قراء اتِ قرآنیہ-گولڈ زیہر،آرتھر جیفری اور ڈاکٹر پیوئن کی تحقیقات کامطا لعہ

استشراقی نظریہ ارتقاء اورقراء اتِ قرآنیہ

گولڈ زیہر،آرتھر جیفری اور ڈاکٹر پیوئن کی تحقیقات کامطا لعہ

​محمد فیروز الدین شاہ کھگہ​

زیر نظر مضمون انہوں نے خاص طور پر قراء ات قرآنیہ کے حوالے سے آرتھرجیفری کے علاوہ دیگر مستشرقین کے نظریات کے تعاقب کے طور پر ترتیب دیا ہے۔ یاد رہے کہ موصوف نے چند سال قبل شیخ زید اسلامک سینٹر ، جامعہ پنجاب سے ’’اختلاف قراء ات اور نظریہ تحریف قرآن‘‘ کے زیر عنوان ایم فل کی ڈگری امتیازی پوزیشن کے ساتھ حاصل کی اور ان کے مقالہ کے موضوع کی افادیت کے پیش نظر بعد ازاں اسلامک سینٹر نے اِسے کتابی صورت میں طبع بھی کروایا ہے۔ اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کے شائقین کو ان کے مذکورہ مقالہ کا لازما مطالعہ کرنا چاہیے۔ (ایڈمن)

مستشرقین کے ایک گروہ کا یہ دعویٰ ہے کہ قرآن پہلی دوصدیوں کے دوران اپنی تکمیلی شکل و صورت کے مراحل سے گذرتا رہا ، جس کا مطلب یہ ہے کہ عہد نبویﷺ و عہد صحابہ رضی اللہ عنہم میں قرآن مکمل نہ ہونے کی وجہ سے گویا تحریفات اور کمی بیشی کا شکار ہوتا رہا ۔ ان مستشرقین کا موقف حسبِ ذیل خیالات سے عبارت ہے :

٭ اسلامی تاریخ کے مصادر، عصری تحقیقی معیارات پر پورا نہیں اترتے لہٰذا ان کی تصدیق ممکن نہیں ہے۔

٭ جزیرہ عرب کے مضافاتی علاقوں میں کھدائی کے دوران جو آثار اور قدیم تحریر ی نقوش دریافت ہوئے ہیں وہ یہ بات واضح کرتے ہیں کہ پہلی صدی ہجری میں قرآن موجود ہ شکل میں نہیں تھا۔

٭ قدیم قرآنی مخطوطات جو یمن کے شہر صنعاء سے ماضی قریب میں منصہ شہود پر آئے ہیں وہ ایک لمبا عرصہ قرآنی متن میں اِرتقاء اور تغیرات کا اِشارہ دیتے ہیں۔

٭ قرآنی متن کے تنقید ی مطالعے سے کتابت اور تحریر قرآن میں غلطیوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔


قراء اتِ قرآنیہ کو موضوعِ بحث بنانے کے استشراقی مقاصد


قراء اتِ قرآنیہ بھی ان اہم موضوعات میں سے ایک ہے جس کو مستشرقین نے اپنے خصوصی مطالعہ و تحقیق کے لیے نقطۂ ارتکاز بنایا ہے، کیونکہ یہ موضوع براہِ راست متن قرآنی سے تعلق رکھتا ہے، اگر اس میں شکوک و شبہات پیدا کر دیے جائیں تو خود مسلمانوں کے دلوں میں قرآن کی صحت پر اعتبار متزلزل ہو جائے گا ،چنانچہ مستشرقین نے قرآن کو ہدفِ تنقید بنانے کیلئے قراء ات قرآنیہ کو دو وجوہ کی بنیاد پر موضوع بحث بنایا ۔

امر اوّل


قراء ات کا قرآن سے بڑا مضبوط تعلق ہے۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ کلام ہے جو حضرت محمدﷺکی طرف وحی کیا گیا۔ جب کہ قراء ات ، وحیٔ قرآنی کے الفاظ میں تغایر کا نام ہے، مثلاً قرآن میں ارشاد ہے:’’إنْ جَائَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْا‘‘یہ ایک قراء ت ہے اور اس کی دوسری قرا ء ت ’’ان جاء کم فاسق بنباء فتثبتوا‘‘ ہے دونوں میں تغایر کے باوجود دونوں قرا ء تیں قرآن ہیں۔ مستشرقین ذکر کردہ حقیقت کو ایک منفی طرزِ فکر کے جلو میں پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کی رو سے ان کے مطابق قرآنی متن میں عہد بہ عہد تبدیلی واقع ہوتی رہی نیز یہ کہ قرآن مختلف شکلیں(Versions) بدلتا رہا ہے ۔ ان بے سروپا آراء وافکارکے ذریعے استشراقی حلقے مسلم اُمت کا کتاب اللہ سے رشتہ کمزور کرنے کا ہدف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اَمر ثانی


قراء ات کا موضوع ایک خاص موضوع ہے، دینیاتی علوم کے جاننے والے بھی بہت کم اس سے واقف ہیں ، اس موضوع کے بارے میں دیارِ اسلامیہ میں عمومی طور پر کم شناسائی پائی جاتی ہے، مسلمانوں میں اس فن کی تخصیص اور اس میں بحث و تحقیق کا رجحان نسبتاً کم رہا ہے، اس صورتحال میں مستشرقین نے اس فن میں مطالعہ و تحقیق اور غور وخوض کو اپنے لئے آسان سمجھا اور سائنٹفک طرزِ تحقیق کے نام پر قرآن کریم میں تصحیف و تحریف کا دروازہ کھولا۔

مستشرقین مختلف مصاحف قدیمہ میں وارد تفسیری روایات ، شاذہ قراء ات اور ذاتی و نجی مصاحف کی بناء پر ان میں موجود رسم عثمانی کے برعکس رسم قیاسی و اِملائی کو بھی قرآن میں تحریف کا ایک اہم ذریعہ قرار دیتے ہیں۔

چنانچہ مصاحف قدیمہ میں رسم اور قراء ات کی تبدیلیوں کواکثر مستشرقین قرآنی نص میں ارتقاء ات کا نام دیتے ہیں،بیسویں صدی عیسوی میں جن مستشرقین نے خصوصیت سے متن قرآنی میں ارتقاء ات کا نظریہ قائم کیا ہے ان میں گولڈزیہر (Goldziher)،الفونسمنگانا (Alphonse Mingana) ، آرتھرجیفری(Arthur Jeffery)اور ڈاکٹر جی -آر پیوئن (Dr.G.R.Puin) قابلِ ذکر ہیں، زیر نظر مقالہ میں ہم قرآنی نص کے بارے میں ان کے افکار و آراء کا تنقیدی جائزہ پیش کریں گے۔

اجناس گولڈ زیہراور نظریہ ارتقاء ات قرآنیہ


اجناس گولڈ زیہر (م۱۹۲۱ء)مستشرقین کے اس طبقہ سے تعلق رکھتا ہے جس نے اسلامی شریعت اور اس کے بنیادی مصادر کو اپنی تنقید کا خصوصی مرکز بنایا ہے۔ بوڈاپسٹ(Budapest)،برلین (Berlin)،لپزگ (Leipzig) اورلائیڈن (Leiden)کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتا رہا بعد ازاں شوقِ علم اس کو شام کے مشہور عالم شیخ طاہر الجزائری کی پاس لے گیااوران کی صحبت میں کافی عرصہ گذارا، اس کے بعد فلسطین اورپھر مصر منتقل ہواجہاں جامعہ ازہر کے علماء سے استفادہ کیا۔(۱)واضح رہے کہ جامعہ ازہر قاہرہ میں کسی غیر مسلم کا داخلہ قانوناً ممنوع تھالیکن گولڈزیہر نے خصوصی اجازت حاصل کرکے اس میں داخلہ لے لیا اوربحیثیت طالب علم وہاں پڑھنا شروع کیا۔(۲)

گولڈزیہر نے جرمن،انگریزی اورفرانسیسی زبانوں میں کتب تصنیف کیں جن کا تعلق اسلامی فرقوں کی تاریخ، فقہ، عربی ادب اورعلومِ قرآنیہ سے تھا۔(۳)اس نے اپنی زندگی کے کئی سال اِسلامی موضوعات کی تحقیق و تفتیش میں گذارے اور متعدد موضوعات پر قلم اٹھایا اورمختصر عرصہ میں اس کی تالیفات وتعلیقات اورابحاث ومقالات کی اچھی خاصی فہرست منظرِ عام پر آگئی۔(۴)

’مذاہب التفسیر الاسلامی‘کتاب اس کے ترکہ میں بہت زیادہ اہمیت اورشہرت کی حامل ہے اوربلا شک وشبہ یہ کتاب مستشرقین کے لیے علمی سرمایہ ہے ،اس کتاب میں اسلام کے مبادیات اورقرآنی علوم پر جس طرز اوراُسلوب سے بحث کی گئی ہے وہ مستشرقین کے نزدیک نہایت بلند مرتبہ کا م ہے۔(۵)

گولڈزیہر کے نظریات میں بسا اوقات اسلامی مصادر اور اس کی تعلیمات کے حوالہ سے پوشیدہ روّیوں کا اظہار بھی ہوتا ہے جس کونہ صرف مسلم علماء بلکہ خود مستشرقین نے بھی اعتراف کرتے ہوئے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا ہے۔چنانچہ پروفیسر برنارڈلیوس نے گولڈزیہر کی کی کتاب “Introduction to Islamic Theology”کے حالیہ انگریزی ترجمہ مطبوعہ۱۹۷۹ء کے مقدمہ میں لکھا ہے:

’’گولڈزیہرکو خیال ہی نہیں تھا کہ اس کی کتابوں کے قاری مسلمان بھی ہوں گے،اسلئے کہ یہ لوگ اپنا مخاطب مغرب کے قارئین کو ہی بناتے تھے۔ چنانچہ اس عہد کے دوسرے مصنفین کی طرح گولڈزیہر بھی قرآن کو پیغمبرِ اسلام کی تصنیف کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ مسلمانوں کے نزدیک ایسا کہنا اسلام کی سخت تنقیص ہے،علاوہ ازیں اسلام پر لکھنے والے تمام مغربی مصنفین کی طرح گولڈزیہر بھی قرآن وحدیث میں عہدِ جاہلیت کے بعض اجنبی اثرات پر بحث کرتا ہے۔ یہ موضوع بھی حساس مسلمانوں کے لیے سخت تکلیف دہ ہے‘‘۔(۶)

ڈاکٹر مصطفی السباعی کے نزدیک گولڈزیہر اپنی علمی بددیانتی ،عداوت اورخطرات کے لیے کسی تعارف کا محتاج نہیں، قرآن مجید اور علمِ حدیث کے موضوع پر خصوصیت سے اس کا قلم پھیلا ہے اور متعدد شبہات قائم کیے ہیں جو بالکلیہ اِستشراقی فکر کی پیداوار ہیں۔(۷)گولڈزیہر ’دائرۃ المعارف الاسلامیہ‘کے محررین میں سے ایک ہے۔قرآن پاک کو محمدﷺ کا کلام قرار دیتا ہے اوراسلام کو مفتریات کا مجموعہ۔(۸)

قرآن مجید کی قراء ات ،تفسیر اور تفسیر کے مختلف مناہج واَسالیب کے حوالہ سے گولڈزیہر کی مشہور کتاب کا عربی ترجمہ’’مذاہب التفسیر الاسلامی‘‘کے نام سے قاہرہ یونیورسٹی کے استاذ ڈاکٹر عبدالحلیم النجار نے کیا ہے یہ ترجمہ پہلی مرتبہ۱۹۵۵ء میں مصر سے شائع ہوکر اربابِ علم وادب میں بہت مقبول ہوا۔

اگرچہ اسلامی موضوعات میں تحقیق کے دوران قراء اتِ قرآنیہ براہِ راست اورمستقل طور پر گولڈ زیہرکا موضوع نہیں رہا تاہم’مذاہب التفسیر الاسلامی‘میں خاص طور پر پہلے باب کے آغاز میں ۷۰ صفحات، قرآنی متن میں اِضطراب اورنقص ثابت کرنے کے لیے حدیث سبعۂ احرف کی اِستنادی حیثیت اورقراء ات کی حجیت وقطعیت پر بہت سے اعتراضات وشبہات پر مشتمل ہیں۔

راقم کے خیال میں اگر نصِ قرآنی کی عدمِ توثیق کے متعلق مستشرقین کی کوششوں کا جائزہ لیاجائے تویوں محسوس ہوتا ہے کہ گولڈزیہر کے تحریر کردہ یہ صفحات بعد میں آنے والے مستشرقین کے لیے بنیادی فکر فراہم کرنے میں مصدر کی حیثیت رکھتے ہیں۔

خود مترجم کتاب ڈاکٹرعبدالحلیم النجارکے بقول یہ کتاب قرآن مجید کے مختلف موضوعات اوراسلامی ثقافت اورتاریخ کے اہم پہلوؤں کو عمدہ منہج اوراسلوب ِبحث سے پیش کرنے میں اپنی نوعیت کا منفرد اوربالکل نئے طرز کا کارنامہ ہے۔(۹)

لیکن اس کے باوجود ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ یہودی مستشرقین کا ایک خاص مزاج ہوتا ہے کہ وہ مکر اوربرائی کے راستوں سے بڑی صفائی سے گذرنے کافن رکھتے اور قاری کی طبیعت کو اپنے نظریات سے شناسائی بہم پہنچانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔مدح وتوصیف سے سفر شروع کر کے مخفی طریقوں سے پے بہ پے شبہات وارد کرتے ہیں۔(۱۰)غرض مخفی شکوک وابہام پیدا کرنے میں صیہونی مزاج ایک معروف ومسلّم پس منظر رکھتا ہے ۔یہی غیر تحقیقی مزاج گولڈ زیہر کی تحقیقات میں بھی جا بجا ملتا ہے۔

اگرچہ گولڈ زیہر کے نص قرآنی اور قرا ء ات کے حوالہ سے پیش کردہ اعتراضات کے اجمالی سطح پر رد کے لیے متعدد عربی مقالات وتالیفات سامنے آئی ہیں، مثلاً ڈاکٹر عبدالحلیم النجار نے ’مذاہب التفسیر الاسلامی‘ کے حواشی میں گولڈ زیہر کے نظریات کا خوب رد کیا ہے۔(۱۱) ڈاکٹر عبدالوہاب حمودہ نے اپنی کتاب ’القراء ات واللہجات‘میں دسویں فصل اسی کے لیے مخصوص کی ہے۔(۱۲) شیخ عبدالفتاح القاضی نے اس حوالہ سے انتہائی علمی کتاب’القراء ات فی نظر المستشرقین والملحدین‘ لکھی۔(۱۳)ڈاکٹر عبدالفتاح اسماعیل شلبی نے ’رسم المصحف العثمانی وأوھام المستشرقین فی قراء ات القرآن الکریم،دوافعہا ودفعہا‘‘ اسی مقصد کے لیے تالیف کی۔(۱۴) ڈاکٹر ابراہیم عبدالرحمن خلیفہ نے ’دراسات فی مناہج المفسرین‘میں ایک طویل فصل گولڈ زیہر کے رد کے لئے مخصوص کی۔(۱۵) عبدالرحمن السید نے ایک مقالہ بعنوان’جولد تسہیر والقـراء ات‘تحریر کیا۔(۱۶) اس کے علاوہ طاہر عبدالقادر الکردی نے ’تاریخ القران وغرائب رسمہ وحکمہ‘میں بھی مختصراً اس پر کلام کیا ہے۔(۱۷)آمدہ صفحات میں ہم گولڈزیہر کی کتاب ’مذاہب التفسیر الاسلامی‘ میں وارد قراء ات ِقرآنیہ پر مبنی ایک اہم شبہ کا نقد وتجزیہ پیش کریں گے۔

اختلافِ قراء ات…نصِ قرآنی میں سبب اضطراب


گولڈزیہر نے قرآنی نص کو محلِ اضطراب اور غیر ثابت متن قرار دینے کے لیے قراء ات کو اپنا ہتھیار بنایا ہے اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ تمام تشریعی کتب میں سے قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کو سب سے زیادہ اِضطراب اور عدمِ ثبات کاسامنا کرنا پڑا، اس نے دیگر کتب سماویہ سے قرآن کا تقابل کرتے ہوئے نصِ قرآنی کی بابت زیادہ شبہات پیش آنے کا نظریہ قائم کیا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں:

