رجم کی آیت کے گم ہوجانے کا مفروضہ – تحقیقی جائزہ

عیسائی مبلغین اور اسلام مخالف مستشرقین وملحدین کی طرف سے یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ رجم کی آیات پہلے موجود تھیں لیکن محفوظ نا رہ سکی اس لیے آج کا موجودہ قرآن ان سے محروم رہ گیا۔اس دعوی کے ثبوت میں مندرجہ ذیل حدیث من مانی تشریح کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

إنّ اللّٰہ بعث محمّدا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بالحقّ وأنزل علیہ الکتاب، فکان ممّا أنزل اللّٰہ آیۃ الرجم، فقرأناہا وعقلناہا ووعیناہا، رجم رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ورجمنا بعدہ، فأخشی إن طال بالناس زمان أن یقول قائل : واللّٰہ ما نجد آیۃ الرجم فی کتاب اللّٰہ، فیضلّوا بترک فریضۃ أنزلہا اللّٰہ، والرجم فی کتاب اللّٰہ حقّ علی من زنی إذا أحصن من الرجال والنسائ، إذا قامت البیّنۃ أو کان الحبل أو الاعتراف، ثمّ إنّا کنّا نقرأ فیما نقرأ من کتاب اللّٰہ أن لّا ترغبوا عن آبائکم، فإنّہ کفر بکم أن ترغبوا عن آبائکم، أو إنّ کفرا بکم أن ترغبوا عن آبائکم ۔ (صحیح بخاری ۸: ۲۶ ـ صحیح مسلم ۵: ۱۱۶ ـ مسند احمد ۱: ۴۷ .)

 ”بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر مبعوث فرمایا اور ان پر کتاب نازل فرمائی۔اللہ تعالیٰ نے جو وحی آپ پر نازل کی تھی ، اس میں رجم والی آیت بھی تھی۔ ہم نے اسے پڑھا اور یاد کیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (شادی شدہ زانیوں کو)رجم کیا اور آپ کے بعد ہم نے بھی ایسا کیا۔ مجھے خدشہ ہے کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اللہ کی قسم ! ہمیں کتاب اللہ میں رجم والی آیت نہیں ملی اور یوں وہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ ایک فریضے کو چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں۔ کتاب اللہ میں شادی شدہ زانی مرد و عورت پر رجم ثابت ہے جب کوئی دلیل قائم ہو جائے یا (کنواری عورت) حاملہ ہو جائے یا زانی خود اعتراف کر لے۔ پھر ہم کتاب اللہ کے جس حصے کو پڑھ کرتے تھے ، اس میں یہ بھی پڑھتے تھے کہ تم اپنے آباء سے اعراض نہ کروکیونکہ اپنے آباء سے اعراض کفریہ کام ہے۔(صحیح بخاری )

ان اسلام مخالف عناصر کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایک یا دو روایات اٹھا کر ان سےنکالے گئے اپنی مرضی کے مطالب کی بنیاد بالکل الٹ کہانی گھڑ لیتے ہیں اس بات کو جانے بغیر کہ اسلامی روایات کا خزانہ بہت وسیع ہے اور وہ کسی بھی من پسند تشریح کرنے والے کا پردہ آرام سے چاک کر سکتا ہے __! آئیے اس مسئلے کا تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں __!

اس مبینہ آیت کے بارے میں حقیقت:

بعض روایات سے پتا چلتا ہے کہ رجم کی اس آیت کے الفاظ یہ تھے “الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموھما البتۃ (بوڑھا اور بوڑھی جب زنا کریں تو دونوں کو ضرور رجم کر دو”۔ اور یہ منسوخ ہوگئی تھی . لیکن بہت سی روایات کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ کبھی قرآن کا حصہ نہیں سمجھی گئی _! لفظ “نازل” اس کے بارے میں صرف مجازی/اصطلاحی معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ یہ آیت شاید یہودیوں کی کتابوں میں تھی اور یہ قرآن کی آیت کے طور پر نازل نہیں تھی. لیکن اس کا حکم چونکہ وحی سے ثابت تھا اس لیے جوں کا توں مقرر رہا ۔طبری کی تفسیر کی درج ذیل روایت سے واضح ہوتا ہے کہ یہ آیت پہلے صحیفوں کا حصہ تھی۔

