گزشتہ تحریر میں ہم نے غیر مسلم مورخین کی کذب بیانی اور جانبدار ی کی مثالیں پیش کی تھی، تحریر میں ایک تبصرہ جرجی زیدان کی کتاب تمدن اسلام پر بھی پیش کیا گیا تھا۔ اس کتاب کا شمار اسلامی تاریخ پر غیر مسلموں کی لکھی گئی مشہور ترین کتابوں میں ہوتا ہے۔ اس تحریر میں ہم اس کتاب کا تفصیلی جائزہ پیش کررہے ہیں اس سے بات مزید واضح ہو جائے گی ۔
مستشرقین کی جانب سے اسلامی عقائد ، ثقافت ، تہذیب و تمدن اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی ذات گرامی پر مختلف انداز سے طنز و تشنیع کا سلسلہ گزشتہ کئی صدیوں سے جاری ہے ۔ تاہم ہمارے یہاں کے عام اور نسبتاً سطحی درجے کے اہل علم مغرب اور مغربی مفکرین سے مرعوبیت کی حد تک متاثر ہیں اس لیے بسا اوقات مستشرقین کے اندازِ فریب کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں ۔ جرجی زیدان ( ١٨٦١ء – ١٩١٤ء ) کی مشہور کتاب “تمدن اسلام “ کا تعلق بھی ایسی ہی کتابوں میں ہے جسے اس وقت اسلامی دنیا میں بھی بڑی پذیرائی ملی تھی ۔ تاہم علامہ شبلی نعمانی ( ١٨٥٧ء – ١٩١٤ء ) نے اس کی زہر ناکیوں کا پردہ فاش کیا۔ چنانچہ انہوں نے عربی میں ہی “ الانتقاد علی کتاب التمدن الاسلامی “ لکھی جو ١٩١٢ء میں لکھنؤ سے طبع ہوئی ۔ علامہ شبلی کا یہ مقالہ بہت مشہور ہوا تھا اور اسے علمی دنیا میں وقعت کی نظر سے دیکھا گیا تھا ۔بعد ازاں انہوں نے اس کی تلخیص اردو میں کی جو ماہنامہ “ الندوہ “ لکھنؤ کی شعبان المعظم ١٣٢٨ھ کی اشاعت میں طباعت پذیرہوئی ۔ نیز علامہ شبلی کے مقالات کی چوتھی جلد میں بھی شامل اشاعت ہے۔ آج بھی ہمارے یہاں مغرب سے مرعوبیت کا سلسلہ جاری ہے ۔ اسی پسِ منظر میں اس مقالے کی اشاعت کی جارہی ہے ۔ (بشکریہ مجلہ الواقعہ)
الانتقاد علی کتاب التمدن الاسلامی:
جر جی زیدان ایک عیسائی مصنف نے یہ کتاب چار حصوں میں لکھی ہے جس میں مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کی تاریخ لکھی ہے ۔ اس کتاب میں مصنف نے در پردہ مسلمانوں پر نہایت سخت اور متعصبانہ حملے کیے ہیں لیکن بظاہر مسلمانوں کی مدح سرائی کی ہے جس کا نتیجہ یہ ہو اکہ لو گوں کی نظر اس کی فریب کاریوں پر نہیں پڑی اور کتاب گھر گھر پھیل گئی ۔میں اس حالت کو دیکھ رہا تھا ، لیکن قلت فرصت کی وجہ سے اس کی طرف متوجہ نہیں ہو سکتا تھا ، نوبت یہاں تک پہنچی کہ فاضل کے امتحان میں اس کے داخل نصاب کر نے کی رائے دی گئی اور ٹائمس نے حال میں ایک مضمون لکھا کہ حضرت عمر کا کتب خانہ اسکندریہ کو جلانا ثابت ہے ۔جیسا کہ جر جی زیدان نے اس کوتمدن اسلام میں جدید دلائل سے ثابت کر دیا ہے ۔ان واقعات نے مجبور کر دیا کہ میں اس کی فریب کاریاں تفصیل کے ساتھ ناظرین کے پیش نظر کروں اصل مضمون عربی میں لکھا ہے اور اس کو نہایت وسعت دی ہے اردو میں مختصر کر دیا ہے اور طرز تحریر بھی معمولی ہے ۔
مصنف کا اصل مقصود کیا ہے ؟
آج کل یو رپ میں تصنیف کا ایک طرز یہ ہے کہ مصنف کسی خاص قسم کے واقعات جب ملک میں پھیلانا چا ہتا ہے تو اس پر مستقل حیثیت سے کوئی کتاب نہیں لکھتا بلکہ کو ئی ناول لکھتا ہے جس میں ان واقعات کو جا بجا ضمنی موقعوں میں لاتا جا تا ہے اور اس طرح دلچسپی کے ساتھ ان تمام واقعات کو گوش آشنا کر دیتا ہے ، اسی قسم کا طریقہ مصنف نے اختیار کیا ہے، اس کے اہم مقاصد جس کے لیے اس نے یہ کتاب لکھی ہے ، حسب ذیل ہیں :
(١) عرب کی تحقیر اور ان کی مذمت۔
(٢) خلفائے (بنو امیہ و عباسیہ ) کے مذہب کی توہین کرتے تھے ، یہاں تک کہ منصور نے بغداد میں کعبہ کی تحقیر کے لیے قبہ خضراء بنو ایا اور معتصم نے سامرہ میں کعبہ اور صفا و مروہ تعمیر کیا ۔
(٣) مسلمانوں پر عام اعتراضات ۔
ان مضامین پر مصنف اگر کو ئی مستقل کتاب لکھتا تو لوگ اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھتے اس لیے اس نے تاریخی واقعات کے پردہ میں ان مضامین کو ادا کیا اور آہستہ آہستہ یہ زہر اس طرح سرایت کر گیا کہ لو گوں کو خبر بھی نہ ہو نے پائی ۔
مصنف نے ان اغراض کے حاصل کرنے کے لیے جو طریقے اختیار کیے ان کی تفصیل ذیل میں ہے :
(١) صریح کذب ودروغ
(٢) روایات کی نقل میں خیانت اور تحریف
(٣) کسی صحیح واقعہ میں اپنی طرف سے ایسا اضافہ کر دینا کہ واقعہ کی صورت بدل جائے
(٤) غلط استنباط اور استدلال ۔
بنوامیہ اور بنو عباس:
ہم پہلے مصنف کے مقاصد کو کسی قدر تفصیل سے دکھاتے ہیں ۔
کتاب کا ایک بڑا موضوع بنو امیہ کی برائی اور عیب گیری ہے جس کے ضمن میں دراصل عرب پر حملہ کرنا مقصود ہے ۔کتاب کے چند اقتباسات حسب ذیل ہیں !
