جو سوالات اٹهے ہیں اور اٹهتے آئے ہیں وہ تین ہیں۔
1. حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ وہ احادیث بیان فرماتے تهے جو دیگر صحابہ ذکر نہیں کرتے اور اسی بناء پر چند صحابہ کرام کو ان پر اعتراض بهی تها-
2. حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام نہیں ہیں تو پرانے صحابہ سے روایت حدیث میں آگے کیسے نکلے-
3. نعوذ باللہ من ذلک وہ غلط احادیث بیان کیا کرتے تهے-
جواب میں پہلے تو تین سوال ہماری طرف سے سائلین کیلئے- اور اس کے بعد ان کے تینوں سوالات کے جوابات ہماری طرف سے نہیں بلکہ اسی شخصیت کی زبان مبارک سے جن پر اعتراض کیا گیا-
1.حضرت انس بن مالک عبداللہ بن عمر عبداللہ بن عباس عبداللہ بن زبیر ابوسعید خدری رافع بن خدیج براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہم یہ تمام کثیرالروایت صحابہ ہیں اور سارے کے سارے صغار صحابہ میں شمار ہوتے ہیں انکی روایات ان صحابہ کرام سے زیادہ ہیں جنکی زندگی کے بیس بائیس سال بلوغت کی حالت میں حضور علیہ السلام کی صحبت مجالست اور اسفار میں آپ کے ہمراہ گذرے- ایسا کیوں؟..اور پهر ان پر اعتراض کیوں نہیں؟..
2.حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ قرآن مجید کی تفسیر سے متعلق روایات کے سب سے بڑے راوی ہیں حالانکہ عمر میں بہت چهوٹے تهے حتی کہ کبار صحابہ تفسیر کے سلسلے میں آپ سے رجوع کیا کرتے تهے-قرآن مجید جو سب سے بنیادی ماخذ ہے دین کا اسکے مطالب ومعانی کے اس امت میں سب سے بڑے معلم وہ شخص ہیں کی قرآن مجید کا اکثر حصہ انکی بلوغت سے بهی پہلے نازل ہوا-کوئی اعتراض؟؟
3.صحابہ کرام کو اگر حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ کی کثرت روایت پر اعتراض تها اور انہوں نے یہ ساراکام خلافت راشدہ کے ادوار میں ہی کیا تو ان پر قانونی گرفت کیوں نہ کی گئی؟ انہیں حلقہ درس قائم رکهنے کی اجازت کیوں دی گئی؟ حالانکہ اسی معاشرے میں حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ جیسے قدیم الاسلام اور جلیل القدر صحابی کو اپنے ان نظریات کی ترویج میں سخت رکاوٹ پیش آئی جو معاشرے کے عمومی مزاج کے خلاف تهیں اور انہیں قبول عام نہ ملا- ایسے معاشرے میں حضرت ابوہریرة کو کهلی اجازت کس طرح ملی رہی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے حضرات انہیں روکنے کی بجائے بڑے عہدوں اور اعزازات سے نوازتے رہے..