’’لایوجد کتاب تشریعی اعترفت بہ طائفۃ دینیۃ اعرافاً عقدیا علی أنہ نص منزل أو موحی بہ یقدم نصہ فی أقدم عصور تداولہ مثل ہذہ الصورۃ من الاضطراب وعدم الثبات کما نجد فی نص القرآن‘‘(۱۸)

یعنی کسی بھی مذہب کے عقیدہ کی آسمانی یا الہامی کتاب جس کی نص کو موجودہ دور میں سب سے زیادہ اضطراب اورعدمِ ثبات کا مسئلہ درپیش ہے وہ قرآنی نص ہے۔

ہم اس شبہ کا جواب دینے سے قبل یہ وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے اشکالات ملحدین بہت پہلے سے کرتے چلے آرہے ہیں اور اہلِ علم ان کا بڑی شدومد سے جواب بھی دے چکے ہیں۔نصِ قرآنی کی عدمِ توثیق کے حوالہ سے بنیادی طور پر ابن قتیبہ (م۲۷۶ھ)نے متفرق بنیادی شبہات کا اصولی رد کردیا ہے اور اس اعتراض پر تفصیلی کلام کیا ہے۔(۱۹)

ہمارے خیال میں مستشرق موصوف کا یہ دعویٰ دولحاظ سے بڑاتعجب خیز ہے:

(١) گولڈزیہر نے سابقہ شریعتوں کی کتب کو ان کی اصلی نصوص میں نہیں دیکھا توکیسے حکم لگا سکتا ہے کہ ان میں قرآن کی طرح متعدد قراء ات ووجوہ نہیں تھیں۔

(٢) جبکہ اسی باب میں گولڈزیہر تلمود،تورات کے ایک ہی وقت میں کثیر زبانوںمیں نازل ہونے کا قول اختیار کرتا ہے۔(۲۰)

غرض گولڈ زیہر کا یہ اعتراض تاریخی اور عقلی ہر دو اعتبار سے باطل ہے جس پر دلائل پیش کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ نصِ قرآنی کو کسی قسم کا کوئی اضطراب یا عدمِ ثبات پیش نہیں آیا،کیونکہ اِضطراب اور عدمِ ثبات کا مطلب یہ ہے کہ کسی نص کو مختلف وجوہ اورمتعدد صورتوں پر اس طور پڑھا جائے کہ ان صورتوں کے مابین معنی اورمراد ایک دوسرے کے منافی اورمعارض ہوں یا ان کا ہدف ومقصود بالکل مختلف چیزیں ہوں اور وہ مفہوم ایسا ہو کہ روایات سے اس کا ثبوت بھی نہ ہو،لیکن اگر نص میں وارد ہونے والی مختلف صورتیں متواتر روایات پر مبنی ہوں اورمعنی میں بھی تضاد واقع نہ ہوتو اس کو اضطراب یا عدمِ ثبات نہیں کہا جاتا۔جبکہ قرآن میں موجود وجوہ اورصورتیں ہر قسم کے تناقض سے پاک ہیں اورنہ ہی ان کے معانی میں تعارض وتضاد ہے بلکہ وہ تمام صورتیں ایک دوسرے کو ظاہراورثابت کرتی ہیں۔(۲۱)

قرآن کی معتمد قراء ات ،بسا اوقات، ایک ہی نص میں مختلف ہوتی ہیں، لیکن ان سب کی نسبت چونکہ مصدرِ اصلی (رسول اللہﷺ)کی طرف ہوتی ہے لہٰذا وہ تمام صورتیں بھی قرآن ہیں، کیونکہ آپﷺ کے بقول قرآن سات حروف پرنازل ہوا ہے اورآپﷺنے اجازت دی کہ جس میں سہولت ہو وہی اختیار کرلو۔(۲۲)

بعض عیسائیوں نے غالباً اپنی کتاب میں بے شمار تحریفات اور انجیل کے مختلف نسخوں میں اختلافات کو قرآنی قراء ات کی طرح قراردیتے ہوئے یہ کہا کہ :

إننا مختلفون فی قراء ۃ کتابنا فبعضنا

یزید حروفا وبعضنا یسقطہا(۲۳)​

اس کے جواب میں علامہ ابن حزم رحمہ اللہ(م۴۵۶ھ)نے قرآنی قراء ات کے اختلاف کی نوعیت کو اس طرح بیان کیا ہے:

’’فلیس ہذا اختلافا،بل ہو اتفاق منا صحیح؛ لان تلک الحروف وتلک القراء ات کلہا مبلغ بنقل الکواف إلی رسول اﷲ ﷺ إنہا نزلت کلہا علیہ؛ فأی تلک القراء ات قرآنا فہی صحیحۃ وہی محصورۃ کلہا مضبوطۃ معلومۃ لازیادۃ فیہا ولا نقص؛ فبطل التعلق بہذا الفصل وﷲ الحمد‘‘(۲۴)

امام قرافی رحمہ اللہ نے نصاریٰ کے اس زعم کے جواب میں کافی طویل بحث کی ہے جس میں انہوں نے انجیل اورقرآنی آیات کے درمیان فروق کوواضح کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ قراء اتِ مختلفہ کی اِجازت کا پس منظر قبائل ِعرب کی مختلف لغات تھیں،کوئی امالہ کرتا تو کوئی تفخیم،کسی کی لغت میں مدہے کسی میں قصر،کسی کے نزدیک حروف میں جہر ہے توکسی کے نزدیک اخفاء ۔اگر سب کو ایک ہی لغت کا مکلف قرار دیاجاتا تو ان کو مشقت اٹھانی پڑتی ،اس مشقت کو دور کرنے کیلئے قراء ات نازل ہوئیں اور یہ سب کی سب نبیﷺسے متواتر طریقہ سے مروی ہیں۔سو ہمیں ان تمام قراء ات پر اعتماد ہے کہ یہ من جانب اللہ ہیں اور رسول اللہﷺکے دہن مبارک سے نکلی ہوئی ہیں۔اس کے برعکس عیسائی اپنی اناجیل کے مصنفین کو عادل راویوں کے ذریعہ ثابت کرنے سے بھی قاصر ہیں۔اس لحاظ سے عالمِ عیسائیت کے پاس انجیل کے کسی حرف کے بارے میں یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اللہ کاکلام ہے لہٰذا انجیل کے حاملین ، مسلمانوں کے قرآن کے اصول وقواعد کا اپنی کتاب پر اطلاق کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔(۲۵)

غرضیکہ اختلافِ قراء ات ،اضطراب اورعدمِ ثبات کے قبیل سے نہیں بلکہ یہ سب قراء ات ہمیں یقینی طور پر رسول اللہeسے بطریقِ تواتر وصول ہوئی ہیں اور ان میں سے ہر قراء ت قرآن ہے۔لہٰذا گولڈزیہر کا یہ شبہ کسی طرح کی عقلی ونقلی دلیل سے قطعاً عاری ہے اور اگر یہ قرآن کسی غیر کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت زیادہ اختلاف ہوتا، لیکن چونکہ یہ اللہ کا کلام ہے اس لئے اختلافات سے پاک ہے۔ تاہم اختلافِ قراء ات کی نوعیت سے واقفیت نہایت ضروری ہے۔

قراء ات کا اختلاف اس اختلاف کے قبیل سے نہیں جس میں تضاد یاتناقض پایا جاتا ہے بلکہ یہ اختلاف،تغایر اورتنوع کاہے جو قرآنی اعجاز کی علامت ہے ۔ ابن قتیبہa(م۲۷۶ھ)اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’الاختلاف نوعان: اختلاف تغایر،واختلاف تضاد فاختلاف التضاد لایجوز،ولیست واجدہ بحمد اﷲ فی شئ من القرآن الا فی الامر والنہی من الناسخ والمنسوخ واختلاف التغایر جائز‘‘(۲۶)

تغیر وتنوع کا یہ اختلاف قرآنی قراء ات میں موجود ہے اور ہر قراء ت ایک مستقل آیت کے حکم میں ہے یقینا یہ اختلاف’ایجاز‘ کو واضح کرتاہے۔قرآن کا سارا مزاج ارشادوتعلیم کے اسی راستہ پر چلتا ہے۔(۲۷)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’ولا نزاع بین المسلمین أن الحروف السبعۃ التی أنزل القرآن علیہا لا تتضمن تناقض المعنی وتضادہ، بل قد یکون معناہا متفقاً أو متقارباً،کما قال عبد اﷲ ابن مسعود: إنما ہو کقول أحدکم: اقبل، وھلم وتعال‘‘(۲۸)

قراء ات کے مابین اختلاف کی ممکنہ صورتیں


قراء ات کے مابین اختلاف تین حال سے خالی نہیں ہوتا:

(١) لفظ مختلف ہوں اور معنی متحد۔

(٢) لفظ اورمعنی دونوں مختلف ہوں، لیکن تضاد کے بغیر ایک مفہوم میںجمع ہوں۔

(٣) لفظ اورمعنی مختلف ہوں ،ایک شے میں اجتماع بھی ممکن نہ ہو،لیکن ایک دوسری وجہ سے تضاد کے بغیر جمع ہوجائیں۔

تنوعِ قراء ات کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں:


(١) رَبَّنَا بَاعِدْاوربَاعَدَ (۲۹)

(٢) اِلَّا اَنْ یُّخَافَا الّا یُقِیمَا اور الَّا اَنْ یَخَافَا الا یقِیْمَا (۳۰)

(٣) وَاِنْ کَانَ مَکْرہم لِتَزُوْلُ اور لِتَزُوْلَ مِنْہُ الْجِبَال (۳۱)

(٤) یخدعون اوریخادعون(۳۲)

(٥) یَکْذِبُوْنَ اور یُکَذِّبُوْنَ(۳۳)

(٦) لمستُمْ اورلامستم(۳۴)

(٧) حَتّی یَطْہُرْنَ اور یَطَّہَرْنَ(۳۵)

ہر قراء ت دوسری قراء ت کے لیے ایسی ہی ہے جیسے ایک آیت دوسری آیت کے لیے،ہر ایک پر ایمان واجب ہے اور جو معنی وہ قراء ات رکھتی ہیں اس کا اتباع بھی واجب ہے ۔ تعارض کا گمان کرتے ہوئے دووجوہ میں سے کسی ایک کو ترک کرنا جائز نہیں بلکہ خود حضرت عبد اللہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’من کفر بحرف فقدکفر بہ کلہ‘‘(۳۶)

جن قراء ات میں لفظ اورمعنی دونوں متحد رہتے ہیں ان کا تنوع دراصل کیفیت ِنطق میں ظاہر ہوتا ہے مثلاً: ہمزات، مدات،امالات اورنقلِ حرکات،اظہار،ادغام،اختلاس،لام اور راء کو باریک کرنا یا موٹا کرناوغیرہ جن کو قراء ’اصول‘کہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں کوئی تناقض اورتضاد نہیں ہوتا،کیونکہ ایک لفظ کی ادائیگی کے مختلف طریقے لفظ کو مختلف نہیں بناتے بلکہ لفظ بدستور اسی طرح رہتا ہے اوربسااوقات اَدائیگی کے انہی طریقوں سے متعدد معانی نمودار ہوتے ہیں جو رسم میں متحد ہونے کے باوجود متنوع معانی کے حامل ہوتے ہیں۔(۳۷)

غرض جملہ قراء ات حق ہیں اور ان کا اختلاف بھی حق ہے،اس میں کوئی تضاد اورتناقض نہیں ۔قرآن مجید ہر تحریف وتبدیلی یا اضطراب واختراع سے پاک واحد کتاب ہے جس کا تقابل دنیا کی کوئی کتاب نہیں کر سکتی۔چنانچہ یہ دعویٰ برمحل ہوگا کہ قرآن ہی وہ واحد کتاب ہے جس کی نص کو اضطراب اورعدمِ ثبات پیش نہیں آیا اورباقی تمام کتب تحریفات کا شکار ہوئی ہیں اور اس حقیقت کے دونوں پہلوؤں کے دلائل مختصر انداز سے تحریر کر دئیے گئے ہیں۔

قرآن کے متعدد متون اور عدم وحدت


گولڈزیہر اپنی کتاب میں مختلف قراء ات پر تنقید اور ان کو قرآنی متن میں سبب ِاضطراب قرار دینے کے ساتھ ساتھ یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ مختلف قراء ات دراصل قرآن کے متعدد متون ہیں اور تاریخِ اسلامی کے کسی دور میں نصِ واحد کے ساتھ قرآن منظرِعام پر نہیں آسکاماسوا چند اقدامات کے جن کا اثر مستقل نہیں رہا۔ اس ضمن میں وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے جمع قرآن کے کارنامہ کو نصِ قرآنی کی وحدت کی طرف اہم قدم قراردیتا ہے ،لکھتاہے:

’’وفی جمیع الشوط القدیم للتاریخ الإسلامی لم یحرز المیل إلی التوحید العقدی للنص إلا انتصارات خفیفۃ‘‘(۳۸)

اس شبہ کاحاصل دوچیزیں ہیں:

٭ قراء اتِ مختلفہ قرآن کے متعدد متون ہیں، لہٰذا قرآن ایک نہیں ہے۔

٭ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کو ایک کر دیا۔

گولڈزیہر اپنے شبہا ت میں تدریجی رنگ اختیار کرتے ہوئے اوّلاً نصِ قرآنی کو مضطرب گردانتاہے پھر جمعِ عثمانی سے ماقبل مصاحف کا مصحفِ عثمانی سے تقابل کرتا ہے جس کے بعد اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قرآن کے مختلف Versionsہیں۔اس کے بعد مذکورہ بالا شبہ پیش کیا جوسابقہ شبہات کا ہی تسلسل ہے۔

گولڈزیہر کے نزدیک مسلمان ہمیشہ قرآنی نص کی وحدت کی طرف رغبت رکھتے تھے لیکن ان کی یہ خواہش بارآور ثابت نہیں ہوسکی البتہ دورِ عثمانی میں کچھ کامیابی حاصل ہوئی۔ یہاں یہ واضح رہے کہ گولڈزیہر بھی دیگر مستشرقین کی طرح دلائل سے قطع نظر پہلے سے طے شدہ نظریات ہی کو اپنا واحد وظیفہ بناتاہے۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ان دعووں پر اس نے کوئی دلیل پیش نہیں کی۔بہرطور جواباً چند نکات ملاحظہ ہوں:

٭ کسی ایک مسلمان سے بھی یہ ثابت نہیں کہ اس نے کبھی یہ خیال کیا ہو کہ قرآن کریم کی کئی نصوص ہیں،ان کو ایک کر دیا جائے اوراگر ایساہوتا تو ہم تک یہ بات ضرور پہنچتی۔

٭ خلیفۂ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف کی جو کتابت کروائی اور ان کو مختلف ممالک ِاسلامیہ کی طرف اِرسال کیااورلوگوں کو اس پرمامور کیا ،اس کا باعث توحیدنصِ قرآنی کی طرف میلان نہیں تھابلکہ تمام مسلمانوں کو قراء اتِ ثابتہ پر اکٹھا کرنے کی رغبت تھی تاکہ متواتر قراء ات کے علاوہ قراء ات کا خاتمہ ہو اورامت پر آسانی اورسہولت ہوجائے۔(۳۹)

٭ مصاحف میں قرآن کی کتابت کا سبب یہ تھا کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اہلِ حمص،اہلِ دمشق اور اہلِ کوفہ وبصرہ کی یہ خبر پہنچی کہ ان میں سے ہر ایک اپنی قراء ت کو دوسرے کی قراء ت سے بہترکہتا ہے اورلوگ نزاع میں مبتلا ہورہے ہیں تو اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے تقریباً بارہ ہزار کی تعداد میں صحابہ رضی اللہ عنہم جمع ہوئے اور یہ رائے دی کہ لوگوں کو ایک مصحف پرجمع کردیاجائے۔چنانچہ خلافتِ ابو بکررضی اللہ عنہ میں جمع کردہ مصحف کو ، جو اس وقت حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا،منگواکرحضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور ایک جماعت کوحکم دیا کہ وہ اس سے عرضۂ اَخیرہ کالحاظ رکھتے ہوئے مصاحف تیار کریں۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان مصاحف کی تیاری کے بعدہرمصحف کے ساتھ ایک ایک قاری بھی مختلف شہروں میں بھیجا تاکہ وہ رسمِ مصحف کے مطابق متواتر قراء ات کی تعلیم دے۔ اس طرح ان علاقوں میں تابعین حفاظ کا ایک جمِ غفیر پیداہوگیاجوصحابہ رضی اللہ عنہم کے براہِ راست شاگردتھے۔

قاضی ابوبکر باقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

’’لم یقصـد عثمان قصـد أبی بکر فـی جمـع القرآن بین لوحیـن،وإنما قصـد جمعہـم علی القراء ات الثابتۃ المتواترۃ المعروفۃ عن النبی ﷺ والغاء مالیس کذلک ‘‘(۴۱)

’’یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کامیلان اور قصد قرآن کو دوتختیوں میں جمع کرنا نہیں تھا بلکہ متواتر اورثابت قراء ات کاجمع وتحفظ مقصودتھاجوپوراہوا۔‘‘

٭ حافظ ابوعمروالدانی رحمہ اللہ کاقول ہے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت نے باطل اورغیر معروف قراء ات کی گنجائش کومصحف سے نکال باہر کیااورصرف منقول اورمتواتر قراء ات کومحفوظ کر دیا۔مزید لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کایہ فعل اورقصد حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے قصد، قرآن کو دوگتوں میں محفوظ کرنے، کی طرح نہ تھا بلکہ یہ قراء ات ِثابتہ کوجمع کرنا تھا۔(۴۲)

٭ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآنی متن کونقاط اوراعراب سے خالی رکھا جس سے معلوم ہوتاہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کامیلان اوررغبت لوگوں کو متواتر قراء ات پرجمع کرنا تھا اورمنسوخ وشاذ قراء ات سے چھٹکارا دیناتھا۔(۴۳)

٭ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قصد توحیدنصِ قرآنی ہوتا تو وہ مصاحف کو ایک ہی صورت میں لکھواتے اور ان کے مابین کوئی اختلاف بھی موجودنہ ہوتا۔پس مختلف صورتوں اورمتعددکیفیات پر اس کی کتابت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے توحید نصِ قرآنی کاارادہ نہیں کیا بلکہ بطریقِ تواتر منقول قراء ات پر لوگوں کوجمع کرنا مقصود تھا۔(۴۴)بالفرض اگر انہوں نے نص کو ایک کیا ہے تو یہ مروجہ قراء اتِ مختلفہ کیا ہیں؟

 

مصاحف اور قرا ء ات کے مطالعہ میں جیفری کا نظریہ ارتقاء


مشہورمستشرق آرتھرجیفری نے مصاحف عثمانیہ سے قبل بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول قراء ات (جنہیں وہ مصاحف شمار کرتاہے)پرنقدوجرح کی غرض سے ابن ابی داؤد(م۳۱۶ھ)کی’کتاب المصاحف‘ کاانتخاب کیا۔ جس سے اس کامقصد قرآنی نص کومضطرب اورمشکوک انداز میں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے متعدد متون میں ارتقاء ثابت کرناہے۔ہم اس بحث میں آرتھر جیفری کے منہجِ تحقیق وتنقید پر اُصولی بحث کرتے ہیں تاکہ قارئین کو اندازہ ہوسکے کہ دراصل تحقیق میں دیانتدارانہ طریقۂ کار کبھی بھی مستشرقین کے حصہ میں نہیں آیا۔

جیفری کے منہجِ تحقیق کی تقییم


٭ آرتھرجیفری نے اس کتاب کی Editingکیلئے نسخۂ ظاہریہ پر اعتماد کیا ہے اور اس کا تقابل دارالکتب المصریۃ والے مخطوط سے کیا ہے ،حالانکہ مؤخر الذکر نسخہ ،نسخہ ظاہریہ سے ہی نقل کیاگیا ہے اور دراصل یہ دونوں ایک ہی نسخہ کی دوشکلیں ہیں نہ کہ دوالگ الگ نسخے۔ اس کے باوجود مستشرق موصوف نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ متقابل نسخہ ہے۔(۴۵)

٭ جیفری نے اپنے مقدمہ میں اس نسخہ کے پہلے ایک دو اَوراق کے سقوط کاذکر کرتے ہوئے جس گمان کا اِظہار کیا ہے وہ اس کے پہلے سے طے شدہ نتائج کی بھر پور غمازی کرتا ہے۔اس کے زعم میں اس کتاب کے اصل نسخہ سے کئی صحف ساقط ہیں خصوصاً ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قراء ات اورطلحہ بن مصرف رضی اللہ عنہ کی قراء ات پر مشتمل فصول (۴۶) حالانکہ یہ گمان بلا دلیل ہے۔

٭ مقدمہ کے آخر میں جہاں ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کے کچھ حالات ذکر کیے گئے ہیں، وہیں مخطوط نسخہ میں بعض سماعات کابھی ذکر کیاگیا ہے جن میں سے بہت زیادہ تعداد میں سماعات کو جیفری نے ترک کیا ہے۔اس کی وجہ سماعات کی اہمیت،فوائد اوران کے نتائج ومقاصدسے ناواقفیت ہے۔(۴۷)

٭ ہمیشہ کسی مخطوط کی تحقیق اس اصول کی روشنی میں ہوتی ہے کہ مصنفِ کتاب کی اصل عبارت جوں کی توں رہے اور محقق کے وضاحتی نوٹس بریکٹس(<>undefined</>)یا حاشیہ میں جگہ پائیں،لیکن آرتھرجیفری نے اس کے برعکس کتاب المصاحف کی تحقیق میں اس اہم اصول سے عدول کرتے ہوئے کئی مقامات پر متن کتاب میں اَبواب کے اِضافے کیے ہیں۔مثلاً مخطوط نسخہ کے مطابق آغاز کسی اثر کی سند سے ہورہا ہے جس کا پہلاحصہ حذف ہے، لیکن جیفری نے اپنی طرف سے باب کا عنوان باندھا ہے مثلاً’’باب من کتب الوحی لرسول اﷲ ﷺ‘‘ اسی طرح کتاب کے مزید کئی مقامات پر اس روش پر عمل کرتے ہوئے عنوان کے ساتھ باب کااضافہ کیاگیا ہے۔مثلاً مصنف کے عنوان’’جمع ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ القرآن فی المصاحف بعد رسول اﷲ ﷺ‘‘(۴۸)سے قبل ’’باب من جمع القرآن‘‘ کااضافہ کیا ہے۔اسی طرح اثر نمبر ۳۴۴سے پہلے اپنی طرف سے ’’ما اجتمع علیہ کُتّاب المصاحف‘‘ عنوان کا اضافہ کیا۔(۴۹)

لطف کی بات تویہ ہے کہ جیفری کی تحقیق کے دوران چند ایسے مقامات بھی نظر سے گذرے ہیں جہاں لفظ باب کی کوئی ضرورت نہیں تھی، لیکن اس کو رقم کرنے میں حرج نہ سمجھاگیا ۔شاید اس کی وجہ مخطوطہ کی تصحیح سے زیادہ صاحب کتاب کی تصحیح مقصود تھی مثلاً ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کے عنوان’’اختلاف خطوط المصاحف‘‘(۵۰)کو’’باب اختلاف خطوط المصاحف‘‘لکھاگیا ہے۔

٭ متعددمقامات پر اپنی طرف سے کلمات کے بے جا اضافہ جات بھی جیفری کے منہجِ تحقیق کو غیر محکم اورپرنقص بناتے ہیں،غالباً جیفری نے ان کلمات کااِضافہ کسی’اثر‘کے معنی کی تکمیل کی غرض سے کیا ہوگا،لیکن حقیقت میں درست مفہوم زیادتی کلمہ کے بغیر زیادہ درست اورواضح تھااورعین مخطوطہ کے الفاظ ہی حقیقی اورمعنی کی تکمیلی شکل تھے۔ مثال کے طور پر اثرنمبر۲۶ میں جیفری نے حرف ’’فی‘‘کااضافہ ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کی عبارت ’’فنسخہا عثمان ہذہ المصاحف‘‘میں’’فی ہذہ المصاحف‘‘(۵۱)کے ساتھ کیا ہے حالانکہ علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے اسی اثر کو’فی‘کے بغیر ذکر کیاہے اور وہی صحیح ہے۔(۵۲)

٭ کتاب المصاحف میں مذکور بعض آثار کی اسناد بیان کرنے میں بھی جیفری سے بہت زیادہ اغلاط سرزد ہوئی ہیں جو یقینا تحریف کے زمرے میں آتی ہیں۔مصادر ومراجع کی قطعیت (Authenticity) جس طرح مستشرقین کے نزدیک غیر اہم ہے، جس کی بناء پرعموماً ان کے ساتھ غیرمحققانہ رویہ روا رکھا جاتا ہے، اور مسلم علماء ومحققین ان کی نام نہاد تحقیقات کو قابل اعتناء نہیں گردانتے، اسی طرح اس کتاب کی تحقیق میں بھی غیر محتاط اور غیر سنجیدہ اُسلوب اختیار کیاگیا ہے ۔ہمیں مستشرق موصوف کی عربی لغت میں عدمِ مہارت کا بخوبی احساس ہے، لیکن اس قدر حساس اور نازک موضوع پر جسارت سے قبل کم از کم اس کااحساس ضروری تھا جس کا لحاظ نہیں رکھاگیا۔

٭ محقَق نسخہ میں کئی مقامات پر باہم مشابہ حروف کو ایک دوسرے کی جگہ لکھ دیا گیا ہے مثلاً: اثرنمبر۳۱۶ میں مصنف کاقول ہے:’’والحسن بن أبی الربیع أن عبد الرزاق‘‘کو مستشرق نے’’بن عبد الرزاق‘‘کردیا ہے۔(۵۳)

اسی طرح اثرنمبر ۴۱۴میں ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کاقول ہے:’نا محمد نا شعبۃ‘جبکہ جیفری نے ’محمد بن شعبۃ‘ لکھا ہے۔(۵۴)اس میں پہلے ’نا‘کو غیر ضروری سمجھ کر حذف کردیاگیا اوردوسرے ’نا‘ کو ’بن‘ کر دیاگیا۔ حالانکہ حدیث کی اصطلاح میں یہ الفاظ ’حدثناوأخبرنا‘کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔

اثرنمبر ۴۲۴میں مصنف کا قول ہے: ’محمد عن سفیان‘‘میں مستشرق موصوف نے اس کو ’محمد بن سفیان‘کردیا ہے۔(۵۵)

٭ اکثر مقامات پر جیفری نے آثارِ منقولہ کے رجال کی تعیین میں خطا کی ہے مثلاً وہ عموماً کہتا ہے ’لعلہ فلانٌ‘یعنی شاید یہ وہ ہیں حالانکہ صحیح اس کے علاوہ کوئی اور ہوتا ہے۔ مثلاً اثرنمبر ۳۲۱میں ’’عن (یونس)‘‘کے متعلق کہتا ہے کہ اس سے مراد ابن حبیب رحمہ اللہ ہیں جبکہ صحیح یہ ہے کہ وہ یونس بن یزید الدیلی رحمہ اللہ ہیں۔(۵۶) اسی طرح کی غلطی اثرنمبر ۵۱۸ میں بھی ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔(۵۷)

٭ ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کے چچا کی تعیین میں جیفری سے سخت غلطی ہوئی ہے اس کے نزدیک ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کے چچا یعقوب بن سفیان رحمہ اللہ ہیں جن کا ذکر کئی مقامات پر آیا ہے۔(۵۸)جیفری کی اس خطاء کا سبب اس کاعبارت نقل کرنے میں غیر محتاط اسلوب ِتحقیق ہے،چنانچہ اس نے مولف کے اس قول ’’حدثنا عمی ویعقوب بن سفیان‘‘میں’عمی‘ کے بعد واؤ عاطفہ کو حذف کر دیا ہے جس کے نتیجے میں اس کویہ گمان ہوا کہ یعقوب رحمہ اللہ مولف کے چچا ہیں حالانکہ صحیح بات یہ ہے کہ یعقوب رحمہ اللہ، ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کے شیخ تھے اور آپ کے چچا محمد بن الاشعث السجستانی رحمہ اللہ ہیں۔(۵۹)

ہم یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری سمجھتے ہیں کہ باشعور قاری کے لیے کسی درست نتیجہ تک پہنچنے کے لیے سند کا کس قد ر اہم کردار ہوتا ہے اور اگر وہی غیر صحیح اور محرف حالت میں ہو تو روایت سے وہ نتائج اخذ نہیں ہو سکتے اور نہ ہی وہ کوئی ٹھوس حقیقت یا دعویٰ کی صورت اختیار کرتی ہے ۔ سلسلۂ سند میں رجال کی معرفت اور اس کا ایصال صحیح سلسلوں سے مؤکد ہونا سب سے ضروری ہوتا ہے،جس کے اِدراک سے جیفری قطعاً عاری نظر آتا ہے۔

٭ Materialsمیں مختلف قراء ات ِقرآنیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے جیفری نے ’’دلنا بدل اھدنا‘‘ کی بجائے ’’دلنا یدک اھدنا‘‘لکھا ہے۔(۶۰)بقول ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری’’ جب تک جیفری اپنے مصادر کا تعین نہ کرے کہ وہ یہ الفاظ کہاں سے لے رہا ہے اس وقت تک حصولِ اطمینان محال ہے۔‘‘(۶۱)

٭ ایک محققِ کتاب کے لیے یہ بھی ضروری ہوتاہے کہ صاحب کتاب کے ان اَقوال وروایات پر بھی بحث کرے جو جمہور علماء کے خلاف ہوں یا جن کی سند میں نقص ہو،صاحب کتاب کے متضاد اورغیر منطقی اَقوال ودلائل پر بھی کڑی نظر رکھتے ہوئے ان کی نشاندہی کرے۔چنانچہ بالغ النظر اوردیانتدار محقق ہمیشہ ان اُصول وقواعد کومدنظر رکھتا ہے، لیکن بدقسمتی سے جیفری ان اصولوں کی پاسداری نہیں کر سکا۔ہم اس کی وجوہات ذکرکرنے کی بجائے ان چند مقامات کی نشاندہی کئے دیتے ہیں جو ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کی ’کتاب المصاحف‘میں ایک عام فہم آدمی کے نزدیک بھی قابلِ گرفت شمار ہوتے ہیں۔لیکن جیفری نے ان سے تغافل برتا ہے۔

٭ جیفری ، ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کی استعمال کردہ ’مصحف یا مصاحف‘کی اصطلاح کو واضح نہیں کر سکا اورنہ ہی اس بات کو ذکر کیا ہے کہ ابن ابی داؤدرحمہ اللہ اس کو کتنے معانی ومفاہیم میں استعمال کرتا ہے۔(۶۲)مثلاً اس نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی جانب منسوب مختلف قراء ات کو مصحف کے عنوان سے بیان کیا ہے،اسی طرح مصحف کو حرف یا قراء ت کے معانی میں بھی استعمال کیا ہے۔(۶۳) لہٰذا اس اصطلاح سے قطعی طور پر یہ مفہوم اخذ کرنا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے مصاحف جمع تھے،بذاتِ خود دومختلف معنوں کا شبہ پیداکرتاہے: اوّل:اس سے مراد صحابہ رضی اللہ عنہم سے منقول زبانی روایات ہیں۔(۶۴) دوم: تحریری شکل میں نسخے موجود تھے۔

پہلی رائے کے دلائل کی موجودگی کے باوجود جیفری نے دوسری رائے پر ہی اصرار کیا ہے اور اس کی بنیاد پر ان کو ’مقابل قرآن ‘کا عنوان دیا ہے۔

٭ مختلف اورمتناقض روایات کو ذکر کرتے ہوئے ابن ابی داؤدرحمہ اللہ نے’’باب اختلاف مصاحف الصحابۃ‘‘ کے تحت لکھا ہے:

’’إنما قلنا مصحف فلان لما خالف مصحفنا ہذا من الخط أو الزیادۃ أو النقصان‘‘(۶۵)

