تلخیص و تعارف:
اِس مقالہ میں یہ دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ موجودات ِدنیا کے بارے میں ایک شخص کا مابعدالطبیعاتی موقف (Ontological position) ، اس حوالے سے کہ اس بارے میں اس کا فلسفہ کیا ہے ، دنیا میں فی الحقیقت کیا چیز وجود رکھتی ہے،پھر اس کی بنیاد پر اختیار کیا جانے والا اس کا علمی رویہ (Epistemological practice)تحقیقی کام کے لیے اس کے خاکے، رویے اور تحقیق کے نتائج میں کیا اساسی کردار ادا کرتا ہے۔ ؟
موجوداتِ دنیا کی حقیقت جاننے کے لیے انسانی کوششوں کی تاریخ میں مختلف نظری، فلسفے اور مفروضے سامنے آتے رہے ہیں۔ علم اصل الوجود (Ontology) اور نظریۂ علمی (Epistemology) پر دورِ جدید میں جاری بحث و گفتگو کی جڑیں نشأۃ ثانیہ(Renaissance)، اصلاحات (Reformation) اور روشن خیالی (Enlightenment) کے ادوار کے مخصوص سماجی-سیاسی، ثقافتی اور تہذیبی ماحول میں پائی جاتی ہیں،جو چرچ اور سائنس کے باہمی تنازع کا نشان امتیاز تھے۔اس وقت سے،’حقیقت ‘ کی اصلیت اور اس حقیقت کی تحقیق کے معتبر طریقوں سے متعلق فلسفے، دور حاضر کے دانشورانہ ذہن کی صورت گری میں بہت مؤثر رہے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ یہ فلسفے اپنی کوتاہیوں اور فکری مغا لطوں کی بناء پر تنقید کا نشانہ بنتے رہے ہیں ۔ اس تنقید سے اس طرح کے سوالات کی راہ ہموار ہوئی کہ ’’کیا تحقیق اور سائنس کے میدان میں کوئی متبادل نظریاتی اساس بھی کہیں موجود ہے؟‘‘ مسلمان اہل علم و دانش اور سائنسدان دعویٰ کرتے ہیں کہ تحقیق کے اسلامی نظریوں کے وِرثے کا بھاری ذخیرہ اُن کے پاس ہے جس نے صدیوں مسلم دنیا میں علم اور سائنس کی رہنمائی کی ہے۔ اس سیاق میں اس مقالے میں جن سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، وہ یہ ہیں: کیا مغربی فلسفوں کا وجودیاتی فریم ورک اتنا جامع اور ہمہ گیر ہے کہ اس سماجی پیچیدگی کا احاطہ کرسکے جس کا مشاہدہ ایک تحقیق کار اپنی تحقیق کے دوران کرتا ہے ؟کیا تحقیق کے اسلامی فلسفے، مغربی فلسفوں کا متبادل فراہم کرنے کے لائق ہیں؟کیا عصرحاضر کے تناظر میں متبادل اسلامی زاویہ نگاہ پر مبنی اطلاقی تحقیق کے نظریات کا پروان چڑھایا جانا ممکن ہے؟
نظریۂ حقیقت(Theory of reality) سے متعلق وجودیاتی(Ontological) سوالات تحقیق کے کام میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ اس سوال کا جواب کہ موجودات دنیا کی حقیقت کیا ہے،مختلف فلسفوں کو جنم دیتا ہے جو ایک شخص کے عالمی زاویہ نگاہ پر اثر انداز ہوتے اور نتیجتاً مطالعہ کے دائرے کو صرف ان چیزوں تک محدود کرتے ہیں جن کے بارے میں وہ سمجھتا ہے کہ عملاًوہی وجود رکھتی ہیں، اور یہی چیز اس کے علمی موقف کا تعین کرتی ہے۔مثال کے طور پر وجودیاتی سوال سے تعلق رکھنے والے دو مخالف فلسفوں یعنی ایک ماورائے طبیعات یا مذہبی اوردوسرے حقیقت کے تجربی مفہوم کو لیجیے۔ ان میں سے پہلے کی رو سے دنیا کی وضاحت صرف خداکی منشاء اور منصوبے کے نتیجے کی حیثیت سے کی جاسکتی ہے۔جبکہ دوسرا فلسفہ یہ ہے کہ فی الحقیقت صرف وہی چیزیں وجود رکھتی ہیں جو براہ راست قابل مشاہدہ ہوں۔ تجربی فلسفیانہ فریم ورک (Empiricist philosophical framework) نے جدید دانشورانہ ذہن کو نمایاں طور پر متاثر کیا۔ خاص طور پر نشاۃ ثانیہ، اصلاحات اور روشن خیالی کے ادوار میں۔اس کے نتیجے میں چرچ اور اہل سائنس کے وجودیاتی مواقف کے مابین تنازع ابھرا،اور بالآخر سائنس کی دنیا نے اس فلسفے کو اپنا لیا کہ انسانی برہان ودانش اورناقدانہ طرز فکر، دنیا کی سماجی اور طبیعاتی حقیقت کو سمجھنے کے تنہا قابل اعتماد ذرائع ہیں۔ یہ جدید مغربی فلسفے ایک مخصوص سماجی- سیاسی،ثقافتی اور تہذیبی ماحول میں پروان چڑھے لیکن بعد میں انہیں ہر ثقافتی اور تہذیبی پس منظر کے حامل تحقیق کاروں کی جانب سے اپنا لیا گیا۔
اس پس منظر میں اس مقالے میں جس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کیا مغربی فلسفوں کا وجودیاتی فریم ورک اتنا جامع ہے کہ فطری و آفاقی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہرجگہ قابل اطلاق ہو ، اور اس سماجی پیچیدگی کا احاطہ کرسکے جس کا مشاہدہ تحقیق کار اپنی تحقیق کے دوران کرتے ہیں۔یہ گفتگو نظریہ سازی ( تھیورائزیشن) کے مغربی ماڈل کے بنیادی موضوعات اور ان کے نتائج کو سامنے لانے کی ایک کوشش ہے۔نیز یہ کہ تحقیق کے اسلامی اسلوب کی اساسیات بھی، علم کے تمام شعبوں میں مستحکم وجودیاتی موقف اور علمی رویوں کو فروغ دینے کی جامع حکمتِ عملی تجویز کرتی ہے۔
گم شدہ اسلوب:
ہر تہذیب خواہ وہ ہندی یا رومی ہو، چینی ویونانی ہو یا اسلامی․․․․ اس نے اس دنیا اور اس کے بعد کی زندگی، اس خاکے میں انسان کی حیثیت، ریاستوں اور عوام کے درمیان معاملات، وسائل کی ترقی، مختلف شعبوں کی نشوونما میں مدد، اور ان معاملات کے لیے قوانین اور رہنمائی کے بارے میں غور وفکر کیا ہے۔جدید فلسفیانہ فریم ورک کے سیاق میں اس حوالے سے یونانی فکر کا حصہ بہت زیادہ رہاہے، خصوصاًقانون اور نظم و نسق، ترقی علم ، طرز ہائے فکر اور سائنس کے میدانوں میں۔حتیٰ کہ طبیعیات اور مابعدالطبیعیات کی اصطلاحات ارسطو کی کتاب کے تسلسل سے آئی ہیں،جہاں وہ اس بات پر بحث کرتا ہے کہ طبیعیات کیا ہے اور طبیعیات سے بالاتر، ماورائے طبیعیات کیا ہے۔ تاہم یونانی فکرکا محور معقولیت، دلیل، دانش اور منطق رہے، تجربے کے اصول کو تسلیم کرنے اور عملی تجربے کو اختیار کرنے کا راستہ اس نے نہیں اپنایا۔مثال کے طور پر ارسطو اپنی اس رائے کے حق میں دلائل دیتا ہے کہ ایک بھاری چیز ہلکی چیز سے زیادہ تیزی سے زمین پر گرتی ہے۔یہ بات منطق کی رو سے تو درست معلوم ہوتی ہے مگر حقیقتاً غلط ہے جس کا پتہ تجربے سے چلتا ہے۔
