نبیﷺ کے حسی معجزات کی بابت معاندین( مستشرقین نے یہ پراپیگنڈہ کیا) کہ یہ مسلمانوں کی اپنی ہی روایات سے ملتے ہیں دیگر ’ذرائع‘ سے ان کی تصدیق ہونا ممکن نہیں۔
گو اِس کے کئی ایک جوابات ہیں مگر بائبل پر ایمان رکھنے والے یہ لوگ ہمیں یہی بتا دیں کہ وہ کونسا نبی ہے جس کے حسی معجزات کا ذکر نسلیں گزر جانے کے بعد اُس کے اپنے ہی پیروکاروں کے سوا کہیں اور پایا گیا ہو؟
موسیٰ علیہ السلام نے مصر میں خدا کے حکم سے معجزات دکھائے اور مسیح علیہ السلام کے آنے تک کوئی ڈیڑھ ہزار سال اِن معجزات کا ذکر چلتا رہا تو وہ بنی اسرائیل کی اپنی ہی روایات تھیں جوکہ ایک قابل وثوق طریقے سے ذکر ہوتی تھیں جسے جھٹلانے کی کوئی وجہ نہ تھی۔
مصر میں موسیٰ علیہ السلام نے جو معجزے برسرعام دکھائے تھے (حضورﷺ کے آنے سے پہلے )ان کا ذکر کیا بنی اسرائیل کے علاوہ بھی کسی کے پاس رہا؟ ان معجزات کا ثبوت آلِ فرعون کے ’آرکائیوز‘ سے لا کر تو کبھی نہیں دیا گیا!!!
عیسیٰ علیہ السلام کے معجزے جو بطور نبی چھ سو سال تک یعنی پیغمبر آخر الزمانﷺ کی بعثت تک ذکر ہوتے رہے (اور ان کی ’خدائی‘ کے ثبوت کے طور پر آج تک ذکر ہو رہے ہیں) پیروانِ مسیح ؑ کے سوا اُن معجزات کا ذکر کس کے پاس پایا گیا؟ یہود یا پھر دیگر اقوام کے ’ریکارڈ‘ سے تو ان کے ثبوت لا لا کر کبھی پیش نہیں کئے گئے!!!
موسیٰ اور عیسی علیہما السلام کا معاملہ تو ابھی پھر کچھ مختلف رہا ہو گا، اِس نبی ﷺ کے تو اِنجازات acheivements ہی اتنے رہے کہ یہ سوال اٹھنے کی گنجائش ہی باقی نہ رہی۔ پورے کا پورا جزیرۂ عرب ہی تو اِس نبی پر ایمان لے آیا!!! کوئی اور یہاں رہا کہاں کہ اُس سے کچھ بھی دریافت کیا جائے؟!!
پورے کے پورے جزیرۂ عرب ہی نے تو گواہی دے ڈالی کہ ”محمد اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول ہے“!!! اِس جزیرۂ عرب سے اِن معجزات کی گواہی نہ لیں تو کہاں سے لیں؟!! جہاں معجزے پیش آئے گواہیاں وہیں سے تو لی جائیں گی!!! مسیح ؑ کے معجزے اگر فلسطین میں ہوئے تو اس کی گواہیاں امریکہ سے تو نہیں ملیں گی!!!
اگر حسی معجزات physical miraclesکے ثبوت evidence کے لیے ایک پوری قوم کی گواہی کافی نہیں تو تاریخ کا کونسا واقعہ پھر دنیا میں معتبر رہ جاتا ہے؟ یا تو یہ کہہ دیں کہ دنیا میں معجزات نام کی کوئی چیز کبھی ہوئی ہی نہیں، پھر اُس صورت میں ہمیں وہ معجزے بھی نہ سنائیں جن سے کنواری مریم ؑ کے بطن سے پیدا ہونے والا ایک انسان ’خدا‘ ثابت کر دیا جاتا ہے یا پھر مانیں کہ معجزات کی صورت میں خدا کی قدرت تاریخ کے اندر وقتاً فوقتاً اپنا آپ بتانے کیلئے اور اپنے فرستادہ انبیاءکی غیبی تائید کیلئے نگاہِ انسانی پر آشکارا ہوتی رہی ہے۔ اور اگر معجزے دنیا میں ہوئے ہیں اور ایک اِن لوگوں کو نہیں دنیا کے ہر ایک مذہب کو اِس بات کا دعویٰ ہے تو اس کے ثبوت کا جو معیار وہ مذہب اپنے لئے رکھے گا ہم اپنے نبی کے معجزات ثابت کرنے میں اُس معیار پر سب سے بڑھ کر پورا اتر کر دکھائیں گے! کیا یہ ایک معقول ترین بات نہیں؟
یہاں تک تو بات تھی ان معیاروں کی جو دوسرے اپنے لئے رکھنا چاہیں اور ان میں وہ جتنے کڑے ہونے کی ہمت رکھیں ہو لیں، ہم خدا کے فضل سے اُن معیاروں پر اُن سے بڑھ کر پورا تریں گے۔ البتہ اِس کے بعد رہ جاتی ہے بات اُن معیاروں کی جو ہم اپنے لئے رکھتے ہیں اور جن پر پورا اترنا کسی اور کے بس کی بات نہیں۔۔۔۔!