ابن جریر سورہ المائدہ کی تفسیر میں یہودیوں کے سنگسار کرنے کے واقعہ کو بیان کرتے ہیں۔ “آپﷺ نے ان سے کہا “تم سے سے سب سے زیادہ قانون جاننے والا کون ہے ؟” انہوں نے کہا “عبداللہ بن سوریا” اسے بلایا گیا اور وہ آیا پس آپﷺ نے فرمایا “کیا تم ان میں سب سے زیادہ قانون جاننے والے ہو” اس نے کہا “یہودی ایسا سوچتے ہیں” آپﷺ نے اس سے کہا ” اللہ اور اللہ کی طرف سے موسیٰ کو سینا میں دی جانے والی شریعت کی رو سے (مجھے بتاؤ) کہ زانیوں کی بابت کیا حکم دیا گیا ہے” اس نے کہا ” ائے ابوالقاسمﷺ ! وہ زانیوں کو سنگساری کا حکم کرتے تھے __ وہ امیر آدمی(اگر اس نے یہ گناہ کیا ہو ) کا چہرہ کالا کر کے اسے اونٹ پر بٹھاتے اور اونٹ کی پشت کی طرف اس کا منہ کر کے اسے پتھر مار مار کر جان سے مار دیتے تھےاور یہی حال عورت کا کرتے” پھر آپﷺ نے دوبارہ ارشاد فرمایا ” اللہ اور اللہ کی طرف سے موسیٰ کو سینا میں دی جانے والی شریعت کی بابت مجھے بتاؤ کہ تم اس قانون میں کیا پاتے ہو؟” اس نے فضول گوئی شروع کردی اور آپﷺ نے اسے اللہ اور اللہ کی طرف سے موسیٰ کو سینا پر دی جانے والی شریعت کے مطابق بتانے پر زور دیا یہاں تک کہ اس نے کہا “جب کوئی شادی شدہ مرد اور عورت زنا کریں تو انہیں سنگسار کر دو” پھر آپﷺ نے فرمایا”ایسا ہی ہے __ ان کو لے جاؤ(جنہوں نے زنا کیا تھا) اور سنگسار کر دو۔(تفسیر ابن جریر الطبری 10/328 روایت11976)۔

حافظ ابن جریر طبری ؒ ( م310ھ) نے حضرت جابر بن زیند ( رضی اللہ تعالی عنہ ) سے نقل کیا ہے کہ یہودیوں کے رجم کے واقعہ میں جب آنحضرت ﷺ نے قسمیں دے کر عبداللہ بن صوریا سے پوچھا: تورات میں شادی شدہ زانی کا حکم کیا ہے؟ تو اس نے یہ آیت پڑھی: ( الشیخ و الشیخۃ فارجموھما البتۃ ) اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ” فھو ذاک ” یعنی بس یہی حکم تو چاہیئے تھا۔ ” (تفسیر الطبری، تفسیر سورۃ المائدہ، آیت 42، 4/157)

عبداللہ بن سوریا یہودی کی بات سے بھی واضح ہو گیا کہ یہ آیت تورات کی آیت کے مشابہ ہے ۔اور ہم یہ احکامات کہ تورات میں مسلسل  تحریف کے باوجود آج بھی بائبل میں ڈھونڈ سکتے ہے جیسا کہ Deuteronomy 22 بیان کرتی ہے۔ چونکہ اس کے مرکزی مفہوم کو اسلامی شریعت میں بھی باقی رکھا گیا تھا اور رسول اللہ ﷺ نے اس کے مطابق فیصلے بھی فرمائے تھے، اس لیے یہ فقرہ ایک واجب العمل حکمِ الہٰی کی طرح زبان زدعام ہوگیا۔

رجم کی روایت کا مفہوم:

 یہ بات ذہن میں رکھتے ہوئے کہ وحی صرف قرآن تک محدود نہیں بلکہ آپ ﷺ کے فرمان بھی وحی (غیر متلو) ہیں ، جیسا کہ قرآن میں ہے آپﷺ جو بھی فرماتے تھے وہ اپنی مرضی سے نہیں فرماتے تھے (53:3) ہم اوپر بیان کی جانے والی حدیث کا تجزیہ کرتے ہیں __!

کان مما انزل اللہ سے مراد:

اوپر پیش کردہ بخاری کی روایت کے شروع میں رجم کے لیے الفاظ آئے ہیں “کان مما انزل اللہ”ترجمہ:-” یہ قانون بھی ان ہی باتوں میں سے ہے جنہیں اللہ نے نازل فرمایا”۔غور فرمائیے اسی روایت میں آگے ذکر ہے “اناکنا نقرا فیما نقرا من کتاب اللہ ان لا ترغبوا عن ابانکم فانہ کفر بکم ان ترغبوا عن ابانکم۔”ترجمہ:-“جس راہ کی چیز سمجھ کرکتاب اللہ (قرآن) کو ہم پڑھتے تھے کہ اپنے باپوں سے اعراض نہ کروکیونکہ اپنے باپوں سے اعراض تمہارے لئے کفر ہے۔”

رجم کے متعلق تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صرف “مما انزل اللہ” کہا تھا مگر یہ کہ باپوں سے اعراض کرنے کے متعلق جو الفاظ آپ نے فرمائے، اس میں تو “کنا نقرا فیما نقرا من کتاب اللہ”(یعنی ہم پڑھتے تھے اس کو اسی سلسلے میں جس سلسلہ میں قرآن پڑھتے تھے ) کے الفاظ ہیں لیکن ان الفاظ سے کبھی وہ نا سمجھا گیا جو رجم کے متعلق سمجھا گیا ہے!!۔

دراصل غلط فہمی جن الفاظ سے ہوئی وہ’ فکان فیما انزل اللہ علیہ آیۃ الرجم’ کا ٹکڑا ہے ۔ عام طور پر اس جملہ کا ترجمہ اس طرح کیا جاتا ہے کہ آپ پر اللہ نے جو چیز (یعنی قرآن) نازل فرمائی اس میں آیت رجم بھی تھی، یعنی کان کا ترجمہ “تھی” فعل ماضی سے کرتے ہیں اور آیت سے مراد معروف قرآنی فقرہ سمجھ لیا جاتا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کان جس طرح ماضی کےلئے آتا ہے ٹھیک اسی طرح کان کا استعمال حال کے لئے بھی ہوتا ہے اور آیت سے مراد جس طرح قرآنی الفاظ مراد لیے جاتے ہیں بعینہ اسی طرح حکم الہی شرعی بھی مراد لیا جاتا ہے ۔

ایک مزید روایت سے وضاحت :بیر معونہ میں حفاظ قرآن کی کافی تعداد جو دھوکہ سے شہید ہوئی تھی، حدیث میں اس قصہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :”فاخبرجبریل علیہ السلام النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہم لقوا ربہم فرضی عنہم و ارضاہم”ترجمہ:- جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ حفاظ قرآن کی یہ جماعت اپنے پروردگار سے جا کر مل گئی پس اللہ ان سے راضی ہوا اور ان لوگوں کو خدا نے خوش کر دیا۔”بعض روایات میں ہے کہ خود ان شہید ہونے والے حفاظ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا قتل ہونے سے پہلے کی تھی کہ”اللہم بلغ عنا نبینا انا قد لقیناک قد فرضینا عنک و رضیت عنا”ترجمہ: “اے اللہ ہمارے نبی کو مطلع کر دیجیئےکہ آپ سے ہم مل گئے بس ہم آپ سے راضی اور خوش ہوئے اور آپ ہم سے راضی اور خوش ہوئے۔”(صحیح مسلم جلد 13 صفحہ 49)

اس روایت کا ذکر کر کے حضرت انس رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ ہم الفاظ کو یعنی ان شہداء کی دعا کے ان الفاظ کو جن کی خبر جبریل علیہ السلام کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تھی پڑھا کرتے تھے ” فَأَخْبَرَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ قَدْ لَقُوا رَبَّهُمْ فَرَضِيَ عَنْهُمْ وَأَرْضَاهُمْ فَكُنَّا نَقْرَأُ ” أَنْ بَلِّغُوا قَوْمَنَا أَنْ قَدْ لَقِينَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَأَرْضَانَا ” ” (بخاری، جلد:۱ صفحہ:۳۹۳) ۔ ان لفظوں کی نوعیت بھی وہی “فیما انزل من القرآن” یا “کنا نقرء فیما نقرء من کتاب اللہ” کی ہے یعنی جبریل علیہ السلام کے توسط سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ پہنچا تھا۔ معلوم ہو چکا کہ قرآن کی وحی میں تو جبریل علیہ السلام ضرور واسطہ کا کام کرتے تھے لیکن ہر وہ چیز جو جبریل علیہ السلام کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تھی، اس کا قرآن ہونا ضروری نہ تھا اور یہی صورتحال ان الفاظ کی ہے۔ اور ہم احادیث سے اس رجم کے متعلق ‘آیت’ تلاش بھی کرسکتے ہیں

عجمیٰ سےروایت ہے ، وہ کہتی ہیں میں نے کہ آپﷺ کو فرماتے سنا ” اگر شادہ شدہ مرد اور عورت زنا کریں تو دونوں کو سنگسار کر دو” (طبرانی کبیر حدیث 20321, ابن حجر نے اسے اپنی موافقات الخبر الخبر 2/304 میں حسن کہا ہے ۔یہی المستدرک ، حدیث 8070 میں دیکھی جاسکتی ہے۔ حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اورامام ذہبی نے انکی تائید کی ہے

یہ آیت کبھی بھی قرآن کا حصہ نہیں تھی:

اسکے اور بھی بہت سارے ثبوت موجود ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ یہ آیت کبھی قرآن کا حصہ نہیں سمجھی گئی ۔

1. کثیر بن سلط کی روایت میں مذکور ہے کہ زید بن ثابت نے فرمایا “میں نے آپﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ اگر کوئی شادی شدہ مرد اور عورت زنا کریں تو انہیں سنگسار کر دو” یہ ان کر عَمر نے کہا ” جب ایسا بیان کیا گیا تو میں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسے لکھنے کی عرض کی لیکن آپﷺ نے ناپسند فرمایا __! (مستدرک الحاکم، حدیث 8184, حاکم نے اسے صحیح کہا ہے

2. اس آیت کے متعلق کثیر بن سلط فرماتے ہیں کہ وہ، حضرت زید بن حارث اور مروان بن حکم گفتگو کر رہے تھے کہ اس آیت کو قرآن میں شامل کیوں نہیں کیا گیا اور حضرت عمر بن خطاب وہاں موجود تھے اور ان کی گفتگو سن کے انہوں نے کہا کہ میں تم سے زیادہ بہتر جانتا ہوں اور کہا کہ میں اللہ کے پیغمبرﷺ کے پاس آیا اور عرض کی :” سنگسار کرنے کی آیت کو لکھنے کی اجازت دیں” آپﷺ نے فرمایا ” میں ایسا نہیں کر سکتا” (سنن البیہقی 8/211، سنن الکبرا نسائی حدیث 7148) البانی نے (صحیحہ 6/412 میں لکھا ہے کہ بیہقی نے اس کی سند کی طرف اشارہ کیا ہے۔

اگر یہ قرآن کریم کی آیت ہوتی تو آپ ﷺ اس کو دوسری آیات کی طرح ضرور لکھواتے۔ لیکن ان دونوں واقعات میں آپ ﷺ نے ابتداء ہی سے اس کو لکھوانے سے انکار فرمایا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یہ الفاظ قرآنِ کریم کا جز کبھی نہیں رہے اور جن روایات میں اس کو نازل ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے ان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآنِ کریم کے جز کے طور پر نازل ہوئی تھی۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کو بذریعہ وحی مطلع کیا گیا تھا کہ یہ آیت تورات میں موجود ہے اور مسلمانوں کے لیے اب بھی قابلِ عمل ہے۔

اسے آیت کیوں کہا جاتا ہے ؟؟؟

درحقیقت یہ پچھلی الہامی کتاب کی آیت ہے جیسا کہ اوپر طبری کی روایت میں ذکر کیا گیا، اور چونکہ اس آیت کا حکم وحی پر مبنی تھا اس لیے اسے آیت کہا جاتا ہے اور اس کے لیے “نازل شدہ” یا “وحی” کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔

کیا اب قرآن میں سنگساری کا حکم موجود ہے ؟؟؟

حضرت عمر کے الفاظ کہ’ لوگ ایسا کہہ سکتے ہیں کہ ہم رجم کی سزا قرآن میں نہیں پاتے’ یہ قرآن میں صریح بیان کے متعلق ہیں کہ قرآن میں واضح حکم موجود نہیں ورنہ قرآن مجید کے بین دفین میں سنگساری کا حکم موجود ہے ۔ ترجمہ:اور یہ تم سے (اپنے مقدمات) کیونکر فیصل کرائیں گے جبکہ خود ان کے پاس تورات (موجود) ہے جس میں خدا کا حکم (لکھا ہوا) ہے (یہ اسے جانتے ہیں) پھر اس کے بعد اس سے پھرجاتے ہیں اور یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے۔بیشک ہم نے تورات نازل فرمائی جس میں ہدایت اور روشنی ہے۔ اسی کے مطابق انبیاء جو (خدا کے) فرمانبردار تھے ” یہودیوں کو حکم دیتے رہے ہیں اور مشائخ اور علماء بھی۔ کیونکہ وہ کتاب خدا کے نگہبان مقرر کئے گئے تھے اور اس پر گواہ تھے (یعنی حکم الہٰی کا یقین رکھتے تھے) تو تم لوگوں سے مت ڈرنا اور مجھی سے ڈرتے رہنا اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لینا۔ اور جو خدا کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں( 5/43-44)

یہ آیات رجم کے متعلق نازل ہوئیں اور الفاظ ” اللہ کا حکم (آیت 43)” اور “جو اللہ نے وحی کیا ہے (آیت 44)” سنگساری کی طرف ہی اشارہ کرتے ہیں۔یہ بات کثیر، طبری اور قرطبی کی ان آیات کی تفسیر ‘ کو دیکھنے سے بالکل واضح ہو جاتی ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اشارہ شاید انہی آیات کے متعلق تھا ۔

ہمارے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ صحابہ کرام کسی امر کے آپﷺ کی احادیث سے ثابت ہونے کو بھی اتنا ہی معتبر سمجھتے تھے جتنا کہ قرآن مجید کو ۔درج زیل روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے:

“عبداللہ بن مسعود نے فرمایا” اللہ نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو ٹیٹو بناتی ہیں اور ان پر بھی جو ٹیٹو بنواتی ہیں اور ان عورتوں پر بھی جو اپنے چہرے سے بال ختم کرتی ہیں اور ان پر بھی جو زیادہ خوبصورت لگنے کے لیے اپنے دانتوں میں مصنوعی خلا پیدا کرتی ہیں حالانکہ وہ اللہ کی تخلیق کو بدل رہی ہوتی ہیں ” ان کی یہ بات بنی اسد کی ایک عورت بنو یعقوب کو پہنچی تو وہ عورت آپ کے پاس آئی اور کہا ” مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے ایسی عورتوں پر لعنت کی ہے” عبداللہ بن مسعود نے کہا “میں کیوں نا ایسی عورتوں پر لعنت کروں جن پر اللہ کی نبیﷺ نے لعنت کی اور جن پر اللہ کی کتاب میں لعنت کی گئی ہے” ام یعقوب نے کہا ” میں نے پورا قرآن پڑھا ہے لیکن اس میں کسی جگہ یہ نہیں دیکھا جو تم نے کہا ” آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” بلاشبہ اگر تم نے( قرآن )پڑھا ہوتا تو تمھیں معلوم پڑ جاتا۔ کیا تم نے یہ نہیں پڑھا “اور جو کچھ تمہیں اللہ کا نبی دے، اسے پکڑ لو اور جس سے روکے اسے چھوڑ دو (59.7) ” اس نے کہا ” ہاں پڑھا ہے” عبداللہ بن مسعود نی فرمایا” بے شک اللہ کی نبی ہمیں ایسی باتوں سے روکتے تھے” ( بخاری،حدیث 4507 )

اور ہم بخوبی جانتے ہیں کہ سنگساری کا حکم حدیث میں موجود ہے اور حضرت عمر کی بات کو اسی ضمن میں لیا جاسکتا ہے ۔

روایت میں کتاب اللہ کے الفاظ کا مطلب :

زیر تبصرہ روایت میں غلط فہمی کی سب سے بڑی وجہ ” کتاب اللہ ” کے الفاظ ہیں، کیونکہ کتاب اللہ سے قرآن مراد لیا جاتا ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ قرآن و سنت میں ان الفاظ کو کسی دوسرے مفہوم کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے، تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جاسکے کہ حضرت عمر ( رضی اللہ تعالی عنہ ) کا کتاب اللہ کہنے سے کیا مطلب تھا؟

قرآن مجید میں ” کتاب ” کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ۔ مثلا ” خط ” (النمل، 27/28) ” نوشتہ تقدیر ” (ال عمران، 3/145، الانفال 8/68) ” فریضہ ” (النساء، 4/103، البقرۃ، 2/183) ” صحیفہ ” (الطور، 52/2-3) وغیرہ ۔

۔اسی طرح کتاب اللہ کے معنیٰ حکم اللہ کے بھی ہیں، اگرچہ وہ حکم قرآنِ مجید میں واضح طور پر موجود نہ بھی ہو۔ کتاب اللہ کا اطلاق جس طرح قرآن پر ہوتا ہے اسی طرح اللہ کے احکام اور فرائض پر بھی کتاب اللہ کا لفظ بولا جاتا ہے، بندوں پر جس قدر فرائض، خواہ وہ قرآن میں مذکور ہیں یا سنت میں، ان سب پر کتاب اللہ کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ جیسے قرآن مجید میں ارشاد ہے:” یا قومِ ادخلو الارض المقدسۃ التی کتب اللہ لکم “ترجمہ :     ( اے میری قوم! اس مقدس زمیں داخل ہوجاؤ جسے اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے۔

یہ مفہوم خود رسول اللہ ﷺ کی مرفوع حدیث سے ثابت ہے۔ صحاح ستہ میں یہ واقعہ مختلف الفاظ کے ساتھ مروی ہے کہ ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ ﷺ! میں آپ ﷺ کو قسم دے کر کہتا ہوں کہ ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کردیجیئے۔ اب دوسرا فریق جو پہلے سے کچھ زیادہ سمجھدار تھا، کہنے لگا کہ ہاں یا رسول اللہ ﷺ! ہمارا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق فرمائیے اور مجھے بات کرنے کی اجازت دیجیئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا! اچھا بیان کر، اس نے کہا: میرا بیٹا اس شخص ( فریق ثانی ) کے پاس نوکر تھا اور اس نے اس شخص کی بیوی سے زنا کیا ہے۔ میں نے سو بکریاں اور ایک غلام دے کر اپنے بیٹے کو چھڑا لیا۔ اس کے بعد میں نے کئی علماء سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ تیرے بیٹے کے لیے سزا سو کوٹے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور اس شخص کی بیوی کے لیے ” رجم ” ہے۔ نبی کریم ﷺ نے یہ سن کر فرمایا:” و الذی نفسی بیدہ لا قضین بینکما بکتاب اللہ جل ذکرہ، المائۃ شاۃ ولاخادم رد، و علی ابنک جلد مائۃ و تغریب عام، واغد یا انیس علی امراۃ ھٰذا، فان اعترفت فاجمھا فغدا علیھا فاعترفت، فرجمھا” (بخاری، کتاب الحدود، باب الاعتراف بالزنا، ح 6827، ص 1432)

ترجمہ:  ( اس پروردگار کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جس کا ذکر بلند ہے، میں تم دونوں کے درمیان ” کتاب اللہ ” کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ سو بکریاں اور غلام ( جو تونے دیئے ) تجھے واپس ہوں گے اور تیرے بیٹے کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے ، اور اے انیس (رضی اللہ تعالی عنہ ) کل صبح اس عورت کے پاس جاؤ، اگر وہ زنا کا اعتراف کرے تو اسے رجم کردو۔ چنانچہ انیس ( رضی اللہ تعالی عنہ ) اس کے پاس گئے تو اس نے اعتراف کرلیا تو انہوں نے اسے رجم کردیا۔ )

اس واقعہ سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رجم کا فیصلہ حکمِ الہی کے مطابق دیا تھا، اگرچہ قرآن میں رجم کا حکم نہیں ہے، گویا حدیثِ رسول ﷺ پر ” کتاب اللہ ” کا اطلاق کرنا خود نبی ﷺ سے ثابت ہے۔ لہذا حضرت عمر ( رضی اللہ تعالی عنہ ) نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں خطبہ دیتے ہوئے جب یہ فرمایا:

” الرجم فی کتاب اللہ حق علی من زنی اذا أحصن منن الرجال و النساء۔ ترجمہ: ( رجم کا حکم کتاب میں حق اور ثابت ہے جبکہ شادی شدہ مرد اور عورت زنا کرے ۔(بخاری ، کتاب الحدود، باب رجم الحبلی فی الزنا، ح 6830، ص 1433)

تو یہاں بھی ” کتاب اللہ” سے آپ کی مراد قرآنِ مجید نہ تھی، جیسا کہ عام طور پر مستشرقین، منکرینِ حدیث اور دیگر معترضین نے سمجھا ہے۔ بلکہ پوری شریعت بشمول حدیثِ رسول ﷺ تھی، کیونکہ صحابہ کرام ( رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین ) کتاب اللہ سے پوری شریعت مراد لیا کرتے تھے اور وہ حدیثِ رسول ﷺ کو قرآن مجید سے علیحدہ کوئی چیز تسلیم نہیں کرتے تھے۔ صحابہ کرام ( رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین ) کا عقیدہ اور نقطہ نظر یہ تھا کہ حضور ﷺ کی ہدایات بھی وحی الہٰی کے ہی تابع ہیں اس لیے وہ احادیث رسول ﷺ پر ” کتاب اللہ ” کا اطلاق کردیا کرتے تھے۔ اس کی نظیر ہمیں ابنِ مسعود کی اوپر پیش کردہ روایت میں بھی ملتی ہے۔ عورتوں کے بارے میں ابنِ مسعود ( رضی اللہ تعالی عنہ ) کی بیان کردہ اس تنبیہ اور ہدایت کا قرآن میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے حدیثِ رسول ﷺ پر بھی ” کتاب اللہ ” کا اطلاق کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی، کیونکہ صحابہ کرام ( رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین ) حدیث اور سنتِ رسول ﷺ کو حکمِ الہٰی کا قولی اور عملی اظہار ہی سمجھتے تھے، اس واقعے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ( رضوان اللہ تعالی علیھم اجعمین ) بسا اوقات قولِ رسول ﷺ کے لیے ” کتاب اللہ ” کا لفظ استعمال کرلیا کرتے تھے۔ الغرض زیر بحث روایت میں بھی حضرت عمر ( رضی اللہ تعالی عنہ ) نے فرمانِ رسول ﷺ کے لیے اگرچہ ” کتاب اللہ ” کا لفظ استعمال کیا، اصلاً وہ اس کو قرآن کا جز نہیں سمجھتے تھے۔


کیا حضرت عمر واقعی ایسا سوچتے تھے کہ قرآن کی کچھ آیات موجود نہیں ہیں؟؟؟

یہ واضح ہے کہ حضرت عمر ( الشیخ و الشیخۃ فارجموھا البتۃ ) والے فقرے کو قرآن کریم کا حصہ نہیں سمجھتے تھے  ۔ اگر ان کے نزریک یہ فقرہ قرآن کریم کا جز ہوتا تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں اس کا اعلان کرنے سے باز نہیں رکھ سکتی تھی، بلکہ ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ قرآن کریم کے حاشیےپر یہ فقرہ اس بات کے اظہار کے لیے لکھ دیں کہ زانی محصن کو رجم کرنے کا حکم منسوخ نہیں ہوا بلکہ اب بھی واجب العمل ہے، چنانچہ امام احمد بن حنبل ؒ ( م 241ھ) نے حضرت عمر ؒ ( م 23ھ) کا یہ خطبہ نقل کیا ہے جس میں یہ الفاظ بھی ہیں:

ترجمہ: “اگر ایسا نہ ہوتا کہ لوگ یہ کہنے لگیں کہ عمر نے اللہ کی کتاب میں اضافہ کیا ہے تو میں اس آیت کو قرآن میں لکھوا دیتا” (مسند احمد، حدیث 151، احمد شاکر نے اسے صحیح کہا ہے)

سنن نسائی الکبری حدیث 7151 کے الفاظ کے مطابق حضرت عمر نے فرمایا: ” میں اسے لکھتا اور قرآن کے حاشیے میں شامل کر دیتا”۔۔( المسند، حدیث عمر بن الخطاب (رضی اللہ تعالی عنہ ، ح 157، 1/40)۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ رجم کے حکم نہ قرآن کریم کا جز سمجھتے تھے، نہ قرآن کریم کے متن میں اس کا اضافہ کرنے کا کوئی خیال ان کے دل میں آیا تھا، بلکہ انہوں نے محض ایک تشریحی اضافے کے طور پر اس کو حاشیے پر لکھنے کا خیال مسئلہ رجم کی اہمیت جتلانے کے لیے ظاہر کیا تھا اور عمل اس پر بھی نہیں کیا، کیونکہ اس طرح طرح کی غلط فہمیاں پیدا ہوسکتی تھیں۔

علامہ زرقانی ؒ ( م1122ھ) اس روایت کی شرح میں لکھتے ہیں:

ترجمہ:  اور جو بات بالکل واضح ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عمر ( رضی اللہ تعالی عنہ ) کی مراد ظاہری معنیٰ نہیں تھا بلکہ ان کا مقصد اس مسئلے کی اہمیت واضح کرنا اور رجم پر ابھارنا تھا، حضرت عمر کا ایہ مقصد نہیں تھا کہ الفاظ کی منسوخی کے باوجود یہ آیت باقی رہنےوالی ہے، آپ ( رضی اللہ تعالی عنہ) جیسے فقیہ سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ انھوں نے الفاظ کی منسوخی کے باوجود اس آیت کو ( قرآن مجید میں ) لکھنے کا حکم دیا ہوگا۔ لہذا اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ (شرح الزرقانی علی موطأ لامام مالک، 4/193-194)۔

بہرحال حضرت عمر ( رضی اللہ تعالی عنہ ) کی دور اندیشی ملاحظہ فرمائیں کہ حدِ رجم کے بارے میں آپ (رضی اللہ تعالی عنہ ) نے جس خدشے کا اظہار کیا تھا وہ درست ثابت ہوا، چنانچہ امام نووی ؒ ( م676ھ ) فرماتے ہیں:

ترجمہ:  حضرت عمر ( رضی اللہ تعالی عنہ ) کا یہ قول: میں ڈرتا ہوں کہ جب زمانہ زیادہ گذر جائے گا تو کوئی کہنے والا کہے کہ ہم رجم کو خدا کے مقرر کیئے ہوئے حکم میں نہیں پاتے، پس لوگ ایک فرض چھوڑنے پر گمراہ ہوں گے، حضرت عمر ( رضی اللہ تعالی عنہ ) کا ڈر خوارج اور ان کی موافقت کرنے والوں کے حق میں پایہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے۔۔(المنھاج، کتاب الحدود، باب رجم الثیب فی الزنا، 11/191)

اس روایت کو محدثین نے مختلف اسناد سے نقل کیا ہے، یہ حدیث زید بن ثابت ( رضی اللہ تعالی عنہ ( م 44ھ ))، عمر بن العاص ( رضی اللہ تعالی عنہ ( م 42ھ ))، عبدالرحمن بن عوف ( رضی اللہ تعالی عنہ ( م 32ھ)) وغیرھم سے بھی مروی ہے، ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے الفاظ قرآنی آیت کے طور پر ذکر نہیں فرماےئے۔ (السنن الکبری، کتاب الحدود، باب مایستدل بہ علی ان السبیل ہو جلد الزانیین، ح 2913، 8/367)

غالب گمان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان مخصوص الفاظ ” اور جو کوئی شادہ شدہ مرد اور عورت زنا کرے، اسے سنگسار کر دو” کو قرآن کے ٹیکسٹ کا حصہ نہیں سمجھتے تھے۔اس بات کا ثبوت ایک اور روایت میں ہے جس میں انہوں نے فرمایا:

سائیڈ پر یا حاشیے کے طور پر داخل کرنے کی بات سے واضح ہے کہ وہ اسے آگے آنے والی نسلوں کو اسکی اہمیت بتانے کے لیے صرف تفسیر کے طور پر داخل کرنا چاہ رہے تھے ‘ انہیں اندیشہ تھا کہ لوگ اس حکم کا انکار کردیں گے ۔

اوپر بیان کی تفصیل سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ رجم سے متعلق ایسی کوئی آیت قرآن کا حصہ نہیں تھی۔


علماء کا نقطہ نظر:

یہ نقطہ نظر کہ رجم کی کوئی آیت قرآن کے حصے کے طور پر نازل نہیں ہوئی تھی اور نا منسوخ کی گئی تھی ‘ ہماری گھڑی ہوئی بات نہیں ہے ۔درحقیقت یہ تحریر مفتی تقی عثمانی صاحب کی تحقیق سے استفادہ کرتے ہوئے ترتیب دی گئی ہے (دیکھیے تکملہ فتح الملہم جلد 2، صفحہ 354-61)

سید مودودی رحمہ اللہ کابھی یہی نقطہ نظر ہے۔انکی طرف سے دیا گیا اک سوال کا جواب یہاں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے.

علامہ آلوسی ؒ نے ابن ہمام کے بارے میں بھی لکھا ہیں کہ ان کا بھی یہی خیال تھا (روح المعانی 9/278)

الباقلانی ؒ(403ھ) نے بھی اپنی کتاب الانتصار میں اس بات کو رد کیا ہے کہ پہلے یہ آیت قرآن کا حصہ تھی اور پھر منسوخ ہو گئی ۔ شیخ شعیب ارنوط نے بھی اسے مسند احمد کی حدیث 21636 کی تشریح میں پیش کیا ہے اور اسکی تائید کی ہے۔

ہمارے نزدیک یہ تفصیل موضوع متعلق تمام اشکالات اور سوالات سے بچنے کے لیے کافی ہے ۔

حاصل کلام /خلاصہ :

یہ کہا جاتا ہے کہ رجم کا حکم قرآن کریم ہی کی ایک آیت سے ثابت ہے اور وہ آیت منسوخ التلاوۃ ہے ، جبکہ اس کا حکم باقی رکھا گیا ہے، اور وہ آیت “الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فارجموھاالبتہ” کے الفاظ سے بیان کی جاتی ہے۔ اگر اس دعوی کا تحقیقی طور پر جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ جن حضرات نے اس عربی عبارت کو الفاظِ قرآن سے تعبیر کیا اورپھر ان کی منسوخیت کا قول اختیار کیا ہے اس باب میں ان سے تسامح ہوا ہے، اس باب میں وارد حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی (دوسرے صحابہ سے اس باب میں جو مروی ہے جن کا حاصل یہ ہے کہ انہوں نے آنحضرتﷺ کو یہ پڑھتے ہوئے سنا، وہ اس کو آیت ِقرآنی ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہے) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ سے بادی النظر میں یہ شبہ ہوتاہے کہ روایت میں موجود اللہ کے نازل کردہ سے مراد قرآن کریم ہے، لیکن اس باب کی تمامتر روایت کا تتبع کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ الفاظ قرآن کریم میں شامل ہی نہیں تھے بلکہ ایک یہودی عالم نے رجم کی بابت سوال پر آنحضرتﷺ کے سامنے یہ الفاظ پڑھے تھے تو آپﷺ نے اس فیصلہ کو باقی رکھا تھا، یہ الفاظ تورات کے تھے۔

اس کی تائید مزید ان روایات سے بھی ہوتی ہے جن میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں یہ منقول ہوا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ جب رجم کا حکم اترا تو میں نے آنحضرتﷺ سے عرض کی کہ رجم کی آیت لکھوا دیں لیکن نبی ﷺ اسے لکھوانے سے ناپسنددیدگی ظاہر کی، اب اگر یہ الفاظ ِقرآن ہوتے تو آنحضرتﷺ انہیں لازمی طور پر قرآن کریم میں لکھواتے ۔روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے رجم کے حکم کو باقی رکھا تو اس پر مجازاً نزول کا لفظ بولا گیا ، تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو آیت ِ رجم لکھوانے کا مطالبہ تھا وہ بطور ِقرآن کا جزو نہیں تھا، بلکہ بطورِ تفسیری حاشیہ تھا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا یہ معمول تھا کہ وہ قرآن کریم کے بعض تفسیری حواشی لکھ لیا کرتے تھے، آنحضرتﷺ نے اس کو ناپسند فرمایا کہ اس کو بطورِ تفسیر ی حاشیہ لکھ لیا جائے کیونکہ خدشہ یہ تھا کہ لوگ اسے قرآن کا جزو سمجھ لینگے ، یہاں یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ دوسری تفسیری حواشی کو تو لوگ قرآن کا جزو نہیں سمجھے اس میں یہ خدشہ کیوں پیدا ہوا؟ اس کی وجہ یہ ہے ایک تو یہ آیت آیتِ تورات تھی، دوسرا اس کا حکم بھی باقی تھا، اس پر عمل بھی جاری تھا، اور آنحضرت ﷺ نے اسے پڑھا بھی تھا، اس سے بعد کے لوگوں غلطی میں مبتلا ہوسکتے تھے۔

اس لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اگر مجھے اس بات کا خدشہ نہ ہوتا کہ لوگ یہ کہیں گے کہ عمر نے قرآن میں اس چیز کی زیادتی کی جو اس میں نہیں تھی تو میں یہ آیت اس کے حاشیہ پر لکھوا دیتا، اس سے یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ یہ آیت شروع ہی سے قرآن کا جزو نہیں تھی اور نہ ہی حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کو قرآن کے جزو کے طور پر لکھوانا چاہتے تھے، صراحتہ مسند احمد کی روایت میں مروی ہے کہ وہ اس کو حاشیہ پر لکھوانا چاہتے تھے۔

جن حضرات کو جن روایات سے اس کے آیت ہونے کا شبہ ہوا ہے اگر وہ غور سے تمام روایات کا تتبع کریں توانکا نتیجہ بھی اس کے علاوہ نہیں ہوگا، جو اوپر مذکور ہوا ہے۔چنانچہ اہل ِعلم حضرات کے لئے یہ باب غوروفکر کا متقاضی ہے۔

اس بحث سے ہٹ کر ہم یہ واضح کردیں کہ سنگساری کا حکم بلاشبہ موجود اور ثابت شدہ ہے ۔ اس کے بارے میں کم و بیش 52 صحابہ کی متواتر احادیث موجود ہیں ( ریفرینس کے لیے دیکھیے تکملہ فتح الملہم “,والیم 2, صفحہ 362) اور یہ سزا قرآن کریم کی بعض آیات سے بھی ثابت ہے اگرچہ وہ صریح نہیں ہیں

استفادہ تحریر: