قرآن کا اسلوب ایک منفرد اسلوب ہے ۔ اِس میں نثر کی سادگی اور ربط و تسلسل ہے، لیکن اِسے نثر نہیں کہا جا سکتا ۔ یہ نظم کا غنا ،موسیقی اور حسن تناسب اپنے اندر لیے ہوئے ہے ،لیکن اِسے نظم بھی نہیں کہہ سکتے ۔یہ اِس طرح کی کوئی کتاب بھی نہیں ہے، جس طرح کی کتابوں سے ہم واقف ہیں اور جن میں ابواب و فصول قائم کر کے کسی ایک موضوع یا موضوعات پر بحث کی جاتی ہے ۔اہل عرب اِسے کبھی شاعری کہتے اور کبھی کاہنوں کے سبحع سے مشابہ ٹھیراتے تھے ، لیکن اُن کا یہ تردد ہی واضح کر دیتا ہے کہ وہ خود بھی اپنی اِس بات سے مطمئن نہیں تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے اسلوب کے لحاظ سے قرآن ایک بالکل ہی منفرد کتاب ہے ۔ اِس میں دریاؤں کی روانی ہے ، سمندروں کا زور ہے ، حسن استدلال کی ندرتیں ہیں، ربط معنی کی ادائیں ہیں ،مثالیں ہیں ،قصے ہیں ،کلام میں اپنے مرکز کی طرف باربار کا رجوع ہے، تہدید و زجر اورعتاب کے گوناگوں اسالیب ہیں ،افسوس ہے ،حسرت ہے ،شدت یقین ہے ،گریز کی مختلف صورتیں اور اعراض کے مختلف انداز ہیں ۔اِس میں محبت و التفات کے موقعوں پر ، ایں چیست کہ چوں شبنم برسینۂ من ریزی ــــــ کی کیفیت ہے اور غضب کے موقعوں پر ، دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان کا سماں ہے ۔ خطاب کے وہ عجائب تصرفات ہیں کہ آدمی اُن میں بالکل کھو کر رہ جاتا ہے ۔
قرآن کے بلند پایہ اور اعلیٰ مقام کو سمجھنے کے لیے اس کے اسالیب کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس مضمون میں قرآن کے چند اسالیب سے مختصر بحث کی گئی ہے۔
1- عَود علیٰ البَدء
یہ قرآن پاک کا ایک اہم اسلوب ہے۔ یعنی کلام کا آغاز جس چیز سے ہوا ہو اسی پر کلام کا خاتمہ بھی کرنا، تاکہ اس مضمون کی افادیت و اہمیت دلوں پر نقش ہوجائے اور سامع اسے فراموش نہ کرسکے۔ بیچ میں کسی خاص مناسبت اور تقریب سے کچھ مزید چیزیں اور بحثیں بھی آجاتی ہیں جن پر بقدر ضرورت روشنی ڈال دی جاتی ہے پھر اصل مقصود کی طرف رجوع کرکے پوری گفتگو سمیٹ دی جاتی ہے۔
سورۃ مومنون کی ابتدائی آیات میں مومنین کی صفات گنائی گئی ہیں اور اس کی ابتداء نماز سے کی گئی ہے۔ فرمایا گیا:
قَد اَفلَحَ المُومِنُونَ۔ الَّذِینَ ھُم فِی صَلَاتِھِم خَاشِعُونَ (مومنون 1، 2 ) یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔
درمیان میں مختلف صفات کا تذکرہ کرنے کے بعد آخر میں پھر اسی صفت کا اعادہ کیا گیا: ” اور جو اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں۔”
مقصد نماز کو نیکیوں کا منبع اور ان کا محافظ ثابت کرنا ہے۔ اس امر پر زور دینا ہے کہ نماز ہی سے نیکی کی شروعات ہوتی ہے اور نماز ہی سے ان کی حفاظت بھی ہوتی ہے۔ اسی مضمون کو حضور سرور عالم ﷺ نے اپنی احادیث میں اس طرح زور دے کر فرمایا ہے:
لَا خیر فِی دینٍ بلا صلوٰۃٍ۔( ابوداؤد ج3 ص242) یعنی جس دین میں نماز نہ ہو اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔
سورۃ بنی اسرائیل کے تیسرے اور چوتھے رکوع کا مطالعہ کیجئے جن میں دین کی بنیادی اخلاقیات بیان ہوئی ہیں۔ ان میں والدین کے حقوق، رشتہ داروں اور مسکینوں کے حقوق ، کنجوسی اور فضول خرچی سے اجتناب، قتلِ اولاد کی ممانعت، زنا، قتل، یتیموں کا مال کھانا، ناپ تول میں کمی کرنا، زمین پر تکبر اور اکڑفوں کی چال چلنا ان سب سے روکا گیا ہے لیکن ان سارے اوامر ونواہی کی ابتداء توحید سے ہوئی ہے اور سب سے پہلے توحید پر زور دیا جاتا اور شرک سے روکا جاتاہے:
لَا تَجعَل مَعَ اللہِ اِلٰھاً اٰخَرَ فَتَقعُدَمَذمُوماً مّخذُولاً (بنی اسرائیل:22) “تواللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بنا ورنہ ملامت زدہ اور بے یار ومددگار بیٹھا رہ جائیگا۔”
اور اس اخلاقی درس کی انتہا بھی شرک سے اجتناب کی اسی تعلیم پر ہوتی ہے۔ اس ٹکڑے کے آخر میں فرمایا جاتا ہے:
وَلَا تَجعَل مَعَ اللہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَتُلقٰی فِی جَھَنَّمَ مَلُومًا مَّدحُورًا (بنی اسرائیل:39) اور اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بنا بیٹھ ورنہ تو جہنم میں ڈآل دیا جائے گا ملامت زدہ اور راندہ ہوکر۔
یہاں یہ حقیقت ذہن نشین کرانا مقصود ہے کہ ان تمام بھلائیوں سے وابستگی اور ان تمام حقوق کی ادائیگی توحید ہی سے ممکن ہے۔ جو شخص توحید کی اس تعلیم پر قائم رہے گا وہی ان تمام حقوق کو ادا کرسکتا اور ان اخلاقیات کا پابند رہ سکتاہے۔ اسی سے ان فضائل کی ابتداء اور اسی پر ان کی انتہا بھی ہوتی ہے۔
2- علیٰ سبیل المشاکلہ
عربی ادب کا ایک عام اسلوب یہ ہے کہ کبھی کبھی بعض الفاظ محض مجانست اور صوتی ہم آہنگی کی وجہ سے استعمال ہوجاتے ہیں۔ ان کا مفہوم ان کے لغوی معنیٰ کے لحاظ سے نہیں بلکہ موقع ومحل سے متعین ہوتاہے۔ مثال کے طور پر حماسی شاعر کہتاہے :
وَلم یبق سِوی العدوان دِنَّا ھم کما و انوا
(اور ظلم کا بدلہ دینے کے سوا کوئی راہ باقی نہ رہی۔ ہم نے انھیں بدلہ دیا جس طرح انھوں نے ہمارے ساتھ سلوک کیا۔)
یہاں دَانوا اپنے لغوی مفہوم(انھوں نے بدلہ دیا) میں نہیں بلکہ فَعلوایاظَلَموا کے معنیٰ میں مستعمل ہے۔ اس لئے کہ دشمن نے حملہ میں پہل کی تھی اور اس صورت میں دشمن کے لیے بدلہ دینے کا مفہوم بے معنیٰ ہوجاتاہے۔ اس اسلوب کی مثال سورۃ شوریٰ کی آیت 40 ہے۔ فرمایا:
وَجَز ؤُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃ مِّثلُھَا فَمَن عَفَاوَاَصلَحَ فَاَجرُہُ عَلَی اللہِ اِنَّہُ لَایُحِبُّ الظَّالِمِینَ۔ (شوریٰ:40 برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے پھر جو کوئی معاف کردے اور اصلاح کرے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔
یہاں کسی برائی کے جواب میں جو اقدام کیا جائے اسے بھی برائی کے لفظ سے تعبیر کیاگیا ہے حالانکہ برائی کا جواب دینا اور انتقام لینا جائز ہے بشرطیکہ حد سے تجاوز نہ ہولیکن اسے بھی برائی کہنا محض لفظی مجانست اور صوتی ہم آہنگی کی وجہ سے ہے ۔ یعنی اہل ایمان کسی برائی کے جواب میں اتنی ہی کاروائی کرتے ہیں جو برائی کے ہم وزن ہو۔ ایسا نہیں ہوتا کہ وہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں۔
3- نہی کے ساتھ قید
یہ قرآنِ پاک کا ایک اہم اسلوب ہے جس سے ناواقفیت ایک طالب علم کو بڑی الجھن میں ڈال دیتی ہے۔ نہی کے ساتھ جو قید لگی ہوتی ہے اس کا مقصود صورت حال کا اظہار اور واقعہ کے گھناؤنے پن کو نمایاں کرناہوتاہے قید اس کے ساتھ محض اس لیے بڑھادی جاتی ہے تاکہ وہ صورت حال سامنے آجائے جو اس کے ارتکاب میں مضمر ہے۔ مثال کے طور پر سورۃ نور میں اسی اسلوب کی بلاغت ملاحظہ فرمائیے:
وَلَاتُکرِھُوافَتَیٰتِکُم عَلَی البِغَآءِ اِن اَرَدنَ تَحَصُّنًا لِّتَبتَغُوا عَرَضَ الحَیٰوۃِ الدُّنیاً (نور:33)
اور اپنی لونڈیوں کو اپنے دنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری پر مجبور نہ کرو جب کہ وہ خود پاک دامن رہنا چاہتی ہوں۔
یہاں یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر لونڈیاں نکاح کی قید میں آنا چاہیں تو ان سے زنا نہ کرو لیکن اگر وہ قیدِ نکاح میں آنے کو تیار نہ ہوں تو ان کو قحبہ گری پر مجبور کیا جاسکتاہے بلکہ اِن اَرَدنَ تَحَصُّنَا(اگر وہ خود پاک دامن رہنا چاہتی ہوں) کی شرط سے مقصود صرف حال کی تصویر اور اس کے نفرت انگیز ہونے کا اظہار ہے۔ جب اسلام نے زنا پر حد جاری کرنے کا حکم دے دیا اور غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کی ہدایت فرمائی،( نور:32 “تم میں سے جولوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ان کے نکاح کردو) تو قدرتی طور پر لونڈیوں کے اندر بھی ایک عام احساس بیدار ہوا کہ وہ اپنے اخلاقی معیار کو اونچا کریں اور ان میں سے جو اپنے مالکوں کے دباؤ کی وجہ سے پیشہ کراتی تھیں وہ خواہش مند ہوئیں کہ یہ حرام پیشہ چھوڑ کر پاکدامنی کی زندگی بسر کریں۔ چنانچہ ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اور چکلوں کے مالکوں کو تنبہہ فرماتے ہوئےکہا کہ اب ان لڑکیوں کو جبکہ وہ زنا سے توبہ کرکے پاکدامنی کی زندگی اختیارکرنا چاہتی ہیں بدکاری پر مجبور نہ کرو۔ روایات میں آتا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں باقاعدہ چکلے قائم تھے جہاں قحبہ گری کا کاروبار بڑے زور وشور سے ہوتاتھا۔ وہ لوگ اپنی لونڈیوں سے پیشہ کراتے تھے اور ان کی آمدنی سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ ان میں سے بعض دورِ اسلام میں بھی خفیہ طور سے یہ کاروبار چلارہے تھے چنانچہ تاریخوں میں یہ ذکر موجود ہے کہ مشہور منافق عبداللہ بن اُبی نے ایک چکلہ قائم کر رکھا تھا۔
