سنن ابن ماجہ کی ایک روایت کو استعمال کرتے ہوئی عیسائی مستشرقین الزام دھرتے ہیں کہ قرآن کی کچھ آیات ضائع ہو گئی تھیں کیونکہ ان کو بکری کھا گئی تھی __! آئیے اس روایت کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں اور سچ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔! روایت یوں ہے : ”
حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ ” آیت رجم اور دس بار دودھ پلانے سے رضاعت کبیر ثابت ہونے پر (قرآن مجید میں) آیات نازل ہوئی تھیں۔ یہ دونوں آیتیں ایک کاغذ پر لکھی ہوئی میرے بستر پر پڑی تھیں۔ جب رسول اللّٰه کی وفات ہوئی اور ہم آپ کی تجہیز و تکفین میں مصروف ہو گئے تو ایک بکری آئی اور اس کاغذ کو کھا گئی۔”
(سنن ابن ماجہ، ابواب النکاح، باب رضاع الکبیر، حدیث:۱۹۴۴، مسند احمد:۶/۲۲۹، مسند ابی یعلیٰ:۴۵۸۷،۴۵۸۸)
روایت کی صداقت:
جب بھی کوئی روایت بیان کی جاتی ہے تو سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ روایت مستند بھی ہے یا نہیں۔ بلاشبہ اس روایت میں بھی کچھ کمیاں موجود ہیں
سنن ابن ماجہ میں بیان کی گئی اس روایات میں ایک راوی محمد بن اسحاق ہیں جو اس روایت کو لفظ “عن” سے شروع کرتے ہیں جو کہ کسی روایت کو بیان کرنے کا مبہم طریقہ ہے اور روایت کو ضعیف کر دیتا ہے اگر یہ ایسا راوی استعمال کرے جو تدلس( خلا کو پر کرنا) کی وجہ سے مشہور ہو محمد بن اسحاق بلاشبہ ایسے ہی راوی ہیں، مدلس کی روایت اس وقت مقبول ہوتی ہے جب وہ اپنے سے اوپر کی سماعت کی تصریح کر دے۔ اگر وہ صیغہ (عن) سے روایت کریں گے تو روایت مقبول نہ ہوگی کیونکہ وہ جس سے روایت کررہے ہیں اسکا نام نہیں لے رہے ۔لہذا اس مخصوص سند کی خامی کی بنا پر ابن ماجہ کی اوپر بیان کی گئی روایت ضیعف اور غیر مستند ہے اور اس میں اور بھی مسائل ہیں جو نیچے بیان کیے جا رہے ہیں ۔ یہ بات مولانا تقی عثمانی کی تصنیف تکملہ فتح الملحم 1، دار الاحیا التوراث العربی، بیروت /69 پر بھی واضح بیان کی گئی ہے۔
یہی روایت مسند احمد میں بھی اسی سند سے لیکن ذیادہ واضح ہے یعنی اس میں ابن ماجہ کی روایت کی طرح کا کوئی نقص نہیں ہےلیکن ان سے ابن ماجہ والی روایت پر تنقید کے مزید دروازے کھلتے ہیں کیونکہ ان بہت سے راویوں نے حضرت عائشہ سے رضاعت کی روایت بیان کی ہے لیکن کسی نے بھی ان الفاظ کا استعمال نہیں کیا جو اس روایت میں دیے گئے ہیں (بکری کے کھانے کا کوئی ذکر نہیں ہے) حالانکہ وہ راوی محمد بن اسحاق سے زیادہ قابل بھروسہ اور بااصول ہیں۔لہذا اس حقیقت کے تناظر میں یہ الفاظ صرف اور صرف محمد بن اسحاق سے ہی روایت کیے گئے ہیں اور دوسرے مستند اور بااصول راویوں سے منفرد ہیں ۔محدثین نے اس روایت کو محمد بن اسحاق کے تفرد اور مخالفت ثقات کے سبب مردود قرار دیا ہے ۔ ۔ شیخ شعیب ارنوط نے مسند احمد کی ترتیب میں اسے ضعیف گردانا ہے __!(مسند احمد، 6/269، حدیث 26359)
اگراس روایت کو مستند بھی سمجھ لیا جائے تب بھی یہ روایت قرآن کے مکمل طور پر محفوظ ہونے کو چیلنج نہیں کر سکتی ۔ مزید شواہد درج ذیل ہیں
1. اس روایت کے مطابق رضاعت کے ساتھ رجم کی آیات بھی ضائع ہو گئی تھیں لیکن دوسری روایات کے مطابق رجم کی آیات کو آپﷺ نے قرآن میں لکھنے سے منع فرما دیا تھا کہ یہ آیات قرآن کا حصہ نہیں ہیں۔ درج ذیل روایات اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہیں
(ا). کثیر بن سلط کی روایت میں مذکور ہے کہ زید بن ثابت نے فرمایا “میں نے آپﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ اگر کوئی شادی شدہ مرد اور عورت زنا کریں تو انہیں سنگسار کر دو” یہ ان کر عَمر نے کہا ” جب ایسا بیان کیا گیا تو میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسے لکھنے کی عرض کی لیکن آپﷺ نے ناپسند فرمایا __! (مستدرک الحاکم، حدیث 8184, حاکم نے اسے صحیح کہا ہے
(ب)اس آیت کے متعلق کثیر بن سلط فرماتے ہیں کہ وہ، حضرت زید بن حارث اور مروان بن حکم گفتگو کر رہے تھے کہ اس آیت کو قرآن میں شامل کیوں نہیں کیا گیا اور حضرت عمر بن خطاب وہاں موجود تھے اور ان کی گفتگو سن کے انہوں نے کہا کہ میں تم سے زیادہ بہتر جانتا ہوں اور کہا کہ میں اللہ کے پیغمبرﷺ کے پاس آیا اور عرض کی :” سنگسار کرنے کی آیت کو لکھنے کی اجازت دیں” آپﷺ نے فرمایا ” میں ایسا نہیں کر سکتا” (سنن البیہقی 8/211، سنن الکبرا نسائی حدیث 7148) البانی نے (صحیحہ 6/412 میں لکھا ہے کہ بیہقی نے اس کی سند پر نشان لگایا ہے۔
اگر یہ ضائع ہوجانے والی متنازعہ آیات قرآن کا حصہ ہوتیں تو آپ ﷺ کو انہیں قرآن میں لکھنے سے کون روک سکتا تھا اور آپﷺ انہیں قرآن میں لکھنے کو ناپسند کیوں فرماتے ؟ بلاشبہ یہ قرآن کا حصہ نہیں تھی اور اسی وجہ سے آپﷺ نے اس آیت کو قرآن میں لکھنے کو ناپسند فرمایا ۔ رجم کی آیت کے متعلق تفصیلی تحقیق یہاں دیکھیے۔
2. دوسری مبینہ گم شدہ آیت بالغ کی دس دفعہ رضاعت کے متعلق تھی لیکن اس معاملہ میں بھی دوسری مستند روایات موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت منسوخ ہوگئی تھی اور دلچسپ بات یہ کہ یہ روایات بھی حضرت عائشہ سے مروی ہیں __!صحیح مسلم میں ہے
حضرت عائشہ سے منقول ہے کہ ”اللّٰه نے قرآن میں پہلے یہ نازل کیا تھا کہ دس رضعات سے حرمت ثابت ہوتی ہے۔ (دس بار دودھ پینے سے)۔ پھر اسے پانچ رضعات سے منسوخ کر دیا گیا۔ اور جب رسول اللّٰه کی وفات ہوئی تو یہ الفاظ قرآن میں قراءت کئے جا رہے تھے۔“ (صحیح المسلم : 2634)
یہ روایت واضح طور پر بتاتی ہے کہ دس دفعہ رضاعت والی آیت منسوخ ہو گئی تھی۔ اس معاملے اور صحیح مسلم کی اس روایت کے متعلق مزید تفصیلی تحقیق یہاں دیکھیے ۔
چنانچہ اس بات کو جان لینے کے بعد بھی کہ یہ آیات کبھی بھی قرآن کا حصہ نہیں تھیں’ اگر ہم ان روایات کو صحیح مان لیں تو بھی یہی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت عائشہ نے ان آیات کو محض تاریخی ریکارڈ کی خاطر اپنے پاس سنبھال کے رکھا تھا۔لہذا اگر بکری اس کو کھا بھی گئی تو بھی قرآن کا کوئی حصہ ضائع نہیں ہوا
مزید قرآن کی مکمل تدوین کے ادوار ( حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے حضرت عثمان تک ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ زندہ رہیں،ان کی اپنی ایک مستند حیثیت تھی ، اگر ان کے خیال میں ان سے ایسی کوئی آیت ضائع ہوئی ہوتی تو وہ صحابہ کرام کو ضرور مطلع فرماتیں، ہمارے پاس حضرت عثمان کی قرآن کے جمع کرنے کے لیے حضرت عائشہ سے سپیشل مشاورت اور ان کے پاس موجود ریکارڈ سے کراس چیک کرنے کے شواہد بھی موجود ہیں (ابن شبہ، تاریخ المدینہ، صفحہ 997) اس سب کے باوجود انہوں نے اس مسئلہ کو نہیں اٹھا یا ۔ مزید قرآن کی تدوین کے وقت صحابہ کے اپنے مصاحف اور سینکڑوں حفاظ موجود تھے ، اگر حضرت عائشہ کے پاس سے بکری یہ آیت کھاگئی تو اس سے یہ کیسے ثابت ہوگیا کہ یہ کسی اور کے پاس بھی لکھی ہوئی نہیں تھی یا کسی کو یاد بھی نہیں تھی ۔ یہ سب ہمارے اس نتیجے کو مضبوط کرتا ہے کہ اگر ابن ماجہ کی اس روایت کو مستند بھی مان لیا جائے تو بھی قرآن کا کوئی حصہ ضائع نہیں ہوا ۔