ہجرت کے حکم کے بعد مدینہ میں مہاجرین کاسیلاب امڈ پڑاتھا اور آخرکار مدینہ میں مقامی باشندوں کے مقابلہ میں مہاجرین کی تعداد کئی گنابڑھ گئی ۔ (صحیح بخاری ) ان نوواردوں کی آباد کاری کے متعلق حضور پاک صلى الله عليه وسلم نے شروع دن ہی سے ایک جامع منصوبہ تیار کرلیاتھا ، اس منصوبہ کی جزئیات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہوتاہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے نوآبادی (کالونائزیشن )اور شہری منصوبہ بندی (ٹاوٴن پلاننگ ) میں عظیم انقلاب برپا کردیاتھا ، نئے بسنے والوں کی اتنی بڑی تعداد کواتنے محدود وسائل میں رہائش اور کا م کی فراہمی کوئی آسان معاملہ نہ تھا، پھر مختلف نسلوں ، طبقوں ، علاقوں اور مختلف معاشرتی و تمدنی پس منظر رکھنے والے لوگ مدینہ میں آآکر جمع ہورہے تھے ، ان سب کو سماجی لحاظ سے اس طرح جذب کرلینا کہ نہ ان میں غریب الدیاری اور بیگانگی کا احساس ابھرے ، نہ مدینہ کے ماحول میں کوئی خرابی پیداہو اور نہ قانون شکنی اور اخلاقی بے راہ روی کے رجحانات جنم لیں … جیساکہ عام طور پرایسے حالات میں ہوتاہے …… رسول کریم صلى الله عليه وسلم کاایسا زندہ جاوید کارنامہ ہے، جو ماہرینِ عمرانیات کے لیے خاص توجہ اور مطالعہ کامستحق ہے ، جدید شہروں میں آبادی کے دباوٴ سے پیدا ہونے والے پیچیدہ تمدنی ، سیاسی اور اخلاقی مسائل سے نمٹنے کے لیے سیرت النبی صلى الله عليه وسلم سے، ماہرین آج بھی بلاشبہ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں ۔
دنیا کو سب سے پہلے رسالت مآب صلى الله عليه وسلم نے اس راز سے آگاہ کیاکہ محض سنگ و خِشت کی عمارات کے درمیان میں کوچہ و بازار بنا دینے کانام شہری منصوبہ نہیں؛ بلکہ ایساہم آہنگ اورصحت مند تمدنی ماحول فراہم کرنا بھی ناگزیر ہے جو جسمانی آسودگی ، روحانی بالیدگی ، دینی اطمینان اور قلبی سکون عطا کرکے اعلی انسانی اقدار کو جنم دے اور تہذیبِ انسانی کے نشو ونما کاسبب بنے۔
مدینہ کی اسلامی ریاست کے قیام کے بعد دار الخلافہ کی تعمیر کے لیے موزوں جگہ کا انتخاب اور اس غرض کے لیے وسیع قطعہ اراضی پہلے ہی حاصل کرلیا گیاتھا ، مسجد اور ازواجِ مطہرات کے لیے مکانات بن جانے کے ساتھ دار الخلافہ کی تعمیر کاپہلا مرحلہ تکمیل کوپہنچا ، دوسرے مرحلہ کا آغاز نووارد مہاجرین کی اقامت اور سکونت کے مختصر مکانات (کوارٹرز) کی تعمیر سے کیاگیا ؛ یہی وجہ تھی کہ تعمیرات کے اس دو مرحلے ومنصوبے پر ایک سال یااس سے کچھ زیادہ عرصہ لگ گیا ۔
