قرآن ِ کریم کی حقانیت کی ایک واضح دلیل اس کا اعجاز ہے، یعنی قرآن ایک ایسا کلام ہے جس کی نظیر پیش کرنا انسانی قدرت سے باہر ہے، اسی وجہ سے اس کو سرورِ کونینﷺ کا سب سے بڑا معجزہ کہاجاتا ہے۔ اس تحریر ی سلسلے میں ہم مختصراً قرآن کریم کی اُ ن وجوہِ اعجاز کی طرف اشارہ کریں گے جن پر غور کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ یقیناً اللہ تعالیٰ ہی کا کلام ہے، اور کسی بشری ذہن کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ آگے پڑھنے سے پہلے بنیادی طور پر دو باتیں سامنے رکھنی ضروری ہیں۔
ایک تو یہ کہ فصاحت و بلاغت اور کلام کی سحر انگیزی ایک ایسی صفت ہے جس کا تعلق سمجھنے اور محسوس کرنے سے ہے، اور پوری حقیقت و ماہیّت کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ، آپ تلاش و جستجو اور استقراء کے ذریعہ فصاحت وبلاغت کے اصول و قواعد مقرر فرماسکتے ہیں، لیکن درحقیقت ان اصول وقواعد کی حیثیت فیصلہ کن نہیں ہوتی، کسی کلام کے حُسن وقبح کا آخری فیصلہ ذوق اور وجدان ہی کرتاہے، جس طرح ایک حسین چہرے کی کوئی جامع و مانع تعریف نہیں کی جاسکتی ، جس طرح ایک خوش رنگ پھول کی رعنائیوں کو الفاظ میں محدود نہیں کیا جاسکتا، جس طرح مہکتی ہوئی مُشک کی پوری کیفیت بیان کرنا ممکن نہیں، جس طرح ایک خوش ذائقہ پھل کی لذّت وحلاوت الفاظ میں نہیں سماسکتی ، اسی طرح کسی کلام کی فصاحت و بلاغت کو تمام و کمال بیان کردینا بھی ممکن نہیں، لیکن جب کوئی صاحبِ ذوق انسان اسے سُنے گا، تو اس کے محاسن و اوصاف کا خود بخود پتا چل جائے گا.
دوسری یہ کہ کسی کلام کےحسن اور فصاحت و بلاغت کا اندازہ اس کلام کی زبان کو سمجھے بغیرنہیں لگایا جاسکتا ، اس لیے فصاحت وبلاغت کے معاملے میں ذوق بھی صرف اہلِ زبان کا معتبر ہے، کوئی شخص کسی غیر زبان میں خواہ کتنی مہارت حاصل کرلے، لیکن ذوقِ سلیم کے معاملے میں وہ اہلِ زبان کا کبھی ہمسر نہیں ہوسکتا۔
اب ذرا زمانہءجاہلیت کے اہلِ عرب کا تصوّر کیجئے، خطابت اور شاعری اُن کے معاشرے کی رُوحِ رواں ہے، عربی شعر و ادب کا فطری ذوق اُن کے بچے بچے میں سمایا ہوا ہے، فصاحت و بلاغت اُن کی رگوں میں خونِ حیات بن کر دوڑتی ہے، ان کی مجلسوں کی رونق، اُن کے میلوں کی رنگینی ، اُن کے فخروناز کا سرمایہ اور ان کی نشرواشاعت کا ذریعہ سب کچھ شعروادب ہے ، اور انھیں اس پر اتنا غرور ہے کہ وہ اپنے سوا تمام قوموں کو “عجم” یعنی گونگا کہا کرتے ہیں ۔ ایسے ماحول میں ایک اُمّی (جناب محمدﷺ ) ایک کلام پیش کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے، اسکے غیر انسانی کلام ہونے کی دلیل کے طور پر ایک چیلنج بھی دیتا ہے:
