موجودہ عالمگیر مادہ پرستانہ تہذیب کے ظاہر فریب پردوں کے پیچھے جھانک کر انسانیت کا جائزہ لیجیے، تو وہ حال زار سامنے آتا ہے کہ روح کانپ جاتی ہے۔
پوری اولادِ آدم کو چند خواہشات نے اپنے شکنجے میں کس لیا ہے اور ہر طرف دولت و اقتدار کے لیے ہاتھا پائی ہو رہی ہے۔ آدمیت کے اخلاقی شعور کی مشعل گل ہے۔ جرائم تمدنی ترقی کے ساتھ ساتھ تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ نفسیاتی الجھنوں کا زور ہے اور ذہنی سکون یکسر غائب ہوچکا ہے۔ انسانی ذہن و کردار میں ایسا بنیادی فساد آگیا ہے کہ زندگی کا کوئی گوشہ اس کی منحوس پرچھائیں سے محفوظ نہیں رہا۔ فلسفہ و حکمت سے سچائی کی روح کھو گئی ہے۔ اعتقادات و نظریات میں توازن نہیں رہا۔ روحانی قدریں چوپٹ ہو چکی ہیں۔ قانون روحِ عدل سے خالی ہو رہا ہے۔ سیاست میں جذبۂ خدمت کی جگہ اغراض پرستی گھس گئی ہے۔ معیشت کے میدان میں ظالم اور مظلوم طبقے پیدا ہوگئے ہیں، فنون لطیفہ میں جمال کی ساری رنگ آمیزیاں جنسی جذبوں اور سفلی خواہشوں سے کی جانے لگی ہیں۔ تمدن کے سارے عوامل میں چپہ چپہ پر تضادات ابھر آئے ہیں جن کے درمیان تصادم برپا ہے اور پوری تاریخ ایک خوفناک ڈرامے میں بدل گئی ہے۔ عقل ترقی کر گئی ہے مگر اس کی حماقتیں ہمارے درپۓ آزار ہیں۔ علم کے سوتے ابل رہے ہیں، مگر اسی کی پروردہ جہالتوں کے ہاتھوں آدم زار کا ناک میں دم ہے۔ دولت کے خزانے ہر چہار طرف بکھرے پڑے ہیں مگر خاکی مخلوق بھوک، ننگ اور محرومی کے عذاب میں گھری ہے۔ ہزار گونہ تنظیمیں اور سیاسی ہئیتیں، نظریاتی وحدیں اور معاہداتی رابطے نمودار ہیں مگر انسان اور انسان کے درمیان بھائی بھائی کا سا تعلق نہیں چیتے اور بھیڑیے کا سا معاملہ ہے۔ عقلی، سیاسی، اخلاقی اور تہذیبی شعور کی ترقی کے چرچے ہیں، مگر ظلم اور تشدد کے انتہائی ناپاک حربے آج بھی انسانیت کے خلاف کام میں لائے جا رہے ہیں۔
تاریخ ایک وسیع اکھاڑا ہے جس میں کہیں امپیریلزم اور حریت پسندی کے درمیان، کہیں کمیونزم اور سرمایہ داری کے درمیان، کہیں جمہوریت اور آمریت کے درمیان اور کہیں فرد اور اجتماعیت کے درمیان اور کہیں مغربیت اور ایشیائیت کے درمیان ایک خونخوار آویزش جاری ہے۔مصنوعی سیاروں اور میزائلوں کے اس دور میں سائنس الہ دین والے روایتی چراغ کے جن کی طرح مادی قوتوں کے نئے نئے خزانے انسان کے ایک ایک اشارے پر بہم پہنچا رہی ہے۔ قدرت کے سربستہ رازوں کے ازلی قفل حکمت کی کنجی سے کھل رہے ہیں، ہیبت ناک رفتار انسان کو زمان و مکان پر وسیع تصرف دلا رہی ہیں، جوہری توانائی نے تباہ دیووں کے لشکر انسان کے سامنے مسخّر کر کے کھڑے کر دیے ہیں جو بس ایک اشارۂ ابرو کے منتظر ہیں۔ دوسری طرف خود انسان کا اپنا یہ حال ہے کہ وہ شیطانی اور تخریبی قوتوں کے پنجے میں پہلے سے زیادہ بے بس دکھائی دیتا ہے جو بار بار اسے اپنے ہی خلاف محشر آرا کرتی رہی ہیں اور جنہوں نے ہر دور میں اس کے عظیم تعمیری کارناموں اور اس کے شاندار تمدنوں کو خود اسی کے ہاتھوں ملیامیٹ کرایا ہے۔
اضطراب کے اس لمحے میں جب چاروں طرف نگاہیں گھماتا ہوں تو تاریکی کا ایک سمندر شش جہت سے محاصرہ کیے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔
اس سمندر میں دور ۔۔۔
چودہ صدی کی دوری پر۔۔۔
ایک نقطہ نور دکھائی دیتا ہے
یہ انسانیت کے سب سے بڑے محسن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی مشعل ہے!
وہی مشعل جس کی روشنی کو خود ہم نے ۔۔۔۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیواؤں نے ۔۔۔ اپنے افکار پریشاں اور اپنے اعمال پراگندہ کے غبار میں گم کر رکھا ہے !!
(محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم از نعیم صدیقی)