1. “ بنو امیہ جو عرب کی طرف داری اور تمام دنیا کی تحقیر کرتے تھے ، اس کا نتیجہ یہ تھا کہ تمام مفتوحہ شہروں کے لو گوں کو اوران کے دولت و مال کو شیرمادر سمجھتے تھے ۔” (تمدن اسلام حصہ دوم ص ١٩)،
2. “بنو امیہ کے عمال زمینداروں پر مالگذاری وغیرہ کے وصول کرنے میں ظلم کرتے تھے۔”(تمدن اسلام حصہ دوم ص ١٩)،
3. “ اور بنو امیہ کے عمال یہ باتیں اپنی طرف سے نہیں کرتے تھے بلکہ اکثر خلفاکے حکم سے کرتے تھے ،اور بنو امیہ عیش پرستی اور لہو و لعب اور شراب میں ڈوب گئے تھے۔”(حصہ دوم ص ٢٦)
4. “اور عمال بنو امیہ مفتوحہ قوموں کے مال چھین لینے کو کچھ برا نہیں سمجھتے تھے ۔”(حصہ چہارم ص ٧٥)
5. “قرآن مجید اور حرمین کی توہین کرتے۔”( حصہ چہارم ص ٧٨)
6. “ ذمی اور دیگر اصلی باشندوں نے بنو امیہ اور ان کے ملازموں کے ہاتھ سے سخت مصیبتیں جھلیں حتیٰ کہ ان لو گوں نے بھی جو مسلمان ہو گئے تھے ،کیونکہ عرب ان سے غلاموں کا سا برتاؤ کرتے تھے ۔”ـ(ایضا)
7. “ اور حجاج نے خلافت کے رتبہ کو اس قدر بڑھایا کہ نبوت پر اس کو فضیلت دی چنانچہ کہتا تھا کہ آسمان اور زمین خلافت سے قائم ہوئے ہیں اور خلیفہ خدا کے نزدیک مقرب فرشتوں سے اور انبیاء اور رسول سے بڑھ کر ہے ۔” (حصہ چہارم ص٧٩)
ان باتوں کے ثابت کرنے کے لیے مصنف نے بنو امیہ کے عجیب عجیب ظلم کے واقعات لکھے ہیں جن کی تفصیل آگے آئے گی ۔
بنو امیہ کی برائی اگر بنو امیہ کی خصوصیت کی بناء پر کی جائے تو ہم کو اس سے اس بحث نہیں ، بنو امیہ یا بنو عباسیہ اسلام کے نمونے نہیں ہیں وہ خلفاء نہ تھے بلکہ بادشاہ تھے ، اس لیے اور سلاطین کی طرح ہر قسم کے عیوب ان میں ہو سکتے تھے لیکن مصنف کی عنایت بنو امیہ پر اس لحاظ سے ہے کہ وہ اصلی عرب اور عربی قومیت کے نمونے تھے ، ان کے اوصاف و اخلاق و عادات عرب کے اخلاق و عادات ہیں ، چنانچہ مصنف عصر بنی امیہ کا ایک خاص عنوان قائم کر کے لکھتا ہے :
“اور سلطنت بنو امیہ ، دولت عباسیہ سے اس بات میں ممتاز ہے کہ وہ خالص عربی حکومت ہے ۔”(حصہ دوم ص ١٨ )
“ اورمختصر یہ کہ سلطنت امو یہ عربی سلطنت تھی ۔”(حصہ چہارم ص ١٠٣ )
مصنف نے جس قدر بنو امیہ کی مذمت اور برائی کی ہے اسی قدر بنو عباسیہ کی مدح و تعریف کی ہے لیکن نہ اس لحاظ سے کہ وہ کوئی عربی سلطنت تھی بلکہ اس بناء پر کی ہے کہ وہ ایرانی سلطنت تھی چنانچہ عباسی حکومت کو ایرانی حکومت قرار دیتا ہے ، حصہ چہارم میں اس نے عباسیوں کی سلطنت کا جہاں ذکر شروع کیا ہے اس کی سرخی یہ لکھی ہے ، العصر الفارسی الاول اس کے نیچے لکھتا ہے :
“ دعونا ھذا العصر فارسیا مع انہ داخل فی عصر الدولة العباسیة لان تلک الدولة علی کونھا عربیة من حیث خلفائھا و لغتھا و دیانتھا فھی فارسیة من حیث سیاستھا و ادارتھا لان الفرس نصروھا و ایدوھا ثم ھم نظموا حکومتھا و اداروا شؤنھا و امراوھا و کتّابھا و حجّابھا ۔”
“ ہم نے اس زمانہ کو فارسی کہا حالانکہ وہ عباسی حکومت کا کار نامہ ہے ، یہ اس بناء پر کہ عباسی حکومت اگرچہ اپنے خلفاء اور مذہب اور زبان کے لحاظ سے عربی تھے لیکن پالیٹکس کے لحاظ سے ایرانی تھی ، کیو نکہ ایرانیوں نے اس کی اعانت کی اور ان ہی نے اس کی حکومت کا انتظام کیا اور اس کے کاروبار چلائے اور ایرانی ہی اس سلطنت کے وزیر اور افسر کاتب اور دربان تھے ۔”
عام عرب کی نسبت مصنف لکھتا ہے کہ وہ نو مسلموں کو سخت حقیر سمجھتے ہیں ، ان کے پیچھے نماز پڑھنا بھی گوار ا نہیں کرتے تھے ، ان کا قول یہ تھا کہ نماز تین چیزوں کے سانے گزرجانے سے ٹوٹ جاتی ہے ، گدھا ، کتا ، اور نو مسلم ۔ امیر معاویہ نے قصد کیا تھا کہ تمام نو مسلموں کویا ان میں سے ایک حصہ کو محض اس وجہ سے قتل کر دیں کہ وہ غیر قوم ہیں ، گو یا یہ لوگ بھیڑ بکریاں تھیں، عرب کو یہ غرور اس وجہ سے ہو گیا تھا کہ وہ اونٹ چراتے چراتے تخت حکومت تک پہنچے تھے ۔
روایات میں تحریف اور دروغ گوئی کے نمونے
مصنف نے جا بجا اور ایک موقع پر خاص ایک عنوان قائم کر کے ثابت کیا ہے کہ خلفاء مذہبی شعائر کی تحقیر کرتے تھے ، ایک موقع پر لکھتا ہے :
“بعضوں نے منصور کو اس طرف مائل کیا کہ کعبہ کے بدلے عراق میں کوئی عمارت بنائے جس کا لوگ حج کیا کریں چنانچہ اس نے ایک مکان بنایا جس کانا م قبہ خضراء رکھا تاکہ کعبہ کی حقارت ہو ، اور مدینہ میں غلہ بھیجنا بند کر دیا ۔”(حصہ دوم ص ٣٠ )
ایک موقع پر خلیفہ معتصم کے حال میں لکھتا ہے :
“ معتصم نے سامرہ میں ایک کعبہ اور ایک منیٰ اور عرفات تیار کرایا ۔”(حصہ دوم ص ٣٢ )
خلفائے بنو امیہ کی نسبت اس قسم کے بہت سے واقعات نقل کیے ہیں لیکن ان کی تفصیل کی اس لیے ضرورت نہیں کہ بنو امیہ تو بہر حال مصنف کے نزدیک گردن زنی تھے ،ان کے کسی فعل کی کیا شکایت ہو سکتی ہے لطف یہ ہے کہ اپنے ممدوحین یعنی خلفائے عباسیہ کی نسبت یہ ثابت کیا ہے کہ ان کے زمانہ میں عرب اس قدر حقیر کر دیے گئے تھے ، کہ عرب کا لفظ بڑا بد ترخیال کیا جاتا تھا ، لوگ کہتے تھے کہ “ عرب کتے ہیں ان کے آگے روٹی کا ٹکڑا ڈال دو پھر ان کے سر پر مارو۔ “ مصنف کے اصلی الفاظ یہ ہیں :
“ فاصبح لفظ عربی مرادفا لاحقر الاوصاف عندھم و من اقوالھم العربی بمنزلة الکلب اطرح لہ کسرة و اضرب راسہ ۔”
“ عربی کا لفظ بدتر سے بد تر لقب کا مترادف بن گیا تھا ،اور ان کا مقولہ تھا ، کہ عرب کے سامنے روٹی کا ٹکڑا ڈال دو ، پھر اس کے سر پر مارو ۔”
اس موقع پر یہ خیال ہو سکتا ہے کہ اس میں مصنف کا کیا قصور ہے ، یہ تاریخی واقعات ہیں مصنف نے ان کو نقل کر دیا ، اور سند بھی نقل کر دی لیکن واقعہ یہ ہے کہ مصنف نے ان عبارتوں کی نقل میں سخت تحریف اور خیانت سے کام لیا ہے جیسا کہ آگے آتا ہے ۔
مصنف نے اس تصنیف میں مختلف طریقوں سے کام لیا ہے کہیں علانیہ جھوٹ حوالے دیتا ہے ، کہیں عبارت کو ادل بدل کر دیتا ہے کہیں ایک خاص واقعہ کو عام کر دیتا ہے او ر اس سے عام نتیجہ نکالتا ہے کہیں اپنے موافق ایک واقعہ کو نقل کرتا ہے اور اس کے مخالف بہت سے صحیح واقعات جو مذکور ہیں ان کو چھوڑ جا تا ہے ، کہیں استدلال اور استنباط میں غلطی کر تا ہے ۔