لَئِنِ اجتَمَعتِ الاِنسُ وَالجِنُّ عَلٰی اَن یَّاتُوا بِمِثلِ ھٰذَا القُراٰنَ لَایَاتُونَ بِمِثلِہِ وَلَوکَانَ بَعضُھُم لِبَعضٍ ظَھِیراً۔(الاسراء 88) “اگر تمام انسان اور جِنّات مل کر اس قرآن جیسا(کلام) پیش کرنا چاہیں تو اس جیسا پیش نہیں کرسکیں گے، خواہ وہ ایک دوسرے کی کتنی مدد کیوں نہ کریں۔”
یہ چیلنج کوئی معمولی بات نہ تھی۔ یہ دعوٰی اُس کی طرف سے تھا جس نے کبھی وقت کے مشہور ادباء اور شعراء سے کوئی علم حاصل نہ کیا تھا، کبھی مشاعرے کی محفلوں میں کوئی ایک شعر بھی نہیں پڑھا تھا، اور کبھی کاہنوں کی صحبت بھی نہ اُٹھائی تھی، خود شعر کہنا تو درکنار، اسے دوسرے شعراء کے اشعار تک یاد نہیں تھے، پھر اگر یہ اعلان سچا ثابت ہوجاتا تو ان کے آبائی دین کی ساری عمارت مُنہ کے بل گِر پڑتی ، اور اُن کی صدیوں پُرانی رسوم و روایات کا سارا پلندہ پیوندِ زمین ہوجاتا تھا کیونکہ یہ کلام ایک دین بھی پیش کررہا تھا، اس لیے یہ اعلان درحقیقت اُن کی ادبی صلاحیتوں کو ایک زبردست چیلنج تھا، یہ اُن کے دین و مذہب پرایک کاری وار تھا، یہ اُن کی قومی حمیّت کے نام مبازرت کا ایک پیغام تھا، یہ اُن کی غیرت کو ایک للکار تھی، جس کا جواب دئیے بغیر کسی غیور عرب کے لیے چین سے بیٹھنا ممکن نہیں تھا،
لیکن ہوا کیا؟ ـــــــــ اس اعلان کے بعد اُن آتش بیان خطیبوں اور شعلہ نوا شاعروں کی محفل میں سنّاٹا چھا گیا، کوئی شخص اس چیلنج کو قبول کرنے کے لیے آگے نہ بڑھا، کچھ عرصہ کے بعد قرآن کریم نے پھر اعلان فرمایا :
وَاِن کُنتُم فِی رَیبٍ مِّمَّا نَزَّلنَا عَلٰی عَبدِنَا فَا تُوا بِسُورَۃٍ مِّن مِّثلِہِ وَ ادعُواشُھَدَآ ءَکُم مِّن دُونِ اللہِ اِن کُنتُم صٰدِقِینَ 0 فَاِن لَّم تَفعَلُواوَلَن تَفعَلُوا فَاتُّقُواالنَّارَالَّتِی وَ قُودُھَا النَّاسُ وَالحِجَارَۃِ ۔اُعِدَّت لِلکٰفِرِینَ 0(البقرہ:23) “اور اگر تم کو اس کتاب کے بارے میں ذرا بھی شک و شبہ ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو اس جیسی ایک سُورت(ہی) بنالاؤ، اگر تم سچے ہو، اور اللہ کے سوا تمھارے جتنے حمایتی ہیں اُن سب کو بلا لو، پھر بھی اگر تم ایسا نہ کرسکے ، اور یقین ہے کہ ہرگز نہ کرسکوگے، تو پھر اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، وہ کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔”
اس پر بھی بدستور سکوت طاری رہا، اور کوئی شخص اس کلام کے مقابلے میں چند جملے بھی بنا کر نہ لاسکا، سوچنے کی بات ہے کہ جس قوم کی کیفیت بقول علامہ جُرجانیؒ یہ ہو کہ اگر اسے یہ معلوم ہوجائے کہ دنیا کے آخری حصے پر کوئی شخص اپنی فصاحت و بلاغت پر غیر معمولی گھمنڈ رکھتا ہے، تو وہ اس پر تنقید کرنے اور اپنے اشعار میں اس پر چوٹیں کسنے سے باز نہ رہ سکتی تھی۔ اس بات کا کیسے تصّور کیا جاسکتا ہے کہ وہ قرآن کے ان مکّرر سکرّر اعلانات کے بعد بھی چپکی بیٹھی رہے، اور اُسے دَم مارنے کی جرات نہ ہو؟ (الرّسالۃ الشّافیۃ،لعبدالقاہر الجرجانیؒ،المطبوعۃ فی ثلاث رسائل فی اعجاز القرآن، ص 109، دارالمعارف مصر)
اس بات کی کوئی تاویل اس کے سوا نہیں ہوسکتی کہ فصاحت و بلاغت کے سورما قرآن کریم کا مقابلہ کرنے سے عاجز آچکے تھے ۔ انھوں نے آنحضرت ﷺ کو زک پہنچانے کے لیے ظلم و ستم کا توکوئی طریقہ نہیں چھوڑا ، آپؐ کو ستایا، مجنوں کہا، جادوگر کہا، شاعر اور کاہن کہا،لیکن ان سے اتنا نہیں ہوسکا کہ قرآن کے مقابلے میں چند جملے پیش کردیتے۔پھر صرف یہی نہیں کہ یہ شعلہ بیان خطیب اور آتش نوا شاعر قرآن کریم کا مقابلہ نہیں کرسکے، بلکہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے اس کلام کی حیرت انگیز تاثیر کا نا چاہتے ہوئے بھی اعتراف کیا، امام حاکمؒ اور بیہقیؒ نے قرآن کریم کے بارے میں ولید بن مغیرہ کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: واللہ انّ لقولہ الذی یقول حَلاوۃً و ان علیہ لطلاوۃ … واَنّہ لیعلوا ومایُعلیٰ۔ ” خدا کی قسم ، جو یہ کلام بولتے ہیں اس میں بلا کی شیرینی اور رونق ہے، یہ کلام غالب ہی رہتا ہے، مغلوب نہیں ہوتا۔”( الخصائص الکبریٰ،للسیوطیؒ،ص 113 ج 1، والاتقان،ص 117 ج 2 )
یہ ولید بن مغیرہ ابو جہل کا بھتیجا تھا، ابوجہل کو جب یہ پتہ چلا کہ میرا بھتیجا اس کلام سے متاثر ہورہا ہے تو وہ اسے تنبیہ کرنے کے لیے اس کے پاس آیا، اُس پر ولید نے جواب دیا کہ خدا کی قسم تم میں کوئی شخص شعر کے حُسن و قبح کو مجھ سے زیادہ جاننے والا نہیں، خدا کی قسم ، محمدؐ جو کہتے ہیں شعر کو اس کے ساتھ کوئی مناسبت اور مشابہت نہیں ہے۔( اخرجہ الحاکمؒ و البیہقیؒ عن ابن عباسؓ (الخصائص الکبریٰ ص 13 ج 1))
اسی طرح عتبہ بن ربیعہ قریش کے سر برآور دہ لوگوں میں سے تھا، وہ آنحضرت ﷺ کے پاس مصالحت کی گفتگو کرنے آیا، آپؐ نے سورہ حٰم السجدہ کی ابتدائی آیات اس کے سامنے تلاوت فرمانا شروع کیں حم تَنزِیلٌ مِّنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ کِتَابٌ فُصِّلَتْ آیَاتُهُ قُرْآناً عَرَبِیّاً لِّقَوْمٍ یَعْلَمُونَ بَشِیراً وَنَذِیراً فَأَعْرَضَ أَکْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا یَسْمَعُونَ۔۔۔وہ ہمہ تن گوش سنتارہا، یہاں تک کہ آپؐ نے آیتِ سجدہ پر سجدہ کیا، تو وہ بدحواسی کے عالم میں اُٹھ کر سیدھا گھر چلا گیا، لوگ اس کے پاس گفتگو کا نتیجہ معلوم کرنے آئے تو اس نے کہا “خدا کی قسم! محمدؐ نے مجھ کو ایسا کلام سنایا کہ میرے کانوں نے تمام عمر ایسا کلام نہیں سُنا، میری سمجھ میں نہ آسکا کہ میں کیا جواب دوں؟”( اخرجہ البیہقیؒ و ابن اسحٰقؒ عن محمد بن کعبؒ (الخصائص الکبریٰ،ص115ج1) و ابو یعلیؒ عن جابرؓ (جمع الفوائد، ص 26 ج 2 )