مدینة الرسول ،ایک لحاظ سے ”مہاجربستی “ تھی ، گوسارے مہاجروہاں اقامت نہ رکھتے تھے۔ (طبقات ابن سعد ) ہوسکتا ہے جب مدینہ کی آبادی بڑھی ہوتو مکانات اور تعمیرات کاسلسلہ پھیل کر عہدِ رسالت مآب صلى الله عليه وسلم ہی میں قریب کی آبادیوں بنی ساعدہ ، بنی النجار وغیرہ سے مل گیاہو، ورنہ ریاست کی پالیسی یہ تھی کہ مدینہ کی کالونی میں صرف مہاجرین کو بسایاجائے ، عوالی میں رہنے والے بنوسلمہ نے جب مدینہ آکر آباد ہونے کی درخواست کی تو آپ نے اسے نامنظور کردیا اور انھیں اپنے قریہ ہی میں رہنے کی ہدایت کی ،ریاست کی نوآبادی اسکیم کایہ بھی ایک اہم حصہ تھا کہ اللہ کی راہ میں وطن چھوڑ کر مدینہ آنے والے لٹے پٹے ، بے سروسامان اور بے یارو مدد گار مہاجروں کے قافلوں کو جائے رہائش سرکاری طور پر فراہم کی جائے ؛ بلکہ ان نوواردوں کو سرکاری مہمان خانہ میں ٹھہرایاجاتا اور ان کے کھانے اور دیگر ضروریات کا انتظا م بھی سرکار ی طور پر کیاجا تا، بعد میں ان لوگوں کو مستقل رہائش کے لیے جگہ یامکان مہیاکرنا بھی حکومت کا فرض تھا گویا مہاجرین کے لیے روٹی ، کپڑا اور مکان کی فراہمی اسلامی حکومت کی ذمہ داری تھی ۔
مہاجرین کی عارضی رہائش کاانتظام مسجد کے اندر کیمپ لگاکریا صفہ میں کیاجاتا، اگر مہاجرین کی تعداد زیادہ ہوتی یا قافلہ پورے قبیلہ پرمشتمل ہوتا تو انھیں عموماً شہر کے باہر خیموں میں ٹھہرایاجاتا؛ تاآں کہ مستقل رہائش کا معقول انتظام نہ ہوجاتا ، آباد کاری کے دو طریقے اختیار کیے گئے اولا ًیا تو کسی ذی ثروت انصاری مسلمان کو کہہ دیاجاتا کہ وہ ایک مہاجر کی رہائش کا اپنے ہاں انتظام کرلیں؛ مگرخیال رہے کہ صرف شروع کے ایام میں ایساکیاگیاجبکہ اسلامی ریاست صحیح طرح صورت پذیر نہیں ہوئی تھی او رنہ ہی منظم تھی ۔
مہاجروں کو ٹھہرانے کے لیے عموما ًبڑے بڑے مکانات تعمیر کیے گئے تھے ۔ یہ مکانات کئی کمروں پر مشتمل تھے ، ایک کمرہ ایک خاندان کو دیاجاتا؛ البتہ ایسے مکانات میں باورچی خانہ وغیرہ مشترکہ ہوتا، اندازہ ہوتاہے کہ حضور صلى الله عليه وسلم نے مدینہ کی کالونی میں سرکاری طور پر علٰحدہ رہائش کے لیے جومکانات بنوائے وہ تین کمروں کے تھے ، (ماخوذ از ادب المفرد :امام بخاری )
عہد نبوی صلى الله عليه وسلم کے اواخر میں مدینہ کاشہر مغرب میں بطحا تک ، مشرق میں بقیع الغرقد تک ، اور شمال مشرق میں بنی ساعدہ کے مکانا ت تک پھیل چکا تھا ، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اب وہاں مزید مکانات تعمیر کرنے سے روک دیا، شہری منصوبہ بندی کے ضمن میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اقدام زبر دست اہمیت کا حامل ہے ، اس کی اہمیت کا اندازہ وہی کرسکتے ہیں، جنھیں جدید صنعتی شہروں کے اخلاق باختہ اور انتشار انگیز معاشرہ کا قریبی مطالعہ کرنے کا موقع ملاہو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہرِ نو (مدینہ) کو ایک خاص حد سے متجاوز نہ ہونے دیا ، اور اس شہر کی زیادہ سے زیادہ حد (۵۰۰)پانچ سو ہاتھ مقرر کی ، اور فرمایا کہ شہر کی آبادی اس حد سے بڑ ھ جائے تو نیا شہر بسائیں اور آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی زندگی میں