پہلے ایک وضاحت :کوئی شخص اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے وہ موسیٰ علیہ السلام، سموئیل، یوشع اور داؤد علیہ السلام وغیرہ کے ساتھ کفر کرتا ہے تو ایسے بدبخت کے ساتھ گفتگو کا تو کوئی اور ہی مقام ہوسکتا ہے، البتہ اگر کوئی شخص بائبل میں مذکور اِن انبیاء کو مانتا ہے اور ان کے صحیفوں پر مشتمل آج کی بائبل بھی وہ بڑی تندہی سے بانٹتا پھرتا ہے اور اس پر ایمان پختہ کرانے کا بھی باقاعدہ داعی ہے البتہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ’تلوار‘ دکھا دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ’دیکھو اسلام تو کس بربریت کا درس دیتا ہے‘ اور یوں دین اسلام کو معاذ اللہ ’تہذیب‘ کاطعنہ دینے چل پڑتا ہے۔۔۔۔
تو پھر ایسے شخص کو ہم کہتے ہیں آؤ تمہاری ہی بائبل کھول لیتے ہیں، ہم پڑھیں گے اور تم سنو! پھر ہمت ہو تو انصاف کی بات کہہ دو، اور اگر نہیں تو تمہاری طرح کے بہت ہیں جو چپ بیٹھے ہیں!
البتہ اِس سے پہلے ایک بار پھر واضح کر دیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے جتنے انبیائے کرام ہیں جن کا ہمیں اپنے نبی کی راہ سے علم ہوا ہے، اور جن میں سے بعض کا آئندہ صفحات میں دیے جانے والے بائبل کے حوالوں میں بھی ذکر آسکتا ہے، اُن سب نبیوں پر ایمان ہمارے دین کا حصہ ہے۔ امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی امتیاز ہے کہ وہ خدا کے کسی نبی کی، بال برابر بھی بے ادبی کا معاذ اللہ کبھی سوچ تک نہیں سکتی۔
بائبل کے یہ نصوص علی وجہ الالزام ان لوگوں کی بدزبانی کے جواب میں دے رہے ہیں جنکا دعویٰ ہے کہ وہ بائبل پر ایمان رکھتے ہیں مگر جنکا کہنا ہے کہ معاذ اللہ ثم معاذ اللہ شریعتِ اسلامی کے مصادر ’وحشیت‘ سکھاتے ہیں۔
اگر آپ انٹرنیٹ پر یہ کتاب پڑھ رہے ہیں تو یہیں اردو بائبل کے اِن links پر چلے جائیے اور پھر ہر حوالے پر متعلقہ صحیفہ ’کلک‘ کرتے جائیے:
http://www.wbtc.com/site/PageServer?pagename=downloads_urduhttp://www.ibsstl.org/bibles/urdu/index.php
سموئیل (بائبل کی رو سے ایک نبی) نے ساؤل (طالوت) سے کہا کہ میں وہی شخص ہوں جسے خداوند نے بھیجا ہے کہ وہ اپنی قوم کے اوپر تجھے بطور بادشاہ مسح کرے۔ لہٰذا اب دھیان سے خداوند کا کلام سن۔ خداوند قادرِ مطلق یوں فرماتا ہے کہ جب اسرائیلی مصر سے نکل کر آئے تو اُن کا راستہ روک کر عمالیقیوں نے اُن کے ساتھ جو کچھ کیا اُس کے لئے میں اُنہیں سزا دوں گا۔ اِس لئے اب تو جا اور عمالیقیوں پر حملہ کر اور جو کچھ اُن کا ہے اُسے پوری طرح تباہ کر دے۔ اور اُن پر رحم نہ کرنا بلکہ مردوں، عورتوں، اور شیرخوار بچوں، گائے، بیلوں بھیڑوں ، اونٹوں اور گدھوں، سب کو قتل کر دینا“
(1 Samauel سموئیل 1، اصحاح 15: 3 تا 1)
اب اگر کوئی اِن سے پوچھنے پر آئے کہ شیرخوار بچوں نے بنی اسرائیل کا کیا بگاڑا تھا؟؟
(ویسے شاید آج بھی اِسی ’حکم‘ پر عمل کے لئے امریکی بنیاد پرست، اسرائیلی بمباروں کیلئے چندے اکٹھے کرتے ہوں!)۔۔۔۔ اور یہ کہ بیلوں، بھیڑوں، اونٹوں اور گدھوں کا بھلا کیا قصور تھا جو قتل کر دیا جانے کا حکم آتا ہے؟!
