خلقت مبرأ من كل عيب

اس کا مشاہدہ آپ اکثر کریں گے۔ کسی ایک میدان میں کوئی انسان اگر ’بڑا‘ اور ’قابل ذکر‘ ہو جائے تو یہ اس کے بہت سے میدانوں میں ’چھوٹا‘ اور ’ناقابل ذکر‘ ہونے کی قیمت پر ہوتا ہے۔ بہت سے انسان دیکھے گئے جو اگر کسی ایک بات میں ماؤنٹ ایورسٹ کی بلندی پر ہوں گے تو کسی دوسرے پہلو سے بحرۂ مردار سے بھی نیچے گرے ہوئے ہوں گے“۔


یہ بات بے انتہا سچ ہے ۔۔۔۔

اکثر مشہور فاتح نجی زندگی میں نہایت بدخصلت دیکھے گئے۔

اکثر فلسفی اور مفکر عمل کے میدان میں صفر بھی نہیں ہوتے۔

جن شاعروں کی غزلیں اور ’محبت‘ کے گیت قریہ قریہ گائے جاتے ہیں اور جن ادیبوں کے تخلیقی شہ پاروں سے لوگ زبان کا ذوق پاتے ہیں ان کی ذاتی زندگی میں اکثر اُلو بولتے سنے گئے اور وہ اپنے قریب کے لوگوں پر بے انتہا بھاری دیکھے گئے۔۔ لوگ ان سے صرف مشاعروں اور کتابوں کے اندر رہ کر ہی محظوظ ہوتے ہیں۔

اکثر سیاستدان میدانِ جنگ کے شہسوار نہیں ہوتے۔

میدانِ کارزار کے جری بہادر، فکر وفلسفہ اور علم ودانش کے مردِ میدان نہیں ہوتے۔

اکثر سماجی کارکن گھریلو زندگی میں ایک کامیاب مثال نہیں دیکھے گئے۔

اکثر لیڈروں کے اہل خانہ، دوست احباب اور عزیزوں کیلئے، ان لیڈروں کے پاس ’وقت‘ نہ ہونے کے گلے کرتے سنے گئے ہیں۔

اکثراخلاق کے داعی جو باعمل بھی ہوں حکمرانی میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔ اخلاق کا اصل امتحان ہوتا ہی تب ہے جب اختیارات کا تاج سر پر رکھا ہو۔

اکثر عبادت گزار معاشرے کے گھمسان سے گزرتے ہوئے بھی گھبراتے ہیں، کجا یہ کہ وہ سرکش معاشروں کی ’ننگی پیٹھ‘ پر چڑھ بیٹھیں اور ان کو سدھا لینے کا برتہ رکھیں۔

تجارت کے دھنی، دلیری میں نام پیدا کرتے کبھی کم ہی سنے گئے ہوں گے۔

سفارت اور ڈپلومیسی کے محاذ پر سرگرم لوگ یتیموں، بیواؤں اور بے سہاراؤں کیلئے پریشان پھرتے اور دولتمندوں کو ان کی خدمت کیلئے مسخر کرتے کبھی کم ہی دیکھے گئے ہوں گے۔

امور قانون کے ماہرین تزکیہ وتربیت اور امور شخصیت سازی میں مستند مرجع کم ہی کبھی مانے گئے ہوں گے۔

حکمائے نفس کیا کبھی اقتصادیات میں بھی منفرد ترین اسکول آف تھاٹ ہوئے ہیں؟

عمرانیات کے استاد ’علم قلوب‘ میں نام پیدا کرتے کہاں سنے گئے ہیں؟

فوجوں اور خزانوں کے مالک زہد اور درویشی میں بھی مثال ہوں حتی کہ دُنیا کے بڑے بڑے زاہد اُنہی کے زہد کی مثال دیں اور اُنہی سے زہد کے اسباق لیں، ایسا کبھی ہوا ہے؟

پس اصل عظمت تو یہ ہے کہ آدمی ہر پہلو سے بڑا ہو۔ پر یہ کہاں سب کیلئے میسر ہے۔

یہاں دیکھئے، کسی ایک میدان میں عظمت دیکھنی ہو تو اس کی انتہا نہیں۔ پھر یہ سب انتہائیں ایک ہی جگہ اکٹھی ہوں اور عظمت کے اتنے لاتعداد پہلو کسی ایک ہی انسان میں اس بے ساختگی کے ساتھ مجتمع ہوں!

تاریخ انسانی کے اتنے بڑے بڑے اعزاز ایک ہی شخصیت میں سما جائیں اور وہ تب بھی ہلکا پھلکا لاپرواہی سے یہاں صرف ”الرفیق الاَعلیٰ“ کا سوال کرے ۔۔۔۔ دِن کے اتنے کارنامے راتیں سجدہ وقیام میں خدا کے ساتھ بسر ہونے میں مانع نہ ہو پائیں اور وہ خدا سے مانگے تو صرف آخرت ۔۔۔۔ گھر میں دو دو تین تین ماہ چولہا جلنے کی نوبت نہ آئے اور کھجور کی سخت چٹائی سوتے ہوئے نرم جلد میں پیوست ہو جایا کرے اور اسے اس بات کی پرواہ تک نہ ہو ۔۔۔۔ یہ ہیں محمد ﷺاللہ کے بندے اور اس کے رسول!!!

جیسے جیسے کسی انسان کا ستارۂ قسمت بلند ہو ویسے ویسے ہی خدا کی کبریائی کے آگے اس کا سر نگوں ہو اور ویسے ویسے ہی اس کی زبان پر خدا کی تعریف وتسبیح اور اپنے قصور پر استغفار کا ورد سنا جانے لگے ۔۔۔۔ بندگی کی ایسی خوبصورت تصویر محمد ﷺسے بڑھ کر آپ کو کہاں ملے گی!!!

اور آج یہ ہستی میدانِ عرفات میں کھڑی ہے۔ حدِ نگاہ تک اِس کا تربیت یافتہ ’جزیرۃ العرب‘ اِس کا ایک ایک لفظ سننے کیلئے مجسم شوق ہوا بیٹھا ہے۔ تاریخ یہاں تھم گئی ہے۔ ابھی چند ہی سال پہلے اِسی مکہ سے جان بچا کر حبشہ میں پناہ گزیں اِس کے پیروکاروں کی ایک چھوٹی سی جماعت اپنی قوم کی حالت یوں بیان کر کے ہٹی ہے:

اَیہا الملک! کنا قوماً اَہلَ جاہلیۃ (12)

”اے بادشاہ! ہم لوگ ایک جاہلیت میں گرفتار قوم تھے۔۔

اور آج یہیں سے ’ورلڈ ڈیکلیریشن‘ جاری ہوتا ہے:

اَلا و اِن کل شیئٍ من اَمر الجاہلیۃ موضوع تحت قدمَیَّ ہاتین(13)

سن لو! جاہلیت کا پورا دستور میرے اِن دونوں پیروں کے نیچے ہے!حکومتیں تو بہت لوگ کر گئے، محمدﷺ کے سوا مگر کون ہے جس کی راہ میں تاریخ یوں بچھ گئی ہو؟

محمدﷺ کے علاوہ کون ہے جس نے سرکش زمانے کو یوں سدھا لیا ہو؟

کون ہے جس نے صالح مقاصد کیلئے کرہ ٔ ارض کے اندر اِس کامیابی کے ساتھ تصرف کیا ہو؟

کون ہے جس نے اِس قدر ہمہ جہت انقلاب اِس دھرتی پر اِس سے پہلے یا اِس کے بعد برپا کیا ہو اور خیر کا ایک ایسا ریلا یہاں بہا دینے میں کامیاب ہوا جو پوری زمین کو اپنے زیرِ آب لے آنے کی صلاحیت رکھے؟