قرآن میں تحریف اور مستشرقین :
اسلام کو مذاہب عالم پر جو خصوصی امتیازات حاصل ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس کی تعلیمات ہر قسم کی تحریف سے محفوظ ہیں، قرآنِ مجید آج بھی بالکل اسی حالت میں موجود ہے جیسا کہ حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا تھا، کیونکہ قرآنِ مجید کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالی نے لیا ہے۔ تاریخِ ادیان میں استثنائی طور پر قرآن وہ واحد مذہبی کتاب ہے جس کی حفاظت نہ صرف حفظ اور کتابت کے ذریعہ کی گئی بلکہ قرآن مجید کو چودہ سو سال سے بھی زائد عرصہ سے اسلامی ریاست کا قانون ہونے کی وجہ سے ہر طرح سے محفوظ رہا ہے ۔ قرآن کے مقا بلے میں یہ امتیاز اور کسی بھی مذہبی کتاب کو حاصل نہیں ہے۔ اور نہ ہی کسی مذہب کے پیروکار یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ ان کی مذہبی کتب غیر محرف ہیں۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو یہ کتب جن زبانوں میں نازل ہوئی تھیں وہ زبانیں ہی کب کی مرچکی ہیں، اور آج تورات اور انجیل جن کی اصل زبان عبرانی اور سریانی تھی، نا معلوم ترجمہ در ترجمہ کے کتنے مراحل طے کرچکی ہیں!
بنی اسرائیل پر ابتلاء اور غلامی کے جو طویل ادوار گذرے ہیں اس دوران یہ کتابیں کئی بار لوگوں کی نظروں سے اوجھل بھی ہوئیں اور پھر بعد کے لوگوں نے ان کو کن مصادر کی روشنی میں قلمبند کیا؟ یہ ساری معلومات پردہ اخفاء میں ہیں، چونکہ اللہ تعالی کی حکمت میں دیگر مذہبی کتابوں کو محفوظ رکھنا شامل نہیں تھا اس لیے ان کتابوں کی حفاظت کے وہ انتظامات نہ ہوسکے جس سے یہ کتابیں زمانے کی دست برد سے محفوظ رہ سکتیں۔ اب یہ معلوم کرنا کہ ان الہامی صحائف میں حق کس قدر باقی بچا ہے اور باطل کی آمیزش کس قدر ہوئی ہے، ممکن نہیں ہے، اسی وجہ سے آپ ﷺ نے اہل کتاب کی تصدیق اور تکذیب سے منع فرمایا ہے (بخاری، کتاب التوحید، باب مایجوز من تفسیر التوارۃ، ح 7542، ص 1584) قرآن مجید جو تمام کتبِ سماویہ کا مُصَدِق اور مُھیمِن ہے، نے جا بجا تورات اور انجیل میں تحریف اور غلطیوں کی نشاندہی کی ہے، قرآنِ مجید نے بنیادی عقائد و نظریات کی درست کے علاوہ تاریخِ انبیاء کے بے شمار واقعات کو مکمل اور صحیح تناظر میں پیش کیا ہے۔ عصری تحقیقات اور انکشافات نے قرآنِ مجید کی حقانیت پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔
مستشرقین کا اسلام پر حملہ آور ہونے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ تورات اور انجیل میں جو کمزوریاں محسوس کرتے ہیں یا قرآن ان کتابوں میں جن غلطیوں کی نشان دہی کرتا ہے وہ انہیں اعتراضات کو قرآن پر لوٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلا! بائبل میں تحریف کو خود یہودی اور عیسائی علماء نے تسلیم کیا ہے۔ اب ان لوگوں کی کوشش یہ ہے کہ کسی طرح یہ تحریف قرآنی متن میں بھی ثابت ہوجائے، اس مقصد کے لیے مستشرقین بعض روایات کو غلط رنگ میں پیش کرتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بائبل کے مختلف Versions ہیں اسی طرح قرآن مجید کا متن بھی متفقہ اور ایک نہیں ہے۔ اس مہم کا آغاز کرنے والوں میں جارج سیل George Sale کا نام انتہائی نمایاں ہے جبکہ آرتھر جیفری Arthur Jeffery نے اس مہم کو نقطہ عروج تک پہنچایا (Arthur Jeffrey, “ The Koran, “The selected Suras, Materials for the history of the text of the Quran, E.J. Brill, 1937, P:20)۔ مستشرقین کا طریقہ تحقیق یہ ہے کہ وہ اپنے مزعومہ مقاصد کے حصول کے لیے اپنا سفر مدح و توصیف سے شروع کرتے ہیں اور غیر محسوس انداز سے قاری کے ذہن میں شکوک و شبہات کی تخم ریزی کرتے ہیں اور پھر دور ازکار تاویلات کے ذریعے اپنے طے کردہ نتائج پیش کرکے قارئیں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بقول سید ابوالحسن علی ندوی، وہ خورد بین سے دیکھتے ہیں اور اپنے قارئین کو دوربین سے دکھاتے ہیں، وہ تمام روایات جن کو قرآن مجید میں تحریف کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتاہے ان میں سے اکثر روایت اور درایت کے محدثانہ اصولوں پر پورا نہ اُترنے کی وجہ سے قابلِ استدلال ہی نہیں جو روایات اصولِ صحت کی کسوٹی پر پورا اُترتی ہیں ان کی درست تاویل کو اختیار کرنے سے عمداً اجتناب کیا گیا ہے۔ اس تحریری سلسلے میں ہم نے چند ایسی روایات کا انتخاب کیا ہے جو معتبر کتبِ حدیث میں موجود ہونے کی وجہ سے خاص طور پر منکرینِ حدیث اور مستشرقین کی تنقید کا نشانہ بنی ہیں، حالانکہ اس نوعیت کی روایات سے کسی لفظ کا قرآن ہونا لازم نہیں آتا کیونکہ قرآن ہونے کے لیے تواتر اور توارث ضروری ہے۔ ان روایات پر بحث سے پہلے ہم نسخ فی القرآن کے متعلق ۔بنیادی تفصیل پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں
نسخ فی القرآن :
قرآن اور اس کے مطالعے کے شعبے میں نسخ کا مسئلہ ابتداء ہی سے مسلم روایات میں خاصی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس پر امت کا اجماع ہے کہ نسخ ایک حقیقت ہے اور قرآن میں نسخ کے وقوع/وجود سے انکار صرف چند ایک معتزلہ نے ہی کیا ہے۔ جید علماء کی اکثریت کی بحث بنیادی طور پر نسخ کے وقوع کے خصوصی نکات سے متعلق رہی ہے۔ کچھ علماء نے مخصوص آیات کی تفہیم ضرور نسخ کا تصور بیچ میں لائے بغیر کی ہے لیکن اس بات پر بہرحال سب کا اتفاق رہا ہے کہ نسخ قرآن میں واقع ہوا ہے۔ صدیوں تک اس معاملے پر اجماع رہنے کے بعد حالیہ چند دہائیوں میں مغربی فکر سے متاثر تجددد پسندوں نے یہ نکتہ اچھالنا شروع کیا ہے کہ قرآن مجید میں نسخ ہو ہی نہیں سکتا۔ ان کا خیال اس پرانے تصور پر مبنی ہے کہ نسخ کا ہونا غلطی یا کوتاہی کو ظاہر کرتا ہے۔
اس مقالے میں ہم نسخ کے معنی،قرآن سے اس کے ثبوت، وقت کے ساتھ ساتھ نسخ کے معنی کی تفہیم میں آنے والے فرق ، قرآن میں منسوخ ہونے والی آیات کی تعداد اور ملحدین و مستشرقین کے پیدا کیے گئے اشکالات اور مغالطوں کو زیر بحث لائیں گے۔ مزید برآں ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ کیسے کئی علمائے سنہ نے نسخ کے تصور کو اس خوبی سے واضح کیا ہے کہ نہ صرف اس کو ایک تسلیم شدہ حقیقت کے طور پر ثابت کر دیا ہے بلکہ ان غلط فہمیوں کی بنیاد کو بھی ختم کیا ہے جن کے زیر اثر کچھ لوگ اس تصور کے ہی انکاری ہوجاتے ہیں
نسخ کا مفہوم:
نسخ” کے لغوی معنی ہیں مٹانا،ازالہ کرنا،اوراصطلاح میں اس کی تعریف یہ ہے :
رَفْعُ الْحُکْمِ الشَّرَعِیِّ بِدَلِیْلٍ شَرَعِیٍّ ۔”کسی حکم شرعی کو کسی شرعی دلیل سے ختم کردینا”(مناہل العرفان:ماھو النسخ۲/۱۷۶)”
مطلب یہ ہے کہ بعض مرتبہ اللہ تعالی کسی زمانے کے حالات کے مناسب ایک شرعی حکم نافذ فرماتا ہے پھر کسی دوسرے زمانے میں اپنی حکمت بالغہ کے پیش نظر اس حکم کو ختم کرکے اس جگہ کوئی نیا حکم عطا فرمادیتا ہے اس عمل کو نسخ کہا جاتا ہے اور اس طرح جو پرانا حکم ختم کیا جاتا ہے اس کومنسوخ اور جو نیا حکم آتا ہے اسے ناسخ کہتے ہیں ۔
قرآن سے ثبوت:
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِها نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْها أَوْ مِثْلِها ۗ أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّه عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ﴾ القرآن الکریم، سورۃ البقرة 2: 106
﴿جو منسوخ کرتے ہیں ہم کوئی آیت یا بھلا دیتے ہیں،تو بھیج دیتے ہیں اس سے بہتر یا اس کے برابر، کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے﴾
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
﴿وَإِذَا بَدَّلْنَا آيَةً مَكَانَ آيَةٍ ۙ وَاللَّه أَعْلَمُ بِمَا يُنَزِّلُ قَالُوا إِنَّمَا أَنْتَ مُفْتَرٍ ۚ بَلْ أَكْثَرُهمْ لَا يَعْلَمُونَ﴾
﴿اور جب ہم بدلتے ہیں ایک آیت کی جگہ دوسری آیت،اور اللہ خوب جانتا ہے،جو اتارتا ہے،تو کہتے ہیں،تو،تو بنا لاتا ہے،یہ بات نہیں،پر اکثروں کو ان میں خبر نہیں﴾ سورۃ النحل 16: 101
عقلی ونقلی ثبوت:۔