اصل بات کیا ہے؟–
منکرین حدیث جب حجیت حدیث پر سوال اٹهانا چاہیں گے تو فطری بات ہے کہ احادیث کے سب سے بڑے منبع کو ہدف بنائیں گے تاکہ جرح کا مواد زیادہ دستیاب ہو اور ذخیرہ احادیث کے بڑے حصے کو مجروح کیا جاسکے- اسلئے نشانہ بنایا گیا حضرت ابوہریرة کو۔
دوسری بات یہ حقیقت ہے کہ احادیث گهڑی گئیں موضوع روایات کا بہت بڑا حصہ خلط ملط کرکے ذخیرہ احادیث میں شامل کردیا گیا۔اس عمل میں بهی فطری بات تهی کہ واضعین کیلئے آسان ہدف حضرت ابوہریرة کی ذات تهی کیونکہ وہ کثیرالروایت ہیں تو انکی طرف جهوٹ کی نسبت آسان تهی سو انہیں نشانے پر لے لیا گیا-اس خرابی کے حل کیلئے محدثین نے حدیث کے ردوقبول کے اصول قائم کیئے ہیں ان پر حضرت ابوہریرة تو کیا صدیق اکبر عمرفاروق اور عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم کی روایات بهی ہمارے لئے اسی وقت حجت بنتی ہیں جن ان اصولوں کی چهلنی سے گذر کر ہم تک پہنچیں-یہی وہ رہنما اصول تهے جنہوں نے احادیث کے صحیح وغلط کو بالکل جدا جدا کردیا- اب یہ کتنی بڑی خیانت ہے کہ ایک شخص بلا اصول رد کرنے پر آئے تو اصول کے مطابق صحیح ترین بات کو بهی اپنے گهڑے ہوئے معیار پر رد کردے اور اعتراض کرنے پر آئے تو ان اصولوں کے مطابق جو بات بالکل بے بنیاد ہو اسی کو اپنی دلیل بنالے-اب جو روایت ذکر کرکے سوال کیا گیا وہ تو محدثین کے ہاں خود موضوع ہے۔ توکیا جهوٹ قرار دیدی گئی اس بات کی بناء پر کیا کوئی ذی ہوش اور سلیم العقل انسان کسی عام انسان پر بهی اعتراض کرسکتا ہے چہ جائیکہ امام المحدثین جلیل القدر صحابی کو نشانہ بنائے؟..
اصل نشانہ چونکہ حدیث مبارکہ ہے اسلئے اس کے سب سے بڑے حامل کا ہی نشانہ بننا بالکل فطری بات ہے اسلئے سب سے زیادہ مجروح جس شخصیت کو کیا گیا وہ بهی حضرت ابوہریرة ہیں اور جن پر سب سے زیادہ بہتان باندهے وہ بهی- لیکن وہ کیا چیز تهی جس نے امت کے سواد اعظم بلکہ پوری امت کے اجماع کی (اتنے قلیل لوگوں کا اختلاف اجماع کو باطل نہیں کرتا) نظر میں حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ کو حدیث کے امام اور مستند ماخذ کے مقام پر قائم رکها اور انکی ذات وروایات سے جهوٹ کو دور کئے رکها؟..
وہ یہی اصول تهے- جس نے ان اصولوں کی روشنی میں انکی ذات اور روایات کو پڑها، پرکها اور قبول کیا اسے کوئی اعتراض نہ ذات پر ہوا نہ بات پر اور جس نے خیانت کو وطیرہ بنایا اور اصول سے روگردانی کی وہ ہلاک وگمراہ ہوا اس نے دوسروں کے لئے ہلاکت وگمراہی کا دروازہ کهولا-
ان تین سوالات کا جواب بزبان ابو ہریرة رضی اللہ عنہ :
محبت کے بیک وقت کئی مختلف رنگ ہوتے ہیں اور اسکا ہر رنگ محبوب ومحمود ہوتا ہے- کوئی محبوب کی بات نہیں کرتا اسے اپنی کیفیات میں بھی شرکت گوارہ نہیں ہوتی اور کوئی ہروقت ذکر میں کھویا رہتا ہے۔ کوئی زیادہ وعظ ونصیحت نہیں کرتا کہ اپنی کوتاہیوں پر نظر ہوتی ہے اور کوئی زیادہ کرتا ہے تاکہ اپنی کوتاہی بھی رفع ہو اور دوسروں کو فائدہ پہنچانا اپنے عمل کی کوتاہی کا تدارک کرے-کسی پر ادب کا غلبہ اسلئے وہ سوال نہیں کرتا اور کسی پر استفادے کی شان حاوی ہے اسلئے پوچھتا ہی رہتا ہے-کوئی کبھی کبھار سامنے آتا ہے تاکہ آتش شوق کا لطف لے اور کوئی ہروقت حاضرباش رہتا ہے تاکہ قلب ونظر کی تسکین کا سامان کرے۔صحابہ میں ہر رنگ کے لوگ ہیں اور ہرمزاج کے-انکا ہررنگ پیارا ہے کیونکہ مبنی ہررنگ کا ایک ہی ہے اور وہ ہے محبت۔۔
حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ بعد میں آئے۔لیکن یہ محبت اور تعلق کے کم ہونے کی وجہ نہیں ہوسکتی۔خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ بعد میں آنے والے بہت سے لوگ محبت میں پہلوں سے بڑھ جائیں گے۔ سو وہ بھی بہت سے پہلوں سے بڑھ گئے۔ان پر استفادہ کی شان غالب تھی اسلئے کوئی اور کام نہ کرتے تھے بس حاضر باش رہتے تھے۔سوال ان سے اسی زمانے میں ہوگیا کہ آپ کے پاس وہ باتیں کیوں ہیں جو دوسروں کے پاس نہیں ؟ جواب انہوں نے خود ہی ارشاد فرمادیا:
“میں مسکین آدمی تھی۔ہر وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چوکھٹ پر پڑا رہتا میری سوائے روٹی کے اور کوئی ضرورت نہ تھی۔جبکہ مہاجرین بازار میں تجارت میں مشغول رہتے اور انصار اپنے باغات کی دیکھ بھال میں۔”۔
سوچئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے لوگوں کی یہ حالت تھی خود بیان فرماتے ہیں کہ میرا گھر عوالی میں تھا ہر روز حضور کی مجلس میں حاضری نہ ہوتی تھی ایک ساتھی کے ساتھ باری مقرر کررکھی تھی ایک دن وہ مجلس میں حاضر ہوتا اور جو سن کرآتا مجھے بتاتا دوسرے دن میں یہی کام کرتا۔وہاں ابوہریرة رضی اللہ عنہ کے علاوہ ایسا کون تھا جس نے اسلام لانے کے بعد کوئی اور شغل نہیں اپنایا نہ مسجد نبوی کے علاوہ کسی جگہ کو اپنا ٹھکانہ بنایا۔ایسے میں انکے پاس جزوی معاملات کی روایات کا زیادہ ہونا بالکل فطری امر ہے یا اچنھنبے اور اعتراض کی بات؟۔۔
جس کے سینے میں زیادہ باتیں محفوظ ہوں اس کی غلطی بھول اور خلط ملط کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ابوہریرة رضی اللہ عنہ پر یہ سوال بھی اٹھ سکتا تھا اور اٹھا۔لیکن اسکا جواب بھی وہ خود ارشاد فرماگئے۔
“میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھا آپ نے فرمایا: آج کون ہے جو اپنی چادر پھیلادے اور جب میں بات پوری کرچکوں تو اسے سمیٹ لے تو وہ کبھی کوئی بات نہ بھولے گا۔میں نے جو چادر اوڑھی ہوئی تھی وہ اتار کر پھیلادی قسم ہے اس ذات کی جس نے حضور علیہ السلام کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں اس کے بعد کوئی بات نہیں بھولا۔۔(متفق علیہ)
ایسا طالبعلم جو علم کی طلب میں ہر وقت حاضر باش ہو اور اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء سے ایسا حافظہ بھی نصیب ہوجائے تو غلطی کا امکان کہاں رہا۔
ایسی ہی بشارت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بھی ایسی ہی کیفیت میں عطاء فرمائی تھی اور فرماتے ہیں “لم اخرم حرفا” مجھ سے ایک حرف بھی آگے پیچھے نہیں ہوتا۔علی کو عطاء فرمانے والے نے ابوہریرہ کو بھی عطاء فرمایا۔۔کوئی اعتراض؟۔۔ پھر علی نہیں بھولتے تھے تو ابوہریرہ کیسے؟۔۔
اب احتمال رہ جاتا ہے جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کا۔۔العیاذ باللہ ثم العیاذ باللہ کسی صحابی سے اسکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔یہ وہ جماعت جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جس فرمان کا سب سے زیادہ چرچا تھا وہ یہ تھا”جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے” اور خود ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی اس کے راویوں میں شامل ہیں۔پھر بھی بدخواہوں نے ان پر یہ سوال کیا انہوں نے پہلے شرعی طریقے سے اپنی صفائی پیش کی-