تو پھر اب ذرا اِس کا موازنہ رحمۃ للعالمین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس فرمان سے بھی کر لو، جو وہ صحابہ کے دستوں کو ”جہاد“ پر روانہ کرتے ہوئے صادر فرمایا کرتے:
انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”چل پڑو اللہ کا نام لے کر، اللہ کے سہارے، اللہ کے پیغمبر کی راہ پر، اور نہ قتل کرنا کسی ناتواں بوڑھے کو، اور نہ بچے کو، اور نہ عورت کو، اور نہ خیانت کرنا، دیکھنا غنیمت کا مال (امیر کے پاس) جمع کرانا، اور اصلاح کرتے رہنا، اور احسان کرنا، بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے“(سنن اَبی دواد، حدیث رقم: 2247۔ کتاب الجہاد، باب: فی دعاءالمشرکین)
خدا کے بندو! کیوں اِس نبی پر فدا نہیں ہوجاتے!!!؟
دیانتداری سے بتاؤ، ’جنگوں‘ کی تاریخ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی کوئی ایسا حکم نامہ کہیں پایا گیا یا کوئی شخص لا کر دکھا سکتا ہے؟
تاریخ کے دھارے کو یہ صالح ترین رخ اِس عظیم انسان کے سوا کس نے دیا؟
کیا حق نہ تھا کہ وہ لوگ جو آج تک رومن درندگی کی داستانیں سنتے اور سناتے آئے تھے وہ اِس نبیِ خدا آگاہ کو دشنام دینے کی بجائے، آکر اِس کے پیر چومتے؟!!
مگر آنکھیں نہیں دل اندھے ہو جاتے ہیں!
اور، آگے بڑھنے سے پہلے، اب ذرا قرآن کو بھی دیکھئے:
فَإِنِ اعْتَزَلُوكُمْ فَلَمْ يُقَاتِلُوكُمْ وَأَلْقَوْاْ إِلَيْكُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللّهُ لَكُمْ عَلَيْهِمْ سَبِيلاً (النساء: 90)
”ہاں اگر وہ تم سے کنارہ کش رہیں ، کہ تم سے جنگ نہ کریں، اور صلح کا پیام ڈالیں، تو اللہ تعالیٰ نے تم کو ان لوگوں پر کوئی راہ نہیں دے رکھی ہے“
بخدا، ہم یہاں انبیاء کا موازنہ نہیں کر رہے۔ ہم تو بائبل کی ان نصوص کے ثبوت ہی کی بابت کوئی دعویٰ نہیں رکھتے۔ ہم صرف اِن لوگوں کی بددیانتی سامنے لانے کیلئے یہ عبارتیں دے رہے ہیں جو بائبل اور اُسکی اِن نصوص کو حق جانتے ہیں پھر بھی ’بربریت‘ کی نشاندہی کیلئے اسلامی شریعت کی نصوص پر انگلی اٹھاتے ہیں۔
تو پھر آئیے۔۔۔۔!