ایک امر کا اظہار کرنا اس موقع پر ضرور ہے مصنف نے جب اس کتاب کا پہلا حصہ مجھ کو بھیجا تو میں نے اجمالاً کتاب کی تعریف کی ، لیکن چونکہ میں مصنف کی عادت سے واقف تھا ، اس لیے میں نے اس کو خط لکھا کہ آپ کو واقعات میں کتابوں کا حوالہ دینا چاہیے ، چنانچہ مصنف نے میرے اس خط کو تمدن اسلام کے دوسرے حصہ میں نقل کیا ہے اور میری تحریک کے مطابق پچھلے حصوں میں حوالے دیئے ہیں لیکن اس میں یہ چالاکی کی کہ چھاپے کی تعیین نہیں کرتا ، اکثر کتابیں مصر میں بار بار چھپی ہیں ، مصنف ان کے حوالے دیتا ہے اور یہ نہیں بتاتا کہ کون سے چھاپہ کے صفحے ہیں ، اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ ابن الاثیر ، مسعودی وغیرہ کے جو کثرت سے مصنف نے حوالے دیئے ہیں ، میں نے مقابلہ کیا ، تو میرے پاس جو نسخے ہیں اس میں وہ عبارتیں نہیں ملیں لیکن مصنف یہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے کسی اور نسخہ کو حوالہ دیا ہے ، اس کارروائی کی وجہ سے مصنف کی بہت سی خیانتوں کا پردہ رہ گیا ، ورنہ جن کتابوں میں اس کے حوالے میرے نسخہ سے مطابق نکلے ، ان میں ایک موقع بھی مجھ کو ایسا نہ ملا کہ مصنف نے سخت خیانت نہ کی ہو ۔
اس اجمال کی تفصیل حسب ذیل ہے ۔
صریح جھوٹ
(١) تمدن اسلام کے حصہ دوم میں “عصر بنی امیہ “ کا ایک عنوان قائم کیا ہے جس کے ذیل میں بنو امیہ اور عمال بنو امیہ کے تمام مظالم گنائے ہیں ، اس میں منجملہ ان مظالم کے ایک یہ لکھا ہے :
“ و اذا اتی احدھم بالدراھم لیودیھا فی خراجہ یقتطع الجابی منھا طائفة و یقول ھذا رواجھا و صرفھا۔”
“ اور جب ان کے پاس کو ئی شخص مال گزاری ادا کرنے کے لیے روپیہ لاتا تھا تو تحصیلدار اس میں سے کچھ روپیہ نکال لیتا تھا اور کہتا تھا کہ روپیہ کا نرخ اور چلن اسی قدر ہے ۔”
اس عبارت کی نسبت حاشیہ میں کتاب الخراج قاضی ابو یوسف صفحہ ٦٢ کا حوالہ دیاہے ، اس کی کیفیت یہ ہے کہ قاضی صاحب نے ہارون الرشید کی فرمائش سے مال گزاری اور جزیہ وغیرہ کے متعلق ایک دستور العمل لکھ کر پیش کیا تھا ، اس میں ایک موقع پر ایک عنوان قائم کیا ہے ، اس کے ذیل میں ہارون الرشید کو مخاطب کر کے لکھا ہے کہ فلاں فلاں محصول نہ لیے جائیں ، اس کے ذیل میں لکھتے ہیں :
“ فانہ بلغنی ان الرجل منھم یاتی ( الیٰ آخرہ ) “
“ مجھ کو خبر لگی ہے کہ جب اون کے (الی آخرہ)۔”
اس عبارت میں بلکہ اس موقع پر بنو امیہ کا مطلق ذکر نہیں ، قاضی صاحب ہارون الرشید کو مخاطب کر کے اس کے عاملوں کا حال لکھتے ہیں، مصنف نے اس کو بنی امیہ کے زمانے سے منسوب کر دیا ۔
(٢) مصنف اسی عنوان کے ذیل میں (صفحہ١٣) بنوامیہ کے عمال کے بہت سے ظلم گنا کر لکھتا ہے :
“ قاضی ابو یوسف نے ہارون الرشید کو عمال خراج کے بارہ میں جو وصیت لکھی تھی ، اس سے وہ طریقے معلوم ہوسکتے ہیں ، جن سے چھوٹے چھوٹے عمال روپیہ جمع کرتے تھے۔”(کتاب الخراج صفحہ ٦١ و ٦٢ )
قاضی صاحب نے لکھا ہے ( مصنف نے وہ تمام عبارت نقل کی ہے ) کہ یہ عمال رعایا کو دھوپ میں بٹھاتے تھے ،اور ان کے گلے میں مٹکے لٹکاتے تھے ، اوراس طرح زنجیروں میں جکڑتے تھے کہ وہ نماز نہیں پڑھ سکتے تھے ، لیکن اس میں ایک حرف بھی بنو امیہ کے متعلق نہیں ، قاضی صاحب نے علانیہ ہارون الرشید کو مخاطب کر کے اس کے عاملوں کا حال لکھا ہے اس بناء پر اسی عنوان کے ذیل میں ہارون الرشید کو مخاطب کیا ہے کہ کاش تو مہینہ دو مہینہ میں ایک دفعہ بھی در بار کرتا اور لوگوں کی فریاد سنتا اس کے بعد لکھتے ہیں :
“ اور غالباً تو ایک ہی دو اجلاس کرتا تو تمام ملک میں خبر پھیل جاتی اور ظالموں کو یہ ڈر ہو تا کہ تجھ تک خبر نہ پہنچ جائے ، اس بناء پر ظالم کو ظلم پر جرأت نہ ہوتی ۔”
مصنف نے جا بجا عباسیوں کے عدل و انصاف کی بے انتہا تعریف کی ہے لیکن عباسیوں کا سر تاج ہارون الرشید تھا ، اور اس کے زمانہ کے عمال کا یہ حال ہے ۔
ہمارے مصنف نے ان سب کو بنوامیہ کے نامئہ اعمال میں داخل کر دیا ، کیا دنیا میں اس سے زیادہ کذب و افتراء کی مثال مل سکتی ہے۔
(٣)مصنف نے لکھا ہے کہ عباسیوں کے زمانہ میں ایراینوں نے یہ خیال کیا کہ جب تک عرب اور حرم کعبہ کا اثر کم نہ کیا جائے گا ہم کو کامیابی نہ ہو گی ، اس لیے انہوں نے خلیفہ منصور کو اس پر آمادہ کیا ، کہ عراق میں کعبہ کا جواب بنائے ، چنا نچہ منصور نے کعبہ کی تحقیر کے لیے ایک عمارت بنائی جس کا نام قبہ خضراء تھا ، مصنف کے اخیر الفاظ یہ ہیں :
“اس بناء پر بعضوں نے منصور کو اس طرف رغبت دلائی کہ وہ عراق میں کعبہ کا جواب بنائے اور لوگوں سے اس کا حج کرائے چنانچہ اس نے کعبہ کی حقارت کے لیے قبہ خضراء بنایا ۔”(تمدن اسلام حصہ دوم ص ٣٠ )
اس عبارت کے خاتمہ پر حاشیہ میں طبری صفحہ (١٩٧) کا حوالہ دیا ہے اس واقعہ کی حقیقت یہ ہے کہ جب خلیفہ منصور کے مقابلہ میں محمد نفس زکیہ نے علم بغاوت بلند کیا ، تو ایک خطبہ دیا جس میں یہ الفاظ تھے :
“ حمد خدا کے بعد اے صاحبو! اس سر کش منصور دشمن خدا کا فعل آپ سے مخفی نہیں کہ اس نے قبہ خضراء بنا یا ہے جس سے خدا کی دشمنی اور کعبہ کی حقارت مقصود ہے ۔” (طبری ص ١٩٧)
یہی خطبہ ہے ، جس کا مصنف نے حوالہ دیا ہے لیکن یہ منصور کے ایک دشمن کے الفاظ ہیں ، کیا اس سے تاریخی واقعہ کا اثبات ہو سکتا ہے
،منصور کا زمانہ ائمہ مجتہدین ، محدثین اور فقہاء سے معمور تھا ، کیا اس زمانے میں کسی کو یہ جرأت ہو سکتی تھی کہ کعبہ کا جواب بنائے، کیا ایسا خلاف امکان واقعہ صرف ایک مخالف کی شہادت سے ثابت کیا جاسکتا ہے لیکن فرض کر لو کہ مخالف کے الفاظ صحیح بھی ہیں تو اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ منصور نے یہ عمارت کعبہ کی تحقیر کے لیے بنائی ہے اس میں یہ الفاظ کہاں ہیں کہ “ لوگوں نے منصور کو یہ ترغیب دی کہ عراق میں کعبہ کا جواب بنائے ، اور لوگوں سے حج کرائے “ طبری میں اس عبارت کا ایک حرف بھی نہیں ۔