بھی اس اصول پرعمل کرتے ہوئے دو اقدام کیے ، ایک یہ کہ اضافی آبادی کو یاتو اور زمینوں میں منتقل کرنے کا حکم جاری کیا، تاکہ اس طرح ایک طر ف زرعی انقلاب برپا کیا جاسکے اور دوسری طرف نئے لوگوں کی رہائش کے لیے گنجائش نکالی جاسکے ،دوسری طر ف یہ کہ قریظہ اور نضیر کی مفتوحہ بستیوں یاجوف مدینہ کے دیگر قریوں میں پھیلا دیا؛ تاکہ ایک جانب معاشرتی ناہمواریاں پیدا ہونے کے امکانات ختم ہوجائیں اور دوسری طرف صحت مند اور تعصبات سے پاک معاشرہ تخلیق کیا جاسکے ، اس میں مبالغہ نہیں ہے کہ رسالت مآب صلى الله عليه وسلم نے اپنے مقاصد میں حیرت انگیز کامیابی حاصل کی (نسائی ، کتاب الصلاة )
آج کل کچھ مغربی ممالک میں ٹاؤن پلاننگ کے انھیں ذریں اصولوں پر جنھیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے چودہ سو سال پہلے آزمایاتھا، عمل کرکے معاشرتی ہیجان اور تہذیبی انتشار کی شدت کو کم کرنے میں، ایک حد تک کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں ۔
عہدنبوی ﷺ کا شہری نظام :
مدینہ منور کی شہری ریاست دس برس کے قلیل عرصہ میں ارتقاء کی مختلف منزلیں طے کر کے ایک عظیم اسلامی ریاست بن گئی ، جس کے حدودِ حکمرانی شمال میں عراق وشام کی سر حدوں سے لے کر جنوب میں یمن وحضر موت تک ، اور مغرب میں بحرِ قلزم سے لے کر مشرق میں خلیج فارس و سلطنتِ ایران تک وسیع ہوگئیں اور علمی طور سے پورے جزیزہ نمائے عرب پراسلام کی حکمرانی قائم ہوگئی ۔
اگر چہ شروع میں اسلامی ریاست کانظم ونسق عرب قبائلی روایات پر قائم واستوار تھا تا ہم جلد ہی وہ ایک ملک گیر ریاست اور مرکزی حکومت میں تبدیل ہوگئی ، یہ عربوں کے لیے ایک بالکل نیاسیاسی تجربہ تھا؛کیونکہ قبائلی روایات اور بدوی فطرت کے مطابق وہ مختلف قبائلی ، سیاسی اکائیوں میں منقسم رہنے کے عادی تھے ، یہ سیاسی اکائیاں آزاد وخود مختار ہوتی تھیں، جوایک طرف قبائلی آزادی کے تصور کی علمبرداری تھیں تو دوسری طرف سیاسی افراتفری اور اس کے نتیجہ میں تسلسل سیاسی چپقلش ، فوجی تصادم اور علاقائی منافرت کی بھی ذمہ دار تھیں ، عربوں میں ناصرف مرکزیت کافقدان تھا؛ بلکہ وہ مرکزی اور قومی حکومت کے تصور سے بھی عاری تھے کہ یہ نظریات ان کی من مانی قبائلی آزادی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے تھے ، وہ کسی ”غیر“کی حکمرانی تسلیم ہی نہیں کرسکتے تھے ، یہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کاسیاسی معجزہ ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے دشمن قبائل عرب کو ایک سیسہ پلائی ہوئی قوم میں تبدیل کردیا اور ان کی ان گنت سیاسی اکائیوں کی جگہ ایک مرکزی حکومت قائم فرمادی، جس کی اطاعت بدوی اورشہری تمام عرب باشندے کرتے تھے ، اس کا سب سے بڑا؛ بلکہ واحد سبب یہ تھا کہ اب ”قبیلہ یاخون “ کے بجائے ”اسلام یادین “معاشرہ وحکومت کی اساس تھا، اسلامی حکومت کی سیاسی آئیڈیالوجی اب اسلام اور صرف اسلام تھا، جن کو اس سیاسی نصب العین سے مکمل اتفاق نہیں تھا ان کے لیے بھی بعض اسباب سے اس ریاست کی سیاسی بالادستی تسلیم کرنی ضروری تھی ۔