قرون وسطیٰ اور عہد متوسط کے دوران یورپ کا رابطہ مشرق کی عظیم علمی و ثقافتی روایات سے ہوا جس نے یورپ کے دانشورانہ ذہن کو متاثر کیا۔ جدید مغربی نظریہ سازی (تھیورائزیشن )کے ارتقاء میں حقیقی معنوں میں انقلابی پیش رفت،۱۴۵۳ء میں بازنطینی سلطنت کی ترکی کے ہاتھوں فتح کے پس منظر میں یونانی فکر کے پھیلاؤ کی شکل میں ہوئی۔اس فتح کے نتیجے میں یونانی مہاجر اور تارکین وطن بڑے پیمانے پر یورپ آئے اور اپنے ساتھ یونانی علوم کا خزانہ لائے۔ انہوں نے تین بڑی دانشورانہ اور ثقافتی تحریکوں نشاۃ ثانیہ، اصلاحات اور روشن خیالی کو ابھارا۔ نشاۃ ثانیہ مغرب کے طرز فکر میں خدا اور’’ دوسری دنیا‘‘ سے ’’اِس دنیا‘‘ اور انسان کی طرف منتقلی کی صورت میں ایک بڑی تبدیلی کی نمائندگی کرتی ہے۔ تحریک اصلاح ،مذہب یا چرچ کے چیلنج کا جواب تھی ۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے اس نے مذہب کی قلمرو کی اصلاح کر کے اسے بدلتے ہوئے حقائق کے ساتھ مربوط بنانے پر زور دیا۔ جبکہ روشن خیالی کی تحریک وہ اصل عامل ہے جس نے مغرب کے اسلوب ِ تحقیق میں واضح اصطلاحات میں وجودیاتی اور علمی موقفوں کی صورت گری کی۔
ان تین تحریکوں کے نتیجے میں یہ پرزور داعیہ ابھرا کہ مستقبل کی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک مذہبی جنگوں، عدم برداشت، غیر حقیقت پسندانہ رویوں، نیزانسان ، اِس دنیا اور اِس کے مسائل کو نظر انداز کرنے کے رجحانات سے چھٹکارا حاصل نہ کرلیا جائے۔ اس کے لیے ماضی اور مذہب سے رشتہ توڑنا لازمی قرار پایا۔ تیس سال (۱۶۱۸ء- ۱۶۴۸ء) تک جاری رہنے والی مذہبی جنگوں نے یورپ میں اس سوچ کو تقویت دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس راستے کا ایک نمایاں سنگ میل۱۶۴۸ء کے معاہدے ہیں جوعموماً پیس آف ویسٹ فیلیا (Peace of Westphalia)کے نام سے جانے جاتے ہیں،نیز اٹھارہویں صدی اور انیسویں صدی کے بیشتر حصے کی سوچ ، فکر کے تقریباً تمام شعبوں میں نئی روش کی نمائندگی کرتی ہے، جس کے تحت دعویٰ کیا گیا کہ خدا، مذہب، اور خدائی ہدایت یا تو غیر متعلق ہوگئے ہیں،یا غیر ضروری ہیں کیونکہ عقل، تجربے، مشاہدے اور تاریخ وغیرہ نے انسان کو اتنا خود کفیل بنادیا ہے کہ وہ اپنے طور پر حقیقت کو سمجھ سکتا ہے اور دنیا کو ازسرنو تخلیق کرسکتا ہے۔بلاشبہ اس کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے میدانوں مثلا تجارتی انقلاب، صنعتی انقلاب، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی،استعماری مہم جوئیوں،اور انہیں معیشت اور سیاست کی ترقی کے لیے استعمال کیے جانے کی صورت میں بھی پیش رفت جاری تھی اور یہ عوامل ایک دوسرے پر اثر انداز ہورہے تھے۔ ارتقاء کا یہ عمل ایک نئے ماڈل کی صورت گری پر منتج ہوا جوزندگی کے بارے میں سیکولرنقطۂ نظر پر مبنی تھا۔
سیکولرازم ایک طرح سے بڑی رحمت تھا کیونکہ اس نے ان معاملات کو نمایاں کیا جو یورپ کے مذہبی تجربے کے سیاق میں نظر انداز کردیے گئے تھے یابدنام ہوچکے تھے۔لہٰذا انسانی جسم، معاشرے، عالم طبیعی، وسائل کی دریافت اور ارتقاء، دولت کی پیدائش کی جدوجہد،توانائی، افادیت، اور اگر قسمت ساتھ دے تو مسرت، تونگری اور خوش حالی کی جانب انسانی کاوشوں کی منتقلی ایک لحاظ سے ضروری تھی۔تاہم یہ تبدیلی یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے ایک اور رخ اختیار کرلیا۔ یہ مذہب سے انکار یا کم ازکم اسے غیر متعلق قرار دینا تھا یعنی یہ کہ یا تو خدا کا کوئی وجودہے ہی نہیں یا اگر کوئی خدا ہے بھی تو وہ اپنا کردار ادا کرچکا ہے،اور اب ہر چیز خود اپنی بنیاد پر چل رہی ہے یا چلے گی کیونکہ انسان اتنا عقل مند ہوگیا ہے کہ’ حقیقت ‘کو تلاش کرسکے۔ ماوراء سے تعلق یا اس کی ضرورت سے انکاروہ اہم ترین جہت ہے جس نے ایک reductionist اسلوب کی بنیاد رکھی اور جدید فلسفیانہ فکر کوسماجی علوم کے ایک شعبے (discipline)کی حیثیت سے غیرمتوازن کردیا۔ یوں سیکولر نظریے کے تحت جو تبدیلی واقع ہوئی اس میں خدا اور انسان کے درمیان خالق و مخلوق کے رشتے ،اور دنیا کے بعد آخرت کی زندگی کے عقیدے کی جگہ انسان کی رہنمائی کے لیے انسانی دانش کے کافی ہونے کے تصوراور دلیل و تجربے کو اپنانے کی بناء پر الٰہی ہدایت کے غیرضروری ہوجانے کے گمان نے لے لی۔ یہ وہ چیز ہے جس نے انسانی زندگی کا پورا نقشہ بدل کررکھ دیا۔
سیکولر ماڈل :
تجربے پر مبنی تحقیق کے اس سیکولر ماڈل کے وجود میں آنے کے ساتھ ساتھ عالم طبیعی سے تخاطب اور اس کی تفہیم، قوانین فطرت اور ان کے روبعمل آنے کے طریقوں کی دریافت کے لیے سائنس کی طاقت کا استعمال شروع ہوا۔نئی سائنسی دریافتوں کی روشنی میں، سائنس کا اطلاق ٹیکنالوجی کی صورت اختیار کرتا ہے۔چنانچہ مشاہدے اور تجربے کے طریق کار پر مبنی طبیعی علوم(نیچرل سائنسز) اس دور میں انسانی کوششوں کا اصل محور بن گئے، اس نے یقینی طور پر انسان کی طاقت اور وسائل میں اضافہ کیا،جن سے استفادہ کے سبب انسانی معاشرے نئی کامیابیوں کے لائق بنے۔ لیکن اس کے نتیجے میں سائنس کا وہ شعبہ بھی جو انسانوں، افراد، اداروں، معاشرے ،سماجی عمل اور انسانی رشتوں سے متعلق ہے، اٹھارہویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے دانشورانہ ماحول اور ثقافتی سیاق کے سبب جس میں یہ ساری پیش رفت ہوئی تھی، نیچرل سائنس کا ماتحت بن گیا۔ لہٰذاعمرانیات، معاشیات، سیاسیات، بشریات وغیرہ کے میدانوں میں نیچرل سائنس کے طریقوں کو ،معروضی، بالاتر، معقول اور قابل تصدیق باور کرتے ہوئے، متعارف کرانے کی کوشش کی گئی۔
طبیعی علوم (نیچرل سائنس) کے طریقوں کوعمرانی علوم (سوشل سائنس) پر منطبق کرنے کا جو نتیجہ نکلنا تھا وہ پہلے ہی واضح تھا۔ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ انسان روبوٹ نہیں ہیں، انہیں فیصلے اور انتخاب کی اہلیت اور آزادی عطا کی گئی ہے اور مختلف انسان ایک ہی محرک کے جواب میں مختلف ردعمل ظاہر کرسکتے ہیں، ایسا کرنا ایک غیرضروری عمل پر زور دینے کے مترادف تھا۔مثلاًایک بچے اور گیند کو دیکھئے۔اگر گیند ایک خاص طاقت سے پھینکی جائے تو وہ ایک مخصوص فاصلے تک جائے گی اور جب رفتار کا تحرک صفر ہوجائے گا تو رک جائے گی۔جبکہ ایک بچے کو فاصلے اور رفتارکے حساب کتاب کے لیے اتنی ہی طاقت کے ساتھ پھینکنا بالکل غیرانسانی عمل ہوگا۔بہرصورت جدید سماجی سائنس’’کیا ہے؟‘‘پر توجہ مرکوز کرتی ہے، یعنی انسان کیا کرتے ہیں اور ان کا ردعمل کیا ہوتا ہے، جیسے امور پر زیادہ زور دیتی ہے۔ یہ اس انتہا تک نہیں جاتی کہ اس سوال کا جواب تلاش کرے کہ کیا تحقیق کے’انسانی معمول‘ (Human object)کا ردعمل بامقصد یا درست سمت میں ہوتا ہے یا نہیں۔ ظاہری حقیقت پر یہ غیر ضروری اصرار تحقیق کار کو انسانوں میں پوشیدہ صلاحیتوں کو دریافت کرنے کے لیے متحرک کرتا ہے نہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور نہ ایسا کرنے کے قابل بناتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان کے اندر نیکی اور بدی میں امتیاز کی صلاحیت ودیعت کردی گئی ہے۔لہٰذا کسی ترغیب پر انسان کی جانب سے اختیار کیے گئے اچھے یا برے رویے کی وجہ سے وہ نیک یا بد قرار پاتا ہے۔انسانی طرزعمل کو سمجھنے کے اس طریقے کا اپنایا جانا اسی صورت میں ممکن ہے جب ایک شخص کو تجربی یا ایجابی اسلوب تک محدود نہ کیا جائے۔بدقسمتی سے نیچرل سائنس کے طریقے سماجی علوم پر منطبق کرنے کی یہ محدودیت پسند( reductionist )روش بڑے غلط نتائج تک پہنچانے کا سبب بنی۔