(٤) حصہ دوم صفحہ ٣٠ میں لکھا ہے کہ “ خلیفہ منصور نے مدینہ منورہ میں دریا کی طرف سے غلہ وغیرہ جانا بند کر دیا تھا ، جس سے غرض یہ تھی کہ حرمین کی وقعت کم ہو جائے ، اس بناء پر لوگوں نے منصور سے بغاوت کی ، اور محمد بن عبد اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی ، منصور کو اس کارروائی سے جو مشکلیں اٹھانی پڑیں وہ اس کے جانشینوں کے لیے عبرت کا سبق تھیں ،اس لیے اس کے جانشین مہدی نے اس کی تلافی کی۔ “
اس واقعہ میں کس قدر فریب اور خدع سے کام لیا ہے ، واقعہ یہ ہے کہ محمد بن عبداللہ ایک مدت سے خلافت کا خیال پکارہے تھے ، جب انہوں نے علانیہ علم بغاوت بلند کیا تو چونکہ وہ مدینہ منورہ میں مقیم تھے ، اس لیے منصور نے وہاں رسد بھیجنا بندکرا دیا طبری میں ہے :
“ جب منصور کو محمد کی بغاوت کی خبر دی گئی تو اس نے کہا کہ ابھی میں مصر کو لکھ دیتا ہوں کہ وہاں سے حرمین کو جو مدد آتی ہے بند کر دی جائے ، جب یہ بند ہو جائے گی تو وہ بے دست و پا ہو جائیں گے ۔”( طبری واقعات ١٤٥ھ ص ٢٨٠)
یہی مورخ ایک دوسرے موقع پر لکھتا ہے :
“ جب محمد قتل کر دیے گئے تو ابو جعفر منصور نے حکم دیا کہ جار کی بند گاہ سے مدینہ کو ئی چیز نہ جانے پائے ۔”
ان تمام عبارتوں سے صاف ثابت ہو تا ہے کہ منصور نے محمد کی بغاوت کے فروکرنے کے لیے یہ حکم دیا تھا ، مصنف کی یہ دروغ بیانی دیکھو کہ اس واقعہ کو مقدم قرار دے کر اسی کو محمد کی بغاوت کا سبب قرار دیتا ہے ، اور کہتا ہےکہ اہل عرب نے اسی بناء پر محمد سے بیعت کی ، اس کے علاوہ یہ بغاوت فرو کر نے کی ایک تدبیر تھی ، اس کو حرمین کی تحقیر سے کیا تعلق ہے ۔ مصنف کے کذب وافتراء ، فریب و تدلیس ، غلط استدلالی اگر چہ الگ الگ عنوان قائم کر کے تفصیل سے لکھے جا سکتے ہیں ، لیکن ناظرین کو اس سے چند اں دلچسپی نہ ہو گی ، اس لیے اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مصنف نے مسلمانوں پر جو نکتہ چینیاں کی ہیں ، ان کا اظہار کیا جائے اور اسی کے جواب کے ضمن میں مصنف کے یہ تمام کارنامے دکھائے جائیں کہ مصنف کا اصلی مقصد اس کتاب کے لکھنے سے امور ذیل کا ثابت کر نا ہے ۔
کتاب کے چوتھے حصے (صفحہ٥٨) میں مصنف نے ایک عنوان قائم کیا ہے “عصبےة العرب علی العجم “اس میں ثابت کیا ہے کہ اہل عرب تمام قوموں کو نہایت حقیر سمجھتے تھے ، ان کا مقولہ تھا کہ نماز صرف تین چیزوں سے ٹوٹتی ہے
“ گدھا ، کتا اور غیر عرب “ غیر قوموں کے ساتھ ایک صف میں چلنا گوارا نہیں کرتے تھے ، ان کانام کنیت کے ساتھ نہیں لیتے تھے ، ان کو مذہبی عہدے نہیں دیتے تھے ، خلفاء کی جو اولاد عجمی عورت سے ہو تی تھی ، ان کو منصب خلافت سے محروم کرتے تھے ، امیر معاویہ نے یہ قصد کیا تھا کہ تمام عجمیوں کو یا ایک حصہ کو قتل کر دیں ، وغیرہ وغیرہ
مصنف نے ان واقعات میں حسب معمول ان سب ہتھیاروں سے کام لیا ہے ، جو فطرت نے اس کو عنایت کیے ہیں ، واقعہ یہ ہے کہ خلفائے بنو امیہ کے زمانہ میں شعوبیہ ایک گروہ تھا ، جو اہل عرب کی سخت تحقیر کرتا تھا ، ان کے مقابلے میں عرب میں بھی ایک جماعت تھی ، جو عجم کو حقیر سمجھتی تھی ، تاریخ سے یہ بالکل معلوم نہیں ہو تا کہ ان دونوں میں ابتداء کس نے کی ، عرب و عجم دونوں مغرور تھے ، عجم کو اپنی قدیم عظمت و شان و شوکت پر ناز تھا ، عرب اپنی شجاعت و آزادی کا دم بھرتے تھے ، اسلام کے بعد دونوں کا اختلاط ہو ا ، تو دونوں فرقے خود بخود پیدا ہو گئے ، مصنف کا دعویٰ ہے کہ عرب اور بنو امیہ کے ظلم و تحقیر نے اس گروہ کو پیدا کیا تھا ، لیکن عباسیہ تو مصنف کے نزدیک عدل و انصاف کے معیار کے تھے ، اور ان کے زمانے میں بقول مصنف (نقل کفر کفر بنا شد ) عرب کی عزت کتے کے برابر رہ گئی تھی ، باوجود اس کے کہ شعوبیہ کے مشاہیر اسی زمانہ میں پیدا ہو ئے اور اسی زمانہ میں انہوں نے عرب کی برائیوں پر مفصل کتابیں لکھیں ، ابو عبیدہ مثنیٰ جس نے عرب کے ایک ایک قبیلہ کے مطاعین پر الگ (کتاب الفہرست میں ان سب کتابوں کے نام لکھے ہیں ) الگ کتابیں لکھیں ، عباسیہ ہی کے زمانے میں تھا ، علان شعوبی ، مامون الرشید کے دربار کا ملازم تھا بنو امیہ کے جرم کا کفارہ عباسیہ کے عہد میں کیوں لیا گیا۔ ؟
ایک بات خاص لحاظ کے قابل ہے ، کہ جہاں تک پتا لگتا ہے اہل عرب میں سے کسی نے کوئی تصنیف خود ابتدائً نہیں لکھی ، بلکہ شعوبیہ کی تصنیفات کا جواب لکھا ، بخلاف اس کے شعوبیہ کے بیسیوں کتابوں کے نام تاریخوں میں ملتے ہیں ، ابو عبیدہ اور علان شعوبی کے علاوہ سہل بن ہارون جو مامون الرشید کے کتب خانہ پر مامور تھا ، اس کے تذکرہ میں لکھا ہے :
“ وہ مذہباً شعوبی تھا اور عرب سے سخت تعصب رکھتا تھا ، اور اس مضمون میں اس کی بہت سی کتابیں ہیں ۔”(فہرست ص ١٣٠)
بہر حال مقصود یہ ہے کہ عرب میں جو لوگ قومی تعصب رکھتے تھے ، وہ چند افراد تھے ، عام عرب نہ تھے ، عقد الفرید میں ایک خاص باب قائم کیا ہے ، جس کی سرخی “متعصبین ِعرب “ہے ، اس کے تحت میں ان لوگوں کے اقوال لکھے ہیں ، مصنف نے عربوں کے متعصبانہ اقوال و افعال جو نقل کیے ہیں ، قریباً کل یہیں سے لیے ہیں ، لیکن عقد الفرید میں شروع ہی میں تصریح کردی ہے ، کہ
“ قال اصحاب العصبیة من العرب ۔”
“ عرب میں جو لوگ متعصب ہیں انہوں نے یہ کہا ہے۔”
اس سے ظاہر ہو گا کہ یہ ایک گروہ خاص کے خیالات ہیں ۔ مصنف نے خیانت اور فریب کاری سے ان باتوں کو عا م عرب کی طرف منسوب کر دیا ہے ، چنانچہ کہتا ہے :
“ عرب اس سلطنت بنو امیہ کے زمانہ میں تمام قوموں سے اپنے آپ کو دور کھینچتے تھے ، اور اپنے آپ کو فطرت میں ، خلقت میں ، فضیلت میں سب سے فائق سمجھتے تھے ، عربی اپنے آپ کو غیر عربی کا آقا سمجھتا تھا ، اور جانتا تھا کہ میں سرداری کے لیے پیدا ہو ا ہوں ، اور عجم خدمت گاری کے لیے ۔”(حصہ چہارم ص ٥٩)
“ عرب افسری اور فتح کے نشہ میں اس وجہ سے چور تھے کہ وہ اونٹ چراتے چراتے حکومت کے رتبہ کو پہنچے تھے ۔” (حصہ ٤ ص ٦٠)
مصنف نے جس قدر سندیں نقل کی ہیں ، سب ایک خاص گروہ یا خاص اشخاص کے اقوال ہیں ، مصنف ان کو تحریف پسندی کی بناء پر عام کر لیتا ہے ، اور ان سے استدلال کر تا ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کو اس پر ناز ہے کہ اس نے عرب و عجم اور نسل و ملک کی تمیز اٹھا دی ، اور تمام انسانوں میں عام مساوات قائم کر دی ،اسلامی تاریخیں ان واقعات سے معمور ہیں ، لیکن افسوس کہ مصنف کی غلط نمائی ان کا ظاہر کرنا پسند نہیں کرتی ۔