یہی اسلوب سورۃ بنی اسرائیل میں استعمال ہوا ہےجہاں مفلسی کے ڈر سے اولاد کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔وہاں بھی خشیۃ املاق کی قید محض اس کے گھنونے پن کو ظاہر کرنے کے لیے ہے۔
بنی اسرائیل : 31 ” اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انھیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔”
یعنی اپنی اولاد کو قتل کرنے کا کام محض فقروفاقہ اور مفلسی سے بچنے کے لیے کیا جارہا ہے جبکہ رزّاق والدین نہیں بلکہ وہ خدا ہے جو اولاد اور والدین دونوں کو روزی دیتاہے۔
4- تصریف
اس لفظ کے لغوی معنیٰ گردش دینے اور ہیر پھیر کر بیان کرنے کے ہیں۔ قرآن پاک کا ایک اہم اسلوب یہ ہے کہ وہ آیتوں کو الٹ الٹ کر مختلف زاویوں سے بیان کرتاہے۔ اس کے لیے اس نے تصریف آیات کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مضمون مختلف سورتوں میں بار بار آتا ہے لیکن ہر جگہ ایک ہی پیش و عقب اور ایک ہی قسم کے لواحق وتضمنات کے ساتھ نہیں آتا بلکہ ہر جگہ اس کے اطراف وجوانب اور اس کے تعلقات وروابط بدلے ہوئے ہوتے ہیں۔ مقام کے لحاظ سے اس میں مناسب حال تبدیلیاں ہوتی ہیں۔ ایک ہی چیز کبھی مرکزی مضمون کی حیثیت سے آتی ہے کبھی ضمنی مضمون کی حیثیت سے، کبھی وہی چیز اجمال کے ساتھ آتی ہے کبھی تفصیل کے ساتھ ۔ کبھی ایک چیز مقدم ہوتی ہے کبھی موخر، کبھی تنہا ہوتی ہے کبھی اپنے مقابل کے ساتھ، کبھی کسی چیز کے ساتھ اس کا جوڑ ہوتاہے کبھی کسی چیز کے ساتھ ۔ بالکل یکساں مضمون مختلف سورتوں میں مختلف ترتیبوں کے ساتھ سامنے آتے ہیں ظاہر ہے کہ جب ایک ہی شے اپنے مختلف پہلوؤں سے جلوہ گر ہوگی تو اس کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینے اور پوری طرح پہچاننے میں دقت نہ ہوگی اگر ایک ادا نگاہ سے چوک گئی تو دوسرا جلوہ سامنے آجائے گا۔ (فراہیؒ،حمیدالدین: مقدمہ تفسیرنظام القرآن ص 48 ، 49) قرآن پاک نے خود بھی اس تصریف کا مقصد یہی بتایاہے کہ تاکہ لوگ سمجھ سکیں اور اس کی آیات پر غور کرسکیں۔ فرمایا
اُنظُرکَیفَ نُصَرِّفُ الاٰیٰتِ لَعَلَّھُم یَفقَھُونَ (انعام:65) دیکھو،کس کس طرح ہم اپنی آیتیں مختلف پہلوؤں سے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ سمجھیں۔
اس آیت کے سیاق و سباق پر غور کرنے سے تصریف کی حقیقت بالکل آشکارا ہوجاتی ہے۔ کہا یہ جارہا ہے کہ انسان کا عجیب حال ہے کہ جب کسی آفت میں گرفتار ہوتاہے تو گڑگڑا کربھی اور دل میں چپکے چپکے بھی خدا ہی کو پکارتاہے لیکن جب اس سے نجات پاجاتاہے تو پھر ناشکری ونافرمانی کی وہی زندگی اختیار کرلیتا ہے جس میں پہلے مبتلا تھا یہاں تک کہ اگر خدا کی پکڑ سے اسے ڈرایاجاتا ہے تو ڈھیٹ ہو کر عذاب کا مطالبہ کربیٹھتاہے ۔ اس کے بعد فرمایا کہ دیکھو کس طرح ہم اپنی قدرت کی نشانیاں اور اپنے اختیار وتصرف کی دلیلیں مختلف اسلوبوں سے پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں تاکہ اسے یہ سمجھیں لیکن یہ سمجھنے کے بجائے ہمارا عذاب ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی سورۃ میں ذرا پہلے اسی بات کو یوں کہاگیاہے:
اُنظُرکَیفَ نُصَرِّفُ الاٰیٰتِ ثُمَّ ھُم یَصدِفُونَ (انعام:46) دیکھو، کس کس طرح ہم اپنی آیتیں مختلف پہلوؤں سے پیش کرتے ہیں، پھر بھی وہ اعراض کررہے ہیں۔
پورے قرآن میں اصلًا تین چیزوں کی دعوت دی گئی ہے اور انھیں مختلف اسلوبوں اور پیرایوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ اس سے کلام کی دلکشی اور جاذبیت بڑھ گئی ہے اور کہیں بھی تکرار کا عیب پیدا نہیں ہونے پایاہے۔: (1) توحید (2) معاد (3) رسالت
قرآن نے ان ہی تینوں چیزوں کو مختلف انداز سے باربار اس طرح دوہرایاہے کہ ہر جگہ یہ مستقل اور نئے مضامین معلوم ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر عقیدہ توحید کو لیجئے ۔ کہیں قرآن نے اسے انسانی فطرت کی پکار کہاہے اور یہ ثابت کیاہے کہ توحید انسان کے دل کی آواز اور عین تقاضائے فطرت ہے۔ شرک اس کے خلاف ہے۔ 1؎ کہیں اس پر اس حیثیت سے گفتگو کی ہے کہ یہ تمام انبیاء کی مشترکہ دعوت رہی ہے اور ان سب نے اپنے اپنے زمانے میں توحید ہی کی طرف لوگوں کو بلایا ہے۔ 2؎ کہیں مشرکین کے اپنے نفس کی شہادت سے استدلال کیا گیاہے کہ جب کوئی سخت وقت آتا ہے اور انھیں موت یا تباہی سامنے کھڑی نظر آنے لگتی ہے تو وہ اپنے سب بناوٹی معبودوں کو بھول جاتے ہیں اور صرف اللہ ہی سے مدد کی دعا مانگتے ہیں۔ 3؎ کہیں کائنات کے پورے نظام سے توحید کے حق میں زبردست دلائل دیے گئے ہیں اور یہ ثابت کیاگیاہے کہ اس سارے عالم ہست وبود کا خدا ایک ہی ہے۔4؎ کہیں خدا کے بے شمار احسانات اور بے پایاں نعمتوں کا تذکرہ کرکے انسان کے جذبہ عبودیت کو مہمیز کیاگیاہے اور اسے اس بات پر آمادہ کیاگیا ہے کہ وہ ایک ہی خدا کو اپنی محبتوں اور اطاعتوں کا مرکز بنائے۔ 5؎ غرض یہ کہ مختلف پیرایوں میں بات کو سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے اور کہیں بھی عبارت اور کلام میں تکرار کا عیب پیدا نہیں ہواہے نہ ثقالت اور غیرضروری طوالت کا احساس ہونے پایا ہے بلکہ ہر بیان کی نوعیت دوسرے بیانات کی نوعیت سے مختلف دکھائی دیتی ہے۔ اور ع کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جاایں جاست کا مصداق ہے۔