ایک شبہ:
بعض غیر مسلم مصنفین یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کسی نے قرآن کریم کے مقابلے پر کوئی کلام پیش کیا ہو، لیکن ہم تک اس کا کلام نہ پہنچ سکا ہو، علامہ ابو سلیمان خطابیؒ (متوفی 388 ھ) اس خیال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ” یہ خیال بالکل غلط ہے ، اس لیے کہ ابتداء سے عام اور خاص لوگوں کی یہ عادت چلی آتی ہے کہ وہ اہم واقعات کو ضرور نقل کرکے آئندہ نسلوں کے لیے بیان کرجاتے ہیں، بالخصوص وہ واقعات جن کی طرف لوگوں کی نظریں لگی ہوئی ہوں، یہ معاملہ (قرآن کریم کا چیلنج) تو اس وقت چاردانگ عالم میں شہرت پاچکا تھا ، اگر اس کا کوئی مقابلہ کیا گیا ہوتا تو اس کا ہم تک نہ پہنچنا ممکن ہی نہ تھا، “( ثلاث رسائل فی اعجاز القرآن، ص 50 ، دارالمعارف مصر) قدیم مسلمان مورخین کی دیانت داری اور روایات جمع کرنے کے شوق کا حال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے نبی اور صحابہ کے متعلق باطل فرقوں کے لوگوں کی گھڑی ہوئی روایتوں کو بھی برابری کی بنیاد پر اپنی کتابوں میں جگہ دی ہوئی ہے، جنکو لے کر مستشرقین و ملحدین اعتراضات کا طوفان اٹھائے رکھتے ہیں۔ حقیقۃ اگر ایسی کوئی عبارت قرآن کی مثل تیار کی گئی ہوتی تو آج ہم تک ضرور پہنچتی۔ پھر یہودی اور عیسائی جو طعن و تشنیع کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے ، وہ ایسی کسی آیت کو کہاں چھوڑنے والے تھے؟ البتہ چند مسخروں نے قرآن کریم کے مقابلے میں کچھ مضحکہ خیز جملے بنائے تھے وہ تاریخ کے صفحات میں آج تک محفوظ ہیں۔ آج کوئی مسیلمہ کا کلمہ گو اور نام لیوا موجود نہیں ہے جو انکو دنیا کے سامنے پیش کرے لیکن اسلامی تاریخیں آجتک انکی حفاظت کی ذمہ داری اور دنیا کے سامنے پیش کرنے کی خدمت زمانوں سے ادا کرتی چلی آرہی ہیں ۔ ان جملوں کے مسخرے پن کا انداہ غیر عرب بھی کرسکتے ہیں ۔ مسیلمہ کے ” سورۃ الفیل” کے مقابلے میں جملے :
اَلْفِیُلَ وَمَاالْفِیْلُ، وَمَا أَدْرَاکَ مَا الْفِیْلُ، لَہُ ذَنَبٌ دَبِیْلٌ وَخُرْطُوْمٌ طَوِیْلٌ” ہاتھی! کیا ہے ہاتھی! اور کیا معلوم تجھے کہ ہاتھی کیا ہے۔اس کی ایک سخت دم ہے اور ایک لمبی سونڈ ہے۔
اسی طرح سیف وحشی” یا مسیلمہ کذّاب نے ان جملوں کو قرآن کے مقابلے میں اپنی وحی قرار دیا تھا کہ ” “یَا ضفّْدَعُ بِنْتُ ضَفْدَعَیْنِ ، نَقِّیْ مَا تُنَقِّیْنَ، نِصْفُکِ فِي الْمَائِ وَنِصْفُکِ فِي الطِّیْنِ، لاَ الْمَائَ تَکْدَرِیْنَ وَلاَ الشَّارِبَ تَمْنَعِیْنَ “اے مینڈک !بیٹی دو مینڈکوں کی! تو صاف ستھری ، کیا ہی تو صاف ستھری ہے۔ تیرا آدھا دھڑ پانی میں اور آدھا مٹی میں ہے۔ نہ تو پانی کو گدلا کرتی ہے اور نہ پینے والے کو روکتی ہے۔