کذب، فریب، تدلیس، غلط بیانی کے نمونے :
عربی زبان میں مولا ایک لفظ ہے جس کے معنی وسیع ہیں ، یعنی غلام کو بھی کہتے ہیں آزاد کردہ غلام کو بھی کہتے ہیں ، اور عرب کے سوا اور قومیں جو ایمان لائیں ان کو بھی کہتے ہیں ،مصنف نے اس کی وسعت سے کام لیا ہے ، یعنی جہاں یہ دعویٰ کیا ہے کہ اہل عرب تمام غیر قوموں کو حقیر سمجھتے تھے ، اس کے ثبوت میں وہ اقوال بھی پیش کیے ہیں ، جو غلاموں کے حق میں تھے ، تاہم ہم اس دائرہ کی وسعت کو کم نہ کریں گے ، اور دکھائیں گے کہ عرب میں غیر قوموں اور غلاموں کی کیا وقعت تھی ۔
عرب میں اور عام مسلمانوں میں عزت کا اصلی معیار مذہبی عزت تھا ، یعنی جن کو مذہبی عزت حاصل ہے ان کو ہر قسم کی عزت حاصل ہے ، یہی وجہ ہے کہ ، اسلام میں مجتہدین ، فقہاء اور علمائے مذہبی کو جو اعزاز حاصل تھا کسی کو کبھی نہیں ہوا ۔مصنف نے نہایت زور و شور سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ عرب کا غرور اور غیر قوموں کی تحقیر بنو امیہ کے زمانہ میں انتہا درجہ تک پہنچ گئی تھی چنا نچہ لکھتا ہے :
“ پھر جب بنو امیہ نے غیر عرب والوں کی تحقیر کی انتہا کر دی ۔”(حصہ ٤ ص ٦٠)
اس بناء پر ہم اسی زمانہ کو اس بحث کا معیار قرار دیتے ہیں ۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ حدیث و فقہ کا شباب تھا ، بڑے بڑے محدثین و ائمہ فن تمام صدر مقامات میں فقہ و حدیث کی درس و تدریس میں مشغول تھے ، یہ لوگ ان مقامات میں پیشوا تسلیم کیے جاتے تھے ، تمام قوم ان کا ادب کرتی تھی اور سلطنت کی طرف سے ان کا احترام کیا جاتا تھا ، اس زمانے میں جو مقامات مذہبی علوم کے تخت گاہ تھے ، مکہ ، یمن ، شام ، مصر بصرہ ، کو فہ ، خراسان ، جزیرہ تھے ، ان مقامات میں جو لوگ مذہبی علوم کے تاجدار تھے ان کے یہ نام ہیں :
مکہ معظمہ:عطا ء بن ابی ریاح ، یہ امام ابو حنیفہ کے استاد تھے ۔
یمن : طاؤس ، ہشام بن عبدالملک نے ان کے نماز جنازہ پڑھائی تھی ۔ (معارف)
شام :مکحول ، امام زہری کا قول ہے کہ عالم صرف چار ہیں ان میں سے ایک مکحول ہیں ۔
مصر :یزید بن ابی حبیب ، مصر میں فقہ کے معلم اول یہی ہیں ، عمر بن عبدالعزیزے نے ان کو مصر میں فتویٰ دینے پر مقرر کیا تھا۔(حسنالمحاضرہ)
جزیرہ :میمون بن مہران ، عمر بن عبد العزیز نے ان کو جزیرہ کا افسر خراج مقرر کیا تھا ۔(معارف)
خراسان :ضحاک بن مزاحم ، مشہور مفسر ہیں ۔
بصرہ :امام حسن بصری ، مشہور امام ہیں ۔
کوفہ:ابراہیم نخعی ۔
ہمارے مصنف (جرجی زیدان ) کو تو جہ سے سننا چاہیے ، کہ ابراہیم نخعی کے سوا یہ سب عجمی غلام (فتح المغیث مطبوعہ لکھنؤ صفحہ ٤٩٨) تھے اور یہ سب عبد الملک بن مروان کے زمانہ میں تھے ،جو مصنف کے نزدیک بد ترین خلفاء تھا ‘حج کے زمانہ میں مکہ معظمہ میں منادی پکارتا تھا ، کہ “ عطاء بن ابی رباح کے سوا کو ئی فتویٰ نہ دینے پائے “ ابن خلکان میں ہے (تذکرہ عطاء بن ابی ریاح )
“ قال ابراھیم بن عمرو بن کیسان اذکرھم فی زمان بنی امیة یامرون فی الحج صایحا یصیح لا یفتی الناس الا عطاء بن ابی رباح ۔ “
“ ابراہیم کا بیان ہے کہ مجھ کو یاد ہے کہ حج کے زمانے میں ایک شخص کو مقرر کرتے تھے جو یہ پکار کر کہتا تھا کہ عطاء کے سوا کو ئی شخص فتویٰ نہ دینے پائے ۔” یہ عطاء عجمی ہی تھے ۔
اسی طرح یزید بن عبدالملک جب خلیفہ ہو ا اور عمر بن ہیرہ کو عراق کی گورنری ملی تو ١٠٣ھ میں اس (عمر بن ہیرہ)نے امام حسن بصری ، شعبی اور ابن سیرین کو بلا بھیجا ، اور ان سے کہا کہ یزید کے جو احکام آتے ہیں مجھ کو ان کی تعمیل کرنی پڑتی ہے ، آپ صاحبوں کی کیا رائے ہے ، امام حسن بصری نے کہا او ابن ہبیرہ تجھ کو خدا سے ڈرنا چا ہیے ، نہ یزید سے ، ابن ہیرہ نے اس پر حسن بصری کو صلہ دیا ۔(ابن خلکان تذکرہ حسن بصری)
ہمارے مصنف کو دوبارہ سننا چاہیے کہ یہ تینوں شخص جو اس حیثیت سے بلائے گئے تھے ، کہ ان کی آواز قوم کی مذہبی آواز ہے ان میں سے دو شخص یعنی حسن اور ابن سیرین غلام تھے ،
١٠٦ھ میں طاؤس کا جب مکہ معظمہ میں انتقال ہو اتو جنازہ میں لو گوں کی یہ کثرت ہو ئی کہ جنازہ چل نہیں سکتا تھا ، مجبوراً ابراہیم بن ہشام گو رنر مکہ نے پولیس سے کام لیا۔ عبدا للہ حضرت امام حسن علیہ السلام کے صاحبزادے جنازہ کا ندھے پر لے کر چلے ، اور خلیفہ ہشام بن عبدالملک نے جنا زہ کی نماز پڑھائی (ابن خلکان تذکرئہ طاؤس) ، کیا اس سے زیادہ کسی کی عزت کی جا سکتی ہے ۔
تابعین کا گروہ اسلام میں ایک خاص در جہ رکھتا ہے اس گروہ میں بڑے امام اور پیشوا گزرے ، ان سب میں سب سے عالی رتبہ حضرت سعید بن جبیر تھے ، وہ حبشی غلام (معارف) تھے ، مصنف نے دعویٰ کیا ہے کہ اہل عرب غیر عرب کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے تھے، اور یہ تعصب سب سے زیادہ بنو امیہ کے زمانہ میں تھا لیکن خود حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر کو کوفہ میں نماز کا امام مقرر کیا تھا، حالانکہ کو فہ عرب کی خاص آبادی تھی ۔ علم ادب کا امام مطلق حماد راویہ تھا ، سبعہ معلقہ کے قصیدے اسی نے مدون کیے علامہ ابن خلکان اس کی نسبت لکھتے ہیں :
“ و کانت ملوک بنی امیة تقدمہ و توثرہ و تستزیرہ ۔ “
“ سلاطین بنو امیہ اس کی عزت کرتے تھے ، اور اس کو اوروں پر ترجیح دیتے تھے ، اور اس کی ملاقات کی خواہش کرتے تھے ۔”
ہشام بن عبدالملک جب خلیفہ ہو ا تو پانسو اشرفیاں زاد راہ بھیج کر اس کو دربار میں طلب کیا ، چنا نچہ ابن خلکان نے اس واقعہ کو تفصیل سے
لکھا ہے یہ معزز اور محترم فاضل دیلمی غلام تھا ۔ سلیمان اعمش جو امام حدیث اور سفیان ثوری کے استاد تھے ، وہ بھی عجمی غلام تھے ۔
حدیث و روایت کے جس قدر سلسلے ہیں ، ان میں ایک سلسلہ ہے جس کو محدثین کی زبان میں سلسلہ زریں کہتے ہیں، اس سلسلہ کے راوی اول نافع ہیں جو دیلمی غلام تھے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے جس قدر حدیثیں مروی ہیں ان کا مدار اعظم یہی نافع ہیں ، امام مالک انہی کے شاگرد تھے ۔ انہوں نے ١١٧ھ یعنی ہشام بن عبد الملک کی خلافت کے زمانہ میں وفات پائی ۔