1؎: روم: 30 . فِطرَتَ اللہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیھَا، لَا تَبدیلَ لِخَلقِ اللہِ، ذَالِک الدِّینُ القَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکثَرَ النَّاسِ لَا یَعلَمُونَ یعنی”قائم ہوجاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیاہے، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی یہی بالکل راست اور درست دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔”
2؎: نمل:36۔ انبیاء:25۔ بیّنہ:5۔ یوسف:39،40۔ مائدہ:72۔ انعام:74تا81۔ ابراہیم: 35،36۔
3؎: انعام: 40، 41۔ یونس:22 ، 23۔ روم: 32، 33۔ زمر: 8۔
4؎: بقرۃ:21،22۔ روم: 20 تا 27۔ یٰس: 36تا 44۔ حدید: 4تا 6۔ انعام: 95 تا 98۔ مومنون: 90۔
5؎: نمل: 60تا 64۔ فرقان: 1تا 3۔ نحل: 65 تا 73۔
5-تخلیص
اس اسلوب کو اردو شاعری کی اصطلاح میں گریز کہاجاسکتاہے ۔ یعنی بات میں سے بات پیدا کرنا، ایک مضمون بیان کرتے کرتے بیچ میں کوئی موقعہ کی ہدایت ونصیحت یا واقعہ بیان کرکے اصل موضوع کی طرف پلٹ آنا، اس کو امام ابن قیم جوزیؒ نے تخلص یا انتقال من فنٍ الی فنٍ کہا ہے۔
یہ اسلوب بڑی مہارت اور حسن بلاغت کا متقاضی ہے۔ مضمون کا رخ تھوڑے سے وقفہ کے بعد پھر اسی اصل مواد کی طرف پلٹا دیاجائے اور یہ تھوڑا سا عرصہ اس طرح نکالا جائے اور اصل مضمون سے اس کا تعلق اس طرح جوڑ دیاجائے کہ درمیان میں کوئی بے ربطی کسی قسم کا جھول اور کوئی بیگانگی پیدانہ ہو۔
سورہ مومنون کامطالعہ کیجئے۔ ابتدا اہل ایمان کی فلاح اور حق کی تکذیب کرنے والوں کے خسران کے اعلان سے ہوتی ہے جس میں خدا کی ربوبیت کے شواہد سے جزاوسزا پر استدلال بھی شامل ہے اور یہ سلسلہ آیت 23 وَعَلَیھَاعَلَی الفُلکِ تُحمَلُونَ( اور ان (جانوروں) پر اور کشتیوں پر سواری بھی کرتے ہو) پر ختم ہوتاہے۔ آگے مکذبین کے خسران اور مومنین کی فلاح پر تاریخی شواہد کا سلسلہ شروع ہوتاہے تو سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کے واقعہ کا تذکرہ ہوتا ہے جو تاریخی تقدم کے اعتبار سے بھی رسولوں کی سرگزشت کا سرنامہ ہے اور خاص طور پر کشتی ہی کو ان کی اور ان کے ساتھیوں کی نجات کا اللہ تعالیٰ نے ذریعہ بنایا۔ کشتی کے ذکر کے بعد اس کشتی والے کے واقعہ کا ذکر اس طرح آگیا ہے گویا بات میں سے بات پیدا ہوگئی ہے۔ فرمایا:
” اور ان(جانوروں) پر اور کشتیوں پر سواری بھی تم کرتے ہو۔ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا اس نے کہا، اسے میری قوم کے لوگو! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سواتمہارے لیے کوئی معبود نہیں ہے کیا تم ڈرتے نہیں ہو۔”(مومنون:22 ،23 )
تاریخی شواہد کے بعد آیت 50 سے پھر اصل مضمون شروع ہوگیاہے۔