ڈاکٹر حمید اللہ نے اسے پہلا تحریری دستور قرار یاہے ،وہ لکھتے ہیں :
”مدینہ میں ابھی نِراج کی کیفیت تھی اور قبائلی دور دورہ تھا ، عرب اوس اور خزرج کے بارہ قبائل میں بٹے ہوئے تھے اور یہود بنوالنضیر و بنوقریظہ وغیرہ کے دس قبائل میں تھے ، ان میں باہم کئی کئی نسلوں سے لڑائی جھگڑے چلے آرہے تھے ، اور کچھ عرب کچھ یہودیوں کے ساتھ حلیف ہوکر باقی عربوں اور ان کے حلیف یہودیوں کے حریف بنے ہوئے تھے ۔ ان میں مسلسل جنگوں سے اب دونوں تنگ آچکے تھے اور وہاں کے کچھ لوگ غیر قبائل خاص کر قریش کی جنگی امداد کی تلاش میں تھے ؛ لیکن شہر میں امن پسند طبقات کوغلبہ ہورہاتھا اور ایک بڑی جماعت اس بات کی تیاری کررہی تھی کہ عبد اللہ بن ابی بن سلول کوبادشاہ بنادیں ؛ حتی کہ بخاری اورابن ہشام وغیرہ کے مطابق اس کے تاج شہر یاری کی تیاری بھی کا ریگروں کے سپر د ہوچکی تھی ، بلاشبہ حضور صلى الله عليه وسلم نے بیعة عقبہ میں بارہ قبائل میں بارہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے نقیب مقرر کرکے مرکزیت پیدا کرنے کی کوشش فرمائی تھی ، مگر اس سے قطع نظر وہاں کے ہر قبیلے کاالگ راج تھا ، اور وہ اپنے اپنے سائبان میں اپنے معاملات طے کیا کرتاتھا ، کوئی مرکزی شہری نظام نہ تھا ، تربیت یافتہ مبلغوں کی کوششوں سے تین سال کے اندر شہر میں کچھ لوگ مسلمان ہوچکے تھے ؛ مگر مذہب ابھی تک خانگی ادارہ تھا ، اس کی سیاسی حیثیت وہاں کچھ نہ تھی ، اور ایک ہی گھر میں مختلف مذاہب کے لوگ رہتے تھے ، ان حالات میں حضور صلى الله عليه وسلم مدینہ آتے ہیں، جہاں اس وقت اور متعدد فور ی ضرور تیں تھیں :
۱- اپنے اور مقامی باشندوں کے حقوق و فرائض کاتعین ۔
۲- مہاجرینِ مکہ کے قیام اور گزربسر کاانتظام ۔
۳- شہرکے غیر مسلم عربوں او رخاص کریہودیوں سے سمجھوتہ ۔
۴ – شہر کی سیاسی تنظیم اور فوجی مدافعت کااہتمام ۔
۵- قریشِ مکہ سے مہاجرین کوپہنچے ہوئے جانی و مالی نقصانات کابدلہ ۔
ان ہی اغراض کے مدنظر حضور صلى الله عليه وسلم نے ہجرت کرکے مدینہ آنے کے چند مہینہ بعد ہی ایک دستاویز مرتب فرمائی ،جسے اسی دستاویز میں کتاب و صحیفہ کے نام سے یاد کیا گیاہے ، جس کے معنی دستور العمل اور فرائض نامہ کے ہیں ، اصل میں یہ شہر مدینہ کو پہلی دفعہ شہری ملکیت قرار دینااور اس کے انتظام کا دستور مرتب کرنا تھا “(ڈاکٹر حمید اللہ کی بہترین تحریریں :مرتب قاسم محمود،ص :۲۵۳)
اس میثاق کے بنیادی نکات یہ تھے :
۱- آبادیوں میں امن و امامن قائم رہے گا ؛تاکہ سکون سے نئی نسل کی تربیت کی جاسکے۔
۲- مذہب اور معاش کی آزادی ہوگی ۔