اس ماڈل کی ایک اور خامی اس حقیقت سے ابھرتی ہے کہ سماجی علوم میں قوانین ، اصولوں اور نظریوں کی تعمیم(Generalization)، طبیعی علوم کے اصولوں اور طریقوں کے مطابق کی جارہی ہے اور مشاہدے اور تحقیق کا پورا عمل اس مبصر کے ذہن میں وقوع پذیر ہورہا ہے جو ایک مخصوص ثقافت، معاشرے اور نظام اقدار میں کام کرتا ہے۔ایک شخص معلومات اور حقائق کو جمع کرنے کی حد تک تو معروضی رویے کا حامل ہوسکتا ہے، لیکن جب وہ ایک بار اس کی نظام سازی (systemization) کے عمل کا آغازکرتا ہے تو انسانی اقدار، ثقافتی سیاق اور پورا تہذیبی ڈھانچہ اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیتا ہے۔ اگر اخلاقیات کے سوال سے بحث نہ کی جائے تو ان معلومات کی صورت گری لازما ً مختلف ہوگی کیونکہ اگر یکساں معلومات کی نظام سازی، ضابطہ بندی اور ترتیب مختلف نظام اقدار میں کی جائے تو نتیجہ لامحالہ مختلف ہوگا۔
مختصراًیہی وجہ ہے کہ موجودات کے بارے میں مذہبی نقطہ نظر رکھنے والا سائنسدان جمع کی گئی اطلاعات کو منشائے خداوندی کے جزو کے طور پر دیکھتا ہے ، زیرمشاہدہ شے کی تخلیق کے مقصدکا پتہ لگانے اور یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ اسے بہتر سے بہتر طور پر کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ سیکولر زاویہ نگاہ اور نظام اقدار جو کہ اخلاقی سیاق سے مبرا ہے، اس کے تحت کام کرنے والا یہ جہت اختیار نہیں کرتا۔
سوشل سائنس میں خاص طور پر ایک اور بنیادی مسئلہ اقدار کے حوالے سے نام نہاد غیرجانبداری کا ہے۔اقدار کے معاملے میں غیرجانبدار ی ناممکن ہے، خواہ اقدار معروف اور واضح ہوں یا مبہم، مخفی یا مضمر ہوں۔مغربی سماجی سائنس میں غیرجانبداری کے اس پردے کا اہتمام شاید سماجی علوم کو ان کی اخلاقی اور ثقافتی بنیادوں سے کاٹ دینے کے لیے کیا گیا ہے۔ اگرچہ طبیعی علوم میں بھی اقدار کا ایک عنصرپایا جاتا ہے،پھر بھی اقدار میں غیرجانبداری کے امکانات اس صورت میں نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں جب عملِ مشاہدہ کے عامل اور معمول ایک دوسرے سے مختلف نوعیت کے ہوں۔ بہرکیف سماجی علوم میں مشاہد(Observer)اور زیر مشاہدہ (Observed)دونوں ایک ہی نوعیت کے ہونے کی وجہ سے باہم خلط ملط ہوجاتے ہیں کیونکہ مشاہد جب یہ دیکھتا ہے کہ بیرونی چیز کیا ہے تو وہ اپنے آپ کو بھی باہر سے دیکھتا ہے۔ لہٰذا ایک دوسرے سے مکمل لاتعلقی ناممکن ہے۔چنانچہ تحقیق کار کے لیے زیادہ سائنٹفک اور دیانت دارانہ طریقہ اپنی اقدار کو مضمر یا مخفی رکھنے کے بجائے اپنے نظام اقدار کی موجودگی کا اعتراف کرلینا ہے۔اس وجہ سے یہ سمجھنا درست نہیں کہ یورپ کا منفرد تجربہ، جو ایک مخصوص ثقافتی،دانشورانہ اور اخلاقی سیاق میں پروان چڑھا ہے، فطری، آفاقی اور ہر جگہ قابل اطلاق ہے۔ آج جدید تحقیق کے عمل اور عمومی طور پر پوری زندگی میں سماجی علوم کے شعبے جن خامیوں اور نقائص سے دوچار ہیں، وہ اسی مفروضے کا نتیجہ ہے۔
اس لیے سماجی علوم میں جدید تحقیق کا بحران، مسئلے کی صورت گری، دعوے کی تشکیل، پیمائش کے معیارات، طریقوں اور عمل، معلومات کا جمع کرنا اور تجزیہ کرنا،استنباط و استدلال، اخذ ِ نتائج،تعمیم اور نظریات وغیرہ سے متعلق نہیں ہے۔ اصل مسئلہ دانشورانہ، اخلاقی اور ثقافتی حوالوں سے محقق اور مبصر دونوں کے، بحیثیت افراد اور بحیثیت تحقیق کاروں اور دانشوروں کی پوری ٹیم کے نظام اقدار میں مضمر ہے۔کیونکہ اقدار کے معاملے میں مزعومہ غیرجانبداری کی وجہ سے ، ذمہ داری، جوابدہی اور افادیت جو اقدار کے ساتھ آتی ہے، اسے یا تو نظر اندازکردیا گیا ہے یا اس پر خط تنسیخ پھیر دیا گیا ہے۔
اگر ایک شخص ان معاشی نا انصافیوں کی تحقیق کرتا ہے جن سے آج انسانیت دوچار ہے تو اس کے بنیادی اسباب جدید معاشی مفکرین کے فلسفیانہ فریم ورک میں تلاش کیے جاسکتے ہیں،جو معاشیات کو محض طلب اور فراہمی ٔ رسد کے قانون، ذاتی مفاد کے واحد قوت محرکہ ہونے،اور مناسب ترین وسائل کا بہترین تقسیم کنندہ منڈی کے ہونے کی اصطلاحات میں دیکھتے ہیں۔عالمی معیشت کی موجودہ حالت اس حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے کہ ان مفکروں کی جانب سے جن قوانین کے فطری اور آفاقی ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھاوہ آخری حد تک غیر فطری تھے۔
اسی طرح سوشل سائنس کے جدید رویوں میں پائے جانے والے مسائل، ’’مقدار‘‘ (Quantity) پر ضرورت سے زیادہ زور دینے سے پیدا ہوتے ہیں۔ جہاں ’’معیار‘‘ (Quality) کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ یقینا مقدار اہم اور لازمی ہے لیکن سارا زوراسی پردینے کا نتیجہ یہ ہے کہ سماجی علوم میں ساری ترقی ان جہتوں میں ہورہی ہے جو مقدار سے متعلق ہیں جبکہ معیاریا تو صرفِ نظر کا شکار ہیں یا توجہ کی کمی کا۔مقداری طریقوں اور ریاضی کا استعمال اگرچہ معاون ہے لیکن عمرانی علوم میں ان کا ضرورت سے زیادہ استعمال اور یہ سمجھنا کہ صرف قابل شمار اور قابل پیمائش چیزیں ہی حقیقی سائنٹفک دائرے سے متعلق ہیں،عمرانی علوم کی پورے کام خصوصاً پالیسی سازی میں ایک بڑی غلط روی کی نمائندگی کرتا ہے۔مختصراً یہ وہ سبب ہے جس کی بناء پر اس حقیقت کا احساس بڑھ رہا ہے کہ ریاضی کے آلات کے ذریعے تحقیق میں سوشل سائنس ان جہتوں کونظر انداز کرنے کی طرف مائل ہوجاتی ہے جنہیں قابل شمار اور قابل پیمائش جہتوں سے کہیں زیادہ اہمیت دی جانی چاہیے۔