(بیان اعجاز القرآن ، للخطابیؒ، المطبوع فی “ثلاث رسائل فی اعجاز القرآن، ص 50،51)
عرب اور شاعری:
عربوں کو من حیث القوم شاعری کا ذوق فطری طور ملا تھا ، یہ قوم بدوی زندگی گزارتی تھی۔ ان کی نسل ہر طرح کی آزادی کے ساتھ آغوشِ فطرت میں پروان چڑھتی تھی۔ حد نگاہ تک پھیلا ہوا صحرا، تیز اور جھلسا دینے والا سورج، سخت اور تند صحرائی آندھیاں ، چمکتا دمکتا چاند، ہنستے مسکراتے ستارے ، نشیلی صبحیں اور پر کیف شامیں ان کا سرمایہ فکر و نظر تھیں۔
چنانچہ عرب شاعر اپنے فطری ماحول میں ڈوب کر اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار شعر میں کرتے تھے, زبان دانی اورفصاحت وبلاغت کا عروج تھا ۔ لوگ اس میں کمال پیدا کرکے ایک دوسرے کو مقابلے کا چیلنج دیتے تھے ۔ یہ چیزیں سرمایہ فخرومباہات شمار کی جاتی تھیں چنانچہ اس سلسلے میں سات مشہور قصیدے خانہ کعبہ میں لٹکائے گئے کہ ان جیسا کوئی کلام موجود نہیں ، کسی میں ہمت ہےہو تو ان کے مقابلے کے قصیدے لا کریہاں آویزاں کردے ۔ انہی قصیدوں کو ‘ المعلقات السبعہ ‘ کہا جاتا ہے۔ انکا کچھ حصہ آج بھی موجود ہے اور دینی مدارس میں پڑھایا جاتا ہے۔
غور کریے اس دور میں ایک امّی جس نے کبھی کوئی کتاب چھوئی ہو نہ قلم ہاتھ میں پکڑ ا ہو بلکہ باوجود اعلیٰ درجہ کے قریشی ہونے کے چالیس برس تک ایک شعر بھی زبان سے نہ کہا ہو ، جس میں عرب کی چھوکریاں تک فطری سلیقہ اور ملکہ رکھتی تھیں۔۔ کیسےگمان کیا جا سکتا ہے کہ وہ بغیر تعلیم و تعلم کے دفعۃً ایسی کتاب بنا لائے کہ ان قصیدوں کے وارثین خود ان قصیدوں کو اتارنے پر مجبور ہوجائیں ، پھر اس قدر عجیب و غریب معلومات ، مؤثر ہدایات اور کایا پلٹ دینے والے قوانین و احکام پر مشتمل ہو ۔ ناگزیر کہنا پڑے گا کہ کوئی دوسرا شخص اسے یہ باتیں سکھلاتا اور ایسا کلام بناکر دے دیتا ہے۔ وہ شخص کون تھا جس کی بے اندازہ قابلیت سے قرآن جیسی کتاب تیار ہوئی۔ حیر ، یسار ، عائش ، یعیش ۔ کئی عجمی غلاموں کے نام لئے گئے ہیں جن میں کوئی یہودی تھا کوئی نصرانی۔ بلکہ بعض کی نسبت کہا گیا ہے کہ وہ نصرانیت کو چھوڑ کر مذہب اسلام قبول کر چکے تھے۔ کہتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم گاہ بگاہ آتے جاتے ان میں سے کسی ایک کے پاس بیٹھتے تھے یا وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کبھی حاضر ہوا کرتا تھا۔ تعجب ہے ، اتنے بڑے قابل انسانوں کا تو نام بھی تاریخ نے تیقن و تعین کے ساتھ یاد نہ رکھا۔ اور جو ان سے سیکھ کر محض نقل کر دیا کرتا تھا ، دنیا اس کےقدموں میں گر پڑی، حتٰی کہ جنہوں نے اسکو نبی نہ مانا ، انہیں بھی اسے دنیا کا سب سے بڑا مصلح اور کامل انسان تسلیم کرنا پڑا۔