غرض کہاں تک استقصا کیا جائے ۔ بنو امیہ کے زمانہ میں سیکڑوں اہل عجم اور غلام اور غلام زادوں کے نام گنا سکتے ہیں جو عرب کے صدر مقامات یعنی مکہ ، مدینہ ، یمن ، بصرہ ، کوفہ میں مرجع عام تھے ۔ تمام عرب ان کی عزت کرتے تھے اور خود سلطنت ان کا احترام کرتی تھی ۔
اس میں شبہ نہیں کہ عرب کو اس حالت پر غیرت آتی تھی ۔ لیکن یہ رشک و حسد نہ تھا ۔ بلکہ غبطہ تھا اور وہ خود اعتراف کرتے تھے کہ
دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست
ایک دفعہ ہشام بن عبد الملک نے امام زہری سے پوچھا کہ آج مکہ کا رئیس کون ہے ؟ زہری نے کہا عطاء ۔ ہشام نے کہا اور یمن میں ، زہری نے کہا طاؤس ۔ اسی طرح ہشام نے مصر ، جزیرہ، خراسان ، بصرہ ، کوفہ کے متعلق پوچھا اور زہری نے مکحول ، یزید ، میمون بن مہران ، ضحاک کا نام لیا ۔ ہشام ہر شخص کے نام پر یہ بھی پوچھتا جاتا تھا کہ یہ عرب ہیں یا عجم۔ زہری کہتے جاتے تھے کہ عجم ۔ جب ابراہیم نخعی کا نام لیا اور کہا کہ وہ عرب ہیں تو ہشام نے کہا کہ اب دل کو تسکین ہوئی ۔ پھر کہا خدا کی قسم موالی ( عجمی ) وغیرہ عرب کے سردار بن گئے ۔ ان کا خطبہ پڑھا جائے گا ۔ زہری نے کہا امیر المومنین یہ دین ہے جو اس کی حفاظت کرے گا سردار ہوگا اور جو اس کو ضائع کرے گا ، گر جائے گا۔ اسی واقعہ میں یہ بھی مذکور ہے کہ جب عطاء کا نام آیا تو ہشام نے پوچھا کہ عطاء کو یہ ریاست کیونکر حاصل ہوئی ۔ زہری نے کہا ” دیانت و روایت سے۔”ہشام نے کہا ہاں جو شخص صاحبِ دیانت اور روایت ہوگا اس کو رئیس ہونا ہی چاہیئے ۔
( فتح المغیث شرح الفیة الحدیث للسخاوی ، مطبوعہ لکھنؤ صفحہ ٤٩٨ -٤٩٩)
واقعات مذکورہ بالا سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود بنو امیہ میں عجمیوں اور عجمی غلاموں کی کیا عزت تھی ۔ عرب ان کا وقار کرتے تھے ۔ حرم محترم میں ان کے سوا کسی کو فتویٰ کی اجازت نہ تھی ۔ کوفہ عرب کی خالص آبادی تھی ۔ وہاں کا امام عجمی غلام تھا ۔ خلفائے بنو امیہ ان کو دربار میں بلاتے تھے اور ان کی نہایت عزت کرتے تھے ۔ حدیث و فقہ میں عرب ان کو اپنا پیشوا تسلیم کرتے تھے ۔
اس کے مقابلہ میں ہمارے مصنف ( جرجی زیدان ) کے ان اقوال پر نظر ڈالیں کہ عرب تمام موالی کو ذلیل کرتے تھے ۔ ان کو گدھے اور کتے کے برابر سمجھتے تھے ۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ ان کا نام کنیت کے ساتھ نہیں لیتے تھے ۔ راستہ میں ان کا برابر چلنا گوارا نہیں کرتے تھے ۔
مصنف لکھتا ہے:
” عرب کے سوا اور لوگوں کو مذہبی عہدوں سے مثلاً قاضی ہونے سے روکتے تھے اور کہتے تھے کہ عہدہ قضا کے قابل صرف عرب ہیں ۔ “( تمدن اسلام حصہ چہارم ص ٦٠ )
اس کی کیفیت یہ ہے کہ ابن خلکان نے سعید بن جبیر کے حال میں لکھا ہے کہ جب حجاج نے ان کو گرفتار کیا تو بلا کر کہا کہ کیا یہ صحیح نہیں کہ میں نے تم کو کوفہ میں بلا کر امامت پر مقرر کیا اور وہاں ایک شخص بھی عرب کے سوا نہ تھا۔ سعید نے کہا بے شک ۔ پھر حجاج نے کہا کہ جب میں نے تم کو کوفہ کا قاضی مقرر کیا تو سب لوگ چیخ اٹھے کہ قضا پر صرف عرب مقرر کیا جا سکتا ہے ۔ اس بنا پر میں نے ابو بردہ کو قاضی مقرر کیا لیکن کہہ دیا کہ تمہارے مشورہ کے بغیر کوئی فیصلہ نہ کرے ۔
یہ ظاہر ہے کہ جس شہر میں عربوں کے سوا اور کوئی آباد نہ ہو ۔ وہاں مقدمات کے فیصل کرنے کے لیے صرف وہ شخص موزوں ہو سکتا ہے جو وہاں کا اہلِ زبان ہو اور ان کے راہ و رسم سے واقف ہو ۔ اسی بنا پر اہلِ کوفہ نے سعیدبن جبیر کے قاضی ہونے سے انکار کیا ۔ ورنہ اگر قومی تحقیر کی بنا پر اعتراض ہوتا تو نماز کی امامت پر اس سے زیادہ اعتراض کا موقع تھا ۔
امام ابو حنیفہ خالص عجمی تھے ۔ ان کو بنو امیہ کے زمانے میں گورنر عراق نے اصرار کے ساتھ قاضی مقرر کرنا چاہا ( ابن خلکان ، تذکرہ امام ابو حنیفہ ) لیکن امام صاحب نے قبول نہیں کیا ۔ اگر عرب کے سوا کوئی قاضی نہیں ہوسکتا تھا تو امام صاحب کے تقرر پر اصرار کیوں کیا جاتا ۔
مصنف کی خیانت دیکھو کوفہ کے خاص واقعہ کو جو خاص اسباب پر مبنی تھا’ عام واقعہ قرار دیتا ہے اور عام عرب کی طرف منسوب کرتا ہے ۔
اسی طرح مصنف لکھتا ہے :
” اور لونڈی زادے کو گو اس کا باپ قریش سے ہو منصبِ خلافت سے محروم کرتے تھے ۔ “ (حصہ ٤ ص ٢٠ )
مصنف نے اس کے ثبوت میں ہشام بن عبد الملک کا قول پیش کیا ہے کہ ہشام نے زید بن علی سے کہا کہ ” تم خلافت کا خیال رکھتے ہو لیکن اس کے اہل نہیں ہو کیونکہ تم لونڈی کے پیٹ سے ہو ۔ ” بے شبہ ہشام کا یہ قول ہے لیکن اس کے جواب میں زید نے جوکہا اس کو مصنف نے قلم انداز کردیا ۔ زید نے کہا ہاں ، لیکن حضرت اسماعیل لونڈی کے پیٹ سے تھے اور ان کے بھائی ( اسحاق ) نجیب الطرفین تھے ، تاہم خدا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کو جو خیر البشر تھے ، اسماعیل ہی کی نسل سے پیدا کیا ۔
غرض یہ دو حریفوں کے اقوال ہیں ان میں سے کسی ایک سے کوئی عام خیال نہیں ثابت کیا جا سکتا۔ خاص خاص اشخاص سے بحث نہیں ہے ، بلکہ بحث یہ ہے کہ عام عرب کا خیال تھا ۔ ہشام اور زید دونوں میں سے کسی شخص کا بیان ، عرب کی عام زبان نہیں ہے ۔ ہشام کا قول اگر سند کے قابل ہے تو اس سے زیادہ حضرت زید کا قول سند کے قابل ہے جو خاندانِ نبوت سے تھے اور امام تھے اور آج بھی یمن میں ہزاروں لاکھوں آدمی انہی کو امام مانتے ہیں ۔
بعض مصنفوں نے لکھا ہے کہ خلفائے بنو امیہ لونڈیوں کو حقیر سمجھتے تھے لیکن محققین نے قدیم زمانہ میں اس کی تغلیط کر دی تھی اور اس غلط خیال کا منشا بتا دیا تھا ۔
چنانچہ عقد الفرید میں مذکور ہے : ” اصمعی نے کہا کہ بنی امیہ کنیز زادوں کو خلیفہ نہیں بناتے تھے اس سے لوگوں نے سمجھا کہ وہ ان کو حقیر سمجھتے تھے لیکن یہ وجہ نہ تھی بلکہ یہ وجہ تھی کہ ان کا خیال تھا کہ ان کی سلطنت کا زوال ایک کنیز زادہ کے زمانہ میں ہوگا ۔ ” (عقدالفرید، جلد سوم ٢٣٠ مطبوعہ مطبع شرقیہ مصر )