تخصص کے نام پرسوشل سائنس کے مختلف شعبوں کا غیرضروری طور پر الگ الگ رکھا جانا، مغربی ماڈل کا ایک اور تباہ کن پہلو ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسانی وجود کلی حیثیت کا حامل ہے اور علم، دانش یا معرفت ایک متحد شے کا نام ہے۔علم و دانش کی مختلف شاخوں کا مقصد باہمی استفادہ اور ایک دوسرے کو مستحکم کرنا ہے۔اسے زرخیزی کا عمل( فرٹیلائزیشن) کہا جاتا ہے۔لیکن جدید دانش کو، اس کے بجائے سائنسی علوم کی ایک لمبی قطار کا سامنا ہے جن میں سے ہر ایک الگ تھلگ ہے اور صرف ایک ہی موضوع اس کی تمام تر توجہ کا مرکز ہے۔اس طرز فکر کی رو سے پورے انسان کو ایک چھوٹے سے ٹکڑے کے سیاق میں سمجھنا ممکن ہے ۔ لیکن جب ایک شخص معاشیات، عمرانیات، نفسیات یا کسی اور میدان پر نگاہ ڈالتا ہے، تو وہ اس حقیقت سے آگاہ ہوتا ہے کہ دانش کی تقسیم کی بناء پر ایک دوسرے سے الگ تھلگ رکھے گئے یہ سماجی علوم دراصل ایک ہی کل کا حصہ ہیں۔ تخصص اگرچہ اچھی چیز ہے لیکن انسان کی حقیقت کی زیادہ گہری معرفت کی قیمت پر اس کا اطلاق برعکس نتائج کا سبب بنتا ہے۔
بحران کا اطلاقی پہلو:
اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے، معاشیات کاعمرانی علوم کے ایک میدان کے طور پر اور تحقیق کے مغربی ماڈل کے ٹسٹ کیس کی حیثیت سے تجزیہ کرنامفید ہوگا۔ معاشی موضوعات مثلاً کیا پیدا اور کیا صرف کیا جائے، اوروسائل کا تبادلہ اور تقسیم کیسے ہو، ابتداء ہی سے انسانی زندگی کا حصہ رہے ہیں۔ذاتی مفاد اور منافع کی طلب کے محرکات، حتیٰ کہ منڈی کا تصور بھی نیا نہیں ہے۔ ہم عصر معاشیات اور سرمایہ دارانہ نظام میں جو چیز فی الحقیقت نئی ہے اور جسے ہم عصر معاشیات میں جڑواں بھائیوں جیسی حیثیت حاصل ہے، وہ یہ خیال ہے کہ ذاتی مفاد وہ واحد عامل ہے جو انسانی انتخاب کا تعین کرتا ہے، اور ہر ایک کے اپنے ذاتی مفاد کے پیچھے دوڑ نے کے نتیجے میں سب کے مفاد کی تکمیل کی منزل خود بخود حاصل ہوسکتی ہے۔اور یہ کہ وسائل کی سائنٹفک اور معروضی تقسیم صرف منڈی کے نظام (مارکیٹ میکانزم) کے ذریعے ہی عمل میں آسکتی ہے۔اس طرح معاشرہ گھٹ کر معیشت، معیشت گھٹ کر منڈی، اور منڈی گھٹ کر طلب اور رسد کا کھیل بن گئی ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیامارکیٹ بنیاد پرستی کا یہ فلسفہ دنیا کے تمام انسانوں کی ضروریات پوری کرنے میں کامیاب رہا ہے؟موجودہ عالمی معاشی بحران نے ، پوری دنیا کئی سال سے جس کی گرفت میں ہے،عملاً اس سوال کا جواب نفی میں دیا ہے۔اس بات کو مزید اختصار سے یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ زیادہ محتاط اندازوں کے مطابق اس بحران نے ۲۰۰۶ء سے ۲۰۰۸ء تک، صرف دوسال میں پوری انسانیت کی ایک تہائی دولت کا صفایا کردیا ہے۔بینک اپنی بحالی(Bailout) کے لیے اربوں ڈالر ایسے وقت میں وصول کررہے ہیں جب کروڑوں انسان اس بحران کے اثرات کی بناء پر بے روزگاری اور رئیل اسٹیٹ کے جرائم یا ناکامی کی شکل میں شدید مصائب کا شکار ہیں۔ حکومتیں بینکوں کو زندہ رہنے کے لیے مالی وسائل فراہم کررہی ہیں جبکہ امریکہ میں گھر رکھنے والے تیس لاکھ شہری بے گھر ہوچکے ہیں۔
بلاشبہ بحران بھاری نقصانات کا سبب بنتے ہیں مگر وہ اپنے ساتھ پالیسیوں پر از سرنو سوچ بچار کے مواقع بھی لاتے ہیں اور موجودہ بحران نے بھی یہ موقع مہیا کیا ہے۔اس نے عام لوگوں کو بالعموم اور اہل فکر و دانش کو بالخصوص متبادل راستوں کے بارے میں سوچنے کی ضرورت کا احساس دلایا ہے۔نظام سرمایہ داری اورمارکیٹ بنیاد پرستی(Market fundamentalism) کے بعض کٹر وکیلوں نے یہ کہنا شروع کیا ہے کہ کچھ بدعنوان اور لالچی لوگ اس بحران کا اصل سبب بنے ہیں جبکہ اس میں مالیاتی نظام کی ناکامی، بینکاروں، بھاری منافع کی امیدپر کی گئی پُرخطر سرمایہ کاریوں، hedge funds اور derivatives وغیرہ کا حصہ بھی ہے۔ان متشدد مارکیٹ بنیاد پرستوں کے خیال میں اگر قواعد و ضوابط بہتر ہوتے تو صورت حال اتنی خراب نہ ہوتی۔
بہرکیف زیادہ گہرائی میں سوچ بچار کرنے والوں کو اس حقیقت کا ادراک ہوا ہے کہ اگرچہ یہ دونوں نکات درست ہیں تاہم بحران اس سے زیادہ سنگین ہے جتنا بظاہر دکھائی دیتا ہے۔یہ ناکامی پوری معیشت اور مالیاتی نظام، اس کی بنیادوں، میکانزم، اورطریقوں کی ہے۔یہ وہ سیاق ہے جس میں اہل علم و فکر اور تجزیہ کاروں کی ایک بڑی تعداد آج بہ آواز بلند کہہ رہی ہے کہ یہ محض معیشت کی ناکامی نہیں ،یہ علم معاشیات، اس پورے نظام اور اس کی ترقی کے تصور کے پیچھے کارفرما بنیادی فلسفے، اور اس کے ان طریقوں کی ناکامی ہے جن کے ذریعے پوری صورت حال کو دیکھا جاتا رہا ہے۔ وہ دعویٰ کررہے ہیں کہ معاملات کو نصابی کتابوں اور پالیسی مینولز سے بلند ہوکر اور موجودہ معاشیات کے فلسفے کی عین بنیادوں، اس کے اصولوں اور اقدار پر نئے سرے سے غور وفکر کرکے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔اخلاقی خسارہ اور روحانی پہلو کا فقدان وہ چیز ہے جسے معاشیات اور دوسرے سماجی علوم کی طرف سے ایک غیر متعلق شے کی طرح یکسر نظر انداز کردیا جاتا رہا ہے۔ تاہم اب اس کی ضرورت کا از سرنو احساس ابھر رہا ہے۔ حرص و ہوس اس لعنت کا سبب بنی کیونکہ اس پر گرفت کرنے کے لیے کوئی نظام اخلاقیات موجود نہیں تھا۔
تیزی سے گِرتی آزاد منڈیوں اور ڈوبتی عالمگیر معیشت پر نوبل انعام یافتہ جوزف اسٹگلٹز کی جانب سے ایک بڑا دلچسپ مطالعہ اس سیاق میں بہت اہم ہے۔ وہ اپنی کتاب ۲ Freefall: America, Free markets and the Sinking of the Global Economy میں کہتا ہے کہ
’’اس بحران سے باہر نکلنے کے لیے محض ’’اِدھر اُدھر تھوڑی بہت ٹھوکا پیٹی‘‘ اور مرمت کافی نہیں ، اس کے بجائے حقیقی اصلاحات کی ضرورت تھی اور ہے جو صرف دکھانے کے لیے نہ ہوں۔‘‘
وہ مزید کہتا ہے کہ : ’’ اگر امریکہ اپنی معیشت کی اصلاح میں کامیاب ہوجائے تو ممکن ہے کہ وہ معاشیات کی اصلاح شروع کرسکے۔‘‘
’’ہم میں سے بیشتر لوگ یہ سوچنا پسند نہیں کریں گے کہ ہم انسان کے بارے میں اُس نقطہ نظر کی توثیق کرتے ہیں جو موجودہ معاشی ماڈلوں میں مضمر ہے، جس کی رو سے انسان حساب کتاب کرنے والا، عقلیت پسند، خود غرض اور مفاد پرست فرد ہے۔ اس کے رویوں میں انسانی ہمدردی، عوامی فلاح کے جذبے، اور بے لوث ایثار کی کوئی گنجائش نہیں۔ ‘‘