یہودیوں کا خیال یہ ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام میں ’’ نسخ‘‘ نہیں ہوسکتا ، کیونکہ ان کے خیال کے مطابق اگر’’ نسخ ‘‘کو تسلیم کرلیا جائے تو اس یہ لازم آتا ہے کہ(معاذ اللہ ) تعالیٰ بھی اپنی رائے میں تبدیلی کرلیتا ہے ، اُن کا یہ کہنا ہے کہ اگر احکام الہی میں ناسخ ومنسوخ کو تسلیم کرلیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے ایک حکم کو مناسب سمجھا تھا بعد میں ( معاذاللہ ) اپنی غلطی واضح ہونے پر اسے واپس لے لیا جسے اصطلاح میں ’’بدا ‘‘ کہتے ہیں ۔ یہودیوں کا یہ اعتراض بہت سطحی نوعیت کا ہے، اورذر ا سابھی غورکیا جائے تواس کی غلطی واضح ہوجاتی ہے، اس لئے کہ’’نسخ ‘‘ کامطلب رائے کی تبدیل نہیں ہوتا ، بلکہ ہر زمانے میں اس دور کے مناسب احکام دینا ہوتاہے،ناسخ کا کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ منسوخ کو غلط قرار دے، بلکہ اس کاکام یہ ہوتاہے کہ وہ پہلے حکم کی مدت نفاذ متعین کردے ،اور یہ بتا دے کہ حکم جتنے زمانے تک نافذ رہا اس زمانے کے لحاظ سے تووہی مناسب تھا،لیکن اب حالات کی تبدیل کی بنا پر ایک نئے حکم کی ضرورت ہے۔
شریعت اسلامیہ کی تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء اسلام میں صحابہ کرام جب نئے نئے دین اسلام میں داخل ہورہے تھے،ان کی ذھنی وعملی تربیت کے لئے جناب رسول اکرم نے تدریجی طور پر اصلاحی کوششیں کیں،کیوں کہ ظاہر سی بات ہے کہ جن لوگوں کی سابقہ پوری زندگی زمانہ جاہلیت میں شرکیہ اعمال وافعال سے آلودہ ہوچکی تھی،اور وہ اعمال وافعال ان کے دل ودماغ میں رچ بس گئے تھے،ایسے میں ان کو اس قسم کے اعمال وافعال سے ایک دم منع کرنا،دعوت دین کی حکمت ومصلحت اور داعیانہ طریق کار کے بالکل منافی تھا،اسی وجہ سے رسول اکرم نے بھی تدریجی طور پر صحابہ کرام کو ایسے اعمال وافعال کے بارے میں مختلف اوقات میں مختلف احکامات بتلائے،شریعت اسلامیہ میں اسی قسم کی تبدیلیاں نسخ سے عبارت ہے۔جو شخص بھی سلامت فکر کے ساتھ غور کریگا وہ اس نتیجے پرپہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ تبدیلی حکمت الہیہ کے عین مطابق ہے، اور سے کسی بھی اعتبارسے کوئی عیب نہیں کہا جاسکتا ، حکیم وہ نہیں ہے جو ہر قسم کے حالات میں ایک ہی نسخہ پلاتا رہے، بلکہ حکیم وہ ہے جو مریض اورمرض کے بدلتے ہوئے حالات پربالغ نظری کے ساتھ غورکر کے نسخہ میں ان کے مطابق تبدیلیاں کرتارہے۔
اور یہ بات صرف شرعی احکام ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے،کائنات کا سارا کا رخانہ اسی اصول پرچل رہا ہے،اللہ تعالیٰ اپنی حکمت بالغہ سے موسموں میں تبدیلیاں پید اکرتا رہتا ہے ، کبھی سردی کبھی گرمی ،کبھی بہار، کبھی خزان، کبھی برسات، کبھی خشک سالی ،یہ سارے تغیرات اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے عین مطابق ہے، اور اگر معاذ االلہ خدا کی رائے میں تبدیلی لازم آتی ہے کہ اس نے ایک وقت سردی کوپسند کیاتھا،بعدمیں غلطی واضح ہوئی ، اور اس کی جگہ گرمی بھیج دی تواُسے احمق کے سوااور کہاجاسکتاہے،بعینہ یہی معاملہ شرعی احکام کے نسخ کاہے اُسے ’’بدا‘‘ قرار دیکر کوئی عیب سمجھنا انتہائی درجہ کی کوتاہ نظری اورحقائق سے بیگانگی ہے۔
پھر ’’نسخ ‘‘ صرف امت محمدؐ یہ علیٰ صاجہاالسلام کی خصوصیت نہیں ، بلکہ پیچھے انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں میں بھی ناسخ و منسوخ کا سلسلہ جاری رہاہے، جس کی بہت سی مثالیں موجود بائیل میں بھی ملتی ہیں، مثلاً بائبل میں ہے کہ ’’حضرت یعقوب علیہ السلام کی شریعت میں دو بہنوں کوبیک و قت نکاح میں رکھنا جائز تھا، اور خود حضرت یعقوب علیہ السلام کی دو بیویاں ‘ لیا’ اور ‘راحیل’ آپس میں بہنیں تھیں (بائبل ، کتا ب پیدائش ۲۹:۲۳تا۳۰،) لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں اسے ناجائز قرار دیاگیا(احبار۱۸: ۱۸؛)، حضرت نوح علیہ السلام کی شریعت میں ہر چلتا پھرتا جاندارحلال تھا(پیدائش ۹:۳،) لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں بہت جانور حرام کردیئے گئے(احبار ۱۱:۱۷احباراا:۱۷ اور الستثناء ۱۴: ۷)، حضرت موسی علیہ السلام کی شریعت میں طلاق کی عام اجازت تھی(التشناء ۲۴:۲۰)، لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں عورت کے زناکار ہونے کے سوا اسے طلاق دینے کی کسی حالت میں اجازت نہیں دی گئی(انجیل متیٰ ۱۹: ۱۵)، غرض بائبل کے عہد نامہ جدید وقایم میں ایسی بیسیوں مثالیں ملتی ہیں جن میں کسی پرانے حکم کو نئے حکم کے ذریعہ منسوخ کردیاگیا۔