ابورزین کہتے ہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے اور(تاسف سے) اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر فرمایا:تم لوگ میرے بارے میں یہ کہتے ہو کہ میں حضور علیہ السلام پر جھوٹ بولتا ہوں (میں ایسا کیوں کروں گا)کہ تمہیں تو ہدایت کی راہ پر لائوں اور خود(جھوٹ بول کر) گمراہی میں پڑجائوں؟۔۔سنو میں نے تو حضور علیہ السلام سے یہاں تک معمولی باتیں بھی سن رکھی ہیں کہ اگر تم میں سے کسی کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ اسے درست کیئے بغیر نہ چلے۔۔(مسلم)۔
صفائی بھی آگئی اور اتہام کی بنیاد بھی بتا دی کہ چونکہ میں حضور علیہ السلام کی طرف زیادہ باتیں منسوب کرتا ہوں اسلئے کسی کو خیال ہوسکتا ہے کہ بعض باتیں میں اپنی طرف سے گھڑ لیتا ہونگا حالانکہ میں اپنی حاضر باشی کے سبب حضور علیہ السلام کی ایسی باتیں بھی ان سے سن کر یاد کرچکا ہوں جنہیں معمولی سمجھا جاتا ہے اور وہ آپ کے کارنبوت کا جزو بھی نہیں۔
اس سے بھی بڑھ کر بات جس کے بعد سوائے سیاہ باطن اور خدائی پکڑ میں آئے بدنصیب کے علاوہ کوئی انکی ذات گرامی پرانگشت نمائی کی جرات نہیں کرسکتا وہ سنئے!۔
“حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر مجھے قرآن مجید کی دوآیات کے مصداق وعید بننے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں حضور علیہ السلام سے سنی ہوئی ہر بات روایت نہ کرتا۔وہ دو آیات یہ ہیں
“بےشک وہ لوگ جو چھپاتے ہیں ان دلائل اور ہدایت کی باتوں کو جو ہم نے نازل کیں بعد اسکے کہ ہم نے انہیں بیان کردیا ہے لوگوں کیلئے کتاب میں ان لوگوں پر لعنت ہے اللہ تعالی اور لعنت کرنے والوں کی۔ہاں وہ لوگ جو توبہ کرلیں اپنے عمل کو درست کرلیں اور بیان کردیں تو میں انکی توبہ قبول کرلوں گا اور میں بہت توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا ہوں” (البقرہ159/60)
یہ وہ کیفیت تھی جس نے باوجود شدید اتہام اور طعنے بازیوں کا شکار ہونے کے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کثرت روایت پر آمادہ کیا اور وہ اس احساس کو لے کر کہ حضور علیہ السلام سے ان تک پہنچنے والی کوئی بات امت تک پہنچنے سے رہ نہ جائے اس امانت کو بانٹتے رہے۔حیف صد حیف ان پر جنہوں نے ان کے اس جذبہ خیر رسانی کو انکے لیئے طعنہ بنا دیا۔
رہی بات ان روایات کی جو غلط حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کردی گئیں انہیں لے کر اعتراض کرنا بجائے خود ایک بدترین خیانت ہے۔کیا محدثین کرام نے ان میں کسی کو شرف قبول بخشا؟ کیا امت نے انہیں قبول کیا؟ کیا وہ سند اور متن کی جانچ کے محکم اصولوں کی بناء پر رد نہیں کردی گئیں؟ پھر اس اتہام میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا کیا قصور ہے کہ انہیں ان پر طعن کا ذریعہ بنایا جائے۔انہیں تو واضعین اور جھوٹے راویوں نے اس ظلم کا نشانہ بنایا لیکن وہ اکیلے نہیں جھوٹی روایات تو امہات المومنین اور اہل بیت کی طرف بھی منسوب کی گئیں کیا انکی بناء پر ان شخصیات کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے؟۔۔