’’ایک نئی معیشت کی پیدائش‘‘ ۳ (The Birth of a New Economy) کے موضوع پر ایک اور نہایت دلچسپ مطالعہ اناطولی کالاتسکی کی جانب سے پیش کیا گیا ہے۔وہ موجودہ معاشی نظام سے جس قدر بیزار اور نالاں ہے اس کا اندازہ اس کے ان الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے:
’’آج معاشیات ایک ایسا شعبۂ علم (ڈسپلن) ہے جسے یا تو لازماً مرجانا چاہیے یا اس کاماڈل تبدیل ہونا چاہیے، جو اِسے زیادہ وسیع النظر، زیادہ روادار اور متواضع بنائے۔اسے دوسرے سماجی علوم( سوشل سائنسز) کی بصیرت و فراست کو تسلیم کرنے کے لیے اپنے افق کووسیع کرنا چاہیے․․․․ معاشیات یا تو تیزی سے اپنی اصلاح کرے گی یا یہ پورا ڈسپلن موت کے گھاٹ اتر جائے گا۔‘‘
ایک اور نوبل انعا م یافتہ دانشور رابرٹ فوگل ان موضوعات کا ذکر بحران سے پہلے ہی ۲۰۰۱ء میں اپنی کتاب۴ـ”The Fourth Great Awakening and the Future of Egalitarianism” میں کرچکا ہے۔ اصل مسئلے کی صورت گری اس نے جس طرح کی ہے وہ جامع و مختصر اور واضح ہے۔ اس کے الفاظ ہیں:
’’نئے ہزاریے کے طلوع ہونے کے موقع پر یہ نازک اور حساس معاملات باقی نہیں کہ کیاہم کاروباری سلسلے کو چلا سکتے ہیں اور کیا معیشت کے اطمینان بخش شرح سے ترقی کرنے کے امکانات موجود ہیں۔یہ سوال بھی باقی نہیں رہا کہ کیا ہم گزشتہ صدی میں مساوات(Egalitarianism) کے حوالے سے کی گئی پیش رفت کی قربانی دیے بغیر معاشی ترقی جاری رکھ سکتے ہیں ۔ اگرچہ پچھلی کامیابیوں کو مستحکم کرنے سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا،تاہم امریکہ میں مساوات کے نظریے کا مستقبل جاری معاشی ترقی کو مساوات کے معاملے میں بالکل نئی اصلاحات کے مجموعے سے وابستہ کرنے کے حوالے سے قوم کی اہلیت پر منحصر ہے، جو ہمارے دور کی فوری روحانی ضروریات کے مطابق سیکولر ہونے کے ساتھ ساتھ مقدس اور محترم بھی ہو۔روحانی (یاغیرمادّی) عدم مساوات آج اتنا ہی بڑا مسئلہ ہے جتنا بڑا مسئلہ مادّی عدم مساوات ہے بلکہ شایداس سے بھی زیادہ۔‘‘
یہ بحران ایک طرح سے ایک یاد دہانی ہے ۔ مروجہ فلسفوں، بنیادی اصولوں، اور منہاجیات (methodoligies) پر نظر ثانی کے لیے اہل عقل و دانش آواز بلند کررہے ہیں اور ان کی پکار سنی جاسکتی ہے۔ سماجی علوم( سوشل سائنسز ) کے یہ معاملات ایک نئے اسلوب کی مدد سے سنجیدگی کے ساتھ توجہ کے متقاضی ہیں، ایساماڈل جو وسیع اور جامع بھی ہو اور جو دنیا کی سماجی اور طبیعی حقیقتوں کی پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے کی اہلیت بھی رکھتا ہو۔
مطلوبہ ماڈل
یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ مغربی فکر و تہذیب کے ارتقائی سفر کے تین سنگ میل نشاۃثانیہ، تحریک اصلاح اور روشن خیالی اسلامی فکر وعمل اور مغرب اور اسلام کے درمیان رابطے کے اثرات کا نتیجہ تھے۔ولیم ڈریپر کی کتاب ۵ ’’تاریخ معرکۂ مذہب و سائنس‘‘ (History of the Conflict between Religion and science) میں اعتراف کیا گیا ہے کہ نشاۃ ثانیہ کے بعد کے دور میں مغربی دنیا میں تجربی طریقہ مسلمانوں اور مغرب کے درمیان براہ راست رابطے اور تعاون کے نتیجے میں متعارف ہوا۔وہ مختلف ادوار میں سائنس اور مذہب کے درمیان پورے تنازع اور تصادم کا جائزہ بھی لیتا ہے،اور توثیق کرتا ہے کہ مسلم دور میں ایسا کوئی تنازع نہیں تھا۔ایک اور بڑادلچسپ مطالعہ رابرٹ بریفالٹ کی کتاب ’’انسانیت کی تشکیل‘‘ ۶ (The making of Humanity) ہے، جسے بلاشبہ علم و دانش کے طویل سفر کی تاریخ کہا جاسکتا ہے،اس کتاب میں وہ کہتا ہے کہ استقرائی طریقے(Inductive method)کی بنیاد مسلمان سائنس دانوں اور دانشوروں نے رکھی اور یورپ نے یہ طریقہ مسلمانوں سے سیکھا۔جارج سارٹن جو سائنس کا ایک بڑا مؤرخ ہے، اپنی کتاب ’’تعارف تاریخ سائنس‘‘ ۷ (Introduction to the History of Science) میں مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں میں سائنس کے ارتقاء پر بحث کرتے ہوئے واضح کرتا ہے کہ مسلمانوں نے کس طرح چار صدیوں تک ان طریقوں کے ذریعے مختلف ایجادات کیں۔’’ایک ہزار ایک ایجادات: ہماری دنیا میں مسلم ورثہ ‘‘ ۸ (1001 Inventions: Muslim Heritage in our world) کے عنوان سے منظر عام پر آنے والا ایک تازہ مطالعہ اس ضمن میں ایک اور نہایت چشم کشا کاوش ہے۔
جہاں یہ بات درست ہے کہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں سماجی علوم نے ایک امتیازی شکل اختیار کی،اور باضابطہ اور منظم علم کی حیثیت سے اصول، اقدار، معیارات اور منہاجیات کے ساتھ پختگی کے دور میں داخل ہوئے،وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ مغربی اسلوب اس معنی میں محدودیت پسند (Reductionist) ہی رہے کہ وہ سائنس اورخدا،سیکولر اور مقدس، طبیعیات اور ماوراء ا لطبیعیات کے مابین تقسیم و تفریق بھی اپنے ساتھ لائے۔جبکہ جس اسلوب کو مسلمان فضلاء اور محققین نے اپنے دور میں اختیار کیا تھا، اس نے سائنس اور مذہب کے درمیان انتخاب کا کوئی مخمصہ پیدا کیے بغیر علوم کو ترقی دینے میں ان کی پوری مدد کی۔اس بناء پر اسلامی اسلوب کے اصول و مبادی ، علم موجودات اور نظریہ علمی کے حوالے سے اس کے فر یم ورک اور موجودہ سیاق کے اندرتحقیق کے عمل میں اس کے اطلاق کو سمجھنا ضروری ہے۔
اسلامی ماڈل کے بنیادی اصول
محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی کی پانچ آیتیں اس ضمن میں انتہائی اہم ہیں:
’’پڑھو(اے نبیؐ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔پڑھو، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ انسان کو وہ علم دیا جسے وہ جانتا نہ تھا۔‘‘ ۹
یہاں پہلی آیت میں ’ اِقراء ‘ یعنی پڑھو کہہ کرعالم طبیعی سے متعلق علم کی بات کائنات اور انسان کے خالق کے حوالے سے کی گئی ہے۔ دوسری آیت میں خون (علق) کا ذکرزندگی کے تعلق سے ہے۔تیسری آیت قاری کو خدا کی مرکزیت کے تصور(توحید) کی جانب واپس لاتی ہے۔ چوتھی آیت میں’ قلم‘ ٹیکنالوجی کے علم کی علامت ہے۔اور پانچویں آیت علم کے تمام دائروں کے خدا سے مربوط ہونے کے تصور کا اعادہ کرتی ہے۔
اسی طرح قرآن میں کہا گیا ہے کہ جب اللہ نے انسان کو پیدا کیا تو ’’اس نے آدم (یعنی نسل انسانی کے پہلے فرد) کو تمام چیزوں کے نام سکھائے۔‘‘ ۱۰ ۔ مطلب یہ کہ اشیاء کے مفہوم اور حقیقت سے طبیعی اور تصوراتی دونوں پہلوؤں سے آگہی عطا کی گئی۔اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کو فیصلے اور انتخاب کی آزادی بھی دی گئی ہے۔مزید یہ کہ اشیاء کے علم اور ان کی تصوراتی اور طبیعی حقیقت کے ادراک کے ساتھ انسانوں کو ہدایت یعنی رہنمائی کی نعمت سے بھی سرفراز کیا گیا ہے۔
اس طرح ہمیں ایک ایسا نمونہ یا پیراڈائم دیا گیا ہے جو سب سے پہلے خدا کی مرکزیت سے آگاہ کرتاہے۔یہی علم باقی تمام علوم کا سرچشمہ ہے۔اب اصل بات یہ ہے کہ خالق اور مخلوق میں تعلق کی نوعیت کیا ہونی چاہیے۔اس تعلق کی پہلی جہت خالق کو تسلیم کرنا ہے۔ یعنی آدمی اکیلا نہیں ہے، اور آدمی ، انسانیت، دنیااور کائنات کو خدا سے مربوط کرکے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ طبیعیات، حیاتیات اور ٹیکنالوجی کی دنیا سمیت علم کے تمام شعبوں اور ان کی سرگرمی کے تمام دائروں کی ابتداء اسی سے ہوتی ہے۔لیکن یہ الگ الگ خانوں میں بٹے ہوئے نہیں ہیں، یہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔اور انہیں باہم جوڑنے والا اصول ’ہدایت‘ ہے، جیسا کہ قرآن میں کہا گیا ہے : ’’․․․․اس کے بعد میری طرف سے جب کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے توجو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا۔ ‘‘ ۱۱
اس سے واضح ہے کہ زمین پر انسان کی زندگی کا آغاز بے خبری اور تاریکی میں نہیں ہوا۔
علم کے مختلف شعبوں کو باہم جوڑنے اور سمجھنے کے لیے انسانوں کو تین چیزیں عطا کی گئیں: ۱) عقل ، استدلال کی صلاحیت، سوچنے، جانچنے پرکھنے، اپنانے اور پیروی کرنے کی اہلیت، ۲) طبیعی و مادّی شعبوں کا علم، آگہی اور اطلاع کی صلاحیت،۳) علم کی ایک برتر شکل جس کا نام ہدایت ہے، اور موجودہ علم الوجود کی رو سے جس سے حقیقت کا ادراک مراد ہے۔حقیقت اور ہدایت کا ادراک ان سب کو مربوط کرتا ہے۔ یہ ہے ایک کلی، مربوط ، خدا اور ہدایت کی مرکزیت کے تصور پر مبنی اسلوب جو قرآن پیش کرتا ہے۔
انسان کو یہ صلاحیتیں عطا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اسے طبیعی، حیاتیاتی، اور تکنیکی دنیا میں تلاش و جستجو کی دعوت دیتا ہے۔اس حوالے سے قرآن کی یہ آیات نہایت اہم ہیں: ’’کیا یہ لوگ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے ؟ آسمان کو نہیں دیکھتے کہ کیسے اٹھایا گیا؟پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے جمائے گئے؟اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی؟‘‘ ۱۲
ان آیات میں پورا زور جس بات پر دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جانوروں، پہاڑوں، آسمان، زمین اور اس کے گردوپیش کو دیکھو ۔ قرآن انسان کو بار بار دعوت دیتا ہے کہ جس ماحول میں وہ رہتا ہے اس پر غور وفکر کرے،اپنا تعلق اپنے گردوپیش کی دنیا سے جوڑے،مناظر قدرت کا مشاہدہ کرے، قوموں اور تہذیبوں کے عروج و زوال کے اسباب کا جائزہ لے،اور پھر طے کرے کہ اسے دنیا میں کس طرح رہنا اور کیا طرز فکر و عمل اختیار کرنا چاہیے۔جدید علمی اصطلاحات کی رُو سے قرآن قادر مطلق اللہ رب العالمین کی تخلیق کردہ دنیا کی حقیقتوں کو سمجھنے کے لیے تجربی طریق کار تجویز کرتا ہے۔ نماز کے لیے قرآن کے اس حکم کی رو سے کہ ’’ تم جہاں کہیں بھی ہو اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف پھیر دو‘‘ ۱۳ ، درست سمت کے تعین کے لیے جغرافیہ کے علم کا حصول ناگزیر ہوجاتا ہے۔اس سے واضح ہے کہ مسلم دور میں مختلف شعبوں میں علمی ترقی حقیقی دنیا میں رہنے کا فطری تقاضا تھی۔ اس بناء پر تجربی طریق کار، مشاہدہ، تجربہ، توثیق، اور نتائج کی بنیاد پر تصدیق مسلمانوں کی منہاجیات کا لازمی حصہ بن گئے۔اور یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ثقافت اور تاریخ کے لیے قیمتی خدمات انجام دینے والے مسلمان مفکرین، علماء وفضلاء، محققین اور تکنیکی ماہرین نے اپنی علمی کاوشوں میں ہدایت الٰہی، انسانی عقل و دانش، اور تجربی طریق کار تینوں سے استفادہ کیا۔
اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے انسانی تاریخ میں علم و دانش کے چار ممتاز اسالیب(Paradigm) کی نشان دہی مفید ہوگی۔ پہلا اسلوب خدائی ہدایت پر مشتمل معرفت پر مبنی ہے۔یہ ایک بلند تر ذریعہ ہے، وہ ذریعہ جس نے کائنات کو تخلیق کیا،علم کے اُس حصے میں انسان کی شرکت جو خالق کی فکر پر مشتمل ہے، زمین پر انسان کے کردار کے لیے بنیادی اہمیت اور افادیت کی حامل ہے۔تمام مذہبی، بالخصوص اسلامی، اسلوب کا آغاز اسی سے ہوتا ہے۔دوسرا اسلوب جو باطنی علم کی حیثیت سے معروف ہے،اس کی بنیاد وجدان پر ہے۔تیسرا اسلوب استدلال اور عقل پر مبنی ہے، اس تصور کے ساتھ کہ کائنات کی ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کا ادراک عقل کی مدد سے ممکن ہے۔عقل ، حواس خمسہ کے ذریعے روبہ عمل آتی ہے جبکہ وجدان اِن سے بالاتر ہے۔ عقل ایک صلاحیت کا نام ہے،ایک قوت جسے تجربے، خبر اور علم کے ذریعہ کی حیثیت سے انسان استعمال کرتا چلا آرہا ہے۔ریاضی اور جیومیٹری کا تمام تر ارتقاء اس مفروضے کی بنیاد پر ہوا کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جو وجود رکھتی ہے، لیکن صرف عقل ہی کے ذریعے ہم اسے اپنی گرفت میں لاسکتے ہیں۔چوتھا اسلوب تجربی جہت ہے جس میں اطلاع، حقائق اور علم کو مشاہدے اور تجربے کے عمل سے دریافت کیا جاتا ہے ، جس میں قیاس یا مفروضے کی تصدیق یا تردید تجربہ سے حاصل شدہ نتائج کے ذریعے کی جاسکتی ہے، اور جس میں اس طریق کار کی بناء پر پیش گوئی ممکن ہے۔
فی الحقیقت آج کا المیہ یہ ہے کہ یہ چار بڑے اسلوب اس مفروضے کے ساتھ ایک دوسرے سے الگ تھلگ رکھے گئے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک خود کفیل ہے۔اس معاملے میں اسلام کا کردار یہ ہے کہ وہ علم کی ان چاروں راہوں کو تسلیم کرتا، انہیں ایک لڑی میں پروتا ، اور ایک ایسا بلند محرابی(Overarching) بندوبست ایجاد کرتا ہے جس میں خدائی ہدایت کا مقام سب سے بلند ہے جبکہ وجدان،عقل، استدلال اور تجربہ اس چھتری تلے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ان میں سے ہر ایک دوسرے کی مدد اور تکمیل کرتے ہوئے اسلامی اسلوب کو ایک کل بناتا ہے۔