۳- فتنہ وفساد کوقوت سے ختم کیاجائے گا ۔
۴- بیرو نی حملوں کا مل کر مقابلہ کیاجائے گا ۔
۵- حضورِ اکرم صلى الله عليه وسلم کی اجازت کے بغیر کوئی جنگ کے لیے نہیں نکلے گا ۔
۶- میثاق کے احکام کے بارے میں اختلاف پیدا ہو تو اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم سے رجوع کیاجائے گا۔
اس معاہدے میں مسلمانوں ، یہودیوں اور مختلف قبیلوں کے لیے ،الگ الگ دفعات مرقوم ہیں، یہ اصل میں مدینہ کی شہری مملکت کے نظم و نسق کا ابتدائی ڈھانچہ تھا، یہاں واضح طور پر یہ بات ذہن میں رہے کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم یونان کی شہری ریاستوں کی طرح کوئی محدود ریاست قائم کرنا نہیں چاہتے تھے؛ بلکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک عالمگیر مملکت کی بنیاد ڈالی تھی، جو مدینہ کی چند گلیوں سے شروع ہوئی اور روزآنہ ۹۰۰ کلومیٹر کی رفتار سے پھیلتی رہی ، اس وقت دس لاکھ مربع میل کی مملکت تھی جب اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا (محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم : ڈاکٹر حمید اللہ )
اس عالمگیر مملکت کے تصور کو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھایا اور سو برس کے اندر اندر یہ تین براعظموں میں پھیل گئی ۔
اس میثاق یعنی صحیفہ میں بلدیاتی نظام کے تعلق سے حسب ذیل امور سامنے آتے ہیں :
۱- امن و امان کاقیام ۔
۲- تعلیم و تربیت کی سہولتیں ۔
۳- روزگار ، سکونت اور ضروریات زندگی کی فراہمی ۔
موجودہ دو رمیں شہری حکومت کے مقاصد کچھ اس طرح ہوتے ہیں :
۱- شہر کی گلیوں اور شاہ راہوں کابندوبست ، مارکیٹوں کی تعمیر ، رہائشی انتظامات ۔
۲- پینے کے پانی کی فراہمی اور تقسیم ۔
۳- گندے پانی کی نکاسی ، کوڑے کرکٹ کے پھینکوانے کا بندوبست ۔
۴- تعلیم ، علاج ، دیگر فلاحی ادارں ، کھیل کے میدانوں کا قیام ۔
۵- چمن بندی اور شہر کی خوبصورتی اور تفریح گاہوں کا انتظام ۔
۶- ان کاموں کے لیے مالی وسائل اور کاموں کا احتساب ۔
حضور پاک صلى الله عليه وسلم کی احادیث سے ہمیں بلدیاتی نظام کے بہت سے اصول ملتے ہیں ،جہاں تک محکمہٴ احتساب کا تعلق ہے ، فارابی ، ماوردی اور اور طوسی اسی کی موافقت میں ہیں ؛ماوردی نے محکمہ ٴ احتساب کی خصوصیات کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ محکمہٴ انصاف او رمحکمہٴ پولیس کے درمیان ایک محکمہ ہے ، محتسب کا فریضہ یہ ہے کہ اچھے کام جاری کرے اور برے کاموں کو روکے ۔
بلدیاتی نظام میں سب سے اہم سڑکوں ، پلوں کی تعمیراور دیکھ بھال کے علاوہ نئی شاہ راہوں کی تعمیر اور آئندہ کے لیے ان کی منصوبہ بندی کا کام ہوتاہے ۔بعض لوگ ذاتی اغراض کے لیے سڑکوں کو گھیر لیتے ہیں ، بعض مستقل طورپر دیواریں کھڑ ی کر لیتے ہیں ، فقہِ اسلامی میں اس کے بارے میں واضح احکام ملتے ہیں؛ صحیح مسلم کی ایک روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضى الله عنه کہتے ہیں کہ ”اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: جب تم راستے میں اختلاف کرو تو اس کی چوڑائی سات ہاتھ ہوگی ، اس سے کم گلی بھی نہیں ہوسکتی ۔ “(صحیح مسلم)