حقیقت یہ ہے کہ مقابل کے حریف خود غرضی کی بنا پر ہر قسم کے دلائل پیش کرتے ہیں ۔ مدعیانِ سلطنت نے یہ استدلال بھی پیش کیا لیکن فریق مخالف نے جو جواب دیا وہ لاجواب رہا ۔ خلیفہ منصور کے زمانہ میں جب نفس زکیہ نے بغاوت کی تو اپنے استحقاق کی ایک یہ دلیل بھی پیش کی کہ میں لونڈی زادہ نہیں ہوں ۔ منصور نے جواب میں لکھا کہ ہاں لیکن تمہارے خاندان میں جو لوگ فضل و شرف میں ممتاز تھے وہ وہی تھے جو کنیز زادے تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم کی وفات کے بعد خاندانِ نبوت میں کوئی شخص علی بن الحسین ( امام زین العابدین ) سے بڑھ کر نہیں پیدا ہوا ۔ ان کی والدہ کنیز تھیں ۔ ان کے بعد محمد ( امام باقر ) اور جعفر ( امام جعفر صادق) سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوا اور یہ سب علی ( زین العابدین ) ہی کی اولاد ہیں۔
سالم بن عبد اللہ بن عمر لونڈی کے پیٹ سے تھے ۔ خلیفہ ہشام بن عبد الملک جب مدینہ گیا تو ان کو بلا بھیجا ۔ وہ اس وقت معمولی لباس میں تھے ، کہلا بھیجا کہ میں نہیں آ سکتا ۔ ہشام خود گیا اور دس ہزار روپیہ نذر کیے ۔ حج کرکے پھر مدینہ گیا تو سالم بیمار تھے ، خود عیادت کو گیا ۔ وہ مر گئے تو خود جنازہ کی نماز پڑھائی اور کہا میں نہیں جانتا کس بات پر زیادہ اظہارِ مسرت کروں حج کرنے پر یا سالم کی نمازِ جنازہ پڑھنے پر (ابن الاثیر حالت بغاوت نفس زکیہ ) ۔
ہمارا مصنف کہتا ہے کہ اہل عرب اور بنو امیہ کنیزوں کی اولاد کو حقیر سمجھتے تھے لیکن ہشام جیسا نامور خلیفہ ، ایک کنیز زادہ کے جنازہ کی نماز کو حج کے برابر سمجھتا ہے ۔
مصنف کا سب سے بڑا مرکزِ نظر بنو امیہ کی ہجو و تحقیر ہے ۔ اس بحث میں اس نے جی کھول کر زورِ طبع صرف کیا ہے ۔ اور جس قدر کذب ، تحریف ، تمویہ، فریب ، تدلیس ، خدع ، غلط بیانی کی قوت فطرت نے اس کو عطا کی تھی ۔ سب صرف کردی ہے ۔ کتاب کے چوتھے حصہ میں بنو امیہ کی سفاکی ، مذہب کی توہین ، غیر قوموں پر ظلم اور سختی کے مستقل عنوان قائم کیے ہیں اور ان پر دفتر کا دفتر لکھا ہے ۔
بنو امیہ کی حمایت اور ہمدردی ہمارا کوئی فرض نہیں ۔ اموی یا عباسی خلفا نہ تھے بلکہ سلاطین تھے ۔ شخصی سلطنتوں میں جس قسم کے سلاطین ہمیشہ ہوتے آئے ہیں یہ بھی تھے ۔ بایں ہمہ ہم کو جن اسباب نے مصنف کی پردہ دری پر آمادہ کیا وہ حسبِ ذیل ہیں :
(١) مصنف یہ کتاب عیسائی بن کر نہیں بلکہ مورخ بن کر لکھتا ہے اور اسی حیثیت سے اس تصنیف کو تمام دنیائے اسلام کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ اس لیے سب سے پہلے ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ وہ اس فرض کو کہاں تک ادا کر سکا ہے ۔ دنیا کی سب سے بڑی خدمت سچائی کا پھیلانا ہے اس لیے اگر مصنف نے غلط بیانی سے کام لیا ہے تو اس نے بنو امیہ کے ساتھ نہیں، بلکہ لٹریچر کے ساتھ ، تاریخ کے ساتھ بلکہ کل دنیا کے ساتھ برائی کی ہے ۔
( ٢ ) مصنف کا اصلی مقصد ، بنو امیہ کی برائیاں ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا روئے سخن عرب کی طرف ہے وہ بتصریح کہتا ہے کہ بنو امیہ کی سلطنت خالص عربی سلطنت تھی جس کی بنیاد تعصب اور سخت گیری تھی ۔ وہ عباسی حکومت کی تعریف کرتا ہے لیکن اس لیے نہیں کہ وہ عباسی ہے بلکہ اس کہ وہ درحقیقت ایرانی حکومت ہے ۔ چنانچہ چوتھے حصہ میں جہاں سلطنتِ عباسیہ کا ذکر شروع کیا ہے اس کا عنوان یہ قائم کیا ہے ۔
العصر الفارسی الاول۔ ایرانی حکومت کا پہلا دور ۔
اس کے بعد لکھتا ہے کہ گو یہ عباسی سلطنت کا دور ہے لیکن ہم نے اس کو ایرانی اس لیے کہا کہ نظام حکومت اور وزراء و امراء وغیرہ سب ایرانی تھے ۔
شاید یہ کہا جائے کہ خلفائے راشدین کی حکومت بھی خالص عربی حکومت تھی ۔ بایں ہمہ مصنف اس کی تعریف کرتا ہے ۔ اس لیے عام عرب پر اس کا اعتراض نہیں ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ خلفائے راشدین کے دور کو اصولِ فطرت کے موافق نہیں سمجھتا بلکہ اس کو مستثنیات عامہ میں داخل کرتا ہے ۔ چنانچہ اس کے خاص الفاظ یہ ہیں :
” بایں ہمہ خلفائے راشدین کی سیاست عام طور پر اصولِ تمدن اور سیاست ملکی کے مناسب نہ تھی ۔ اس لیے ارباب علم اس سیاست کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ بجز اس عجیب زمانہ کے کسی اور زمانہ کے قابل ہو ۔ اس لیے ایسی مذہبی خلافت کا ملکی سیاست سے بدل جانا ایک نا گزیر امر تھا ۔ “(حصہ چہارم ص ٣٨ -٣٩ )
(٣) بنو امیہ کے پردہ میں مصنف نے قرنِ اوّل کے عام مسلمانوں کی ہر قسم کی برائیاں ثابت کی ہیں۔ اس لیے ایسے اتہامات کا رفع کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے ۔
(٤) جن باتوں نے اس کتاب کو تاریخی پایہ سے بالکل گرا دیا ہے یعنی تحریف ، تعصب ، کذب و خدع ان کا سب سے زیادہ استعمال بنو امیہ ہی کے واقعات میں کیا گیا ہے اس لیے اسی کے ساتھ زیادہ توجہ اور اعتنا کی ضرورت ہے۔
مذہب کی توہین
مصنف نے بنو امیہ کے حالات میں اس کا ایک عنوان قائم کیا ہے کہ بنو امیہ مذہب کی توہین کرتے تھے ۔ چنانچہ عنوان کے الفاظ یہ ہیں :
” قرآن اور حرمین کی توہین ۔ “( حصہ چہارم ص ٤٨)
اس واقعہ میں مصنف نے نہایت مغالطہ کاری اور ملمع سازی سے کام لیا ہے ۔ اس نے پہلے یہ واقعہ لکھا ہے کہ عبد الملک کو جب خلافت کی خبر پہنچی تو اس کی گود میں قرآن تھا ۔ اس نے قرآن کو بند کرکے کہا ” یہ آخری ملاقات ہے ” اس کے بعدلکھتا ہے :
” اس کے بعد اس نے اپنے عامل حجاج کو اجازت دی کہ کعبہ پر منجنیق نصب کرے اور ابن زبیر کو قتل کردے اور اس کا سر عین کعبہ کے اندر اپنے ہاتھ سے کاٹے حالانکہ کعبہ حرم ہے ۔ جس کے اندر اور اس کے حوالی میں لڑائی جائز نہیں۔ لیکن ان لوگوں نے اس کو جائز رکھا اور تین دن تک لوگوں کو قتل کرتے رہے اور کعبہ کو ڈھا دیا حالانکہ ان کے نزدیک وہ خدا کا گھر تھا اور کعبہ کے پتھروں اور پردوں میں آگ لگا دی جو کبھی اسلام میں نہیں ہوا تھا اور مدینہ میں پہنچے اور وہ ایک حرم ہے اور وہاں کے لوگوں سے لڑے اور ان کا خون بہایا ۔ ” ( حصہ چہارم ص ٧٨ -٧٩)
