کیا  ” سورۃ الیل” میں تحریف ہوچکی ہے؟

اعتراض: سورۃ الیل کی ابتدائی آیات میں اس طرح ( و الیل اذا یغشٰی و النھار اذا تجلی وما خلق الذکر و الانثٰی ) جبکہ ابنِ مسعود (رضی اللہ تعالی عنہ ) کے متعلق حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ( وما خلق الذکر و الانثٰی ) کی جگہ ( والذکر و الانثٰی ) ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ روایت قرآن مجید کی موجودہ قرأت کے خلاف ہے ۔روایت یہ ہے :


ترجمہ: ہم شام گئے تو حضرت ابو درداء (رضی اللہ تعالی عنہ ) ہمارے پاس آئے اور فرمایا تمھارے پاس کوئی آدمی ہے جو عبداللہ (رضی اللہ تعالی عنہ ) ابن مسعود کی قرأت کے مطابق پڑھنے والا ہو؟ میں نے کہا: میں ہوں، انھوں نے پوچھا: تم نے اس آیت کو حضرت عبداللہ (رضی اللہ تعالی عنہ ) ابن مسعود سے کس طرح سنا ہے: ( والیل اذا یغشٰی ) میں نے کہا: عبداللہ (رضی اللہ تعالی عنہ ) ابن مسعود اس طرح پڑھتے تھے: ( والیل اذا یغشٰی و الذکر و الانثٰی ) انھوں نے کہا: اللہ کی قسم میں نے بھی رسول اللہ ﷺ سے اسی طرح سنا ہے، اور یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں ( وما خلق ) پڑھوں مگر میں نہیں مانتا۔” (مسلم، کتاب فضائل القرآن وما یتعلق بہ، باب ما یتعلق بالقراءات، ح 1916، ص 332)


جواب:

زیر تبصرہ روایت، شاذ قرأت پر مشتمل ہے جو اب منسوخ ہوچکی ہے، اور چونکہ یہ قرأت خبرِ واحد سے ثابت ہے جبکہ قرآن خبرِ متواتر سے ثابت ہے، اس لیے اس روایت سے قرآنن مجید کی حقانیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ امام طبری ؒ اس قرأتِ شاذہ کی وجہ سے آیت ( وما خلق الذکر و الانثٰی ) کے معنیٰ مٰں جو وسعت پیدا ہوتی ہے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہی:


1

۔ اس لفظ ما کو من کے معنی میں موصولہ مانا جائے اس صورت مٰں معنٰی ی ہہوگا، اس ذات کی قسم جس نے جنس مذکر و مؤنث کو پیدا کیا۔ یعنی اللہ تعالی نے خود اپنی ذات کی قسم اُٹھائی ہے، ابنِ مسعود (رضی اللہ تعالی عنہ ) کی قرأت ( الذی خلق الذکر و الانثٰی ) اسی معنی کو واضح کررہی ہے۔

2

۔ ما کو مصدرع معنٰی میں لیا جائے تو مطلب ہوگا، تخلیقِ مذکر و مؤنث کی قسم ، یعنی اللہ تعالی نے اپنی مخلوق کی قسم اُٹھائی ہے اور حضرت ابو درداء (رضی اللہ تعالی عنہ ) اور ابنِ مسعود (رضی اللہ تعالی عنہ ) کی صحیحین والی قرأت سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔

پھر سوال یہ ہے کہ حضرت ابو درداء (رضی اللہ تعالی عنہ ) نے اس شاذ قرات کو قرآن کیوں نقل کیا؟ تو اس کی وجہ ابن حجرؒ نے یہ بیان کی ہے:” ممکن ہے یہ قرأت بھی ان قرأت میں سے ہو جن کی تلاوت عرصہ اخیرہ کے وقت منسوخ کردی گئی تھی اور ابو درداء (رضی اللہ تعالی عنہ ) کو اس کے منسوخ ہونے کا پتہ نہ چل سکا ہو۔ تعجب ہے کہ حفاظ کوفہ نے اس قرا ئت کو ابن مسعود (رضی اللہ تعالی عنہ ) اور علمقہ (رضی اللہ تعالی عنہ ) سے نقل کیا ہے اور کوفہ میں قرأت کی سند انہیں تک پہنچتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود حفاظِ کوفہ میں سے کسی نے بھی اس کو ( والذکر و الانثٰی ) نہیں پڑھا۔ یہی معاملہ اہلِ شام کا ہے انہوں نے قرأت کا علم ابو درداء (رضی اللہ تعالی عنہ ) سے لیا ہے لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس کے مطابق قرأت کا علم ابو درداء (رضی اللہ تعالی عنہ ) سے لیا ہے لیکن ان میں سے کسی نے بھی اس کے مطابق قرأت نہیں کی، لہذا قوی امکان ہے کہ یہ قرأت منسوخ ہوچکی تھی۔  )، ح 4944، 8/707)