حضور اکرم صلى الله عليه وسلم نے سڑکوں پر گندگی ڈالنے سے روکا ہے ، آپ صلى الله عليه وسلم نے سڑکوں پر سے رکاوٹ کی چھوٹی موٹی چیز کو ہٹا دینے کو صدقہ قرار دیا ہے ، سڑکوں پر سایہ دا ر درخت لگانے کا حکم ہے ۔ ابوللیث سمر قندی رحمة الله عليه اپنے ایک فتویٰ میں لکھتے ہیں کہ ”کسی سمجھ دار آدمی کے لیے یہ بات زیبا نہیں کہ وہ راستہ پر تھوکے یاناک صاف کرے ،یاکوئی ایساکام کرے، جس سے سڑک پر پیدل چلنے والے کے پا وٴں خراب ہوجائیں ، اسلام کا قانون حق آسائش اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ سڑک پر کوئی عمارت بنائی جائے “
سڑکوں پر بیٹھ کر باتیں کرنے اور راستہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے سے آپ صلى الله عليه وسلم نے منع کیا ہے ، آپ صلى الله عليه وسلم نے جانوروں تک کے لیے راستہ کی آزادی برقرار رکھی ہے ،
قبل از اسلام مدینہ کی گلیوں میں گندے پانی کی نکاسی کا انتظام نہ تھا ، بیت الخلاء کااس زمانہ میں رواج نہ تھا؛ لیکن مسلمانوں کی آمد کی وجہ سے جب شہروں کی آبادی بڑھنے لگی تو پھر ان مسائل کا حل تلاش کیا گیا ۔شہر میں پینے کے پانی کی بہم رسائی کا سرکاری طورپر انتظام کیاگیا، مدینہ میں پینے کے لیے میٹھے پانی کے کنوئیں اورچشمے بمشکل دستیاب ہوئے ۔ حضرت عثمان رضى الله عنه نے جوخود بھی مدینہ کی نوآبادی میں رہتے تھے ،آن حضور صلى الله عليه وسلم کے حکم کے مطابق اہلِ مدینہ کے لیے یہودیوں سے میٹھے پانی کا کنواں بئرروماں خرید کر وقف کردیا ۔ (صحیح بخاری باب فضائل )
اسلام جسم و جان کی پاکیزگی او رظاہر و باطن کی صفائی پر بہت زیادہ زور دیتاہے ، وضو ، طہارت ، غسل کے احکامات اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے مسجدیں بناکر وہاں طہارت خانہ تعمیر کر نے کی ہدایت جاری کی ، اسلام کے عمومی مزاج اور آپ صلى الله عليه وسلم کے اس فرمان کے بعد گھر گھر غسل خانے بن گئے ۔ ہرمسجد کے ساتھ طہارت خانہ تعمیر کیے گئے ۔(ابن ماجہ)
ہجرت سے قبل مدینہ میں ناجائز تصرفات عام تھے ، رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے اسے سختی سے منع فرمادیا ، گلی یا کوچہ کی کم سے کم چوڑائی جھگڑا ہوجانے کی صورت میں سات ہاتھ ”ذراع“ مقرر کی گئی۔ (صحیح مسلم ) جوفِ مدینہ کی آبادیوں میں گلیاں عام طور پر تنگ ہوتی تھیں ، اس لیے مدینہ میں بھی کوچہ تنگ، مگر سیدھے تھے ، باوجود یہ کہ آپ صلى الله عليه وسلم کا اور دیگر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مکانات مختصر تھے، مگرعام طورپر آپ صلى الله عليه وسلم نے کشادہ مکانات کوپسند کیا اور فرمایا ”خوش بخت ہے وہ شخص جس کی جائے رہائش وسیع اور پڑوسی نیک ہوں“(امام بخاری ۔ باب ادب المفرد)
