چچ نامے میں لکھا ہے کہ محمد بن قاسم کے آنے سے پہلے ہندوستان کا جو حکمران تھا، اس کو کسی نجومی نے مشورہ دیا کہ تم فلاں لغواور غیر اخلاقی حرکت کرو تو بادشاہت پر قائم رہو گے پرانی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ جو شخص فلاں غیر اخلاقی حرکت کرے گا وہ بادشاہت حاصل کرے گا۔
بادشاہ نے کہا کہ یہ تو بڑا مشکل کام ہے۔ میں اگر ایسی حرکت کروں گا تو لوگ کیا کہیں گے۔ نجومی یا وزیر نے کہا کہ لوگ کچھ نہیں کہیں گے۔ لیکن بادشاہ کو تامل تھا . مشورہ دینے والے وزیر نے ایک بھیڑ منگوائی جس کے بال بہت بڑے بڑے تھے۔ اس کے بالوں میں ایک خاص مصالحہ لگایا جس سے بال بہت لمبے ہو گئے اور اس کی کمر ہاتھی کے سائز کی ہو گئی۔ بادشاہ سے کہا کہ اس بھیڑ کو شہر میں لوگوں کو دکھانے کے لیے نکالیں۔ چنانچہ اس عجیب و غریب بھیڑ کو دیکھنے کے لیے پورا شہر امڈ آیا۔ سارے شہر میں ایک ہنگامہ بپا ہو گیا۔ پورے شہر میں چرچا ہو گیا کہ ایک عجیب طرح کی بھیڑ آئی ہے جو ہاتھی کے سائز کی ہے۔ تمام دن سب لوگ اسی موضوع پر بات کرتے رہے۔ شہر میں اور کوئی کام نہیں ہوا۔ بازار بند ہو گئے۔
دوسرے دن پھر بھیڑکو شہر کی گلیوں میں پھرانے کے لیے نکالا تو آدھے لوگ آئے۔ تیسرے دن کوئی نہیں آیا۔ جس وزیر نے یہ مشورہ دیا تھا اس کا نام بدھیمن تھا۔ بدھیمن نے کہا کہ آپ کے ساتھ بھی یہی ہو گا۔ پہلے دن لوگ بہت تذکرہ کریں گے۔ دوسرے دن تھوڑا سا ذکر کریں گے۔ تیسرے دن کچھ نہیں کہیں گے۔
شاید اہلِ مغرب نے بدھیمن نجومی کا مشورہ پڑھا ہوا ہے۔ وہ وقتاً فوقتاً اس طرح کی بھیڑیں نکالتے رہتے ہیں۔ توہینِ رسالت کے جو واقعات وقتاً فوقتاً ہوتے رہتے ہیں یہ کوئی اتفاقی واقعات نہیں۔ یہ واقعات بڑے غور و خوض اور سوچ سمجھ کر کیے جاتے ہیں۔ جو قومیں دنیا پر حکومت کر رہی ہیں۔ جو دنیا کی رگ رگ سے واقف ہیں۔ جو مسلمانوں کے اندونی احساسات کا پتہ چلانے کے لیے ادارے بناتے ہیں۔ اس کام پر کروڑوں روپیہ خرچ کرتے ہیں۔ مسلمانوں کے آئندہ عزائم کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں۔ ان کو یہ ضرور معلوم ہو گاکہ ذاتِ رسالتِ مآب کے بارے میں مسلمانوں کا رویہ کیا ہے۔ اس طرح کے واقعات جب ایک ایک کرکے پیش آتے جائیں گے تو جو مسلمانوں کے اندر کے جذبات ہیں وہ نکلتے جائیں گے۔ایک مرحلہ خدانخواستہ ایسا آسکتا ہے اور ان کا اندازہ یہی ہے کہ ایسا مرحلہ آنے والا ہے کہ توہینِ رسالت کا ارتکاب ہو اور مسلمان کسی ردعمل کا اظہار نہ کریں۔ جب وہ مرحلہ خدانخواستہ آجائے تو پھر وہ اگلے مرحلے کا آغاز کریں گے جس میں اس وابستگی کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے جو اقدامات انہوں نے سوچ رکھے ہیں وہ کریں گے۔
اس سب کے ساتھ ساتھ گزشتہ دو سو برس سے یہ کام بھی ہو رہا ہے کہ مسلمانوں کی توجہات کو ایسے غیر عملی مسائل میں اُلجھا دیا جائے جو مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم بھی کرتے رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی قوتِ عمل کو بھی ختم کرتے رہیں۔
میں نے عرض کیا تھا کہ سیرت کے بارے میں بعض ایسے سوالات جو مسلمانوں میں کبھی نہیں اُٹھے تھے۔ انیسویں صدی میں اٹھے۔ آخر انیسویں صدی میں کیا نئی بات ہوئی تھی۔ انیسویں صدی ہی میں وہ مسائل کیوں اٹھائے گئے۔ ؟؟
وجہ صرف ایک ہی سمجھ میں آتی ہے۔ یہ مسائل مسلمانوں میں اس لیے اٹھ سکے کہ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی حاکم ہو گئی تھی۔ اس لیے اُٹھے کہ ہندوؤں میں سے بہت سے طبقات کو انگریزیوں نے کھڑا کرکے اس کام پر مامور کر دیا تھا کہ مسلمانوں کے عقائد پر حملے کریں۔ یہ آریہ سماجی اور برہمو سماجی از خود تو کھڑے نہیں ہوئے تھے۔ یہ کسی خاص ہدف کی خاطر کھڑے کردیے گئے تھے۔ یہ مسلمانوں پر حملے کرنے پر انیسویں ہی میں کیوں آمادہ ہوئے۔ اس لیے کہ کسی نے ان کو آمادہ کیا تھا ورنہ یہ حملے بہت پہلے بھی ہوسکتے تھے ۔ مسلمانوں پر دورِ زوال کئی بار آیا۔ برصغیر میں کئی بار مسلمان سیاسی طور پر کمزور ہوئے اور کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ مسلمانوں کی حکومت یہاں ختم ہوتے ہوتے رہ گئی ۔ لیکن کبھی اس طرح کی تحریکات اور اعتراضات نہیں اُٹھائے گئے جو انگریزوں کے آنے کے بعد اٹھائے گئے ۔ اس لیے قوی امکان یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب واقعات اور مظاہر ایک منصوبے کا حصّہ تھے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی وابستگی کمزور کرنے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔
(از محاضراتِ سیرت۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی، ص 723-725 )
بشکریہ ایقاظ