حدیث کی پہلی دس مشہور کتابیں

متن حدیث ایک اجمالی تعارفِ

متن عربی میں پشت Bone of contention کوکہتے ہیں۔ متون اس کی جمع ہے، پشت پر بدن کا جملہ وزن آتا ہے اور یہی حصہ اس کا پوری طرح متحمل ہوتا ہے، حدیث کے جملہ اُصول وفروع اور قواعد وکلیات بھی متن حدیث کے گرد ہی گھومتے ہیں، راویوں کی سند متن تک پہنچتی ہے، شروح اسی متن کوکھولتی ہیں اور ترجمہ اسی کودوسری زبان کا لباس پہناتے ہیں، جو کتابیں متونِ حدیث کو اپنے دامن میں لیئے ہوئے ہیں اُن کا تعارف اس مقالہ میں پیش کیا جائیگا۔ یہاں صرف یہ بتلانا ہے کہ ان دنوں متونِ حدیث کی کون کون سی کتابیں علماء عوام میں مستند طریقہ سے چلی آرہی ہیں اور یہ کتابیں چھپی ہیں اور مل سکتی ہیں۔ اس فن کی جملہ مطبوعہ کتابوں کا احاطہ کرنا مقصود نہیں، اس بات کے متلاشی حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کی کتاب بُستان المحدثین کی مراجعت فرمائیں۔

صحیفہ حضرت ہمام بن منبہ (۱۱۰ھ)

حدیث کی قدیم ترین کتاب جواس وقت ہماری رسائی میں ہے صحیفہ ہمام بن منبہ ہے، ہمام بن منبہؒ حافظ الامت سیدنا حضرت ابوہریرہؓ کے شاگرد تھے، صحیفہ ہمام بن منبہؒ (۱۱۰ھ) میں ۱۳۸ حدیثیں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت سے لکھی ہیں۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ حضرت ہمامؒ کوکل ۱۳۸/احادیث ہی یاد تھیں۔ آپ نے اور اساتذہ سے بھی بہت سی روایات سنیں۔ حضرت ہمامؒ نے جب یہ صحیفہ مرتب کیا، ان دنوں فنِ تدوین اپنی بالکل ابتدائی منزل میں تھی، یہ مجموعے محض یادداشت کے طور پر لکھے گئے تھے اس لیے ان دوسرے اساتذہ سے سنی روایات اس میں شامل نہیں نہ حضرت ابوہریرہؓ سے سنی کل روایات کا اس میں احاطہ ہے۔ صحیفہ ابن ہمام ڈاکٹر حمیداللہ صاحب کے تحقیقی کام کے ساتھ حیدرآباد دکن سے سنہ ۱۹۵۵ھ میں شائع ہوا ہے۔ تیرہ صدیوں تک یہ کتاب مخطوطات میں ہی رہی، اس سے بہت پہلے مسند امام احمد مصر میں چھپ چکی تھی، اس میں مرویاتِ ابی ہریرہؓ ایک مستقل مسند ہے، مسند امام احمد کی جلددوم میں صحیفہ ہمام بن منبہ کی کل احادیث مرویات ابی ہریرہؓ میں موجود ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ قدماء حدیث کس احتیاط سے جمع کی کہ تیرہ صدیوں بعد آنے والا مجموعہ صدیوں بعد شائع ہونے والے کتابوں سے ہوبہو اور حرف بحرف مطابق نکلا، اس وقت متن حدیث کی قدیم ترین کتاب جسے ہم دیکھ سکتے ہیں یہی ہے۔ اس پر پہلے اس تحریر میں تفصیل پیش کی جاچکی ہے ۔

حدیث کی دس پہلی کتابیں

صحیفہ ابن ہمام کی طرح بہت سے صحابہ، تابعین ، تبع تابعین کے حدیث پر صحیفے اور کتابیں موجود تھیں، یہاں ان میں مشہور ترین کتابوں کا تذکرہ پیش ہے جو صحاحِ ستہ کے وجود میں آنے سے پہلے کتابیں لکھی جاچکی تھیں اور علماء متقدمین ومتأخرین ان کے حوالوں سے رداً یاقبولاً بحث کرتے آئے ہیں اور ان کی اصلیتAnthenticity کسی دور میں مخدوش نہیں سمجھی گئی۔


(۱)مسندامام ابی حنیفہؒ (۱۵۰ھ)