ہاں یہ ایک بات ایسی ہے جو اللہ کے فضل سے ہمارے ہی پاس ہے اور صرف اور صرف امتِ محمدﷺ کا خاصہ ہے۔۔۔۔ اور یہ ہے علم الاِسناد وروایت Sicience of Narration and Documentation۔ ”روایت“ اور ”اسانید“ البتہ صرف اور صرف اِس نبی ہی کا معجزہ ہے!!!
علم الاسناد، واقعتاً علمِ تدوینِ تاریخ کا ایک حیرت کدہ ہے اور مسلم عبقریت Muslim genius کا ایک منہ بولتا ثبوت۔ صرف ایک مبارک ہستی کی زندگی کا ”اسکیچ“ لینے کیلئے ہزارہا راویوں کے اسکیچ بھی کمال دِقت کے ساتھ محفوظ کر لئے گئے!!!
ایک ایک کا نام، ولدیت، کنیت یا لقب اور اگر ایک سے زیادہکنیتیں یا لقب تھے تو وہ، زمانہ جس میں وہ شخص پایا گیا، کس کس سے حدیث سنی، کس کس کو آگے حدیث روایت کی، اُس کا اپنا عقیدہ، دینی و علمی حالت، حتیٰ کہ بہت سے حالات میں اُس کی نفسیاتی کیفیت، اُس کی دیانت اور امانت کس معیار کی تھی، حافظہ کس پائے کا تھا، اس کے اہم حالاتِ زندگی ۔۔ غرض ہزاروں راویوں کے مفصل کھاتے biographiesسر بمہر کر دیے گئے۔
ایک ایک پر جتنی جرح ہو سکتی تھی بلا رو رعایت جرح کی گئی۔ بڑے بڑے نام ضعیف نکلتے تھے تو ادنیٰ تامل کئے بغیر ضعیف قرار دے دیے گئے۔ پھر صرف راوی کے حالات ہی نہیں ایک ایک سند پر الگ سے سیر حاصل بحث ہوئی۔ ایک راوی کا دوسرے سے دعوائے سماع ثابت ہوتا ہے یا نہیں، اِس پر دفتروں کے دفتر لکھنا پڑے تو لکھے گئے، صرف اِس لئے کہ آسمان کی آخری امانت زمین والوں کیلئے بدرجۂ تمام محفوظ کر دی جائے۔ ایک ایک سند کے اتصال اور اِنقطاع پر ایسی ایسی بحث اور ایسے ایسے دقائق کہ آدمی کے پاس داد دینے کو لفظ تک باقی نہ رہیں!
جس مورخ نے بھی مسلم محدثین کے ہاں پایا جانے والا ”علم رجال“ اور ”علم تخریج“ دیکھا ہے وہ دنگ ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ اس کی نظیر اُس کے سان گمان میں نہ آسکتی تھی۔
بخدا یہ ظاہر بین دنیا جو ’اَہرامِ مصر‘ اور ’پیسا ٹاور‘ اور ’تاج محل‘ کو عجائبِ جہاں گنتی ہے اگر کہیں مسلم محدثین کے ہاں پائے جانے والے ”علم رجال“ کو دیکھ لے جس کو ’تعمیر‘ کرنے میں کئی نسلوں تک ہزاروں افراد کی پوری پوری زندگیاں صرف ہوئیں تو وہ دنیا کے باقی سب عجوبے بھول جائے۔ ایسی کمال کی ایک میزان وجود میں لائی گئی ہے کہ کھرا اور کھوٹا یوں الگ کر دیا جاتا ہے کہ سنار بھی سونے کی ایسی پرکھ کرنے سے عاجز رہ جائے!
امتِ محمدﷺ کے ہاں پائی جانے والی مرویات narrations کی اِس خصوصیت کو سامنے رکھیں، ہر شخص یہ شہادت دے گا کہ اہلِ کتاب کی روایت کردہ کوئی تاریخی رپورٹ رتبے میں اُس درجے کو پہنچ ہی نہیں سکتی جو اللہ کے فضل سے ہماری مرویات کو حاصل ہے۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ اُن کی بیشتر ’معتبر‘ روایات رتبے میں ہمارے ہاں پائی جانے والی اُس روایت کو بھی نہیں پہنچتیں جسے ہمارے علمائے اِسناد ’ضعیف‘ قرار دیتے ہوں! کیونکہ ہمارے ہاں پائی جانے والی ایک ’ضعیف روایت‘ میں بھی راویوں کی پوری سند موجود ہوتی ہے، محض کسی ایک آدھ راوی کے ضعف کی وجہ سے یا سند میں کہیں انقطاع آجانے کے باعث اُس کو ضعیف قرار دے دیا گیا ہوتا ہے۔ اِن لوگوں کی تو معتبر سے معتبر روایت میں بھی ’سند‘ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، راویوں کا ضعف یا سند کا اتصال دیکھنے کی تو نوبت ہی بھلا کیوں آنے لگی!
امت محمدﷺ کے ہاتھوں ہونے والے تاریخ کے دو نہایت عظیم کام: ایک حفاظتِ قرآن، اور دوسرا فنِ رجال کا وجود میں لایا جان۔۔ زمین پر ختمِ نبوت کے دو اتنے بڑے ثبوت ہیں کہ اِس کے بعد ’ثبوت‘ مانگنے والا کوئی اندھا ہی ہو سکتا ہے۔
بخدا!!! کوئی شخص امتِ محمدﷺ کے خصائص دیکھے تو سہی جو خدا کی جانب سے اِسے بخشے گئے ہیں!!! ہم جس نعمت میں ہیں کسی کو اِس کا کیا اندازہ!!!
حامد کمال الدین