ہرآنے والی نبوت اور ہرنازل ہونے والی کتاب نے پچھلی نبوت اور کتاب کے بہت سے احکام منسوخ کرکے جدید احکام جاری کئے ہیں؛ نیز ایک ہی نبوت وشریعت میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ کچھ عرصہ تک ایک حکم جاری رہا؛ پھربتقاضائے حکمتِ خداوندی اس کوبدل کردوسرا حکم نافذ کردیا گیا، حدیث اس پرصراحتاً وارد ہے:”لَمْ تَكُنْ نُبُوَّةٌ قَطُّ إِلَّاتَنَاسَخَتْ “کوئی نبوت نہیں، جس کے احکام منسوخ نہ ہوئے ہوں،”۔(مسلم، كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ، باب،حدیث نمبر:۵۲۶۸، شاملہ، موقع اإسلام)
جن لوگوں نے نسخ کی مشروعیت کا انکار کیا ہے انہوں نے اپنی کوتاہ نظری سے احکام خداوندی کے نسخ کودنیا میں ہونے والی تبدیلی احکام اور تغیر آراء پر قیاس کیا اس لیے وہ غلط فہمی کا شکار ہوئے۔ جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے احکام اور ان کی حکمتیں، بندے اور ان کی مصلحتیں اور نواسخ ومنسوخات سب کے سب اللہ تعالی کے علم میں پہلے سے موجود ہیں۔ یہ نسخ احکام (وقت پر) صرف اللہ تعالی کا اپنے بندوں کے سامنے اپنے علم کا اظہار کرنا ہے۔<مناہل العرفان،2/77>undefined
علمائے متقدمین اور علمائے متاخرین کی اصطلاحات کا فرق :
لفظ ’’نسخ ‘‘ کے استعمال میں علماء متقدمین اور علماء متاخرین کے درمیان اصطلاح کاایک فرق رہاہے ،متقدمین کی اصطلاح میں لفظ ’’نسخ ‘‘ ایک وسیع مفہوم کاحامل تھا، اوراس میں بہت سی وہ صورتیں داخل تھیں جو بعد کے علماء کی اصطلاح میں ’’ نسخ‘‘ نہیں کہلاتیں ‘مثلاً متقدمین کے نزدیک عام کی تخصیص اور مطلق کی تقید وغیرہ بھی ’’نسخ‘‘ کے مفہوم میں داخل تھیں‘ چنانچہ اگر آیت میں عام الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور دوسری میں انھیں کسی خاص صورت سے مخصوص کردیا گیاہے توعلماء متقدمین پہلی کو منسوخ اوردوسری کاناسخ قراردید تےہیں جس کا مطلب یہ نہیں ہوتاتھا،کہ پہلا حکم بالکلیہ ختم ہوگیا، بلکہ مطلب یہ ہوتا تھا کہ پہلی آیت سے جو عموی سمجھ میں آتاتھادوسری آیت نے اس کو ختم کردیاہے،مثلاً قرآن کریم کاارشادہے:۔لاتنکحو المشرکات حتی یومن :”مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو، یہاں تک کہ و ہ ایمان لے آئیں ،،اس میں ’’مشرک عورتوں ‘‘ کا لفظ عام ہے، اور اس بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہرقسم کی مشرک عورتوں سے نکاح حرام ہے، خواہ وہ بت پرست ہوں یااہل کتاب ، لیکن ایک دوسری آیت میں ارشاد ہے:۔’’والمحصنت من الذین اوتولکتب”اور(تمھارے لئے حلال ہیں ) اہل کتاب میں سے باعفت عورتیں ‘‘اس سے معلوم ہو اکہ پہلی آیت میں ’’مشرک عورتوں ‘‘سے مراد وہ مشرک عورتیں تھیں جو اہل کتاب نہ ہوں لہٰذ اس دوسری آیت نے پہلی آیت کے عام الفاظ میں تخصیص پیداکردی ہے اور بتادیاہے کہ ان الفاظ سے مراد مخصوص قسم کی مشرک عورتوں ہیں ‘ متقدین اس کوبھی’’نسخ‘‘ کہتے ہیں ، اور پہلی آیت کومنسوخ اور دوسری کوناسخ قراردیتے ہیں۔
اس کے بر خلاف متاخرین کے نزدیک’’نسخ‘‘کا مفہوم اتنا وسیع نہیں وہ صرف اس صورت کو’’نسخ ‘‘ قرار دیتے ہیں جن میں سابقہ حکم کا بالکلیہ ختم کردیا گیاہومحض عام میں تخصیص یامطلق میں تقییید پیدا ہوجائے تواسے وہ’’نسخ ‘‘ نہیں کہتے،چنانچہ مذکورہ بالامثال میں متاخرین کہتے ہیں کہ اس میں نسخ نہیں ہوا، کیونکہ اصل حکم (یعنی مشرک عورتوں سے نکاح کی ممانعت ) بدستور باقی ہے، صرف اتنا ہواہی کہ دوسری آیت سے یہ واضح ہوگیا کہ پہلی آیت کامفہوم اتنا عام نہیں تھاکہ اس میں اہل کتاب عورتیں داخل ہوجائیں ، بلکہ وہ صرف غیر اھل کتاب کے ساتھ مخصوص تھی۔