’’ہم جب کہتے ہیں فلاں کا مصحف ،تو وہ دراصل خط کی وجہ سے ہمارے مصحف کے مخالف ہوتا ہے یا زیادتی یا نقصان کی وجہ سے۔ ‘‘

غالباً جیفری نے اسی عبارت سے Rival Codexیا مقابل مصاحف کے نظریہ کا استدلال کیا ہے حالانکہ خط کی مخالفت کی وجہ سے اگر یہ مان لیا جائے تو زیادتی ونقصان کی اِمکانی توجیہات کو قبول نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ایسے مصاحف کو صحابہ رضی اللہ عنہم کی جانب منسوب کیا جا سکتا ہے جبکہ طرزِ روایت بھی کمزور ہو۔

بالفرض اگران روایات کی صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف نسبت کو صحیح بھی مان لیا جائے تب بھی وہ تفسیری روایات یا شاذ قراء ات کے درجہ میں رہتی ہیں۔ ان روایات میں زیادہ اختلافات قرآنی سورتوں کی ترتیب کے ملتے ہیں جو دراصل صحابہ رضی اللہ عنہم کے ان سورتوں کے درجہ بدرجہ میسر آنے کے لحاظ سے فطری طور پرواقع ہوئے ہیں۔لہٰذا مستشرق موصوف کو کسی بھی طرح روا نہ تھا کہ’مقابل قرآن‘ کاعنوان قائم کر تا بلکہ اس کو چاہئے تھا کہ وہ ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کے اس منہج کو تنقید کا نشانہ بناتا۔(۶۶)

٭ ابن ابی داؤدرحمہ اللہ نے ’مصحف ِعمر بن خطابt ‘کا عنوان قائم کیا ہے۔(۶۷) جس کو دیکھتے ہی یہ تاثر ملتا ہے کہ حضرت عمرtنے پورا قرآن علیحدہ طور پر جمع کیا تھا، لیکن تین آیات میں صرف تین صورتوں کا ذکر کر نے کے بعد یہ مصحف اختتام پذیر ہوجاتا ہے۔(۶۸)ایسی صورت میں ایک عقلمند شخص کسی بھی طرح تین اختلافی وجوہ کی بناء پر کسی صحابی رضی اللہ عنہ کوکسی مستقل مصحف کا حامل نہیں گردان سکتااور نہ ہی اس سے مصحف امام کے ساتھ تقابل کی منطق سمجھ میں آتی ہے، لیکن جیفری ان کو مقابل مصحف کا حامل گرداننے پر مصر ہے۔(۶۹)

٭ اس سے بھی زیادہ قابلِ تعجب بات یہ ہے کہ مصحف ِعمررضی اللہ عنہ کے بعد ’مصحف ِعلی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ‘میں صرف ایک روایت ذکر کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ’’آمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْہِ مِنْ رَبِّہِ وَالْمُوْمِنُوْنَ‘‘(۷۰)کو اس طرح پڑھتے تھے’’آمن الرسول بما انزل الیہ وآمن المومنون‘‘(۷۱)ظاہر ہے کہ ابن ابی داؤدرحمہ اللہ اس سے تفسیری روایات کو واضح کرنا چاہتا ہے، لیکن محقق نے اس کوبھی مصحف گرداناہے۔

٭ واضح رہے کہ بعض مولفین نے ’مصحف ِفلان‘کے لفظ کا اطلاق ان چند قراء ات پر بھی کیا ہے جو کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے منسوب ہوں جیسا کہ حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کی جانب مصحف منسوب کیا ہے حالانکہ وہ قرآن کریم کے مکمل ہونے سے آٹھ سال قبل غزوئہ ِاحد میں شہید ہوگئے تھے۔(۷۲)اس سے معلوم ہوا کہ مصحف کے لفظ کا اطلاق پورے قرآن کے جمع پر ہی نہیں ہوتا بلکہ ایک یا زیادہ روایات پر بھی ہوتا ہے ۔ لہٰذا آرتھر جیفری کے مقابل مصاحف کی حقیقت زیادہ سے زیادہ صرف اس قدر ہے کہ یہ وہ چند قراء ات یا تفسیری اضافے ہیں جن کی استنادی حیثیت سے قطع نظر ان کو صحابہ رضی اللہ عنہم کی جانب منسوب کیا گیا ہے۔یقینا یہ چند روایات ِاحاد ،متواتر قرآن کے مدمقابل قابلِ تسلیم نہیں ہیں۔

٭ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے مصحف کو ’لباب القلوب‘ سے منسوب کیا گیا ہے جس کے ذیل میں صرف چار قراء ات بیان کی گئی ہیں:

(١) ’ابراہیم ‘کی جگہ’ ابراہام‘ (٢) ’لا یعقلون‘ کی جگہ ’لا یفقہون‘

(٣) ’صوافّ کی جگہ ’صوافِیَ‘ (٤) مَنْ قبْلَہُ کی جگہ من تلقاء ہ(۷۳)

صرف چار صورتوں کی بناء پر جن میں دو قراء ات ہیں اور دوتفسیری روایات ہیں ،قطعاً الگ مصحف کو خاص اسم سے منسوب کرنا قرآنی تاریخ میں گھات لگانے کے مترادف ہے۔(۷۴)

جیفری نے کتاب المصاحف کی Editingکے بعد اس کے شروع میں عربی زبان میں ایک مقدمہ اور آخر میں Materials for the history of the text of the Qur`anکے نام سے اپنا مسودہ شامل ِاشاعت کیا ہے ۔ اپنے مقدمہ کی ابتدائی سطور میں اس نے بڑی آسانی سے یہ دعویٰ کیا ہے کہ’’ ہم یہ کتاب قراء کے لیے اس امید پر پیش کر رہے ہیں کہ یہ ان کے لیے قرآنی قراء ات کے ارتقائی تاریخ پر ایک تازہ اور نئی بحث کے طور پر بنیاد ثابت ہوگی۔اگر چہ اس دور میں مشرق کے علماء قرآن کے اعجاز واَحکام کے متعلق بہت سی کتابیں شائع کر رہے ہیں، لیکن وہ ہمارے سامنے قراء ات کے اِرتقائی مراحل کی وضاحت کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ ہمیں یہ بات صحیح طور پر معلوم نہیں ہو سکی کہ مسلمان اس بحث میں تحقیق کرنے سے اس حد تک کیوں گریزاں ہیں،جبکہ فی زمانہ ،ارتقاء کے متعلق ،کتب قدیمہ میں خاص طور پر کئی نزاعات سامنے آرہے ہیں۔ چنانچہ اس کتاب میں جو تبدیلی یا تحریف واقع ہوئی ہے اس حوالہ سے بعض لکھنے والے کامیاب بھی ہوئے ہیں۔‘‘(۷۵)

مستشرق موصوف کے اس بیان کا جو پس منظر راقم کے سامنے آتا ہے وہ درحقیقت اس کا اپنی مقدس کتب کی حقیقتوں سے صحیح معنوں میں روشناس ہونا ہے ، چنانچہ اس کو اس بات کا بخوبی احساس ہے کہ انجیل اپنی اصلی حالت میں موجود نہیں ہے اور اس میں پے بہ پے ارتقاء کے سبب پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے اس کا متن ناقابلِ اعتبار ہوچکاہے۔بالکل شعوری طور رپروہ مسلمانوں کے قرآن کو اپنی کتب کے مساوی حیثیت میں لانے کے لیے یہ جملہ ذکرکر رہا ہے ۔یقینا اس کے بقول جو مصنفین اس’ تحقیق‘ میں کامیاب ہوئے ہیں وہ انجیل کی تحریفات اور اس میں ارتقائی تبدیلیوں کے صحیح تجزیہ نگار ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایسے کام کی نہ تو کبھی ضرورت محسوس ہوئی اور نہ ہی قرآن میں ایسے ارتقاء کی کوئی گنجائش ہے ۔

قرآن کی قراء ات ِ متواترہ نبی کریمﷺسے ثابت و منقول ہیں اور آپﷺوحیِ الٰہی کے بغیر کوئی تبدیلی یا کمی بیشی نہیں کر سکتے تھے جیسا کہ قرآن نے اس کی تصریح کی ہے :

’’قُلْ مَایَکُونُ لِیْ اَنْ اُبَدِّلَہُ مِنْ تِلْقَآئِ یْ نَفْسِیْ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰی اِلَیَّ‘‘(۷۶)

’’کہہ دیجئے کہ مجھے اختیار نہیں کہ میں اس کو اپنی طرف سے بدلوں، میں تو صرف اسی کی اتباع کرتا ہوں کہ جو مجھ پر وحی ہوتی ہے‘‘۔

چنانچہ اللہ کے رسولﷺنے قرآن کریم کے تمام حروف والفاظ جبریل علیہ السلام سے حاصل کر کے ہو بہو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم تک پہنچائے ،اسی طرح صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے بعد والوں کو اور آج تک یہ سلسلہ بغیر کسی تبدیلی یا کمی بیشی کے جاری ہے اور رہے گا۔اس لئے یہ تو ایک ایسی سنت ہے جو نقل در نقل ثابت ہے، چنانچہ مسلمان قراء ات کی تحقیق ووضاحت سے غافل نہیں اور نہ ہی اس کو چھپاتے ہیں بلکہ وہ تو اس حد تک ٹھہرے ہوئے ہیں جو ان کو بطریقِ تواتر موصول ہوئی ہے اور یہیں سے مستشرقین وملحدین کی عدمِ واقفیت کی بھی قلعی کھلتی ہے کہ وہ کس قدر قرآنی قراء ات کے ایصال وترویج اور ان کے تواتر سے بتکلف صرفِ نظر کرتے ہیں۔ آرتھر جیفری کا یہ شبہ، کہ مسلمان علماء اپنی کتاب میں ارتقاء کی بحث سے رکے رہے ہیں،اس کی اس تمنا اورخواہش کو واضح کرتا ہے کہ کاش یہودی اورعیسائی علماء کی طرح مسلمان بھی اپنی کتاب میں تحریف کرتے، لیکن مسلم علماء کی امانت ودیانت اور علم وتحقیق میں ان کا نقل وتواتر پر مدارکتاب اللہ کی حفاظت کا واضح ثبوت ہے۔

جیفری نے کتاب المصاحف کے مقدمہ میں اپنے پیشرو نولڈکے(Noldeke)، شوالی(Schewally)، برجسٹراسر (Bergrtrasser)اور پرٹزل(Pritzl)کے اتباع میں قرآنی متن کو اپنا موضوعِ تحقیق بنایا ہے اور خاص طور پر نولڈکے کی ’تاریخ القرآن‘کو بنیاد بناتے ہوئے چند نتائج کا تذکرہ کیا ہے ۔ اس کے نزدیک یہ نتائج مستشرقین کی ابحاث ہی سے ماخوذ ہیں،ان کے بغور مطالعہ سے ہمیں متعد د اغلاط اورمتناقض آراء بھی ملتی ہیں ۔جیفری نے ان کے بیان میں کسی منقولی دلیل سے استدلال کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ ہم جیفری کے ذکر کردہ ان تحقیقی نتائج کا تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہیں:

٭ جیفر ی کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ آنحضرتﷺکے عہد میں پوراقرآن نہیں لکھاگیا بلکہ اس کے کچھ حصے لکھے گئے تھے۔ اس سلسلہ میں وہ ان روایات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں جن میں آپﷺکے عہد میں کتابت قرآن اور آپﷺکی زندگی میں ہی قرآن کریم کے صحف یا اَوراق میں غیر مرتب صورت میں جمع ہونے کے شواہد ملتے ہیں۔ اس کے الفاظ ہیں:

’’وہذا الرأی لا یقبلہ المستشرقون لأنہ یخالف جاء فی أحادیث أخری أنہ قبض ﷺ ولم یجمع القرآن فی شئ‘‘(۷۷)

’’ مستشرقین اس رائے کو قبول نہیں کرتے، کیونکہ دیگر اَحادیث اس دعویٰ کی مخالفت کرتی ہیں،جن میں آیا ہے کہ آپﷺ وفات پاگئے اورقرآن کسی چیز میں جمع نہیں ہو سکا‘‘۔

جیفری نے صحیح بخاری کی اس روایت سے بھی استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ جنگِ یمامہ کے بعد حضرت عمررضی اللہ عنہ نے جمعِ قرآن کا مشورہ دیا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ اگر حفاظ صحابہ رضی اللہ عنہم اسی طرح شہیدہوتے رہے تو قرآن کریم کے بہت سے حصوں کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے ،اس روایت کی بناء پر وہ کہتا ہے :

’’ویتبین من ہذا أن سبب الخوف ہو قتل القراء الذین کانوا قد حفظوا القرآن،ولو کان القرآن قد جمع وکتب لما کانت ہناک علۃ لخوفہما‘‘(۷۸)

’’ اس سے واضح ہوتا ہے کہ خوف کا سبب حفاظ وقراء صحابہ رضی اللہ عنہم کا شہید ہونا تھا اگر قرآن کریم عہدِنبوی میں جمع ہو چکا ہوتا تو اس وجہ سے ان حضرات کو قرآن کے ضائع ہونے کا خوف نہ ہوتا۔‘‘

تعجب ہے کہ جیفری نے بخاری کی حدیث کویہ کہہ کر کہ’مستشرقین اس رائے کو قبول نہیں کرتے‘ردکر دیا ہے حالانکہ قبولیت وعدمِ قبولیت ،روایت کی سند یا متن میں اِضطراب اورعلت کے ثبوت یا عدمِ ثبوت پر ہے نہ کہ رائے یا ذاتی خواہش پر۔ مستشرق موصوف کا یہی وہ منہجِ تحقیق ہے جس کی بناء پر اسلامی دنیا میں ان نظریات کو خاطر خواہ جگہ نہیں مل سکی۔

یہ بات بھی حیرت انگیز اورافسوسناک ہے کہ بعض دوسرے مستشرقین کی طرح جیفری نے بھی صحیح بخاری کی اس روایت کو درست ماننے سے انکار کیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے سرکاری سطح پر کوئی نسخہ تیار فرمایا تھا وہ لکھتا ہے:

“His collection would have been a purely private affair, just as quite a number of other companions of the Prophet had made personal collections as private affairs”(۷۹)

حالانکہ اگر عہدِ ابو بکرtکا جمع شدہ قرآن Private collectionہو تو اس کے جمع کے لیے اس وقت حضرت عمررضی اللہ عنہ کے مشورہ کی کوئی ضرورت نہ تھی اس کے باوجود انہوں نے مشورہ فرمایا۔ ظاہر ہے کہ یہ مشورہ تب ہی ہوسکتا ہے جب وہ جمع ذاتی نہ ہو بلکہ سرکاری سطح پر ہو۔خود جیفری کے بقول دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے بھی ذاتی مصحف تھے اوروہ انہوں نے کسی کے مشورہ یا اس قسم کے حالات سے متاثر ہو کرنہیں لکھے تھے۔لہٰذا عہدِ ابوبکررضی اللہ عنہ میں جمعِ قرآن سرکاری سطح پر ہی ہواتھا۔

نیز یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ حضرت زید بن ثابت رضی للہ عنہ کی اس روایت میں وہ ساری باتیں تو جیفری کی نگاہ میں جھوٹی ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کے زمانہ میں سرکاری سطح پر قران کی حفاظت کا اہتمام کیاگیا تھا، لیکن اسی روایت کا وہ حصہ اس کی نظر میں بالکل صحیح ہے جس میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کا وہ جملہ نقل کیا گیا ہے کہ’’اگر صحابہ رضی اللہ عنہم اسی طرح شہید ہوتے رہے تو خطرہ ہے کہ کہیں قرآن کا بڑا حصہ ضائع نہ ہو جائے‘‘۔ایک طرف تو وہ پوری روایت نقل کر کے اسے من گھڑت اورموضوع کہتاہے اور دوسری طرف اسی روایت سے قرآن کریم کے غیر مکتوب ہونے پر استدلال بھی کرتا ہے ۔ اس کے باوجود اس کا دعویٰ یہ ہے کہ مستشرقین کا انصاف،نیک نیتی اورغیرجانبداری بالکل واضح ہے۔(۸۰)اس طرح کی متناقض (Paradox)آراء مستشرقین کی تحقیقات میں جابجانظر آتی ہیں۔