کوئی معترض کوئی ایسی روایت پیش کرے جس کا قوی یاضعیف ہونا محدثین کے اصولوں کی جانچ میں آنے سے رہ گیا ہو تاکہ اس پر بات کی جائے۔جتنی روایات پیش کی گئی ہیں سب کے بارے میں یہ فیصلہ صدیوں پہلے سنا دیا گیا ہے اب انہیں موضوع بحث بنانا سوائے خبث باطن کے اظہار کے کچھ نہیں۔۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ صدیوں سے امت کے سردار ہیں اور جب تک دنیا میں میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پڑھی پڑھائی جاتی رہیں گی انکے لئے رحمت کی دعائیں ہوتی رہیں گی۔جبکہ ان پر انگشت نمائی کرنے والے ہرزمانے میں تاریخ کی دھول بن گئے کیونکہ امر الہی ہے
“فاما الزبد فیذہب جفاء واما ماینفع الناس فیمکث فی الارض”۔۔(الرعد)
اضواء علی السنۃ المحمدیہ اورحضرت ابوھریرہؓ
مصر کے مشہور منکر حدیث ابوریہ نے اپنی کتاب اضواء علی السنۃ المحمدیہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق حقائق کو جس طرح توڑ موڑ کے پیش کیا اور جو فحش گوئی ، دریدہ دینی اور گستاخی کی ایسی معتزلہ روافض ، قدیم و جدید مستشرقین بھی نہیں کرسکے۔ اس نے سابقہ ادوار کے تمام عیوب ومطاعن کا کوڑا کرکٹ حضرات صحابہ پر بالعموم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر بالخصوص ڈالنے کی کوشش کی, مقصد یہ تھاکہ دین اسلام کے اس بلند پایہ ستو ن کو مسمار کر دیا جائے،وہ عظیم ستون رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث وسنت ہے۔ ہم اس تحریر میں ان اعتراضات کا ذکر کر کے ان کا مختصر جواب پیش کرتے ہیں۔
۱۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو دین سے کوئٰی دلچسپی نہ تھی وہ صرف دنیا کی خاطر مشرف باسلام ہوئے ۔ابوریہ لکھتا ہے کہ ابوہریرہ نے آپ ﷺ کی رفاقت صرف شکم سیری کے لیے اختیار کی تھی ۔ ۔
سوال یہ ہے کہ کیا اپنے قبیلے میں رہ کر ابوہریرہ کھاپی نہیں سکتے تھے ؟ کیا دوس قبیلے فاقہ کشوں کا قبیلہ تھا ؟ کیا حضور ﷺ کے پاس دن رات میں اعلی کھانے پکتے تھے ؟ اصحاب صفہ کی حالت کس سے پوشیدہ ہے جن میں ابوہریرہ بھی شامل تھے ۔ سچ یہ ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ساری کمائی آخرت کی کی ، انہوں نے زندگی میں کوئی جائیداد نہیں بنائی کوئی کاروبار نہیں کیا بلکہ ہمہ وقت حضورﷺ کے پاس حاضر رہے ۔ جب تک حضور ﷺ بقید حیات رہے ، ابوہریرہ آپ ﷺ سے وابستہ رہے ،قلب و ذہن پر یہ دھن ہر وقت سوار رہتی کہ سابق الاسلام صحابہ اور امہات المومنین سے حدیثیں سنیں ۔ ایک روایت میں وہ خود بیان کرتے ہیں کہ مہاجرین بازار میں خریدوفروخت کیا کرتے تھے ، انصار مدینہ کھیتی باڑی میں لگے رہتے ۔ ادھر میری حالت یہ تھی کہ حضورﷺ کے ساتھ ساتھ رہتا اور جہاں جاتے آپ کی خدمت کرتا ۔ اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کے پاس احادیث نبویہ کا باقیوں سے بڑھ کر ذخیرہ جمع ہوگیا ۔حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ ایک روز ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی نے ان سے کہا ” اباجان لڑکیاں مجھے طعن دیتی ہیں کہ تمہارے والد تمہیں زیور کیوں نہیں پہناتے ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ” بیٹی ان سے کہو میرے ابا ڈرتے ہیں کہ زیور کے عوض مجھے جہنم میں نا جانے پڑے ۔(البدایہ النہایہ جلد 8، ص 111)
۲۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو علم فقہ میں چنداں مہارت حاصل نہ تھی۔
