بہت سے لوگ تلوار کے زور سے قطعات اراضی کے فاتح بنے، بہت سی بادشاہتیں اور آمریتیں جبر کے زور سے قائم ہوتی رہتی ہیں، اور کشاکش مفاد کے لئے بے شمار فیصلے جنگ کے میدانوں میں طے پاتے رہے ہیں،
لیکن دنیا کی کوئی بھی انقلابی تحریک ہو اسے اپنی قسمت کا فیصلہ ہمیشہ رائے عامہ کے دائرے میں کرنا ہوتا ہے،
انسانی قلوب جب تک اندر سے کسی دعوت کا ساتھ دینے پر تیار نہ ہوں اور اپنے ذہن و کردار کو اس کے سانچے میں ڈھالنے کے لئے راضی نہ ہوجائیں،
محض جبر و تشدد سے حاصل کئے گئے علمبردار اس کے لئے مفید نہیں ہوتے بلکہ الٹا وہ اس کی کامل بربادی کا سبب بن جاتے ہیں۔ پس ہر اصولی تحریک کا مزاج تعلیمی ہوتا ہے اور اس کے چلانے والو ں میں مربیانہ اور معلمانہ شفقت کی روح کام کر رہی ہوتی ہے۔
مخالفین اسلام شروع سے اسلام کے خلاف یہ پراپیگنڈہ کرتے آرہے ہیں کہ یہ تلوار سے پھیلا؟ لوگ تلوار کے زور پر مسلمان ہوتے رہے۔ ۔ ایک چیز جو باطن سے تعلق رکھتی ہو وہاں جبر کیسے چل سکتا ہے اور کب تک چل سکتا ہے۔ مشہور محقق ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں ۔
“یہ مملکت (مدینہ کی ریاست) ابتداءمیں ایک شہری مملکت تو تھی لیکن کامل شہر میں نہیں تھی بلکہ شہر کے ایک حصے میں قائم کی گئی تھی، لیکن اس کی توسیع بڑی تیزی سے ہوتی ہے۔ اس توسیع کا آپ اس سے اندازہ لگائیے کہ صرف دس سال بعد جب رسول اللہ کی وفات ہوئي، اس وقت مدینہ ایک شہری مملکت نہیں بلکہ ایک وسیع مملکت کا دارالسلطنت تھا۔ اس وسیع سلطنت کا رقبہ تاریخی شواہد کی رو سے تین ملین یعنی تیس لاکھ مربع کلومیٹر پر مشتمل تھا۔ دوسرے الفاظ میں دس سال تک اوسطاً روزانہ کوئی آٹھ سو پینتالیس مربع کلومیٹر علاقے کا ملک کے رقبے میں اضافہ ہوتا رہا۔۔
تین ملین کلومیٹر رقبہ فتح کرنے کے لیے دشمن کے جتنے لوگ مرے ہیں، ان کی تعداد مہینے میں دو بھی نہیں ہے، دس سال میں ایک سو بیس مہینے ہوتے ہیں تو ایک سو بیس کے دو گنے دو سو چالیس آدمی بھی ان لڑائیوں میں نہیں مرے، دشمن کے مقتولین کی تعداد اس سے کم تھی، مسلمانوں کے شہداء کی تعداد دشمن کے مقتولین سے بھی کم ہے۔ مسلمانوں کا سب سے زیادہ نقصان جنگ احد میں ہوا کہ ستر آدمی شہید ہوئے اور یہ نقصان بھی مسلمانوں کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہوا۔ بہرحال بحیثیت مجموعی میدان جنگ میں قتل ہونے والے دشمنوں کی تعداد مہینے میں دو سے بھی کم ہے، جس سے ہمیں نظر آتا ہے کہ رسول اللہ کس طرح اسوۂ حسنہ بن کر دنیا بھر کے حکمرانوں اور فاتحوں کو بتاتے ہیں کہ دشمن کا مقابلہ اور ان کو شکست دینے کی کوشش ضرور کرو لیکن بےجا خون نہ بہاؤ۔ مقصد یہ کہ دشمن جو آج غیر مسلم ہے ممکن ہے کل وہ مسلمان ہو جائے یا اس کے بیوی بچے اور اس کی آئندہ نسلیں مسلمان ہو جائیں لہذا اس امکان کو زائل کرنے میں اپنی طرح سے کوئي ایسا کام نہ کرو جس سے پچھتانے کی ضرورت پیش آئے۔
(اقتباس از خطبات بہاولپور، ڈاکٹر محمد حمید اللہ)