گویا حضرت ابو درداء (رضی اللہ تعالی عنہ ) سے رسمِ عثمانی کے مخالف اور بطریقِ آحاد نقل ہونے کی وجہ سے یہ قرأت قرآن نہیں ہوسکتی اگر یہ قرآن ہوتی تو بطریق تواتر منقول ہوتی اور رسمِ عثمانی کے مطابق ہوتی۔

قرآن کی شاز قرات کے متعلق تفصیل کے لیے 

تحریر

 ملاحظہ کیجیے۔

المختصر زیر بحث موضوع پر اگر شریعت اسلامیہ کے اس اصول پیشِ نظر رکھا جائے کہ کسی بھی لفظ کا قرآن ہونا صرف اسی وقت لازم نہیں آتا جب وہ تواتر اور توارث سے نقل ہوا ہوتو بہت سارے اشکالات خود بخود رفع ہوجاتے ہیں، کیونکہ جو لوگ شرفِ صحابیت سے مشرف ہوئے انھوں نے آپ ﷺ کو جو کچھ فرمایا سنایا جو کام کرتے دیکھا ان کے حق میں ان باتوں کا ثبوت کافی ہے۔ البتہ وہ لوگ جن کو رسول اللہ ﷺ سے بلا واسطہ استفادے کا موقع نہیں ملا ان کے لیے رسول اللہ ﷺ کے کسی قول یا عمل کے ثبوت کی صرف تین ہی صورتیں ہیں۔

 (1) آپ ﷺ کا وہ حکم یا قول تواتر کے ذریعہ پہنچا ہو، یعنی خبر دینے والے اور اس حکم کو روایت کرنے والے لوگوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ ان کا جھوٹ پر متفق پر متفق ہونا عقلی طور پر محال ہو۔ جو قول اور فعل بھی اس طریقے سے ثابت ہو اس کا انکار کرنا کفر ہے۔

 (2) آپ ﷺ کا حکم اور قول خبر متواتر کی بجائے اخبارِ آحاد کے ذریعے ثابت ہو، یعنی گواہوں کے کم تعداد میں ہونے کی وجہ سے وہ خبر قطری الثبوت اور یقینی نہیں ہوتی اور اس میں شک و شبہ ی گنجائش ہوتی ہے۔

 (3) آپ ﷺ کا وہ قول اور فعل اس طرح کا ہوکہ امت کے تعامل اور توارث کے ذریعے سے اگلی نسل تک منتقل ہوا ہو اوراس میں کسی کو اختلاف کرتے دیکھا اور سنا نہ گیا ہو۔ یہاں تک کہ یہ سلسلہ حضور ﷺ پر ختم ہو۔ امت کے توارث اور تعامل سے بھی جو حکم ثابت ہو وہ بھی تواتر ہی کی طرح قطعی اور یقینی ہے اور اس کا انکار بھی کفر کو مستلزم ہے۔ قرآن پورے کا پورا تواتر ، تعاملِ امت اور توارث کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے، اس لیے اس کے ایک حرف کا انکار بھی کفر ہے،

 جبکہ اس اور گزشتہ 

تحاریر 

میں ہم نے جن روایات کا جائزہ پیش کیا گیا ہ وہ اخبارِ آحاد ہیں۔ اور اصولاً ان روایات سے کسی لفظ کا قرآن ہونا لازم نہیں آتا، اور اس پر مستزاد یہ ہے کہ ان روایات سے جو مفہوم کشید کرنے کی کوشش کی کی گئی ہے وہ مبنی بر تکلف اور علمی دیانت کے منافی ہے جیسا کہ ہم نے تفصیلی دلائل سے واضح کیا ہے۔