اس جامع اور ہمہ گیر اسلوب کا اطلاق اپنی تحقیقی کاوشوں پر کرکے مسلمانوں نے اسلامی دور کی پہلی صدی کے دوران ہر میدان میں طبعی اورسماجی علوم(Natural and social sciences) کو ترقی دی۔فی الحقیقت انہوں نے قرآنی علوم سے ابتداء کی،اور قواعد، زبان، تفسیر، حدیث، تاریخ، علم الرجال، اصول فقہ یعنی اصل ذرائع سے قانون اخذ کرنے کا پورا عمل،نیز متعدد دوسرے علوم کو پروان چڑھایا۔ اس کے بعد یونان سے فکری چیلنجوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا اور معتزلہ اور اشاعرہ کی علمی تحریکوں نے ان کا کامیابی سے مقابلہ کیا جس کی نتیجے میں اسلامی فلسفے کی بنیادیں مضبوط ہوئیں۔ خدائی ہدایات اور تقاضوں کی تکمیل کے عمل میں مثلاً قرآن کو تحریر کرنے کے لیے مسلمانوں نے کاغذ سازی ور قلم سازی کو ترقی دی، روشنائی کو چمک دار اور دیرپا بنانے کے لیے کیمیائی تجزیے کیے، اور یوں طبعی علوم( نیچرل سائنس) کی ترقی میں حصہ لیا۔ امام غزالی، ابن خلدون، ابن تیمیہ جیسے مفکروں نے اپنے اپنے انداز میں ان علوم کو ترقی دی جنہیں آج عمرانی علوم( سوشل سائنس) کی حیثیت حاصل ہے۔ابن خلدون کو اب عمرانیات اور فلسفہ تاریخ کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے۔کتاب الخراج۱۴ معاشیات کے موضوع پر پہلی کتاب ہے جو امام ابویوسف نے لکھی ۔
اسلام کے فلسفیانہ فریم ورک میں تمام تر مسلم فکر وعمل کا پہلا اصول اور ماخذ توحید یعنی اللہ کی یکتائی ہے۔پروفیسر اسماعیل راجی الفاروقی کی کتاب ’’ توحید: انسانی فکر اور زندگی پر اس کے اثرات‘‘۱۵ (Al Tamhid: Its Implications for Thought and Life) اس حوالے سے بہت اہم ہے کیونکہ یہ فکر و خیال اور معاشرے دونوں پر توحید اور اس کے اثرات کی وضاحت کرتی ہے۔ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے بھی اس موضوع پر بڑی خوبصورتی کے ساتھ کام کیا ہے۔ پہلے شاعری میں منظم انداز میں’ اسرار خودی‘ اور پھر ’رموز بے خودی‘ میں ۱۶ ۔ پہلی نظم فرد اور دوسری معاشرے سے متعلق ہے۔اقبال کی یہ دونوں عظیم الشان نظمیں بنیادی فکری تشکیل میں اہم پیش رفت ہیں اور دونوں توحید پر مبنی اسلامی اسلوب فراہم کرتی ہیں۔ ’’ فکر اسلامی کی تشکیل جدید ‘‘ ۱۷(The Reconstruction of Religious Thought in Islam) کے موضوع پر اقبال کے خطبات میں سے پہلے چار خطبوں میں بھی توحید کی مرکزیت اور فکر وخیال، منہاجیات، معاشرے، معیشت اور سیاست وغیرہ پراس کے اثرات واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
خدا کی وحدت کے عقیدے کے ساتھ دوسرا تصوروحدتِ تخلیق کا ہے۔تخلیق کے اس عمل کے نتیجے میں ایک پابند ِقانون کائنات وجود میں آئی جہاں خاص اسلوب و طریقے، یکسانیتیں، مستقبل کے اندازے اور متغیرات کام کرتے نظر آتے ہیں۔ تیسری چیز حقیقت کی یکتائی ہے جو علم کی وحدت کی جانب لے جاتی ہے اور پھر آخری چیز وحدت انسانی ہے۔اسلامی اسلوب کے یہ بنیادی اصول ہیں۔
ان اصولوں کے تحت، استخلاف کا اہم تصور، جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کوزمین پر یہ مشن دے کر بھیجا گیا ہے کہ وہ دنیا کو ترقی دے اور تمام ذرائع اور وسائل کو عدل ، پاکبازی اورمساوات کے قیام، اور غلط و صحیح ، حلال و حرام اورنیک و بد کو الگ الگ کرنے کے لیے استعمال کرے۔ اس طرح اسلام کے تحت پوری انسانی زندگی کا محور یہ اخلاقی انتخاب بن جاتا ہے جبکہ مادی وسائل سے استفادے کی آزادی بھی حاصل رہتی ہے۔ یوں استخلاف کا یہ تصور موجودہ زندگی کا رشتہ آنے والی زندگی سے جوڑتے ہوئے،اس دنیا میں بھی اور اس کے بعد کی دنیا یعنی عالم آخرت میں بھی بہترین نتائج کے حصول کے لیے انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔دنیا کا رشتہ آخرت سے جوڑنے کے اس عمل کو ایک حدیث میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ یوں بیان کیا گیا ہے: ’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے‘‘۔ اس لیے آخرت کو جانے والا راستہ ، اس دنیا سے الگ یا غیر متعلق نہیں ہے۔اِس دنیا کو بہتربنا کر ہی آخرت کی بہتری حاصل کی جاسکتی ہے۔استخلاف کا تصور حسن خلق، اخلاقیات، پسندیدہ اور ناپسندہ، اور حلال و حرام کو اس اسلوب کے اہم ترین عناصر میں شامل کرتا ہے۔ نیچرل سائنس کا دائرہ ہو یا سوشل سائنس کا، اقدار، اخلاقیات،بھلائی کا انتخاب،سماجی ذمہ داری،فرد کی سماجی جواب دہی،یہ سب اس اسلوب کے لازمی اجزاء ہیں۔
اس لیے سیکولرازم کا وہ حصہ جو اس دنیا کی ترقی پر توجہ مرتکز کرتا ہے، وہ اسلامی اسلوب کے ساتھ کسی تنازع کا سبب نہیں بنتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ہماری دُنیوی زندگی کے طبیعی، جسمانی اور مادّی پہلوؤں سے تعلق رکھتا ہے۔اختلاف قابل مشاہدہ اشیاء پر سیکولر اسلوب کے طرز عمل کی بناء پر جنم لیتا ہے کیونکہ اسلام قابل مشاہدہ اور نادیدہ یا غیب دونوں کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔یہ بات نہایت اہم ہے کہ قرآن کی پہلی سورۃ ’الفاتحہ‘ میں ہمیں سکھایا گیا ہے کہ ہماری سب سے بڑی ضرورت ہدایت یعنی رہنمائی ہے۔اس میں بندے اپنے رب سے درخواست کرتے ہیں کہ’ــ ہمیں سیدھا رستہ دکھا‘ ۱۸۔ جبکہ دوسری سورۃ ’البقرہ‘ میں اس کا جواب یوں دیا گیا ہے:’’․․․․قرآن نازل کیا گیا جس میں انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے،اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔‘‘۱۹
تاہم اس رہنمائی سے فائدہ اٹھانے کی پہلی شرط غیب یعنی اَن دیکھی کو ماننا ہے۔جیسا کہ قرآن کی بالکل ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قرآن ان لوگوں کے لیے ہدایت ہے جو’’ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔‘‘ ۲۰ لیکن غیب کا مطلب کوئی پراسرار یا ناقابل فہم چیز نہیں ہے۔غیب سے مرادہے وہ دائرہ جو قابل مشاہدہ نہیں مگر حقیقت ہے، اور جو قابل پیمائش نہیں مگر وجود رکھتا ہے۔ ہدایت کے حوالے سے ’قابل مشاہدہ ‘اور’ نادیدہ‘ دونوں مل کر کلی حقیقت تک پہنچاتے ہیں۔سیکولر اسلوب کا کلیدی عنصر ان میں سے ایک کو دوسرے سے الگ کردینا ہے، لیکن اسلامی اسلوب میں یہ دونوں باہم مربوط، لازم و ملزوم اور ناقابل علاحدگی ہیں۔ جبکہ’ قابل مشاہدہ‘ اور ’نادیدہ‘ کی علاحدگی کی وجہ سے جدید دنیا کے باسیوں کو بہت سے مسائل کاسامنا کرنا پڑرہا ہے۔
اختتامیہ