واقعہ اس کے خلاف ہے ابن سعد طبقات میں لکھتے ہیں کہ حضرات صحابہ مثلاً ابن عباس ،ابن عمر ،ابو سعید خدری،ابو ہریرہ، عبداللہ بن عمرو بن العاص ،جابر رافع بن خدیج،سلمہ بن اکوع،ابو واقد لیثی اور عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہم حضرت عثمان کی شہادت سے لے کر اپنی وفات تک مدینہ منورہ میں حدیثیں روایت کرتے اور فتوی دیتے رہےاس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ اکابر صحابہ وتابعین کی موجودگی میں تیئس سال تک مدینہ میں فتوی دیتے رہے۔(طبقات ابن سعد)امام ابن قیم نے مفتی صحابہ کا ذکر کیا اور بتایا ہے کہ ان میں زیادہ فتوی دینے والے بھی تھے اور کم فتوی دینے والے بھی۔بعض صحابہ فتوی دینے می متوسط درجہ کے تھے ،حضرت ابو ہریرہ کو انہوں نے متوسط فتوی دینے والوں اور حضرت ابو بکر و عثمان و ابو سعید خدری وام سلمہ وابوموسی اشعری ومعاذ بن جبل وسعد بن ابی وقاص وجابر رضی اللہ عنہم کے زمرہ میں شامل کیا ہے جو شخص کہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فقیہ نہ تھےوہ خود فقہ سے عاری ہے۔(اعلام الموقعین ج۱ص۹)
3۔ جب حضرت علی ومعاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان فتنہ بپا ہوا۔ان دنوں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نماز علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ پڑھتے تھے اور کھانا حضرت معاویہ کے ساتھ کھایا کرتے تھے،جب میدان کار زار گرم ہوجاتا تو پہاڑ میں چھپ کر پناہ لیتے۔جب ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس کی وجہ پوچھی جاتی تو کہتے علی بہتر عالم ہیں اور معاویہ کے یہاں لذیذ کھانا ملتا ہےاور امن سلامتی پہاڑ کے دامن ہی میں حاصل ہوتی ہے۔
یہ روایت یا تو روافض نے نقل کی یا ثعالبی و بدیع الزمان ہمدانی جیسے مصنفین کی کتابوں میں ملتی ہیں جنہوں نے اپنی کتابوں میں جمع روایات و واقعات کی صحت یا عدم صحت کی کچھ پرواہ نہیں کی ۔ تاریخ سے ثا بت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عہ فتنہ کے زمانے میں الگ تھلگ رہے اور مدینہ سے باہر نہ گئے۔
4۔منکرین حدیث کا کہنا ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بنو امیہ کے حامی تھے او ر حضرت علی کی مذمت میں حدیثیں وضع کر کے معاوضہ لیا کرتے تھے۔بخلاف ازیں صحیح تاریخ سے اس امر کا اثبات ہوتا ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضر ت علی رضی اللہ عنہ اور اہل بیت کی مدح میں حدیثیں روایت کیں ہیں۔چنانچہ مسند احمد اور مجمع الزوائد میں یہ احادیث مذکور ہیں ،حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ میں دفن کر نے کا سوال اٹھا تو اس وقت حضرت حسن کے لیے ابوہریرہ مروان کے ساتھ الجھ گئے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت کے ساتھ ان کو کس قدر والہانہ محبت تھی ،مؤرخ ابن کثیر نے یہ واقعہ ذکر کیا ہے۔(البدایہ ج۸ص۱۰۸)
مزید سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مذمت میں جو حدیثیں وضع کی تھیں وہ کہاں گئیں اور کن ثقہ راویوں نے ان کو نقل وروایت کیا ؟اس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ ان احادیث کا وجود ان لوگوں کے دماغ کے سوا اور کہیں نہیں ہے ۔
5. ابوریہ نے دعوی کیا کہ حضرت عمر نے ابوہریرہ کو درے سے مارا تھااور کہا تھا کہ تو نے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں غالب گمان یہ ہے کہ تو نے حضور ﷺ پر جھوٹ باندھا ہے”(صفحہ 170).