حفظانِ صحت کا خیال رکھنا اسلامی زندگی کا بنیادی نظریہ ہے ، صفائی اورپاکیزگی کو اسلام نے نصف ایمان کا درجہ دیاہے ، گھر، گھر کے باہرکا ہر مقام، اپنے جسم ، اپنے کپڑوں کی پاکی کاحکم بار بار آیا ہے، مسجدوں کو پاکیزگی کے نمونے کے طورپر پیش کیا گیا ہے، سرکاری عمارتوں کو پاک صاف رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ، احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ بعض بدوی مسجدبنوی کی دیواروں پر تھوک دیتے تواللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم اپنے ہاتھوں سے اس جگہ کوصاف کرتے تھے، وضو اور غسل کا نظام ، غلاظت سے صفائی کے احکام ، چوپال ، کھلیانوں کی جگہ ، دریاؤں کے کنارے اور تفریح کے مقامات کو پاک صاف رکھنا حفظانِ صحت کے اصول کے مطابق بھی ہے اور اس میں شائستگی کا اظہار بھی ہے۔
حفظانِ صحت ہی کے اصول کے تحت بلدیاتی نظام میں کھانے پینے کی چیزوں کے خالص بونے پر زور دیاگیا ہے ، ملاوٹ کر نے والوں کے لیے سخت سزائیں اور عذاب کی وعید ہے ، پینے کے پانی کوصاف رکھنے اور گندے پانی کی نکاسی کے احکام بھی اسی عنوان کے تحت آتے ہیں ، اسی عنوان سے متعلق بیماریوں کے علاج کی سہولتیں بھی ہیں، ان میں وباوٴں کے خلاف حفاظتی تدابیر اور ہر وقت ان کے انسداد کی ذمہ داری شہری حکومت پر ہے ۔
سایہ ، چمن بندی ، عوامی تفریح گاہوں کا انتظام بھی عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے ، مثلاً سورئہ عبس میں ارشاد ربانی ہے کہ” ہم نے زمین سے اناج اگایا اور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھنے باغ اور میوے اور چارا ،یہ سب کچھ تمہاے اور تمہارے چوپایوں کے لیے بنایا ہے “(سور ئہ عبس آیت : ۳۲۔۲۷)
ہجرت کے وقت مدینہ باغوں کی سرزمین کہلاتا تھا ، اور یہاں کے لوگ باغات کے بہت شوقین تھے، رسول صلى الله عليه وسلم نے شہر اورمسجد کی تعمیر کے وقت یہ کوشش کی کہ وہاں موجود کھجور کے درختوں کو کم سے کم نقصان پہنچے، مسجد النبی صلى الله عليه وسلمکے دروازہ کے قریب کھجور کے درختوں کا ذکر کتب احادیث میں ملتا ہے ، جہاں غسل خانہ اور طہارت خانہ بھی تھا اور کنواں بھی اسی جگہ تھا ، مسجد النبی صلى الله عليه وسلم کے بڑے دروازہ کے بالمقابل حضر ت ابو طلحہ انصاری رضى الله عنه کا وسیع و شاداب باغ بیر حاء تھا ، جہاں حضورپاک صلى الله عليه وسلم اکثر تشریف لے جاتے ۔( صحیح بخاری ، نسائی ، ابن ماجہ )
مدینہ میں نکاسیِ آب کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آیا؛ کیوں کہ شہر اونچی ڈھلوانی جگہ پر تھا ، اکثر کہیں سے کوئی پہاڑ ی ندی ، نالہ گذر تا تھا تو وہاں باندھ کے ذریعہ عمارات اور تعمیرات کو محفوظ بنادیاگیا تھا ۔
