جس کسی نے عربوں کی زندگی چند سال پہلے دیکھ رکھی ہو، کیا وہ یقین کرسکتا ہے کہ عمرؓ بن الخطاب ایسا سردارِ بنی مخزوم، جو کبھی عکاظ کے میلوں میں چمپئن ہوا کرتا تھا اور جوکہ آج بھی عرب کا سردار ہے بلکہ ’سپریم پاور‘ کا فرماں روا ہے۔۔ حبش کے سیاہ فام بلالؓ کو توقیر دیتے ہوئے آج یوں گویا ہوتا ہے:
ہذا سیدنا اَعتقہ سیدنا اَبو بکر!(8)
”یہ ہمارے آقا ہیں، اِن کو ہمارے آقا ابو بکرؓ نے آزاد کیا تھا!!!!!“
کون ہے جو اِس منظر پر قربان نہ ہوجائے!!! عرب کا وہ ریگزار اور اُس کے وسط میں ایسا مہکتا پھول!!!
خدایا! کون ہے جس کے دم سے ایک ایسا بنجر لہلہانے لگا؟؟؟!!!
٭٭٭٭٭وہ کون مبارک ہستی ہے جس نے معصوم لڑکیوں کو زندہ درگور کر دینے کی سفاک رسم عرب میں درگور کرائی؟ صرف دو آیات جو عرب کی کایا پلٹ گئیں! جنہیں پڑھتے ہوئے عربوں کی ہچکی بندھ جایا کرتی تھی!؟ سننے والے سہم جاتے تھے!؟ یہ دو مختصر آیتیں جو اِس گناہ میں ملوث رہ چکے لوگوں کے گرد حصار باندھ کر کھڑی ہوجاتی تھیں یہاں تک کہ ضمیر کی قید بن جاتیں بلکہ تو پھندا نظر آتیں:
وَإِذَا الْمَوْؤُودَة سُئِلَتْ بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ (التکویر: 9-8)
”اور جس دن زندہ درگور کر دی جانے والی معصوم جان سے پوچھا جائے گا، بھلا کس جرم میں وہ مار دی گئی تھی“؟
٭٭٭٭٭
ایک ’کم زور‘ مخلوق جو کبھی خود ’ترکہ‘ شمار ہوتی تھی، کس نے اس کو وراثت میں ’زورآور‘ کے ساتھ باقاعدہ ”حصہ دار“ بنا دیا:
لِّلرِّجَالِ نَصيِبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاء نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا (النساء: 7)
”مردوں کے لئے حصہ ہے اُس میں جو ماں باپ اور اعزاءو اقارب چھوڑ گئے۔ عورتوں کے لئے حصہ ہے اُس میں جو ماں باپ اور اعزاءو اقارب چھوڑ گئے۔ ترکہ چاہے تھوڑا ہے چاہے زیادہ۔ حصہ مقرر ہے“
کہاں وہ خود ’ترکہ‘ تھی، کہاں اب وہ ’ترکہ‘ میں حصہ بٹاتی ہے، کیونکہ اِس قوم میں ایک نبی مبعوث ہو چکا ہے!
سورہ ٔ نساءکی تفسیر کرنے والا کوئی مؤلف نہ ہوگا جس نے یہ ذکر نہ کیا ہو کہ باپ مر جاتا تو بیٹے صرف اپنی سگی ماں کو چھوڑنے کے روادار ہوتے اور، باپ کے مرتے ہی، اُس کی باقی بیوگان کے گلے میں پٹکے ڈال دینے کیلئے بھاگتے کہ ’یہ میری ہوئی‘۔۔ اور اِس جہالت کے مدمقابل یہ نبی جو خدا کے حق کے سوا کبھی کسی بات پر غضب ناک ہوتا نہ دیکھا گیا، خدائی دستور یوں جاری کراتا ہے:
وَلاَ تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ آبَاؤُكُم مِّنَ النِّسَاء إِلاَّ مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَة وَمَقْتًا وَسَاء سَبِيلاً (النور:22)
”اور ان عورتوں سے زوجیت نہ کرو جن سے تمہارے باپ کی زوجیت رہی، سوائے وہی جو بس پہلے ہو لیا، یہ بے حیائی ہے اور گھناؤناپن، اور برے انجام کو پہنچانے والا ہے“
اور اِس خدائی دستور پر سختی ایسی کہ براءبن عازبؓ کہتے ہیں: میں نے اپنے چچا کو سرکاری جھنڈا لہرائے جاتا دیکھا۔ پوچھا، تو کہنے لگے: ”رسول اللہﷺ نے روانہ فرمایا ہے کہ ایک شخص جس نے اپنے باپ کی منکوحہ کو اپنے گھر میں ڈال لیا ہے، اُس کا مال ضبط اور اُس کو سزائے موت دے کر آؤں“۔ یہ حدیث چاروں سنن میں آئی ہے، جبکہ ترمذی میں الفاظ ہیں: ”اُس آدمی کی طرف، جس نے اپنے باپ کی منکوحہ کو گھر میں ڈال رکھا ہے، کہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں اُس کا سر لا کر پیش کروں“ (سنن النسائی: کتاب النکاح: باب: نکاح ما نکح الآباء)
٭٭٭٭٭
عرب کا وہ ماحول ذرا ذہن میں لائیے جہاں چند دھیلوں کیلئے آدمی کا خون کر دینے سے دریغ نہیں ہوتا۔ لُوٹنے کیلئے راستوں میں گھات لگا کر بیٹھا جاتا ہے۔ دوسرے کی کسی چیز کی حرمت ہو، اِس کا تو سوال ہی نہیں۔ مال، نہ جان، نہ آبرو، کسی چیز کی عصمت نہیں۔ خود آدمی کو بیچ کھایا جاتا ہے۔ جو جس کے ہاتھ چڑھا وہ اُس کا!ایک دوسرے کا حق دبانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا، بلکہ اِس پر فخریہ کارنامے سنائے جاتے ہیں!
اِدھر سورہ ٔ نور کی ایک آیت ہے۔۔۔۔ جب تک آپ اِس کا سادہ مفہوم پڑھتے ہیں اور تفسیر میں بیان کئے گئے اِس کے سیاق و سباق میں نہیں جاتے تو حیران ہونے لگتے ہیں کہ کیا یہ بھی کوئی ایسی بات تھی جس کو تفصیلاً بتا دینے کیلئے آیات اتریں:
”اندھے پر کچھ حرج نہیں، لنگڑے پر کچھ حرج نہیں، بیمار پر کچھ حرج نہیں، تمہارے اپنے اوپر کچھ حرج نہیں، کہ کھا لیا کرو تم اپنے گھر سے، یا اپنے باپ کے گھر سے، یا اپنی ماں کے گھر سے، یا اپنے بھائی کے گھر سے، یا اپنی بہن کے گھر سے، یا اپنے چچا کے گھر سے، یا اپنی پھوپھی کے گھر سے، یا اپنے ماموں کے گھر سے، یا اپنی خالہ کے گھر سے، یا اُن گھروں سے جن کی کنجیاں تمہارے اختیار میں ہیں، یا اپنے دوست کے گھر سے۔۔ تم پر کوئی گناہ نہیں کہ کھا لیا کرو تم سب مل کر یا الگ الگ۔۔۔۔“ (النور: 61)
آخر وہ کونسا ’حرج‘ ہے جس کو آیت میں اِس تاکید کے ساتھ رفع کیا جا رہا ہے؟ اور یہ کونسی خاص بات ہے کہ آدمی اپنے اِن تعلق داروں کے ہاں کسی وقت کھا لیا کرے؟؟؟ مگر اِس کا شانِ نزول پڑھئے، آپ دنگ رہ جائیں گے: خدایا! نبیﷺ نے اپنے تیار کردہ اِس معاشرے کو عفت کے کس آسمان پر پہنچا دیا ہے!!!
سیاقِ نزول سے یہ کھلتا ہے کہ:
لوگ غزوا ت پر نکلتے ہیں تو گھروں کی دیکھ بھال کیلئے اپنے اُن عزیزوں اور دوستوں کو کنجیاں دے جاتے ہیں یا ویسے تاکید کر جاتے ہیں جو معذور ہونے کی وجہ سے جہاد سے پیچھے رہیں گے۔ کوئی نابینا ہے، کوئی لنگڑا تو کوئی کسی عارضے میں گرفتار۔ کسی کا سسرال ہے تو کسی کا ننھیال تو کسی کا ددھیال تو کسی کی یاری دوستی ، صاحبِ خانہ کی غیر موجودگی میں اہل خانہ کی خبر رکھنی ہے یا ویسے ہی گھر خالی ہے اور اُس میں شب بسری کی حامی بھر رکھی ہے۔ یہاں کھانے کا وقت ہو جاتا ہے تو آدمی کو خوف لاحق ہے کہ مردِ خانہ کی غیر موجودگی میں، جبکہ اُس کی جانب سے اجازت کی صراحت نہیں ہوئی، کیونکر اُس کے گھر سے دو لقمے کھا لئے جائیں، بے شک وہ کتنا ہی قریبی عزیز کیوں نہیں، چونکہ شرعی قاعدہ ہے کہ مومن کا مال اُس کی رضا مندی کے بغیر حلال نہیں! یہاں ہدایت کی جاتی ہے کہ اِس میں وہ حرج محسوس نہ کریں، ’اِن‘ گھروں سے کھا لینے میں مضائقہ نہیں، گھر والے ہوں تو اُن کے ساتھ، اور نہ ہوں تو اُن کے بغیر، اور پوچھے بنا۔ اتنی اتنی بات پر دوستوں رشتہ داروں کے مابین ’اجازت‘ درکار نہیں اور اِن حدود کے اندر رہتے ہوئے ایک بے تکلفی بھی اہل ایمان کے مابین ضروری ہے!
یہ حکمِ شرعی جو اِس آیت میں بیان ہوا اپنی جگہ، مگر وہ فضا جس میں یہ حکم نازل ہوا اور وہ معاشرہ جس میں یہ ’وضاحت‘ کر دینے کی ”ضرورت“ پڑی۔۔۔۔ خودوہ فضا اور وہ معاشرہ کیا خدا کی بڑی نشانیوں میں سے ایک نشانی نہیں!!!؟؟ امانت اور خداخوفی میں ایک پورا ’سماج‘ کیا یہاں تک جاسکتا ہے، اور بھلا دیر کتنی ہوئی ہے؟!! خدایا! کیا یہ وہی معاشرہ ہے جو چند سال پیشتر بلادِ عرب میں پایا جاتا تھا!!!!!!
کون یہ معجزے کر رہا ہے؟؟! اور کب ایسے معجزے دنیا میں کہیں دیکھے گئے؟؟! چند اشخاص نہیں، پورا معاشرہ ہی تو بدل کر رہ گیا ہے!!!
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (الجمعۃ:2)
”وہی تو ہے جس نے امیوں کے مابین ایک رسول کھڑا کیا، خود انہی میں سے، جو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا ہے، اور انکو دھوتا مانجھتا ہے، اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ یقینا وہ اِس سے پہلے ایک
کھلی گمراہی میں ہی تو تھے“
٭٭٭٭٭
ایک عرب ادیب، احمد حسن الزیات لکھتے ہیں:
”دُنیا میں رسول اللہﷺمبعوث ہوئے تو وہ چیز جسے دُنیا آج ’آزادی‘ کے نام سے جانتی ہے، بڑی دیر سے سپرد خاک ہوئی پڑی تھی۔ ’آزادی‘ کو آپ نے اس کی قبر اکھاڑ کر نہ نکالا ہوتا تو اس پر اترانے والے آج اس کا چہرہ تک نہ دیکھ پاتے!
”دُنیا میں رسول اللہ ﷺمبعوث ہوئے تو عقلوں پر بہت بڑے بڑے تالے پڑے تھے۔ خدا کے اس فرستادہ نبی نے ہتھوڑے برسا برسا کر عقلوں پر پڑے ہوئے زنگ آلود قفل توڑے اور لوگوں سے اس پر بہت کچھ سنا تاآنکہ جہالت اور خرافات کی یہ زنجیریں ٹوٹیں اور وہ عقل جس پر یہ دُنیا ناز کرتی ہے انسان کو واپس ملی اور وہ علم جس پر یہ اتراتی ہے اس کے دَر تک پہنچا!
”انسان کو یہ سکھانا کب آسان تھا کہ سبقت کا میدان نیکی اور فضیلت ہے اور تفوُّق پانے کی بنیاد خیر اور اچھائی! محمد ﷺکے دم سے انسان کو معلوم ہوا کہ تعاونِ باہمی کی بنیاد ’مقاصد‘ ہوا کرتے ہیں نہ کہ ’قوم‘ اور ’قبیلے‘ اور ’پیدائشی رشتے‘۔ یہ ایک بہت بڑی زقند تھی جو انسان کو تاریخ کے اِس عہد میں بھرنا نصیب ہوئی۔ تب یوں ہوتا ہے کہ ایک آدھی دُنیا کے اندر مختلف جنسوں اور رنگوں اور ملکوں کے لوگ ہاتھوں میں ہاتھ دے کر نیکی اور تقوی کے ہزاروں اجتماعی منصوبے پروان چڑھانے میں لگ جاتے ہیں اور پھر جہان میں بے انتہا حسین قدروں کی تعمیر شروع ہوتی ہے ۔۔۔۔
”رسول اللہ ﷺمبعوث ہوئے تو پہلی بار دنیا نے جانا کہ ’قلوب‘ کو ’مواخات‘ کے سہارے جوڑا جاتا ہے اور ’حقوق‘ کو ’مساوات‘ کے دم سے!
”تب معاشرے کا سب سے کمزور آدمی بجا طور پر سمجھنے لگا کہ خدا کی یہ سب فوج اسی کا جتھہ اور قبیلہ ہے۔۔
”معاشرے کے سب سے نادار شخص میں یہ اعتماد آیا گویا بیت المال اس کی ذاتی جاگیر ہے۔ دُنیا کا ایک بے سہارا و بے خانماں شخص دیکھنے لگا تھا کہ اہل ایمان کی صورت میں اس کو بے حدوحساب بھائی مل گئے ہیں!“
محمد ﷺانسانیت کیلئے ایک ایسی ہی خوبصورت جہت کا نام ہیں۔ دُنیا اور آخرت کی اتنی خیر ایک ہی جگہ کہیں پائی ہی نہیں جا سکتی۔
ایک ادیب لکھتا ہے:
”تاریخ کے کچھ واقعات خود تاریخ سے بڑے ہوتے ہیں۔ حراءکے اندر رونما ہونے والا واقعہ یعنی ”آسمان کے امین“ کا ”زمین کے امین“ سے ارتباط ہونا اور اس سے انسانی شعور کیلئے روشنی کی ایک نئی کرن پھوٹ پڑنا ۔۔۔۔ ایک کائناتی واقعہ ہے نہ کہ محض تاریخ انسانی کا ایک وقوعہ“
ایک نومسلم محمد ﷺکو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”عرب کے خاندانی تفاخر کو ذرا نظر میں رکھیے اور پھر خدا کے اس بندے کی خدا آشنائی دیکھئے۔ قرآن اس کا اپنا کلام ہوتا تو اس میں مسیح ؑکی ماں کیلئے ایک پوری سورت مخصوص کی جانے کی بجائے اس کی اپنی ماں کے نام کی کئی سورتیں ہوتیں! ’آل عمران‘ کی بجائے یہاں ’آل عبدالمطلب‘ کی تلاوت ہوتی اور عربوں کیلئے اس میں ذرا بھر تعجب کی بات نہ ہوتی۔ مگر اس شخص کی خدا پرستی دیکھئے کہ مسیح ؑکی ماں کا ذکر یہ تاریخ انسانی کی چار برگزیدہ ترین عورتوں میں کرتا ہے جبکہ اپنی ماں کی تربت پہ کھڑا روتا اور دوسروں کو رلاتا ہوا یہ کہہ رہا ہے: ”میں نے خدا سے درخواست کی کہ اپنی ماں کیلئے دُعائے مغفرت کر لوں پر خدا نے مجھے اس کی اجازت نہ دی۔ میں نے اس کی قبر کی زیارت کیلئے اجازت مانگی خدا نے مجھے اس بات کی البتہ اجازت دے دی( صحیح مسلم عن ابی ھریرہ 2۔261)
٭٭٭٭٭
عرب کا وہ پسماندہ توہم پرست ماحول ذہن میں لائیے جہاں لوگ ہر سادھو اور ملنگ سے دبتے ہیں اور اس کے ’روحانی اختیارات‘ کی دھاک ان پر یوں بیٹھتی ہے گویا وہ جب چاہے انکو ’بھسم‘ کرکے رکھ دے ۔۔ معجزات پاس رکھتے ہوئے دیکھئے کس طرح خدا کا یہ نبی ان کو اپنی بندگی اور عاجزی کا یقین دلاتا اور ان کے توہمات دورکرتا ہے:
”میں اپنی ذات کیلئے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا، سوائے وہی جو اللہ چاہے۔ اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے فائدے اپنے لئے حاصل کر لیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا۔ میں تو محض ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں، ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں“(الاعراف:188)
دیانت اور خدا آشنائی کی عجیب عجیب مثالیں ہیں جو اس نبی کی سیرت پڑھنے والے کے سامنے آتی ہیں ۔۔
حدیبیہ گویا فتحِ مبین کا دیباچہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی فتوحات کا تانتا بندھتا ہے۔ عرب کا کوئی نہ کوئی قلعہ روز ہی آپ کی فوجوں کی دھمک سے گرتا ہے اور آپ کی قلمرو میں میلوں کے حساب سے ہر روز اضافہ ہوتا ہے۔ قیصر اور کسریٰ اور یمن اور مصر تک کے بادشاہوں کو نامے ارسال ہوتے ہیں۔ مصر سے تحفہ میں بھیجی گئی کنیز ماریہؓ آپ کے حرم میں داخل ہوتی ہیں اور آپ کیلئے ایک فرزند جنتی ہیں ۔۔۔۔ ابراہیم۔ ایسا شہزادہ بھی دُنیا نے کبھی نہ دیکھا ہوگا۔ یہ اقتدارِ نبوت کی اوج کا زمانہ ہے کہ ابراہیم فوت ہو جاتا ہے اور اتفاق یہ کہ سورج بھی اسی دن بے نور ہو جاتا ہے۔ دوبڑے واقعے ۔۔۔۔ لوگ خودبخود ان میں رشتہ ڈھونڈتے ہیں اور ہر طرف یہ باتیں ہونے لگتی ہیں کہ آفتاب کا یہ گرہن کسی بہت بڑے انسان کی موت سے منسلک ہے اور یہ کہ ابراہیم بن رسول اللہ کی موت سے بڑھ کر اس کی کیامناسبت ہوسکتی ہے۔ توہّم پرست معاشروں کے اندر کتنے فرعونوں اور شاہی خاندانوں نے اپنے شجرۂ نسب سورج اور ستاروں اورزہرہ ومریخ سے آخر نہیں جوڑے اور آج تو یہ سورج آپ سے آپ بے نور ہے اور آپ تو خدا کے نبی ہیں۔ ذرا اگر خاموش رہ لیں تو مفت میں پورے عرب پر ایک عجیب دھاک بیٹھتی ہے اور غم کے وقت تو انسان اپنے لئے کیا کیا تسلیاں نہیں دیکھتا۔ مگر یہ صادق ؑاور امین ؑہیں جن کو خدا کی جانب سے انسانی فکر وشعور کی ساخت اور تربیت کی امانت سونپی گئی ہے۔ یہاں خدا کے سوا کوئی بڑا نہیں ہو سکتا۔ لوگوں کو اکٹھا ہونے کیلئے منادی کی جاتی ہے۔ مجمع میں آپ خطبہ دینے کھڑے ہو جاتے ہیں:
”یہ سورج اور یہ چاند خدا کی نشانیوں میں سے بس دو نشانیاں ہیں۔ یہ نہ کسی کی موت کے باعث گرہن زدہ ہوتے ہیں اور نہ کسی کی پیدائش کے سبب۔ پس جب تم ایسا ہوتا دیکھو تو خدا کا ہی ذکر کرنے لگو“(البخاری عن عبداللہ بن عباس 3692)
٭٭٭٭٭
حامد کمال الدین