یہ روایت بھی ہمیں کسی مستند کتاب میں نہیں ملی ۔ البتہ روافض کی کتب میں یہ واقعہ نقل ہوا ہے ۔ روافض کی عمرو ابوبکر سمیت اصحاب رسول سے نفرت عام ہے اس لیے انکی انکے متعلق کسی روایت پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہاں ابن کثیر رحمہ اللہ عنے یہ لکھا ہے کہ حضرت عمر نے ابوہریرہ کو حدیثیں روایت کرنے سے روکا تھا حضرت عمر کو یہ فکر دامن گیر تھی کہ بعض لوگ احادیث کو بے محل استعمال کرتے اور ان میں جو رخصت مذکور ہوتی ہے اس سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں نیز اس لیے کہ جو شخص ذیادہ حدیثیں روایت کرتا ہو اس سے غلطی اور خطاء کے صدور کا احتمال ہوتا ہے ۔ ابن کثیر نے اس روایت کی بھی تائید کی ہے کہ بعد ازاں حضرت عمر نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو حدیثیں روایت کرنے کی اجازت دے تھی ۔
6. منکر حدیث ابوریہ نے دعوی کیا کہ صحابہ نے ابوہریرہ کو جھوٹ سے مہتیم کیا اور اسکو مطعون کیا تھا۔ ابوہریرہ کو ہدف تنقید بنانے والوں میں حضرت عائشہ ابوبکر عمرو عثمان و علی جیسے اکابر صحابہ شامل ہیں ۔ ابوریہ نے دعوی کیا کہ ابن قتیبہ نے اپنی کتاب ” تاویل مختلف الحدیث صفحہ 48 پر یہ بات تحریر کی ہے ۔
حقیقت میں یہ ابوریہ کا جھوٹ اور علمی خیانت ہے ۔ ابن قتیبہ نے یہ قول نظام اور دیگر معتزلہ سے نقل کیا اور پھر اسکی زبردست تردید کرتے ہوئے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا دفاع کیا ہے ۔ معتزلہ نے احادیث کے رد کے لیے بہت سے صحابہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ان کے قلب و ذہن پر یونانی فلسفہ چھایا ہوا تھا وہ ہر اس چیز کے خلاف ہوجاتے تھے جو اس فلسفے کی راہ میں رکاوٹ بنتی ، وہ اسی پیمانے سے دین کے احکام و مسائل کو جانچتے پرکھتے تھے ، احادیث کے علاوہ انہوں نے قرآنی مضامین کو توڑ موڑ کر بھی اپنے نظریات کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی ۔
منکر حدیث ابوریہ اپنی کتاب کے حاشیے میں لکھتا ہے کہ زور کلام اور قوت استدلا کے اعتبار سے اہل سنت میں ابن قتیبہ کو وہی مرتبہ و مقام حاصل ہے جو جاحظ کو معتزلہ کے نزدیک۔ اس سے ابوریہ کا مقصد قاری کو یہ تاثر دینا ہے جہ ابن قتیبہ جیسا بلند پایہ شخص ابوہریرہ پر نقد و جرح کررہا ہے تو اس سے بات واضح ہوجاتی ہے کہ ابوہریرہ رسول ﷺ کی احادیث روایت کرنے میں جھوٹا ہے۔ ۔ حالانکہ ابن قتیبہ نے یہ کتاب لکھی ہی منکرین حدیث کے خلاف ہیں اور اس میں منکرین حدیث کے اعتراضات کے جواب دیے ہیں ۔ ابن قتیبہ نے اس میں ان گالیوں کی بھی تفصیل بیان کی ہے جو نظام معتزلی نے ابوبکر و عمروعثمان و علی ابن مسعود و ابوہریرہ و دیگر صحابہ رضوان اللہ کو دی ہیں اور ان کے سب اعتراضات کو دوہرانے کے بعد صحابہ کا بھرپور دفاع کیا اور انکے قول کا بطلان دلائل سے ثابت کیا ۔
مستشرقین و مستغربین نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر جتنے اعتراضات اٹھائے ہیں ان کا جواب ایک مشہور عرب عالم ڈاکٹر مصطفی السباعی صدر شعبہ فقہ اسلامی جامعہ دمشق نے اپنی ایک مشہور کتاب”حدیث رسول کا تشریعی مقام” میں دیا تھا اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی مارکیٹ میں موجود ہے۔ ہم نے اس میں سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر اعتراضات کے جوابات والا سیکشن علیحدہ کرکے اپ لوڈ کیا ہے۔ قارئین اس لنک سے ڈائریکٹ ڈاونلوڈ کرسکتے ہیں۔ فائل سائز : 3 ایم بی