ہجرت کے بعد مدینہ میں خرید و فروخت کی سہولت کے لیے علاحدہ منڈی یابازار بنادیا گیا، خیال یہ ہے کہ یہ منڈی بنو قینقاع کے اخراج (۳ھء)کے بعد قائم ہوئی ہوگی؛ کیونکہ اس سے پیشتر عبد الرحمن بن عوف رضى الله عنه اوردوسرے تجارت پیشہ مسلمان اپنا کاروبار قینقاع کے بازار میں کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم )
مدینے کا بازار مسجد النبی صلى الله عليه وسلم سے کچھ زیادہ فاصلہ پر نہ تھا ، بازار خاصہ وسیع و عریض تھا اور آخر عہد بنوی میں نہایت بارونق اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا تھا ، تجارت کے فروغ کے لیے جناب رسالت مآب صلى الله عليه وسلم نے زبردست کوششیں کی،جن میں سب سے اہم آپ صلى الله عليه وسلم کا یہ فرمان تھا۔ ”مدینہ کی منڈی میں کوئی خراج نہیں ہے “(فتوح البلدان، بلاذری )
زمانہٴ جاہلیت میں خفارہ کا نظام اور قدم قدم پر محصول چنگی کی وجہ سے تجات میں بڑ ی رکاوٹیں تھیں ، آپ صلى الله عليه وسلم نے مختلف سیاسی اور عسکری مصالح کے پیش نظر یہ حکم صادر فرمایا جو دور رس نتائج کاسبب تھا ، اور دراصل اس طرح آپ صلى الله عليه وسلم نے چنگی کی لعنت ہی ختم نہ کی؛ بلکہ جزیرة العرب کی تسخیر کے بعد تمام ملک میں ، مدینہ کی طرح آزادانہ درآمدات او ر برآمدات کی اجازت دے کر بین الاقوامی آزاد تجارت کی داغ بیل ڈالی اور جدید تحقیقات نے اس بات کا نا قابل تردید ثبوت فراہم کردیا ہے کہ آزاد بین الاقوامی تجارت نہ صر ف اقوام و ملل کے لیے، بلکہ پوری نو عِ بشر کی مادی ترقی کے لیے ضروری ہے ، جس کے ذریعہ بین الاقوامی طورپر اشیاء کی قیمتیں متوازن رکھ کر عوام کوفائدہ پہنچایاجاسکتاہے اس طرح اقوام خوشحال بن سکتی ہیں ۔
مدینة النبی صلى الله عليه وسلم میں یہ کام اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم خود انجام دیتے تھے ۔ حضور سرورِ کائنات صلى الله عليه وسلم مدینہ کے بازاروں میں نکلتے تو جگہ جگہ رک کر ، ناپ تول کر ، پیمانہ دیکھتے ، چیزوں میں ملاوٹ کا پتہ لگاتے ، عیب دار مال کی چھان بین کرتے ، گراں فروشی سے روکتے ، استعمال کی چیزوں کی مصنوعی قلت کا انسداد کرتے ؛ اس ضمن میں سید نا حضرت عمر رضى الله عنه ، حضر ت عبیدہ بن رفاعہ رضى الله عنه ، حضرت ابو سعید خدری رضى الله عنه ، حضرت عبداللہ بن عباس رضى الله عنه ، حضرت ابوہریر ہ رضى الله عنه ،حضرت انس رضى الله عنه، حضرت ابو امامہ رضى الله عنه ، حضرت عبداللہ بن مسعود رضى الله عنه، حضرت عائشہ صدیقہ رضى الله عنها ، حضرت علی رضى الله عنه اوردیگر صحابہ کرام رضى الله عنه کی بیان کردہ حدیثیں اصولوں کی تعین کرتی ہیں ۔
تحریر : اسد اللہ خاں شہیدی ،شعبہٴ دینیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی