سوال :
ہر دور میں اہلِ ایمان کی تعداد اہلِ کفر سے کم رہی ہے۔۔ مثلاً حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھیوں کو دیکھ لیں کہ کتنے لوگ کشتی میں تھے اور کتنے غرق ہوئے۔۔ اسی طرح دیگر تمام انبیاء علیہم السلام کی اَن تھک کاوشوں اور پھر انکے عددی نتائج کے موازنے میں کافی مایوسی نظر آتی ہے۔۔ یا مثلاً آج ایک اَرب مسلمانوں کے مقابلے میں پانچ اَرب غیرمسلم ہیں، یعنی ہر چھ میں سے صرف ایک بندہ مسلم ہے۔۔ اسکا مطلب تو یہ ہوا کہ بہت زیادہ لوگ جہنم میں جائیں گے،، اگر اتنے کثیر لوگوں کو عذاب دینا اور دوزخ کو بھرنا تھا تو اللہ انسانوں کو پیدا ہی نہ کرتا.. آخر کیوں ہمیں اقلیت میں رکھا گیا ہے؟ یہ حکمت سمجھ دانی سے بالا ہے۔۔!!
جواب :
بنیادی سوال جہاں سے اصل مشکل پیدا ہو رہی ہے وہی توجہ طلب ہے۔ اور بنیادی سوال یہ ہے://اگر اتنے کثیر لوگوں کو عذاب دینا اور دوزخ کو بھرنا تھا تو اللہ انسانوں کو پیدا ہی نہ کرتا۔//
سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیجیے کہ کوئی بھی راہ چننا انسان کے اختیار میں ہے۔ انسان کسی بھی راہ کو چننے میں مجبور نہیں ہے۔ اب اگر مجبور نہیں ہے تو پھر یہاں یہ سوال ہی بے معنی ہو جاتا ہے کہ اللہ نے اتنے لوگوں کو عذاب دینا تھا تو انہیں پیدا ہی کیوں کیا۔ اچھے برے اعمال کا خالق ضرور اللہ ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم برے اعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ اعمال اللہ نے خلق کیے ہیں ہم ان میں سے انتخاب کرتے ہیں۔جیسے آپ جو زبان بولتے ہیں وہ آپ نے نہیں بنائی۔ ہر لفظ پہلے سے بنا ہے۔ لیکن آپ یہ خود طے کرتے ہیں کہ کونسا بولنا ہے۔ اور کس وقت بولنا ہے۔!!
تاہم یہ سوال ہنوز اپنی جگہ ہے کہ حق کو اپنانے والے ہمیشہ کم ہی کیوں رہے ہیں؟ اللہ کو ماننے والے یا نبیوں پر ایمان لانے والوں کی تعداد کم ہی کیوں ہوتی ہے؟میرے خیال میں اس کے لیے اینتھرو پالوجی کے پس منظر کو دیکھنا مفید رہے گا۔
نوح، ابراہیم یا موسی وغیرھم علیھما السلام جن مقامات پر مبعوث کیے گئے ہیں وہاں کے لوگوں کے عقائد ان کے روایتی نظریات ہی کی “مذہبی” شکل تھی۔ اس مرحلے پر ایک ایسے نبی کی بعثت اور اس کے پیغام کو مان لینا در حقیقت ایک غیر روایتی اور اجنبی رویہ تھا۔ کیونکہ وہ مجموعی نظریات سے منحرف لہجہ اور منحرف مذہب لے کر قوم کے سامنے آئے۔ اسے پیگن ریلیجین (Pagan Religion) کہیے۔ گویا تمام انبیاء جو نظریات جس قوم پر لے کر آئے وہ اس قوم کے حساب سے کفر ہی کی ایک شکل ہوتی تھی۔ سوچ بچار ویسے ہی ممنوع مانا جاتا تھا جس طرح آج ہمارے معاشرے کے جامد طبقے میں غور و فکر ایک شجرِ ممنوعہ ہے۔
چنانچہ یہی سلسلہ ہر دور میں چلتا چلا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ جو غیر مستحکم مذاہب تھے وہ کم سے کم تر درجے پر چلے گئے۔ اور جو اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے اور جامد نہیں تھے ان میں ترقی ہوئی۔
