تحریر :محمد زبیر تیمی
قراء ات قرآنیہ کے بارے میں آرتھر جیفری کے نقطہ نظر کا ایک بھر پور علمی جائزہ جناب ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری صاحب نے اپنے مضمون
’اختلاف قراء ات قرآنیہ اور مستشرقین‘
میں لیا ہے۔ حافظ محمد زبیر جناب ڈاکٹر اکرم چوہدری صاحب کے براہ ِراست شاگرد ہیں۔
ڈاکٹر اکرم چوہدری صاحب کے مضمون میں آرتھر جیفری کے نقطہ نظر کا کافی وشافی اصولی و بنیادی رد موجود ہے۔ حافظ صاحب نے اپنے اُستاد محترم کے اس موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے آرتھر جیفری کے قرآن پر جزوی اور فروعی اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ آرتھر جیفری کے نقطہ نظر کا کافی وشافی اصولی و بنیادی رد موجود ہے۔ حافظ صاحب نے اپنے استاذ محترم کے اس موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے آرتھر جیفری کے قرآن پر جزوی اور فروعی اعتراضات کا جواب دیا ہے۔ آرتھر جیفری نے ابن ابی داؤد کی کتاب ’کتاب المصاحف‘ پر تحقیقی کام کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ جس طرح عیسائیوں میں انجیل کے ایک سے زائد نسخے موجود ہیں اور موجودہ چار انجیلیں بھی تقریبا ۷۰ کے قریب اناجیل میں سے انتخاب ہیں۔ اس طرح صدر اول میں کئی قسم کے قرآن موجود تھے۔ آرتھر جیفری نے اپنی کتاب’Materials for the History of the Text of the Quran’ میں ۱۵ صحابہ اور ۱۳ تابعین کے ۱۲۸ ایسے نسخوں کا تعارف کروایا ہے جومصحف عثمانی سے بھی مختلف تھے اور ان میں باہم ۲۴۰۰ اختلافات تھے۔ حافظ صاحب نے اس کتاب کا ایک تفصیلی جواب اپنے اس مضمون میں دیا ہے اور صحابہ و تابعین کی طرف منسوب ان مصاحف کی حقیقت کو واضح کیا ہے۔ (ارادہ)
ابن ابی داؤد کا تعارف
ان کا نام عبد اللہ بن سلیمان بن اشعث بن بشیر بن شداد بن عمرو بن عمران ازدی سجستانی ہے۔ کنیت ابوبکر ہے۔ ۲۳۰ھ میں پیدا ہوئے۔ ۳۱۶ھ میں وفات پائی۔ جس دن ان کی وفات ہوئی ۳ لاکھ افراد ان کے جنازے میں شریک ہوئے اور تقریباً ۸۰ مرتبہ ان کا جنازہ پڑھا گیا۔ (کتاب المصاحف مع تحقیق الدکتور محب الدین واعظ: ۱۵۔۱۶)
ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد محترم امام ابو داؤد سے حاصل کی۔ امام ابو داؤد علم کے حصول کی خاطر سفر میں اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ امام صاحب اپنے بیٹے کو خراسان‘ اصبہان‘ فارس‘ بصرۃ‘ بغداد‘ کوفہ ‘ مکہ ‘ مدینہ‘ شام‘ مصر‘ جزیرہ‘ جبال اور ثغور کے علاقوں میں لے کر گئے جہاں وہ اساتذہ سے روایات سنتے بھی تھے اور لکھتے بھی تھے۔(أیضاً: ص ۱۸)
ابن ابی داؤد پر جرح و تعدیل
ابن ابی داؤد کے بارے جرح و تعدیل دونوں منقول ہیں۔
ابن ابی داؤدکی تعدیل
جمہور ائمہ جرح و تعدیل اور محدثین نے ابن ابی داؤدرحمہ اللہ کوثقہ راوی قرار دیا ہے:
٭ ابو حامد بن اسد فرماتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن سلیمان بن اشعث جیسا عالم نہیں دیکھا۔
٭ ابو الفضل صالح بن احمد الحافظ فرماتے ہیں: ابو بکر عبد اللہ بن سلیمان اہل عراق کا امام ہے۔ انہوں نے مختلف شہروں سے علم حاصل کیا، سلطان نے ان کیلئے ایک منبر بنایا ہے جس پر بیٹھ کر وہ اسکے سامنے حدیث بیان کرتے ہیں۔
خطیب بغدادی فرماتے ہیں: سمجھدار‘ عالم‘ حافظ اور زاہد آدمی تھے۔
٭ امام دارقطنی فرماتے ہیں: ثقہ تھے لیکن حدیث میں بہت زیادہ غلطیاں کرتے تھے۔
٭ ابن عدی فرماتے ہیں: اصحاب حدیث کے ہا ں مقبول ہیں۔ ان کے والد نے ان کے بارے میں جو کلام کیا ہے‘ مجھے نہیں معلوم انہوں نے اس میں کیا دیکھ کر اس کے بارے میں ایسی بات کی ہے۔
٭ خلیلیکہتے ہیں: حافظ‘ امام وقت‘ نشان علم‘ متفق علیہ اور امام ابن امام تھے۔ (أیضاً: ۳۴،۳۵)
ابن ابی داؤد پر جرح
بعض ائمہ سے ابن ابی داؤدپر جرح بھی منقول ہے۔ ان میں انکے والد محترم امام ابو داؤد پیش پیش ہیں۔ امام ابو داؤد اپنے بیٹے کے بارے میں فرماتے ہیں: (ابني عبد اﷲ ھذا کذاب) یعنی میرا یہ بیٹا عبد اللہ جھوٹا ہے۔
٭ ابن صاعد کہتے ہیں:
ابن ابی داؤد کے بارے میں ہمیں وہی بات کافی ہے جو اس کے والد محترم نے اس کے بارے میں کہی ہے۔
ابراہیم اصبہانی نے بھی ابن ابی داؤد کو ’کذاب‘ کہا ہے۔ (سیر أعلام النبلاء: ۲۵؍۲۲۶‘ مؤسسۃ الرسالۃ)
ابن ابی داؤد کے بارے میں ابراہیم اصبہانی اور ابن صاعد کے اقوال کی بنیاد بھی امام ابو داؤد کا قول ہے۔ امام ذہبی فرماتے ہیں: ابن ابی داؤد کے بارے میں ابن صاعد اور ابن جریر کے اقوال کا اعتبار نہیں ہو گاکیونکہ ان میں عداوت و مخاصمت معروف تھی۔
امام ابو داؤد نے اپنے بیٹے پر کذب کی جو تہمت لگائی ہے اس کے کئی ایک جواب دیے گئے ہیں۔ امام ذہبی کا کہنا یہ ہے کہ اگر یہ تہمت صحیح سند سے ثابت ہو تو اس سے مراددنیاوی کلام میں جھوٹ ہے نہ کہ حدیث نبوی میں۔ اور امام صاحب کا یہ قول عبد اللہ کی جوانی کے وقت کا ہے ۔ بعد میں جب عبد اللہ خود امام اور شیخ بن گئے تو یہ بری عادت بھی ان سے جاتی رہی۔ (کتاب المصاحف مع تحقیق الدکتور محب الدین واعظ: ۲۴)
ڈاکٹر محب الدین واعظ کا کہنا ہے کہ امام صاحب نے اپنے بیٹے کے بارے میں یہ بات اس لیے کہی تھی کہ وہ اپنے علم کے بارے میں کچھ زیادہ ہی خوش فہم تھے اور اپنے علمی دعووں میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے تھے۔ اس کی تصدیق ابن ابی داؤد کے اس مکالمے سے بھی ہوتی ہے جو ان کے اور شیخ ابوزرعہ رازی کے مابین ہوا اور خود ابن ابی داؤد نے اس کو نقل کیا ہے۔ ابن ابی داؤد کہتے ہیں: میں نے ایک دن ابو زرعہ رازی سے کہا: مجھے امام مالک کے غرائب میں سے کوئی حدیث بیا ن کریں۔ شیخ ابو زرعہ نے وہب بن کیسان کی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت بیان کی : ’لا تحصی فیحصی علیک‘ اس روایت کو انہوں نے عبد الرحمن بن شیبہ سے بیان کیاحالانکہ وہ ’ضعیف‘ راوی ہے۔ میں نے اس پر شیخ ابوزرعہ سے کہا: آپ اس روایت کو مجھ سے نقل کریں: میں اسے احمد بن صالح سے‘ وہ عبد اللہ بن نافع اور وہ مالکسے نقل کرتے ہیں۔ اس پر شیخ ابو زرعہ ناراض ہو گئے اور میرے والد سے شکایت کرتے ہوئے کہا: دیکھو ! تیرا بیٹا مجھے کیا کہتا ہے؟ (سیر أعلام النبلاء: ۲۵؍۲۲۵) ابن ابی داؤد کا یہ بھی کہنا تھا کہ ابراہیم الحربی کو جتنی روایات یاد تھیں وہ سب انہیں بھی یاد تھیں اور ان کے پاس ابراہیم الحربی سے زیادہ علم تھا کیونکہ وہ ستاروں کا علم نہیں جانتے تھے۔ (أیضاً: ۲۲۳)
عبد الرحمن بن یحییٰ المعلمی کا کہنا ہے کہ ابن ابی داؤد اپنے آپ کو قضاء کا اہل بتلاتے تھے جس پر ان کے والد محترم نے انہیں جھوٹا کہا ہے۔ بظاہر ڈاکٹر محب الدین واعظ کی تاویل بہتر محسوس ہوتی ہے۔ واﷲ أعلم بالصواب۔
ابن ابی داؤد کا علمی مقام
علم دین کے معاملے میں بہت حریص تھے۔ ابن شاہین نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ جب وہ کوفہ آئے تو ان کے پاس ایک درہم تھا۔ اس درہم سے تیس مد لوبیا خریدا۔ ہر روز ایک مد کھا لیتے تھے اور اس کے بالمقابل ابو سعید اشجسے ایک ہزار احادیث لکھتے تھے۔ اس طرح ایک مہینے میں تیس ہزار احادیث جمع کر لیں۔ ابو علی حسین بن علی الحافظ فرماتے ہیں کہ میں نے ابن ابی داؤد کو یہ فرماتے سنا ہے کہ میں نے اصبہان میں ۳۶ ہزار احادیث اپنے حافظے سے بیان کیں۔ انہوں نے مجھے سات احادیث میں وہم کا الزام دیا۔ جب میں عراق واپس آیا تو ان سات میں پانچ کو میں نے اسی طرح اپنی کتاب میں لکھا دیکھا جیسا کہ میں نے انہیں بیان کیا تھا۔ (أیضاً: ۲۲۲)
کئی ایک کتابوں کے مصنف ہیں جن میں کتاب التفسیر‘ کتاب المصابیح فی الحدیث‘ کتاب نظم القرآن‘ کتاب فضائل القرآن‘ کتاب شریعۃ التفسیر‘ کتاب المصاحف‘ کتاب الناسخ و المنسوخ‘ کتاب البعث اور کتاب شریعۃ المقاری وغیرہ معروف ہیں۔
کتاب المصاحف کا تعارف
اس کتاب کے دو نسخے معروف ہیں۔ ایک نسخہ ظاہریہ اور دوسرا نسخہ شستربیتی۔ پہلا نسخہ ’دارالکتب الظاہریۃ‘ مصر میں موجود ہے۔ کاتب اور تاریخ کتابت کا علم نہیں ہے کیونکہ مخطوطے کاپہلا صفحہ غائب ہے۔کتاب کی قراء ت سے متعلقہ سماعت کی اسناد سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ یہ نسخہ ۵۴۱ھ سے پہلے لکھا گیا تھا۔ سماعت ِ کتاب کی اسناد اور تواریخ نسخے میں موجود ہیں۔ یہ نسخہ ۹۸ اوراق پر مشتمل ہے۔ ہر ورق میں ۲۰ سے ۲۳ ستریں ہیں۔
دوسرا نسخہ آرتھر جیفری کے بیان کے مطابق اس کی لائبریری میں موجود ہے۔ اس کے اوراق کی تعداد ۸۳ ہے۔ ہر ورق میں تقریباً ۲۱ ستریں ہیں۔ اس نسخے کے کاتب محمد المقدسی نابلسی ہیں۔ تاریخ کتابت سے فراغت ۱۹ ذی القعدہ ۱۱۵۰ھ میں ہوئی ۔ آرتھر جیفری کے بیان کے مطابق یہ نسخہ بھی نسخہ ظاہریہ سے منقول ہے جبکہ ڈاکٹر محب الدین واعظ کا کہنا ہے کہ یہ نسخہ ایک دوسرا نسخہ ہے جو نسخہ ظاہریہ سے منقول نہیں ہے کیونکہ اس میں شروع کا صفحہ موجود ہے اور کئی ایک مقامات پر نسخہ ظاہریہ سے اختلافات بھی موجود ہیں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ نسخہ بھی کسی دوسرے مستقل نسخے سے منقول ہے۔ بذاتہ یہ کوئی مستقل نسخہ نہیں ہے کیونکہ یہ ۱۱۵۰ھ میں لکھا گیاہے۔
پہلے نسخے سے مزید دو نسخے تیار کیے گئے۔ ان میں سے ایک ۱۳۴۲ھ میں تیار ہوا اور ’دارالکتب المصریۃ‘ مصرمیں موجود ہے اور دوسرا ۱۳۴۶ھ میں تیار ہوا جو ’مکتبۃ علمیۃ عالیۃ ‘ پاکستان میں موجود ہے۔ لیکن ڈاکٹر محب الدین واعظ کے بقول ان دونوں نسخوں میں کتابت کی کافی اغلاط موجود ہیں۔ علاوہ ازیں اصل یعنی نسخہ ظاہریہ کی موجودگی میں ان کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ اس بحث کا خلاصہ کلام یہی ہے کہ اصل نسخہ ‘ نسخہ ظاہریہ ہی ہے۔ ڈاکٹر محب الدین واعظ نے اپنی تحقیق میں اسی نسخے کو بنیاد بنایا ہے۔
ابن ندیم‘ حاجی خلیفہ‘ زرکلی ‘ رضا کحالہ اور فواد سیزگین نے اس کتاب کی امام ابن ابی داؤد کی طرف نسبت کو صحیح قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں اس کتاب کے نسخہ ظاہریہ کے ہر جزء کے آخر میں اس کتاب کی سماعت کی اسناد موجود ہیں جو اس کتاب کی صحیح نسبت کی بہترین دلیل ہیں۔
کتاب المصاحف کا منہج تالیف
مذکورہ کتاب پانچ اجزاء پر مشتمل ہے۔ ہر جزء کو مصنف نے کئی ایک ابواب میں تقسیم کیاہے۔ مصنف کا طریقہ کار یہ ہے کہ شروع میں کسی باب کے لیے ایک عنوان باندھتے ہیں۔ اس کے بعد اس باب سے متعلق اپنی سند سے ان احادیث اور آثار کا تذکرہ کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے اساتذہ اور شیوخ سے نقل کی ہیں۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوا ہے کہ مصنف نے کوئی باب باندھا ہے اور اس کے تحت کوئی روایت یا اثر نقل نہیں کیا۔ جیسا کہ مصاحف تابعین کے باب کے ذیل میں انہوں نے ’مصحف طلحۃ بن مصرف الأیامی‘ کے نام سے باب باندھا ہے لیکن اس کے تحت کسی روایت یا اثر کو نقل نہیں کیا۔ شاید ان کے نزدیک اس مصحف کے بارے میں کوئی ثابت شدہ روایت موجود نہ ہو۔ واللہ اعلم۔
مصنف صحابہ اور تابعین سے مروی قراء ات کو مصحف کے عنوان کے تحت نقل کرتے ہیں۔ مثلاً مصنف نے ’مصحف علی بن ابی طالب‘ کے نام سے ایک باب باندھا ہے اور اس کے ذیل میں حضرت علی سے منسوب ایک قراء ت بایں الفاظ نقل کر دی ہے:
حدثنا عبد اﷲ حدثنا محمد بن عبد اﷲ المخرمي حدثنا مسھر بن عبد الملک حدثنا عیسی ابن عمر عن عطاء بن السائب عن أبي عبدالرحمن عن علي أنہ قرأ:’’اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ أُنْزِلَ إِلَیْہِ وَ آمَنَ الْمُؤْمِنُوْنَ ‘‘۔
اسی طرح مصنف نے ’مصحف الأسود بن یزید و علقمۃ بن قیس النخعیین‘ کے عنوان کے تحت درج ذیل روایت نقل کی ہے:
حدثنا أبوبکر عبد اﷲ بن أبی داؤد حدثنا یعقوب بن سفیان حدثنا عبید اﷲ عن شیبان عن الأعمش عن إبراہیم قال: کان علقمۃ و الأسود یقرآنھا ’’صراط من أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم و غیر الضالین‘‘۔
ایسا بھی کثرت سے ہوتا ہے کہ مصنف کوئی عنوان باندھنے کے بعد اس کے ذیل میں صرف ایک ہی روایت نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جیسا کہ انہوں نے مصحف عليٍ بن أبي طالب رضي اﷲ عنہ‘ مصحف عبد اﷲ بن عمرو ‘ مصحف عبید بن عمیر اللیثي‘ مصحف عطاء بن أبي رباح‘ مصحف مجاہد بن جبیر‘ مصحف أسود بن یزید وعلقمہ بن قیس نخعیین‘ مصحف محمد بن أبي موسی شامي‘ مصحف حطان بن عبد اﷲ رقاشي بصري اورمصحف صالح بن کیسان مدیني رحمہم اﷲ کے ذیل میں صرف ایک ایک ہی روایت نقل کی ہے۔
مصنف نے جو کچھ کتاب میں نقل کیا ہے وہ سب ان کی اپنی رائے نہیں ہے جیسا کہ صحابہ اور تابعینکے مصاحف کے اختلافات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ہم اپنے پاس موجود مصحف عثمانی ہی کااعتبار کریں گے اور جو روایات صحابہ و تابعین کے اختلاف قراء ات کے بارے میں منقول ہیں‘ ان سے مصحف عثمانی میں کمی بیشی جائز نہ ہو گی۔مصنف علام فرماتے ہیں:
قال عبد اﷲ بن أبی داؤد: لا نری أن نقرأ القرآن إلا لمصحف عثمان الذي اجتمع علیہ أصحاب النبي ﷺ فإن قرأ الإنسان بخلافہ في الصلاۃ أمرتہ بالإعادۃ۔
کتاب ہذا میں مؤلف ایک عنوان باندھنے کے بعد اس کو ثابت کرنے کے لیے ہر قسم کی روایات نقل کر دیتے ہیں مثلاً مرفوع‘ مرسل‘ مقطوع‘ صحیح‘ حسن‘ ضعیف‘ منقطع وغیرہ۔
کتاب المصاحف کے مشمولات کا اجمالی تعارف
جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کتاب المصاحف پانچ اجزاء پر مشتمل ہے۔ پہلے جزء میں مصاحف کی کتابت‘ مصاحف کے خطوط‘ مصاحف کی جمع و تدوین‘ جمع عثمان وغیرہ کے بارے میں مختلف ابواب کے تحت روایات اور آثار جمع کیے گئے ہیں۔
دوسرے جزء میں بعض آیات قرآنیہ کا قرآن کا حصہ ہونے کی روایات‘ مصحف عثمانی میں اغلاط کے بارے مروی آثار ‘ مصاحف عثمانیہ کے باہمی اختلافات اور صحابہ کے بعض مصاحف (یعنی قراء ات)کے تعارف پر مشتمل ہے۔ اس باب میں پانچ صحابہ کے مصاحف کا تذکرہ ہے یعنی مصحف عمر بن خطاب‘ مصحف علی بن ابی طالب‘ مصحف ابی بن کعب‘ مصحف عبد اللہ بن مسعود اور مصحف عبد اللہ بن عباس ۔
تیسرے جزء میں ۵ صحابہ یعنی عبد اللہ بن زبیر‘ عبد اللہ بن عمرو‘ ام المؤمنین عائشہ‘ ام المؤمنین حفصہ‘ام المؤمنین ام سلمہ ا ور ۱۲ تابعین یعنی عبید اللہ بن عمیر‘ عطاء بن ابی رباح‘ عکرمہ مولیٰ ابن عباس‘ مجاہد بن جبر‘ سعید بن جبیر‘ اسود بن یزید‘ علقمہ بن قیس‘ محمد بن ابی موسی‘ حطان بن عبد اللہ‘ صالح بن کیسان‘ طلحہ بن مصرف اور سلیمان بن مھران کے اختلاف مصاحف(یعنی قراء ات ) کا تذکرہ ہے۔ علاوہ ازیں اس حصے میں ایک اہم ترین بحث یہ بھی ہے کہ ابن ابی داؤد نے اپنی سند سے نبیﷺکی ان قراء ات کا تذکرہ کیا ہے جو صحابہ نے نقل کی ہیں۔اس حصے کی تیسری اہم ترین بحث مصاحف عثمانیہ کے مختلف الفاظ کے رسم کی ہے۔ چوتھی بحث مصحف عثمانی کے اجزاء اور تقسیم کے بارے میں ہے۔
کتاب کا چوتھا حصہ مصحف کو لکھنے‘ اس پر اجرت لینے‘ ان کی خرید و فروخت ‘ان کو خوشبو لگانے‘ حالت جنابت میں چھونے اور علم الضبط سے متعلقہ بعض مسائل پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں مختلف عنوانات کے تحت ان موضوعات سے متعلقہ روایات اور آثار بیان کیے گئے ہیں۔
کتاب کا پانچواں حصہ مصاحف کے تبادلے‘ ان کی خرید و فروخت‘ ان کو لٹکانے‘ بغیر وضو چھونے‘ زمین پر رکھنے‘ مصحف میں دیکھ کر امامت کروانے‘ ان کو رہن رکھوانے‘ ان کی وراثت اور انہیں جلانے وغیرہ کے مسائل پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں مختلف عنوانات کے تحت ان موضوعات سے متعلقہ روایات اور آثار بیان کیے گئے ہیں۔
اس کتاب کو سب سے پہلے آرتھر جیفری نے ایڈٹ کر کے۱۹۳۷ء میں شائع کیا۔ بعد ازاں جامعہ ام القری کے پروفیسر ڈاکٹر محب الدین عبدا لسبحان واعظ نے اپنے پی ۔ایچ ۔ڈی کے مقالے کے طور پر اس کتاب کے نسخہ ظاہریہ کو بنیاد بناتے ہوئے اس کا ایک محقق نسخہ شائع کیاہے۔ ڈاکٹر محب الدین واعظ کایہ مقالہ دو جلدوں اور ۹۴۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کی پہلی اشاعت ۱۹۹۵ء میں اور دوسری ۲۰۰۲ء میں ہوئی۔ یہ کتاب ’دار البشائر الإسلامیۃ‘ بیروت‘سے شائع ہوئی ہے۔یہ مقالہ ’کتاب ا لمصاحف‘ پر بہت ہی علمی اور وقیع کام ہے۔ درج ذیل ایڈریس پر pdfفائل کی صورت میں موجود ہے:
كتاب المصاحف pdf
آرتھر جیفری کا تعارف
آرتھر جیفری ۱۸ اکتوبر ۱۸۹۲ء کو آسٹریلیا کے شہر میلبورن میں پیدا ہوا۔ اس کی وفات ۲ اگست ۱۹۵۹ء میں کینیڈا میں ہوئی۔ وہ ایک متعصب پرو ٹسٹنٹ عیسائی تھا۔ شروع میں قاہرہ میں مشرقی علوم کے سکول میں سامی زبانوں کے استاذ کی حیثیت سے کام کرتا رہا۔ بعد ازاں ۱۹۳۸ء میں کولمبیا یونیورسٹی سے منسلک ہو گیا ۔کئی ایک کتابوں اور مقالات کا مصنف ہے جو درج ذیل ہیں:
