”اے بادشاہ! ہم لوگ ایک ایسی قوم تھے کہ سر تا سر جاہلیت میں گرفتار تھے۔
بت پوجتے تھے۔
مردار کھاتے تھے۔
بدکاریاں کرتے تھے۔
ہمسایوں کو ستاتے تھے۔
بھائی بھائی پر ظلم کرتا۔
طاقتور کمزور کو کھا جاتا۔دریں اثنا، ہم میں ایک شخص پیدا ہو، جس کی شرافت اور صدق ودیانت سے ہم لوگ پہلے سے واقف تھے۔
اُس نے ہم کو اسلام کی دعوت دی۔
اُس نے ہمیں سکھلایا کہ ہم پتھروں کو پوجنا چھوڑ دیں۔ سچ بولیں۔
خون ریزی ترک کر دیں۔
یتیموں کا مال نہ کھائیں۔
ہمسایوں کو آرام دیں۔
پاک دامن عورتوں پر بدنامی کا داغ لگانا چھوڑ دیں۔
نماز پڑھیں۔ روزہ رکھیں۔ زکوٰۃ دیں۔
ہم اس پر ایمان لائے۔ شرک اور بت پرستی چھوڑ دی اور تمام اعمال بد سے دامن کش ہو گئے۔
اِس جرم پر ہماری قوم ہماری جان کی دشمن ہوگئی اور ہم کو مجبور کرتی ہے کہ اسی گمراہی میں پھر واپس جائیں“(مہاجرین حبشہ کا بیان، بہ لسانِ جعفر بن ابی طالبؓ، روبروئے نجاشی(مسند احمد رقم: 21460))