سورۃ انبیاء آیات 30 تا 33 کا مطالعہ بھی اس اسلوب کو سمجھنے کے لیے مفید ہوگا۔ یہاں توحید معاد اور جزا پر آفاق سے دلائل فراہم کئے گئے ہیں اور انسانوں کو دعوت، فکر دی گئی ہے فرمایا: ہم نے زمین میں پہاڑ گاڑ دئے جو اس کے توازن کو قائم رکھے ہوئے ہیں کہ مبادا وہ ان کے سمیت کسی سمت کو لڑھک کر کسی اور کرہ سے جاٹکرائے اوریہ اہتمام بھی کیا کہ ان پہاڑوں کے درمیان درّے بھی بنائے کہ وہ لوگوں کے راستے کا کام دیں اور وہ ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ اور ایک ملک سے دوسرے ملک کو آجا سکیں۔ اگر خدا نے ایسا نہ کیا ہوتا تو لوگ اپنے اپنے علاقوں ہی کے اندر بند ہوکر رہ جاتے اور کسی کے امکان میں بھی نہ ہوتاکہ وہ سفر اور تجارت کی راہیں کھول سکے۔ اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر پہاڑوں کے اصل مقصدِ تخلیق کی طرف بھی اشارہ کردیاکہ خدا نے اپنی یہ عظیم نشانیاں اسی لیے نمایاں فرمائیں کہ ان کو دیکھ کر لوگوں کی آنکھیں کھلیں، ان پر پہاڑوں کے خالق کی قدرت عظمت اور حکمت کی شان واضح ہو، اور وہ خدا تک پہونچ سکیں۔
“اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انھیں لےکر ڈھلک نہ جائیں۔اور اس میں کشادہ راہیں بنادیں تاکہ لوگ(خدا کی طرف) رہنمائی حاصل کرسکیں۔” (انبیاء: 31)
انبیاء کی مندرجہ بالا آیت میں اصل مقصدِ تخلیق کی طرف اشارہ کرکے اگلی آیت سے پھر اصل مضمون شروع کردیاگیا اور زمین کی نشانیوں کے بعد آسمان کی نشانیوں پر توجہ دلائی گئی۔ سورہ نحل کی مندرجہ ذیل آیات بھی اس اسلوب کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں:
“اس نے جانور پیدا کئے جس میں تمہارے لیے پوشاک بھی ہے اور خوراک بھی ، اور طرح طرح کے دوسرے فائدے بھی۔ ان میں تمہارے لیے جمال ہے، جبکہ تم انھیں چرنے کے لیے بھیجتے ہو اور جبکہ شام انھیں واپس لاتے ہو۔ وہ تمہارے لیے بوجھ کو ڈھو کر ایسے مقامات تک لیجاتے ہیں جہاں تم سخت جانفشانی کے بغیر نہیں پہونچ سکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب بڑا ہی شفیق و مہربان ہے۔ اور اس نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سواری کرو اور وہ تمہاری زندگی کی رونق ہیں۔ اور وہ بہت سی ایسی چیزیں پیدا کرتاہے جن کو تم نہیں جانتے اور اللہ ہی کے ذمہ ہے سیدھا راستہ بتانا جبکہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا۔” (نحل: 5 تا 9)
دیکھیئے کس خوبصورتی کے ساتھ تخلیص سے کام لے کر مقصد تخلیق اور ہدایت ورہنمائی کی طرف بیچ میں اشارہ کردیا۔ فرمایا کہ خدا کی یہ نوازشیں اور انعامات ہیں جن کا تقاضا یہ تھا کہ انسان ان کی قدر کرے اور اپنے منعم حقیقی کا شکریہ ادا کرے اور اس کے حقوق میں دوسروں کو شریک نہ کرے۔ توحید کی سیدھی راہ خدا تک پہنچاتی ہے۔ اس کے بعد آیت 10 سے پھر اصل مضمون کا سلسلہ شروع کردیا اور ماقبل سے بڑی خوبصورتی کے ساتھ جوڑ دیا۔ اس اسلوب کو مزید سمجھنے کے لیے ملاحظہ ہو زخرف : 10 تا 14۔ سورہ شعراء: 72 تا78۔ نمل : 14، 15۔
استفادہ تحریر : قرآنِ مُبین کے بعض اسالیب از ڈاکٹر عبیداللہ فہد فلاحی، سہ ماہی تحقیقات اسلامی ، علی گڑھ ، انڈیا