Eclecticism in Islam, Arthur Jeffery, 1922
- The Quest of the Historical Muhammad, Arthur Jeffery, 1926
- Materials for the History of the Text of the Qur’an, Arthur Jeffery, 1936
- A Variant Text of the Fatiha, Arthur Jeffery, 1939
- The Orthography of the Samarqand Codex, Arthur Jeffery, 1943
- The Textual History of the Qur’an, Arthur Jeffery, 1946
- Islam: Muhammad and His Religion, Arthur Jeffery, 1958
ان کتابوں میں جیفری کی معروف ترین کتاب ‘Materials for the History of the Text of the Qur’an’ہے جو ابن ابی داؤد کی کتاب ’کتاب المصاحف‘ کو بنیاد بنا کر لکھی گئی ہے۔ جیفری کی تمام کتابوں اور مقالہ جات کا مرکزی خیال تقریباً ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ بائبل کی طرح قرآن مجید بھی کوئی مستند مذہبی کتاب نہیں ہے۔ آرتھر جیفری نے ابن ابی داؤد کی کتاب ’کتاب المصاحف‘کو ایڈٹ (edit) کر کے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کے شروع میں اس نے اپنے عربی مقدمے میں قرآن کے بارے میں کئی ایک فرسودہ خیالات و نظریات کا اظہار کیا ہے۔آرتھر جیفری کی تحقیق سے مزین ’کتاب المصاحف‘ ۱۹۳۷ء میں پہلی بار شائع ہوئی۔ اس اشاعت کے شروع میں اس نے اپنی کتاب ‘Materials’ کوبھی شائع کیا۔ یہ کتاب ۶۰۹ صفحات پر مشتمل ہے اور درج ذیل ایڈریس پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے:
Books by Arthur Jeffery: anti-Islamic scholar
آرتھر جیفری نے ’کتاب المصاحف‘ کا جو مقدمہ لکھا ہے وہ
درج ذیل ایڈریس
پر موجود ہے:
آرتھر جیفری کا علمی مقام و مرتبہ
کیا آرتھر جیفری اس کا اہل تھا کہ وہ ’ کتاب المصاحف‘ کو ایڈٹ کر کے شائع کرے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ آرتھر جیفری اخلاقی اور علمی دونوں پہلوؤں سے اس وقیع علمی کام کا اہل نہ تھا۔ ڈاکٹر محب الدین واعظ نے اس مسئلے پر اپنے مقالے میں عمدہ گفتگو کی ہے جس کے چند ایک اہم نکات درج ذیل ہیں:
1۔آرتھر جیفری نے کتاب المصاحف کی تحقیق میں’ نسخہ ظاہریہ‘ کو بنیاد بنایا اور اس کا تقابل ’نسخۃ دار الکتب المصریۃ‘ سے کیاہے۔ آرتھر جیفری کا دعویٰ ہے کہ’نسخۃ دار الکتب المصریۃ‘ کا نسخہ ایک دوسرا نسخہ ہے حالانکہ وہ ’نسخہ ظاہریہ‘ ہی کی ایک نقل ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ دونوں نسخوں میں پہلا صفحہ موجود نہیں ہے۔
2۔آرتھر جیفری نے کتاب المصاحف میں کئی ایک مقامات پراپنی طرف سے ابواب کے عنوانات داخل کر دیے ہیں حالانکہ اگر اس نے ایسا کام کیا بھی تھا تو اسے یہ وضاحت کرنا چاہیے تھی کہ فلاں ابواب کے عنوانا ت اس کے اپنے اختیار کردہ ہیں۔ مثلاً اس نے ’باب من کتب الوحي لرسول اﷲ‘، ’باب من جمع القرآن‘ اور ’ما اجتمع علیہ کتاب المصاحف‘ جیسے عنوانات کا اضافہ کیا ہے۔
بعض اوقات تو ابواب کے نام اپنی طرف سے کتاب المصاحف میں شامل کر کے وہ تحریف قرآن کے نکتہ نظر کی نسبت ابن ابی داؤد کی طرف کرنا چاہتا ہے جیسا کہ اس نے ’باب ما غیر الحجاج في مصحف عثمان‘ یعنی حجاج نے مصحف عثمان میں جو تبدیلی کر دی تھی ‘کے نام سے ایک باب باندھا ہے۔ ڈاکٹر محب الدین واعظ کی تحقیق شدہ کتاب میں اس نام سے کوئی باب موجود نہیں ہے اگرچہ اس سے متعلقہ ایک روایت ضرور موجود ہے۔(کتاب المصاحف مع تحقیق الدکتور محب الدین واعظ : ۴۶۳،۴۶۴)
3۔بعض مقامات پر آرتھر جیفری نے اپنی طرف سے کچھ الفاظ کا بھی اضافہ کیا ہے مثلاً کتاب المصاحف کے اصل نسخہ میں ’اختلاف خطوط المصاحف‘ کا عنوان تھا جسے اس نے ’باب اختلاف خطوط المصاحف‘ کر دیا۔اسی طرح اس نے کئی ایک مقامات پر’باب‘ کے لفظ کا اضافہ کیا ہے حالانکہ وہاں اس لفظ کا نہ ہونا زیادہ قرین قیاس بات ہے۔
4۔بعض مقامات پر اس نے اپنی جہالت کی وجہ سے ’عن‘ کے لفظ کو ’بن‘ سمجھ لیا جس سے روایت کی اصل سند مخفی ہو گئی۔
5۔بعض مقامات پر اسناد کے رجال کی تعیین میں بھی وہ خطا کا مرتکب ہوا ہے۔
6۔ابن ابی داؤد نے ایک جگہ اپنی کتاب میں فرمایا: حدثنا عمی و یعقوب بن سفیان یعنی ہم سے ہمارے چچا اور یعقوب بن سفیان نے بیان کیا ہے۔ یعقوب بن سفیان ‘ ابن ابی داؤدکے استاذ ہیں۔ آرتھر جیفری کو جب یعقوب بن سفیان کا ترجمہ (حالات زندگی)نہ ملا تو اس نے اس عبارت میں سے واؤ کو حذف کر کے یعقوب بن سفیان ہی کو ابن ابی داؤد کا چچا بنا دیاحالانکہ ابن ابی داؤدکے چچا محمدبن اشعث سجستانی ہیں۔(کتاب المصاحف مع تحقیق الدکتور محب الدین واعظ : ۹۷،۹۸)
آرتھر جیفری کا قرآن کے بارے نقطہ نظر
آرتھر جیفری کے نزدیک اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں قرآن تحریری شکل میں موجود نہیں تھا اور اپنے اس موقف کی بنیاد اس نے ایک باطل روایت کو بنایا ہے جو صحیح روایات کے منافی ہے ۔ اس کا کہنا یہ بھی ہے کہ مستشرقین کی تحقیق کے مطابق اللہ کے رسول ﷺ پڑھنا لکھنا جانتے تھے اور یہ بات قرآن سے بھی ثابت ہے۔ آرتھر جیفری نے لکھا ہے کہ اہل مغرب کی تحقیق کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ مسلمانوں کے لیے اپنی زندگی کے آخری حصے میں ایک کتاب(یعنی قرآن) مرتب کر رہے تھے۔ اس سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ قرآن در حقیقت اللہ کے رسولﷺکی ذاتی تصنیف ہے۔ حضرت ابو بکر کے زمانے میں جمع قرآن کے کام کے بارے اس کا خیال یہ ہے کہ یہ ایک ذاتی جمع تھی نہ کہ سرکاری۔ اس کے گمان میں سرکاری سطح پر قرآن کی جمع کا کام حضرت عثمان کے دور میں شروع ہوا۔ آرتھر جیفری نے اس خیال کا بھی اظہار کیا ہے کہ بعض اسکالرز کی تحقیق کے مطابق حضرت زید بن ثابتنے جمع قرآن کا کام صرف حضرت عثمان کے لیے کیا تھا لیکن چونکہ حضرت عثمان کی شخصیت متنازع تھی لہٰذا بعض اصحاب نے جمع قرآن کے کام کی نسبت حضرت ابو بکر کی طرف کرنے کے لیے کچھ ایسی روایات وضع کر لیں جن کے مطابق حضرت زید بن ثابت کو ابو بکر کے زمانے میں جمع قرآن پر مامور کیا گیاتھا۔ آرتھر جیفری ۱۹۴۶ء میں بیان کردہ اپنے ایک لیکچر میں کہتاہے:
“To begin with it is quite certain that when the Prophet died there was no collected, collated, arranged body of material of his revelations. What we have is what could be gathered together somewhat later by the leaders of the community when they began to feel the need of a collection of the Prophet’s proclamations and by that time much of it was lost, and other portions could only be recorded in fragmentary form. There is a quite definite and early Tradition found in several sources which says, “The Prophet of Allah was taken before any collection of the Qur’an had been made”. Muslim orthodoxy holds that the Prophet himself could neither read nor write. But in our generation both Professor Torrey of Yale and Dr. Richard Bell of Edinburgh, working independently of each other, have concluded that the internal evidence in the Qur’an itself points to the fact that he could write, and that for some time before his death he been busy preparing material for a Kitab, which he would leave to his people as their Scripture, to be to them what the Torah was to the Jews or the Injil to the Christians. There is, indeed, an uncanonical tradition current among the Shi’a, that the Prophet had made a collection of passages of his revelations written on leaves and silk and parchments, and just before his death told his son-in-law Ali where this material was kept hidden behind his couch, and bade him take it and publish it in Codex form. It is not impossible that there was such a beginning at a collection of revelation material by the Prophet himself, and it is also possible that Dr. Bell may be right in thinking that some at least of this material can he detected in our present Qur’an. Nevertheless there was certainly no Qur’an existing as a collected, arranged, edited book, when the Prophet died…Here, however, we have our first stage in the history of the text of the Qur’an. There could not be a definitive text while the Prophet was still alive, and abrogation of earlier material or accessions of fresh material were always possible. With his death, however, that situation ended, and we have what was preserved of the revelation material, partly in written form, partly in oral form, in the hands of the community, and tending to become the special care of a small body of specialists…The text thus obtained Tradition regards as officially promulgated by Abu Bakr, and so the first Recension of the text of the Qur’an. Modern criticism is willing to accept the fact that Abu Bakr had a collection of revelation material made for him, and maybe, committed the making of it to Zaid b. Thabit. It is not willing to accept, however, the claim that this was an official recension of the text. All we can admit is that it was a private collection made for the first Caliph Abu Bakr. Some scholars deny this, and maintain that Zaid’s work was done for the third Caliph, Uthman, but as ‘Uthman was persona non grata to the Traditionists, they invented a first recension by Abu Bakr so ‘Uthman might not have the honour of having made the first Recension.”
(The Textual History of the Qur’an by Arthur Jeffery, 1946)
آرتھر جیفری کے نزدیک صحابہ و تابعینکے مصاحف
آرتھر جیفری نے اپنی کتاب ‘Materialمیں کتاب المصاحف کے اس حصے کو بنیاد بنایا ہے جس میں مختلف صحابہ اور تابعین کے مصاحف کا تذکرہ ہے۔ آرتھر جیفری اپنی مزعومہ تحقیق کے مطابق یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ صحابہ اور تابعین کے زمانے میں مسلمانوں کا کسی ایک قرآن پر اتفاق نہ تھا بلکہ ان میں سے اکثر کے پاس اپنا ذاتی مصحف تھا اور یہ ذاتی مصحف ایک ایسے قرآن پر مشتمل تھا جو دوسرے کے پاس موجود نہ تھا۔ آرتھر جیفری نے کتاب المصاحف کو بنیاد بناتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ہے کہ روایات و آثار سے ۱۵ صحابہ اور ۱۳تابعین کے ان ذاتی مصاحف کا پتہ چلتا ہے جن کی آیات مصحف عثمانی اور مروجہ قراء ا ت کے خلاف ہیں۔ آرتھر جیفری نے درج ذیل صحابہ کی طرف مصاحف کی نسبت کی ہے:
حضرت عبد اللہ بن مسعود ۔۔حضرت ابی بن کعب۔۔حضرت علی
حضرت عبد اللہ بن عباس۔۔حضرت ابوموسی أشعری۔۔حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا
حضرت انس بن مالک ۔۔حضرت عمر۔۔حضرت زید بن ثابت
حضرت عبد اللہ بن زبیر۔۔حضرت عبد اللہ بن عمرو۔۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
حضرت سالم۔۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا۔۔ حضرت عبید بن عمیر
جیفری نے درج ذیل ۱۳ تابعین کی طرف بھی بعض مصاحف کی نسبت کی ہے:
حضرت اسود۔۔حضرت علقمہ
حضرت حطان۔۔حضرت سعید بن جبیر
حضرت طلحہ۔۔حضرت عکرمہ
حضرت مجاہد۔۔حضرت عطاء بن ابی رباح
حضرت ربیع بن خیثم۔۔حضرت اعمش
حضرت جعفر صادق۔۔حضرت صالح بن کیسان
حضرت حارث بن سوید
مصاحف صحابہ و تابعین کی حقیقت
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کے زمانے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ کے رسول ﷺ کے حکم سے بھی اور اپنے طور پر بھی قرآن کی کتابت کرتے تھے۔مثال کے طور پر حضرت زید بن ثابت آپﷺ کے کاتب ہونے کی حیثیت سے ایک سرکاری کاتب کا درجہ رکھتے تھے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
’’إن زید بن ثابت قال: أرسل إلی أبوبکر رضی اﷲ عنہ قال إنک کنت تکتب الوحي لرسول اﷲ ﷺ فاتبع القرآن فتتبعت۔‘‘ (صحیح البخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب کاتب النبي ﷺ: ۴۹۸۹)
’’ حضرت زید بن ثابت کہتے ہیں مجھے حضرت ابوبکر نے ایک پیغام بر کے ذریعے یہ کہلوا بھیجا کہ تم (اللہ کے رسول ﷺ کے( زمانے میں ان )کے لیے وحی لکھا کرتے تھے ۔ پس تم قرآن کو تلاش کرو(اور جمع کرو)۔ پس میں نے قرآن کو تلاش کیا(اور جمع کیا)۔
صحابہ کی ایک جماعت آپ ﷺ سے قرآن کو نقل کرتی تھی اور بعض اوقات یہی صحابہ احادیث بھی لکھ لیا کرتے تھے۔ پس آپ ﷺ نے ایک خاص دورانیے میں احادیث لکھنے سے منع کر دیا تاکہ قرآن کے ساتھ احادیث خلط ملط نہ ہو جائیں۔ جب صحابہ قرآن کے اسلوب و مزاج سے اچھی طرح واقف ہو گئے تو پھر آپﷺ نے احادیث لکھنے کی اجازت جاری فرما دی۔ ایک اورروایت کے الفاظ ہیں:
عن أبی سعید الخدري أن رسول اﷲ ﷺ قال: ’’لَا تَکْتُبُوا عَنِّيْ وَمَنْ کَتَبَ عَنِّيْ غَیْرَ الْقُرْآنِ فَلْیَمْحُہٗ‘‘۔ (صحیح مسلم‘ کتاب الزھد و الرقاق‘ باب التثبت في الحدیث وحکم کتابۃ العلم: ۵۳۲۶)
’’حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: مجھ سے (قرآن کے علاوہ) نہ لکھو اور جس نے مجھ سے قرآن کے علاوہ کچھ لکھا ہے‘ وہ اسے مٹا دے۔‘‘
آپ ﷺ کے زمانے میں کچھ صحابہ سرکاری کاتبین وحی تھے لہٰذا سرکاری طور پر جمع شدہ قرآن موجود تھا ۔ علاوہ اَزیں صحابہ اپنے طور پر بھی قرآن جمع کرتے تھے۔ اکثر و بیشتر صحابہ کے پاس قرآن کے مختلف اجزاء لکھی ہوئی صورت میں موجود تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں جمع صدیقی کے وقت حضرت زید بن ثابت مختلف صحابہ کے پاس کھجور کی شاخوں‘ چمڑوں اور پتھروں پر لکھے ہوئے قرآن کو ایک جگہ جمع کرنے کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
’’فتتبعت القرآن أجمعہ من العسب واللخاف وصدور الرجال۔‘‘ (صحیح البخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب جمع القرآن: ۴۹۸۶)
’’پس میں نے قرآن کو تلاش کیا اور اسے کھجور کی شاخوں‘ چمڑوں‘ پتھروں اور لوگوں کے سینے سے جمع کرنے لگا۔‘‘
یہ واضح رہے کہ صحابہ کے پاس مکمل مصاحف لکھی ہوئی صورت میں نہ تھے بلکہ ان کے پاس قرآن کے متفرق اجزاء تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جمع صدیقی کے وقت حضرت زید بن ثابت کو بعض آیات کسی صحابیکے پاس لکھی ہوئی نہ ملتی تھیں۔ ایک روایت کے مطابق حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں:
’’فقدت آیۃ من الأحزاب حین نسخنا المصحف قد کنت أسمع رسول اﷲ ﷺ یقرأ بھا، فالتمسناھا فوجدناھا مع خزیمۃ بن ثابت الأنصاري۔‘‘ (صحیح البخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب جمع القرآن: ۲۸۰۷)
’’ جب ہم نے مصحف کو لکھ لیا تو سورۃ احزاب کی ایک آیت ہم نے کم پائی جسے میں نے اللہ کے رسول ﷺسے پڑھتے ہوئے سنا تھا۔ پس ہم نے اس آیت(کی لکھی ہوئی صورت) کو تلاش کیاتو ہم نے اسے خزیمہ بن ثابت انصاری کے پاس پایا۔‘‘
حضرت ابو بکر صدیق کے زمانے میں حضرت زید بن ثابت کو سرکاری طور پر ایک ایسے مصحف کی تیاری کاحکم دیا گیاجس میں قرآن کی جمیع آیات وسور کو ایک جگہ جمع کر دیا گیا ہو۔ اس مصحف کی تیاری کا تذکرہ بہت سی روایات میں ملتا ہے۔ایک روایت کے الفاظ ہیں:
’’أن زید بن ثابت رضی اﷲ قال: أرسل إلي أبوبکر مقتل أھل الیمامۃ فإذا عمر بن الخطاب عندہ، قال أبوبکر إن عمر أتاني فقال: إن القتل قد استحر یوم الیمامۃ بقراء القرآن و إني أخشی أن یستحر القتل بالقراء بالمواطن فیذھب کثیر من القرآن و إني أری أن تأمر بجمع القرآن۔ قلت لعمر: کیف تفعل شیئا لم یفعلہ رسول اﷲ ﷺ؟ قال عمر: ھذا، و اﷲ! خیر۔ فلم یزل عمر یراجعني حتی شرح اﷲ صدري لذلک، ورأیت في ذلک الذي رأی عمر۔ قال زید: قال أبوبکر: إنک رجل شاب عاقل، لا نتھمک وقد کنت تکتب الوحي لرسول اﷲ ﷺ۔ فتَتَبَّعْ القرآن فاجْمَعْہ۔ فواﷲ! لو کلفوني نقل جبل من الجبال ما کان أثقل علي مما أمرني بہ من جمع القرآن۔ قلت: کیف تفعلون شیئا لم یفعلہ رسول اﷲ ﷺ؟ قال: ھو واﷲ! خیر، فلم یزل أبوبکر یراجعني حتی شرح اﷲ صدري للذي شرح لہ صدر أبي بکر ÷ وعمر ÷ فتتبعت القرآن أجمعہ من العسب واللحاف وصدور الرجال۔‘‘ (صحیح البخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب جمع القرآن: ۴۹۸۶)