سیرتِ مصطفی رحمۃ اللہ علیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کہیں نہیں پایا گیا کہ کوئی قوم جنگ کے بغیر زیرنگیں آنے پر تیار ہو تو اس کو غلام بنانے کا کبھی سوال بھی اٹھا ہو، اور سوائے آمادہُ جنگ لوگوں کے کسی کو تلوار کی دھار پر رکھا گیا ہو، اور سوائے چند انتہائی سر بر آوردہ جنگی مجرموں کے کسی قیدی کو پسِ جنگ ’زندہ نہ چھوڑنے‘ کا واقعہ پیش آیا ہو ۔۔۔۔ مگر یہاں دیکھئے، ’شریعت‘ یوں بتائی جاتی ہے:
“جب تم شہر پر حملہ کرنے جاؤ تو وہاں کے لوگوں کے سامنے امن کا پیغام دو۔ اگر وہ تمہارا پیغام قبول کرتے ہیں اور اپنے پھاٹک کھول دیتے ہیں اُس شہر میں رہنے والے تمام لوگ تمہارے غلام ہو جائیں گے اور تمہارا کام کرنے کے لئے مجبور کئے جائیں گے۔ لیکن اگر شہر امن کا پیغام قبول کرنے سے انکار کرتا ہے اور تم سے لڑتا ہے تو تمہیں شہر کو گھیر لینا چاہیے۔ اور جب خداوند تمہارا خدا شہر پر تمہارا قبضہ کراتا ہے تب تمہیں تمام آدمیوں کو مار ڈالنا چاہیے۔ تم اپنے استعمال کے لئے عورتیں بچے جانور اور شہر کی ہر ایک چیز لے سکتے ہو۔ خداوند تمہارے خدا نے تمہارے دشمنوں کی مالِ غنیمت تم کو دی ہیں۔ جو شہر تمہاری ریاست میں نہیں ہیں اور بہت دور ہیں اُن سبھی کے ساتھ تم ایسا برتاؤ کرو گے۔ لیکن جب تم وہ شہر لیتے ہو جسے خداوند تمہارا خدا تمہیں دے رہا ہے تب تمہیں ایک بھی چیز کو زندہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔
(Deuteronomy استثناء، اصحاح: 20: 16 تا 11)
پھر، عملاًاسیروں کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور اسیر بھی عورتیں اور بچے، بعد از جنگ: ..مرد پہلے ہی مار دیے جاتے ہیں، عورتیں اور بچے ہیں جنہیں لے کر آیا جاتا ہے، دیکھئے ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے:
“اسرائیلیوں نے مِدیانی عورتوں اور بچوں کو اسیر کیا اور مدیانیوں کے مویشیوں کے تمام ریوڑ اور بھیڑ بکریوں کے تمام گلے اور سارا مال و اسباب لوٹ لیا۔ انہوں نے ان تمام شہروں کو جہاں مدیانی آباد تھے اور اُن کی سب لشکر گاہوں کو نذرِ آتش کر دیا۔ تب اُنہوں نے لوگوں اور جانوروں سمیت تمام مالِ غنیمت کو جمع کیا اور تمام اسیروں اور مال غنیمت کو موسیٰ، الیعزر کاہن اور بنی اسرائیل کی جماعت کے پاس اپنی لشکر گاہ میں لے آئے جو یریحو کے مقابل یردن کے کنارے موآب کے میدانوں میں تھی۔ موسیٰ اور العیزر کاہن اور جماعت کے سب سربراہ اُن کے استقبال کے لئے لشکرگاہ کے باہر گئے۔ موسیٰ جنگ سے لَوٹے ہوئے اُن سپہ سالاروں پر جھلایا جو ہزاروں اور سینکڑوں فوجیوں کی قیادت کر رہے تھے۔ اُس نے اُن سے پوچھا: کیا تم نے سب عورتوں کو زندہ رہنے دیا؟ فعور میں جو کچھ ہوا اُس وقت یہی عورتیں بلعام کی صلاح سے اسرائیلیوں کو خداوند سے برگشتہ کرنے کا ذریعہ بنی تھیں اور خداوند کے لوگوں میں وبا پھیلی تھی۔ لہٰذا سب لڑکوں کو مار ڈالو اور ہر اُس عورت کو بھی مار ڈالو جو کسی مرد کے ساتھ ہم بستر ہو چکی ہو۔ لیکن ہر اُس لڑکی کو اپنے لئے بچائے رکھو جو کبھی کسی مرد کے ساتھ ہم بستر نہ ہوئی ہو۔
(Numbers گنتی: اصحاح 30: 18-9)
ظالمو! اِس ’بائبل‘ پر ایمان لانے کی دعوت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ’تلوار‘ کے طعنے!!!!
حامد کمال الدین