جس فریب دہ ترتیب سے مصنف نے ان واقعات کو لکھا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عبد الملک نے خلافت پانے کے ساتھ توہینِ اسلام کو اپنا مقصد قرار دیا اور اس بنا پر کعبہ پر چڑھائی کی اور کعبہ کو آگ لگا دی اور ابن زبیر کو کعبہ کے اندر قتل کردیا وغیرہ وغیرہ ۔
واقعات یہ ہیں کہ عبد اللہ بن زبیر اور عبد الملک دونوں خلافت کے دعویدار تھے اور اپنے اپنے فتوحات بڑھاتے جاتے تھے ۔ عبد الملک نے تخت نشینی کے آٹھ برس کے بعد حجاج کے ذریعہ سے عبد اللہ ابن زبیر پر چڑھائی کی ۔ انہوں نے مکہ میں بیٹھ کر مقابلہ کی تیاری کی ۔ حجاج نے محاصرہ کیا اور منجنیق سے سنگباری شروع کی ۔ اسی میں اثنا میں حج کا زمانہ آیا۔حجاج نے حج کرانا چاہا لیکن عبد اللہ بن زبیر نے روکا ۔ سنگ باری کی وجہ سے حاجیوں کو تکلیف تھی ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے حجاج کو کہلا بھیجا کہ لوگ طواف نہیں کر سکتے ۔ حجاج نے سنگ باری بند کرادی ۔ حج کے بعد حجاج نے منادی کرادی کہ لوگ وطن واپس نہ جائیں میں ابن زبیر پر سنگ باری کروں گا ۔
فقہ کا ایک مسئلہ ہے کہ اگر کوئی باغی کعبہ میں پناہ لے تو اس کو گرفتار کرنا یا اس پر حملہ کرنا جائز ہے یا نہیں ۔ بہت سے فقہاء اس کو جائز سمجھتے ہیں ۔ بنو امیہ کے طرفدار عبد اللہ بن زبیر کو باغی سمجھتے تھے ۔
بایں ہمہ حجاج نے کعبہ پر سنگ باری نہیں کی بلکہ عبد اللہ بن زبیر نے کعبہ کو گرا کر جو اس میں اضافہ کر لیا تھا اس کو نشانہ بنایا ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اسلام کے زمانہ سے پہلے سیلاب کی وجہ سے جب کعبہ گر گیا تو قریش نے دوبارہ تعمیر کی لیکن چونکہ مالی حالت نے زیادہ اجازت نہ دی تھوڑا سا حصہ تعمیر نہ ہوسکا ۔ قریش نے زمین کا اس قدر حصہ خالی چھوڑ دیا اور اس کے گرد دیوار کھچوادی جس کو آج حطیم کہتے ہیں ۔ عبد اللہ بن زبیر نے جب دوبارہ مرمت کرائی تو یہ چھوٹی ہوئی زمین عمارت کے اندر داخل کرلی ۔
اہلِ شام نے اس فعل کو نا جائز خیال کیا کہ کعبہ پر اضافہ کیا گیا ۔ حجاج نے اسی اضافہ شدہ عمارت پر پتھر برسائے تھے ۔
علامہ بشاری احسن التقاسیم ( مطبوعہ یورپ صفحہ ٧٤ ) میں لکھتے ہیں :
“حجاج نے حکم دیا ابو قبیس پر منجنیق نصب کی جائے اور کہا کہ اس حصہ پر حملہ کرو جس کو اس مکلف ( ابن زبیر ) نے ایجاد کیا ہے ۔ چنانچہ حطیم پر پتھر چلائے اور ابن زبیر کو نکال کر پھانسی دی ، اور دیوار ویسی ہی بنادی جیسی پہلے تھی ۔ “
حجاج نے اس کے بعد کعبہ کی عمارت نئے سرے سے بنائی اور آج وہی کعبہ قبلۂ اسلام ہے ۔
باقی یہ واقعات کہ عبد اللہ بن زبیر کو خود کعبہ کے اندر قتل کیا اور پردہ کعبہ میں آگ لگادی ، تمام تر غلط ہیں ۔
عبد الملک کا قرآن کو الوداع کہنا ، اس کی یہ کیفیت ہے کہ عبد الملک خلافت سے پہلے سخت عابد و زاہد تھا ۔ نافع کا بیان ہے کہ میں نے مدینہ منورہ میں کسی نوجوان کو عبد الملک سے بڑھ کر مستعد ، فقیہ ، عابد اور قاری قرآن نہیں دیکھا ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ کے بعد ہم لوگ کس سے مسئلے پوچھیں گے ۔ فرمایا کہ مروان کے بیٹے سے ابو الزناد کا قول تھا کہ مدینہ کے فقہاء سات ہیں اور ان میں سے ایک عبد الملک ہے ۔
ان حالات کے ساتھ جب خلافت کا بار اٹھانا پڑا تو ظاہر ہے کہ اب وہ زاہدانہ زندگی بسر نہیں ہو سکتی تھی اور قرآن مجید کی تلاوت کا بہ التزام انجام دینا مشکل تھا ۔ اس لیے عبد الملک نے وہ فقرہ بہ حسرت کہا جس کے معنی مخالفین نے یہ لیے کہ قرآن سے بیزاری مقصود تھی ۔
غور کرو ایک شخص جس نے ٣٠ برس زہد و تقویٰ میں بسر کی ۔ جس سے بڑھ کر مدینہ منورہ میں کوئی عابد و زاہد نہ تھا جس کی نسبت شعبی جیسا امام کہتا ہے :
” ما جالست احداً الا وجدت علیہ الفضل الا عبد الملک بن مروان ۔”
” جس سے بڑے بڑے محدثین یعنی عروہ ، رجاء بن حیوة ، امام زہری ، وغیرہ نے حدیث روایت کی جو خلافت پانے سے ایک منٹ پہلے قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف تھا ۔ خلافت ملنے کے ساتھ دفعةً مرتد ہوجائے اور قرآن سے ہمیشہ کے لیے دست بردار ہو کر کعبہ پر چڑھائی کر دے ۔ مصنف کے سوا کس کے خیال میں آ سکتا ہے ۔ مصنف بظاہر عبد الملک کو بے دین ثابت کرنا چاہتا ہے لیکن وہ دراصل تمام مسلمانوں کو بے دین ثابت کر رہا ہو کہ ان کے سامنے کعبہ پر چڑھائی ہوئی ۔ کعبہ ڈھا دیا گیا ۔ پردہ کعبہ میں آگ لگا دی گئی اور تمام قدیم مستند کتابوں یعنی طبری ، ابن الاثیر وغیرہ میں سرے سے ہے ہی نہیں ۔ بعض کتابوں میں جہاں ہر قسم کا رطب یابس ہے یہ بھی ہے ۔
مصنف نے لکھا ہے کہ بنو امیہ کے عمال ، خلفائے بنو امیہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلیہ وسلم پر ترجیح دیتے تھے ۔ چنانچہ حجاج بن یوسف اور خالد قسری کے اقوال نقل کیے ہیں ۔ اگرچہ یہ روایتیں عقد الفرید اور اغانی وغیرہ سے لی ہیں جن کا شمار تاریخی کتابوں میں نہیں لیکن گفتگو یہ ہے کہ بنو امیہ کے سیکڑوں ہزاروں عمال میں سے ایک دو شخص ایسے تھے تو اس سے عام استدلال کیا ہو سکتا ہے ۔
حجاج اور خالد قسری کے اقوال اور افعال اس وقت بنو امیہ کے نامۂ اعمال میں داخل سمجھے جا سکتے ہیں جب خلفائے بنو امیہ نے ان کو جائز رکھا ہو ۔ حجاج کو ( عبد الملک اور ولید کے سوا ) تمام خلفائے بنو امیہ نہایت برا سمجھتے تھے ۔ خالد قسری کو ان ہی افعال کی بدولت ہشام نے گورنری سے معزول کر دیا اور سخت سزا دی ۔
ولید بن یزید کی نسبت کفر اور زندقہ کا جو الزام مصنف نے لگایا ہے اس کی یہ کیفیت ہے کہ اسکے فیصلہ کرنے کا سب سے زیادہ حق محدثین کو ہے اور وہ اس باب میں مطلق رو رعایت بھی نہیں کر سکتے ۔ علامہ ذہبی جن سے بڑھ کر چھ سو برس کی مدت میں آج تک کوئی محدث اور مورخ نہیں پیدا ہو لکھتے ہیں :
” لم یص عن الولید کفر و لا زندقة بل اشتھر بالخمر و التلوط فخرجوا علیہ لذالک ۔” (تاریخ الخلفاء ، تذکرہ ولید بن یزیدہ )
یہ ظاہر ہے کہ محدثین قرآن کی ذرا سی اہانت کو کفر سمجھتے ہیں ۔ ولید خدانخواستہ اگر قرآن مجید کو تیروں کا نشانہ بناتا جیسا کہ مصنف نے نقل کیا ہے تو کیا محدثین اس کے کفر سے انکار کرسکتے تھے ؟