اسلامی اور سیکولر دومختلف اسلوب(Paradigm) ہیں، لیکن اپنی جامعیت اور ہمہ گیریت کی بناء پر اسلامی اسلوب کی برتری واضح ہے۔سیکولر اسلوب جہاں اپنے محدود، چنیدہ اور جانبدارانہ رویے کے سبب نتائج دینے میں ناکام رہا ہے،اسلامی اسلوب وہاں ایک جامع ماڈل پیش کرتا ہے جس میں خدائی ہدایت اساسی ماخذ ہے ، وجدانی ماخذانسانی تکملہ کی حیثیت رکھتا ہے، عقل، استدلال، معقولیت، اور تجربی طریق کار بنیادی آلہ ہے۔اسلامی اسلوب میں ان چاروں منہاجیات کے درمیان کوئی تنازع نہیں اور تحقیقی عمل میں ان میں سے ہر ایک کا اپنا مقام اور کردار ہے۔یہ وہ جامع اور ہمہ گیر طرز فکر ہے جو ہر اس چیز سے استفادہ کرسکتا ہے جو حاصل کی جاچکی ہے خواہ وہ سیکولر اسلوب ہی میں کیوں نہ ہو۔اور یہ وہ اسلوب ہے جو انسانیت کی خدمت کے لیے وسائل کو ترقی دینے اور استعمال کرنے اورانصاف پر مبنی بہتر عالمی نظام کے قیام کی کوششوں میں انسانی ذہن کی معاونت کرتا ہے۔دین و دنیا کی یکجائی اسلامی اسلوب کا امتیازی نشان ہے ۔یہ استخلاف کے نظریے کو رو بہ عمل لانے کا ذریعہ بنتا ہے جو خالق کائنات کی جانب سے زمین پر انسان کو تفویض کی جانے والی ذمہ داری ہے۔
اکیسویں صدی کے علماء و فضلاء اور تحقیق کاروں کو ایسے علمی نظریے کو پروان چڑھانا چاہیے جو اسلام کے جامع اسلوب کے ساتھ چل سکے۔اس مقصد کے لیے آزاد و خودمختار ناقدانہ سوچ اور درست زاویہ نگاہ ضروری ہے۔آج کی دنیا میں سماجی علوم کی ایک بہت بڑی ناکامی یہ ہے کہ اس نے تجزیے پر ہی ساری توجہ مرتکز کیے رکھی اور بصیرت(Vision) سے کام نہیں لیا۔جبکہ درست نتائج تک پہنچنے کے لیے تجزیے اور بصیرت کو لازماً ساتھ ساتھ چلنا چاہیے۔رابرٹ ہیل برونر اور ولیم مل برگ کی کتاب ’’جدید معاشی فکر میں بصیرت کا بحران‘‘ ۲۱ (The Crisis of Vision in Modern EconomicThought) اس حوالے سے ایک اہم مطالعہ ہے۔اس کتاب میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ بصیرت کے بغیر تجزیہ کس طرح بانجھ اور بے ثمربلکہ تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔ لہٰذا آج کی دنیا کے تحقیق کار درست زاویہ نگاہ اور ہمہ گیر و جامع طرز فکر کے ساتھ تجزیے کی تکنیکوں اور تراکیب سے کام لے کرپچھلی صدیوں کی ناکامیوں کا ازالہ کرسکتے ہیں۔اولیور گولڈ اسمتھ کے یہ الفاظ اس مقام پر بہت برمحل ہیں: ’’ہمارے لیے اصل سرمایہ افتخار کبھی نہ گرنا نہیں بلکہ ہر بار گرنے کے بعد اٹھ کھڑے ہونا ہے ۔‘‘ ۲۲ اس لیے ناکامیوں سے سبق سیکھنے کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ نئی نسل ان علمی و فکری، ثقافتی، معاشی اور سیاسی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کمر کس لے جن سے آج کے انسان کو سابقہ درپیش ہے۔ اس ضمن میں اساتذہ اور طلبہ کے کاندھوں پر قیادت اور تازہ فکر فراہم کی کرنے کی عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
یہ بات یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں ہم بہت سی تہذیبوں کا عروج اور زوال دیکھتے ہیں،لیکن ان سب میں جو بات مشترک ہے وہ یہ ہے کہ ان کا عروج فکر کے میدان میں قیادت، اختراع و تخلیق کی صلاحیت،اور چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے فعال و متحرک طرز عمل سے وابستہ رہا ہے جبکہ ان کے زوال میں ہمیشہ فکری پس ماندگی، نقالی،دوسروں پر انحصاراور تخلیقی صلاحیت کا فقدان جیسے عوامل کارفرما رہے ہیں۔مسلم دنیا کے اہل فکر و دانش، جن پرسماجی اور طبعی علوم کے میدانوں میں ترقی کے اسلامی ماڈل کو متعارف کرانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے،انہیں علمی و فکری قیادت فراہم کرنی چاہیے اور دنیا کے سامنے استخلاف کے فراموش کردہ تصور کو نمایاں کرنا چاہیے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کو ایک مقصد کے ساتھ ایک مشن اور ذمہ داری کے لیے تخلیق کیا گیا ہے جسے پورا کرنے کے لیے انہیں خدائی ہدایت پر عمل اور اس کے تقاضوں کی تکمیل کرنی ہے۔یہی روش دنیا اور آخرت دونوں میں فلاح و کامیابی کی ضامن ہے۔
) ترجمہ: ثروت جمال اصمعی ( ,بشکریہ انسٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز، اسلام آباد
………………………… حواشی …………………………
۱۔ القرآن، ۹۱:۸
- Stiglitz, Joseh E., “Freefall: America, Free Markets, and the Sinking of the World Economy”, W. W. Norton & Company, New York, 2010.
- Kaletsky, Anatole, “Capitalism 4.0: The Birth of a New Economy”, Bloomsbury, London, 2010.
- Fogel, Robert William, “The Fourth Great Awakening &The Future of Egalitarianism”, The University of Chicago Press, Chicago, 2000.
- Draper, John Willian, “History of the Conflict between Religion and Science”, New York: D. Appleton and Company, 1875.
- Briffault, Robert, “The Making of Humanity”, London: Allen and Unwin, 1921.
- Sarton, George, “Introduction to the History of Science”, Malabar: Krieger Publishing, 1975.
- Al-Hassani, Salim. T. S., Elizabeth, Woodcock and Rabah Saoud, “1001 Inventions: Muslim Heritage in Our World”, London: Foundation for Science, Technology and Civilization (FTSC), 2007.
- ۹۔ القرآن، ۹۶ :۵-۱
- ۱۰۔ القرآن، ۲:۳۱
- ۱۱۔ القرآن، ۲ :۳۸
- ۱۲۔ القرآن، ۸۸ :۲۰-۱۷
- ۱۳۔ القرآن، ۲:۱۴۴
- ۱۴۔ ابو یوسف، کتاب الخراج (عربی)
- , 15. Al Faruqi, Ismail Raji, “Al Tawhid: Its Implications for Thought and Life” Issues in Islamic Thought, no. 4 (1994).
- ۱۶۔ محمد اقبال، ’’کلیاتِ اقبال فارسی‘‘ ، شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور
- Mohammad Iqbal, “The Reconstruction of Religious Thought in Islam”, Shaikh Muhammad Ashraf, Lahore.
- ۱۸۔ القرآن، ۱:۵
- ۱۹۔ القرآن، ۲ :۱۸۵
- ۲۰۔ القرآن، ۲:۳
- Heilbroner, Robert and Willian Milberg, “The Crisis of Vision in Modern Economic Thought”, New York: Cambridge University Press, 1996.
- Goldsmith, Oliver, “Letters from a citizen of the World”, London: N Cooke, Milford House, Strand, 1854.
- )ماخذ: مغرب اور اسلام، شمارہ ۳۹، سال ۲۰۱۳ کا پہلا شمارہ(