امام اعظم ابوحنیفہؒ کا موضوع زیادہ ترفقہ تھا حدیث نہیں؛ تاہم آپ ضمناً احادیث بھی روایت کرتے جاتے تھے، جنھیں آپ کے شاگرد آپ سے روایت کردیتے تھے، مختلف علماء نے آپ سے روایت شدہ احادیث کو جمع کیا ہے، علامہ خوارزمی (۶۶۵ھ) نے ان کے پندرہ جمع شدہ مجموعے مسانید ابی حنیفہ کے نام سے مرتب کیئے ہیں، ان مجموعوں کوامام صاحبؒ سے براہِ راست نقل کرنے والے امام ابویوسفؒ، امام محمدؒ، امام صاحبؒ کے صاحبزادے حمادؒ اور امام حسن بن زیادؒ ہیں، ان میں سب سے بہتر مجموعہ محدث جلیل موسیٰ بن زکریا حنفی کا ہے، اسے ہی مسندابی حنیفہ کہا جاتا ہے، یہ کتاب مصر، ہندوستان اور پاکستان میں بارہا چھپ چکی ہے۔محدثِ کبیر ملاعلی قاریؒ نے مسندالانام فی شرح الامام کے نام سے اس کی شرح لکھی جو سنہ ۱۸۸۹ء میں مطبع محمدی لاہور نے شائع کی تھی، یہ کتاب مولانا محمدحسن سنبھلی کے حاشیہ کے ساتھ اصح المطابع لکھنؤ سے سنہ ۱۳۰۹ھ میں شائع ہوئی۔


(۲)مؤطا امام مالکؒ (۱۷۹ھ)


مؤطا لفظ توطیہ سے ہے، توطیہ کے معنی روندنے، تیار کرنے اور آسان کرنے کے ہیں، امام مالکؒ نے اسے مرتب کرکے ستر فقہاء کے سامنے پیش کیا، سب نے اس سے اتفاق کیا، اسی وجہ سے اس اتفاق شدہ مجموعہ کو مؤطا کہا گیا۔امام مالکؒ کا موضوع چونکہ زیادہ ترفقہ تھا، اس لیئے آپ نے اس میں سند کے اتصال کی بجائے تعامل امت کوزیادہ اہمیت دی ہے، آپ اس میں اقوالِ صحابہؓ اور تابعینؒ بھی لے آئے ہیں، آپ کے ہاں سنت وہی ہے جس پر اُمت میں تسلسل سے عمل ہوتا آیا ہو، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”مز جہ باقوال الصحابۃ وفتاویٰ التابعین ومن بعدھم”۔ ترجمہ: آپ نے صحابہ کے اقوال اور تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں کے فتاوے اس میں شامل کیئے ہیں۔(مقدمہ فتح الباری:۴)

مؤطاامام مالک میں ۸۲۲/روایات مرفوع ہیں، جوحضورﷺ تک پہنچتی ہیں ان میں سے بھی ۲۴۴/مرسل ہیں، جوتابعینؒ کی روایت سے حضورﷺ تک پہنچی ہیں، انہیں محدثین کی اصطلاح میں مرسل کہتے ہیں، اس دور میں مرسل احادیث لائقِ قبول سمجھی جاتی تھیں، جب تک جھوٹ اور فتنوں کا دور شروع نہیں ہوا، امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ جیسے اکابر مرسل روایات کوبلاتردد قبول کرتے رہے، امام مالکؒ سے مؤطا کے سولہ نسخے آگے چلے، جن میں صحیح ترین نسخہ امام یحییٰ بن یحییٰ مصمودی اندلسی کا ہے، مؤطا مالک ان دنوں اسے ہی کہتے ہیں، بڑے بڑے متبحر علماء نے اس کی شروح اور حواشی لکھے ہیں، حضرت امام شافعیؒ نے لکھا ہے:”ماعلی ظہرالارض کتاب بعد کتاب اللہ اصح من کتاب مالک”۔ ترجمہ:تختۂ زمین پر کوئی کتاب قرآن کریم کے بعد مؤطا سے زیادہ صحیح نہیں۔(تزئین المالک:۷۳)

یہ اس وقت کی بات ہے جب صحیح بخاری اور صحیح مسلم وجود میں نہ آئی تھیں اور صحتِ سند کے لحاظ سے مؤطا مالک اپنی مثال آپ تھی، اس کی کوئی روایت جرح راوی کی وجہ سے ضعیف نہیں، امام مالکؒ سے ایک ہزار کے قریب علماء نے مؤطا لکھی۔(بستان المحدثین اردو ترجمہ:۲۲، مطبع: کراچی)

(۳)کتاب الآثار امام ابویوسفؒ (۱۸۲ھ)


گوآپ حدیث کے امام تھے؛ مگرآپ کا موضوع بھی فقہ تھا، آپ نے احادیث بھی بہت روایت کی ہیں، زیادہ روایات امام ابوحنیفہؒ سے لیتے ہیں، کتاب الآثار فقہی طرز میں آپ کی روایات کا ایک مجموعہ ہے، امام یحییٰ بن معینؒ (۲۳۳ھ) لکھتے ہیں:”کان ابویوسف القاضی یمیل الی اصحاب الحدیث وکتبت عنہ”۔ ترجمہ: امام ابویوسفؒ محدثین کی طرف زیادہ مائل تھے اور آپ کی روایات لکھی جاتی تھیں۔(کتاب التاریخ یحییٰ بن معین:۲/۶۸۰، طبع: سنہ ۱۳۹۹ھ، مکۃ المکرمۃ)امام ابویوسفؒ کی اس کتاب کومطبع احیاء المعارف النعمانیہ نے ۱۳۵۵ھ میں شائع کیا ہے۔

(۴)کتاب الآثار امام محمدؒ (۱۸۹ھ)


مصر اور ہندوستان میں بارہا چھپ چکی ہے، اس کی متعدد شرحیں بھی لکھی گئیں ۔کتاب الآثار امام محمد کا عربی متن پہلے مطبع اسلامیہ نے سنہ ۱۳۲۹ھ میں شائع کیا تھا۔

(۵)مؤطاامام محمدؒ (۱۸۹ھ)


امام محمدؒ نے امام ابوحنیفہؒ کی وفات کے بعد حضرت امام مالکؒ سے مؤطا سنی اور پھر آپ نے خود ایک مؤطا ترتیب دی، جس میں زیادہ روایات امام مالکؒ سے لی ہیں، مؤطا امام محمدؒ بھی درسی کتاب ہے، ہندوستان، پاکستان، ترکی اور افغانستان کے مدارس حدیث میں پڑھائی جاتی ہے، اس کا اُردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے، اس میں مرویات آپ کی ہیں؛ مگرتبویب آپ کے شاگردوں میں سے کسی نے کی ہے “ھکذا سمعت من بعض الثقات”۔

(۶)مسندامام شافعیؒ (۲۰۴ھ)


آپ کا زیادہ ترموضوع فقہ تھا؛ مگرآپ اس کے ضمن میں احادیث بھی روایت کرتے تھے، آپ کے دور میں فتنے بہت اُبھر آئے تھے اور جھوٹ عام ہوچکا تھا، اس لیئے آپ نے راویوں کی جانچ پڑتال پر بہت زور دیا اور تعامل امت کی نسبت صحت سند کواپنا مآخذ بنایا، آپ نے یہ مسندخودترتیب نہیں دی، اس کے مرتب ابوالعباس محمدبن یعقوب الاصم (۶۴۶ھ) ہیں، یہ مسند امام شافعیؒ سے امام مزنیؒ نے اور امام مزنیؒ سے امام طحاویؒ (۳۲۱ھ)نے بھی روایت کی ہے، اس کی بھی کئی شروح لکھی گئیں جن میں مجدالدین ابن اثیرالجزریؒ (۶۰۶ھ)اور امام سیوطیؒ کی شرحیں زیادہ معروف ہیں۔

(۷)المصنف لعبدالرزاق بن ہمامؒ (۲۱۱ھ)


عبدالرزاقؒ امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد تھے، المصنف مخطوطے کی شکل میں موجود تھی ، پہلی دفعہ کتابی شکل میں گیارہ جلدوں میں بیروت سے شائع ہوئی ہے اسکے حاشیہ پر تحقیقی کام مشہور محدث مولانا حبیب الرحمن اعظمی نے کیا ہے، پہلے دور کی کتابوں کی طرح اس میں صحابہؓ اور تابعینؒ کے فتاوےٰ بھی بہت ہیں اور مؤلف متصل ومرسل ہرطرح کی روایات لے آئے ہیں، ان دنوں محدثین تعاملِ امت پر فکری نظر رکھتے تھے۔

(۸)مسندابی داؤد الطیالسیؒ (۲۲۴ھ)


دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن نے سنہ ۱۳۳۲ھ میں اسے شائع کیا ہے، مسند کی ترتیب پر ہے، صحابہؓ کی مرویات علیٰحدہ علیٰحدہ ہیں، اب ابواب فقہ کی ترتیب سے بھی چھپ گئی ہے، اس میں بعض ایسی احادیث ہیں جواور کتابوں میں نہیں ملتیں، اس پہلو سے یہ کتاب بہت اہمیت کی حامل ہے۔

(۹)المصنف لابن ابی شیبہؒ (۲۳۵ھ)


پورا نام الکتاب المصنف فی الاحادیث والآثار ہے، مؤلف امام حافظ ابوبکر عبداللہ بن محمدبن ابراہیم بن عثمان ابوشیبہ ہیں، مولانا ابوالوفاء، افغانی رئیس مجلس علمی بدائرۃ المعارف العثمانیہ کے تحقیقی کام کے ساتھ تیسری جلد تک چھپ چکی ہے، تیسری جلد کتاب الجنائز پر مکمل ہوئی اور سنہ ۱۳۳۸ھ میں چھپی، پھر یہ سلسلہ رُک گیا اب نئے سرے سے حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی کے تحقیقی حاشیہ کے ساتھ کاملاً چھپ رہی ہے،بحمدللہ اب یہ چھپ چکی ہے اور دیگر علماء نے بھی اس پر تحقیقی کام کیا ہے، جس میں شیخ عوامہ کا کام سب سے فائق ہے۔

(۱۰)مسندامام احمد بن حنبل الشیبانیؒ (۲۴۱ھ)


سند احمد کی موجودہ ترتیب آپ کے صاحبزادے عبداللہ کی ہے، قاضی شوکانی لکھتے ہیں: امام احمدؒ نے جس روایت پر سکوت اختیار کیا ہے اور اس پر جرح نہیں کی وہ لائق احتجاج ہے (نیل الاوطار:۱/۱۳) اس سے اس مسند کی عظمت کا اندازہ ہوسکتا ہے، حافظ ابنِ تیمیہؒ لکھتے ہیں کہ مسنداحمد کی شرط روایت ابوداؤد کی ان شرائط سے قوی ہے جوانھوں نے اپنی سنن میں اختیار کی ہیں، امام ابوداؤدؒ (۲۷۵ھ) لکھتے ہیں: ترجمہ: اور جس راوی کے بارے میں میں نے کچھ نہیں لکھا وہ اس لائق ہے کہ اس سے حجت پکڑی جائے۔(مقدمہ سنن ابی داؤد:۶)

علامہ ابن الجوزیؒ اور حافظ عراقیؒ نے مسنداحمد کی ۳۸/روایات کوموضوع قرار دیا ہے، حافظ ابنِ حجرعسقلانیؒ نے ان میں ۹/روایات کا پورا دفاع کیا ہے اور اس پر ایک مستقل کتاب (“القول المسدد فی الذب عن مسنداحمد” اس کا نا م ہے) لکھی ہے، جو حیدرآباد دکن سے شائع ہوچکی ہے، چودہ روایات کا جواب حافظ جلال الدین سیوطیؒ نے “الذیل الممہد” میں دیا ہے، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہولیؒ نے مسندامام احمد کوطبقۂ ثانیہ کی کتابوں میں جگہ دی ہے، حافظ سراج الدین عمر بن علی ابن الملقن (۸۰۴ھ) نے مسنداحمد کا ایک اختصار بھی کیا ہے اور علامہ ابوالحسن سندھیؒ (۱۲۳۹ھ) نے مسنداحمد کی ایک شرح بھی لکھی ہے، شیخ احمدبن عبدالرحمن البناء نے اسے فقہی ابواب پر مرتب کیا اور شیخ احمد شاکر نے اس پر تحقیقی کام کیا ہے، اس کا نام الفتح الربانی من مسنداحمد بن حنبل شیبانی ہے یہ ۲۲/جلدوں میں ہے سنہ۱۳۵۳ھ میں پہلی جلد شائع ہوئی سنہ ۱۳۷۷ھ میں آخری جلد مطبع غوریہ مصر سے شائع ہوئی۔

خلاصہ :

پہلے دور کے یہ دس نمونے مختلف قسموں پر جمع ہوئے ہیں، اس دور کی اور بھی بہت کتابیں تھیں، جواس وقت ہماری رسائی میں نہیں؛ لیکن ان کے حوالے شروح حدیث میں عام ملتے ہیں اور ان کے مخطوطات بھی کہیں کہیں موجود ہیں، ان کے تعارف کا عملاً کوئی فائدہ نہیں، صرف چند نام پڑھ لیجئے:سنن مکحول الدمشقی (۱۱۶ھ)، سنن ابن جریج المکی (۱۵۰ھ)، جامع معمر بن راشد (۱۵۳ھ)، جامع سفیان الثوری (۱۶۱ھ)، مسنداحمد بن عمروالبزار (۱۶۷ھ)، مسندوکیع بن الجراح (۱۹۷ھ)، مسندابن الجارود الطیالسی (۲۰۴ھ)، مسندالفریابی (۲۱۲ھ)، مسندابی عبید قاسم بن سلام (۲۲۴ھ) مسندابن المدینی (۲۳۴ھ)، مسنداسحٰق بن راہویہ (۲۳۸ھ)۔

اس دور کے آخر میں تالیف حدیث اپنے فنی کمال کوپہنچ گئی اور محدثین نے وہ گراں قدر مجموعے مرتب کیئے کہ خود فن ان پر ناز کرنے لگا، صحیح بخاری اور صحیح مسلم اسی دورِ آخر کی تالیفات ہیں۔