طاش کبریٰ زادہ رحمہ اللہ نے علامہ خطابی رحمہ اللہ کے حوالہ سے عہدِ رسالت میں مصحف واحد میں عدمِ جمع قرآن کی حکمتوں کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے:

’’إنما لم یجمع القرآن فی المصحف لما کان یترقبہ من ورود ناسخ لبعض أحکامہ أو تلاوتہ،فلما انقضی نزولہ بوفاتہ الہم اﷲ الخلفاء الراشدین ذلک وفاء بوعدہ الصادق لضمان حفظہ علی ہذہ الامۃ‘‘(۸۱)

’’قرآن ایک مصحف میں اس لئے جمع نہیں ہوا، تاکہ احکامات اورتلاوت میں ناسخ کے ورود کا انتظار کیاجائے۔ پس جب آپﷺکی وفات سے اس کا اِمکان ختم ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے خلفائِ راشدین کو اُمت کے لیے اس کتاب کی حفاظت کی ضمانت اوراپنے وعدہ کو سچا کرنے کی توفیق بخشی۔‘‘

٭ آرتھر جیفری قرآن کی ترتیب کو بھی موضوعِ بحث بناتا ہے،اور اس حوالے سے رقمطراز ہے:

’’فإن علماء الغرب لا یوافقون علی أن ترتیب نص القرآن کما ہو الیوم فی أیدینا من عمل النبی ﷺ‘‘(۸۲)

یعنی مغرب کے علماء نصِ قرآنی کی موجودہ ترتیب کو عملِ نبیﷺ ماننے پر متفق نہیں ہیں۔اس اعتراض کی عبارت میں اولاً تو اخفاء ہے کہ’ترتیب ِنصِ قرآنی‘سے اس کا کیا مفہوم ہے، کیونکہ ترتیب ِآیات اور ترتیب ِسور دونوں مصحف کے حصے ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے کہ مستشرقین نے قرآن کی آیات وسور کی ترتیب کو اپنا خاص موضوع اس لئے بنایا تاکہ وہ قرآن کریم کو غیر مرتب اورناقص ثابت کر سکیں۔ ان کے نزدیک قران اس ترتیب کے مطابق نہیں جس پر وہ نازل ہوا تھا ۔چنانچہ Rodwellنے ترجمۂ قرآن کے پیش لفظ میں تحریر کیا ہے کہ ’اس وقت مصحف میں موجود ترتیب دراصل حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی تیار کردہ ہے، ان کو جمعِ قرآن کے وقت جس ترتیب سے مختلف مقامات سے قرآن ملتا گیا وہ اسے اسی ترتیب کے مطابق جوڑتے چلے گئے، ان میں کوئی تاریخی ربط یا ترتیب ملحوظ نہیں رکھی گئی۔(۸۳)

صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذاتی مصاحف کا مصحف ِعثمانی سے تقابل اور اس کی حقیقت


جیفری نے کتاب المصاحف کے مقدمہ میں ’’اختلاف مصاحف الصحابۃ‘‘کے عنوان کے تحت متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذاتی مصاحف جن میں علی بن ابی طالب،ابی بن کعب، سالم مولیٰ حذیفہ،عبداللہ بن مسعود،ابوموسیٰ اشعری، عبد اللہ بن زبیر، ابوزید اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم وغیرہ کے نا م لے کر یہ ذکر کیا ہے کہ انہوں نے قرآن کو اپنے اپنے مصحف میں جمع کیا۔ جیفری کہتا ہے کہ اگرچہ بعض لکھنے والوں نے جمع سے مراد حفظ لیا ہے، لیکن ہم ان کے قول سے موافقت نہیں کرتے جس کی چار وجوہ ہیں:

٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنا جمع شدہ مصحف اونٹ پر لاد کر صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس لائے۔

٭ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا جمع کیا ہوا مصحف لوگوں میں ’لباب القلوب‘ کے نام سے موسوم ہوا۔

٭ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا جمع کردہ مصحف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جلا دیا۔

٭ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے عراق میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گورنرکو اپنا جمع کردہ مصحف پیش کرنے سے انکار کیا۔

اس سے لازم آتاہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جو جمع کیا تھا وہ مصاحف میں تحریر ی صورت میں جمع تھااور ہر صحابی رضی اللہ عنہ کا خاص مصحف انہی سورتوں اور آیات پر مشتمل تھاجن سے وہ مطلع ہوپائے۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کیلئے جو مصحف زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے لکھا وہ بھی مستشرقین کی رائے میں ’مصحفِ خاص‘ تھا۔(۸۴)جیفری ان تفصیلات کوذکر کرنے کے بعد اپنا ہدف ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:

’’وکانت ہذہ المصاحف یختلف بعضہا عن بعض لأن کل نسخۃ منہا اشتملت علی ما جمعہ صاحبہا وما جمعہ واحد لم یتفق حرفا ما جمعہ الآخرون‘‘(۸۵)

’’یہ مصاحف آپس میں ایک دوسرے سے مختلف تھے، کیونکہ ہر نسخہ اپنے جامع کی درج کردہ (معلومات) پر مشتمل تھا اور ایک کا جمع کیا ہوا دوسروں سے ایک حرف میں بھی متفق نہیں تھا۔‘‘

جیفری نے کتاب المصاحف کی ساتھ ملحقہ Materialsمیں بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذاتی طور پر جمع کئے ہوئے نسخوں کے متعلق یہی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان مصاحف کا باہمی اختلاف بذاتِ خود ایک پیچیدہ مسئلہ ہے نیز یہ مصاحف ِصحابہ مصحفِ عثمانی کے مقابل ہیں۔ اس نے صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کے ۲۸ مصاحف کو مصحف ِعثمانی کے مقابل قرار دیتے ہوئے تقریباً۶۰۰۰ سے زائد ایسے مقامات کی نشاندہی کی ہے جو کہ مصحف ِعثمانی سے مختلف تھے۔(۸۶) بنیادی مصاحف میں درجِ ذیل صحابہ رضی اللہ عنہم کے نام مذکور ہیں:

(١)حضرت سالم رضی اللہ عنہ(۱۲ھ)

(٢)حضرت عمر رضی اللہ عنہ(۲۳ھ)

(٣)حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ(۲۹ھ)

(٤)حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ(۳۳ھ)

(٥)حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ(۴۴ھ)

(٦)حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا(۴۵ھ)

(٧)حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ(م۴۸ھ)

(٨)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا(۵۹ھ)

(٩)حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ(۶۵ھ)

(١٠)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ(۶۸ھ)

(١١)حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ(۷۳ھ)

(١٢)حضرت عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ(۷۴ھ)

(١٣)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ

(١٤)حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ

(١٥)حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا جب کہ ثانوی مصاحف میں ۱۳تابعین کے نام شمارکیے گئے ہیں۔(۸۷)

غرض قرآنی نص کو تنقید کا نشانہ بنانے کے لیے ان مصاحف میں مذکور اختلافات کو جیفری نے حتی المقدور اُچھالنے کی کوشش کی ہے، لیکن ساتھ ہی وہ اس حقیقت کا بھی اظہار کرتا ہے:

“This is the absences of any direct manuscripts evidence”.(۸۸)

’’ بہر حال یہ روایات براہِ راست کسی باقاعدہ تحریری ثبوت کی حامل نہیں ہیں‘‘۔

صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذاتی مصاحف میں اختلافات کے ضمن میں جیفری کے معاندانہ رویۂ تحقیق سے پیدا شدہ بے بنیاد شکوک وشبہات کے اِزالہ اور مستشرق موصوف کی اس کام کی تقییم( Evaluation)سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مصاحفِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے حوالہ سے مسلم محققین اورعلماء کے نقطۂ نظر کا طائرانہ جائزہ لیا جائے:

تعددِ مصاحف اور ان کی حقیقت …جمہور علماء کا موقف

صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذاتی مصاحف کے وجود یا عدمِ وجود کے متعلق دو آراء پائی جاتی ہیں:ایک یہ کہ بعض صحابہy نے خاص طور پر اپنے لیے کچھ اَوراق، قرآنی آیات اور اس کی قراء ات وتفسیر پر مشتمل رکھے ہوئے تھے۔ جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً ابن سیرین رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ حضرت علیt نے کہا:

’’لمّا مات رسول اﷲﷺ آلیت إلا آخذ علیّ ردائی إلا لصلاۃ الجمعۃ حتی أجمع القران فجمعتہ‘‘(۸۹)

’’جب آپ ﷺ فوت ہوئے تو میں نے قسم اٹھائی کہ میں سوائے نمازِ جمعہ کے اپنے اوپر چادر نہیں لوں گا یہاں تک میں قرآن کو جمع کردوں، سو میں نے اس کو جمع کرلیا‘‘۔

یا عمومی طور پر بخاری کی اس روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے جس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف لکھوانے کے بعد ان مصاحف کے علاوہ ہر صحیفہ یا مصحف جلانے کا حکم ارشاد فرمایا۔(۹۰)

دوسرا یہ کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا انفرادی طور پر جمع شدہ مواد ’مصحف‘ کا نام اختیار کر چکا تھاجبکہ درحقیقت وہ چند روایات ،اخبارِ آحاد یا شاذہ قراء ات تھیں جو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے بطورِ تفسیرِ قرآن ذکر کردیں جو بعد میں اپنی استنادی حیثیت سے قطع نظر لغت ، ادب اور قراء ات کی کتابوں میں جگہ پاگئیں۔ واضح رہے کہ ابن ابی داؤدرحمہ اللہ نے دس صحابہ رضی اللہ عنہم کے ناموں کا ذکر کیا ہے جن کو جیفری بعد میں’مقابل نسخہ جات‘ کے حامل بناکر پیش کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود ابن ابی داؤدرحمہ اللہ نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ان دس اصحاب رضی اللہ عنہم کے پاس تحریری شکل میں الگ الگ قرآن کے نسخے تھے۔ اسی طرح ابن ابی داؤدرحمہ اللہ ان حضرات کی جانب منسوب مختلف قراء ات کو مصحف کے عنوان سے بیان کرتاہے اور ساتھ ہی وہ جَمَعَ القرآن کے الفاظ ان حضرات کے لیے بھی استعمال کرتا ہے جنہوں نے قرآن کریم یاد کررکھا تھا۔چنانچہ وہ لکھتا ہے :

’’فإنہ یقال للذی یحفظ القرآن قد جمع القرآن‘‘(۹۱)

اسی طرح لفظ مصحف کو بطور حرف یا قراء ت کے معانی میں بھی استعمال کیا ہے تاکہ اس کی ذکر کردہ مختلف قراء ات کا کسی باقاعدہ تحریری نسخہ سے ماخوذ ہونے کا گمان نہ ہو۔(۹۲)اگرچہ جیفری بھی ان مصاحفِ صحابہ کی مستقل تحریری شکل کے عدمِ ثبوت کا قائل ہے تاہم اس کا میلان ان کو باقاعدہ مصحف کی صورت میں پیش کرنے کی طرف ہے جوکہ قطعی طور پر غیر تحقیقی اوربے بنیاد ہے۔

٭ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ مصاحف ِصحابہ کے عنوان سے جن کتب کا تاریخ میں تذکرہ ملتا ہے ان کی تعداد ابن ندیم رحمہ اللہ نے ۱۲شما رکی ہے ان میں قدیم ترین کتاب ابن عامر یحصبی رحمہ اللہ(م۱۱۸ھ)کی کتاب ’اختلاف مصاحف الشام والحجاز والعراق‘ہے۔(۹۳)ابن ابی داؤدرحمہ اللہ (م۳۱۶ھ)، ابن انباری رحمہ اللہ(م۳۲۸ھ) اور ابن اشتہ رحمہ اللہ(م۳۶۰ھ)کی کتبِ مصاحف کے سوا کسی اورکتاب نے اپنا نشان نہیں چھوڑا۔ مذکورہ تین کتابوں میں سے بھی مؤخر الذکر دونوں کتب ضائع ہو چکی ہیں۔(۹۴) صرف ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کی کتاب زمانہ کی دست بردسے محفوظ رہی۔ مصحف ِعثمانی کے اتنے عرصہ بعد ان کتب کا رواج محض علمی ورثہ کے طور پر فنون کی وسعتوں کا ایک مظاہرہ ہے جس کا سند وروایت یا محکم ومحقق ذرائع سے کوئی واسطہ نہیں اور نہ ہی امت مسلمہ میں ان کی وجہ سے کبھی کوئی تشویش ہی پیدا ہوئی ۔

٭ یہاں ایک بنیادی طرز کا سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذاتی مصاحف کو جمعِ قرآن کے وقت ممنوع کیوں نہیں قرار دیا؟ یاحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح ان کے جلانے کا حکم کیوں نہ ارشاد فرمایا؟یقینا اس کی یہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ وہ مصاحف صحابہ کے ذاتی اور مخصوص مصاحف تھے جو صرف انہی کے زیر استعمال رہتے تھے اور کسی دوسرے کی اس تک پہنچ نہ ہوتی اور نہ ہی ایسے واقعات اس وقت تک نمودار ہوئے تھے کہ جو مصحفِ واحد کا تقاضاکرتے۔ چونکہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا تھا اس لئے دوسری قراء ات میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی ترغیب ان مصاحف کے بقاء کی ایک وجہ تھی۔(۹۵) جن کی ضرورت عہدِعثمانی میں قراء ات سمیت قرآن کے جمع ہوجانے کے بعد ختم ہوگئی، اس لیے ان کو جلا دیا گیا۔

٭ آرتھر جیفری نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی جانب مصاحف منسوب کرنے میں بڑی جرات کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ گویا مختلف قسم کے ۲۸مقابل قرآن ایجاد ہوگئے حالانکہ اس نے بعض ایسے حضرات کو بھی مصحف کا حامل گردانا ہے جن سے پورے قرآن میں صرف چند مقامات پر قراء ات کے اختلافات وارد ہوئے ہیں مثلاً حضرت سالم رضی اللہ عنہ کے مصحف میں صرف دوروایات ذکر کر کے(۹۶)اس کومصحف کا بھاری بھرکم عنوان دے دیا ہے۔ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے ۴روایات(۹۷)،ابن عمرورضی اللہ عنہ سے کوئی نہیں(۹۸)،حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے ۱۰روایات(۹۹) حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے ۱۰روایات(۱۰۰)،ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے ۴روایات(۹۵)، انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ۲۴(۱۰۲) حضرت عمررضی اللہ عنہ سے ۲۹(۱۰۳)،ابن زبیررضی اللہ عنہ سے ۳۵روایات(۱۰۴)اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے ۱۳روایات ذکر کی گئی ہیں۔(۱۰۵)

جیفری نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے مصاحف کے حوالہ سے جس مبالغہ آمیزی سے کام لیا ہے اس کی ایک جھلک اس کے اس قول سے نظر آتی ہے کہ

’’ وما جمعہ واحد لم یتفق حرفا مع ما جمعہ الآخرون‘‘(۱۰۶)

’’یعنی ہر ایک مصحف دوسرے مصحف سے ایک حرف میں بھی موافقت نہیں رکھتا۔‘‘

نصِ قرآنی کی تحریف اور عدمِ توثیق کیلئے اس قدر بلا دلیل جملہ تحقیق کے میدان میں قطعاً کوئی وزن نہیں رکھتا کیونکہ یہ تمام مصاحف خودجیفری کی مقدور بھر کوشش سے Materialsمیں مرتب کیے گئے ہیں۔اس کے سوا ان کی کچھ حقیقت نہیں۔

٭ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ جیفری نے غیر تصحیح شدہ نسخہ جات سے جن اختلافی قر اء ات کو نقل کیا ہے ان سب کی اسناد غیر مصدقہ ہیں۔ وہ کوئی قابلِ اعتبار سند کے ساتھ ایسی کوئی قابلِ ذکر اختلافی قراء ت لانے میں کامیاب نہیں ہو سکاجو مصحفِ عثمانی کی اسناد کی طرح محکم ومتواتر ہو۔اس کے ساتھ ساتھ بعض اختلافی قراء ات جو ہم تک پہنچی ہیں وہ لسانی اعتبار سے بھی ناممکن نظر آتی ہیں اوربعض اختلافی روایات کی اسناد ناممکن الوجود اور محال ہیں جو زمانی اعتبار سے درست تسلیم نہیں کی جاسکتیں یا وہ روایت کے معروف اصولوں کے مطابق نہیں ہیں۔(۱۰۷)

٭ جیفری کے بقول: تمام مستشرقین کے نزدیک حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے لیے جو مصحف حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے لکھا وہ بھی مصحف خاص تھا ،رسمی نہ تھا۔(۱۰۸)حالانکہ صحیح بخاری کی روایت ہے جس میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس حکم پر یہ جملہ کہاتھا کہ

’’فواﷲ لو کلفونی نقل جبل من الجبال ما کان اثقل علی مما امرنی بہ‘‘(۱۰۹)

’’بخدا اگر مجھے کسی پہاڑ کے اٹھانے کا مکلف بنایاجاتا تو وہ اس حکم کی نسبت آسان ہوتا۔‘‘

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا مذکوہ جملہ جیفری کے پیشِ نظر ہے ،حیرت ہے کہ اگر یہ حکم محض مصحفِ خاص کی تیاری کے لیے ہوتا توحضرت زیدرضی اللہ عنہ کو اس قدر ذمہ داری کا احساس کیوں ہوتا؟جب کہ حضرت زیدرضی اللہ عنہ کے پاس پہلے سے مصحف موجود تھا۔پس ثابت ہوا کہ یہ مصحف خاص نہیں بلکہ رسمی اور سرکاری تھا۔تاہم اگر ایک لمحہ کے لیے جیفری کے نظریہ کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ وہ مصحف خاص تھا پھر بھی قرآنی نص کی توثیق میں فرق واقع نہیں ہوتا،کیونکہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کو یہ معلوم تھا کہ کثیر صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے سینوں میں قرآن مجید کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں،بالفرض اگر ضرورتِ رجوع پیش آئے تو ’مصحف ِخاص‘کی موجودگی سے سہولت لی جائے۔لہٰذا مصحفِ خاص ماننے سے بھی کسی طرح کا حرج لازم نہیں آتا ۔ تاریخ شاہد ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا یہی مصحف عہدِ عثمانی میں مصاحف کی تیاری کے لیے سب سے بنیادی مصدر تھا۔(۱۱۰)

٭ مقابل مصاحف کا عنوان دیتے ہوئے جیفری نے اس حقیقت کو بھی یکسر فراموش کر دیا ہے کہ مصحفِ عثمانی کی تیاری میں کئی صحابہ رضی اللہ عنہم نے بالواسطہ یا بلا واسطہ شرکت کی اور بالآخر تقریباً بارہ ہزارہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس بات پر اجماع منعقد ہوا۔بالفرض اگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے مصاحف میں باہمی اختلاف ہوتا تو وہ اپنے مصاحف پر ڈٹے رہنے کا اعلان کرتے اور کبھی بھی مصحفِ عثمانی کو تسلیم نہ کرتے۔(۱۱۱)

خود ابن ابی داؤدرحمہ اللہ ،جن کوجیفری نے بظاہر اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے، اپنی کتاب میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے مصاحف میں اختلافات کے ضمن میں مصحفِ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے منقول روایات ذکر کرنے کے بعد اس حقیقت کو ان الفاظ میں واضح کرتے ہیں:

’’لا نری أن نقرأہ إلا المصحف عثمان الذی اجتمع علیہ أصحاب النبی ﷺ،فإن قرأ إنسان بخلافہ فی الصلوٰۃ أمرتہ بالاعادۃ‘‘(۱۱۲)

’’ہمارے خیال میں اصحابِ پیغمبررضی اللہ عنہم کا مجمع علیہ مصحفِ عثمان رضی اللہ عنہ ہی پڑھاجانا چاہئے۔اگر کوئی شخص اس کے برخلاف نماز میں قراء ات کرے تو میں اس کو نماز لوٹانے کا حکم دوں گا۔‘‘

لیکن مستشرق موصوف کو ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کی کتاب المصاحف کے غالباً انہی اجزاء سے اتفاق ہے جو اس کے طے شدہ فکر سے ہم آہنگ ہیں۔

صحابہ رضی اللہ عنہم سے منسوب مصاحف اورجیفری کا نقطہ نگاہ

آرتھر جیفری نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے منسوب مصاحف میں روایات کی چھان بین کئے بغیرمصحف ِعثمانی سے ان کاتقابل کیا ہے اورتقریباً۶۰۰۰سے زائد ایسے مقامات کی نشاندہی کی ہے جو مصاحف صحابہ میں موجود ہ قرآن سے مختلف تھیں ۔ ان مصاحف میں ایسی آیات وقراء ات کا تذکرہ بھی کرتا ہے جو قرآنی نص سے کم یا زیادہ ہیں۔

جیفری کے ان شبہات کا جواب ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کی کتاب المصاحف میں مذکورروایات کی عدمِ صحت کودلیل بنانے سے بھی زیادہ مناسب اس انداز سے دیا جا سکتا ہے کہ جیفری کی منتخب روایات کی توضیح اس طرح کی جائے کہ تطبیق ،ترجیح اور تاویل کی صورت میں مفہوم ِروایت کی وضاحت ہو جائے۔ دورِ قریب کے عظیم مفکر ڈاکٹر حمیداللہ رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے تھی ۔ وہ جمعِ قرآن سے متعلق ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کی کتاب المصاحف اور ایسی دوسری کتابوں میں بیان کی گئی روایات کو رد نہیں کرتے بلکہ وہ ان روایات کی تشریح وتوضیح اس انداز سے کرتے ہیں کہ ان کتابوں میں موجود روایات کی تردید بھی نہیں ہوتی اور ان کی ایسی تاویل ممکن ہوتی ہے جس سے ان کا اپنا مدلل نقطۂ نظر بھی متاثر نہیں ہوپاتا۔(۱۱۳)ذیل میں یہی منہج اختیار کرتے ہوئے جیفری کی محققہ ،ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کی،کتاب المصاحف کی چند روایات کی تاویلات پیش کی جاتی ہیں جن سے واضح ہوگا کہ بالفرض اگرایسی روایات کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی اس کا درست مفہوم ،صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین اور دیگر علماء امت کے متفقہ نظریہ ہی کے موافق بنتا ہے۔

الغرض جیفری کے وضع کردہ تمام مصاحف اور ان میں موجود قراء ات وروایات کا کوئی اطمینان بخش ثبوت نہیں ملتااورغالباً جیفری اسی وجہ سے ان روایات کے استنادی ثبوت کے درپے نہیں ہوا اور نہ ہی ان قراء ات کے مصادر متعین کیے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ Materialsکے۳۶۲صفحات میں مرقوم’ مصاحف ‘ مروج ومتواتر متنِ قرآنی کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے اور نہ ہی کمزور روایات کا مصحف عثمانی سے تقابل کاکوئی منطقی جواز بنتا ہے۔ جیفری کو یہ بات معلوم ہونے کے باوجود کہ تابعین کے مصاحف سراسر مصاحف ِ صحابہ کے تابع ہیں۔مثلاً مصحفِ علقمہ (م۶۲ھ)،ربیع بن خیثم رحمہ اللہ(م۶۴ھ)،حارث بن سویدرحمہ اللہ(م۷۰ھ)، حطان رحمہ اللہ(م۷۳ھ)،اسودرحمہ اللہ(م۷۴ھ)،طلحہ بن مصرف رحمہ اللہ(م۱۱۲ھ) اورمصحفِ اعمش(م۱۴۸ھ)مکمل طور پر عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ اورابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے مصاحف پر مبنی تھے۔ اس کے باوجود اس نے ۱۳تابعین کے مصاحف کومحض اپنی کتاب کی ضخامت کاذریعہ بنایا ہے۔

جیفری نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ان مختلف مصاحف کے متعلق یہ نظریہ بھی قائم کیا ہے کہ یہ مختلف شہروں میں مصحف عثمانی سے قبل رائج تھے اورانہی کے مابین اختلاف کے باعث لوگ ایک دوسرے کی قراء ات کا انکار کرنے لگے۔(۱۱۴) حالانکہ تاریخی یا منقولی اعتبار سے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ مصاحفِ عثمانیہ کے ارسال سے قبل صحابہ رضی اللہ عنہم کے کوئی رسمی مصاحف تھے بلکہ ان کے پاس صحف اورقرآن کی بعض سورتوں کے اجزاء تھے۔چونکہ اصل بنیاد حفظ پر تھی اور رسول اللہﷺسے مختلف حروف سن لینے کی بناء پر ان کی ادائیگی میں اختلاف پیدا ہوا ،مفہوم ومقصد پر سب کا اتفاق تھا۔ یہی وجہ بنی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قراء کو بھی بھیجا تاکہ لوگوں کوبعینہٖ ان حروف پر قرآن پڑھائیں جن کی رسول اللہﷺنے اِجازت دی۔(۱۱۵)

اسی ضمن میں آرتھر جیفری نے کہا ہے کہ اہلِ شام مصحفِ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ پر متفق تھے(۱۱۶)حالانکہ حضرت ابی رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں مقیم تھے جبکہ شام میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ موجود رہے۔(۱۱۷)

٭ مصاحف عثمانیہ کے نقطوں اور حرکات سے خالی ہونے کی وجہ سے جن اختلافات کا جیفری نے تذکرہ کیا ہے اس کی بنیاد گولڈزیہر ہے جس کا موقف گزشہ بحث میں ذکر کیا جا چکا ہے۔

٭ جیفری نے مروّجہ قراء ات کو ائمہ قراء کا انتحاب واختیار قرار دیتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کی اصلیت منقولی نہیں بلکہ اجتہادی واختیاری ہے۔قراء ات کے ارکانِ ثلاثہ کا تذکرہ کرتے ہوئے اس نے دوسری شرط ’صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہونا‘ذکر کیا ہے حالانکہ علمائِ اسلام میں سے کسی نے یہ رکن بیان نہیں کیا بلکہ سند کا آنحضورﷺسے مروی ومربوط ہونا ضروری قرار دیا ہے۔

٭ ابن مجاہدرحمہ اللہ کے سات قراء ات منتخب کرنے کی بنیاد جیفری نے حدیث سبعۂ احرف قرار دی ہے۔(۱۱۸)حالانکہ سات قراء ات کا یہ اختیار حدیث سبعۂ احرف کی بناء پر نہیں اور نہ ہی ابن مجاہدرحمہ اللہ نے کہیں اس کی صراحت کی ہے۔بلکہ یہ ایک اتفاق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ علماء نے مزید تین قراء ات کو بھی مشہور قرار دیا اوران کو بھی سبعہ احرف پر مبنی قرار دیا ۔پھر یہ اختیار کسی قرعہ یا ذاتی خواہش پر نہیں تھا بلکہ کثرتِ روایت اور تدریسِ قرآن میں ممارست وتجربہ اورمہارت کی بنیاد پر تھا۔چنانچہ محقق ابن الجزری رحمہ اللہ (م۸۳۳ھ)لکھتے ہیں:

’’إضافۃ الحروف والقراء ات إلی أئمۃ القراء ۃ ورواتہم المراد بہا أن ذلک القاری وذلک الامام اختار القراء ۃ بذلک الوجہ من اللغۃ حسب ما قراء بہ فآثرہ علی غیرہ وداوم علیہ ولزمہ حتی اشتہر وعرف بہ وقصد فیہ وأخذ عنہ فلذلک أضیف إلیہ دون غیرہ من القراء وہذا الاضافۃ اختیار ودوام ولزوم لا إضافۃ اختراع ورایٍ واجتہادٍ‘‘(۱۱۹)

غرض ائمہ قراء کی طرف یہ انتساب ان کے ہمیشگی اختیار اورالتزام کی وجہ سے ہے نہ کہ اختراع ورائے کی بنیادپر۔ مثلاً ابن البازش رحمہ اللہ نے امام نافع رحمہ اللہ کے مطابق لکھا ہے کہ انہوں نے جس قراء ت کا لزوم کیا وہ اہلِ مدینہ کے لیے مرجع بن گئی اور ان کے اختیار کی طرف لوگوں نے رجوع کیا۔(۱۲۰)یہی وجہ ہے کہ قراء ات کے اختیار کے بھی چند قواعد ہیں جن کو امام ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے ان میں سے ایک قاعدہ ’کثرت‘ ہے یعنی کسی قراء ت کو کثرتِ استعمال کی وجہ سے بھی بعض قراء اختیار کر لیتے ہیں۔(۱۲۱)جن قراء نے قراء ات کو اختیار کیا انہوں نے اس کو روایت بروایت صحابہ رضی اللہ عنہم اوررسول اللہﷺسے اخذ کیا ۔ مکی بن ابی طالب رحمہ اللہ نے اس کی صراحت کی ہے۔(۱۲۲) ڈاکٹر محمد الحبش نے لکھا ہے کہ ان قراء ات میں ائمہ کا کوئی اجتہاد نہیں اور نہ ان کو نص میں کسی قسم کے تصرف اورتحکّم کا کوئی اختیارحاصل ہے،ان کا کام صرف روایت کی صحت، ضبط اوراس کی توثیق کی حد تک محدود ہے۔(۱۲۳)

٭ جیفری نے قراء اتِ حفص کی ترجیح وتعمیم اور اس میں نافع رحمہ اللہ کی روایت کومستحسن قراردینے میں بھی یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ ترجیح یا استحسان دراصل اختیاری ہے اورقراء ات کے مابین بھی تفاوت واختلاف پایا جاتا ہے۔(۱۲۴)حالانکہ متواتر قراء ات میں ترجیح نہیں ہو سکتی ،کیونکہ تمام قراء ات ثابت اورمرتبہ میں ایک دوسری کے برابر ہیں اسی طرح نافع رحمہ اللہ کی روایت شہرت اورکثرت ِممارست ومدارست کی وجہ سے اختیار کی گئی ہے۔ استحساناً ایسا نہیں کیاگیا۔(۱۲۵)

٭ اس مقدمہ کے آخرمیں مستشرق موصوف نے پھر اسی بات کا اِعادہ کیا ہے جو مقدمہ کے شروع میں کیا تھا کہ قرآنی قراء ات میں ارتقاء واقع ہوا ہے ۔ اس کے نزدیک آغاز میں مصاحف قدیمہ کا رواج تھا ،پھر مصاحفِ عثمانیہ مختلف شہروں میں رائج ہوئے بعد ازاں قراء ات کو اختیار کرنے میں آزادی کا رجحان پیدا ہوا ،پھر سبعہ یا عشرہ کا تسلط ہوا ، پھر روایاتِ عشرہ کو اختیار کیا گیااورآخر میں قراء تِ حفص عام شہروں میں رائج ہوگئی۔(۱۲۶)قراء اتِ قرآنیہ میں ارتقاء کا یہ نظریہ کئی لحاظ سے باطل ہے:

٭ مصاحفِ قدیمہ کی اِصطلاح جیفری کی اپنی وضع کردہ ہے اور جیفری نے ثانوی درجہ کے مصادر میں موجود صحابہ رضی اللہ عنہ کی تفسیری روایات کو مصاحف ِقدیمہ کا نام دیا ہے حالانکہ عرضۂ اخیرہ کے مطابق تمام آیات ِقرآنیہ مصاحفِ عثمانیہ کی صورت میں باجماعِ صحابہ اُمت میں مروج ہوئیں۔

٭ قراء ات کے اختیار میں آزادی نہیں تھی بلکہ قراء ات سنتِ متَّبعہ اورمنزل من اللہ ہیں،ان میں کسی انسان کے لیے کسی قسم کے اجتہاد واختیار کی کوئی گنجائش نہیں۔

٭ سبعہ یا عشرہ قراء ات کا ’تسلط‘ (۱۲۷) نہیں ہوا بلکہ ان کی ترویج شہرت اورتواتر کی وجہ سے ہوئی۔

٭ قرآن کریم کی قراء ات کو بنیاد بنا کر جس ارتقائی تاریخ کی غیر تکمیلی صورت کا مستشرق موصوف نے تذکرہ کیا ہے وہ انتہائی مضحکہ خیز ہے خصوصاً یہ سوچ جس کی بناء پر وہ قرآن کو بائبل کے مقابلہ میں کمتر پیش کرنے کی جسارت کررہا ہے ،انتہائی غیر دیانتداری پر مبنی رویۂ تحقیق ہے۔ اس کا اندازہ صرف اس بات سے ہو سکتا ہے کہ قرآن مجید کے برعکس جملہ کتب انبیاء کی وفات کے سینکڑوں سال بعد ان کے حواریوں کے ہاتھوں لکھی گئیں جبکہ قرآن اور اس کی قراء ات خالصتاً سماعی اور منقولی بنیادوں پر پھیلی ہیں،کتابت اس کیلئے کبھی کوئی معیار نہیں رہا بلکہ بعد میں کتابتِ قرآن ان قراء ات کو پیشِ نظر رکھ کر مکمل ہوئی۔غرض قراء ات میں کسی قسم کا کوئی تطور ،تغیر یا ارتقاء نہیں ہوا بلکہ اللہ کے رسولﷺسے صحابہ رضی اللہ عنہم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے تابعین، ائمہ قراء اورامت تک بطریقۂ تواتر یہ قراء ات ہم تک پہنچی ہیں اور قرآن کا ہر حرف ابدی صداقتوں کا حامل ہے اور ان میں آج تک کوئی تبدیلی نہ ہوئی ہے اورنہ ہوگی۔

صنعاء (یمن) سے دریافت شدہ قرآنی مخطوطات اور استشراقی توقعات

یمن کے شہر صنعاء کی عظیم جامع مسجد کی نئی تعمیر کے دوران اس کے بالا خانہ سے ۱۹۷۲ ء میں پرانے چرمی اوراق ، بہت بڑی تعداد میں دریافت ہوئے ، جن میں سے اکثر پر قرآنی آیات تحریر تھیں ،یمن میں محکمہ آثارِ قدیمہ کے چیئرمین قاضی اسماعیل الاکوع نے جب ان پارچہ جات کوملاحظہ کیا تو ان کی قدامت اور خستہ حالی کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ ان اوراق کو صحیح سالم حالت میں محفوظ کرنے کیلئے ماہرینِ فنِ آثارقدیمہ کو دعوت دینا زیادہ مناسب ہے چنانچہ قاضی اسماعیل الاکوع کی خصوصی دلچسپی سے جرمنی کی وزارتِ خارجہ کے ذریعہ دو جرمن ماہرین ڈاکٹر گریڈ ، آر پیوئن (Dr. Gred. R. puin)اور ایچ۔سی۔ گراف وان بوتھمر(H.C.Graf Von Bothemer)کو ان قرآنی مخطوطات کی حفاظت اور بحالی کیلئے طلب کیاگیا۔ ان ماہرین نے اس منصوبہ پر چند سال کام کیا۔

اس بات سے قطع نظرکہ ان ماہرین نے اس تحقیقی منصوبہ پر کیا اور کتنا کام کیا ،یہ بات واضح طور پرمشاہدہ کی گئی کہ ان کے استشراقی مقاصد اور مشنری جذبات کسی صور ت بھی ان سے جدا نہیں ہوئے ، چنانچہ بیان کیا جاتا ہے کہ بوتھمر نے اس دوران۳۵۰۰۰پارچہ جات کی مائیکروفلم کا ریکارڈ خفیہ طور پر محفوظ کیا اور ان کو اپنے ساتھ جرمنی لے آیا ۔ ۱۹۸۷ء میں انہی پارچہ جات کے حوالے سے بوتھمر اور پیوئن نے ایک مقالہ لکھا اور اُن مخطوطات کے نمبر دینے کے ساتھ ساتھ ایک چرمی مخطوطے جس کا نمبر۳۲۔۱۰۳۳تھا ، کے بارے میں یہ نشاندہی کی کہ اس کی قدامت پہلی صدی ہجری کے آخری چوتھائی حصہ سے ہے۔ یہ آرٹیکل ’’Observations on Easly Qru’an Manuscript in Sana ‘‘کے عنوان سے تحریر کیا گیا اور مختصر عرصے میں مستشرقین کی توجہات کا مرکز بن گیا ، چنانچہ اس سلسلے میں ایک سیمنار لائیڈن ۱۹۹۸ء میں مطالعات قرآنی (Qur’anic Studies) کے نام سے منعقد کیا گیا جس میں بوتھمر اور پیوئن نے صنعاء کے مخطوطات قرآنیہ کے حوالے سے لیکچرز دئیے۔ (۱۲۸)

منعقدہ لیکچرز کی تفصیلات اگرچہ نہیں ملتی تاہم Puinکا آرٹیکل پڑھنے سے چند اہم نکات معلوم ہوتے ہیں۔

٭ Puinکے بقول اس کے پیش رو مستشرقین میں سے آرتھر جیفری Arthur Jeffery،اوٹو پرٹزلOtto Pretzel،انتونی سپٹلر(Antony Spitaler) اوراے فچر( A Fischer)نے قرآن کا نظر ثانی شدہ (Revised Versianّ)مصحف تیار کرنے کیلئے ایک سنجیدہ کوشش کی تھی اور اس ضمن میں انہوں نے اسوقت تک کے موجود ہزاروں مصاحف قرآنی کا آپس میں تقابل کرنے کے منصوبہ پر کام کا آغاز کیا۔ اس کے لیے جرمن کی میونخ یونیورسٹی میں یہ تمام مواد جمع کرکے بڑے پیمانے پر کام کو آگے بڑھایا گیا، لیکن انتہائی افسوسناک واقعہ اس وقت رونما ہوا جب دوسری جنگِ عظیم کے دوران یہ سارا مواد اور ریکارڈ بمباری سے تباہ ہوگیا۔Piunکی نظر میں صنعاء کی یہ دریافتیں اسی منصوبہ کو دوبارہ شروع کرنے میں ایک بہت بڑی امید کی کرن اور اہم موقع کی حیثیت رکھتی ہیں اور قرآن کاRevised Versianفراہم کرنے اور اس کی نصوص میں اضطراب و ارتقاء ثابت کرنے میں معاون ثابت ہوں گی۔ اس کے بقول:

“So many Muslims have this belief that everything between the two covers of the Koran is just God’s unlatered word,”{Dr.Puin} says.”They like to quote the textual work that shows that the Bible has a history and did not fall straight out of the sky, but until now the Koran has been out of this discussion. The only way to break through this wall is to prove that the Koran has a history too. The Sana fragments will help us to do this.”(۱۲۹)

’’مسلمان اکثریت یہ ایمان رکھتی ہے کہ جو کچھ قرآن کے دو گتوں کے درمیان میں ہے وہ بلاشبہ من و عن (بغیر کسی کمی بیشی کے) خدا کا کلام ہے۔ وہ قرآنی نصوص کو نقل کرتے ہوئے یہ تأثر دیتے ہیں کہ بائبل ایک تاریخ کی حیثیت رکھتی ہے اور آسمانوں سے نازل نہیں ہوئی ، تاہم اب (ان دریافتوں کے بعد ) قرآن ایسی کوئی بحث کرنے کے قابل نہیں رہا ، کیونکہ اب قرآن ’’ تاریخ ‘‘ ہے۔صنعاء کے یہ اوراق و مخطوطات قرآن کی تاریخی حیثیت کو ثابت کرنے کیلئے ایک کامیابی ثابت ہو ں گے۔‘‘

٭ Puinان دریافت شدہ قرآنی اوراق کے مطالعہ کے بعد موجودہ قرآن سے انحرافی یا اختلافی مقامات کی نشاندہی بھی کرتا ہے، مثلاً

(١) بہت سارے اوراق میں الف (ہمزہ) غلط طریقہ سے درج لکھا گیا ہے ۔

(٢) کچھ سورتوں میں آیات کے نمبر ز ایک دوسرے سے مختلف دیئے گئے ہیں۔

(٣) دو یا تین مقامات پر سورتوں کی ترتیب بھی مروجہ مصاحف میں سورتوں کی ترتیب سے ہٹ کر پائی گئی ہے۔(۱۳۰)

٭ اگرچہ خود Puinکی نظر میں یہ اختلافات کوئی ایسے بڑے اختلافات نہیں ہیں جن کے ذریعے ان کو علومِ قرآنی میں کسی اہم پیش رفت کا زینہ قرارا دیا جاسکے، لیکن اسکے باوجود اُن قدیم اوراق پر اپنے پہلے سے طے شدہ نتائج کا اظہار کرتا ہے۔

قرآن اپنے آپ کو مبین (واضح) کہتاہے، لیکن اگر آپ اس پر نظر ڈالیں تو آپ اس کے ہر پانچویں جملے میں غیر معنویت کا مشاہدہ کریں گے، بہت سارے مسلم سکالرز اورمستشرقین بھی آپ کو بتائیں گے ، حقیقت یہی ہے کہ قرآنی متن کا پانچواں حصہ بالکل ناقابلِ فہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو ترجمہ کرتے وقت روایتی اضطراب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اگر قرآن خود عربی زبان میں ہی نہیں سمجھا جاسکتا تو اسکا ترجمہ کہاں ممکن ہوگا، لہٰذا قرآن کا اپنے بارے میں بار بار ’ مبین‘ کہنا قطعی طور پر صحیح نہیں۔(۱۳۱)

٭ نیز اوپر ذکر کئے گئے اختلافات ، سورتوں اور آیات کی ترتیب میں اختلافات اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ قرآن پیغمبر کی زندگی میں حتمی شکل میں لکھا ہوا مروّج نہ تھا۔ (۱۳۲)

قارئین ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ بائبل کے ماننے والوں کی یہی وہ بنیادی خواہش ہے جو گذشتہ ایک صدی سے مختلف طریقوں سے اظہار کے راستے تلاش کر رہی ہے کہ کسی طرح قرآن کو بھی بائبل کے بالمقابل لاکھڑا کیا جائے اور یہ ثابت کیا جائے کہ جس طرح تاریخی اعتبار سے بائبل لاتعداد تبدیلیوں اور ارتقاء ات کا سامنا کرتی رہی ، مسلمانوں کے قرآن کو بھی وقت اور تاریخ کے ساتھ ساتھ لفظی و معنوی تغیرات و ارتقاء ات کا ملغوبہ قرار دیا جاسکے۔

Puinاس حوالے قلوا(قالوا)، قل (قال)، قلت(قالت) ، کنوا(کانوا)، سحر (ساحر)،اور بصحبکم(بصاحبکم)جیسی مثالیں پیش کرتا ہے، اگرچہ Puinیہ سمجھتا ہے کہ ان الفاظ کا تلفظ اور ادائیگی الف کے ساتھ ہوتی ہے تاہم یہ رسم ،شبہات کو جنم دیتا ہے، وہ اباؤکم ، اور ابوکم ، بلحق (بالحق)اور کلجواب(کالجواب) جیسی رسم کی غلطیوں کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔(۱۳۳)

ٹوبی لسٹر Toby Lesterنے Puinکی تحقیقات کو کافی تفصیلی بحث کرتے ہوئے قرآنی علوم اور اس کے متن میں ارتقاء کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت کے طور پراس ضمن میں اپنے مشہورِ زمانہ مقالہ ’’What is the Koran?‘‘ میں لکھتا ہے کہ ان صنعانی مخطوطات پر Puinکی تحقیقات کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن میں ارتقائی عمل جاری رہا ہے چنانچہ اسکے بقول موجودہ قرآن اس طرح نہیں ہے جس طرح محمدﷺکی زندگی میں ان کے پاس تھا ۔ بلکہ یہ قرآن اسکی ترقی یافتہ شکل ہے۔(۱۳۴)

Puinکے آرٹیکل میں جو تضادات پائے جاتے ہیں ان کا اظہار درج ذیل نکات میں کیا جاسکتا ہے:

(١) میونخ یو نیورسٹی میں ۴۲۰۰۰ قرآنی مصاحف کو جمع کر کے ان میں باہمی تقابل کے نتیجہ میں تضادات تلاش کرنے کا جواستشراقی منصوبہ بنایا گیا، اس کے تباہ ہونے سے کچھ پہلے ایک اعلان کیا گیا ، جس کا ذکرڈاکٹر حمید اللہ رحمہ اللہ نے اس طرح کیا ہے:

’’قرآن مجید کے نسخوں میں مقابلے کا جو کام ہم نے شروع کیا تھا وہ ابھی مکمل تو نہیں ہوا لیکن اب تک جو نتیجہ نکلا ہے وہ یہ ہے کہ: ان نسخوں میں کہیں کہیں کتابت کی غلطیاں تو ملتی ہیں لیکن روایات کا اختلاف ایک بھی نہیں ہے۔‘‘(۱۳۵)

(٢) معمولی اختلافات سورتوں کی ترتیب میں اس قدر پرانے اوراق میں بالکل قدرتی عمل ہے۔موجود ہ مصاحف میں ترتیب کے خلاف کچھ لوگوں نے بذات خود بھی ترتیبات لگانے کی کوشش کی ہے، جسے فلوجل نے کیا، Puin کسی جگہ بھی قرآنی سورتوں کی متن میں اختلافات کی طرف اشارہ نہیں کر سکا ۔

(٣) کسی قدیم مصحف میں مروّج و متواتر قرآن سے ہٹ کر بعض غلطیوں کاملنا دراصل تصحیحات کے زمر ے میں تو آسکتا ہے تحریفات کے قبیل سے نہیں۔خود پیوئن نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے،ٹوبی لسٹر کے افسانے پر پیوئن نے قاضی اسماعیل الاکوع کو خط لکھ کرمعذرت کرنے کے ساتھ ساتھ اعتراف کیا کہ سوائے چند رسم کی اغلاط کے ان اوراق میں اختلاف ہم دریافت نہیں کر پائے۔اس خط کا متن Impact Internationalکے شمارہ نمبر۳،مارچ۲۰۰۰ء میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

(٤) یہ بے ترتیبی صرف سورتوں میں نہیں ، اوراق کے حوالے سے ذکر کی گئی ہے جیساکہ Puinکے قبضہ میں ۳۵۰۰۰مخطوطات تھے تو یہ ایک فطری عمل ہے۔

(٥) سورتوں میں ترتیب کا یہ خلا اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ مسلمان حفظ کے لیے چند سورتوں پر مشتمل مصاحف بھی استعمال کر تے تھے، اور مسجدیں اس وقت مدارس اور مکاتب کا کام دیتی تھیں ، لہٰذا یہ سورتوں کی بے ترتیبی نہیں بلکہ خاص مقصد کیلئے ترتیب دیئے جاتے تھے۔

(٦) اگر ایسا کوئی حصہ یا پورا قرآن بھی مل جائے تو یہ اس بات کی قطعی طور پر دلیل نہیں بن سکتا ہے کہ نبی ﷺ کے عہد میں یا کسی عہد میں یہی نسخہ مروّج رہا ہو، بلکہ ممکن ہے کہ یہ نسخہ کسی کاتب نے املاء کیا ہو اور یہاں محفوظ ہوگیا ہو۔ کیونکہ صدیوں کا تواتر اس کی نفی کرتا ہے۔

حواشی

(۱)زرکلی خیر الدین، الاعلام،۱؍۸۴، دارالعلم للملایین،بیروت، ط۲،۱۹۸۴ء

(۲)نجیب العقیقی، المستشرقون، ۳/۹۰۶، دارالمعارف مصر،۱۹۶۵ء

(۳)الاعلام،۱؍۸۴…و نجیب العقیقی، المستشرقون،۳/۹۰۷

(۴)گولڈزیہر،العقیدۃ والشریعۃ فی الاسلام،ص۴ ،ترجمہ: محمد یوسف موسیٰ ،علی حسن عبدالقادر، عبدالعزیز عبدالحق، دارالکتب الحدیثۃ، قاہرہ ۱۹۵۹ء

(۵)العقیدۃ والشریعۃ،ص۵

(۶)دیکھئے:Ignaz Gold Zihr, Islamic Studies, Goerge Allen and Unwin Ltd. Landon, 1886.

(۷)الدکتور مصطفی السباعی، الاستشراق والمستشرقون،ص۳۳، مکتبہ دارالبیان کویت،س۔ن۔

(۸) تفصیل کے لیے الغزالی محمد الغزالی کی کتاب دفاع عن العقیدۃ والشریعۃ ضد مطاعن المستشرقین ص۵یا۱۰، دارالکتب الحدیثہ مصر، ط۳، ۱۳۸۴ھ اور علیان محمد عبدالفتاح کی اضواء علی الاستشراق ص۹ تا ۵۲، دارالبحوث العلمیۃ کویت، ط۱، ۱۴۰۰ھ ملاحظہ ہوں۔

(۹)عبدالحلیم النجار،تقدیم مذاہب التفسیرالاسلامی،ص ث (۱۰)أضواء علی الاستشراق،ص۹تا۵۲

(۱۱)ڈاکٹر عبدالحلیم النجار،مذاہب التفسیر الاسلامی(ترجمہ وتقدیم ) (۱۲)الدکتور عبدالوہاب حمودہ، القرا ء ات واللہجات ، مکتبہ النہضۃ المصریۃ قاہرہ، ۱۹۴۸ء

(۱۳)عبدالفتاح القاضی، القراء ات فی نظر المستشرقین والملحدین ، دارمصر للطباعۃ، ۱۴۰۲ھ

(۱۴)شلبی عبدالتفاح اسماعیل، رسم المصحف العثمانی واوہام المستشرقین فی قراء ات القرآن الکریم:دوافعہا ودفعہا، مکتبہ نہضۃ مصر،۱۹۶۰ء

(۱۵)ڈاکٹر ابراہیم عبدالرحمن خلیفہ، دراسات فی مناہج المفسرین، ص۶۹ تا ۲۱۲، بحوالہ بازمول محمد بن عمر بن سالم، القراء ات واثرہا فی التفسیر والاحکام، ۱/۱۱۳، دارالہجرۃ، الریاض،ط۱، ۱۴۷۱ھ/۱۹۹۶ء

(۱۶)الدکتور عبدالرحمن السید، کولدتسیہر والقراء ات ، منشور بمجلۃ المربط، اصبدار جامعۃ البصرۃ، عدد اول، بحوالہ: دکتور عبدالہادی الفضلی، القراء ات القرآنیۃ: تاریخ وتعریف، ص۱۱۱، ط۳، دارالقلم بیروت، ۱۹۸۰ء (۱۷)الکردی طاہر عبدالقادر، تاریخ القرآن وغرائب رسمہ وحکمہ، مطبعہ مطصفی البابی الحلبی مصر، ط۲، ۱۳۷۲ھ/۱۹۵۳ء

(۱۸)مذاہب التفسیرالاسلامی،ص۴ (۱۹)ابن قتیبہ ابو محمد بن عبداللہ مسلم ،تاول مشکل القرآن،ص۲۴و۲۵،ت: السید احمد صقر، دارالتراث القاہرہ مصر، ط۲، ۱۹۹۳ء

(۲۰)مذاہب التفسیرالاسلامی،ص۵۳ (۲۱)ہامش مذاہب التفسیر الاسلامی،ص۴

(۲۲)یہ حدیث متواتر ہے ،دیکھئے:نظم المتناثر،ص۱۱ بحوالہ: محمد بن عمر بن سالم بازمول، القراء ات واثرہا فی التفسیر والاحکام، ۱/۳۱۵

(۲۳)ابن حزم ،الفصل فی الملل والاہواء والنحل ،۲؍۷۶،دارالمعرفۃ للطباعۃ والنشر بیروت، ط۲، ۱۳۹۵ھ/۱۹۷۵ء (۲۴)مرجعِ سابق

(۲۵)الاجوبۃ الفاخرۃ،ص۹۷تا۹۹ (۲۶)تاویل مشکل القرآن،ص۳۳

(۲۷)القراء ات فی نظر المستشرقین والملحدین،ص۱۸ (۲۸)ابن تیمیہ ،مجموع الفتاویٰ ،۱۳؍۳۹۱،جمع عبدالرحمن بن محمد بن قاسم، مطبعۃ الرسالۃسوریا، ط۱، ۱۳۹۸ھ

(۲۹) سبا:۱۹ (۳۰) البقرۃ:۲۲۹ (۳۱)ا ابراہیم:۴۶ (۳۲)ا البقرۃ:۹ (۳۳)البقرۃ:۱۰ (۳۴)النساء:۴۳ (۳۵)البقرۃ:۲۲۲ (۳۶)طبری ابو جعفر محمد ابن جریر،جامع البیان عن تاویل آی القرآن،۱؍۵۵، مصطفی البابی الحلبی مصر،۱۹۶۸ء (۳۷)مجموع الفتاویٰ،۱۳؍۳۹۲

(۳۸)مذاہب التفسیر الاسلامی،ص۵ (۳۹)القراء ات فی نظر المستشرقین والملحدین،ص۱۹

(۴۰)عبدالواحد بن عاشر الاندلسی،تنبیہ الخلان علی الاعلان بتکمیل موردالظمآن،ص۲۸۲، دارالکتب العلمیۃ بیروت، ط۱، ۱۴۱۵ھ/۱۹۹۵ء

(۴۱)القراء ات فی نظر المستشرقین،ص۹۳

(۴۲)جامع البیان فی القراء ات السبع(مخطوط)بحوالہ:قاری ابراہیم میرمحمدی،مکانۃ القراء ات عند المسلمین،ص۲۹و۳۰ملخصاً، جامعہ لاہور الاسلامیہ، لاہور ، س۔ن

(۴۳)القراء ات فی نظرالمستشرقین،ص۱۹و۲۰ (۴۴)مرجعِ سابق

(۴۵)جیفری،مقدمہ کتاب المصاحف،ص۳ ۔تحقیق کی غرض سے آرتھر جیفری کا ’’کتاب المصاحف‘‘کومنتخب کرنااتنا ہی پرحیرت معلوم ہوتا ہے جس قدر اس کے تحقیقی مناہج کے نقائص ۔اصولِ انتقادِ اعلیٰ(Principal of Higher Criticism)کے حامی اور مویدمحقق کیلئے ضروری تھا کہ وہ کتاب کے انتخاب کے ساتھ ساتھ اس کے مندرجات سے سرسری یا سطحی واقفیت کی بجائے اس کے جملہ پہلوؤں سے شناسائی پیدا کرتا۔محض کتاب کے رطب ویابس مواد پر مشتمل ہونے کوکافی سمجھ کر بلا دلیل وتعمق تبصرہ کرنا محقق کے شایانِ شان نہیں ہوتا۔

(۴۶)نفس المصدر،ص۱۶ (۴۷)یہ سماعات جیفری کے مقدمہ ،ص۱۴تا۱۶ملاحظہ ہوں۔(۴۸)کتاب المصاحف،ص۱۱ (۴۹)دیکھئے:کتاب المصاحف،ص۱۱۷

(۵۰)نفس المصدر،ص۱۱۵ (۵۱)نفس المصدر،ص۱۶ (۵۲)سخاوی،جمال القراء ،۱؍۸۸ (۵۳)ابن ابی داؤد،کتاب المصاحف،ص۱۱۲ (۵۴)نفس المصدر،ص۱۵۳ (۵۵)نفس المصدر،ص۱۵۵ (۵۶)نفس المصدر،ص۱۱۲ (۵۷)نفس المصدر،ص۱۷۵ (۵۸)مثلاً دیکھئے نفس المصدر،ص ۳۱ (۵۹)سبحان واعظ محب الدین،مقدمہ کتاب المصاحف،ص۱۱۵ (۶۰) Materials,p.117 (۶۱) p.183 (۶۲)ابن ابی داؤد،کتاب المصاحف،ص۵،۱۰، ۱۵،۵۰،۷۵ (۶۳)M.A.Chaudhary,p.182

(۶۴)یہ زیادہ قرینِ قیاس معلوم ہوتا ہے کیونکہ جمعِ قرآن کا پیرایہ ان حضرات کیلئے بھی استعمال ہوا ہے جو قرآن کریم حفظ کیے ہوئے تھے(کتاب المصاحف،ص ۱۰)

(۶۵)نفس المصدر،ص۵۰ (۶۶)ماخوذ از :الاسلام والمستشرقون،ص۶۳ (۶۷)ابن ابی داؤد،کتاب المصاحف،ص۵۰ (۶۸)نفس المصدر،ص۵۰تا۵۲

(۶۹)الاسلام والمستشرقون،ص۶۴ (۷۰)البقرۃ:۲۸۵ (۷۱)ابن ابی داؤد،کتاب المصاحف،ص۵۳

(۷۲)کرمانی رضی الدین ابو عبداللہ محمد،شواذ القراء ۃ واختلاف المصاحف ،ص۱۴۴،مخطوط بجامعۃ الازہر، بحوالہ:عبدالصبورشاہین، تاریخ القرآن،ص۱۲۶ (۷۳)Materials,p.211 (۷۴)عبد الصبورشاہین،تاریخ القرآن،ص۱۲۷و۲۸ (۷۵)جیفری ،مقدمۃ کتاب المصاحف،ص۳ (۷۶)یونس:۱۵

(۷۷)جیفری،مقدمہ کتاب المصاحف،ص۵ (۷۸)مرجعِ سابق (۷۹) Materaials,p6&7 (۸۰)تقی عثمانی،علوم القرآن،ص۲۳۲

(۸۱)طاش کبریٰ زادہ،مفتاح السعادۃ،۲؍۳۹۲ (۸۲)ابن ابی داؤد،مقدمہ کتاب المصاحف،ص۵

(۸۳ ) Rodwell J.M., The Koran (Translated), London,1953, p.2 (۸۴)جیفری، مقدمہ کتاب المصاحف،ص۵و۶ (۸۵)مرجعِ سابق

(۸۶)Primary Codexesمیں ۱۵صحابہ کے نام ذکر کیے ہیں جبکہ Secondary Codexesمیں ۱۳ تابعین کے نام شمار کئے ہیں(p.14

(۸۷) Materials, p.14 (۸۸) مرجعِ سابق (۸۹)سیوطی،الاتقان،۱؍۵۷ (۹۰)بخاری ،الجامع الصحیح،کتاب فضائل القرآن

(۹۱)ابن ابی داؤد،کتاب المصاحف،ص۱۰ (۹۲)ڈاکٹراکرم چوہدری ،اختلافِ قراء ات اورمستشرقین،آرتھر جیفری کا خصوصی مطالعہ،ص۱۸۲ (۹۳)ابن ندیم،الفہرست،ص۳۶

(۹۴)لیکن ان دونوں کتب کی محتویات’الاتقان‘ اور ’درالمنثور‘میں ملتی ہیں۔(لبیب السعید، المصحف المرتل،ص۳۲۱) (۹۵)Materials, p.234 (۹۶)مرجعِ سابق

(۹۷)نفس المصدر،230 (۹۸)نفس المصدر،p.22 (۹۹)نفس المصدر،p.212 (۱۰۰)نفس المصدر،p.211 (۱۰۱)نفس المصدرp.216 & 217

(۱۰۲ )نفس المصدر،p. 220 to 222 (۱۰۳)نفس المصدر،p.227 to 229 (۱۰۴)نفس المصدر،p.232 & 233 (۱۰۵)جیفری،مقدمہ کتاب المصاحف،ص۶

(۱۰۶)ملاحظہ ہو:Materails, p.16(ترجمہ:ص۷۰) (۱۰۷)جیفری، مقدمہ کتاب المصاحف ،ص۵ (۱۰۸) ایضا

(۱۰۹)بخاری، الجامع الصحیح،باب نزول القرآن بلسان قریش (۱۱۰)سبحان واعظ،مقدمہ ،ص۱۲۹ (۱۱۱)صبحی صالح،مباحث فی علوم القرآن،ص۷۱

(۱۱۲)ابن ابی داؤد،کتاب المصاحف،ص۵۴

(۱۱۳)محمد احمد غازی،علومِ اسلامیہ میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی خدمات،مجلہ فکرونظر۔ڈاکٹر محمد حمید اللہ خصوصی اشاعت۔اپریل ستمبر۲۰۰۳ئ،شمارہ نمبر:۱۶۴،ادارہ تحقیقاتِ اسلامی ،بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی،اسلام آباد۔ (۱۱۴)سبحان واعظ،مقدمہ،ص۱۳۰ (۱۱۵)جیفری،مقدمہ کتاب المصاحف،ص۶ (۱۱۶)سبحان واعظ،مقدمہ،ص۱۳۰

(۱۱۷)جیفری،مقدمہ کتاب المصاحف،ص۸ (۱۱۸)ابن الجزری،النشر ،۱؍۱۲ (۱۱۹)ابن البازش،الاقناع فی القراء ات السبعۃ،۱؍۵۵

(۱۲۰)دیکھئے:ابوجعفر النحاس ،اعراب القرآن،۱؍۶۸۶،تحقیق: د۔ظہیر غازی زاہد،مطبعۃ المعانی بغداد،۱۹۸۰ء (۱۲۱)دیکھئے: الابانۃ ،ص۹۹و۱۰۰

(۱۲۲)ڈاکٹر محمد الحبش،القراء ات المتواترۃ واثرہا فی الرسم العثمانی والاحکام الشرعیۃ، ص۲۶ ، ط۱،دارالفکر المعاصر ، دمشق، ۱۹۹۹ء

(۱۲۳)جیفری ،مقدمہ کتاب المصاحف،ص۸و۹…بنیادی طور پر یہ شبہ ابوشامہ کو بھی پیش آیا کہ جب کوئی قراء ت کسی ایک شخص کی جانب منسوب ہوتی ہے تو وہ خبرِ واحد کے درجہ میں آتی ہے۔(ابن الجزری،منجد المقرئین،ص۲۴۸)۔ابن الجزری رحمہ اللہ کا قول ہے :میں نے اپنے شیخ شمس الدین محمد ابن احمد خطیب شافعی رحمہ اللہ کے سامنے ابوشامہ رحمہ اللہ کا یہ قول پیش کیا کہ بعض وجوہ کے ناقلین آحاد وقلیل ہیں نا کہ لاتعداد وبے شمار۔ تو فرمایا : ابوشامہ رحمہ اللہ اس بارے میں معذور ہیں کیونکہ انہوں نے قراء ات کی تخریج کو احادیث کی تخریج پر قیاس کیا اور یہ سمجھ لیا کہ جس طرح احادیث میں جب کسی حدیث کا مدار ایک ناقل پر ہو تو اس کو خبرِ واحد کہتے ہیں اسی طرح قراء ات میں بھی جب کسی قراء ت وروایت کی نسبت ایک ہی امام کی طرف ہو تو اس کو بھی خبرِ واحد ہی کہیں گے نہ کہ متواتر۔ اور ابوشامہ رحمہ اللہ پر یہ بات مخفی رہی کہ خاص اس امام کی طرف اس روایت وقراء ت کی نسبت اصطلاح وعرف کی بناء پر ہے وگرنہ ہر زمانہ میں پورے شہر والے اس روایت وقراء ت کو پڑھتے اور پڑھاتے تھے جس کو انہوں نے جماعت در جماعت پہلے لوگوں سے حاصل کیا تھا اور اگر اس قراء ت وروایت کا ناقل ایک ہی ہوتا اوردوسرے اہلِ شہر میں اس کا چرچا اور رواج نہ ہوتا تو اس پر کوئی بھی اس ایک امام کی موافقت نہ کرتابلکہ سب کے سب اس قراء ت وروایت سے بچتے اوردوسروں کو بھی اس سے بچنے کی تلقین کرتے حالانکہ ایسا نہیں۔مزید تفصیل کیلئے دیکھئے قاری طاہر رحیمی مدنی،دفاعِ قراء ات ،ص۳۹۲)۔

(۱۲۴)سبحان واعظ،مقدمہ، ص۱۳۲و۱۳۳ (۱۲۵)جیفری،مقدمہ کتاب المصاحف،ص۸تا۱۰ (۱۲۶) سبحان واعظ،مقدمہ، ص۱۳۲و۱۳۳

(۱۲۷)’تسلط‘ کے لفظ کا استعمال ایک سلیم العقل اور معتدل محقق سے بعید ہے(سبحان واعظ،مقدمہ،ص۱۳۴)۔

(128)Mohar Ali”The Quran and the Orientalists” .Jamiyat Ihyaa Minhaaj Al-Sunnah,U.K 2004,p267.

(129)Puin G. R “Observations on Early Qur’an Manuscript in Sana” in Stefan Wild (ed.) The Qur’an as Text, E.J.Brill, Leiden,1996.P108

(130) Ibid PI03-10

(131) Ibid P108-9

(132) Ibid

(133) Ibid

(134)P220

(۱۳۵)خطبات بہاولپور ص20, 21

(بشکریہ ماہنامہ رشد)