اصطلاح کے اس فرق کی وجہ سے متقدمین کے نزدیک قرآن کریم میں منسوخ آیات کی تعد اد بہت زیادہ تھے‘ اور وہ معمول فرق کی وجہ سے ایک آیت کو منسوخ اور دوسری کو ناسخ قرار دیتے تھے، لیکن متاخرین کی اصطلاح کے مطابق منسوخ آیات کی تعداد بہت کم ہے۔( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الاتقان ‘ص ۳۳ج ۲ ۲)
متقدمین نے عام طور پر “نسخ” کو اسی عام معنی میں استعمال فرمایا ہے، اس میں کسی حکم کی پوری تبدیلی بھی داخل ہے اور جزوی تبدیلی، قید، شرط، یااستثناء وغیرہ کا اضافہ بھی؛ اسی لیے ان حضرات کے نزدیک قرآن میں منسوخ آیات پانچ سوتک شمار کی گئی ہیں۔ جبکہ متاخرین نے صرف اس تبدیلی کا نام نسخ رکھا، جس میں حکم بالکل ہی باقی نہ رہے، اس اصطلاح کے مطابق آیات منسوخ کی تعداد بہت گھٹ جاتی ہیں؛ چنانچہ علامہ سیوطیؒ نے”الاتقان” میں صرف بیس آیتوں کومنسوخ قرار دیا ہے، ابن عربی رحمہ اللہ بھی اسی کے قائل ہیں، اس کے بعد شاہ ولی اللہؒ نے ان میں بھی تطبیق کی صورت پیدا کی اور صرف پانچ آیتوں کومنسوخ مانا۔
(الفوز الکبیر مقدمہ ارشاد الراغبین:۳۱)
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے نزدیک نسخ کی حقیقت:
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نسخ کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بظاہر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ نسخ حکم کی تبدیلی کا نام ہے،حالاں کہ ایسا نہیں ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حکم میں تبدیلی نہیں ہوتی، جیساکہ بخاری شریف کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے، جومعراج سے متعلق ہے، اس میں مذکور ہے کہ “ہمارے یہاں بات بدلتی نہیں ہے”۔شاہ صاحب کے بقول “نسخ”حکم کی انتہاء کا نام ہے،یہ انتہاء کئی وجہوں سے متحقق ہوتی ہے:
1- انتہاءِ علت کی وجہ سے حکم منتہی ہوجائے، جیسے کہ فتحِ مکہ کے بعد،ہجرت کا حکم منسوخ ہوگیا،اس لئے کہ اب مکہ مکرمہ فتنہ کا گھر نہیں رہا۔
2- مقصدِ اصلی کے لئے علت مظنہ باقی نہ رہے، یعنی یہ کہ اب قطعی طور پر اس بات کا گمان اور شک نہ رہے، کہ جس چیز کو مقصدِ اصلی کی حرمت کی وجہ سے حرام قرار دیا گیا تھا،وہ اس تک پہنچانے کا ذریعہ اور سبب نہ بنے،مثلا پہلے شراب کے برتنوں کو استعمال کرنا یا فائدہ اٹھانے کو بھی حرام قرار دیا گیا تھا، تاکہ اصل یعنی شراب سے بچا جائے،پھر جب مقصدِ اصلی یعنی شراب کی حرمت اس طرح مستقر ہوئی کہ لوگ اس کے قریب بھی جانا پسند نہیں کرتے تھے،تو برتنوں کی حرمت بھی ختم کردی گئی۔
3- علت بننے سے اب کوئی دوسری چیز مانع بن رہی ہو، جیسے جب اسلام اور مسلمانوں کو قوت حاصل ہوگئی، تواس وقت تالیفِ قلب کی ضرورت باقی نہ رہی، لہٰذا مؤلفۃ القلوب کا حصہ ختم ہوگیا، اس لئے ان کو زکوۃ دئے جانے کی جو علت تالیفِ قلب تھی، وہ اب علت نہیں بن سکتی۔
4- وحی جلی کے ذریعہ نبی کریم پر کسی دوسرے حکم کی ترجیح ظاہر ہوجائے، جیسے بیت المقدس کی طرف نماز میں استقبال کا منسوخ ہونا۔
5- خود آپ کے اجتہاد کے ذریعہ دوسرے حکم کی ترجیح ظاہر ہوجائے،جیسے کہ آپ کا ارشاد ہے، “کنت نهيتکم عن زيارة القبور، ألا فزوروها، فاِنّها تذکر الآخرة” <امام ترمذی،ترمذی شریف. ط: کتب خانہ رشیدیہ، دہلی، کتاب الجنائز عن رسول اللہ، باب ما جاء فی الرخصۃ فی زیارۃ القبور، 1/25>undefined یعنی “میں نے تم لوگوں کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا،سن لو، تم ان کی زیارت کرو، کیوں کہ اس سے آخرت یاد آتی ہے”۔
<حجۃ اللہ البالغہ ، شاہ ولی اللہ الدہلوی.. ط: کتب خانہ رشیدیہ، 1/139>undefined
نسخ کی شرطیں
نسخ کے لیے کیا شرطیں ہیں؟ فقہاء نے اس پرتفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور گیارہ شرطوں کا ذکرکیا ہے:
(۱)منسوخ حکمِ شرعی ہو، محض عقلی نہ ہو(۲)نسخ فروعی احکام میں ہوگا، اعتقادات میں نہ ہوگا(۳)جس حکم کومنسوخ قرار دیا جارہا ہے اس کے جائز وناجائز ہونے اور مشروع وغیرمشروع ہونے کا احتمال ہو؛ ایسا نہ ہوکہ اس کا مشروع ہونا ہی متعین ہو، جیسے “ایمان”اور نہ ایسا حکم ہوکہ اس کا غیرمشروع ہونا ہی طے شدہ ہو، مثلاً “کفر”۔(۴)نسخ پرکوئی دلیل موجود ہو۔(۵)ناسخ ومنسوخ میں زمانہ اور وقت کے اعتبار سے فصل ہو اور ناسح منسوخ سے مؤخر ہو۔(۶)ناسخ ومنسوخ دونوں اپنے ذریعہ ثبوت کے اعتبار سے مساوی درجہ کے ہوں۔ (۷)ناسخ ومنسوخ دونوں ایک دوسرے کے مغائر حکم چاہتے ہوں۔(۸)منسوخ کا علم مکلف کوہوچکا ہو؛ خواہ عمل کی نوبت آئی ہو یانہیں اور عمل خواہ کسی فرد نے کیا ہو یاجماعت نے۔(۹)جس حکم کومنسوخ کیا گیا ہے ابتداً جب وہ حکم آیا ہو تواس کوکسی وقت کے ساتھ مقید نہ کیا گیا ہو؛ بلکہ اپنے عموم واطلاق کے اعتبار سے وہ ہمیشہ کے لیے ہو۔(۱۰)یہ بھی ضروری ہے کہ جس حکم کومنسوخ قرار دیا جارہا ہو، شارع نے اس کی ابدیت اور دوام کی صراحت نہ کی ہو یادلالۃ بھی اس کی ابدیت ثابت نہ ہوتی ہو؛ چنانچہ وہ تمام احکام جن کوآپﷺ نے اپنی حالت پرچھوڑ کروفات پائی، آپﷺ کی وفات کے بعد دائمی اور ناقابل نسخ ہوں گے؛ کیونکہ “نص” کے لیے شارع کے حکم کے سوا کوئی اور چیز ناسخ نہیں بن سکتی۔(۱۱)پہلے حکم پرشارع کے حکم کی وجہ سے عمل ترک ہوا ہو، نہ کہ موت یآفاتِ سماوی کی وجہ سے۔
(التوضیح علی التلویح:۲/۵۱۱۔ حسامی:۸۷۔ نورالانوار:۲۱۲۔ الاحکام فی اصول الاحکام، آمدی:۳/۱۲۶۔ کشف الاسرار:۲/۸۸۳۔ الاحکام فی اصول الاحکام لابن حزم:۴/۴۴۸۔ اصول الفقہ الاسلامی:۲/۹۵۳) (ارشاد الفحول:۴/۴۴۸)
کسی حکم کی تنسیخ کس دلیلِ شرعی کے ذریعہ ہوگی؟
اس سلسلہ میں متعدد مصادر کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں سے بعض متفق علیہ ہیں اور بعض میں اختلاف ہے، مجموعی طور پرپانچ ہیں: عقل، اجماع، قیاس، قرآن، سنت، قرآن کا نسخ خود قراان کے ذریعہ، سنت کا نسخ، قرآن کا نسخ،۔
عقل کے ذریہ نسخ بالاتفاق ناجائز ہے، اس لیے کہ شریعت حاکم ہے اور عقل محکوم اور ظاہر ہے کہ حاکم کا نسخ محکوم کے ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ (الوجیز فی اصول التشریح الاسلامی:۲۴۹)
قیاس کے ذریعہ کتاب اور سنت رسولﷺ کا نسخ جائز نہیں، اس پربھی جمہور کا اتفاق ہے، قیاس جلی ہویاخفی، اس لیے کہ قیاس اصل نہیں بلکہ فرع ہے اور کتاب وسنت اصل ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ جب قیاس اور نص باہم متعارض ہوں تونص پرعمل کیا جائے گا اور قیاس کوترک کردیا جاے گا، اس طرح قیاس کا درجہ کتاب وسنت سے کم تر ہے، (الاحکام فی اصول الاحکام، آمدی:۳/۱۷۷،۱۷۸۔ ارشادالفحول:۱۹۳)
اجماع کے ذریعہ کتاب اللہ سنت رسول اللہ خود اجماع اور قیاس کسی کا نسخ جائز نہیں؛ یہی جمہور اصولین کا مذہب ہے، صاحب الاحکام تحریر فرماتے ہیں “مذھب الجمہور الی ان الاجماع لانسخ بہ” (الاحکام فی اصول الاحکام، آمدی:۳/۱۷۴)
قرآن کے ذریعہ خود قرآن کا نسخ بالاتفاق جائز ہے، آمدی رقمطراز ہیں: “اتفق القائلون بالنسخ علی جواز نسخ القرآن بالقرآن” (الاحکام فی اصول الاحکام، آمدی:۳/۱۵۹) خود قرآن اس پرناطق ہے کہ “ہم جس آیت کومنسوخ کردیتے ہیں یابھلادیتے ہیں توکوئی اس سے بہتر ہی اس کے مثل لے آتے ہیں، کیا تجھے خبر نہیں کہ اللہ ہرچیزپر قادر ہے” (البقرۃ:۱۰۶)
سنت کے ذریعہ سنت کا نسخ جائز ہونے پربھی امت کا اجماع ہے، شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں “لاخلاف فی جواز نسخ السنۃ بالسنۃ” (ارشاد الفحول:۱۹۰) یہی بات ابنِ حزم رحمہ اللہ ہمدانی نے لکھی ہے۔
(کتاب الاعتبار فی الناسخ والمنسوخ من الآثار:۲/۲۵)
قرآن کے ذریعہ سنت کے نسخ کے جائز ہونے پر بھی علماءِ اہلِ سنت متفق ہیں (البرہان فی علوم القرآن:۲/۱۳۲) اس کی متعدد نظیریں شریعت میں موجود ہیں، ابتدائے اسلام میں عاشورہ کا روزہ فرض تھا، جس کا ثبوت سنت سے ہے، بعد کوکتاب اللہ کے ذریعہ منسوخ ہوگیا “كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَاكُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ” (البقرۃ:۱۸۳) پہلے نماز میں بیت المقدس کی جانب رُخ کرنے کا حکم تھا اور یہ حدیث سے ثابت ہے؛ لیکن بعد کوقرآن کی آیت (البقرۃ:۱۴۴) نے اس کومنسوخ کرکے خانہ کعبہ کوقبلہ مقرر کیا۔
نسخ کے جاننے کا طریقہ
جب دونصوص باہم متعارض ہوجائیں توظاہر ہے کہ پہلا حکم منسوخ اور بعد والا ناسخ ہوگا، تقدم وتاخر میں تلاوت کا اعتبار نہیں ہے؛ بلکہ نزول کا اعتبار ہے، اس لیے کہ قرآن مجید میں آیات اور سورتوں کی ترتیب نزولی نہیں ہے، اس تقدم وتاخر کا علم نص قرآنی، حضوراکرمﷺ کی قولی تشریح، فعلِ نبویﷺ ، اجماعِ صحابہؓ، یادوسرے قرائن سے ہوسکتا ہے۔
قرآن میں منسوخ آیات کی تعداد:
انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے نزدیک منسوخ آیات کی تعداد:
برصغیر کے مایہ ناز محدث انور شاہ کشمیری (المتوفی 1353ھ)، کے مطابق قرآن میں کوئی ایسی آیت نہیں ہے جو کہ اپنی تمام تفصیلات سمیت غیر مؤثر (منسوخ) ہوئی ہو۔ وہ لکھتے ہیں؛
وادعيت أن النسخ لم يرد في القرآن رأسا – أعني بالنسخ: كون الآية منسوخة في جميع ما حوته بحيث لا تبقى معمولة في جزئي من جزئياتها – فذلك عندي غير واقع. وما من أية منسوخة إلا وهي معمولة بوجه من الوجوه، وجهة من الجهات
میرا یقین ہے کہ شروع میں کوئی آیت منسوخ نہیں ہوئی۔ نسخ سے میرا مطلب ایسی آیت ہے جو کہ ہر لحاظ سے منسوخ ہو چکی ہو اور اس کا کوئی بھی حصہ کارگر(مؤثر) نہ رہا ہو۔ میری سمجھ کے مطابق ایسا (نسخ قرآن میں )نہیں ہوا۔ جو بھی آیت منسوخ ہوئی، وہ ابھی تک کسی نہ کسی پہلو میں مؤثر ہے۔ )کشمیری، انور شاہ، فیض الباری ، بیروت: دارالکتب العلمیہ 2005، ج 3، ص 323)
کشمیری رحمہ اللہ کی نسخ کی اصطلاح کی تشریح کے مطابق تمام ذکر کردہ منسوخ آیات اپنے ایک یا زائد پہلوؤں سے مؤثر ہیں، جبکہ ان کے چند ممکنہ ظاہری پہلو منسوخ ہوئے ہیں۔ تاہم اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کشمیری رحمہ اللہ نے اس دلیل کو بطور اصول پیش کیا ہے لیکن اس کے علاوہ ایسے علماء کرام بھی ہیں جنہوں نے ان آیات کی دوسرے انداز میں تشریح کی ہے، جیسا کہ شاہ ولی اللہ دہلوی نے ناسخ آیات کے بارے میں مؤقف اختیار کیا ہے۔
مثلا شاہ صاحب کے نزدیک منسوخ وصیت کی آیت کو بطور سفارش بھی سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ وصیت پہلے سے قائم(موجود) چیزوں کیلئے کی جاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت یعقوبؑ کا اپنے بیٹوں کو وصیت کرنا کہ اللہ پر توکل کرنا اور مرتے دم تک ایمان پر ثابت قدم رہنا۔
“اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی اور یعقوب (علیہ السلام) نے بھی (یہی کہا:) اے میرے لڑکو! بیشک اللہ نے تمہارے لئے (یہی) دین (اسلام) پسند فرمایا ہے سو تم (بہرصورت) مسلمان رہتے ہوئے ہی مرن۔ کیا تم (اس وقت) حاضر تھے جب یعقوب (علیہ السلام) کو موت آئی، جب انہوں نے اپنے بیٹوں سے پوچھا: تم میرے (انتقال کے) بعد کس کی عبادت کرو گے؟ تو انہوں نے کہا: ہم آپ کے معبود اور آپ کے باپ دادا ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق (علیھم السلام) کے معبود کی عبادت کریں گے جو معبودِ یکتا ہے، اور ہم (سب) اسی کے فرماں بردار رہیں گےo” (البقرۃ 132-133)
اسی طرح “فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ” (الأنفال:۶۶) ثابت قدم ایمان والے(تعداد میں ) زیادہ کفار پر غالب آئیں گے، یہ بھی اس طرح تنسیخ کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ تو درجہء ثابت قدمی اور اس کے نتیجے کی بات ہے،(معارف القرآن از مولانا ادریس کاندھلوی جلد 3 صفحہ 359-360) اسے ایک رائے کے طور پر قرار دیا جا سکتا ہے، جیسا کہ اسی آیت میں الفاظ ہیں کہ ” اب اللہ نے تم سے (اپنے حکم کا بوجھ) ہلکا کر دیا”۔(تاویلات السنہ علامہ ماتریدی ، جلد 5 صفحہ 255 بیروت )یہ نسخ قرآن کے اولین مخاطبین کی صلاحیتوں کے لحاظ سے ہوسکتا تھا ۔ بعد کی نسلوں کے لیے الفاظ کا ظاہر دونوں آیات کو موثر کردیتا ہے ۔ تاریخی طور سے بھی یہ ثابت ہے. مثلا امام طبری جنگ بویب کے حوالے سے لکھتے ہیں: وقال ربعي بن عامر بن خالد: كنت مع أبي يوم البويب- قال وسمي البويب يوم الأعشار- أحصي مائة رجل، قتل كل رجل منهم عشرة في المعركة يومئذ “ربعی بن عامر بن خالد کہتے ہیں: بویب کی جنگ کے دن میں اپنے والد کے ساتھ تھا. بویب کو يوم الأعشار بھی کہتے ہیں، کیونکہ شمار کرنے سے سو (١٠٠) آدمی ایسے نکلے جنہوں نے اس معرکے میں دس دس آدمی قتل کئے تھے. ” — تاریخ طبری. جلد ٣، ص ٤٦٨ مطبوعہ دار التراث بیروت ١٣٨٧ هـ
تہجد کے بارے میں آیات بھی اسی پیرائے میں سمجھی جا سکتی ہیں۔
جیسا کہ پیغمبر اعظم ﷺ کے ساتھ خلوت میں مشورہ سے پہلے صدقہ دینے کی آیت میں اگرچہ پابندی(فرضیت) منسوخ ہو چکی ہے، لیکن بطور سفارش (استحباب) باقی رہا۔
پیغمبرِ اسلام کی شادیوں کے بارے میں ایک یکساں طور پر معقول تشریح ہے جس میں نسخ کا ٰخیال نہیں ہے۔ جیسا کہ الطبریؔ کے مطابق، بہترین تشریح یہ ہے ، کہ آیت نمبر 50 میں اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کا ذکر کیا ہے جن سےپیغمبرؑ کا نکاح کرنا جائز ہے اور دوسری آیت (نمبر52) میں بس یہ بیان کیا گیا ہے کہ جن عورتوں کا ذکر پہلی آیت میں نہیں ہے، ان سے نکاح جائز نہیں۔
لہذٰا ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ منسوخ آیات کو دوسری (کسی اور) صورت میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے یا ایک توضیح یہ بھی ہے کہ جب ہم نسخ کا اقرار کرتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس(آیت) میں موجود چند احکامات ابھی بھی لاگو ہیں۔
علامہ کشمیری اور معتزلہ کی رائے میں فرق:
علامہ کشمیری اور معتزلہ جس جس نظریہ کی ترجمانی کرتے ہیں، ان کے درمیان فرق کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ جیسا کہ معتزلہ قرآن میں موجود نسخ کا یکسرسرے سے ہی انکار کر دیتے ہیں اور اسے نقص خیال کرتے ہیں، علامہ کشمیری قرآن میں موجود نسخ کو تسلیم کرتے ہیں اور یہ بات بھی کہتے ہیں کہ یہاں تک کہ منسوخ آیات میں چند پہلو ایسے ہیں جو ابھی تک نافذ ہیں۔ اور یہ بات پیچھے درج کردہ بیان سے ثابت شدہ ہے۔<لدھیانوی، محمد یوسف، آپ کے مسائل اور ان کا حل، (کراچی، مکتبہ لدھیانوی 2011) ج 1، ص 72-74>undefined اور یہ بات پیغمبرؑ سےخلوت میں مشورہ کرنے سے پہلے صدقہ کرنے والی آیت سے ثابت ہے۔ علامہ کشمیری نے اس بات پر یہ مؤقف اختیار کیا ہے ، گو کہ متذکرہ صدقہ(خیرات) کی فرضیت منسوخ ہو چکی ہے مگر بطور سفارش(مستحب) یہ ابھی باقی ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یقیناً قران میں منسوخ شدہ آیات ہیں البتہ کوئی بھی آیت خالصہً اس مقصد کیلئے اپنی عملی قدر سے محروم نہیں ہوتی۔
خلاصہ و حاصل کلام:
نسخ کے معنی صدیوں سے تبدیل ہوتے آ رہے ہیں (علماء کی اپنی اپنی تحقیق و رائے کے مطابق) جس کی وجہ سے قرآن میں منسوخ آیات کی تعداد بھی بدلتی رہی۔ متاخرین (امت کے ابتدائی دور کے علماء کرام) کے نزدیک یہ اصطلاح ایک وسیع پیرائے میں استعمال ہوتی تھی ، جس میں ایک ہی مسئلہ(موضوع) پر ایک سے زائد آیات نازل ہونے کی صورت میں پہلی نازل شدہ آیت منسوخ سمجھی جاتی تھی۔ا س وجہ سے متاخرین کے نزدیک قرآن میں منسوخ آیات ایک بڑی تعداد تھی۔ بعد میں آنے والے مستند علماء امام سیوطی ؒ نے قرآن میں منسوخ آیات کی تعدادبیس (20 )لکھی ہے، جبکہ شاہ ولی اللہؒ کے مطابق یہ تعداد صرف پانچ (5) ہے۔ بعد والے علما ء کرام نے اسے مزید واضح کیا ہے کہ ان میں سے بعض آیات منسوخ خیال نہ کرتے ہوئے بڑی آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ باوجود اسکے کہ معتزلہ کے برخلاف تمام علماء اہلسنت اس بات پر آج تک متفق ہیں کہ قرآن میں چند آیات منسوخ ہوئی ہیں۔ جبکہ ان میں سے چند جیسا کہ کشمیری نے اس بات کو وضح کیا ہے کہ بلاشبہ قرآنی آیات میں تنسیخ واقع ہوئی لیکن ان میں سے کوئی بھی آیت ایسی نہیں ہے جس کا کوئی نہ کوئی پہلو کسی نہ کسی طریقہ سے نافذ العمل نہ ہو۔
تحریر : وقار اکبر چیمہ