لے کر احمد بن خاوند شاہ اورضیاء برنی ،ملائے بدایونی تک ہزارہا مسلمان مؤرخین کی مساعی جمیلہ اورکارہائے نمایاں جن ضخیم جلدوں میں آج تک محفوظ ہیں اُن میں سے ہر ایک کتاب مسلمانوں کی مبہوت کن شوکت رفتہ اورمرعوب ساز عظمتِ گذشتہ کا ایک مرقع ہے اوران میں سے ہر اسلامی تاریخ اس قابل ہے کہ مسلمان اُس کے مطالعہ سے بصیرت اندوز اورعبرت آموز ہوں لیکن کتنے افسوس کا مقام ہے کہ اب فی صدی ایک مسلمان بھی ایسا نظر نہیں آتا جو اپنی اسلامی تاریخ سے واقف ہونے کے لئے ان مسلمان مؤرخین کی لکھی ہوئی تاریخوں کو مطالعہ کرنے کی قابلیت بھی رکھتا ہو؛حالانکہ مل،کار لائل، الیٹ،گین وغیرہ کی لکھی ہوئی تاریخیں پڑھنے اورسمجھنے کی قابلیت بہت سے مسلمانوں میں موجود ہے۔
اقوامِ عالم میں صرف مسلمان ہی وہ قوم ہے جو سب سے زیادہ شان دار تاریخ رکھتی اور سب سے بڑھ کر اپنے بزرگوں کے کارناموں کی نسبت ایسا یقینی علم حاصل کرسکتی ہے جو ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہے،
مسلمانوں کو ہومر کے الیڈ واُڈ سے روشناس کرانے کی مطلق ضرورت نہیں،مسلمانوں کو مہا بھارت ورامائن کی بھی کوئی احتیاج نہیں ؛کیونکہ اُن کی یقینی وحقیقی تاریخ میں ہر قسم کے نمونے اور کارنامے الیڈواُڈ سے اورمہا بھارت ورامائن کے واقعات سے زیادہ شان دار اورمحیر العقول موجود ہیں؛ لیکن ان مذکورہ افسانوں اورداستانوں کی غلط بیانی وبے اعتباری اُن کے پاس تک نہیں پھٹک سکتی،
مسلمانوں کو فرذوسی کے شاہنا مے اوراسپار ٹا والوں کے افسانے کی بھی ضرورت نہیں؛کیونکہ اُن کی تاریخ کا ہر ورق بہت سے رستم اوربہت سے اسپارٹا پیش کرسکتا ہے،
مسلمانوں کو نوشیروان عادل اورحاتم طائی کی کہانیوں کے سُننے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ اُن کی سچی اورحقیقی تاریخ میں لا تعداد حاتم و نو شیرواں جلوہ فرما ہیں،
مسلمانوں کو ارسطو وبیکن اوربطلیموس ونیوٹن کی بھی کوئی احتیاج نہیں ہے؛ کیونکہ ان کے اسلام کی مجلس میں ایسے ایسے فلسفی وہیئت داں موجود ہیں جن کی کغش برداری پر مذکورہ مشاہیر کو فخر کا موقع مل سکتا ہے۔
کس قدر! افسوس اور کسی قدر حیرت کا مقام ہے کہ آج جبکہ مسابقتِ اقوام کا ہنگامہ تمام دنیا میں برپا ہے،مسلمان جو سب سے زیادہ شان دار تاریخ رکھتے ہیں وہی سب سے زیادہ اپنی تاریخ سے بے پروا اورغافل نظر آتے ہیں،
مسلمانوں کے جس طبقہ کو کسی قدر بیدار اورہوشیار کہا جاسکتا ہے، وہ سب سے ذیادہ احساس کمتری کی شکار ہے۔اسکی بھی یہ حالت ہے کہ اپنے لیکچروں ،تقریروں، تحریروں،مضمونوں،رسالوں،اخباروں اورکتابوں میں جہاں کہیں اخلاق فاضلہ کے متعلق کسی نظیر و تمثیل کی ضرورت پیش آتی ہے تو یورپ اورعیسائیوں میں سے کسی مشہور شخص کا نام فوراً اوربلا تکلف زبان اور قلم پر جاری ہوجاتا ہے اس سے زیادہ مستحق سینکڑوں ،ہزاروں مسلمانوں کے تعلیم یافتہ طبقہ اور علوم جدیدہ سے واقف مسلمانوں کی تقریروں اورتحریروں میں نپولین،ہنی بال،شیکسپیئر، بیکن، نیوٹن وغیرہ مشاہیر یورپ کے نام جس قدر کثرت سے پائے جاتے ہیں ایسی کثرت سے خالد بن ولید، صلاح الدین ایوبی،حسان بن ثابت فردوسی، طوسی،ابن رُشد،بو علی سینا وغیرہ کے نام تلاش نہیں کئے جاسکتے،
اس کا سبب بجز اس کے اورکچھ نہیں کہ مسلمان اپنی تاریخ سے ناواقف اورغافل ہیں،مسلمانوں کی ناواقفیت اورغفلت کا سبب یہ ہے کہ اول تو علم کا شوق دوسری ہمسر قوموں کے مقابلہ میں مسلمانوں کو کم ہے،
دوسرے علم حاصل کرنے کے مواقع اور فرصتیں میسر نہیں،
تیسرے سرکاری مدارس اورکالجوں نے اسلامی درس گاہوں کو اس ملک ہندوستان میں قریباً ناپیدا کردیا،
چوتھے مسلمانوں میں جس طبقہ کو تعلیم یافتہ طبقہ کہا جاتا ہے اور جو ہندوستانی مسلمانوں میں پیش رو سمجھا جاتا ہے وہ سب کا سب سرکاری درس گاہوں اورکالجوں میں ہوکر نکلا ہوا ہوتا ہے، جہاں اسلامی تاریخ نصاب تعلیم کا کوئی جزو نہیں اور اگر ہے تو وہ کوئی اور ہی چیز ہے جس کو اسلامی تاریخ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے،کالجوں کے ڈپلومے حاصل کرنے کے بعد نہ تعلیم کے قابل عمر باقی رہتی ہے نہ اسلامی علوم حاصل کرنے کی مہلت وفرصت میسر ہوسکتی ہے، ہمارے ملک کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کو اُسی اسلامی تاریخ پر اعتماد کرنا پڑتا ہے جو مسلمانوں کے رقیبوں اورمخالفوں کی مرتب کی ہوئی مسخ شدہ تاریخ انگریزی تصانیف میں موجود ہے۔