اہم بات یہ ہے کہ ایک “روایت” کے وجود میں آنے کے لیے ایک دو دن یا ایک دو سال نہیں بلکہ صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ اسی طرح کسی روایت کو مکمل طور پر توڑنے کے لیے بھی۔
یہاں ایک بات یہ پیشِ نظر ضرور رہنی چاہیے کہ دنیا کے اندر رہتے ہوئے جو بھی نظریہ ترقی کرے گا اس کے لیے ضروری ہے کہ اس میں غیر معقول رویوں کا خلط نہ ہو۔ جیسے ہی غیر معقول رویے وجود میں آئیں گے ویسے ہی ایک معقول نظریہ بھی اپنی حیثیت کھو دے گا۔
اسی کے بر عکس کسی غیر معقول نظریے کو معقول رویوں سے پروان بھی چڑھایا جاسکے گا۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب ایک روایت اس قدر عام ہوتی ہے کہ اس پر اعتراض کے تمام دروازے بند ہوچکے ہوں، عین اسی وقت اس کا زوال شروع ہوجاتا ہے۔ کوئی نیا نظریہ میدان میں آتا ہے۔ پرانی روایت مٹتی جاتی ہے اور نئی روایت اپنے عروج کی جانب چل نکلتی ہے۔
اس ضمن میں یہ بات استنباط کی جاسکتی ہے کہ دینِ اسلام یا کوئی بھی الہامی یا سچا مذہب جو قیامت تک زندہ رہنے کے لیے آیا ہو، اتنی ترقی کبھی نہیں کر سکے گا کہ بیک وقت دنیا کے تمام افراد اس پر ایمان لے آئیں۔ اور یہی اس کی سلامتی کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ من حیث المجموع ایک نظریہ مادی اسباب کے تحت جتنے جلدی عروج کو پہنچتا ہے اتنی ہی تیزی سے زوال پر آجاتا ہے۔ یعنی اعلی ترین ممکنہ ترتیب (Highest possible order) خود انہدام کی علامت ہے۔ اور جس وقت ایسا ہوگیا، اسی وقت سمجھ لیجیے کہ قیامت واقع ہو جائے گی۔
اب تعداد کا معاملہ ایسا ہے کہ آپ پانچ ارب لوگوں کے جہنم میں جلنے پر اعتراض کر سکتے ہیں تو ایک ارب کے جلنے پر بھی کر سکتے ہیں۔ اگر یہ منطق درست ہو اور فرض کیجیے کہ دنیا میں پانچ ارب اہلِ ایمان اور ایک ارب اہلِ باطل ہیں تو بھی کیا یہ سوال معقول نہیں رہتا کہ جب ان ایک ارب لوگوں کو جلانا ہی تھا تو انہیں پیدا ہی کیوں کیا؟ بلکہ ایک ارب نہیں، محض ایک فرد کا جلنا بھی جلنا تو ہے۔ اعتراض تو ایک فرد کے جلنے پر بھی ممکن و معقول ہے۔
اسی لیے اوپر عرض کیا ہے کہ یہ سارا قدر و اختیار کا معاملہ ہے۔ جس نے جو چُن لیا وہ اس کا ہوگیا۔ اس میں خدا پر کوئی اعتراض بنتا ہی نہیں ہے۔ بلکہ میں تو اس سے بڑھ کر یہ بھی کہتا ہوں کہ “حق” کی ایک خاص حد سے زیادہ مقبولیت کا نہ ہونا بھی انسانوں کے اختیار کی بقا اور جبر کی نفی ہے۔ کیونکہ اگر حق کی مقبولیت اس “معمول” کی حد سے تجاوز کر جائے تو ایک حتمیت قائم ہو جائے گی۔ اور اللہ کی طرف سے دلیل کی ایسی حتمیت آزمائش کو ختم کرکے جبر کا سامان کردے گی۔ اور ایسا کم از کم اس دنیا میں مغرب سے سورج کے طلوع ہونے تک ممکن نہیں۔
ھذا ما عندی والعلم عند اللہ۔
مزمل شیخ بسملؔ