وحی کا منصب یہ نہیں کہ انسانی عقل، فطرت یا اجتماعی شعور جہاں ٹھوکر کھا سکتا تھا اسنے وہاں ٹھیک اور غلط کی وضاحت کردی، ہرگز نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ جن لوگوں نے وحی کا یہ منصب پہچانا انہوں نے اسکی اسکے منصب کے مطابق قدر نہ کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ وحی کا منصب ”اصلا اور ابتداء” ٹھیک اور غلط کا تصور واضح کرنا ھے کیونکہ اس کائنات میں انسان کے پاس بجز وحی یہ معاملات طے کرنے کا کوئی معین پیمانہ موجود نہیں۔
دوسرے لفظوں میں نبی کا کام ثانوی نہیں بلکہ بنیادی و ابتدائی نوعیت کا ھے کہ بدون نبی انسان اس کائنات میں ٹامک ٹویاں تو مار سکتا ھے، کسی شخص کا حق بات تک پہنچ جانا ایک تکا یا اتفاق تو ھوسکتا ھے مگر اپنی ذاتی صلاحیت یا کاوش کی دریافت نہیں۔ سچ بولنا اور جھوٹ سے بچنا، محبت، ہمدردی و ایثار کرنا اور غضب، حرص اور حسد سے بچنا، قتل نفس، زنا اور ماں باپ کی نافرمانی سے بچنا جیسی تمام اخلاقی اقدار تک شرعی اوصاف ہیں، جن لوگوں نے انہیں آفاقی انسانی اقدار (یونیورسل ویلیوز) سمجھا وہ سخت دھوکے کا شکار ھوئے۔ اگر ایک لمحے کیلئے انسان اور ان اخلاقی اقدار کے بیچ سے نبی کا پردہ ھٹا دیا جائے تو پھر ان معاملات میں بھی نفس لوامہ اور نفس امارہ کے درمیان ایسی کشمکش برپا ھوتی کہ جسکا تصور بھی محال ھے ، یقین نہ آئے تو ذرا فلسفے کے مباحث اخلاقیات پڑھ کر دیکھ لیجئے۔ نفس لوامہ خواہشات کو صرف وحی کے روبرو پیش کرکے ہی انکی قدر تول سکتا ھے، بصورت دیگر یہ اندھا ھوجاتا ھے اور نفس امارہ خواہشات کے غلبے کے نتیجے میں اسے مغلوب کرکے چھوڑتا ھے۔ نفس لوامہ کے پاس نفس امارہ کو مغلوب کرکے نفس مطمئنہ کی منزل پر فائز ھونے کا کوئی معین راستہ بجز نبی موجود نہیں۔
تعیین قدر (خیروشر) کے معاملے میں نبی کا یہ منصب اتنی اھم اور کلیدی بات ھے کہ علمائے متکلمین نے معتزلہ (یونانی عقل پرستی سے متاثر اسلامی گروہ) کے ساتھ اس معاملے پر صدیوں تک علمی جنگ لڑنے کے بعد گمراہی کے اس راستے کا تعاقب کرکے اس کا سد باب کیا، مگر صد افسوس کہ جدید مغربی علمی مباحث سے متاثر لوگ آج پھر امت کو اس مشکوک راستےکی طرف گامزن کرنے کو علمیت سمجھے بیٹھے ہیں۔