اس سفیہانہ اعتراض سے یہ ضرور ثابت ہو گیا کہ دعوئے بعثت سے پہلے آپﷺ کا امّی ہونا ان کےنزدیک ایسا مسلم تھا کہ قرآنی علوم و معارف کو آپ کی امیّت مسلمہ سے تطبیق نہ دے سکتے تھے ۔ اسی لئے کہنا پڑتا تھا کہ کوئی دوسرا شخص آپ کو یہ باتیں سکھلا جاتا ہے۔ بلاشبہ آپ سکھلائے ہوئے تھے ، لیکن سکھلانے والا کوئی بشر نہ تھا ، وہ رب رحمان تھا : اَلرَّحمٰنُ ۔ عَلَّمَ القُراٰنَ ( سورت الرحمٰن۔۱،۲)۔
اگر قرآن کے علوم خارقہ اور دوسری وجوہ اعجاز کو اپنی غباوت کی وجہ سے تم نہیں سمجھ سکتے تو اس کی زبان کی معجزانہ فصاحت و بلاغت کا ادراک تو کر سکتے ہو۔ جس کے متعلق باربار چیلنج دیا جا چکا اور اعلان کیا جا چکا ہے کہ تمام جن و انس مل کر بھی اس کلام کا مثل پیش نہ کر سکیں گے۔ ۔!پھر جس کا مثل لانے سے عرب کے تمام فصحاء بلغاء بلا استثناء عاجز و درماندہ ہوں ایک گمنام عجمی بازاری غلام سے کیونکر امید کی جاسکتی ہے کہ ایسا کلام معجز تیار کر کے پیش کر دے؟اگر تمام عرب میں کوئی شخص بالفرض ایسا کلام بنا سکتا تو وہ خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے۔ مگر قرآن کے سوا آپ کے دوسرے کلام کا ذخیرہ قرآن کے بیان کردہ موضوعات پر موجود ہے ، جسے حدیث کہتے ہیں ، جو باوجود انتہائی فصاحت کے کسی ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت قرآنی کی ہمسری نہیں کر سکتا۔
تاریخ میں بعد میں بھی بہت سے لوگوں نے طبع آزمائی کی ۔ عربی کے مشہور ادیب اور انشاء پرداز عبداللہ بن المقفع مترجم کلہلہ وومنہ(متوفی 143 ھ) نے قرآن ِ کریم کا جواب لکھنے کا ارادہ کیا، عرصہ ایک عبارت کو لکھتے/بدلتے رہے ۔ ایک دفعہ کہیں سے گزرتے ہوئے کسی بچے کو یہ آیت پڑھتے سنا کہ
وَقِیْلَ یَا أَرْضُ ابْلَعِیْ مَاء کِ وَیَا سَمَاء أَقْلِعِیْ۔۔۔”اور کہا گیا اے زمیں!اپنا پانی نگل جااور اے آسمان رک جا۔۔۔”( سورئہ ہود:٤٤)
تو پکار اُٹھے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کلام کا معارضہ ناممکن ہے، اور یہ ہرگز انسانی کلام نہیں۔”( اعجاز القرآن ، للباقلانیؒ، ص50 ج1 ، ھامش الاتقان)
اس قسم کے بہت سے واقعات تاریخ میں محفوظ ہیں، جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور کے عرب کے صف اول کے فصیح و بلیغ ادباء و شعراء ہ قرآن کریم کا معارضہ نہیں کرسکے ۔ آج بھی ہزاروں ادیب موجود ہیں جو دنیا میں فصاحت و بلاغت کے حوالے سے اپنی ایک شہرت رکھتے ہیں، عرب میں غیر مسلموں عیسائیوں کی بھی ایک بڑی تعداد شروع سے آباد ہے، لیکن آج تک کوئی قرآن کی کسی آیت کے مقابل کوئی برابر کی آیت پیش کرنے کی جرات نہیں کرسکا۔
