تحریر :ڈاکٹر محمد اکرم چودھری
مترجم: علی اصغر سلیمی
آرتھر جیفری ایک آسٹریلوی نژاد امریکی مستشرق ہے۔ اس نے قرآن حکیم کے دیگر مختلف پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس کی مختلف قراء توں پربھی قابل ذکر کام کیا ہے۔ قرآن حکیم کی مختلف قراء توں کے اسی موضوع پر مضمون ہذا میں بحث کی جائے گی آرتھر جیفری کے علمی کاموں میں نمایاں ترین کامMaterials for the History of the Text of the Quran ہے جو۔ ای۔ جے برل (E.J.Brill) نے لیڈن سے ۱۹۳۷ء میں جاری کیا۔ یہ ابوبکر عبداللہ بن ابی داؤد سلیمان السجستانی رحمہ اللہ (متوفی ۳۱۶ھ) کی کتاب ’المصاحف‘کے ساتھ پیش کیاگیا۔ جس کو آرتھر جیفری نے مدون کیا۔ اس نے قرآن حکیم کی تدوین اور اس کی مختلف قراء توں کے مضامین پر مشتمل دو مزید مسودات بعنوان ’مقدمتان فی علوم القرآن‘ بھی مدون کئے۔ ان میں سے ایک کتاب المبانی کا مقدمہ ہے جس کے مصنف کا علم نہیں ہے، کیونکہ مقدمہ کا پہلا صفحہ غائب ہے۔ البتہ مسودہ کے دوسرے صفحہ پر مصنف کا یہ نوٹ موجود ہے کہ اس نے اس کتاب کو ۴۲۵ھ میں لکھنا شروع کیا اور اس کا نام کتاب المبانی فی نظم المعانی رکھا۔
دوسرا مسودہ ابن عطیہ( متوفی ۵۴۳ھ؍۱۱۴۷ء) کا ہے۔ یہ مقدمہ دراصل ابن عطیہ نے اپنی تفسیر الجامع المجرد کے مقدمہ کے طور پر تحریر کیاتھا۔نولڈیکے(Noeldeke) اور اس کے شاگرد شوالی (Schwally)دونوں نے بھی انہی دو مقدموں کو علوم قرآن سے متعلق اپنی تحقیقی نگارشات کی بنیاد بنایا ہے۔ان دو مقدموں کی زبان، اسلوب بیان اور اسناد سے ظاہرہوتا ہے کہ ان کے مصنفین کاتعلق مسلم سپین سے تھا۔ جیفری نے علوم قرآن کے بارے میں دیگر متعدد مضامین بھی تحریرکئے جو’دی مسلم ورلڈ‘(The Muslim World)سمیت دیگر رسائل میں شائع ہوتے رہے۔ قاہرہ میں امریکن ریسرچ سنٹر کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کولمبیا یونیورسٹی میں سامی زبانوں کے پروفیسر کے طور پر(Union Theolagical Semenery) میں بطور جزوقتی استاد آرتھرجیفری نے بائبل کی تعلیمات پر گراں قدر کام کے ساتھ ساتھ قرآن حکیم کے بارے میں بھی تحقیقی کام جاری رکھی۔ چنانچہ اختلاف قراء ات قرآنیہ کے موضوع کے ساتھ ساتھ اس نے قرآن حکیم کے دیگر پہلوؤں، مثلاً قرآن میں استعمال ہونے والے غیر عربی الفاظ (Foreign Vocabulary of the Quran) تدوین قرآن اور قرآن کے یہودی و عیسائی مآخذ جیسے موضوعات پر بھی خامہ فرسائی کی۔ اس نے چند منتخب قرآنی سورتوں کے تراجم بھی کئے جس میں اس نے ان سورتوں کی ترتیب ِنو کو متعارف کرایا تاکہ وہ ’بزعم خود‘ حضرت محمدﷺ کی فکر میں ارتقاء کو ثابت کرسکے۔
دراصل آرتھر جیفری مستشرقین کے اس طبقہ ثانی سے تعلق رکھتا ہے جنہوں نے نوآبادیاتی دور کے بعد زبان و بیان کے اسرار و رموز اور لسانیاتی مباحث کو اپنا موضوع تحقیق بنایا اور انہیں اپنے پیشرو مستشرقین کی طرح افریقہ اور ایشیاء کے مسلم علاقوں میں نو آبادیاتی آقاؤں کے مشیر بننے کا موقع نہ مل سکا۔ اب ایک جست اور آگے لگاتے ہوئے دورِ جدید کے مستشرقین مثلاً برنارڈ لومیس(Bernard Lemis) اور جان ۔او۔ وال(John. O.Voll) علاقائی اور اسلامی ثقافت کے مطالعہ کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔ قرآن حکیم کومطالعہ کا میدان بناتے ہوئے جیفری کو اچھی طرح معلوم تھاکہ مسلمانوں کے نزدیک قرآن حکیم کاحقیقی مقام و مرتبہ کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے۔
’’عیسائیت بائبل کے بغیر زندہ رہ سکتی ہے۔مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام قرآن کے بغیرقطعی طور پر زندہ نہیں رہ سکتا۔ غالباً اسلامی نظام حیات کے لیے قرآن حکیم کی اسی اہمیت نے جیفری کو اپنی زندگی اس کے مطالعہ و تحقیق میں کھپانے پر آمادہ کیا۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ’’قرآن نبیﷺ کی تصنیف ہے اور اس کے حرف آغاز سے حرف آخر تک قرآن پر محمدﷺ کی مہرصاف طور پر جھلکتی ہے۔‘‘ جیفری نے منتخب قرآنی سورتوں کا خود ساختہ نئی ترتیب نزولی کے مطابق ترجمہ کیا اور اس نے تقریباً چھ ہزار ایسے مقامات کی نشاندہی کی جو کہ مصحف عثمانی سے مختلف تھے۔ اس نے قراء ات کے یہ سارے اختلاف تفسیر، لغت، ادب اور قراء ت کی کتابوں میں سے جمع کئے۔ اس کام کے لیے ابن ابوداؤد کی کتاب’کتاب المصاحف‘ اس کا بنیادی ماخذ رہی۔
جیفری ایڈن برگ کے بل (Bell)اور ییل(Yale) کے ٹوری (Torry) کے آزادانہ مطالعہ و تحقیق کا بڑا مداح اور مؤید ہے اور وہ ان دونوں کے انتقاد اعلیٰ(Higher Criticism) کے اُصولوں کا قرآن پر اطلاق اور ان کے اس نتیجے پر پہنچنے پر بھی رطب اللسان ہے کہ
’’محمدﷺ تحریری مواد جمع کرتے رہے۔ اس کی چھان پھٹک کرتے رہے اور اسے ایک مرتبہ کتاب کی شکل دینے کے لیے اس پرنظرثانی کرتے رہے تاکہ وہ اسے اپنی کتاب کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کرسکیں(مگر) پیغمبرﷺ اس کتاب کو مرتب اور مکمل شکل میں پیش کرنے سے قبل ہی وفات پاگئے ۔
بل اور ٹوری کی پیروی میں جیفری بزعم خود ان کے انتقاد اعلیٰ کے اُصولوں کا نصوص قرآن پر اطلاق کادعویٰ کرتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کی نامزد کمیٹی نے سرکاری نسخہ میں قرآن کے نام سے جومواد جمع کیا وہ یقیناً محمدﷺ سے درست طور پر منسوب ہے ماسوائے چند آیات کے جن کی اسناد مشکوک ہیں۔ تاہم کمیٹی نے ایک بہت بڑا مواد جو اس وقت کے اہم علمی مراکز میں پائے جانے والے قرآنی نسخہ جات میں موجود تھا، کو نظر انداز کردیا اور ایسا بہت سارا مواد قرآن میں شامل کردیا اگر محمدﷺکو کتاب کے حتمی شکل دینے کا موقع ملتا تو وہ اس مواد کوشامل نہ کرتے۔
یہ امر دلچسپی سے سے خالی نہیں کہ جیفری مصحف عثمانی میں جس مواد کے شامل کئے یا نہ کئے جانے کا خیال بڑی معصومیت کے ساتھ پیش کرتا ہے اس کی کوئی ایک مثال بھی صحیح اسناد کے ساتھ پیش نہیں کرسکا۔ اختلاف قراء ات پرمبنی روایات کاجو ذخیرہ اس نے (Materials) میں پیش کیا ہے ان روایات کی اسناد خود جیفری کے اعتراف کے مطابق مکمل ہیں اور نہ مستندi جیفری قرآن حکیم کو نبی اکرمﷺ کا کلام ثابت کرتے ہوئے قرآن کے پیرایہ اظہار کو غیر واضح اور غیر معیاری کہتا ہے مگر اس بارے میں وہ اپنے دعویٰ کی صداقت کے لیے کوئی ثبوت پیش نہیں کرتا۔
جیفری نے کئی سالوں تک قرآن حکیم کی متعدد قراء توں کے بارے میں مواد اکٹھا کیا۔ پھر قرآن حکیم کا تنقیدی نسخہ تیارکرنے کے لیے ۱۹۲۶ء میں پروفیسر برجسٹراسر (Bergstrasser) جس نے میونخ میں قرآن محل(Quranic Archive) بنایاہوا تھا، کے ساتھ اشتراک کیا۔ برجسٹراسر ۱۹۳۳ء میں راہی ملک عدم ہوا تو جیفری نے قرآن محل کے نئے ڈائریکٹر اور پروفیسر برجسٹراسر کے جانشین ڈاکٹر اوٹو پریکشل(Oto Pretzl) کے ساتھ اشتراک عمل جاری رکھا ’بدقسمتی‘ سے پریکشل دوسری جنگ عظیم کے دوران سباسٹوپل(Sebastopal) کے باہر ہلاک ہوگیا۔ اور اتحادی فوجوں کی بمباری سے سارا قرآن محل جل کر خاکستر ہوگیااور عمارت بھی تباہ و برباد ہوگئی۔ اسی طرح قرآن حکیم کے تنقیدی ایڈیشن کو روبہ عمل لانے کا عظیم منصوبہ شرمندہ تکمیل نہ ہوسکا۔ اس ناکامی پر جیفری اپنی تکلیف اور ذہنی اذیت ان الفاظ میں بیان کرتاہے۔
’’اب یہ امر تقریباً ناممکن ہے کہ ہماری نسل قرآنی متن کاحقیقی تنقیدی نسخہ دیکھ سکے۔‘‘
دراصل جیفری قرآن کے تنقیدی نسخے کو اس طرح مرتب کرنا چاہتا تھا کہ ایک صفحے پرکوفی خط میں متن قرآن ہو اس کے سامنے دوسرے صفحے پر تصحیح و تنقیح شدہ حفص روایت ہو اور حواشی (Footnotes)میں قرآن حکیم کی تمام معلوم مختلف قراء توں کو بیان کردیا جائے۔ جیفری اپنی اس خواہش کے مطابق مکمل قرآنی نسخہ لانے میں تو کامیاب نہ ہوسکا مگر مصحف عثمانی کے مقابلm (Rival) دیگر نسخہ جات کو ڈھونڈ نکالنے میں اس نے بڑی عرق ریزی سے کام لیا۔ اور اسلامی علوم کے ورثہ میں سے مختلف قراء توں کی بنا پر ۱۵’بنیادی‘ اور ۱۳ ’ثانوی نسخہ جات‘ کو پیش کرنے کی کوشش کی۔ اس نے ۱۵ ’بنیادی نسخہ جات‘ کو حضرات عبداللہ بن مسعود، ابی بن کعب، علی بن ابی طالب، عبداللہ بن عباس، ابوموسیٰ اشعری، انس بن مالک ، حفصہ، عمر بن خطاب، زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، ابن عمر، عائشہ، سالم، اُم سلمہ، عبید بن عمیررضی اللہ عنہم کی جانب منسوب کیا ۔
اور بعض ثانوی نسخہ جات کو بھی چند تابعین کی جانب منسوب کیا۔ جن میں سے کچھ کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں: ابوالاسود، علقمہ، سعید بن جبیر، طلحہ،عکرمہ، مجہد، عطا بن ابی رباح، الاعمش، جعفر صادق، صالح بن کیسان اور الحارث بن صویب رحمہم اللہ ان کے ساتھ ساتھ جیفری نے مختلف قراء توں پر مشتمل دیگر نسخہ جات کا ذکر بھی کیا ہے۔ مگر ان کے حاملین کے نام کا ذکر نہیں کیا، یہاں یہ حقیقت یاد رکھنے کے لائق ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین میں سے جس کے نام سے بھی جیفری نے کوئی نسخہ منسوب کیا ہے ان میں سے کسی کے پاس بھی دو نسخہ تحریری شکل میں موجود نہ تھا اور نہ ہی ان میں سے کوئی اس نسخے کو قرآن حکیم کے مقابلے میں اپنے پاس رکھنے کا دعویدار تھا۔ مگر جیفری نے مصحف عثمانی میں موجود قراء ت سے کسی ایک مقام پر یا چند مقامات پر اختلاف کی بنا پر مندرجہ بالا اصحاب کو مقابل قرآن کا حامل بنا دیا۔ قطع نظر اس کے کہ اختلاف کرنے والے کو مصحف عثمانی کے نافذ و رائج ہوجانے کے بعد اپنی قراء ت پر اصرار رہا یا اس نے اپنی رائے سے رجوع کرلیا۔
یہاں اس امر کا تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ متذکرہ بالاطبقہ اولیٰ میں سے بعض اصحاب رسول ﷺ کے پاس بنیادی مصاحف کا موجود ہونا کتاب المصاحف اور دیگر ماخذوں میں نقل کیا گیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے پاس قرآن حکیم کا اپنا نسخہ تھا حتیٰ کہ مصحف عثمانی کے نافذ و رائج ہونے تک یہ صورت حال برقرار رہی، لیکن ان نسخہ جات میں سے کوئی نسخہ اب صفحۂ ہستی پر موجود نہیں ہے۔ اس امر کا اعتراف کرتے ہوئے جیفری لکھتا ہے ’’ان نسخہ جات میں سے کوئی مناسب مواد باقی نہیں بچا جس کو پاکر ہم ان میں سے کسی نسخے کے متن کی صحیح شکل دیکھنے کے قابل بن سکتے۔‘‘
اس حقیقت کوتسلیم کرنے کے باوجود جیفری نے بعض نسخہ جات کو بنیادی قرار دے کر ان سے بعض کو ثانوی نسخہ جات کے ماخوذ ہونے پر بڑی محنت کی اور ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کن ثانوی نسخہ جات کے ڈانڈے کس بنیادی نسخہ سے ملتے ہیں اور کون سا نسخہ کس سے ماخوذ ہے۔
جیفری اپنی مصحف عثمانی سے قبل کی قراء توں کی جستجو کے سفر میں ابن شنبوذ (متوفی۳۲۸ھ) اور ابن مقسم (متوفی ۳۶۲ھ) کا بڑا مداح نظر آتا ہے جنہیں مصحف عثمانی کے نفاذ سے قبل کی غیر قانونی قرار دی جانے والی قراء توں کو اختیار کرنے سے منع کردیا گیا تھا۔
جیفری ابن مجاہد متوفی ۳۲۴ھ کا بڑا ناقد ہے، کیونکہ اس نے قرآن حکیم کی سات قراء تیں ترتیب دیں اورجو اس رائے کا حامل تھا کہ جائز اور صحیح صرف یہی قراء تیں ہیں اور یہ کہ مصحف عثمانی کی تلاوت کے جائز اور صحیح طرق یہی ہیں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بعد کے ماہرین قراء ت میں سے بعض نے تلاوت قرآن حکیم کے تین مزید اور بعض نے سات مزید طریقے متعارف کرائے جو کہ ابن مجاہد کی سات قراء توں پر اضافہ تھے۔ قراء ات قرآنیہ کے یہ تمام طرق مصحف عثمانی کی املاء کی بنیاد پراستوار کئے گئے اور اس ضمن میں قراء کی دلچسپی کا مرکز و محور صرف یہ تھا کہ تلاوت قرآن کے وقت رسم الخط اور وقف کے سوالات کو کس طرح حل کیا جاسکتا ہے اور اس ضمن کی الجھنوں کوکس طرح محدود کیا جاسکتاہے۔
جیفری مصحف عثمانی کی شاذ کتابت کی منفرد خصوصیات پر بحث کرتے ہوئے انہیں ایسی غلطیاں قرار دیتاہے جو کہ مصحف عثمانی میں اب تک موجود ہیں۔ وہ الدانی (متوفی ۴۴۴ھ) کو ہدف تنقید بناتا ہے، کیونکہ اس نے اپنی کتاب المقنع جو کہ کاتبین قرآن کے لیے کتابت کے بارے میں ہدایت پر مبنی ہے، میں الفاظ قرآن کو اسی طرح لکھنے پر زور دیا ہے جس طرح کہ وہ مصحف عثمانی میں پہلے سے لکھتے چلے آرہے تھے۔ مثلاً الدانی کااصرار ہے کہ ۱:۱۹ میں رحمت کو پوری ’ت‘ کے ساتھ لکھا جائے۔ ۳۶:۱۸ میں ’لکنا‘ کو ’لکن‘ کی بجائے پورے ’الف‘ کے ساتھ لکھا جائے، ۹۵:۲۰ میں’یبنؤم‘ نہ کہ ’یا ابن ام‘، ۴۷:۱۸ میں’مال ھذا‘ لکھا جائے کہ ’مالھذا‘ اور ۱۳۰:۳۷ میں ’ال یاسین‘ لکھا جائے نہ کہ ’الیاسین‘ اس سوال کی تفصیل میں جائے بغیر کہ مصحف عثمانی کی ترتیب توفیقی (اللہ کی طرف سے ہے یا نہیں اس امر کا تذکرہ نہایت ضروری ہے کہ مصحف عثمانی کے رسم الخط کی صحت پر صحابہ اور تابعین کااجماع ہے۔اس امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ مصحف عثمانی کی شاذ کتابت اکثر جگہوں پر غیر قریشی لہجوں پر مبنی ہے مثلاً بنوطے چھوٹی’ۃ‘ کی بجائے پوری ’ت‘ لکھتے ہیں۔
کتابت میں اختلاف کی بحث کو ہم یہ کہہ کرختم کرسکتے ہیں کہ مصحف میں صلوٰۃ اور زکوٰۃ میں ’و‘ کااضافہ یا اس جیسے دیگر معمولی ردّوبدل پراس قدر زور نہیں دینا چاہئے اور نہ ہی اس بارے میں غیر معمولی مبالغے سے کام لیناچاہئے۔ مصحف عثمانی کے رسم الخط کے بارے میں جملہ اعتراضات جو انگلیوں پرگنے جاسکتے ہیں، کا اسی قدر جواب کافی ہے کہ مصحف عثمانی کے امتیازات جنہیں جیفری اور دیگر مستشرقین املاء کی غلطیاں گردانتے ہیں۔ مسلمانوں نے گذشتہ صدیوں کے سفر میں محض اس لیے بحال رکھے کہ املاء کی درستگی کے نام پر کہیں تحریف کا دروازہ نہ کھل جائے۔
جیفری کے اختلاف قراء ات قرآنیہ کے نظریے کاتنقیدی تجزیہ کرنے کے لیے مناسب ہے کہ کسی ایک سورۃ کو مطالعے کے لیے منتخب کرلیاجائے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے ہم قرآن حکیم کی سب سے پہلی سورۃ کاانتخاب کرتے ہیں جیفری کے مطابق حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، سورۃ الفاتحہ میں درج ذیل الفاظ کی بجائے ان کے سامنے دیئے گئے الفاظ تلاوت فرمایاکرتے تھے۔ مالک کی بجائے ملک، إھدنا کی بجائے أرشدنا، إیاک کی بجائے ایاک، الذین کی بجائے من اور غیر کی بجائے غیر۔
٭ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا اس طرح پڑھنا روایت کیاگیا ہے:
مالک کی بجائے ملک یا ملیک، ایاک کی بجائے ایاک، اھدنا کی بجائے ثبتا اور دلنا
صراط المستقیم کی بجائے صراط مستقیم، الذین کی بجائے الذین اور لا کی بجائے غیر
٭ حضرت علی ابن طالب رضی اللہ عنہ سے اس طرح تلاوت کرنا منقول ہے:
مالک کی بجائے ملک یوم یا ملک، اھدنا کی بجائے ثبتا اور لا کی بجائے غیر۔
٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس طرح تلاوت کرنا منقول ہے:
صراط کی بجائے سراط م ان کا صراط کو ’س‘ سے پڑھنا پورے قرآن کو محیط تھا۔
٭ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس طرح تلاوت کرنا منقول ہے:
مالک کی بجائے ملک اور الذین کی بجائے من اور ولا الضالین کی بجائے وغیرالضالین
٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس طرح تلاوت کرنا منقول ہے:
مالک کی بجائے ملک
سورۃ الفاتحہ کی قراء ت کااختلاف جس طرح ابتدائی نسخوں میں مذکور ہے اس طرح ان کی پیروی میں ثانوی نسخہ جات جن کا ذکر اسی مضمون میں قبل ازیں کیا جاچکا ہے، میں بھی موجود ہے۔
ابی ربیع بن خیثم جو عام طور پر اختلاف قراء ات میں حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی پیروی کرتے ہیں،سے سورۃ الفاتحہ اور باقی پورے قرآن مجید میں بھی الصراط کو الزراط پڑھنا روایت کیا گیاہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ ہی کے ایک اور پیروکار الاعمش سے بھی پورے قرآن حکیم میں الصراط کی بجائے الزراط پڑھنا مذکور ہے۔سورۃ الفاتحہ کی جن مختلف قراء توں کاذکر جیفری نے اپنی کتاب (Materials) میں کیاہے کتب قراء ت میں ان کے علاوہ بھی متعدد قراء ات کاذکر موجود ہے۔مثلاً ابومحمدمکی بن ابو طالب القیسی (م ۴۳۷ھ) سورۃ الفاتحہ کی مذکورہ متعدد قراء توں کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام سے کچھ اور قراء تیں بھی منسوب کرتا ہے ، وہ لکھتا ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مالک کی بجائے ملیک تلاوت فرمایاکرتے تھے اور حضرت عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ کی طرح صراط الذین أنعمت کی بجائے صراط من أنعمت …تلاوت فرمایاکرتے تھے۔ ابومحمد مکی مزید لکھتا ہے کہ یحییٰ بن وثاب جو کہ ایک تابعی ہیں نستعین کی بجائے نستعین (ت پر زبر کی بجائے زیر) پڑھتے تھے اور ابوسوار الغنوی جوکہ عرب کے فصیح اللسان اور جادو بیان خطیبوں میں سے ایک ہے۔إیاک نعبد وإیاک کو ھیاک نعبد وھیاک پڑھا کرتے تھے ابن خالویہ (متوفی ۳۷۶ھ) الاصمعی کی سند کے ساتھ نقل کرتا ہے کہ ابوعمرو الصراط کو الزراط پڑھا کرتے تھے۔
جیفری نے اپنے مضمون ’سورۃ الفاتحہ کی مختلف نص‘ جو کہ ’دی مسلم ورلڈ‘ کی جلد۷۹ میں ۱۹۳۹ء کو شائع ہوا، میں سورۃ الفاتحہ کی مزید قراء توں کی بھی نشاندہی کی ہے۔ اس مضمون میں جیفری سورۃ الفاتحہ کی اس خصوصیت کے پیش نظر کہ وہ قرآنی تعلیمات کی جامع اور اسلام کے نظریہ توحیدکو نہایت وضاحت کے ساتھ پیش کرتی ہے، اسے خداوند (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) کی دعا (Lord’s Prayer)کے مماثل قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے رقم طراز ہے:
’’جب ہم سورۃ الفاتحہ کے مشتملات کا جائزہ لیتے ہیں تویہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ سورۃ الفاتحہ قرآن حکیم کے دیگر حصوں سے لیے گئے مضامین و تعلیمات کی جامعیت کا منظر پیش کرتی ہے یہ عین ممکن ہے کہ اسے دعا کے طور پر نبی اکرمﷺ نے خود بنایا ہو مگر اس کااستعمال اور اس کی موجود قرآن میں حیثیت قرآن کے مدون کرنے والوں کی مرہون منت ہے جنہوں نے تدوین قرآن کے وقت اسے قرآن کے آغاز میں لکھ دیا۔‘‘
اس مضمون میں جیفری نے سورۃ الفاتحہ کے دوسرے متن کو بعض شیعہ روایات کے حوالے سے بیان کیا ہے جوکہ تذکرۃ الائمہ مؤلفہ باقر مجلس(مطبوعہ تہران ۱۳۳۱ھ ،ص ۱۸) میں موجود ہے۔ واضح رہے کہ علامہ مجلسی کا بیان کردہ سورۃ الفاتحہ کایہ مختلف متن حضرت علی بن ابی طالب5 سے منسوب نہیں کیاگیا ہے۔متن درج ذیل ہے:
’’نحمد اﷲ رب العالمین،الرحمن الرحیم،ملاک یوم الدین،ھیاک نعبد و ویاک نستعین، ترشد سبیل المستقیم، سبیل الذین نعمت علیھم سوی المغضوب علیھم ولا الضالین‘‘
پھر جیفری سورۃ الفاتحہ کاایک اور غیرمصدقہ متن جوکہ مصحف عثمانی سے مختلف اور متعدد قراء توں پرمشتمل ہے، بڑے ہی عامیانہ اور صحافیانہ رنگ میں متعارف کراتا ہے۔ اس نئے متن کی روایت متصل نہیں ہے۔ مزید برآں مسودہ جس میں سورۃ الفاتحہ کا یہ متن مذکور ہے، کی تاریخ اشاعت اور اس کے ناسخ کا تعین بھی ممکن نہیں ہے۔ جیفری خود لکھتا ہے:
’’پچھلے موسم گرما میں قاہرہ میں مجھے اس طرح کااختلافی متن ملا۔یہ فقہ کے ایک چھوٹے سے رسالے میں درج ہے۔بدقسمتی سے اس رسالہ کے شروع کے صفحات غائب ہیں۔ جس کی بنا پر ہم اس رسالہ کے مصنف کا نام نہیں جان سکتے۔یہ شافعی فقہ کی قطعی غیر اہم تلخیص پر مبنی تحریر ہے۔ تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک سو پچاس سال یا اس سے کچھ قبل کاشکستہ خط میں لکھاہوا مسودہ ہے اور اس میں قراۃ شاذۃ لا لفاتحہ کے زیر عنوان سورۃ الفاتحہ کی دوسری قراء ت اندرونی صفحہ پردرج کی گئی ہے۔ مسودہ کسی شخص کی ذاتی ملکیت ہے۔ اگرچہ مسودے کا مالک مجھے اس عبارت کی نقل مہیاکرنے پر رضا مند تھا اور اس امر کی اجازت دینے پر بھی معترض نہ تھا کہ اگر یہ میرے کام کے لیے مناسب ہو تو میں اس کو استعمال کرلوں۔ مگر وہ اپنا نام ظاہر کرنے پرتیارنہ تھا کہ مبادا اس کے دقیانوسی ہمسایوں کو اس بات کاعلم ہوجائے کہ اس نے اپنی مقدس کتاب کی قبل از جمع و تدوین نسخے کی ابتدائی سورۃ کی تحریر ایک غیر مسلم کوفراہم کردی ہے۔‘‘
اس قراء ت سے شاذہ کامتن اس متن سے بہت زیادہ مشابہت رکھتا ہے جو کہ پہلے نقل کیاجاچکا ہے، ملاحظہ فرمائیے:
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
’’الحمد ﷲ سید العالمین،الرزاق الرحیم، ملاک یوم الدین، إنا لک نعبد وإنا لک نستعین، أرشدنا سبیل المستقیم،سبیل الذین مننت علیھم سوی المغضوب علیہم ولا الضالین‘‘ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ متن کے نیچے اس کی اسناد اس طرح درج ہے۔
’’روایۃ أبی الفتح الجبائی عن شیخہ السوسی عن النھروانی عن أبی العاداتی المیدانی عن المرزبانی عن الخلیل بن أحمد‘‘
اس روایت کو بیان کرنے کے بعد آخر میں اپنی رائے پیش کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’اس بات کاقوی امکان ہے کہ دور اوّلین میں تلاوت کی جانے والی سورۃ الفاتحہ کی دیگر پرانی قراء ات کے ساتھ ساتھ خلیل کو اس قراء ت تک بھی رسائی حاصل ہو۔ اس قراء ت کی سند کے بارے میں اتناکہہ سکتا ہوں کہ الخلیل سے لے کر الجبائی تک تو اس کی سند ملتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کی سند کاکچھ پتہ نہیں چلتا البتہ اس بات کاقوی امکان ہے کہ یہ خلیل سے نقل ہونے والے متن سے بہت متاخر ہو۔‘‘
قرآن حکیم کی ابتدائی سورۃ کی مذکورہ بالا مختلف قراء توں کے تجزیہ سے قبل ضروری ہے کہ اس سوال کاجائزہ لیا جائے کہ قرآن حکیم کی متعدد قراء توں کے وجود میں آنے کے اَسباب کیاتھے؟ یہ وہ موضوع ہے جس کے متعلق ’کتاب المصاحف‘، ’مقدمتان ‘اور ’اختلاف قراء ت قرآنیہ‘ کے موضوع پر دیگر کتب میں سیرحاصل بحث کی گئی ہے یہی کتب موضوع زیر بحث پر جیفری کی معلومات کے لیے بھی بنیادی ماخذ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حضرت محمدﷺ سے روایت کی گئی ہے کہ قرآن مجھ پر سات حرفوں میں نازل کیاگیا۔ سات حروف سے مراد سات لہجے یاتلاوت قرآن کے سات مختلف طرق ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جبریل علیہ السلام نے پہلے مجھے قرآن مجید ایک حرف پرپڑھوایا۔ پھر میں نے باربار ان سے اصرار کیا اور یہ مطالبہ کرتا گیا کہ قرآن مجید دوسرے حروف پر بھی پڑھنے کی اجازت دی جائے وہ یہ اجازت دیتے گئے یہاں تک کہ سات حروف تک پہنچ گئے۔ٌ تلاوت قرآن حکیم میں سہولت پیداکرنے کے لیے نبی اکرمﷺ کامختلف بوڑھے، اُمی اور بدوی عرب قبائل کو ان کے اپنے لہجے میں تلاوت کی اجازت دینا ہی دراصل قرآن حکیم کی قراء ت میں گونا گوں اختلاف کا باعث بن گیا۔ اختلاف قراء ات قرآنیہ کے موضوع پر کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کو اپنے اپنے قبیلے کے لہجے میں تلاوت قرآن کی جو اجازت پیغمبر اسلامﷺ نے دی تھی اس سے انہوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ صحابہ کرامؓ نے مختلف طرق پرتلاوت قرآن کریم اس وقت تک جاری رکھی جب تک حضرت عثمانؓ نے قرآن حکیم کی ایک قراء ت کو سرکاری طور پرنافذ نہیں کردیا اور دیگر تمام قراء توں اور لہجوں پرپابندی نہیں لگا دی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے صرف وہی قراء ت باقی رکھی جو خود نبی اکرمﷺ کی قراء ت تھی۔
روایت کیاگیا ہے کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سورۃ ألم نشرح کی آیات۱،۲ کو اس طرح تلاوت کیا کرتے تھے۔ ’’ألم نشرح لک صدرک وحللنا عنک وزرک‘‘جب آپ کے اس طرح پڑھنے پر اعتراض کیاگیا تو آپ نے فرمایا حللنا،حططنا اور وضعنا ایک ہی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے پڑھنے کے مختلف لہجے ہیں۔ ٍ
ابن سیرین کی سند سے روایت نقل کی گئی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے متعدد قراء توں کے متعلق فرمایا کہ ھلم،تعال اور اقبل ایک ہی مفہوم کے حامل الفاظ ہیں۔ َ
روایت ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ایک فارسی نژاد مسلمان کو سورہ نمبر ۴۴ کی آیت نمبر ۴۴’’إنَّ شَجَرَۃَ الزَّقُّوْمِ طَعُامُ الاَثِیْمِ‘‘ پڑھارہے تھے مگر وہ شخص بار بار طعام الیتیم پڑھ رہا تھا۔ جب نبی اکرمﷺ کومعلوم ہوا کہ وہ شخص ’طعام الاثیم‘ کی بجائے طعام الیتیم پڑھا رہا ہے تو حضورﷺ نے اسے طعام الاثیم کی بجائے طعام الظالم پڑھنے کو کہا۔ جسے اس نے بڑی آسانی کے ساتھ پڑھ لیا۔
عربی زبان کی تاریخ میں جزیرہ نما عرب کے مختلف قبائل کے متعدد لہجوں کے میل ملاپ اور باہمی اختلاط سے عربی زبان پر پڑنے والے اثرات کا مطالعہ، ایک پیچیدہ مسئلہ رہا ہے۔ مسئلہ کی اس پیچیدگی کے باعث، نیز اس لیے کہ جیفری مغرب کا باشندہ تھا اورعربی زبان میں مہارت نہ ہونے کی بنا پر اس کی باریکیوں سے آگاہی کی سہولت سے بہرہ ور نہ تھا وہ مصحف عثمانی کے نفاذ سے قبل مختلف نسخہ جات میں لہجوں کے اختلاف کی وسعت اور ان کے استعمالات کا ادراک نہ کرپایا۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس نے دیکھا کہ قرآن حکیم کی متعدد قراء تیں ہیں اور وہ سب کی سب کسی نہ کسی صحابی رسولﷺ سے منسوب ہیں تو اس نے مصحف عثمانی کے مقابلے میں دیگر مسودات قرآنی کو سامنے رکھنے کافیصلہ کیا۔
اختلا ف قراء ات قرآنیہ میں عربی زبان کے تلفظ اور اس کے مختلف لہجوں کے کردار اور وسعت کو سمجھنے کے لیے ہر لہجے کی تفصیلات میں گئے بغیر صرف اس مسلمہ حقیقت کی طرف اشارہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم مشترکہ عربی زبان اللغۃ العربیۃ المشترکۃ میں نازل ہوا۔ یہ مشترکہ عربی زبان وہ زبان ہے جو کہ پورے جزیرہ نما عرب میں سمجھی جاتی تھی اور شاعر اور خطیب اس کو مؤثر ذریعہ ابلاغ کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ ‘ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ مشترکہ عربی زبان جو کہ قرآنی تعلیمات کے اظہار کاذریعہ بنی، پر قریشی لہجے کی گہری چھاپ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر یہی سمجھ لیاگیا کہ قرآن حکیم قریشی لہجے میں نازل ہوا ہے۔’ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ (متوفی ۶۸ھ) سے منسوب قرآن حکیم میں وارد مختلف لہجوں پر مشتمل ایک مختصر سی کتاب ابن حنون کی روایت سے ہم تک پہنچی ہے۔“اس کتاب میں عرب قبائل کے مختلف لہجوں پر مشتمل الفاظ کی فہرست دی گئی ہے۔اگرچہ بہت ممکن ہے کہ یہ فہرست بہت جامع نہ ہو مگر پھر بھی اس میں قرآن حکیم میں استعمال ہونے والے کم از کم ۲۶۵الفاظ کے ماخذ کو متعین کیاگیا ہے جس کی تفصیل ذیل میں درج کی جاتی ہے۔
ان ۲۶۵ الفاظ میں سے ۱۰۴ الفاظ قریش کے لہجے سے اَخذ کئے گئے ہیں۔ ۴۵ الفاظ ہذیل سے، ۳۶ الفاظ کنانہ سے، ۲۳ بنو حمیر سے، ۲۱ جرہم سے، ۱۳ بنوتمیم سے اور قیس سے ۶ امان، ازد شنوہ اور خثعم سے ۵ طے، مذحج، مدین اور غسان سے ۴، بنو حنیفہ، حضرت موت اور اشعر سے ۳ آغاز سے ۰۲ فضاعہ، سبا، یمامہ، مزینہ اور ثقیف سے ۱ ،ازد سے ۱ خزرج سے اور ۰۱ عمالقہ سدوس اور سعد العشیرہ سے۔”
یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ جب قرآن حکیم نے عرب کے مختلف لہجوںکا آمیزہ پیش کیا تب وہ ایسی کتاب ہدایت کی صورت میں سامنے آیا جو سب سے زیادہ فصیح، ناقابل تغیر، ایک ضابطہ حیات اور ہر ایک کی کتاب تھی۔ جو بھی اسلام سے وابستہ ہوتاخواہ وہ امی ہوتا یا بدوی یا غیر عرب سب کواس کی تلاوت کا حکم تھا۔ حدیث سبع اَحرف اور دیگر روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن حکیم کی تعلیم دیتے وقت پیغمبرﷺ اس بات کا خاص خیال رکھتے • کہ جن لوگوں کو قرآن حکیم کا پیغام پہنچایا جارہا ہووہ ان کے لیے قابل فہم بھی ہو۔ اس صورت حال میں یہ بات نہایت فطری محسوس ہوتی ہے کہ جن سات حروف(لہجوں) میں قرآن نازل ہوا، مختلف افراد کو ان میں سے ہرایک کے مناسب حال قراء ت کرنے یامترادف الفاظ (جو سبعہ احرف کے ذیل میں آتے ہوں اور جن کی قراء ت کی اجازت دی گئی تھی) استعمال کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ بطور خاص اسلامی تاریخ کے ابتدائی سالوں میں اس اجازت کی ضرورت اظہر من الشمس ہے۔
جہاں تک قبل از اسلام اور ابتدائی عہد اسلام تک عربی زبان کے مختلف لہجوں کی تفہیم اور اس کی بنا پر فہم زبان میں پیدا ہونے والی الجھنوں کا تعلق ہے تو وہ لغت کی کتابوں میں باربار بیان کی جانے والی بنی کنانہ یا بنی کلاب کے ایک آدمی کی روایت سے اچھی طرح سمجھی جاسکتی ہیں۔ وہ روایت یہ ہے کہ ایک آدمی یمن کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ ذوجدن کے ہاں گیا۔ بادشاہ اس وقت محل کے بڑھے ہوئے چھجے پربیٹھا ہوا تھا۔ بادشاہ نے اپنے ملنے والے کو یمنی لہجے میں’ثب‘ یعنی تشریف رکھئے کہا ،ملنے والے نے اس لفظ کواپنے لہجے کے مطابق وثب یثب سے فعل امر ’ثب‘سمجھا جس کا معنی چھلانگ لگا ؤ ہے۔ چنانچہ اپنے فہم کے مطابق بادشاہ کے حکم کی تعمیل میں اس نے آگے بڑھتے ہوئے بلند چھجے سے چھلانگ لگادی اور اللہ کو پیارا ہوگیا۔–
ایک اور روایت میں ہے کہ ایک دن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کی صحبت میں تھے کہ آپ کے دست مبارک سے چھری گر گئی۔ آپؐ نے فرمایا ’ناولنی السکین‘حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سمجھ نہ سکے۔ حضورﷺ نے اپنی بات دھرائی۔ آخر کار حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا ’آلمدیہ ترید؟‘ کیا آپؐ ’مدیہ‘ طلب فرما رہے ہیں؟یاد رہے کہ’ السکین‘ حجازی لفظ ہے جبکہ مدیہ ازدی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ازدی تھے۔ جو ایک حجازی لفظ کو نہ سمجھ سکے۔ مندرجہ بالا مثالوں سے واضح ہوا کہ مصحف عثمانی کے نفاذ سے قبل ہر عرب قرآن حکیم میں استعمال ہونے والے اپنے لہجے کے علاوہ دیگر الفاظ اور ان کے صحیح مفہوم کو سمجھنے کی پوری استعداد نہیں رکھتا تھا۔ خاص طور پر ان حالات میں جبکہ ہر ایک کواپنے تلفظ اور لہجے کے مطابق قرآن پڑھنے کی اجازت بھی تھی۔
اختلافی نسخہ جات میں املاء کے اختلافات سے مصحف عثمانی میں درج نہ کئے جانے، مثلاً سورۃ الفاتحہ میں صراط ’س‘ اور’ ز‘ کی بجائے ’ص‘ کے ساتھ لکھنا یا الفاظ کا اختلاف کہ ایک کی بجائے اس کے قریبی مفہوم رکھنے والا دوسرا لفظ جیسا کہ سورۃ نمبر ۹۴ میں حططنا اور حللنا کی جگہ وضعنا کا استعمال، کے وجوہ و اسباب ابن جنی (متوفی ۳۹۲ھ) کے درج ذیل بیان کی روشنی میں اچھی طرح سمجھے جاسکتے ہیں:
’’وکلما کثرت الالفاظ علی المعنی الواحد کان ذلک أولی بأن تکون لغات لجماعات‘‘
’’جب ایک ہی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے متعدد الفاظ موجود ہوں تو الفاظ کے تعدد کا اصل سبب یہی ہوسکتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک لفظ کسی نہ کسی لسانی گروہ یا لسانیاتی ماحول کی نمائندگی کررہاہو۔‘‘
وہ اصمعی کی سند سے لفظ’صقر‘ کو پڑھنے کے بارے میں دو اشخاص کے درمیان اختلاف کی دلچسپ کہانی بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان لفظ ’صقر‘کے پڑھنے پر جھگڑا ہوگیا۔ ایک اسے ’ص‘ اور دوسرا ’س‘ سے پڑھنے پر مصر تھا۔ان دونوں نے کسی تیسرے سے پوچھنے کا فیصلہ کیا۔ تیسرے شخص نے ان دونوں سے اختلاف کرتے ہوئے اسے’ز‘ سے یعنی ’زقر‘ پڑھا۔ دراصل وہ تینوں اپنے اپنے لہجوں کی نمائندگی کررہے تھے۔
جیفری کا یہ دعویٰ کہ’ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ ‘ کے مسودہ ہائے قرآنی میں سے مختلف قراء توں کا جو بھاری ذخیرہ ہم تک پہنچا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دراصل وہ حقیقی متن کا اختلاف ہے نہ کہ مختلف لہجوں اور تلفظ کا معمولی اختلاف ظاہر کرتاہے کہ اختلافی نسخہ جات میں استعمال ہونے والے الفاظ کی بجائے مصحف عثمانی میں اس مفہوم کے دوسرے مترادف الفاظ کے استعمال کو دیکھ کر وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوا ہے۔
مزید براں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ پیغمبرﷺ کی طرف سے دی گئی اس اجازت کی حقیقت کو بھی نہیں جان سکا جو آپ نے اپنے ان پیروکاروں کو دی تھی۔ جن کی بڑی تعداد ان لوگوں پر مشتمل تھی جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، بوڑھے اور بدو تھے اور ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے اسلام تو قبول کرلیاتھا مگر وہ عربی زبان سے قطعی نابلد تھے۔ اس مضمون میں حضرت ابی بن کعبؓ کے ایک فارسی مسلمان کو قرآن حکیم پڑھانے کاواقعہ گذر چکا ہے جو’طعام الاثیم‘کا تلفظ صحیح طور پر ادا نہ کرسکتا تھا تو پیغمبرﷺ نے اسے اس مفہوم کی سبعہ احرف میں سے دوسرے لفظ کو پڑھنے کی اجازت دے دی جس کو اس نے بخوبی ادا کرلیا۔
علاوہ ازیں اس واقعہ کوبھی اس ضمن میں بطور شہادت پیش کیا جاسکتا ہے جسے صحیح بخاری کی سبعہ احرف کے متعلق مشہور روایت میں بڑے واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سورۃ الفرقان سنی۔ دونوں نے اس سورۃ کو اپنے اپنے طریقے سے پڑھا۔ آپ نے دونوں حضرات کی قراء ت کو درست قرار دیا، کیونکہ دونوں نے دو مختلف طریقوں سے قراء ت خو دنبی اکرمﷺ سے سیکھی تھی۔
نبی ﷺ نے مزید فرمایا کہ قرآن سات مختلف حروف (پڑھنے کے طریقے) پر نازل ہوا ہے آپ ان میں سے اسی طریقے کے مطابق پڑھ سکتے ہیں جس کو آپ اپنے لیے آسان محسوس کریں۔تاہم جے،ڈی،پیرسن ’انسائیکلوپیڈیا آف اسلام‘ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون’القرآن‘ میں لفظ ’احرف‘ کوسمجھنے میں دشواری محسوس کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’حدیث میں اس محاورے کامطلب غیر معین ہے۔ اَحرف کی اِصطلاح حرف کی جمع ہے۔‘حالانکہ اسلامی ورثے کی اکثر کتب کے علاوہ ابن مجاہد نے بھی اس امر کی صراحت کردی ہے کہ اس کامطلب سات قراء تیں ہیں۔ّ خواہ وہ زبان کے مختلف لہجوں سے تعلق رکھتی ہوں یا ایک لہجے کے کسی لفظ کو متعدد طریقوں سے پڑھنے سے متعلق ہوں۔
اس امر کا تذکرہ بھی خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ جیفری نے غیر تصحیح شدہ نسخہ جات سے جن اختلافی قراء توں کو نقل کیا ہے ان سب کی اسناد غیر مصدقہ ہیں۔ وہ ایسی محکم و متواتر اسناد کے ساتھ کوئی ایسی قابل ذکر اختلافی قراء ت بھی نہ لاسکا جس کی سند محکم و متواتر ہو جیسی محکم و متواتر اسناد کے ذریعے ہم تک مصحف عثمانی پہنچا ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ بعض اختلافی قراء تیں جو ہم تک پہنچی ہیں وہ لسانی اعتبار سے بھی ناممکن نظر آتی ہیں اور بعض اختلافی روایات میں ان کی سند ناممکن الوجود اور محال ہے۔جو زمانی اعتبار سے درست تسلیم نہیں کی جاسکتیں یاوہ روایت کے معروف اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔ْ
جیفری مزید اعتراف کرتا ہے کہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے منسوب اختلافی قراء توں کے جانچنے کے بعد پروفیسر برجسٹراسر نے بجا طور پر یہ رائے قائم کی:
’’یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ کوئی شخص ان نسخوں کومصحف عثمانی کے مقابلے میں صحیح تر کہنے کی جراء ت نہیں کرسکتا۔‘‘ ،
پروفیسر برجسٹراسر کی متذکرہ بالا رائے کے علم الراغم جیفری غیر مستند نسخہ جات میں مندرجہ اختلافی قراء توں کو پیش کرکے صر ف ایک مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے اور وہ یہ ہے کہ قراء ات قرآنیہ اور ان کی ترویج کے ارتقاء کاعمل ثابت کرسکے تاکہ مصحف عثمانی کوسو فیصد الہامی کی بجائے ایسی ارتقائی عمل کی ایک انتہائی شکل قرار دیا جاسکے جیسا کہ وہ لکھتا ہے ابن مسعودرضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۱۳۷ میں ’بمثل ما‘ کی بجائے ’بما‘ پڑھنا نقل کیا گیا ہے۔ جیفری اپنی بات پر اضافہ کرتے ہوئے خیال ظاہرکرتا ہے کہ نبی اکرم1کے ان صحابہ نے ممکن ہے یہ مختلف قراء تیں نیک مقصد کے تحت تجویز کی ہوں۔یہ بیان کرنا بھی بے جانہ ہوگا کہ جیفری جب بھی اسلام کے کسی پہلو پر بحث کرتا ہے تو وہ عیسائیت کی مثال اور قالب کو ذہن میں رکھتے ہوئے اسلام کے بارے میں بات کرتا ہے مثلاً وہ کبھی بھی اس حقیقت کااظہار نہیں کرتا کہ اسلام ابراہیمی ادیان میں سے ایک ہے۔ تاہم وہ بتاتا ہے کہ اسلام بھی عیسائیت کی طرح کا ایک ایسا مذہب ہے جواپنی مقدس کتاب رکھتا ہے۔ جہاں تک عہد نامہ جدید کی تاریخ کا تعلق ہے اس کے بارے میں امریکہ کے مشہور عیسائی تحقیقاتی ادارے جپس سیمینار کی جانب سے حال ہی میں شائع کردہ اناجیل خمسہ میں عیسائی محققین رقم طراز ہیں:
’’جملہ اناجیل ابتداًء ‘‘ بغیر کسی انتساب کے عیسائی دنیا میں رواج پاگئیں یعنی ان کے لکھنے والوں کے نام معلوم نہ تھے۔ تاہم عیسائی مذہبی قیادت نے عیسائیت کی تاریخ کے ابتدائی ایام ہی میں مختلف نسخہ ہائے اناجیل کو معتبر ناموں کے ساتھ منسوب کردیا اکثر اناجیل کے مصنفین کے نام محض ظن و تخمین سے رکھے گئے اور ممکن ہے کچھ نسخوں کو معتبر ناموں کی جانب حسن نیت کی بنیاد پر منسوب کیاگیا ہو۔ تاکہ ان نسخوں کو عوام الناس میں پذیرائی مل سکے۔‘‘
قرآن حکیم کوبائبل کی طرح کی ایک مقدس کتاب قرار دیتے ہوئے جیفری یہ باور کراتا ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے بھی اچھے مقاصد اور نیک نیتی کے ساتھ متن قرآن میں کچھ تبدیلیاں اور اس کی بہتری کے اقدامات تجویز کردیئے ہوں گے۔ بدقسمتی سے جیفری اس امر کا اندازہ نہیں کرسکا کہ قرآن حکیم کے متن میں کمی بیشی کرنااسلامی نقطہ نظر سے اتنا بھاری جرم ہے کہ کوئی اس کے ارتکاب کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اگر بفرض محال کوئی ایک اس کاارتکاب کر بھی بیٹھتا تو صحابہ کرام ؓ کی جلیل القدر جماعت اسے قطعاً برداشت نہ کرتی۔
ہم اس بحث کو درج ذیل نقاط کے تحت سمیٹ سکتے ہیں:
(١) جیساکہ قبل ازیں واضح ہوچکا ہے کہ مختلف قراء تیں مثلاً سورۃ الفاتحہ میں الصراط کا لفظ ’س‘اور ’ز‘ سے پڑھنا مختلف قبائل کاتلفظ تھا۔ یا ابن مسعودرضی اللہ عنہ کا سورہ نمبر۱۲ کی آیت نمبر ۳۵ میں ’حتی‘ کی بجائے ’عتی‘پڑھنا ¦یہ بھی عربی زبان کے دوسرے لہجے کو ظاہر کرتا ہے یعنی عربوں کے بعض قبائل میں ’ح‘ کی جگہ ’ع‘ پڑھا جاتا تھا۔ یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ مختلف عربی لہجوں میں’ح‘ اور ’عین‘ کے علاوہ ’الف‘ اور ’ق‘ کے حروف بھی باہمی طور پر قابل مبادلہ ہیں اس طرح سورۃ الفاتحہ میں إیاک ویاک اور ھیاک مختلف لہجے ہیں کیونکہ مختلف عربی لہجات میں’الف‘، ’و‘ اور ’ۃ‘ باہم قابل تبادلہ ہیں ¨ سورۃ الفاتحہ میں نستعین پہلے نون پر زیر کے ساتھ بھی ایک لہجہ ہے جیسا کہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر۶۵ میں یعلمون کی بجائے یعلمون،سورۃ آل عمران کی آیت نمبر۱۰۶ میں تسود کی بجائے تسود بنو اسد کے تلفظ کے مطابق ایک لہجہ ہے۔
سورۃ الفاتحہ میں مالک کو ملاک، ملک، ملیک پڑھنا ایک ہی لفظ کے مختلف تلفظ ہیں۔جو ان سات طریقوں میں شامل ہیں جن کو پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے اور یہ سب کے سب نبی اکرمﷺ کی طرف منسوب ہیں کہ آپؐ اس لفظ کودیگر تلفظ اور لہجوں میں بھی ادا کیا کرتے تھے۔ اگر ان اختلافی قراء توں کو اختیار کرنے کی اجازت نہ ہوتی تو صحابہ کرام ؓ اس باربار تلاوت کی جانے والی سورۃ کی قراء ت میں ہرگز کوئی اختلاف نہ کرتے۔ سورۃ الفاتحہ میں’اہدنا‘ اور ’لا‘ کے قریبی متبادل الفاظ ’ارشدنا‘ اور غیر بھی لہجے کے اختلاف پر مبنی ہیں اور ان کاشمار ان الفاظ میں ہوتا ہے جس کی تلاوت کرنے کی اجازت تھی۔ ’متبادل مسودات قرآن‘ متعارف کرانے کی دُھن میں جیفری اس حقیقت کونظر انداز کردیتا ہے کہ سورۃ الفاتحہ دن کی پانچ نمازوں میں سے تین میں بآواز بلند پڑھی جاتی ہے۔ اگر یہ نبی اکرمﷺ کی تلاوت کے خلاف بلکہ ذرہ بھر بھی مختلف ہوتی تو یہ ناممکن تھا کہ اس کی تلاوت جاری رہتی۔ مزید برآں جیفری کسی ایک صحابی رسول ﷺ کا نام بھی پیش نہیں کرسکا جس نے دعویٰ کیا ہو یا یہ رائے ظاہر کی ہو کہ مصحف عثمانی میں درج سورۃ الفاتحہ کسی بھی حیثیت سے نبی اکرمﷺ کی تلاوت کردہ سورۃ الفاتحہ سے ذرہ بھر بھی مختلف ہے۔
(٢) مصحف عثمانی کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلانے کی غرض سے اختلاف قراء ت کی روایات کو کمزور تسلیم کرنے کے باوجود، جیفری مصحف پر اجماع کی حقیقت کو تسلیم کرنے میں بھی لیت و لعل سے کام لیتا ہوا نظر آتا ہے۔ اگر ہم یہ فرض بھی کرلیں کہ بعض اختلافی قراء تیں حقیقی ہیں اور مصحف عثمانی کی تنفیذ سے قبل ان کی تلاوت جائز تھی، کیونکہ وہ ان سات قراء ات میں سے تھیں جن کی اجازت دی گئی تب بھی ’متواتر‘ روایات جو کہ ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوئیں ہر ’خبر احاد‘ جو ایک شخص سے دوسرے شخص تک آئیں کو ترجیح نہیں دی جاسکتی۔
(٣) اختلاف قراء ت پر بحث کرتے ہوئے جیفری قرآن حکیم کے بذریعہ حفظ سینہ ، سینہ نسل در نسل منتقل ہوئے جیسے اہم عامل کو بالکل نظر انداز کردیتا ہے۔ مصحف عثمانی ایسا سرکاری نسخہ نہ تھا جس کو کمیٹی نے تشکیل دینے کے بعد چھپا کر رکھ دیا ہو۔بلکہ وہ ہر ایک اہل علم کے سامنے تھا۔ سرکاری نسخہ جس کو تاریخ نے’المصحف الامام‘ کے نام سے یاد رکھا ہے کی ایک نقل مدینہ منورہ میں رکھی گئی تھی جبکہ دیگر متعدد نقول اس دور کی اسلامی ریاست کے دیگر شہروں کو بھیجی گئی تھیں۔ ہزاروں ایسے صحابہ کرام مدینہ منورہ میں موجود تھے جن کو پورا قرآن پاک نہیں تو اس کا بہت بڑاحصہ حفظ تھا۔یہ وہ لوگ تھے جنہیں نبی اکرمﷺ کے قرآن حکیم کی تلاوت کے طریقوں کابراہ راست علم تھا۔ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ کاتبین وحی سمیت ان تمام صحابہ کرام ؓ نے جن کے پاس قرآن حکیم کا کامل یا بعض حصہ تحریری شکل میں موجود تھا، اپنے حفظ قرآن کی بنا پر مصحف عثمانی کی قراء ت کو نبی اکرمﷺ کی قراء ت قرار دیتے ہوئے اس کی تائید و تثویب فرمائی۔
(٤) ’مقابل مسودات قرآن‘ کے متعارف کرانے کی پرجوش سرگرمی میں جیفری اس حقیقت کو بھی نظر انداز کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، کہ اگرچہ تذبذب کے بعد ہی سہی مگر عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے اپنی قراء ت کو مصحف عثمانی کے حق میں واپس لے لیا۔ اور پھر کبھی بھی اس پر اصرار نہیں کیا۔ یہاں تک کہ جیفری حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے کسی ایسے بیان کو سامنے لانے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکا جس میں انہوں نے مصحف عثمانی کی کسی ایک بھی قراء ت کو نبی اکرمﷺ کی قراء ت کے خلاف قرار دیا ہوحضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے بعد حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ دوسرے صحابی رسول ہیں جن سے اختلافی قراء ت کا ایک ایک بہت بڑا ذخیرہ منسوب کیاگیا ہے، اگرچہ جیفری اعتراف کرتا ہے کہ تمام ثانوی مسودات حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے منسوب نسخے سے اَخذ کئے گئے ہیں اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے مسودہ قرآن سے کوئی بھی نسخہ اَخذ نہیں کیا گیا۔ اس اعتراف کے باوجود وہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے منسوب مختلف قراء توں کو بنیادی اہمیت دیتا ہے اور اس حقیقت کو پس پشت ڈال دیتا ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اس کمیٹی کے ممبر تھے جس نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے حکم پر قرآن حکیم کو جمع کرنے کی عظیم الشان خدمت سرانجام دی تھی۔ ایک اور صحابی رسول حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں جن سے مصحف عثمانی کی تنفیذ سے قبل ایک نسخہ منسوب ہے۔ ان سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عثمان کے مصحف کو نافذ کرنے کی جرأت مندانہ فیصلے پراپنے کامل اطمینان و تشکر کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’اگر عثمان کی بجائے بار خلافت میرے کندھوں پر ہوتا تو یقیناً میں بھی قرآن حکیم کی جمع و تدوین میں وہی کام کرتا جوعثمان ؓ نے کیا ہے۔‘‘
(٥) جیفری اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود کہ قرآن حکیم میں اختلاف قراء ت کی بحث زمانہ مابعد کے الٰہیات، لسانیات اور صرف و نحو کے ماہرین نے ایجاد کی اور اپنے نام اور کام کو اعتماد بخشنے کے لیے اسے دور اولیٰ کی مقتدر علمی شخصیات کی طرف منسوب کردیا پھر بھی آخر دم تک قرآن حکیم کی ’’حقیقی قراء ت‘‘ کی بحالی کی کوششوں میں مگن رہا۔¯دوسری طرف حال ہی میں دو دوسرے مستشرق جان برنن(John Burton) اور جان وان برو (John Wansbroug) کا یہ نتیجہ بھی چشم کشا ہے کہ صحابہ کرامؓ سے منسوب ’مقابل مسودات قرآن‘ ہوں یا بڑے شہروں میں پائے جانے والے دیگر نسخہ جات یا پھر انفرادی طور پر بعض حضرات سے منسوب مختلف قراء تیں سب کی سب بعد کے ماہرین علم الاصول اور ماہرین علم اللسان کی ایجاد ہیں۔ جیفری اس اہم حقیقت کی طرف سے بھی آنکھیں بند کرلیتا ہے کہ اختلاف قراء ت قرآن کے ابتدائی ماخذ ابن ابی داؤد متوفی ۳۱۶ھ ابن الانباری متوفی ۳۲۸ھ اور ابن الاشطہ متوفی ۳۶۰ھ ہیں۔ ان تمام بزرگوں نے اختلافی قراء تیں چوتھی صدی ہجری میں نقل کیں۔ ان روایات کے رواۃ متصل ہیں اور نہ ہی ان کی سند قابل اعتماد ہے۔
(٦) آرتھر جیفری اپنے پیش رو مستشرق بیل (Bell) کی طرح اسلام اور اس کی مقدس کتاب قرآن حکیم سے اپنی نفرت پر پردہ ڈالنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ وہ قرآن حکیم کی جمع و تدوین پر بحث کرتے ہوئے بیل (Bell) کی پیروی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جمع و تدوین کی کاوشوں کو ان کی خالص نجی سعی و کاوش قرار دیتا ہے۔یہ بات نہایت تعجب خیز اور حیرت انگیز ہے کہ وہ مقدمتان اور کتاب المصاحف میں درج اختلاف قراء ت پر مبنی روایات کو من و عن صحیح تسلیم کرلیتا ہے مگر انہی کتب میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جمع و تدوین قرآن کی خدمت کے بارے میں روایات کو بغیر کوئی معقول وجہ بتائے رد کردیتا ہے۔حالانکہ حدیث اور تاریخ کے ماخذوں میں ان روایات کی سند نہایت قوی اور ان کا پایہ استناد بہت مضبوط ہے۔یہ اسلامی تاریخ کی ناقابل تردید حقیقت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا جمع مدون کیا ہوا نسخہ ہی مصحف عثمانی کی اساس و بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔
(٧) مصحف عثمانی کے بارے میں جیفری یہ سمجھنے میں بھی ناکام رہا ہے کہ حضرت عثمانؓ نے کن اہم مقاصد کے پیش نظر اس بھاری کام کابیڑا اٹھایا۔وہ قرآن حکیم میں اختلاف لہجات کی اشاعت کے اثرات کافہم و ادراک بھی نہ کرسکا کہ جن کے بارے میں شکایات کے سبب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس مسئلے کے حل کی طرف متوجہ ہونا پڑا۔ دیگر شارحین کی طرح ابومحمد مکی القیسیؒ نے بھی اس بات کو نہایت شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جب قرآن حکیم کے متعدد طرق سے پڑھنے کے بارے میں شکایات موصول ہوئیں تو انہوں نے جس طریق پرنبی اکرمﷺ تلاوت فرماتے تھے اس کو باقی رکھ کر اس کے علاوہ تمام طرق کے مطابق تلاوت قرآن حکیم پرپابندی عائد کردی۔ باوجود اس کے کہ عہد نبوی میں نبی اکرمﷺ نے ان کی اجازت دی ہوئی تھی۔ ´القیسی کا بیان ہے کہ کم از کم ۱۲ ہزار صحابہ کرام ؓ اور تابعین پر مشتمل ایک جماعت نے اس وقت کی اسلامی سلطنت کے طول و عرض میں پھیل کر مصحف عثمانی کے مطابق تلاوت قرآن حکیم سکھانے اور اس کے علاوہ رائج طریقوں سے منع کرنے کی خدمت انجام دی یہ یقیناً ناقابل تردید حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی اتنی بھاری تعداد میں صحابہ کرامؓ بھی شامل تھے کسی ایسی قراء ت قرآن کو رائج کرنے کا تصور بھی نہ کرسکتے تھے جس کا انتساب نبی اکرمﷺ کے علاوہ کسی اور کی جانب ہوتا۔
(٨) قرآن حکیم اور اس کی مختلف قراء توں کو موضوع سخن بناتے ہوئے جیفری اپنے دعوے کے باوجود انتقاد اعلیٰ (Higher Crigicism) کے اصولوں کی پابندی نہیں کرسکا۔ اس کی کتاب (The Textual History of Quran) ۱۹۴۶ء میں یروشلم میں شائع ہوئی اور دوسری کتاب (The Quran as a Scripture) ۱۹۵۲ء میں شائع ہوئی۔ اس نے پروفیسر سرجسٹراسر جو کہ میونخ میں قرآن محل کابانی تھا اور اس کے جانشین ڈاکٹر اونوپریکثل کے ساتھ اشتراک عمل کے باوجود، قرآن حکیم کی جمع و تدوین اور دنیا کے مختلف حصوں سے جمع کئے گئے قرآن حکیم کے نسخوں کے متون میں اختلاف کے بارے میں قرآن محل (Archive) کے نتائج تحقیق کو بیان نہیں کیا (کیونکہ یہ نتائج قرآن حکیم کے بارے میں اس کے مقاصد سے ہم آہنگ نہ تھے) یہ پہلے بیان ہوچکا کہ یہ قرآن محل اتحادی فوجوں کی بمباری سے تباہ ہوگیا تھا اور پریکثل بھی اسی بمباری سے ہلاک ہوگیا تھا۔ تاہم خوش قسمتی سے اس کی وفات سے قبل ۱۹۳۳ء میں ڈاکٹر حمیداللہ کو پریکثل سے بالمشافہ گفتگو کاایک موقع میسر آگیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب پریکثل فرانس کی مختلف لائبریریوں میں موجود قرآن حکیم کے مختلف نسخہ جات کی فوٹو کاپیاں حاصل کرنے کے لیے فرانس آیا ڈاکٹر حمیداللہ کا بیان ہے کہ پریکثل نے انہیں بتایا:
’’ہمارے ادارے نے دنیا میں مختلف حصوں سے قرآن حکیم کے مختلف ۴۲ ہزار نسخہ جات کی فوٹوکاپیاں جمع کیں اور ان کا باہمی موازنہ کیا، ڈاکٹر حمیداللہ مزید بتاتے ہیں کہ پچھلے چودہ سو سالوں کے دوران مطبوعہ یا غیرمطبوعہ قرآن حکیم کے ۴۲ ہزار نسخوں کو انہوں نے اس لیے جمع کیا تاکہ وہ متن قرآن کے تضادات کو سامنے لاسکیں۔ تمام دستیاب نسخہ جات کو جمع کرکے ان کا آپس میں موازنہ کرنے کے بعد اس ادارے نے جو ابتدائی رپورٹ جاری کی ڈاکٹر حمیداللہ کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:
’’اگرچہ ابھی تک قرآن حکیم کے مختلف نسخہ جات کو جمع کرنے کا کام جاری ہے تاہم جتنا کام مکمل ہوچکا ہے اس کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان ۴۲ ہزار نسخہ جات میں کتابت کی غلطیاں تو موجود ہیں مگر متن قرآن میں کسی قسم کے تضاد کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی۔‘‘ ·
جیفری قرآن حکیم کے بارے میں اپنی تحقیقات کے لیے پروفیسر برجسٹراسر اور پریکثل سے اشتراک عمل کا ذکر تو بڑے فخر سے کرتا ہے مگر حیران کن امر یہ ہے کہ وہ اس ادارے کی ابتدائی رپورٹ اور اس کی کارکردگی کو بالکل نظر انداز کردیتاہے اور اس کا کہیں تذکرہ تک نہیں کرتا۔
آخر میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام حضرات بشمول(J.D.Pearson) جو جیفری کے الہامی کتب میں قرآن حکیم کے غیر محرف اور غیر متبدل ہونے کی انفرادیت کو جھٹلانے کے مشن کی تکمیل میں بڑی یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ سرگرداں ہیں، انہیں اور ان جیسے دیگر مستشرقین کو یہ مشورہ دیا جائے کہ وہ قرآن حکیم کے متن پراپنے انتقاد اعلیٰ کے اصولوں کا غیر جانبداری کے ساتھ اطلاق کریں اخلاص اور دیانت داری سے ایسا کرتے ہوئے وہ قرآن حکیم کے اس دعوے کی صداقت کا عملی مشاہدہ ضرور کریں گے کہ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے نازل کیا گیاہوتا تو وہ اس قرآن میں بے شمار اختلافات اور تضادات پاتے‘‘ (۸۲:۴) اور یہ کہ ’’بے شک ہم نے ہی اس کو نازل کیا اور ہم ہی اس (قرآن) کی تحریف و تبدیلی) حفاظت کریں گے۔ (۹:۱۵)
(پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری کایہ مقالہOrientalism on variant Reading of the Quran: The case of Arthur Jaffery
ایسوسی ایشن آف مسلم سوشل سائنٹسٹ کے تحقیقی مجلہThe American Journal of Islamic Social Seiences کے شمارہ بارہ ۱۹۹۵ء میں طبع ہوا تھا۔)
حوالہ جات
(١) مقدمتان فی علوم القرآن ازآرتھر جیفری ، ص۲،۳
(٢) تفصیل کیلیے دیکھئے Journal of Biblical Studies جلد ۷۹ شمارہ۱، مارچ ۱۹۶۰ء ص۸۹
(٣) آرتھر جیفری The Koran: Selected Suras: ، ص۲۰
(٤) مستشرقین کے بارے میں تفصیل جاننے کے لیے دیکھئے، عبدالرحمن مومن The Islamic Fundamentlism Hamdard Islamicus جلد ۱۰ شمارہ۴، ص۳۵،۴۰
(٥) آرتھر جیفری:The Quran as Scripture ، ص۱
(٦) ایضاً
(٧) آرتھر جیفریThe Koran: Selected Suras:ص ۱۴،۱۵
(٨) ایضاً ص۱۵ مزیددیکھئے :آرتھر جیفری:The Quran as Scripture ص۹۳،۹۴
(٩) آرتھر جیفری:Materials for the History of the Textual of the Quran، ص۸
(١٠) ایضاً ص۲۱
(١١) آرتھر جیفری:The Quran as Scripture,”The Textual History of the Quran، ص۱۰۳
(١٢) ایضاً ص۱۰۳
(١٣) آرتھر جیفری بعض اصحاب رسولﷺ کے ذاتی طور پر جمع کئے ہوئے نسخہ ہائے قرآن کو ’مقابل نسخہ جات‘ کا نام دیتا ہے حالانکہ مصحف عثمانی کے نافذ ہونے کے بعد ایسے نسخہ جات جن حضرات کے پاس تھے وہ انہوں نے واپس لے لیے تھے۔ اس سے متعلق بعض تفاصیل خود جیفری کے تحقیقی کام میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ مثلاً حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اپنا نسخہ قرآن مصحف عثمانی کے نفاذ کے بعد واپس لے لیا۔ حوالے کے لیے دیکھئے آرتھر جیفری کی کتاب ’مقدمتان‘ صفحہ ۹۵ جے۔ ڈی پیرسن نے بھی مصحف عثمانی کے نفاذ سے قبل بعض اصحاب رسولﷺ کے ذاتی طور پر جمع کئے ہوئے نسخہ ہائے قرآن کو مقابل نسخہ جات قرار دیا ہے۔ مگر اس میدان میں اس کا زیادہ انحصار جیفری کی کتاب (Materials) پر ہے۔ اس نے انسائیکلو پیڈیا اف اسلام میں اپنے مضمون ’القرآن‘ میں اختلاف قراء ات قرآنیہ کے موضوع پر جیفری کی (Materials) سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ حوالے کے لیے دیکھئے لیڈن: ای۔ جے۔ بریل، ۱۹۸۱ء جلد۵ ص۰۸-۴۰۶
(١٥) ابن ابی داؤد کے مطابق حضرت ابوبکر صدیقؓ پہلے خلیفہ ہیں جنہیں قرآن حکیم کی جمع و تدوین کا شرف حاصل ہوا۔ ابن ابی داؤد نے ان دس صحابہ کرامؓ کے ناموں کا تذکرہ بھی کیا ہے جن کوجیفری نے ’مقابل نسخہ جات‘ کے حامل بنا کرپیش کیا ہے۔ حالانکہ ابن ابی داؤد نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیاکہ ان دس اصحاب کے پاس تحریری شکل میں الگ الگ قرآن کے نسخے تھے۔ ابن ابی داؤد ان حضرات کی جانب منسوب مختلف قراء توں کو ’مصحف‘ کے عنوان کے تحت بیان کرتاہے اور وہ جمع القرآن (اس نے قرآن جمع کیا) کاپیرایہ ان حضرات کے لیے بھی استعمال کرتا ہے جنہوں نے قرآن کریم یاد کررکھا ہو۔ دیکھئے ابن ابی داؤد کتاب المصاحف ص۵،۱۰،۵۰ تا۸۷۔ ابن ابی داؤد نے اس بات کو یہ کہہ کر اور واضح کردیا کہ اس نے لفظ مصحف کوحرف یا قراء ت کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔تاکہ اس کی بیان کردہ مختلف قراء توں کا کسی باقاعدہ تحریری نسخہ سے ماخوذ ہونے کا گمان نہ ہو دیکھئے۔ آرتھر جیفری(Materials) ص ۱۵
(١٦) حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عثمانؓ کی جمع و تدوین قرآن کی خدمات کی تفصیل کے لیے دیکھئے :خطبات بہاولپور ازڈاکٹر حمید اللہ ، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور (پاکستان) ۱۴۰۱ھ ص۲۹۳
(١٦) آرتھر جیفریMaterials: ص ۱۰
(١٧) جے ڈی پیرسنThe Encyclopaedia of Islam ص۴۰۷
(١٨) آرتھر جیفریMaterials: ص ۱۔۳
(١٩) یہ سات قراء تیں درج ذیل حضرات کی طرف منسوب ہیں نافع متوفی ۱۶۹ھ از مدینہ منورہ ، ابن کثیر متوفی ۱۲۰ھ از مکہ معظمہ ، ابن عامر متوفی ۱۱۸ھ از دمشق، ابوعمرو متوفی ۱۵۴ھ از بصرہ، عاصم متوفی ۱۲۸ھ از کوفہ، حمزہ متوفی ۱۵۸ھ از کوفہ اور کسائی متوفی ۱۸۹ از کوفہ۔
(٢٠) آرتھر جیفری The Quran as Scripture:ص ۱۰۰۔۱۰۲
(٢١) مزید تفصیل کے لیے دیکھئے لبیب السعیدThe Racited Quran ترجمہ : برنارڈ ویس، ایم اے رؤف اور موربرجر۔ ص ۴۵-۵۰
(٢٢) ایضاً ص۴۹،۵۰ ،۱۳۹
(٢٣) آرتھر جیفری Materials: ص ۷۵
(٢٤) جیفری نے Materialsمیں ’’دلنا یدک اھدنا‘‘ لکھا ہے۔ جو بظاہر بے معنی جملہ ہے۔اسلامی تہذیب سے دوری اور عربی پر عبور نہ ہونے کے سبب شاید جیفری مخطوط کو صحیح طور پر پڑھ نہ سکا۔اصل عبارت یوں معلوم ہوتی ہے۔’’دلنا بدل اھدنا‘‘
(٢٥) ایضاً، ص۱۱۷ (٢٦) ایضاً، ص۱۸۵ (٢٧) ایضاً،۱۹۵ (٢٨) ایضاً، ص۲۲۰
(٢٩) ایضاً، ص۲۲۳ (٣٠) ایضاً،۸۷-۲۸۷ (٣٢) ایضاً، ۱۵-۳۱۴
(٣٣) کتاب الابانہ فی معانی القراء ات ازابومحمد القیسی، ص۹۴
(٣٤) ایضاً، ص۹۶ (٣٥) ایضاً، ص۹۴
(٣٦) اعراب ثلاثین سورۃ من القرآن الکریماز ابن خالویہ،ص۲۸-۳۰
(٣٧) سورۃ الفاتحہ کی مختلف قراء ات “The Moslem World” ازآرتھر جیفری جلد۲۹،۱۹۳۹ئ، ص۱۵۸ ،آرتھر جیفری اگرچہ سورۃ الفاتحہ اور معوذتین کے ترجمے کو اپنی کتاب۔The Quran Selected Suras میں شامل کرتا ہے مگر وہ ان تینوں سورتوں کو قرآن حکیم کا حصہ تسلیم نہیں کرتا۔ وہ لکھتا ہے: جس شکل میں قرآن حکیم ہمارے پاس موجود ہے وہ ایک سو گیارہ سورتوں پرمشتمل ہے، سورۃ الفاتحہ کا تعارف کراتے ہوئے جیفری کہتا ہے یہ مختصر سورۃ حقیقی قرآن کا جزو نہیں ہے بلکہ یہ ایک دعا ہے جوقرآن حکیم ہی کے مختلف جملوں کے ذریعے قرآن کے مرکزی موضوع و مضمون پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب مقدس میں اس کے تعارف کے طور پر درج کی گئی ہے۔ اور اس کی تلاوت سے قبل پڑھی جاتی ہے۔ آرتھر جیفریThe Koran-Selected Suras ص۱۵،۲۳
(٣٨) سورۃ الفاتحہ کی مختلف قراء ات “The Moslem World” ازآرتھر جیفری، ص۱۵۹
(٣٩) ایضاً، ص۱۵۹-۱۶۰ (٤٠) ایضاً، ص۱۶۰-۱۶۲
(٤١) صحیح بخاری :رقم الحدیث،تفسیر طبری از ابن جریر طبری :۱؍۳۲
مقدمتان ازآرتھر جیفری، ص۲۶۴۔۲۷۳،۲۰۷۔۲۳۴
(٤٢) ایضاً، ص۴۸۱-۴۸۲ (٤٣) مقدمتان ازآرتھر جیفری، ص۲۲۹
(٤٤) ایضاً، ص۲۲۹ (٤٥) ایضاً، ص۲۲۹-۲۳۰
(٤٦) فقہ اللغۃ ازعبدالواحد وافی، ص۱۰۸،فی اللھجات العربیۃازابراہیم انیس،ص۴۰
(٤٧) اس عنوان کے مباحث عربی لغت کی مختلف کتب میں پھیلے ہوئے ہیں۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب الاتقان فی علوم القرآن میں پورے ایک باب میںاس موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے۔
(٤٨) کتاب اللغات فی القرآن ازعبداللہ بن عباس(مرتب :صلاح الدین المنجد )
(٤٩) ایضاً
(٥٠) تفصیل کے لیے دیکھئے مقدمتان ازآرتھر جیفری، ص۲۲۹-۲۳۰
(٥١) فی اللھجات العربیۃ از ابراہیم انیس، ص۱۷۷
(٥٢) روایۃ اللغۃ از ابوالحمید الثلقانی، ص۳۰۰،کلام العرب من قضایا اللغۃ العربیۃاز حسن ظاظا، ص۱۰۴
(٥٣) الخصائص لابن جنی، ص۳۷۴
(٥٤) ایضاً:۱؍۳۷۴
(٥٥) آرتھر جیفری The Quran as Scripture “The Textual of the Quran”،ص ۹۷
(٥٦) اکثر جگہ پرانے نسخہ جات میں استعمال ہونے والے الفاظ مصحف عثمانی کے الفاظ سے محض ظاہری طور پر مختلف یا مترادف ہیں۔
(٥٧) صحیح البخاري: ( ۲۴۱۹، ۵۰۴۱)
(٥٨) ’دی انسائیکلو پیڈیا آف اسلام‘ ازجے۔ ڈی پیرسن:Al-Kuran، ص۴۰۸
(٥٩) ایضاً ، ص۴۰۹
(٦٠) تفصیل کے لیے دیکھئے: مقدمتان ازآرتھر جیفری، ص۲۱۸۔۲۳۰
(٦١) Materials ازآرتھرجیفری، ص۱۶
(٦٢) ایضاً
(٦٣) ایضاً
(٦٤) The Quran as Scriptueازآرتھر جیفری، ص ۱
(٦٥) Roy W. Hoover, Jusus Seminar اورRebert W. Funk نے نیویارک کے مشہور زمانہ پبلشرMacmillan کے ذریعے ۱۹۹۳ء میں The Five Gospels کے نام سے عہد نامہ جدید کو از سر نو شائع کیا ہے جس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ عہدنامہ جدید میں جو کچھ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی جانب منسوب کیاگیاہے اس میں سے زیادہ سے زیادہ بیس فیصد ہی آپ کی جانب منسوب کیا جاسکتا ہے۔ باقی سب تحریف اور من گھڑت ہے۔
(٦٦) ایضاً، ص۲۰
(٦٧) Materials ازآرتھرجیفری، ص۴۹
مزید دیکھئے : لسان العرب لابن منظور: ۱۴ ؍۱۶۳-۱۶۴
(٦٨) مثلاً سورۃ المرسلات کی آیت نمبر ۱۱ میں ’افتت‘ کو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے ’وقت‘ پڑھنا منقول ہے۔ مقدمتان ازآرتھر جیفری ، ص۱۰۷ ،اسی طرح ’وجوہ‘ اور ’اجوہ‘ میں بھی ’و ‘اور ’الف‘ قابل مبادلہ حروف ہیں، دیکھئے : لسان العرب لابن منظور:۲؍۱۰۷-۱۰۸ ،مادہ : وق ت
(٦٩) لسان العرب لابن منظور، دیکھئے :الالف الینہ اور آیۃ ۱۵؍۴۲۷، ۴۳۸-۴۴۱
(٧٠) مقدمتان ازآرتھر جیفری ،ص۲۲۰
(٧١) ابن خالویہ: اعراب ثلثین سورۃ من القرآن الکریم،ص۲۲-۲۴
(٧٢) تفصیل کے لیے دیکھئے:مقدمتان ازآرتھر جیفری ص۳۸
(٧٣) مقدمتان ازآرتھر جیفری ، ص ۷۳
(٧٤) کتاب المصاحف ازابن ابی داؤد، ص۲۳
(٧٥) Materials از آرتھر جیفری ،ص۲۔۱۵
(٧٦) ایضاً، ص۱۶
(٧٦) ’دی انسائیکلو پیڈیا آف اسلام‘ ازجے۔ ڈی پیرسنAl-Kuran: ، ص۴۰۷،۴۰۸ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: The Collection of the Quran ازجان برٹن، ص۱۱۹۔۲۱۲ ،Quranic Studies, Sources, Methods of Scriptual Interpretation ازجان وانبرو ، ص۴۴۔۴۶ اور ۲۰۲۔۲۰۷
(٧٧) مثلاً دیکھئے منٹگمری واٹ:Bell,s Introduction to Quranایڈن برگ۱۹۷۰ئ،ص۳
(٧٨) Materialsازآرتھر جیفری،ص۶-۷ (٧٩) صحیح بخاری:رقم الحدیث
(٨٠) الابانہ ازابومحمد القیسی، ص۹۶-۹۷ (٨١) ایضاً، ص۲۲-۲۳
(٨٢)خطبات بہاولپور ازمحمد حمیداللہ، ص۱۵-۱۶ (٨٣) ایضاً، ص۱۵-۱۶
(بشکریہ ماہنامہ رشد)