’’حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق نے انہیں اہل یمامہ کی جنگ کے وقت بلوا بھیجاتو انہوں نے دیکھا کہ حضرت ابو بکرکے پاس حضرت عمرموجود ہیں۔ حضرت ابو بکر نے کہا: عمر میرے پاس آئے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ یمامہ کی جنگ میں قراء کی کثیر تعداد شہید ہوئی ہے اور مجھے یہ اندیشہ ہے کہ بعض دوسرے مقامات پر بھی قراء کی ایک بڑی تعداد شہید ہوجائے اور ہم سے قرآن کا اکثر حصہ ضائع ہو جائے۔ اس لیے میرا خیال یہ ہے کہ آپ(یعنی ابو بکر ایک جگہ) جمع قرآن کا حکم جاری فرمائیں۔ میں (یعنی ابوبکر) نے عمر سے کہا: تم وہ کام کیسے کرو گے جو اللہ کے رسولﷺنے نہیں کیا۔حضرت عمر نے جواب دیا: اللہ کی قسم! اس کام میں خیر ہی خیر ہے۔پس حضرت عمر مجھے اس کام کے لیے مشورہ دیتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے ا س کے لیے میرے سینے کوکھول دیااور اس مسئلے میں میری رائے بھی وہی ہو گئی جو حضرت عمر کی ہے۔حضرت زید نے کہا:حضرت ابوبکر نے یہ کہا کہ تم ایک نوجوان اور سمجھدار آدمی ہو اور ہم تم میں کوئی عیب بھی نہیں دیکھتے اور تم اللہ کے رسولﷺ کے کاتب بھی تھے۔ پس تم قرآن کو تلاش کر کے جمع کرو۔ (حضرت زید فرماتے ہیں)اللہ کی قسم! اگر وہ حضرات مجھے کسی پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیتے تویہ کام مجھ پر جمع قرآن کی نسبت آسان تھا۔ میں (زید) نے کہا: آپ حضرات وہ کام کیسے کریں گے جو اللہ کے رسولﷺ نے نہیں کیا۔ حضرت ابو بکر نے کہا:اللہ کی قسم! یہ کام خیر ہی خیر ہے۔ پس حضرت ابو بکر مجھے اس کام پر مجبور کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ نے میرا سینہ بھی ویسے ہی کھول دیا جیسا کہ حضرت ابو بکر و عمررضی اللہ عنہما کا کھولا تھا۔پس میں قرآن کو تلاش اور اسے کھجور کی شاخوں‘ چمڑوں‘ پتھروں اور لوگوں کے سینے سے جمع کرنے لگا۔‘‘
ایک اور روایت کے مطابق حضرت زید بن ثابت کے ساتھ حضرت عمر بھی اس کام میں شریک تھے اور یہ حضرات جمع صدیقی کے دوران اس وقت تک کسی صحابی سے کوئی آیت مبارکہ قبول نہ کرتے تھے جب تک کہ وہ صحابی اس بات پر دو گواہ نہ پیش کر دے کہ اس نے وہ آیت مبارکہ اللہ کے رسولﷺکے سامنے لکھی اور پڑھی تھی۔ روایت کے الفاظ ہیں:
عن ھشام بن عروۃ عن أبیہ قال: لما استحر القتل بالقراء یومئذ فرق أبوبکر علی القرآن أن یضیع فقال لعمر بن الخطاب و لزید بن ثابت: ’’اقعدوا علی باب المسجد فمن جاء کما بشاھدین علی شیء من کتاب اﷲ فاکتباہ۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب جمع أبی بکر الصدیق في المصحف)
’’ ہشام بن عروۃاپنے والد عروۃ بن زبیر سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: جب قراء کی بڑے پیمانے پر شہادت ہوئی تو حضرت ابوبکر اس بات سے گھبرا گئے کہ قرآن ضائع نہ ہو جائے۔ پس انہوں نے حضرت عمر اور زید سے کہا:مسجد نبوی کے دروازے پر بیٹھ جاؤ اور جو تمہارے پاس کسی چیز(یعنی لکھی ہو ئی ہو اورپڑھی ہوئی) پر دو گواہ لے کر آئے کہ وہ کتاب اللہ میں سے ہے تو اسے لکھ لو۔‘‘
اس روایت کی شرح ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔حضرت ابو صدیق کے زمانے میں تمام قرآن لکھی ہوئی شکل میں جمع کر لیا گیا لیکن یہ مرتب نہیں تھا بلکہ ایک مصحف کی بجائے مختلف صحیفوں کی صورت میں تھا۔ مثال کے طور پر اس کو آسانی کے لیے یوں سمجھ لیں کہ جیسے قرآن کی ۱۱۴ سورتیں ہیں‘ اب یہ تمام سورتیں تو موجود ہوں لیکن متفرق طور پر ‘ یا اس کی مثال یوں بھی دی جا سکتی ہے کہ جیسے قرآن کے تیس پارے ہیں ۔ اب یہ تیس اجزاء متفرق طور پر ہوں تو ان کو ’صحف‘ کہیں گے اور اگر ان کو ایک جلد میں جمع کر دیں تو اس کو ’مصحف‘ کہیں گے۔ حضرت ابو بکر کے زمانے میں ’صحف‘ تھے نہ کہ ’مصحف‘ ۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
وقال عثمان للرھط القرشیین الثلاثۃ: ’’إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت في شيء من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش فإنما نزل بلسانھم ففعلوا حتی نسخوا الصحف في المصاحف رد عثمان الصحف إلی حفصۃ۔‘‘ (صحیح بخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب جمع القرآن: ۳۵۰۶)
’’حضرت عثمان نے تین قریشی صحابہسے کہا: جب تمہارا اور زید بن ثابت کا کسی لفظ کو لکھنے (کے رسم) میں اختلاف ہو جائے تو اس کو قریش کی زبان میں لکھو کیونکہ قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ پس ان چاروں صحابہ نے یہ کام کیا اورتمام ’صحف‘ کو ’مصاحف‘ میں نقل کر دیا۔ پھر حضرت عثمان نے (حضرت ابو بکر کے زمانے میں تیار شدہ) صحف حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو لوٹا دیے( کیونکہ حضرت ابو بکر سے وہ حضرت عمر کے پاس آئے تھے اور حضرت عمر سے پھر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو ملے تھے)۔‘‘
حضرت ابو بکر کے زمانے میں صحابہ کے جزوی و انفرادی صحیفے ان کے پاس موجود رہے۔حضرت عمر کے زمانے میں جب سلطنت وسیع ہوئی تو مختلف صحابہ مختلف شہروں کی طرف ہجرت کر گئے ۔ بعض صحابہ کو حضرت عمر نے خود بھی بھیجا تھاجیسا کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کو کوفہ کی طرف بھیجا گیا۔ ان کبار صحابہ نے اپنے اپنے شہروں میں اپنے صحائف کے مطابق قرآن کی تعلیم و تعلم کا سلسلہ شروع کیا۔ ہر صحابی نے جو حرف اللہ کے رسولﷺ سے نقل کیا تھااس کے مطابق اپنے شاگردوں کو قرآن کی تعلیم دی۔اس طرح مختلف اسلامی شہروں میں مختلف قرآنی قرا ء ات کا ظہور ہواجس سے مختلف بلاد و امصار کے قرآن کی قرا ء ات کے حوالے سے ایک تنازع پیدا ہو گیا۔ ہر شہر کے لوگ اپنے شہر کی قر اء ت کو صحیح اور دوسری کو غلط کہنے لگے حالانکہ ان میں سے اکثر قرا ء ات احرف سبعہ کے ذیل میں اللہ کے رسولﷺسے ثابت تھیں۔ایک روایت کے الفاظ ہیں:
’’عن أبي الشعثاء قال: کنت جالسا عند حذیفۃ وأبي موسی وعبد اﷲ بن مسعود فقال حذیفۃ: أھل البصرۃ یقرؤون قرائۃ أبي موسی‘ وأھل الکوفۃ یقرؤون قرائۃ عبد اﷲ‘ أما واﷲ! أن لو قد أتیت أمیر المؤمنین لقد أمرتہ بغرق ھذہ المصاحف۔ فقال عبداﷲ: إذا تغرق في غیر مائ۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب کراھیۃ عبد اﷲ بن مسعود ذلک)
’’ابو شعثاء سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں حضرت حذیفہ‘ حضرت ابو موسی اشعری اور حضرت عبد اللہ ابن مسعود کے پاس بیٹھا تھا کہ حضرت حذیفہ نے کہا: اہل بصرہ ابو موسی اشعری کی اور اہل کوفہ عبد ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی قراء ت پڑھتے ہیں۔ اللہ کی قسم ! اگر میں امیر المؤمنین کے پاس آؤں توانہیں ان جمیع (اختلافی)مصاحف کے غرق کرنے کا حکم دے دوں۔ اس پر ابن مسعودنے کہا: تب تو تم بھی بنا پانی کے غرق ہو جاؤ۔‘‘
اس روایت کی سند ایک مدلس راوی کے عنعنہ کی وجہ سے’ ضعیف‘ ہے لیکن اس روایت کے متن کی تائید بعض صحیح روایات سے بھی ہوتی ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق قراء ات کے یہ اختلافات محاذ جنگ اور سرحدی علاقوں میں بھی بہت نمایاں ہو گئے تھے۔ روایت کے الفاظ ہیں:
’’أن حذیفۃ بن الیمان قدم علی عثمان و کان یغازي أھل الشام في فتح أرمینیۃ وأذربیجان مع أھل العراق فأفزع حذیفۃ اختلافھم في القرائۃ فقال حذیفۃ لعثمان: یا أمیر المؤمنین! أدرک ھذہ الأمۃ قبل أن یختلفوا في الکتاب اختلاف الیھود والنصاری۔‘‘ (صحیح البخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب جمع القرآن: ۴۹۸۸)
’’حضرت حذیفہ بن یمان حضرت عثمان کے پاس آئے اور وہ اہل عراق و اہل شام کے ساتھ مل کر آرمینیہ اور آذر بائیجان کی فتح کے لیے جنگ کر رہے تھے۔ اس موقعے پر صحابہ کی قراء ات کے اختلافات سے حضرت حذیفہ گھبرا گئے اور انہوں نے حضرت عثمان سے کہا: اے امیر المؤمنین!اس امت کو پکڑیں اس سے پہلے کہ یہ بھی یہود و نصاری کی طرح اللہ کی کتاب میں اختلاف کرنے لگے۔‘‘
یہ بھی واضح رہے کہ متفر ق احرف کی قراء ت کے علاوہ اس عرصے میں یعنی جمع عثمانی سے پہلے کچھ ایسی قراء ات بھی رائج و عام تھیں جو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکی تھیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عن سمرۃ رضی اﷲ عنہ قال: ’’عرض القرآن علی رسول اﷲ ﷺ عرضات فیقولون: إن قرائتنا ھذہ العرضۃ الأخیرۃ۔‘‘
ھذا حدیث صحیح علی شرط البخاري بعضہ، وبعضہ علی شرط مسلم ولم یخرجاہ۔
تعلیق الذھبی فی التلخیص: صحیح۔ (المستدرک علی الصحیحین‘ کتاب التفسیر: ۲؍۲۵۰)
’’حضرت سمرۃسے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:قرآن مجید اللہ کے رسولﷺ پر کئی مرتبہ پیش کیا گیا اور صحابہ کا کہنا یہ تھا کہ ہماری یہ قراء ت(یعنی جمع عثمانی والی) عرضہ اخیرہ کے مطابق ہے۔(امام حاکم نے کہا ہے کہ) اس روایت کابعض حصہ بخاری کی شرط پر اور بعض مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ امام ذہبی نے بھی اپنی ’تعلیق‘ میں اس روایت کو ’صحیح‘ کہا ہے۔‘‘
اس بارے میں بھی صحابہ میں اختلاف تھا کہ کون سی قراء ت عرضہ اخیرہ کے مطابق ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عن مجاہد عن ابن عباس قال، قال: ’’أي القرائتین کانت أخیرا قرائۃ عبداﷲ أو قرائۃ زید؟‘‘ قال، قلنا: ’’قرائۃ زید۔‘‘ قال: ’’لا إلا أن رسول اﷲ ﷺ کان یعرض القرآن علی جبریل کل عام مرۃ فلما کان في العام الذي قبض فیہ عرضہ علیہ مرتین و کانت آخر القرائۃ قرائۃ عبداﷲ۔‘‘ تعلیق شعیب الأرنؤوط: صحیح۔ ( مسند أحمد‘ باب مسند عبد اﷲ بن العباس : ۱؍۲۷۵‘ مؤسسۃ قرطبۃ‘ القاھرۃ، ۲۴۹۴)
’’ حضرت مجاہد‘ ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے سوال کیا: دونوں قراء ات میں کون سی قراء ت آخری ہے ؟ حضرت عبد اللہ بن مسعود کی یا حضرت زید بن ثابتکی۔ہم نے جواب دیا: حضرت زید بن ثابت کی قراء ت۔ حضرت عبد اللہ بن عباس نے کہا: نہیں! حضرت جبرئیل قرآن مجید اللہ کے رسولﷺپر ہر سال ایک مرتبہ پیش کرتے تھے اور جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال دو مرتبہ پیش کیا اور عبد اللہ بن مسعود کی قراء ت آخری قراء ت ہے۔‘‘
بعض صحیح روایات کے مطابق حضرت زید بن ثابت کی قراء ت عرضہ اخیرہ کے مطابق تھی۔ ابن حجر نے ان روایات کو بیان کرنے کے بعد ان میں یوں موافقت پیدا کی ہے کہ یہ دونوں اقوال ہی اپنی جگہ درست ہیں۔ دونوں صحابہ یعنی حضرت زید بن ثابت اور حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہما کی قراء ت عرضہ اخیرہ کے مطابق تھی۔ (فتح الباري: ۹؍ ۴۴)
غالب گمان یہی ہے کہ یہ منسوخ قرا ء ات عموماً ان مترادفات کے قبیل سے تھیں جن کی اجازت آپﷺکے زمانے میں تیسیر و عدم حرج کے اصول کو سامنے رکھتے ہوئے دی گئی تھی۔اس لیے یہ کہنا درست ہے کہ ’سبعۃ أحرف‘ میں کچھ ’حروف‘ عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکے ہیں اور کچھ باقی ہیں جن کی تلاوت ہم آج تک کرتے چلے آ رہے ہیں۔
جمع عثمانی سے پہلے اسی طرح ایک اور مشکل (جو کسی حد تک بعد میں بھی رہی)یہ بھی درپیش تھی کہ بعض صحابہ نے آپﷺکی تفسیرکو اپنے مصاحف میں لکھ کر قرآن کے ساتھ خلط ملط کر دیا تھا۔ یعنی اللہ کے رسولﷺنے جس خدشے کے پیش نظر قرآن کے علاوہ کچھ لکھنے سے منع کیا تھا ‘ اس کا عملی مظہر کچھ اس طرح سامنے آنے لگاتھا کہ بعض صحابہ تفسیری نکات کو بھی بطور قرآن نقل کر رہے تھے جیسا کہ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت ام سلمہ‘ حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہن نے اپنے کاتب کو یہ ہدایت کی وہ قرآن لکھتے وقت سورۃ بقرۃ میں ’وصلاۃ العصر‘ کے الفاط بھی لکھے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
عن أبی یونس مولی عائشۃ أم المؤمنین أنہ قال: أمرتني عائشۃ رضي اﷲ عنھا أن أکتب لھا مصحفا ثم قالت: ’’إذا بلغت ھذہ الآیۃ: ’’ حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی ‘‘ فآذنی فلما بلغتھا آذنتھا فأملت علی: (حافظوا علی الصلوات و الصلاۃ الوسطی و صلاۃ العصر وقوموا للہ قانتین۔) ثم قالت: ’’سمعتھا من رسول اﷲ ﷺ‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب مصحف عائشۃ زوج النبي ﷺ)
’’یونس مولیٰ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا:مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حکم دیا کہ میں ان کے لیے ایک مصحف لکھوں۔ پھر یہ کہا کہ جب میں اس آیت یعنی ’حٰفظوا علی الصلَوٰت و الصلوٰۃ الوسطی‘ پر پہنچوں ‘ تو انہیں مطلع کروں۔ پس جب میں(یعنی کاتب) اس آیت مبارکہ پر پہنچا تو انہیں خبر دی۔ پس انہوں نے مجھے یہ آیت اس طرح املا کروائی: حافظوا علی الصلوات و الصلاۃ الوسطی وصلاۃ العصر وقوموا ﷲ قانتین‘ اور پھر فرمایا: میں نے اللہ کے رسولﷺسے ایسے ہی سنا ہے۔‘‘
ان حالات میں حضرت عثمان نے یہ کوشش کی وہ سرکاری طور پر ایک ایسا مصحف تیار کروائیں جس میں عرضہ اخیرہ کے مطابق جمیع احرف قرآنیہ کو نقل کر دیں تاکہ عوام الناس اللہ کے رسولﷺسے منقول صحیح قراء ات سے واقف ہو سکیں اور جہالت میں ایک دوسرے کی قراء ت کا رد نہ کریں۔ علاوہ ازیں اس مصحف کی تیاری سے یہ بھی مقصود تھاکہ جن منسوخ قراء ات یا تفسیری نکات کی تلاوت تاحال جاری ہے‘ ان کو ختم کیا جائے اور تمام مسلمانوں کو سرکاری مصحف کے مطابق قراء ت کا پابند بنایا جائے۔ اسکے لیے حضرت عثمان نے چار صحابہ یعنی حضرت زید بن ثابت‘ عبد اللہ بن زبیر‘ سعید بن العاص اور عبد الرحمن بن حارث بن ہشام کا انتخاب کیا۔ اس سرکاری مصحف کی تیاری کے بعد حضرت عثمان نے اس کی کئی ایک کاپیاں تیار کروائیں اور مختلف شہروں میں بھیج دیں۔ علاوہ ازیں ایک کام یہ بھی کیا گیا کہ صحابہ کے پاس موجود ان کے ذاتی مصاحف کو جمع کر کے جلا دیا گیا۔ایک روایت کے الفاظ ہیں:
وقال عثمان للرھط القرشیین الثلاثۃ: ’’إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت في شيء من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش، فإنما نزل بلسانھم۔‘‘ ففعلوا ذلک۔ حتی نسخوا الصحف في المصاحف رد عثمان الصحف إلی حفصۃ، و أرسل إلی کل أفق بمصحف مما نسخوا، وأمر بما سواہ من القرآن في کل صحیفۃ أو مصحف أن یحرق‘‘ (صحیح البخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب جمع القرآن: ۳۵۰۶)
’’حضرت عثماننے تین قریشی صحابہ سے کہا: جب تمہارا اور زید بن ثابت کا کسی لفظ کو لکھنے (کے رسم) میں اختلاف ہو جائے تو اس کو قریش کی زبان میں لکھو کیونکہ قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ پس ان چاروں صحابہ نے یہ کام کیا اورتمام ’صحف‘ کو ’مصاحف‘ میں نقل کر دیا۔ پھر حضرت عثمان نے (حضرت ابو بکر کے زمانے میں تیار شدہ) صحف حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو لوٹا دیے۔ حضرت عثمان نے ایک ایک مصحف مختلف اسلامی شہروں میں بھیج دیا اور اس کے علاوہ قرآن کے ہر صحیفے یا مصحف کے بارے یہ حکم جاری کیا کہ اسے جلا دیا جائے۔‘‘
یہ بات واضح رہے کہ جمع عثمانی پر سب صحابہ کا اجماع و اتفاق تھا۔ اختلاف صرف اس مسئلے میں تھا کہ بعض صحابہ کے پاس اپنے مصاحف میں کچھ اضافی احرف ایسے تھے جو جمع عثمانی میں موجود نہ تھے ۔ پس وہ صحابہ جمع عثمانی کے ساتھ اپنے ان احرف کی تلاوت کو بھی جاری رکھنا چاہتے تھے جبکہ حضرت عثمان ان احرف کے مطابق تلاوت کی اجازت دینے کے قائل نہ تھے۔
صحیح بخاری کی ایک روایت کے حوالے سے ہم یہ بیان کر چکے ہیں کہ حضرت عثماننے ایک مصحف نہیں بلکہ کئی مصاحف تیار کروائے تھے اور انہیں مختلف شہروں کی طرف بھیج دیاتھا۔ ان مصاحف کی تعداد میں علماء کے ہاں اختلاف ہے۔ بعض نے چار‘ بعض نے پانچ اور بعض نے چھ اور بعض نے سات بھی نقل کی ہے۔ (کتاب المصاحف مع تحقیق الدکتور محب الدین واعظ: ۲۳۸۔۲۳۹)
کتاب المصاحف کی کئی ایک روایات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ حضرت عثمان نے مختلف شہروں کے لیے جو مختلف سرکاری مصاحف تیار کروائے تھے ان میں اختلاف تھا کیونکہ ان مصاحف میں متعلقہ شہروں کی قراء ات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان مصاحف کی تیاری کی گئی تھی۔جو نسخہ حضرت عثمان کے پاس تھا اسے ’مصحف امام ‘ کا نام دیا گیا۔اس موضوع سے متعلق روایات کے مطالعہ کے لیے کتاب المصاحف کے عنوانات ’باب ما کتب عثمان من المصاحف‘ اور ’الإمام الذي کتب منہ عثمان المصاحف‘ وھو مصحفہ‘ اور ’اختلاف مصاحف الأمصار التي نسخت من الإمام‘ کا مطالعہ فرمائیں۔
علمائے فن کا اس پر اتفاق ہے کہ صرف اسی قراء ت کو بطور قرآن ثابت سمجھا جائے جس میں درج ذیل تین شرائط پائی جاتی ہوں:
(١) وہ صحیح سند سے ثابت ہو اور قراء کے ہاں معروف ہو۔
(٢) مصاحف عثمانیہ میں کسی مصحف کے رسم کے مطابق ہو۔
(٣) قواعد لغویہ عربیہ کے موافق ہو۔
ہمارے نزدیک کسی قراء ات کی قرآنیت کیلئے رسم عثمانی کی موافقت ایک اساسی شرط ہے۔ جس کی بنیاد مصاحف عثمانیہ پر صحابہ کرام کا اجماع ہے ، لہٰذا علمائے امت نے ہر دور میں اس کی پابندی کو لازم قرار دیا ہے۔ اس موضوع پر تفصیلی مطالعہ کے لئے اسی شمارے میں موجود مضمون ’قراء ات شاذہ اور ثبوت قرآن کا ضابطہ‘ از محمد اسلم صدیق اور مکتوب بنام شیخ الحدیث مولانا عبد المنان نورپوری ‘ مفید رہے گات۔واللہ اعلم بالصواب
ہم یہاں یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ایسی قراء ات کی تعداد بہت ہی کم ہے جو جمع عثمانی میں نہیں تھیں لیکن صحیح سند کے ساتھ مروی ہیں۔ آرتھر جیفری نے اپنی کتاب ‘Materials’ میں کتاب المصاحف کی بنیاد پر قراء ات کے جو بے شمار اختلافات نقل کیے ہیں ‘ ان میں سے اکثر و بیشتر روایات منقطع اور ضعیف ہیں۔ اور منقطع اور ضعیف روایت کی بنیاد پر کسی مصحف یا قراء ت کی نسبت کسی صحابی کی طرف کرنا ہمارے نزدیک کوئی علمی رویہ اور اسلوب نہیں ہے۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ صحابہ کی قراء ات اور مصاحف کے اختلافات کی صحیح روایات بھی موجود ہیں ہیں لہٰذا اگر کسی صحیح روایت سے کسی معروف قاری صحابی کے مجرد اختلاف قراء ت یا اختلاف مصحف کا علم حاصل ہوتا ہے تو اس روایت کو نقل کرنے میں میں ہم کوئی حرج محسوس نہیں کرتے لیکن بطور قرآن تلاوت نہیں کی جا سکتی۔
ذیل میں ہم مختلف صحابہ و تابعین کی طرف منسوب مصاحف و قراء ات کا تفصیلی جائزہ لے رہے ہیں۔
مصحف عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما (متوفی۳۲ھ)
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بعض صحیح روایات و آثار میں مصحف عبد اللہ بن مسعود کا تذکرہ ملتا ہے۔ لیکن کیا یہ ایک مکمل مصحف تھا یا قرآن کی چند سورتوں پر مشتمل تھا؟ اس کے بارے میں کوئی صراحت نہیں ملتی۔ بعض روایات سے یہ اشارہ ملتاہے کہ یہ ایک نامکمل مصحف تھا۔ ’کتاب المصاحف‘ کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
حدثنا عبد اﷲ قال: حدثنا عم قال: حدثنا ابن رجاء قال: أخبرنا اسرائیل عن أبي إسحاق عن خمیر بن مالک عن عبد اﷲ قال: ’’لما أمر بالمصاحف ساء ذلک عبد اﷲ بن مسعود۔‘‘ قال: ’’من استطاع منکم أن یغل مصحفاً فلیغلل فإنہ من غل شیئا جاء بما غل یوم القیامۃ۔‘‘ ثم قال عبد اﷲ: ’’لقد قرأت القرآن من في رسول اﷲ ﷺ سبعین سورۃ وزید بن ثابت صبي أفأترک ما أخذت من في رسول اﷲ ﷺ‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب کراھیۃ عبد اﷲ بن مسعود ذلک)
اس روایت سے تین باتوں کا علم حاصل ہوتا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود جمع عثمان پر راضی نہ تھے ۔ دوسری بات یہ کہ انہوں نے اپنا مصحف چھپا لیا تھا اور لوگوں کو اپنے مصاحف چھپانے کا حکم بھی جاری کیا تھا۔ تیسری بات ان کا یہ اقرار ہے کہ انہوں نے ستر سورتیں اللہ کے رسولﷺسے براہ راست حاصل کی ہیں۔ ڈاکٹر محب الدین واعظ کے بیان کے مطابق اس روایت کی سند میں خمیر بن مالک راوی کے بارے میں کوئی جرح و تعدیل موجود نہیں ہے لیکن اس روایت میں بیان شدہ پہلی اور تیسری بات کی تصدیق کئی ایک دوسری روایات اور آثار سے بھی ہوتی ہے جو کتاب المصاحف اور بعض تفاسیر میں موجود ہیں۔لہذا من جملہ روایت کے شواہد موجود ہیں اور ’حسن‘ درجے کی روایت ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہما ہی کے بارے میں یہ بھی مروی ہے کہ وہ بعد میں جمع عثمان پر راضی ہو گئے تھے ۔ ابن ابی داؤد نے ’کتاب المصاحف‘ میں ’باب رضا عبد اﷲ بن مسعود بجمع عثمان المصاحف‘ کے عنوان سے ایک باب بھی باندھا ہے اور اس کے تحت ایک روایت بھی نقل کی ہے۔ اس روایت کے مطابق جمع عثمان کے وقت بعض لوگ حضرت ابن مسعود کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے:
’’إنا لم نأتک زائرین‘ و لکنا جئنا حین راعنا ھذا الخبر‘ فقال: إن القرآن أنزل علی نبیکم من سبعۃ أبواب علی سبعۃ أحرف أو حروف‘ و إن الکتاب قبلکم کان ینزل أو نزل من باب واحد علی حرف واحد معناھما واحد۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب رضا عبداﷲ بن مسعود بجمع عثمان المصاحف)
اس وقت ہمارے پاس حضرت عبد اللہ بن مسعود کا مصحف کہیں موجود نہیں ہے لہٰذا بغیر کسی سند کے یہ کہنا کہ ان کے مصحف میں فلاں آیت یوں تھی یا ایسے لکھی ہوئی تھی ایک غیر مستند دلیل ہے۔ ہاں بعض اسناد سے ان سے چند ایک ایسی قراء ات ضرور مروی ہیں جو رسم عثمانی کے خلاف ہیں۔روایت حفص عن عاصم در حقیقت حضرت عبد اللہ بن مسعود ہی سے ثابت ہے اور اس کی اسناد قراء کے ہاں معروف و متواتر ہیں۔ پس تواتر سے یہ بات ثابت ہے کہ ابن مسعود کی قراء ت وہی تھی جسے آج امت روایت ِ حفص کے نام سے پڑھ رہی ہے۔ لہٰذا ابن مسعود سے سینہ بسینہ مروی اس متواتر روایت کے بالمقابل ان سے مروی ان قراء ات کی حقیقت کیا رہ جاتی ہے جن میں اکثر کی اسناد منقطع ہیں اور وہ اخبار آحاد کی قبیل سے ہیں۔
ابن ابی داؤد نے اپنی کتاب میں مصحف عبد اللہ بن مسعود کے تحت ۲۰ روایات کا تذکرہ کیا ہے ۔ ان روایات میں ابن مسعود کی مختلف قراء ات کا تذکرہ ہے۔ کسی ایک روایت میں بھی یہ موجود نہیں ہے کہ مصحف ابن مسعود میں یوں لکھا تھا۔ اکثر روایات میں پڑھنے کے الفاظ ہیں اور بعض روایات میں تو صیغہ’عن‘ کے ذریعے ابن مسعود سے کچھ الفاظ نقل کر دیے گئے ہیں جن سے کچھ معلوم نہیں ہوتاکہ یہ ان کی قرا ء ت تھی یا تفسیریا راوی نے ان ہی سے یہ الفاظ سنے ہیں یا کسی اور سے نقل کیے ہیں۔ جن روایات میں ’قرأ ‘یا ’یقرأ ‘کے الفا ظ ہیں ان میں بھی یہ وضاحت موجود نہیں ہے کہ ان الفاظ کو بطور تلاوت پڑھا ہے یا اپنے شاگردوں کو منسوخ الفاظ کی تعلیم دینا مقصود تھاجیسا کہ فی زمانہ شیوخ اپنے شاگردوں کو قراء ات شاذۃ سے آگاہی کے لیے ان کی تعلیم دیتے ہیں۔
کتاب المصاحف میں مصحف عبد اللہ بن مسعود کے ذیل میں سب سے زیادہ قراء ات کے اختلافات بیان کیے گئے ہیں۔ اس عنوان کے تحت کل ۲۰ روایات بیان ہوئی ہیں۔ پہلی روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن مسعودنے سورہ نساء میں ’’إن اﷲ لا یظلم مثقال نملۃ‘‘ پڑھا ہے۔ ڈاکٹر محب الدین واعظ کے مطابق اس کی سند میں ایک راوی عطاء البزار ’مجہول ‘ہے۔دوسری توجیح یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے ’ذرۃ‘ کی تفسیر ’نملۃ‘ سے کی ہے۔ تیسری توجیح کے مطابق یہ ان مترادفات کے قبیل سے ہے جو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکے تھے۔
دوسری روایت کے مطابق ابن مسعودنے سورۃ آل عمران میں ’’وارکعي واسجدي في الساجدین‘‘ پڑھا ہے۔ اس روایت کی سند میں یحییٰ بن کثیر اور جویبر ’ضعیف‘ راوی ہیں لہٰذا روایت قابل قبول نہیں ہے۔ تیسری روایت کے مطابق ابن مسعودنے سورۃ بقرہ میں ’في مواسم الحج‘ پڑھا ہے۔ اس روایت کی سند ’منقطع‘ہے کیونکہ اس کے راوی عطاءکی حضرت عبد اللہ بن مسعود سے ملاقات ثابت نہیں ہے لہذا روایت قابل قبول نہیں ۔ چوتھی روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن مسعود کی قراء ت میں ’بل یداہ بسطان‘ تھا۔ اس روایت کی سند بھی ’منقطع‘ ہے۔ حکم بن عتیبۃکی حضرت عبد اللہ بن مسعود سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔پانچویں روایت کے مطابق ابن مسعود نے سورہ بقرہ میں ’’وتزودوا وخیر الزاد التقوی‘‘ پڑھا ہے۔ اس روایت کی سند بھی’منقطع ‘ہے کیونکہ سفیان کی حضرت عبد اللہ بن مسعود سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ چھٹی روایت کے مطابق سورۃ بقرۃ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کی قراء ت میں ’’من بقلھا و قثائھا وثومھا وعدسھا وبصلھا‘‘ تھا۔اس روایت کی سند بھی ’منقطع‘ ہے کیونکہ ہارون کی ابن مسعود سے ملاقات ثابت نہیں۔ ساتویں روایت کے مطابق ابن مسعود نے سورہ بقرہ میں ’’فی مواسم الحج فابتغوا حینئذ‘‘ پڑھا ہے۔ اس روایت کی سند بھی’منقطع‘ ہے کیونکہ عطاء کی ابن مسعود سے ملاقات ثابت نہیں۔ آٹھویں روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں: سورہ بقرہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کی قراء ت ’’من بقلھا وقثائھا و فومھا و عدسھا و بصلھا‘‘ تھی ۔ اس روایت کی سند بھی ’منقطع ‘ہے ۔ ابراہیم تیمی نے حضرت عبد اللہ بن عباس سے کچھ نہیں سنا۔ نویں روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن مسعود سورۃ عصر کو ’’والعصر إن الإنسان لفي خسر وإنہ فیہ إلی آخر الدھر إلا الذین آمنوا وعملوا الصالحات وتواصوا بالصبر‘‘ پڑھا ہے۔ اس روایت کی سند بھی ’منقطع ‘ہے۔ میمون بن مھران کی ابن مسعودسے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ دسویں روایت کے مطابق ابن مسعود سورۃ بقرۃ میں ’’أولئک لھم نصیب ما اکتسبوا‘‘ پڑھتے تھے۔ اس روایت کی سند بھی ’منقطع‘ ہے۔ سفیان اصحاب عبد اللہ سے یہ روایت نقل کرتے ہیں اور کوئی نام صراحت سے بیان نہیں کرتے او ر اصحاب عبد اللہ کی بھی عبد اللہ بن مسعود کی طرف اس قراء ت کی نسبت موجود نہیں ہے۔ گیارہویں روایت کے مطابق منصور السلمی سورۃ بقرۃ میں ’ولکل جعلنا قبلۃ یرضونھا‘ پڑھتے تھے۔ اس روایت میں ابن مسعود کا تذکرہ موجود نہیں ہے لہٰذا سند’ منقطع‘ ہے۔ بارہویں روایت کے مطابق ابراہیم نخعی نے کہا ہے کہ’انہوں‘ نے سورۃ بقرۃ میں ’’وأقیموا الحج و العمرۃ للبیت‘‘ پڑھا۔ روایت کی سند’ منقطع‘ ہے کیونکہ ابراہیم نخعی نے یہ وضاحت نہیں کی کہ کس نے ایسے پڑھا ہے۔ تیرہویں روایت کے مطابق ابن مسعود کی قراء ت میں ’’وأقیموا الحج والعمرۃ للبیت‘‘ تھا۔اس روایت کی سند میں ’ثویر‘ نامی راوی ’ضعیف‘ ہے لہٰذا سند کمزور ہے۔ چودہویں روایت کے مطابق ابن مسعود نے سورۃ بقرۃ میں ’’وحیث ما کنتم فولوا وجوھکم قبلہ‘‘ پڑھا ہے۔ روایت کی سند ’منقطع‘ ہے کیونکہ ابو رزین نے اس کی صراحت نہیں کی کہ انہوں نے یہ قراء ت ابن مسعود سے سنی ہے۔ پندرہویں روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن مسعود کی قراء ت میں ’’ولا تخافت بصوتک ولا تعال بہ‘‘ تھا۔ اس روایت کی سند بھی ’منقطع‘ ہے کیونکہ ابو رزین نے ابن مسعود سے سماعت کی صراحت نہیں کی۔ سولہویں روایت میں بھی سابقہ قراء ت ہی بیان ہوئی ہے۔ اس روایت کی سند بھی ’منقطع‘ ہے۔ابو عبیدہ بن معن اور ابومحمد بن طلحہ کی طرف سے ابن مسعود سے یہ قرء ات سننے کا تذکرہ نہیں ہے۔ سترہویں روایت کے مطابق سورۃ ھود میں ابن مسعود نے ’’کذلک أخد ربک إذا أخذ القری‘‘ بغیر واو پڑھا ہے۔ روایت کی سند ’منقطع ‘ہے۔ سفیان نے ابن مسعود سے قراء ت سننے کی صراحت نہیں کی۔ انیسویں روایت کے مطابق’ ان ‘کی قراء ت سورۃ بقرۃ میں ’’فزلزلوا یقول حقیقۃ الرسول و الذین آمنوا‘‘ تھی۔ روایت کی سند ’منقطع ‘ہے کیونکہ ادریس کوفی نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ کن کی قراء ت تھی۔بیسیویں روایت کے مطابق قرآن کی ۴۸ سورتوں میں اعمش نے اپنے اور ابن مسعود کے اختلافات قراء ات نقل کیے ہیں ۔ طوالت کے خوف سے ہم ان اختلافات کو نقل نہیں کر رہے۔ اس روایت کی سند ’منقطع ‘ہے کیونکہ اعمش نے ابن مسعود سے سماعت کی صراحت نہیں کی۔اکیسویں روایت کے مطابق سورۃ مائدۃ میں ابن مسعود کی قراء ت میں ’’إنما ولیکم اﷲ و رسولہ والذین آمنوا والذین یقیمون الصلوۃ‘‘ تھی۔ اس روایت کی سندبھی ’منقطع‘ ہے ۔جریر بن عبد الحمید کی ابن مسعود سے ملاقات ثابت نہیں۔
آرتھر جیفری نے اپنی کتاب ‘Materials’ میں ’الفہرست لابن ندیم‘ اور ’ الاتقان للسیوطی‘ سے حضرت عبد اللہ بن مسعود کے مصحف میں موجود سورتوں کی ایک نامکمل فہرست بھی پیش کی ہے۔ان دونوں فہرستوں میں سورتوں کی ترتیب مصحف عثمانی کی ترتیب سے مختلف ہے لیکن ان دونوں فہرستوں کی اپنی ترتیب میں بھی اختلاف ہے ۔ لہٰذا ابن مسعود کے مصحف میں سورتوں کی ترتیب والی روایت مضطرب ہوئی اور ناقابل قبول ہے۔ ابن ندیم (متوفی ۴۳۸ھ) کی پیش کردہ فہرست کے مطابق ابن مسعود کے مصحف میں مصحف عثمانی کے بالمقابل ۹ سورتیں غائب ہیں۔ ابن ندیم نے فضل بن شاذان (متوفی ۲۶۰ھ) کے حوالے سے مصحف ابن مسعود کی درج ذیل فہرست پیش کی ہے۔
قال الفضل بن شاذان: وجدت في مصحف عبد اﷲ بن مسعود تألیف سور القرآن علی ھذا الترتیب البقرۃ، النسائ، آل عمران، المص، الأنعام، المائدۃ، یونس، برائۃ، النحل، ھود، یوسف، بني إسرائیل، الأنبیائ، المؤمنون، الشعرائ، الصافات، الأحزاب، القصص، النور، الأنفال، مریم، العنکبوت، الروم، یس، الفرقان، الحج، الرعد، سبأ، الملیکۃ، إبراہیم، ص، الذي کفروا، القمر، الزمر، الحوامیم المسبحات، حم المؤمن، حم الزخرف، السجدۃ، الأحقاف الجاثیۃ، الدخان، إنا فتحنا، الحدید، سبح، الحشر، تنزیل السجدۃ، ق، الطلاق، الحجرات، تبارک الذی بیدہ الملک، التغابن، المنافقون، الجمعۃ، الحواریون، قل أوحي، إنا أرسلنا نوحا، المجادلۃ، الممتحنۃ، یا أیھا النبي، لم تحرم، الرحمن، النجم، الذاریات، الطور، اقتربت الساعۃ، الحاقۃ، إذا وقعت، ن، والقلم، النازعات، سأل سائل، المدثر، المزمل، المطففین، عبس، ھل أتی علی الإنسان، القیامۃ، المرسلات، عم یتسائلون، إذا الشمس کورت، إذا السماء انفطرت، ھل أتاک حدیث الغاشیۃ، سبح اسم ربک الأعلی، واللیل إذایغشی، الفجر، البروج، انشقت، اقرأ باسم ربک، لا أقسم بھذا البلد، والضحی، ألم نشرح لک، والسماء والطارق، والعادیات، أرأیت، القارعۃ، لم یکن الذین کفروا من أھل الکتاب، الشمس وضحاھا، والتین، ویل لکل ھمزۃ، الفیل، لإیلاف قریش، التکاثر، إنا أنزلناہ، والعصر إن الإنسان لفی خسر، إذا جاء نصر اﷲ، إنا أعطیناک الکوثر، قل یا أیھا الکفرون لا أعبد ما تعبدون، تبت یدا أبی لھب وتب ما أغنی عنہ ما لہ و ماکسب، قل ھو اﷲ أحد اﷲ الصمد، فذلک مائۃ وعشر سور۔ وفي روایۃ أخری: الطور قبل الذاریات۔ قال أبوشاذان قال ابن سیرین: وکان عبد اﷲ بن مسعود لا یکتب المعوذتین في مصحفہ و لا فاتحۃ الکتاب۔ وروی الفضل بإسنادہ عن الأعمش، قال فی قولہ: قرائۃ عبداﷲ حم سق۔‘‘ (الفہرست لابن ندیم‘ باب ترتیب القرآن في مصحف عبداﷲ بن مسعود : ۳۹)
فضل بن شاذان ایک شیعہ امامیہ فقیہ اور متکلم ہیں جن کی وفات ۲۶۰ھ میں ہوئی۔ ان کی اس روایت پر آرتھر جیفری کے انتقاد اعلیٰ کے اصولوں کی تطبیق کی جائے تو یہ روایت’ ضعیف ‘ثابت ہوتی ہے۔ اس روایت کا متن ہی اس کی کمزوری کی علامت ہے۔ اس روایت کے آخر میں یہ بیان ہے کہ یہ کل ۱۱۰ سورتیں ہیں حالانکہ یہ کل ملا کر ۱۰۵ سورتیں ہوئیں اور اس فہرست میں ۹ سورتیں یعنی سورۃ فاتحہ‘سورۃ الحجر‘سورۃ الکھف‘ سورۃ طہ‘ سورۃ نمل‘ سورۃ شوری‘ سورۃ زلزال‘سورۃ الفلق‘ سورۃ الناس غائب ہیں۔خود اس روایت کا متن اس کی تصدیق سے انکاری ہے۔
علاوہ ازیں فضل بن شاذانکی سن وفات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے تیسری صدی ہجری میں ابن مسعود کا کوئی مصحف دیکھا۔ اب اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ تیسری صدی ہجری میں وہ جو مصحف دیکھ رہے ہیں وہ واقعتاً ابن مسعود کا ہے بھی کہ نہیں؟
ابن ندیم (متوفی۴۳۸ھ) کہتے ہیں کہ میں نے اپنے زمانے یعنی چوتھی ‘ پانچویں صدی ہجری میں کئی ایک ایسے مصاحف دیکھے ہیں جن کے بارے میں لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ابن مسعود کا مصحف ہے لیکن ان میں سے دو مصحف بھی آپس میں نہیں ملتے۔ ابن ندیم کا کہنا یہ بھی ہے کہ میں نے دو سوسال پرانایعنی تیسری صدی ہجری کا ایک مصحف دیکھا ہے جس کی نسبت ابن مسعود کی طرف کی جاتی ہے اور اس میں سورۃ فاتحہ بھی موجود ہے۔ ابن ندیم کی عبارت یہ ہے:
’’قال محمد بن إسحاق رأیت عدۃ مصاحف ذکر نساخھا أنھا مصحف بن مسعود لیس فیھا مصحفین متفقین و أکثرھا في رق کثیر النسخ وقد رأیت مصحفا قد کتب منذ مائتي سنۃ فیہ فاتحہ الکتاب۔‘‘ (أیضاً)
اما م سیوطی (متوفی ۹۱۱ھ) نے ’الاتقان‘ میں مصحف عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما میں سورتوں کی ترتیب کی جو فہرست بیان کی ہے وہ درج ذیل ہے:
قال ابن أشتۃ أیضاً: وأخبرنا أبو الحسن بن نافع أن أبا جعفر محمد بن عمرو بن موسی حدثھم قال: حدثنا محمد بن إسماعیل بن سالم حدثنا علي بن مھران الطائی حدثنا جریر ابن عبد الحمید قال: ’’تألیف مصحف عبد اﷲ بن مسعود: الطوال البقرۃ والنساء وآل عمران والأعراف والأنعام والمائدۃ و یونس۔ والمئین: برائۃ والنحل وھود ویوسف والکھف وبني إسرائیل و الأنبیاء وطہ والمؤمنون والشعراء والصافات۔ والمثاني: الأحزاب والحج والقصص وطس والنمل والنور والأنفال ومریم والعنکبوت والروم ویٰس والفرقان والحجر والرعد والسبأ والملائکۃ وإبراہیم وص والذین کفروا ولقمان والزمر والحوامیم حم المؤمن والزخرف والسجدۃ وحمعسق والأحقاف والجاثیۃ والدخان وإنا فتحنا لک والحشر وتنزیل السجدۃ و الطلاق ون والقلم والحجرات وتبارک والتغابن وإذا جائک المنافقون والجمعۃ والصف وقل أوحی وإنا أرسلنا والمجادلۃ والممتحنۃ ویا أیھا النبي لم تحرم والمفصل: الرحمن والنجم والطور والذاریات واقتربت الساعۃ والواقعۃ والنازعات وسأل سائل والمدثر والمزمل والمطففین وعبس وھل أتی والمرسلات والقیامۃ وعم یتسائلون وإذا الشمس کورت وإذا السماء انفطرت والغاشیۃ وسبح واللیل والفجر والبروج وإذا السماء انشقت واقرأ باسم ربک والبلد والضحی والطارق والعادیات وأرأیت والقارعۃ ولم یکن والشمس وضحاھا والتین وویل لکل ھمزۃ وألم تر کیف ولإیلاف قریش وألھاکم وإنا أنزلناہ وإذا زلزلت والعصر وإذا جاء نصر اﷲ والکوثر وقل یاأیھا الکفرون وتبت وقل ھو اﷲ أحد وألم نشرح ولیس فیہ الحمد ولا المعوذتان۔‘‘ (الإتقان في علوم القرآن‘ النوع الثامن عشر في جمعہ و ترتیبہ: ص۲۲۴)
اس روایت کے مطابق مصحف ابن مسعود میں سورۃفاتحہ نہ تھی جبکہ ابن ندیم نے جو مصحف دیکھا اس میں سورۃ فاتحہ بھی موجود تھی۔ اس بحث کا خلاصہ کلام وہی ہے جو ابن ندیم نے نکالا ہے کہ ابن مسعود کے مصحف کے بارے میں مروی روایات میں سے کوئی دو روایات یا ان کی طرف منسوب مصاحف میں سے کوئی دو مصحف بھی آپس میں متفق نہیں ہیں۔پس ابن مسعود کی طرف ان مصاحف یا روایات کی نسبت میں اضطراب ہے اور مضطرب روایت محدثین کے ہاں ’ضعیف ‘ہی کی ایک قسم ہے۔ پس ہم یہی ماننے پر مجبور ہیں کہ مصحف عبد اللہ بن مسعود میں وہی قراء ات موجود تھیں جو ان سے سینہ بسینہ صحیح و متواتر سند کے ساتھ آج تک قراء نقل کرتے چلے آ رہے ہیں اور روایت حفص بھی انہی میں سے ایک ہے۔ ان میں سے چند ایک اسناد ماہنامہ رشدجون۲۰۰۹ء ‘ ص ۱۹۵ پرملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
مصحف اُبی بن کعب (متوفی ۱۶ھ یا۲۲ھ یا ۳۰ھ)
مصحف ابی بن کعب کے وجود کے بارے میں بھی روایات و آثار ملتے ہیں۔ لیکن روایات سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ ان کا یہ مصحف حضرت عثماننے ضبط کر لیا تھا ۔ جمع عثمانی سے قبل حضرت ابی بن کعب کا مصحف کیسا تھا یا کن سورتوں پر مشتمل تھا یا اس کا رسم الخط کیا تھا‘ اس بارے ہمیں کوئی مستند روایات نہیں ملتی۔ جوروایات ان کے مصحف کے احوال کے بارے مروی ہیں وہ باہم متضاد ہیں لہٰذا انتقاد اعلی کے اصول اور مضطرب المتن ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول اور ضعیف ہیں۔
ابن ندیم نے اپنی کتاب ’الفہرست‘ میں حضرت ابی بن کعب کے مصحف میں موجود سورتوں کی ترتیب مصحف عثمانی کے برعکس بیان کی ہے۔ اس روایت کے مطابق فضل بن شاذان(متوفی ۲۶۰ھ) کسی مبہم ثقہ صاحب سے مصحف ابی کی سورتوں کی ترتیب نقل کرتے ہیں۔ اس ترتیب کے مطابق ان کے مصحف میں مصحف عثمانی کے بالمقابل ۱۰ سورتیں یعنی سورۃ العنکبوت‘ سورۃ لقمان‘ سورۃ الدخان‘ سورۃ الذاریات‘سورۃ التحریم‘سورۃ مزمل‘ سورۃ مدثر‘ سورۃ البلد اور سورۃ العصر غائب ہیں۔ علاوہ ازیں دو سو رتوں سورۃ الخلع اور سورۃ الجید کا اضافہ بھی ہے۔ اس روایت میں کل ۱۰۶ سورتوں کا بیان ہے حالانکہ روایت کے آخر میں لکھا ہے کہ یہ کل ۱۱۶ سورتیں ہوئیں یعنی مصحف ابن مسعود والی روایت کی مانند یہ روایت بھی اپنی تکذیب خود ہی کر رہی ہے۔ (الفہرست‘ باب ترتیب القرآن في مصحف أبي بن کعب : ص ۴۰)
امام سیوطی نے ’الإتقان‘میں مصحف ابی بن کعب کی سورتوں کی جو ترتیب بیان کی ہے وہ ابن ندیم کی ترتیب سے مختلف ہے۔امام سیوطینے یہ روایت ابن اشتہ(متوفی۴۹۱ھ) سے نقل کی ہے جو انہوں نے اپنی کتاب ’کتاب المصاحف‘ میں بیان کی ہے۔ابن اشتہ کی یہ کتاب اس وقت مفقود ہے لہٰذا اس خبر کی بنیادہمارے پاس ’الاتقان‘ہی ہے۔ابن اشتہنے یہ روایت محمد بن یعقوب‘ انہوں نے ابوداؤد سے اور انہوں نے ابوجعفر الکوفی سے نقل کی ہے۔ ابو جعفر الکوفی کی وفات ۲۴۸ھ میں ہوئی۔ابن اشتہ کی بیان کردہ اس فہرست میں مصحف عثمانی کے بالمقابل ۱۰۶ سورتوں کا بیان ہے اور ۸ سورتیں یعنی سورۃ الفرقان‘ سورۃ فاطر‘ سورۃ زخرف‘ سورۃ قمر‘ سورۃ مجادلہ‘ سورۃ انسان‘ سورۃ بروج وغیرہ غائب ہیں علاوہ ازیں دو سورتوں سورۃ الخلع اور سورۃ الحفد کا اضافہ بھی ہے۔(الإتقان‘ باب النوع الثامن عشر من جمعہ و ترتیبہ: ص ۲۲۳) یہ دونوں روایات مضطرب ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہیں۔
علاوہ اَزیں کتاب المصاحف ہی کی ایک روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عثمان نے ابی بن کعب کا مصحف اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ حضرت ابی بن کعب کے بیٹے کے پاس بھی یہ مصحف موجود نہ تھاچہ جائیکہ کوئی سینکڑوں سال بعد اپنے پاس مصحف ابی کے ہونے کا دعویٰ کرے۔ ابن ابی داؤدش کی روایت کے الفاظ ہیں:
’’حدثنا عبد اﷲ قال حدثنا أبو الربیع قال أخبرنا ابن وھب أخبرني عمرو قال: قال بکیر حدثني بسر بن سعید عن محمد بن أبي أن أناسا من أھل العراق قدموا إلیہ فقالوا: إنما تحملنا إلیک من العراق‘ فأخرج لنا مصحف أبي قال محمد: قد قبضہ عثمان۔ قالوا: سبحان اﷲ! أخرجہ لنا۔ قال: قد قبضہ عثمان۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب جمع عثمان المصاحف)
ابن ابی داؤدنے مصحف ابی بن کعب کے تحت چار روایات کا تذکرہ ہے۔ جن میں چار مقامات قرآنیہ میں حضرت ابی بن کعب کے اختلاف قراء ت کا ذکر ہے۔دوسری اور تیسری روایت میں ان کے ذاتی مصحف کا بھی بیان ہے۔ اس مصحف کو حضرت عثمان نے بعد میں ضبط کر لیا تھا۔پہلی روایت کے مطابق حضرت ابی بن کعب نے سورہ نساء میں ’فما استمتعتم بہ منھن إلی أجل مسمی‘ پڑھا ہے۔ دوسری روایت کے مطابق سورۃبقرۃ میں ان کے مصحف میں ’للذین یقسمون من نسائھم‘ کے الفاظ درج تھے۔تیسری روایت کے مطابق سورۃ بقرۃ ہی میں ان کے مصحف میں ’فلا جناح علیہ أن یطوف بھما‘ لکھا ہوا تھا۔ چوتھی روایت کے مطابق وہ سورہ بقرۃ میں ’فصیام ثلاثۃ أیام متتابعات‘ پڑھتے تھے۔ پہلی تین روایات کی سند ’منقطع‘ ہے۔ آخری روایت کی سند ’صحیح ‘ہے لیکن حضرت عثمان نے سرکاری مصحف جاری کرنے کے بعدیہ مصحف اپنے قبضے میں لے لیا تھا لہٰذا قرآن کی تلاوت میں یہ روایت دلیل نہیں بنتی۔ ہمارے خیال میں یہ در اصل تفسیری نکتہ تھا جو بطورقراء ت نقل ہو گیا۔
علاوہ ازیں روایت حفص عن عاصم کی صحیح و متواترسند حضرت علی بن ابی طالب تک بھی جاتی ہے۔ لہٰذا اس متواتر سند کی موجودگی میں ان کی ایسی قراء ات کی کیسے تصدیق کی جاسکتی ہے جو ’ضعیف ‘اور اخبار آحاد کی قبیل سے ہیں۔یہ سند ماہنامہ رشدجون۲۰۰۹ء ‘ ص ۱۹۵ پرملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
مصحف علی بن اَبی طالب(متوفی ۴۰ھ)
کتاب المصاحف میں ابن ابی داؤد نے ’جمع علی بن ابی طالب ‘ کے نام سے ایک عنوان باندھا ہے اور اس کے تحت ایک روایت نقل کی ہے۔ اس روایت کے مطابق اللہ کی رسولﷺکی وفات کے بعد حضرت علی نے یہ قسم کھا لی تھی کہ اس وقت تک اپنی چادر نہ اوڑھیں گے جب تک قرآن جمع نہ کر لیں۔ قرآن جمع کرنے سے ان کی مراد کیا تھی؟ اس بارے میں جمہور اہل سنت علما ء کا کہنا ہے کہ اس سے ان کی مراد قرآن کو یاد کرنا تھا۔ روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:
’’حدثنا عبد اﷲ قال حدثنا محمد بن إسماعیل الأحمسي قال حدثنا ابن فضیل عن أشعث عن محمد بن سیرین قال: لما توفي النبي ﷺ أقسم علی أن لا یرتدي برداء إلا لجمعۃ حتی یجمع القرآن في مصحف ففعل، فأرسل إلیہ أبوبکر بعد أیام أکرھت أمارتي یا أبا الحسن؟ قال: لا واﷲ! إلا أني أقسمت أن لا أرتدي برداء إلا لجمعۃ، فبایعہ ثم رجع۔ (قال أبوبکر: لم یذکر المصحف أحد إلا أشعث وھو لین الحدیث و إنما رووا حتی أجمع القرآن یعني: أتم حفظہ فإنہ یقال للذي یحفظ القرآن قد جمع القرآن)۔‘‘(کتاب المصاحف‘ باب جمع علي بن أبي طالب)
اس روایت کی سند میں اشعث راوی ’ضعیف‘ ہے ۔ علاوہ ازیں اس کی سند ’معضل‘ بھی ہے یعنی اس میں ابن سیرین کے بعد دوراوی غائب ہیں۔ امام بن حجر نے بھی ’فتح الباری‘ میں اس جمع سے مراد حفظ ہی لیا ہے ۔ امام ابن حجر کا کہنا یہ بھی ہے کہ جن روایات میں’بین اللوحین‘ جمع کرنے کا تذکرہ ہے وہ راوی کا وہم ہے۔ ابن حجر نے بھی ابن سیرین کی روایت کو’ ضعیف ‘کہا ہے۔ (فتح الباري: ۹؍۱۳)
بفرض محال حضرت علینے اپنا کوئی مصحف ترتیب دیا بھی تھا تو جمع عثمانی پر ان کی رضا سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے یہ مصحف حضرت عثمان کے حوالے کر دیا تھا۔ابن ابی داؤد کی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
حدثنا عبد اﷲ قال حدثنا سھل بن صالح قال حدثنا أبو داؤد و یعقوب قالا: أخبرنا شعبۃ عن علقمۃ بن مرثد عن سوید بن غفلۃ قال: قال علي في المصاحف: ’’لو لم یصنعہ عثمان لصنعتہ۔‘‘ قال أبو داؤد: عن رجل عن سوید۔ (کتاب المصاحف ‘ باب اتفاق الناس مع عثمان علی جمع المصاحف)
اس روایت میں ایک راوی’مبہم‘ ہے لہٰذا سند ضعیف ہے لیکن اس کی تائید بعض دوسری روایات سے بھی ہوتی ہے۔ اگر تو حضرت علی کا واقعتا کوئی علیحدہ سے مصحف تھا تو آج اہل تشیع کے پاس وہ مصحف موجود ہوتا لیکن وہ بھی اہل سنت کی طرح مصحف عثمانی ہی کی تلاوت کرتے ہیں اور اسی کو مصحف سمجھتے ہیں۔
یہ بات بہرحال کثرت طرق سے مروی ہے کہ حضرت علی نے جمع عثمانی ہی کو ترتیب نزولی کے اعتبار سے جمع کیا تھا لیکن ان کی یہ جمع اس وقت کہاں ہے؟ اس کے بارے کچھ علم نہیں ہے۔ امام سیوطی نے ’الاتقان‘ میں اس جمع کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (الإتقان‘ باب النوع الثامن عشرمن جمعہ و ترتیبہ)
ابن ابی داؤد نے مصحف علی بن ابی طالب کے عنوان کے ذیل میں صرف ایک ہی روایت نقل کی گئی ہے جس کے مطابق حضرت علیt نے سورۃ بقرہ میں ’’آمن الرسول بما أنزل إلیہ و آمن المؤمنون‘‘ پڑھا ہے۔اس روایت کی سند میں بعض راوی ’ضعیف‘ ہیں۔ لہٰذا یہ روایت ناقابل قبول ہے۔ اس روایت کو امام سیوطیؒ نے ’الدر المنثور‘ میں مصنف کی سند سے یوں نقل کیا ہے: ’’آمن الرسول بما أنزل إلیہ من ربہ وآمن المؤمنون‘‘ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب المصاحف کے ناسخین سے ’من ربہ‘ کے الفاظ لکھنے میں رہ گئے تھے۔ اس روایت میں حضرت علی کے کسی ذاتی مصحف کا تذکرہ نہیں ہے۔
روایت حفص عن عاصم کی صحیح و متواترسند حضرت علی بن ابی طالب تک بھی جاتی ہے۔ لہٰذا اس متواتر سند کی موجودگی میں ان کی ایسی قراء ات کی کیسے تصدیق کی جاسکتی ہے جو ’ضعیف ‘اور اخبار آحاد کی قبیل سے ہیں۔یہ سند ماہنامہ رشدجون۲۰۰۹ء ‘ ص ۱۹۵ پرملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
مصحف عبد اللہ بن عباس(متوفی۶۸ھ)
آرتھر جیفری کے بیان کے مطابق مؤرخ ’زنجانی ‘نے’ابو الفتح شہرستانی‘ کی تفسیر کے مقدمے سے حضرت عبد اللہ بن عباس کے مصحف میں موجود سورتوں کی ترتیب نقل کی ہے جو مصحف عثمانی کی ترتیب کے خلاف ہے۔ شہرستانی ؒکے بیان کے مطابق ابن عباس کے مصحف کی سورتوں کی ترتیب مصحف عثمانی کے بالمقابل درج ذیل تھی:
” 96, 68, 93, 73, 74, 1, 111, 81, 87, 92, 89, 94, 55, 103, 108, 102, 107, 105, 109, 112, 53, 80, 97, 91, 85, 95, 106, 101, 75, 104, 77, 50, 90, 86, 54, 38, 7, 72, 36, 25, 35, 19, 20, 26, 27, 28, 17, 10, 11, 12, 15, 6, 37, 31, 34, 39, 40, 41, 42, 43, 44, 45, 46, 51, 88, 18, 16, 71, 14, 21, 23, 13, 52, 67, 69, 70, 78, 79, 82, 84, 30, 29, 83, 2, 8, 3, 59, 33, 24, 60, 48, 4, 99, 22, 57, 47, 76, 65, 98, 62, 32, 63, 58, 49, 66, 64, 61, 5, 9, 110, 56, 100, 113, 114.” (Materials:Codex of Ibne Abbas)
ابو الفتح شہرستانی (متوفی ۵۴۸ھ) ایک شیعہ مفسر اور عالم دین ہیں۔ ان کی تفسیر کا نام ’مفاتیح الأسرار ومصابیح الأبرار‘ ہے۔ ہمارے علم کی حد تک یہ تفسیر تاحال غیر مطبوع ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس تفسیر کے مقدمے میں ابن عباس کی طرف اس مصحف کی نسبت کی سند دیکھنی چاہیے ۔ آرتھر جیفری نے اس روایت کی کوئی سند بیان نہیں کی اور نہ ہی اس کا تذکرہ کیا ہے۔ بغیر سند کے کوئی روایت کسی مفسر کے محض بیان کر دینے سے کیسے قبول کی جا سکتی ہے؟جبکہ معاملہ بھی قرآن کا ہو۔
اگر یہ ثابت ہو بھی جائے کہ ابن عباس کا کوئی مصحف اس ترتیب پر مبنی تھا تو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بعض سلف صالحین کے بارے میں یہ مروی ہے کہ انہوں نے جمع عثمانی کو ترتیب نزولی کے مطابق جمع کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس ترتیب کو دیکھ کر پہلی نظر میں ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ صاحب مصحف ترتیب نزولی کے مطابق قرآن کو جمع کرنا چاہتا ہے۔ آج بھی اگر کوئی شخص ذاتی طور پر ترتیب نزولی کے مطابق قرآن کو جمع کرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جبکہ وہ مصحف عثمانی کی ترتیب کے مطابق ہی مصحف کی تلاوت ا ور نشر و اشاعت کا قائل ہو۔
قرآن کی سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے یا اجتہادی۔ اس مسئلے میں سلف صالحین کا اختلاف ہے۔ جمہور کی رائے کے مطابق سورتوں کی ترتیب بھی توقیفی ہے اور اس کے دلائل بھی قوی ہیں۔آگے چل کر ہم اس مسئلے پر تفصیل سے بحث کریں گے۔
کتاب المصاحف میں مصحف عبد اللہ بن عباس کے تحت ۳۳ روایات نقل ہوئی ہیں۔ پہلی پانچ روایات کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عباس نے سورۃ بقرۃ میں ’فلا جناح علی ألا یطوف بھما‘ پڑھا ہے اور چھٹی روایت کے مطابق ’ألا یطوف فیھما‘ پڑھا ہے۔ ان روایات کے بعض طرق’ صحیح‘ ہیں۔لیکن یہ روایات اخبار آحاد ہیں اور رسم عثمانی کے خلاف ہیں لہٰذا ناقابل قبول ہیں۔رسم عثمانی میں’لا‘ موجود نہیں ہے لہٰذا بطور قرآن نہیں پڑھنا چاہیے البتہ اس بات کا احتمال ہے کہ یہ قر اء ت ان احرف میں سے ہو جو جمع عثمانی میں نقل ہونے سے رہ گئے ۔
اگلی چار روایات کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عباس نے سورہ بقرۃ میں ’لیس علیکم جناح أن تبتغوا فضلا من ربکم في مواسم الحج‘ پڑھا ہے۔ ان روایات کے بعض طرق ’صحیح‘ ہیں۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ یہ ابن عباس کی تفسیر ہے نہ کہ قراء ت۔ امام ابن حجر نے فتح الباری میں یہی نقل کیا ہے۔ کتاب المصاحف کی بعض روایات سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ ابن عباس کا مقصود شان نزول کی طرف اشارہ کرنا تھا نہ کہ قراء ت کو بیان کرنا جیسا کہ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
قال ابن عباس: ’’نزلت ’’ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّکُمْ ‘‘ في مواسم الحج۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب مصحف عبد اﷲ بن عباس )
گیارہویں روایت کے مطابق ابن عباسنے سورۃ آل عمران میں ’إنما ذلکم الشیطان یخوفکم أولیائہ‘ پڑھا ہے۔ اس روایت کی سند ’ضعیف جدا‘ ہے۔ ایک راوی طلحہ الخضرمی’ متروک ‘ہے۔بارہویں روایت کے مطابق ابن عباس نے سورۃ بقرۃ میں ’أولئک لھم نصیب مما اکتسبوا‘ پڑھا ہے۔ اس کی سند ’صحیح‘ ہے لیکن یہ رسم عثمانی کے خلاف ہے لہٰذا ناقابل قبول ہے ۔
گیارہویں روایت کے مطابق ان سے سورۃ بقرۃ میں ’وأقیموا لحج و العمرۃ للبیت‘ منقول ہے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ بطور تفسیر منقول ہے یا بطور تعلیم یابطور تلاوت۔ روایت کے الفاظ ہیں:
عن سعید بن جبر عن ابن عباس ’’وأقیموا الحج والعمرۃ للبیت۔‘‘ (أیضاً)
ڈاکٹر محب الدین واعظ کے بیان کے مطابق اس روایت کی سند کا ایک راوی حسین بن معدان ’مجہول‘ ہے۔
بارہویں روایت کے مطابق ان سے سورۃ شوری میں ’و شاورھم في بعض الأمر ‘ منقول ہے۔ روایت کے الفاظ ہیں:
’’عن عمرو بن دینار عن ابن عباس ’’وشاورھم في بعض الأمر۔‘‘ (أیضاً)
اس روایت سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انہوں نے اس آیت کو بطور تلاوت نقل کیا یا پڑھا ہے۔ یہ ان کی تفسیر بھی ہو سکتی ہے اور اپنے شاگردوں کومنسوخ تلاوت کی آگاہی بھی۔ تیرہویں روایت بھی اسی معنی و مفہوم کی ہے۔ ان روایات کی سند’صحیح ‘ہے لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے غیر مقبول ہیں۔ مذکورہ بالا روایت کے الفاظ سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ ابن عباس کی تفسیر ہے جسے بعض حضرات نے غلطی سے بطو ر قراء ت نقل کر دیاہے۔
چودہویں روایت کے مطابق ابن عباس نے سورۃ حج میں ’و ما أرسلنا من قبلک من رسول ولا نبي محدث‘ پڑھا۔ اس روایت کی سند’ صحیح‘ ہے لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے غیر مقبول ہے۔روایت کے الفاظ ہیں:
عن عمرو قال: قرأ ابن عباس: ’’و ما أرسلنا من قبلک من رسول و لا نبي محدث۔‘‘ (أیضاً)
بظاہر یہ ابن عباس کی تفسیر معلوم ہوتی ہے جو غلطی سے بطور قراء ت نقل ہو گئی کیونکہ نسخہ شربیتی میں ’قرأ‘ کی بجائے’ قال‘ کے الفاظ منقول ہیں۔پندرہویں روایت کے مطابق ابن عباس نے سورۃ یس میں ’ یا حسرۃ العباد‘ پڑھا ہے۔ اس کی سند’ صحیح‘ ہے لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے غیر مقبول ہے۔ ان مترادفات کے قبیل سے معلوم ہوتی ہے جو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکے ہیں۔سولہویں روایت کے مطابق ابن عباسt سے سورۃ اعراف میں ’کأنک حفي بھا‘ منقول ہے۔ روایت کے الفاظ ہیں:
عن عمرو عن ابن عباس: ’’کأنک حفي بھا۔‘‘(أیضاً)
اس روایت میں ابن عباس کے بطور قراء ت پڑھنے کی صراحت نہیں ہے لہٰذا اسے ان کی تفسیرپر محمول کیا جا سکتا ہے یا یہ ان مترادفات کے قبیل میں سے ہے جو منسوخ ہو چکے ہیں۔ روایت کی سند’صحیح‘ ہے لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کہ وجہ سے بطور قراء ت غیر مقبول ہے۔ یہ بھی امکان ہے کہ ان احرف میں سے ہو جو جمع عثمانی میں نقل ہونے سے رہ گئے۔
سترہویں روایت کے مطابق ابن عباس سورۃ بقرۃ میں’ و إن عزموا السراح‘ پڑھا کرتے تھے۔ یہ ان مترادفات کے قبیل سے معلوم ہوتی ہے جو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکے ہیں۔ اس روایت کی سند ’صحیح‘ ہے لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے بطور قراء ت غیر مقبول ہے۔اٹھارہویں روایت کے مطابق ابن عباس سورۃ آل عمران میں ’و ما یعلم تأویلہ إلا اﷲ ویقول الراسخون آمنا بہ‘ پڑھا کرتے تھے۔ اس روایت کی سند’حسن‘ درجے کی ہے لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے غیر مقبول ہے۔ ابن عباس کی تفسیر معلوم ہوتی ہے۔
انیسویں اور اکیسویں روایت کے مطابق ابن عباس نے سورۃبقرۃمیں ’فإن آمنوا بالذی آمنتم بہ‘ پڑھنے کا حکم دیا۔ بیسیویں روایت میں ہے کہ انہوں نے اس آیت کو اسی طرح پڑھا۔ اکیسویں روایت کے الفاظ ہیں :
حدثنا عبد اﷲ نا نصر بن علی قال أخبرني أبي نا شعبۃ قال: قال لي الأعمش: ’’ما عندک في قولہ: ’’ فَإِنْ ئَامَنُوْا بِمِثْلِ مَآ ئَامَنْتُمْ بِہٖ ‘‘؟‘‘ فقلت لہ: حدثني أبوحمزۃ قال: قال ابن عباس: ’’لا تقل: فإن آمنوا بمثل ما آمنتم بہ، فإنہ لیس ﷲ مثل، ولکن قل: فإن آمنو بالذي آمنتم بہ فقد اھتدوا۔‘‘ (أیضاً)
اس روایت کی سند’ صحیح‘ ہے لیکن مصاحف عثمانیہ کے خلاف ہونے کہ وجہ سے غیر مقبول ہے۔ ابن ابی داؤد ‘ ابن عباس کی اس روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ھذا الحرف مکتوب في الإمام وفي مصاحف الأمصار کلھا ’’ بِمِثْلِ مَآ ئَامَنْتُمْ بِہٖ ‘‘ و ھي کلمۃ عربیۃ جائزۃ في لغۃ العرب کلھا، و لا یجوز أن یجتمع أھل الأمصار کلھا وأصحاب النبي ﷺ معھم علی الخطأ، و خاصۃ في کتاب اﷲ عزوجل و في سنن الصلاۃ۔‘‘ (أیضاً)
بائیسویں روایت کے مطابق ابن عباسنے سورۃ بقرۃ میں ’حافظوا علی الصلوات والصلوٰۃ الوسطی وصلاۃ العصر‘ پڑھا ہے۔ اس روایت کی سند’حسن‘ درجے کی ہے لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے بطور قراء ت غیر مقبو ل ہے۔بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ’الصلوۃ الوسطی‘ کی تفسیر ’صلاۃ العصر‘ سے کی تھی۔ (صحیح البخاري‘ کتاب التفسیر ‘ باب حافظوا علی الصلوات والصلوۃ الوسطی) محسوس یہی ہوتا ہے کہ اسے بعض صحابہ نے غلطی سے تلاوت سمجھ کر نقل کر دیا۔ بہر حال جمع عثمانی میں ان الفاظ کو مصحف میں نہیں رکھا گیا تھاجو ان کے غیر قرآن ہونے کا بین ثبوت ہے۔
تئیسویں روایت کے مطابق ابن عباسنے سورۃ نساء میں ’طیبات کانت أحلت لھم‘ پڑھا تھا۔ اس روایت کی سند ’صحیح ‘ ہے لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے بطور قراء ت غیر مقبو ل ہے۔روایت کے الفاظ سے بظاہر محسوس ہوتا ہے یہ ان کی تفسیر ہے یعنی قرآنی آیت کے معنی و مفہوم میں زمانے کا تعین کر رہے ہیں۔
اگلی چار روایات کے مطابق ابن عباسنے سورۃ نساء میں ’فما استمتعتم بہ منھن إلی أجل مسمی‘ پڑھا ہے۔ اس روایت کی سند’صحیح ‘ ہے لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے غیر مقبول ہے۔ ان مترادفات کے قبیل سے معلوم ہوتی ہے جو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکے ہیں اسی لیے حضرت عثمان نے اسے اپنے مصاحف میں نقل نہیں کروایا۔ ان احرف کے قبیل سے بھی ہو سکتی ہے جو جمع عثمانی میں نقل ہونے سے رہ گئے ہوں۔ابن عباس کی روایت کے الفاظ ہیں:
’’حدثنا عبداﷲ نا حماد بن الحسن نا الحجاج یعني ابن نصیر نا شعبۃ عن أبی سلمۃ عن أبي نضرۃ قال: قرأت علی ابن عباس: فما استمتعتم بہ منھن فقال ابن عباس: إلی أجل مسمی قال: قلت: ما ھکذا أقرؤھا۔ قال: واﷲ لقد نزلت معھا، قالھا ثلاث مرات۔‘‘ (أیضاً)
آخری روایت کے مطابق ابن عباسنے مغرب کی نماز میں ’إذا جاء فتح اﷲ و النصر‘ پڑھا۔اس روایت کی سند ’حسن‘ درجے کی ہے لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے بطور قرآن غیر مقبول ہے۔روایت کے الفاظ ہیں:
’’عن أبی نوفل بن أبی عقرب قال سمعت ابن عباس یقرأ فی المغرب: إذا جاء فتح اﷲ والنصر۔‘‘ (أیضاً)
ان احرف کے قبیل سے ہو سکتے ہیں جو جمع عثمانی میں نقل ہونے سے رہ گئے ہوں۔
مصحف ابو موسیٰ الاشعری(متوفی ۴۴ھ)
اس مصحف کا تذکرہ ابن ابی داؤدنے اپنی کتاب میں کسی عنوان کے تحت نہیں کیا ہے۔ بعض رویاات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو موسی اشعری کا بھی کوئی مصحف تھا۔ آرتھر جیفری نے اس مصحف کے وجود کے ثبوت کے طور پر ’کتاب المصاحف‘ کی تین روایات کو بنیاد بنایا ہے جو کہ درج ذیل ہیں:
پہلی روایت یزید بن معاویہ سے ہے لیکن اس میں صرف ابو موسی اشعری کی قراء ت کا تذکرہ ہے۔ ان کے کسی مصحف کا ذکر نہیں ہے۔ (کتاب المصاحف‘ باب اتفاق الناس مع عثمان علی جمع المصاحف)
دوسری روایت یہ ہے:
’’حدثنا عبد اﷲ قال حدثنا ابراہیم بن عبد اﷲ بن أبي شیبۃ قال حدثنا ابن أبی عبیدۃ قال حدثنا أبی عن الأعمش عن حبیب بن أبی ثابت عن أبی الشعثاء قال: کنت جالسا عند حذیفۃ وأبي موسی وعبد اﷲ بن مسعود فقال حذیفۃ: أھل البصرۃ یقرؤون قرائۃ أبي موسی‘ وأھل الکوفۃ یقرؤون قرائۃ عبد اﷲ‘ أما واﷲ أن لو قد أتیت أمیر المؤمنین لقد أمرتہ بغرق ھذا المصاحف‘ فقال عبد اﷲ: إذا تغرق في غیر ماء۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب کراھیۃ عبد اﷲ ابن مسعود ذلک)
اس روایت کا دارومدار حبیب بن ابی ثابت پر ہے اور وہ تیسرے درجے کا ’مدلس‘راوی ہے اور عنعنہ سے روایت کر رہا ہے لہٰذا روایت ’ضعیف‘ ہے۔ (کتاب المصاحف مع تحقیق الدکتور محب الدین واعظ: ص ۱۸۱)
اس روایت کے نفس مضمون کی تائید بہت سی دوسری صحیح روایات سے بھی ہوتی ہے۔ اس روایت کے بارے میں اپنا تبصرہ ہم پچھلے صفحات میں نقل کر چکے ہیں۔
تیسری روایت درج ذیل ہے:
حدثنا عبداﷲ قال حدثنا زیاد بن یحی أبو الخطاب الحسانی حدثنا کثیر یعني ابن ھشام حدثنا جعفر حدثنا عبدالأعلی بن الحکم الکلابي قال: ’’أتیت دار أبي موسی الأشعري فإذا حذیفۃ بن الیمان وعبد اﷲ بن مسعود وأبوموسی الأشعري فوق أجار لھم فقلت: ھؤلاء واﷲ الذین أرید فأخذت أرتقي إلیھم، فإذا غلام علی الدرجۃ فمنعني فنازعتہ، فالتفت إلي بعضھم۔ قال: خل عن الرجل، فأتیتھم حتی جلست إلیھم، فإذا عندھم مصحف أرسل بہ عثمان وأمرھم أن یقیموا مصاحفھم علیہ۔ فقال أبوموسی: ما وجدتم في مصحفي ھذا من زیادۃ فلا تنقصوھا وما وجدتم من نقصان فاکتبوہ۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب ما کتب عثمان من المصاحف)
اس روایت کی سند میں عبد الاعلی بن الحکم الکلابی کے بارے کوئی جرح و تعدیل مروی نہیں ہے لیکن نفس مضمون کی تائید میں کئی ایک اورروایات بھی موجو دہیں۔ حضرت ابو موسی اشعری کے بارے یہ معروف ہے کہ حضرت عمرنے انہیں اپنے زمانے میں بصرۃ کا امیر بنا کر بھیجا تھا۔ابراہیم نخعی کی روایت میں بھی جمع عثمان سے پہلے اہل بصرہ کے مصحف کا تذکرہ ہے اور اس روایت کی سند کو ابن حجر نے ’صحیح ‘کہا ہے۔ اس لیے حضرت ابو موسی اشعری کے لیے کسی مصحف کا وجود ماننے میں کوئی تأمل نہیں ہونا چاہیے لیکن ان کی طرف منسوب قراء ت کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ صحیح سند ہی سے مروی ہوں تو ان کی نسبت ان کی طرف کی جائے۔
مصحف اُم المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا (متوفی ۴۵ھ)
اس مصحف کے وجود کے ثبوت کے لیے بھی آرتھر جیفری کی بنیاد کتاب المصاحف ہے۔ ابن ابی داؤد نے ’کتاب المصاحف‘ میں مصحف حفصہ رضی اللہ عنہا کے تحت سات روایات بیان کی ہیں۔ ان میں سے بعض طرق’ صحیح‘ اور بعض ’ضعیف ‘ہیں۔ ان روایات کے مطابق حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے اپنے لیے ایک مصحف تیار کرواتے وقت کاتب کو یہ ہدایت جاری کی کہ وہ سورہ بقرہ میں ’حافظوا علی الصلوات و الصلوۃ الوسطی و صلاۃ العصر‘ لکھے۔ایک روایت کے الفاظ ہیں:
حدثنا عبد اﷲ حدثنا أبو الطاھر قال: أخبرنا ابن وھب قال: أخبرنی مالک عن زید بن أسلم عن عمرو بن رافع أنہ قال: ’’کنت أکتب مصحفاً لحفصۃ أم المؤمنین فقالت: إذا بلغت ھذا الآیۃ فآذني ’’ حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلـٰوۃِ الْوُسْطٰی ‘‘ قال: فلما بلغتھا آذنتھا۔ فأملت: حافظوا علی الصلوات و الصلاۃ الوسطی وصلاۃ العصر وقوموا ﷲ قانتین۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب مصحف حفصۃ زوج النبي ﷺ)
ہم اس کے بارے یہ واضح کر چکے ہیں کہ درحقیقت تفسیر رسولﷺتھی جو غلطی سے بطور قرا ء ت نقل ہو گئی۔ ایسی ہی روایات مصحف عائشہ رضی اللہ عنہا اور مصحف ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ذیل میں بھی ابن ابی داؤد لائے ہیں جس سے اس روایت کی حقیقت مزید مشتبہ ہوجاتی ہے یعنی ایک ہی واقعہ تین ازواج کی طرف منسوب کیا گیا جس سے محسوس ہوتا ہے کہ اس روایت کے متن میں اضطراب ہے۔ آرتھر جیفری کے انتقاد اعلیٰ کے اصول کو بھی سامنے رکھا جائے تو اس واقعے کا ثبوت مشتبہ قرار پاتا ہے کیونکہ ایک ہی واقعے کی نسبت تین مختلف ازواج مطہرات کی طرف کی جا رہی ہے۔علاوہ ازیں اگر اس روایت کو ’صحیح‘ قرار بھی دیا جائے تو یہ مصحف در حقیقت مصحف عثمانی ہی کی ایک نقل تھاسوائے ایک مقام کے اختلاف کے۔
مصحف اَنس بن مالک (متوفی ۹۳ھ)
اس مصحف کا تذکرہ ابن ابی داؤد نے نہیں کیا ہے۔ آرتھر جیفری کے بیان کے مطابق ابن جزری کی کتاب’النشر‘میں یہ موجود ہے کہ یہ صحابی بھی ان صحابہ میں سے ایک تھے جنہوں نے اللہ کے رسولﷺکے زمانے میں قرآن جمع کیا تھا۔ آرتھر جیفری نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس روایت کی سند کمزور ہے لیکن اس نے وہ روایت نقل نہیں کی۔ (Materials: Codex of Anas bin Malik)
ہمارے خیال میں یہ تو کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ ان کے پاس کوئی ایسا مصحف تھا جو مصحف عثمانی کے رسم و قراء ت کے مخالف تھا۔ مجرد اس بنیاد پر کہ کسی صحابی کے بارے میں یہ مروی ہو کہ وہ اللہ کے رسولﷺکے زمانے میں قرآن جمع کرتے تھے ‘ یہ کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ ان کا مصحف ‘ مصحف عثمانی سے علیحدہ کوئی اور ہی مصحف تھا۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
’’إن زید بن ثابت قال: أرسل إلي أبوبکر ÷ قال: إنک کنت تکتب الوحي لرسول اﷲ ﷺ فاتبع القرآن فتتبعت۔‘‘(صحیح البخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب کاتب النبي ﷺ)
حضرت زید بن ثابت اللہ کے رسولﷺکے کاتب بھی تھے اور حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان کے زمانے میں جمع قرآن کے مرکزی کردار بھی۔ پس اگر کچھ ضعیف اور منقطع روایت میں یہ بات مذکور ہو کہ حضرت زید بن ثابت نے کچھ حروف قرآنیہ کورسم عثمانی کے خلاف تلاوت کیا تو کیا ان منقطع روایات کو حضرت زید بن ثابت کے اس مصحف کے بالمقابل قبول کر لیاجائے جو انہوں نے حضرت عثمان کے دور میں جمع کیا جبکہ جمع عثمانی کی ان کی طرف نسبت بھی قطعیت سے ثابت ہو۔
واقعہ یہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺکے زمانے میں بہت سے صحابہ اللہ کے رسولﷺکے حکم سے بھی اور اپنے طور پربھی قرآن کو لکھتے تھے اور صحابہ کی ایک بڑی جماعت کے پاس آپؐ کے زمانے میں لکھے ہوئے نا مکمل مصاحف موجود تھے۔ حضرت ابوبکرکے زمانے میں انہی جزوی مصاحف ہی سے تو ایک مکمل مصحف کی تیاری ہوئی تھی۔ جمع صدیقی میں یہ بات بطور شرط مقرر کی گئی تھی کہ کسی بھی صحابیسے اس وقت تک آیات قرآنیہ نہیں لی جائیں گی جب تک کہ وہ دو صحابہکی گواہی اس بات پر نہ پیش کر دے کہ اس نے یہ آیات اللہ کے رسولﷺکے زمانے میں ہی لکھی تھیں۔ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں:
’’فتتبعت القرآن أجمعہ من العسب واللخاف وصدور الرجال۔‘‘ (صحیح البخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب جمع القرآن)
’’حدثنا عبد اﷲ قال حدثنا أبو الطاھر قال: أخبرنا ابن وھب أخبرني ابن أبي الزناد عن ھشام ابن عروۃ عن أبیہ قال: لما استحر القتل بالقرائ، یومئذ فرق أبوبکر علی القرآن أن یضیع۔ فقال لعمر بن الخطاب و لزید بن ثابت: اقعدا علی باب المسجد فمن جائکما بشاھدین علی شيء من کتاب اﷲ فاکتباہ۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب جمع أبی بکر الصدیقفی المصحف)
اس روایت کی سند ’منقطع‘ ہے کیونکہ عروۃ بن زبیر کی ملاقات حضرت ابو بکر صدیق سے ثابت نہیں ہے۔حضرت عروۃ فقہائے مدینہ میں سے ہیں اور ان کی پیدائش تقریباً ۲۳ھ میں ہوئی۔ اس روایت کے جمیع راویوں کو ابن حجر نے فتح الباری میں’ ثقہ‘ قرار دیا ہے۔ بہرحال تابعی کے ایک قول کے طور پر اس روایت کی سند مضبوط ہے۔
امام سخاوینے اس روایت کا معنی یہ بیان کیا ہے:
’’ومعنی ھذا الحدیث و اﷲ أعلم من جائکم بشاھدین علی شيء من کتاب اﷲ الذی کتب بین یدي رسول اﷲ ﷺ وإلا فقد کان زید جامعاً للقرآن۔‘‘ (کتاب المصاحف مع تحقیق الدکتور محب الدین واعظ: ص ۱۵۷ – الإتقان‘ باب النوع الثامن عشر في جمعہ و ترتیبہ: ص ۲۰۵۔۲۰۶)
ابن حجرنے اس روایت کا معنی یہ بیان کیا ہے:
’’وکأن المراد بالشاھدین: الحفظ والکتاب، أو المراد: أنھما یشھدان علی أن ذلک المکتوب کتب بین یدی رسول اﷲ ﷺ، أو المراد: أنھما یشھدان علی أن ذلک من الوجوہ التي نزل بھا القرآن‘ و کان غرضھم أن لا یکتب إلا من عین ما کتب بین یدي النبي ﷺ لا من مجرد الحفظ۔‘‘ (فتح الباري: ۹؍۱۴۔۱۵)
امام سیوطیکہتے ہیں:
’’أو المراد: أنھما یشھدان علی أن ذلک مما عرض علی النبي ﷺ عام وفاتہ۔‘‘ (الإتقان‘ باب النوع الثامن عشر في جمعہ وترتیبہ: ۲۰۶)
مصحف عمربن خطاب(متوفی ۲۳ھ)
اس مصحف کے وجود کے ثبوت کے لیے آرتھر جیفری نے کتاب المصاحف کے بیانات و روایات کو دلیل بنایا ہے۔ ابن ابی داؤد نے ’کتاب المصاحف‘ میں ’مصحف عمر بن خطاب ‘ کے عنوان کے تحت ۱۱ روایات بیان کی ہیں جن میں تین مقامات قرآنیہ پر حضرت عمر کے اختلاف ِ قراء ت کو نقل کیا گیا ہے۔
ان ۱۱؍ روایات میں سے کسی ایک روایت میں بھی یہ بات منقول نہیں ہے کہ حضرت عمر بن خطاب کا کوئی خاص مصحف تھا جس سے وہ قرآن کی تلاوت کرتے تھے ۔ ان روایات سے بس اتنا معلوم ہوتا ہے کہ تین مقامات پر حضرت عمر نے متواتر قراء ات کے خلاف تلاوت کی ہے۔
سورۃ فاتحہ میں حضرت عمر نے ’صراط من أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم و غیر الضالین‘ سورہ آل عمران میں ’الم اﷲ لا إلہ إلا ھو الحی القیام‘ اور سورہ مدثر میں ’فی جنت یتسائلون یا فلان ما سلکک في سقر‘ پڑھاہے۔ پہلی روایت کی سند ’صحیح‘ دوسری روایت ’حسن لغیرہ‘ اور تیسری ’ضعیف‘ ہے۔
پہلی اور دوسری روایت کثرت طرق سے مروی ہے اور کئی ایک مفسرین نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے لہٰذا حضرت عمر کے اس فعل کو منسوخ حروف کی تلاوت پر محمول کیا جائے گایا یہ ان احرف میں سے بھی ہو سکتے ہیں جو جمع عثمانی میں نقل ہونے سے رہ گئے ہوں۔تیسری روایت کی توضیح و توجیح کی ضرورت نہیں ہے‘ اس کے الفاظ ہی یہ بتلانے کے لیے کافی ہیں کہ قرآن نہیں ہے۔
مصحف زید بن ثابت(متوفی ۴۵ھ)
اس مصحف کا تذکرہ ابن ابی داؤد نے نہیں کیا ہے۔ آرتھر جیفری نے اس مصحف کے وجود کے ثبوت کے طور پر امام ابن قتیبہ (متوفی ۲۷۶ھ) کے ایک قول کو بنیاد بنایا ہے۔ ابن قتیبہ اپنی تاریخ’ المعارف‘ میں لکھتے ہیں:
’’وکان آخر عرض رسول اﷲ ﷺ القرآن علی مصحفہ وھو أقرب المصاحف من مصحفنا۔‘‘ (المعارف‘ کتاب أخبار الصحابۃ ‘ باب زید بن ثابت )
یہ ابن قتیبہ کا مجرد ایک بیان ہے جس کی تائید میں انہوں نے کسی مصدر یا حوالے کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔ علاوہ ازیں اس بیان سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ ان کا یہ مصحف رسم و قراء ت میں‘ مصحف عثمانی سے مختلف تھا۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت زید بن ثابت اللہ کے رسولﷺکے لیے وحی لکھا کرتے تھے۔ (صحیح البخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب کاتب النبي ﷺ) لہٰذا اللہ کے رسولﷺکے دور میں ان کا مصحف سرکاری مصحف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عثمان نے اپنے زمانے میں جمع قرآن کے انہیں منتخب کیا۔
آرتھر جیفری نے اس مصحف کے ثبوت کے لیے دوسرا حوالہ علامہ آلوسی (متوفی۱۲۷۰ھ) کی ایک عبارت کو بنایا ہے۔ علامہ آلوسی کے الفاظ درج ذیل ہیں:
’’وکذا ظاھر ما في مصحف عبد اﷲ وزید بن ثابت کما أخرج ابن الأنباري في المصاحف عن الأعمش ما أفاء اﷲ علی رسولہ من أھل القری فللہ و للرسول و لذي القربی و الیتامی و المساکین و ابن السبیل۔‘‘ (روح المعاني، الحشر: ۱۰)
علامہ آلوسی کی اس عبارت سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ’ابن الانباری‘ کی روایت میں بھی ’مصحف زید بن ثابت‘ کے الفاظ تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر مان لیا جائے کہ ’ابن الانباری‘ نے مصحف زید بن ثابت کا تذکرہ کیا ہے تو پھر بھی یہ امکان ہے کہ ان کی مراد اس سے حضرت زید بن ثابت کی قرا ء ت ہو جیسا کہ ہم ابن ابی داؤد کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی کتاب میں جا بجا ’مصحف‘ بول کر قراء ت مراد لیتے ہیں۔تیسری بات یہ ہے کہ یہ روایت حضرت اعمش(۶۱ تا ۱۴۸ھ) کی ہے اور ا ن کی ملاقات حضرت زید بن ثابت( متوفی ۴۵ھ) سے ثابت نہیں ہے لہٰذا روایت ’منقطع‘ ہے۔
علاوہ ازیں اگر کوئی اس قسم کے مصاحف موجود بھی تھے تو وہ جمع عثمانی سے پہلے تھے۔ جمع عثمانی کے بعد ایسے تمام مصاحف جلا دیے گئے تھے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
و قال عثمان للرھط القرشیین الثلاثۃ: ’’إذا اختلفتم أنتم و زید بن ثابت في شيء من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش فإنما نزل بلسانھم۔‘‘ ففعلوا حتی نسخوا الصحف في المصاحف، فرد عثمان الصحف إلی حفصۃ، و أرسل إلی کل أفق بمصحف مما نسخوا و أمر بما سواہ من القرآن في کل صحیفۃ أو مصحف أن یحرق۔(صحیح البخاري‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب جمع القرآن)
مؤرخ أحمد بن إسحاق الیعقوبی(متوفی ما بعد ۲۹۲ھ) لکھتے ہیں:
’’وجمع عثمان القرآن و ألفہ‘ و صیر الطوال مع الطوال و القصار مع القصار من السور وکتب في جمع المصاحف من الآفاق حتی جمعت ثم سلقھا بالماء الحار و الخل و قیل أحرقھا فلم یبق مصحف إلا فعل بہ ذلک خلا مصحف ابن مسعود۔‘‘ (تاریخ یعقوبي‘ کتاب وفود العرب‘ باب أیام عثمان )
مصحف عبد اللہ بن زبیر (متوفی۷۳ھ)
اس مصحف کے وجود کے ثبوت کی دلیل کے طور پر آرتھر جیفری نے ابن ابی داؤد کے بیان کو نقل کیا ہے۔ ابن ابی داؤد نے ’مصحف عبد اللہ بن زبیر‘ کے عنوان کے تحت آٹھ روایات بیان کی ہیں۔
پہلی تین روایات کے مطابق انہوں نے سورۃ بقرۃ میں ’لاجناح علیکم أن تنتغوا فضلاً من ربکم فی مواسم الحج‘ پڑھا ہے۔ یہ ’حسن‘ درجے کی روایات ہیں لیکن یہ قراء ت رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہے اور غالب گمان یہی ہے کہ انہوں نے اسے بطور تفسیر پڑھا ہے نہ کہ قرآن۔
چوتھی روایت کے مطابق انہوں نے سورۃ انبیاء میں ’حرام علی قریۃ‘ اور سورۃ انعام میں ’و لیقولوا درست‘ اور سورۃ کہف میں ’في عین حامیۃ‘ پڑھا ہے۔ یہ تینوں قراء ات متواتر اور ثابت شدہ ہیں۔
پانچویں روایت کے مطابق انہوں نے سورۃ مدثر میں ’في جنات یتسائلون یا فلان ما سلکک فی سقر‘ پڑھا ہے۔ اس روایت کی سند ’صحیح‘ ہے لیکن یہ قراء ت رسم عثمانی کے خلاف ہے لہٰذا بطور قرآن اس کا پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اور غالب گمان یہی ہے کہ بطور تفسیر قرآن پڑھا ہے۔
چھٹی روایت کے مطابق ان کی قرا ء ت میں سورۃ مائدۃ میں ’فیصبح الفساق علی ما أسروا في أنفسھم نادمین‘ ہے۔ اس روایت کی سند’ صحیح‘ ہے لیکن یہ قراء ت رسم عثمانی کے خلاف ہے لہٰذا بطور قرآن ناقابل قبول ہے۔ اس کے بارے میں غالب گمان یہی ہے کہ بطور تفسیر قرآن پڑھا ہے۔
ساتویں روایت کے مطابق انہوں نے سورۃ آل عمران میں ’و لتکن منکم أمۃ یدعون إلی الخیر یأمرون بالمعروف و ینھون عن المنکر و یستعینون اﷲ علی ما أصابھم‘ پڑھا ہے۔ یہ قراء ت بھی رسم عثمانی کے خلاف ہے لہذا بطور قرآن تلاوت جائز نہیں۔ آٹھویں روایت کے مطابق انہوں نے سورۃ فاتحہ میں ’صراط من أنعمت علیھم‘ پڑھا ہے۔ اس روایت کی سند کمزور ہے۔ عقبہ یشکری’ضعیف‘ راوی ہے۔ علاوہ ازیں ان مترادفات کے قبیل سے ہو سکتی ہے جو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکے ہوں۔ ان آٹھ روایات میں حضرت عبد اللہ بن زبیرکے کسی مصحف کا تذکرہ نہیں ہے۔
مصحف عبد اللہ بن عمرو (متوفی ۶۵ھ )
مصحف عبد اللہ بن عمرو کے وجود کے ثبوت میں آرتھر جیفری کی بنیاد کتاب المصاحف ہے۔کتاب المصاحف میں ’مصحف عبد اﷲ بن عمرو‘ کے عنوان کے ذیل میں ایک روایت بیان کی گئی ہے۔ اس روایت کے مطابق ابو بکر بن عیاش کو شعیب بن شعیب بن محمد بن عبد اللہ بن عمرو بن العاص نے اپنے پردادا کے مصحف سے چند ایسے حروف دکھائے جو مروجہ قراء ت کے خلاف تھے۔ اس روایت سے اتنا ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو ابن العاص کاکوئی مصحف تھا۔ روایت کے الفاظ ہیں:
حدثنا عبد اﷲ حدثنا محمد بن حاتم بن بزیع حدثنا زکریا بن عدي حدثنا أبو بکر بن عیاش قال: ’’قدم علینا شعیب بن شعیب بن محمد بن عبد اﷲ بن عمرو بن العاص فکان الذي بیني و بینہ۔ فقال یا أبا بکر: ألا أخرج لک مصحف عبد اﷲ بن عمرو بن العاص؟ فأخرج حروفاً تخالف حروفنا۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب مصحف عبداﷲ بن عمرو )
اس سے تو کسی کو بھی انکار نہیں ہے کہ بعض صحابہ کے پاس اپنے ذاتی جزوی مصاحف بھی تھے جو قرآن کی بعض سورتوں پر مشتمل تھے۔ غالب گمان یہی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کے مصحف کے علاوہ مصاحف کو حضرت عثمان کے سرکاری نسخے کے اجراء کے بعد جلا دیا گیا تھا۔ بفرض محال اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود کے علاوہ بھی بعض صحابہ نے اپنے مصاحف دینے سے انکارکر دیا تھا یا انہیں چھپا لیا تھاتو پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ یہ امت میں رائج نہ ہو سکے اور مرور زمانہ کے ساتھ ناپید ہو گئے۔ علاوہ ازیں ان مصاحف میں درج شدہ قرا ء ات کی کوئی سند بھی موجود نہیں ہے جیسا کہ مصاحف عثمانیہ میں درج ہر لفظ کی تصدیق پہلے دو صحابہ سے کروائی گئی اور پھر اسے لکھا گیا۔
مصحف ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا (متوفی ۵۸ھ)
اس مصحف کے وجود کے ثبوت کے لیے بھی آرتھر جیفری نے ابن ابی داؤد کی روایات کو دلیل بنایا ہے۔ ’کتاب المصاحف‘ میں مصحف عائشہ رضی اللہ عنہا کے عنوان کے تحت آٹھ روایات بیان کی گئی ہیں۔
تین روایات کے مطابق مصحف عائشہ رضی اللہ عنہا میں سورۃ بقرۃ میں ’حافظوا علی الصلوات والصلوۃ الوسطی وصلاۃ العصر‘ کے الفاظ تھے جبکہ دو روایات کے مطابق انہوں نے کاتب کو یہ ہدایت جاری کی کہ وہ ان کے ذاتی مصحف کو تیار کرتے وقت مذکورہ الفاظ لکھے۔ دو روایات کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عہد نبوی میں یہ قراء ت پڑھتی تھیں۔یہ کل سات روایات ہوئیں۔ ان روایات میں سے بعض طرق ’صحیح‘ ہیں۔ لیکن یہ قراء ات رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
’’حدثنا عبد اﷲ حدثنا أبو طاھر قال أخبرنا ابن وھب قال أخبرني مالک عن زید بن أسلم عن القعقاع بن حکیم عن أبي یونس مولی عائشۃ أم المؤمنین أنہ قال: أمرتني عائشۃ + أن أکتب لھا مصحفا ثم قالت: ’’إذا بلغت ھذہ الآیۃ: ’’ حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلـٰوۃِ الْوُسْطٰی ‘‘ فآذنی۔‘‘ فلما بلغتھا، آذنتھا۔ فأملت علي: ’’حافظوا علی الصلوات و الصلاۃ الوسطی وصلاۃ العصر وقوموا ﷲ قانتین۔‘‘ ثم قالت: ’’سمعتھا من رسول اﷲ ﷺ۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب مصحف عائشۃ زوج النبي ﷺ)
اس روایت اور کتاب المصاحف کی دوسری روایات سے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مصحف سوائے ایک مقام کے مصحف عثمانی ہی کی نقل تھا کیونکہ انہوں نے مصحف کی تیاری کا کام کاتب پر چھوڑ دیا تھا اور صرف ایک مقام پر کاتب کو خود املاء کروائی تھی۔ اب کاتب نے بقیہ مصحف کہاں سے تیار کیا ہے؟۔ ظاہری بات ہے مصحف عثمانی ہی سے نقل کیا ہے۔
جہاں تک سورۃ بقرۃ کے اختلاف کا معاملہ ہے تویہ درحقیقت اللہ کے رسولﷺ کی تفسیرہے‘ جسے بعض ازاوج نے بطور قرآن نقل کر دیا۔ حضرت عثمانکے سرکاری نسخے کے اجراء کے بعدایسی تفاسیر رسولﷺجو بطور قراء ت رائج ہو گئی تھیں‘ ختم ہو گئیں۔
اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس تفسیررسولﷺ کو بطور تفسیر ہی قرآن میں باقی رکھا ہوجیسا کہ بعض صحابہy کا یہ معمول تھا کہ وہ تفسیری نکات کو اپنے مصاحف میں باقی رکھتے تھے۔محدثین کی اصطلاح میں اس کو ’إدراج‘ کہتے ہیں۔ حدیث پڑھنے پڑھانے والے اس اصطلاح سے خوب اچھی طرح واقف ہیں۔
آٹھویں روایت کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مصحف میں سورۃ احزاب میں ’إن اﷲ و ملائکتہ یصلون علی النبي و الذین یصلون الصفوف الأول‘ تھا۔ اس روایت کی سند ’ضعیف ‘ہے۔ سند میں ابن ابی حمید راوی’ ضعیف‘ ہے اور راویہ حمیدہ’ مجہول ‘ہے۔ علاوہ ازیں متن میں اضطراب بھی ہے۔ علاوہ ازیں محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ بھی کوئی تفسیر ہی تھی نہ کہ قراء ت۔
مصحف سالم(متوفی ۱۲ھ)
اس مصحف کا تذکرہ ابن ابی داؤد نے نہیں کیا ہے۔ آرتھر جیفری کے بیان کے مطابق بعض ضعیف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا بھی کوئی مصحف تھا۔ آرتھر جیفری نے اس روایت کا تذکرہ نہیں کیالیکن اس روایت کو امام سیوطی نے ’الاتقان‘ میں ابن اشتہ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ امام سیوطی نے ابن اشتہ کی اس روایت کو بیان کرتے وقت اسے ’غریب ‘اور ’منقطع‘ قرار دیا ہے۔امام سیوطی لکھتے ہیں:
’’قلت: و من غریب ما ورد في أول من جمعہ ما أخرجہ ابن أشتۃ في کتاب المصاحف من طریق کھمس عن ابن بریدۃ قال: أول من جمع القرآن في مصحف سالم مولی أبي حذیفۃ… إسنادہ منقطع أیضاً و ھو محمول علی أنہ کان أحد الجامعین بأمر أبي بکر۔‘‘ (الإتقان‘ النوع الثامن عشر في جمعہ وترتیبہ: ص ۲۰۵)
مصحف ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا (متوفی ۶۲ھ)
اس مصحف کے ثبوت کے بارے میں آرتھر جیفری کی بنیاد ابن ابی داؤد کی بعض روایات ہیں ۔ابن ابی داؤد نے مصحف ام سلمہ کے عنوان کے تحت چار روایات نقل کی ہیں۔
ان روایات کے مطابق حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے لیے ایک مصحف تیار کرواتے وقت کاتب کو یہ ہدایت جاری کیں کہ وہ سورہ بقرہ میں ’حافظوا علی الصلوات و الصلوۃ الوسطی و صلاۃ العصر‘ لکھے۔ بعض روایات’ صحیح ‘اور بعض’ ضعیف‘ ہیں۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
’’حدثنا عبد اﷲ حدثنا أبو الطاھر حدثنا ابن نافع عن داؤد بن قیس عن عبد اﷲ بن رافع مولی أم سلمۃ أنھا قالت لہ: اکتب لي مصحفا فإذا بلغت ھذہ الآیۃ فأخبروني ’’ حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلـٰوۃِ الْوُسْطٰی ‘‘ قال: فلما بلغتھا آذنتھا، فقالت: اکتب ’’حافظوا علی الصلوات و الصلاۃ الوسطی و صلاۃ العصر۔‘‘(کتاب المصاحف‘ باب مصحف أم سلمۃ رضی اللہ عنہا زوج النبي ﷺ)
اس روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مصحف حضرت عثمان ہی کے مصحف کی ایک نقل تھی کیونکہ ام سلمہ نے کاتب کو مصحف تیار کرنے کا کہاہے اور صرف ایک جگہ اختلاف نقل کرنے کا حکم دیا ہے۔ یعنی اس ایک مقام کے علاوہ کاتب اس مصحف کی کتابت میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رہنمائی نہیں لے رہا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا یہ مصحف حضرت عثمان ہی کے مصحف کی ایک نقل تھی۔
اس میں ایک احتمال یہ بھی ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اسے تفسیر رسولﷺکے طور پر اپنے مصحف میں باقی رکھا ہو کیونکہ روایت میں اس کی وضاحت نہیں ہے کہ ان الفاظ کی زیادتی کی وجہ کیا تھی؟۔صحابہکا عموماً یہ معمول تھا کہ وہ اپنے مصاحف میں تفسیری نکات کو بھی قلمبند کر لیتے تھے۔دوسرا احتمال اس کے بار ے یہ بھی ہے کہ یہ تفسیر رسولﷺ تھی جو غلطی سے بطور قرا ء ت نقل ہو گئی اور بعض صحابیات و صحابہ جمع عثمانی کے بعد بھی اس کو بطور قراء ت نقل کرتے رہے ۔ خلاصہ کلام یہی ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا مصحف‘ مصحف عثمانی سے علیحدہ کوئی مصحف نہیں تھابلکہ یہ اس کی نقل اور کاپی تھا۔
مصحف عبید بن عمیراللیثی(متوفی ۷۴ ھ)
ان کے مصحف کے وجود کی دلیل کے طور پر آرتھر جیفری نے کتاب المصاحف کے بیان کو بنیاد بنایا ہے۔ ’کتاب المصاحف‘میں ابن ابی داؤد نے ’مصحف عبید اللہ بن عمیر‘ کے نام سے عنوان تو باندھا ہے لیکن اس کے تحت کوئی ایسی روایت نقل نہیں کی جس سے ان کے مصحف کے وجود کے بارے میں کوئی اشارہ ملتا ہو ۔
ابن ابی داؤدنے مصحف عبید بن عمیر اللیثیکے تحت ایک ہی روایت نقل کی گئی ہے۔ حضرت عمرو بن دینار فرما تے ہیں:
’’سمعت عبید بن عمر یقول: أول ما نزل من القرآن ’’ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَکَ ‘‘‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب و أما مصاحف التابعین فمصحف عبید بن عمیر اللیثي)
اس کی سند ’حسن‘ درجے کی ہے لیکن اس روایت سے نہ تو ان کے کسی مصحف کے وجود کا ثبوت ملتا ہے اور نہ ہی کسی قراء ت کے ثبوت کا۔حضرت عبید در اصل قرآن کی سب سے پہلے نازل ہونے والی سورت کے بارے میں بتلانا چاہتے ہیں یعنی قرآن نقل نہیں کر رہے بلکہ سورت کا نام نقل کرنا چاہتے ہیں اور سورتوں کو کوئی سا بھی مناسب نام دینے میں کیا اختلاف ہو سکتا ہے؟۔
انہوں نے ’سورۃ العلق‘ کو اس نام سے پکارا ہے جو اس کی پہلی آیت کے مترادفات کے قبیل سے ہے۔ متقدمین عموماً کسی سورت کے نام کے طور پر اس کی پہلی آیت وغیرہ کو نقل کر دیتے تھے۔یہاں انہوں نے سورت کے نام کے طور پر پہلی آیت کے مترادف کو نقل کیا ہے جس میں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اسے ’اقرأ باسم ربک الذی خلق‘ کہتے تو احسن و احوط تھا۔
آرتھر جیفری نے انہیں صحابی بیان کیا ہے حالانکہ یہ صحابی نہیں تھے۔ اللہ کے رسولﷺکے زمانے میں پیدا ہو چکے تھے لیکن آپﷺسے ملاقات ثابت نہیں ہے۔ (سیر أعلام النبلاء: ۴؍۱۵۷) ابن أبی داؤدنے بھی ان کو تابعین میں شمار کیا ہے۔ (کتاب المصاحف‘ باب و أما مصاحف التابعین فمصحف عبید بن عمیر)
مصحف اسود بن یزید (متوفی ۷۴ھ)
مصحف اسود بن یزیدنخعیکے مصحف کی موجودگی کے بارے میں آرتھر جیفری نے ابن ابی داؤد کے بیان کو بطور دلیل بیان کیا ہے۔ آرتھر جیفری کا کہنا یہ ہے کہ ابن ابی داؤد نے چونکہ مصحف اسود کا نام لیا ہے لہٰذا اس نام کا کوئی مصحف بھی موجود تھا۔ یہ آرتھر جیفری کی وہ جہالت ہے جو اس کے لیے تلاش حق میں رکاوٹ بن گئی۔
ہم یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ ابن ابی داؤد مختلف صحابہ اور تابعین کی قراء ات کو بھی مصحف کا نام دے دیتے ہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ابن ابی داؤد کے نزدیک مصحف سے مراد مصحف ہی ہے تو پھر بھی اس مصحف کا وجود ثابت نہیں ہوتا کیونکہ ابن ابی داؤدنے کوئی ایسی روایت نقل نہیں کی جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ ایسا کوئی مصحف کسی زمانے میں موجود تھا۔ ابن ابی داؤد نے مصحف اسود بن یزید کے عنوان کے تحت ایک ہی روایت نقل کی ہے۔ اس روایت کے مطابق اسود رحمہ اللہ ’صراط من أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم و غیر الضالین‘ پڑھتے تھے۔یہ قراء ت مصحف عثمانی کے بر خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہے۔ اس روایت میں ان کے کسی مصحف کا تذکرہ نہیں ہے۔
اسود بن یزید کے اساتذہ میں حضرت عمر بھی شامل ہیں لہٰذایہ بات قرین قیاس ہے کہ انہوں نے یہ قراء ت حضرت عمر سے لی تھی اور حضرت عمر کے زمانے میں جمع عثمانسے پہلے اس کی تلاوت کرتے تھے۔ یہ تلاوت ان مترادفات کے قبیل سے معلوم ہوتی ہے جو عرضۂ اخیرہ میں منسوخ ہو چکے تھے لیکن حضرت عثمانکے زمانے تک نقل ہوتے رہے۔ ان احرف میں سے بھی ہو سکتی ہے جو جمع عثمانی میں نقل ہونے سے رہ گئے ہوں۔
مصحف علقمہ بن قیس (متوفی مابعد ۶۰ھ)
مصحف علقمہ بن قیس نخعی کے وجود کے بارے میں بھی آرتھر جیفری کا کل اعتماد و مصدر کتاب المصاحف پر ہے۔ امام ابن ابی داؤد نے اس عنوان کے تحت ایک روایت بیان کی گئی ہے۔ اس روایت کے مطابق علقمہ سورہ فاتحہ میں ’صراط من أنعمت علیھم غیر المغضوب علیھم و غیر الضالین‘ پڑھتے تھے۔یہ قراء ت مصحف عثمانی کے بر خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہے۔ علاوہ ازیں اس روایت میں ان کے کسی مصحف کا تذکرہ نہیں ہے۔ یہ قراء ت حضرت عمر سے بھی ثابت ہے۔ علقمہ کے اساتذہ میں بھی حضرت عمر کا نام ملتا ہے لہٰذا قوی طور پر یہ امکان موجود ہے کہ انہوں نے یہ قراء ت حضرت عمر سے حاصل کی ہو اور جمع عثمانی سے پہلے ان کے زمانے میں اس کی تلاوت کرتے ہوں۔ جیسا کہ بیان ہو چکا ہے کہ یہ قراء ت ان مترادفات کے قبیل سے ہے جو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکے تھے لیکن حضرت عثمان کے جمع قرآن تک بعض صحابہ و تابعین ان کی تلاوت کرتے رہتے تھے۔
آرتھر جیفری نے ’کتاب المصاحف‘ کی ایک اور روایت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ جس سے علقمہکے مصحف کا اشارہ ملتا ہے۔ ابن ابی داؤد اپنی کتاب میں درج ذیل روایت لائے ہیں:
’’حدثنا عبد اﷲ حدثنا شعیب بن أیوب حدثنا یحی حدثنا الحسن بن ثابت قال سمعت الأعمش یقول: أخرج إلینا ابراہیم مصحف علقمۃ فإذا الألف والیاء فیہ سواء۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب اختلاف خطوط المصاحف)
اس روایت میں حسن بن ثابت راوی ’صدوق‘ ہے اور غریب حدیثیں بیان کرتا ہے۔ ڈاکٹر محب الدین واعظ کے بیان کے مطابق اس روایت کا کوئی متابع موجود نہ ہونے کی وجہ سے یہ روایت’ ضعیف‘ ہے۔
آرتھر جیفری نے اس روایت کو مصحف علقمہ کی دلیل کے طور پر نقل توکر دیا لیکن وہ اس کے معنی و مفہوم سے نا واقف تھا۔ ا س روایت کا معنی یہ ہے کہ سورۃ طہ میں ’ إن ھذان لسحران‘ میں الف اور یاء دونوں کے ساتھ قراء ت درست ہے۔ یاء کے ساتھ یہ قراء ت ’إن ھذین لسحران‘ بنے گی جو ابن عامر شامی کی متواتر قراء ت ہے۔ لہٰذا یہ آیت مبارکہ الف کے ساتھ ہو یا یاء کے ساتھ‘ دونوں صورتوں میں متواتر قراء ت کے مطابق ہو گی۔ پس اس روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت علقمہ کے پاس کوئی ایسا مصحف تھا جو مصحف عثمانی کی قراء ت کے خلاف تھا۔
مصحف حطان بن عبد اللہ رقاشی(متوفی مابعد ۷۰ ھ)
مصحف حطان بن عبد اللہ رقاشی کے وجود کے بارے میں بھی آرتھر جیفری نے ابن ابی داؤد کے بیان کو ہی بطور دلیل نقل کیا ہے۔ آرتھر جیفری کا کہناہے‘ چونکہ ابن ابی داؤدنے اپنی کتاب میں مصحف حطان کے الفاظ کا تذکرہ کیا ہے لہٰذا اس نام سے کوئی مصحف بھی ضرور موجود تھا۔ ابن ابی داؤد نے اپنی کتاب میں اس عنوان کے تحت بھی ایک ہی روایت بیان کی ہے۔ اس روایت کے مطابق حطان بن عبد اللہ ’سورۃ آل عمران میں ’و ما محمد إلا رسول قد خلت من قبلہ رسل‘ پرحلف اٹھاتے تھے۔ اس روایت کی سند’صحیح‘ ہے۔
ڈاکٹر محب الدین واعظ کے بیان کے مطابق کتاب المصاحف کے نسخہ شربیتی میں ’رسل‘ کی بجائے ’الرسل‘ کے الفاظ ہیں جو متواتر قراء ت کے مطابق ہیں۔ لہٰذا کسی تاویل کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔البتہ نسخہ ظاہریہ کے الفاظ ’رسل‘ کے ہیں جو رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہیں۔ پس نسخہ ظاہریہ کے الفاظ کو کاتب کی غلطی پر محمول کیا جائے گا۔ اس روایت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حطان بن عبد اللہa کا کوئی مصحف بھی تھا۔ روایت کے الفاظ درج ذیل ہے:
’’حدثنا عبد اﷲ حدثنا عبد اﷲ بن سعید حدثنا ابن علیۃ عن أبی ھارون الغنوی قال: کان حطان بن عبد اﷲ یحلف علیھا ’’و ما محمد إلا رسول قد خلت من قبلہ رسل۔‘‘ (کتاب المصاحف‘ باب مصحف حطان بن عبداﷲ)
مصحف سعید بن جبیر ( ۴۵ھ تا ۹۵ھ)
مصحف سعید بن جبیر کے وجود کے بارے میں بھی آتھر جیفری نے ’کتاب المصاحف‘ ہی کے بیان کو دلیل بنایا ہے۔ ابن ابی داؤد نے اس عنوان کے تحت تین روایات کا تذکرہ کیا ہے۔ ان روایات کے مطابق حضرت سعید بن جبیر نے سورہ بقرۃ میں ’و علی الذین یطوّقونہ‘ اور سورۃ مائدۃ میں ’أحل لکم الطیبات و طعام الذین أوتوا الکتاب من قبلکم‘ اور سورۃ اعراف میں ’فإذا ھی تلقم ما یأفکون‘ پڑھا ہے۔
پہلی روایت کی سند ’صحیح‘ دوسری کی سند میں ایک راوی محمد بن زکریا’مجہول‘ اور تیسری میں حسن بی ابی جعفر’ ضعیف‘ ہے۔ تینوں روایات رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہیں۔ ان روایات میں حضرت سعید بن جبیر کے کسی مصحف کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔ حضرت سعید بن جبیر کے اساتذہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس کا نام کثرت سے ملتا ہے۔ ’یطوّقونہ‘ والی قراء ت حضرت عبد اللہ بن عباس کی بھی تھی۔ اس لیے اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ انہوں نے یہ قراء ت ان سے لی ہو۔پہلی قراء ت ان قرا ء ات میں سے معلوم ہوتی ہے جو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو چکی تھیں یا پھر ان احرف میں سے بھی ہو سکتی ہے جو جمع عثمانی میں نقل ہونے سے رہ گئے۔
مصحف طلحہ بن مصرف(متوفی ۱۱۲ھ)
مصحف طلحہ بن مصرف الیامی کے ثبوت میں بھی آرتھر جیفری نے کتاب المصاحف ہی کو بنیاد بنایا ہے۔ اس عنوان کے تحت ابن ابی داؤد نے کسی روایت کو نقل نہیں کیا ہے۔ آرتھر جیفری کے خیال میں نسخہ ظاہریہ کے کاتب سے کچھ سہوہوا ہے اور اس نے کتاب المصاحف کے کچھ اوراق نقل نہیں کیے۔ بہر حال ابن ابی داؤد نے اس عنوان کے تحت کوئی ایسی روایت نقل نہیں کی جس سے طلحہ بن مصرف کے کسی مصحف یا اختلاف قراء ت کا علم حاصل ہوتا ہو۔
مصحف عکرمہ مولیٰ ابن عباس(۲۵ھ تا ۱۰۵ھ)
مصحف عکرمہ مولیٰ ابن عباسکے وجود کے بارے میں بھی آرتھر جیفری کا مصدر و ماخذ کتاب المصاحف ہی ہے۔ اس عنوان کے تحت ابن ابی داؤد نے دو روایات کا تذکرہ کیاہے۔ پہلی روایت میں حضرت عمران بن حدیر ؒکہتے ہیں: ’عن عکرمۃ أنہ کان یقرؤھا: و علی الذین یطوّقونہ۔‘ دوسری روایت میں عاصم الأحول کہتے ہیں: عن عکرمۃ أنہ کان یقرأ ھذا الحرف : قَتْل فیہ۔
ان دونوں روایات میں عکرمہ کے کسی مصحف کا تذکرہ نہیں ہے بلکہ حضرت عکرمہ کی دو قراء ات کی طرف اشارہ ہے۔سورۃ بقرۃ میں انہوں نے ’و علی الذین یطوقونہ‘ اور ’قَتْل فیہ‘ پڑھا ہے جبکہ متواترقراء ات ’یطیقونہ‘ اور ’یسئلونک عن الشھر الحرام قتال فیہ‘ ہے۔ یہ ’حسن‘ درجے کی روایات ہیں لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل قبول ہیں۔ ان روایات میں حضرت عکرمہ کے کسی مصحف کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔
علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب کسی روایت میں یہ الفاظ نقل کیے جاتے ہیں کہ فلاں تابعی قرآن کے فلاں لفظ کو یوں پڑھتے تھے یا انہوں نے یوں پڑھا تو اس میں دونوں امکانات موجود ہیں ۔ ایک یہ کہ انہوں نے اسے بطور قرآن پڑھا ہو اور دورسرا یہ کہ اسے بطور علم پڑھا ہو۔ جیساکہ آج کے زمانے میں اگر کوئی مقری اپنے شاگردوں کو قراء ات شاذہ بطور علم پڑھائے تو یہ جائز ہے۔
مصحف مجاہدبن جبر(۲۰ھ تا ۱۰۳ھ)
مصحف مجاہدکے وجود کے ثبوت میں آرتھر جیفری نے ابن ابی داؤد کے بیان کو نقل کیا ہے۔ ابن ابی داؤد نے اس عنوان کے تحت بھی ایک ہی روایت کا تذکرہ کیا ہے۔ حمید فرماتے ہیں: عن مجاہد أنہ کان یقرأ ’فلا جناح علیہ ألا یطوف بھما‘۔
اس روایت میں حضرت مجاہد کے کسی مصحف کا تذکرہ نہیں ہے بلکہ ایک قراء ت کا بیان ہے جو رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہے۔ ڈاکٹر محب الدین سبحان کے مطابق اس کی سند میں دو راوی یوسف بن عبد الملک اور معمر’مجہول ‘ہیں۔ یہ قراء ت حضرت عبد اللہ بن عباس سے بھی مروی ہے۔ حضرت مجاہد نے انہی سے لی ہے۔ کیونکہ مجاہد‘ ابن عباس کے شاگرد بھی ہیں۔ یہ قراء ت ان حروف میں سے ہو سکتی ہے جوجمع عثمانی میں نقل ہونے سے رہ گئے ہوں۔
مصحف عطاء بن ابی رباح (۲۷ھ تا۱۱۵ھ)
مصحف عطاء بن ابی رباح کے وجود کے بارے میں بھی آرتھر جیفری کی کل دلیل کتاب المصاحف کا بیان ہی ہے۔ ابن ابی اؤد نے اس عنوان کے تحت بھی ایک ہی روایت نقل کی ہے۔ طلحہ بن عمروکہتے ہیں: عن عطاء أنہ قرأ ’یخوفکم أولیائہ۔‘ یعنی حضرت عطاء نے سورہ آل عمران میں ’یخوفکم أولیائہ‘ پڑھا ہے۔
اس روایت سے ان کے کسی مصحف کا ثبوت نہیں ملتا۔ ہاں ان کی ایک قراء ت کی طرف اشارہ ضرورہے۔ ڈاکٹر محب الدین واعظ کے بیان کے مطابق اس روایت کی سند انتہائی درجے’ ضعیف‘ ہے۔سند میں طلحہ بن عمرو ’متروک‘ راوی ہے۔ علاوہ ازیں یہ قراء ت مصاحف عثمانیہ کے رسم کے خلاف ہونے کی وجہ سے غیر مقبول ہے۔
مصحف ربیع بن خیثم (متوفی ۶۳ھ)
اس مصحف کا تذکرہ ابن ابی داؤد نے نہیں کیا۔ آرتھر جیفری کا کہنا یہ ہے کہ علامہ آلوسی (متوفی۱۲۷۰ھ) نے اپنی تفسیر’روح المعانی‘ میں اس مصحف کا تذکرہ کیا ہے۔ علامہ آلوسی کا بیان یہ ہے:
وقال سفیان: نظرت في مصحف الربیع فرأیت فیہ ’’فمن لم یجد من ذلک شیئاً فصیام ثلاثۃ أیام متتابعات۔‘‘ (روح المعاني، المائدۃ : ۸۹)
اس روایت میں کسی سند کا تذکرہ نہیں ہے یعنی سفیان نے یہ بات کب اور کس سے کہی اور کس نے اسے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ اس کی کوئی تحقیق موجود نہیں ہے۔ لہٰذا ایک مجہول روایت کی بنیاد پر کسی تابعی کے لیے مصحف کے وجود کا اثبات کیسے ممکن ہے؟۔ اس روایت کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اگر اس کی کوئی سند موجود بھی ہو تو یہ ان تفسیری نکات کے قبیل سے ہے جنہیں صحابہ اور تابعین اپنے مصاحف میں لکھ لیتے تھے۔
مصحف سلیمان الأعمش(۶۱ھ تا ۱۴۸ھ)
مصحف سلیمان بن مھران الأعمش کے وجود کے بارے میں بھی آرتھر جیفری کا انحصار ابن ابی داؤد کے بیان پر ہے۔ ابن ابی داؤد نے اس عنوان کے تحت تین روایات نقل کی ہیں۔ ان روایات کے مطابق االأعمشنے سورہ آل عمران میں ’الم اﷲ لا إلہ إلا ھو الحی القیام‘ اور سورۃ بقرۃ میں ’فیضاعفُہ‘ اور سورۃ انعام میں ’أنعام و حرث حرج‘ پڑھا ہے۔
پہلی روایت کی سند’ صحیح ‘ہے لیکن رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے یہ قراء ت غیر مقبول ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ یہ ان مترادفات کے قبیل میں سے ہے جو عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہو گئے تھے کیونکہ حضرت عمر سے بھی اس کی تلاوت ثابت ہے یا ان احرف میں سے ہے جو جمع عثمانی میں نقل ہونے سے رہ گئے۔دوسری روایت کی سند’ حسن‘ ہے اور یہ متواتر قراء ت ہے۔ یہ نافع‘ ابو عمرو‘ حمزہ ‘ کسائی اور خلف کی قراء ت ہے۔ تیسری روایت کی سند میں شعیب بن ایوب ’مدلس‘ راوی ہے اور ’عن‘ سے روایت کر رہا ہے لہٰذا ’ضعیف‘ ہے۔ علاوہ ازیں رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے بھی یہ قراء ت غیر مقبول ہے ۔یہ ان مترادفات کی قبیل سے ہو سکتی ہے جو منسوخ ہو چکے ہیں۔ ان روایات ِ ثلاثہ میں أعمش کے کسی مصحف کا تذکرہ موجود نہیں ہے۔
مصحف جعفر صادق(۸۳ھ تا ۱۴۸ھ)
اس کا تذکرہ امام ابن ابی داؤد نے کتا ب المصاحف میں نہیں کیا ہے۔ آرتھر جیفری کے بیان کے مطابق مؤرخ ’زنجانی ‘نے’شہرستانی‘ کی تفسیر کے مقدمے سے امام جعفر صادق کے مصحف میں موجود سورتوں کی ترتیب نقل کی ہے جو مصحف عثمانی کی ترتیب کے خلاف ہے۔ علاوہ ازیں اس ترتیب میں پہلی سورت یعنی سورت فاتحہ بھی غائب ہے۔ کل ۱۱۳ سورتیں بیان ہوئی ہیں۔ شہرستانی کے بیان کے مطابق امام جعفر صادق کے مصحف کی سورتوں کی ترتیب مصحف عثمانی کے بالمقابل درج ذیل تھی:
” 96, 68, 73, 74, 111, 81, 87, 92, 89, 93, 94, 103, 100, 108, 102, 107, 109, 105, 113, 114, 112, 53, 80, 97, 91, 85, 95, 106, 101, 75, 104, 77, 50, 90, 86, 54, 38, 7, 72, 36, 25, 35, 19, 20, 56, 26, 27, 28, 17, 10, 11, 12, 15, 6, 37, 31, 34, 39, 40, 41, 42, 43, 44, 45, 46, 51, 88, 18, 16, 71, 14, 21, 23, 32, 52, 67, 69, 70, 78, 79, 82, 84, 30, 29, 83, 2, 8, 3, 33, 60, 4, 99, 57, 54, 13, 55, 76, 65, 98, 59, 110, 24, 22, 63, 58, 49, 66, 61, 62, 64, 48, 9, 5.” (Materials: Codex of Ja’far Al-Sadiq)
ابو الفتح شہرستانی (متوفی ۵۴۸ھ) ایک شیعہ مفسر اور عالم دین ہیں۔ ان کی تفسیر کا نام ’مفاتیح الأسرار و مصابیح الأبرار‘ ہے۔ ہمارے علم کی حد تک یہ تفسیر تاحال غیر مطبوع ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس تفسیر کے مقدمے میں امام جعفرصادق کی طرف اس مصحف کی نسبت کی سند دیکھنی چاہیے ۔ آرتھر جیفری نے اس روایت کی کوئی سند بیان نہیں کی اور نہ ہی اس کا تذکرہ کیا ہے۔ بغیر سند کے کوئی روایت کسی مفسر کے محض بیان کر دینے سے کیسے قبول کی جا سکتی ہے؟جبکہ معاملہ بھی قرآن کا ہو۔
اگر یہ ثابت ہو بھی جائے کہ امام جعفر صادق کا کوئی مصحف اس ترتیب پر مبنی تھا تو اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بعض سلف صالحین کے بارے میں یہ مروی ہے کہ انہوں نے قرآن کو ترتیب نزولی کے مطابق جمع کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس ترتیب کو دیکھ کر پہلی نظر میں ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ صاحب مصحف ترتیب نزولی کے مطابق قرآن کو جمع کرنا چاہتا ہے۔ آج بھی اگر کوئی شخص ذاتی طور پر ترتیب نزولی کے مطابق قرآن کو جمع کرے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جبکہ وہ مصحف عثمانی کی ترتیب کے مطابق ہی مصحف کی تلاوت ا ور نشر و اشاعت کا قائل ہو۔ قرآن کی سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے یا اجتہادی۔ اس مسئلے میں سلف صالحین کا اختلاف ہے۔ جمہور کی رائے کے مطابق سورتوں کی ترتیب بھی توقیفی ہے اور اس کے دلائل بھی قوی ہیں۔ لیکن اگر کوئی اس ترتیب کو اجتہادی مانتا ہے تو اس سے گمراہی لازم نہیں آتی۔ اور اگر مصحف عثمانی کی سورتوں کی ترتیب کو اجتہادی مان لیا جائے تو اس ترتیب سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ (الاتقان‘ النوع الثامن عشر من جمعہ و ترتیبہ: ص ۲۱۶۔۲۱۹) یہ واضح رہے کہ اس بارے علمائے اسلام کا اجماع ہے کہ آیات کی ترتیب توقیفی ہے۔ (أیضاً: ص ۲۱۱۔۲۱۶)
مصحف صالح بن کیسان(متوفی ما بعد ۱۴۰ھ)
اس مصحف کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے بھی آرتھر جیفری نے ابن ابی داؤد کے بیان کا سہارا لیا ہے۔ ابن ابی داؤد نے اس عنوان کے تحت ایک روایت نقل کی ہے۔ اس روایت کے مطابق صالح بن کیسان نے آل عمران میں ’جائھم البینت‘ اور ’جاء تھم البینات‘ دونوں طرح پڑھا ہے ۔ علاوہ ازیں انہوں نے سورہ مریم میں ’یکاد السموات‘ اور ’ تکاد السموات‘ دونوں طرح پڑھا ہے۔ دوسری قراء ت ثابت نہیں ہے جبکہ باقی تینوں متواتر ہیں۔ دوسری قراء ت رسم عثمانی کے خلاف ہونے کی وجہ سے غیرمقبول ہے۔ ان روایات میں صالح بن کیسان کے کسی مصحف کا تذکرہ نہیں ہے۔ امام حاکم کی روایت کے مطابق ان کی عمر ۱۶۰ سال سے زائد تھی۔
مصحف حارث بن سوید متوفی(مابعد۷۰ ھ)
ابن ابی داؤد نے اپنی کتاب میں اس مصحف کا تذکرہ نہیں کیا۔ آرتھر جیفری کے بیان کے مطابق ایک تفسیری روایت سے ہمیں ا س مصحف کا علم ہوتا ہے جسے مفسرین نے سورۃ فتح کی آیت ۲۶ کے تحت نقل کیا ہے۔
٭ علامہ زمخشری لکھتے ہیں:
’’وفی مصحف الحرث بن سوید صاحب عبد اﷲ: ’و کانوا أھلھا وأحق بھا۔‘ وھو الذي دفن مصحفہ أیام الحجاج۔‘‘ (الکشاف، الفتح : ۲۶)
اس روایت کی کوئی سند ہمیں نہ مل سکی۔ لہٰذا بغیر سند کے یہ روایت مجہول اور ناقابل قبول ہے۔ علاوہ ازیں خود روایت میں موجود ہے کہ ان کا مصحف دفن کر دیا گیا تھالہٰذا وہ حجت کیسے بن سکتا ہے؟۔
مصحف محمد بن ابی موسی
اس مصحف کا تذکرہ آرتھر جیفری نے نہیں کیا ہے اگرچہ ابن ابی داؤد نے اس نام سے عنوان باندھا ہے ۔ کتاب المصاحف میں اس عنوان کے تحت ایک روایت منقول ہے۔ اس روایت کے مطابق ابن ابی موسی نے سورۃ مائدۃ میں ’و لکن الذین یفترون علی اﷲ الکذب و أکثرھم لا یفقھون‘ پڑھا ہے۔محمد بن ابی موسی کے بارے میں ابن حجرکا کہنا ہے کہ’ مجہول‘ راوی ہے۔ امام عراقی نے ’غیر معروف‘ کہا ہے لہٰذا روایت کی سند کمزور ہے۔ محمد بن ابی موسی کا وجود ہی مشکوک ہے چہ جائیکہ ان کے کسی مصحف کا وجود اس روایت سے ثابت کیا جائے۔
(بشکریہ ماہنامہ رشد)