معجزہ شق القمر-تاریخی اور سائنسی اعتراض

حضور ﷺ کے شق القمر کے معجزے پر سب سے بڑا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اگر ایسا ہوا بھی ہے تو اس کا مشاہدہ پوری دنیا میں ہونا چاہیے تھا اور تاریخ کی کتابوں میں بھی اسکا تذکرہ ہونا چاہیے تھا.

تبصرہ:

اگر اس معجزے کے وقت کا اندازہ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ چاند کا پوری دنیا میں دیکھا جانا نا ممکنات میں سے تھا.کیونکہ اس وقت چاند صرف عرب اور اسکے مشرقی ممالک میں نکلا ہوا تھا. پھر اس معجزے کا وقت بھی طویل نا تھا اور اس سے روایت کے مطابق کوئی دھماکہ یا تیز روشنی کا اخراج بھی نہیں ہوا اور نا ہی اسکے اثرات زمین پر کسی قسم کے پڑے کہ لوگ خصوصی طور پر گھروں سے نکل آتے اور اس منظر کو دیکھ پاتے۔ظاہر ہے کہ یہ ایک متوقع معجزہ نہیں تھا کہ تمام دنیا کی نظریں چاند پر ہوتیں. اسی لئے یہ معجزہ صرف انہی لوگوں نے دیکھا جنہوں نے معجزے کا مطالبہ کیا تھا. لیکن پھر بھی بہت سے ایسے آثار موجود ہیں جو اس واقعے کی گواہی دیتے ہیں، ہم چند کا تذکرہ کرتے ہیں۔

1. روایت ہے کہ مالابار کا راجہ چرآمن پیرومل ( راما ورما کلشیکھر) نے یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا. راما ورما کے متعلق تفصیل

http://www.cyberistan.org/islamic/farmas.html

https://en.wikipedia.org/wiki/Rama_Varma_Kulashekhara

راجہ کسی وجہ سے اس رات مضطرب تھا اور محل کی چھت پر چہل قدمی کر رہا تھا. جب اس نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے اور پھر دوبارہ جوڑتے دیکھا تو مبہوت رہ گیا اور سمجھنے لگا کہ کوئی بڑا واقعہ وقوع پذیر ہوا ہے. اس نے اس واقعہ کی کھوج لگانے کا فیصلہ کر لیا. تاجروں وغیرہ سے اسے یہ معلوم ہوا کہ یہ واقعہ عرب میں آنے والے کسی نبی سے متعلق ہے. تب اس نے اپنا تخت و تاج اپنے جانشین کے سپرد کیا اور نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات کے لئے جزیرہ نما عرب آگیا جہاں انہوں نے اسلام قبول کیا اور تاج الدین کا نام اختیار کیا. واپسی کے سفر میں یمن میں صلالة کے مقام پر اسکا انتقال ہوا لیکن اپنے انتقال سے پہلے اپنے ایک خط میں اپنے جانشین کو ملک بن دینا ر کی مدد سے کرینگنور کیرالہ میں ایک مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا. یہ مسجد چرآمن جمہ مسجد کے نام سے مشہور ہے اور اسے برصغیر کی پہلی مسجد ہونے کا شرف بھی حاصل ہے. مسجد کی تفصیل:

https://en.wikipedia.org/wiki/Cheraman_Juma_Masjid

http://www.cheramanmosque.com/history.php

2. آثار قدیمہ کے ماہرین کو بھی اس قسم کے کچھ ایسے شواہد ملے ہیں جو معجزہ شق القمر کو بخوبی واضح کرتے ہیں، ، کچھ غیر ملکی اخبار نے ایک خبر نشر کی تھی جس کا عربی ترجمہ آستانہ سے نکلنے والا عربی اخبار ’الانسان‘ میں شائع ہوا تھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ چین کی ایک قدیم عمارت سے کچھ پتھر نکلے ہیں جن پر لکھا ہوا ہے کہ اس مکان کی تعمیر فلاں سال میں ہوئی، جس سال کہ ایک بہت بڑا آسمانی حادثہ اس طور پر رونما ہوا تھا کہ چاند دو حصوں میں بٹ گیا، ماہرین نے اس پتھر پر لکھی ہوئی تاریخ کا جب حساب لگایا تو ٹھیک وہی تاریخ تھی جبکہ مولانا و سید نارسول اللہ ﷺ کے انگلیوں کے اشارہ سے ’معجزہ شق القمر‘ رونما ہوا تھا!! (باکورة الکلام، بحوالہ محمد ﷺ ص ۳۸۳، مطبعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، سنہ ۵۷۹۱)۔

3. انگریز دور میں پادری فنڈر نے مشہور عالم مولانا رحمت اللہ کیرانوی کے ساتھ مناظرہ میں بھی یہ سارے اشکالات پیش کئے تھے۔ مولانا کے جوابات سے لاجواب ہُوا (یہ جوابات مولانا کیرانوی کی مشہور زمانہ کتاب اظہار الحق کی اردو شرح ‘بائبل سے قرآن تک’ از مفتی تقی عثمانی صاحب کی تیسری جلد میں صفحہ ۱۱۵پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں)۔ اس کے علاوہ مفتی عنایت ﷲ رحمہ اللہ نے رسالہ الکلام المبین میں بھی بعض اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ یہاں اُس کی نقل کی گنجائش نہیں، مفتی صاحب نے بعض راجاوُں کے دیکھنے کے بھی مستند حوالے دیے ہیں۔ اس طرح مولانا رفیع الدین صاحب کا ایک مستقل رسالہ ان عتراضات کے جواب میں ہے۔(اسلام اور عقلیات صفحہ ۲۹۴)

4. ہندوستان کی مشہور تاریخ فرشتہ ( مصنف محمد قاسم فرشتہ ۱۰۱۵ ہجری)میں بھی اس کا ذکر موجود ہے کہ مسلمانوں کی ایک جماعت عرب سے قدم گاہ ِحضرت آدم علیہ السلام کی زیارت کے لئے سراندیپ(لنکا) کو آتے ہوئے ساحلِ مالا بار ( ہند ) پر اتری ، ان بزرگوں نے وہاں کے راجہ سامری سے ملاقات کی اور معجزۂ شق القمر کا ذکر کیا، راجہ نے اپنے منجموں کو پرانے رجسٹرات کی جانچ پڑتال کا حکم دیا، چنانچہ منجموں نے بتلایاکہ فلاں تاریخ کو چاند دو ٹکڑے ہو گیا اور پھر مل گیا،اس تحقیق کے بعد راجہ نے اسلام قبول کر لیا، ہندوستان کے بض شہروں میں اس کی تاریخ محفوظ کی گئی اور ایک عمارت تعمیر کر کے اُس کی تاریخ” شبِ انشقاقِ قمر” کے نام سے مقرر کی گئی۔

یہ چند باتیں اعتراض کے جواب میں پیش کردیں ورنہ یہ ضروری نہیں کہ جس کا کوئی مغربی مفکر ذکر نا کرے وہ واقعہ پیش بھی نا آیا ہو۔ مہا بھارت جیسی عظیم الشان لڑائی کا ذکر کسی اور تاریخ میں نہیں تو اُس کو بھی غلط کہنا چاہیے اور توریت میں ہے کہ حضرت یوشع علیہ السلام کے لیے آفتاب ٹھہر گیا تھا اُس کو بھی کسی اہلِ تاریخ نے نہیں لکھا۔ حالانکہ یہ واقعہ دن کا ہے اور شق القمر رات کو ہُوا جس کا پہلے سے کسی کو خیال نہ تھا جیسا کہ خسوف وکسوف (چاند کو گرہن لگنا وغیرہ کے معاملے میں) میں پہلے سے خبر ہوتی ہے تو دیکھنے والے تیار ہو جاتے ہے۔ قدیم رومن حکومتوں میں کئی ایسے واقعات ہوئے جنکا تذکرہ صرف انہی کے ہاں ملتا ہے اور کوئی حوالہ انکے علاوہ موجود نہیں ، کیا اس بناء پر ان سب کا انکار کیا جاسکتا ہے ؟ اس لیے اگر معجزہ شق القمر کی روایت کسی غیر مسلم تاریخ میں نہ بھی ہو تو بھی تعجب کی بات نہیں ۔


معجزہ شق القمر اور سائنس

معجزہ شق القمر پر سائنسی حوالے سے بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں ۔انکے جواب میں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ”شق القمر” کا واقعہ ایک معجزہ تھا ۔ معجزہ ايک عام طبيعي عامل کے زير اثر رونما نہيں ہوتا بلکہ اعجاز نمائي کا نتيجہ ہوتا ہے، اسکے لیے سائنسی ثبوت کا ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ جب معجزہ اپنے دعوے کے اعتبار سے ہی عام قانون سے ہٹا ہوا ہے تو آپ اس کا ثبوت کیسے پا سکتے ہیں۔ معجزے کا اصل مقصد کسی نبی کی نبوت کی دلیل دینا ہوتا ہے اور ظاہر بات ہے کہ یہ دلیل انہیں کے لئے با معنی ہوسکتی ہے جن لوگوں نے ان معجزات کا ذاتی طور پر مشاہدہ کیا ہے۔ لیکن جن لوگوں نے ان معجزات کا ذاتی مشاہدہ نہیں کیا ہے وہ یہ دعوی کس بنیاد پر کر سکتے ہیں کہ یہ ہوا ہی نہیں؟

معجزے کی تشریح ہم دو اعتبارات سے کرسکتے ہیں ۔

۱۔ چونکہ سائنس ایک ارتقائی علم ہے اور سائنس کبھی بھی یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس نے تمام حقیقتوں کو جان لیا ہے۔ ہر وقت اس بات کا امکان رہتا ہے کہ سائنس ایک ایسی نئی تحقیق کے ساتھ آجائے جس کو کل غلط ثابت کیا جائے۔ تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو معجزہ ہوا وہ تو سائنس کے مطابق ہی ہوا، لیکن اس وقت کا سائنسی علم اتنی ترقی پر نہیں ہے کہ وہ اس معجزے کی سائنسی تشریح کر سکے۔

۲۔ چونکہ سائنس اپنی اصل کے اعتبار سے کلی علم کا دعوی نہیں کرتا۔ یہ کہنا کہ ہر علم کا احاطہ تجربات اور مشاہدات سے ہونا ضروری، ایک غیر منطقی بات ہے۔ تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ معجزات سائنسی دائرے سے باہر یا ماوارائے سائنس ہے۔ لیکن اس کو عقلی دائرے سے باہر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یعنی یہ دعوی نہیں کیا سکتا کہ یہ عقل سے متناقض Inconsistent ہے۔

معجزے کی سائنسی تشریح : مکمل تحریر اس لنک سے ملاحظہ فرمائیے۔