کچھ ملحدین و متعصبین مسیلمہ کذاب کی طرح کے کچھ جملے جوڑ کے عربی زبان سے لاعلم اہل عجم کو دھوکے دینے کے لیے پیش کرتے رہتے ہیں، ان سے وہ اپنا دل ہی بہلا سکتے ہیں، علمی دنیا میں ایسے مسخروں کا کچھ کام نہیں ۔ انکے علاوہ کچھ مشنریز نے قرآنی آیات میں سے کچھ الفاظ بدل کے عبارتیں بنانے کی کوشش کی ۔ لیکن انکو کبھی کسی مسلم یا غیر مسلم ادبی لٹریچر میں جگہ نہیں دی گئی ، کسی محقق، مستشرق نے بھی کبھی انکو قرآن کے اس چیلنج کے جواب میں پیش کرنے کی جرات نہیں کی کیونکہ قرآن کے معیار کی ہونا تو بعد کی بات وہ قرآن ہی کا سرقہ ہیں ۔ ۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کو سمجھنے کے لیے اک واقعہ ملاحظہ کیجیے
مصری عالم علامہ طنطاوی لکھتے ہیں کہ وہ ایک مجلس میں اپنے جرمن مستشرق دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے ۔مستشرقین نےان سے پوچھا :کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن جیسی فصیح وبلیغ عربی میں کبھی کسی نے گفتگو کی ہے نہ کوئی ایسی زبان لکھ سکا ہے ۔علامہ طنطاوی نے کہا :”ہاں میرا ایمان ہے کہ قرآن جیسی فصیح و بلیغ عربی میں کسی نے کبھی گفتگو کی ہے نہ ایسی زبان لکھی ہے”۔انھوں نے مثال مانگی تو علامہ نے ایک جملہ دیا کہ اس کا عربی میں ترجمہ کریں:
”جہنم بہت وسیع ہے ”
جرمن مستشرقین سب عربی کے فاضل تھے ،انہوں نے بہت زور مارا۔جہنم واسعة ،جہنم وسیعة جیسے جملے بنائے مگر بات نہ بنی اورعاجز آگئے تو علامہ طنطاوی نے کہا : ”لو اب سنو قرآن کیا کہتاہے”:
(( یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَھَنَّمَ ھَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُوْلُ ھَلْ مِنْ مَّزیْدٍ))
” جس دن ہم دوزخ سے کہیں گے : کیا تو بھر گئی ؟ اوروہ کہے گی :کیا کچھ اور بھی ہے ؟”
اس پر جرمن مستشرقین اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوے اور قرآن کے اعجاز بیان پر مارے حیرت کے اپنی چھاتیاں پیٹنے لگے۔
(اسلام کی سچائی اور سائنس کے اعترافات۔ ص 138-141)
قرآنِ کریم کا بلیغانہ وفصیحانہ اسلوب ایسا اعجاز سدا بہار ہے جس میں کوئی آسمانی کتاب تک شریک و سہیم نہیں، بیانی اعجاز کی یہ جہت اتنی نمایاں ہے کہ جو بھی سنے خواہ وہ عربی زبان و بیان میں پہچان رکھتا ہو یا عربی کی الف با سے بھی واقف نہ ہو لیکن اس کا جذب اندرون پکار اٹھتا ہے۔ واللّٰہ انہ یقولہ الذي یقول حلاوة وان علیہ لطلاوة․․․ وانہ لیعلو وما یعلی خدا کی قسم جو یہ کلام بولتے ہیں اس میں بلا کی شیرینی اور رونق ہے، اوریہ کلام غالب ہی رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا ہے۔(الخصائص الکبری: ۱/۱۱۳) لیکن جو شخص نے یہ ہی دل میں ٹھان لے کہ یقین نہیں کروں گا ، اسکو ہدایت بھی نہیں ملتی ۔ جتنا سمجھائیے کبھی نہ سمجھے گا۔