انبیاءکی زندگی میں دیکھنے کی بات یہی نہیں کہ وہ کیا کیا معجزات کر گئے ہیں بلکہ دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ وہ انسانی زندگی پر کس حد تک اثر انداز ہو کر گئے ہیں اور انسانی فکر و عمل کو کونسی ایسی سمتیں دے گئے ہیں جو نہایت دور رس اثرات کی حامل ہوں۔ اس پہلو سے غیر مسلم مؤلفین تک نے محمدﷺ کے تاریخ انسانی پر اثرات کے حوالے سے جو جو کچھ لکھا ہے اس سے عقل والوں کو دنگ کر کے رکھ دیا ہے۔
’محمدﷺ کی تلوار‘ کے عیب جوؤں کو کچھ جواب ہم دے چکے۔ محمدﷺ کے ”جہاد“ بمعنیٰ ”قتال“ کی بابت اِس سے زیادہ گفتگو کی یہاں گنجائش نہیں۔ ”دلیل“ کی قوت درحقیقت ایک نبی کے ”جدال“ کے اندر بولتی ہے۔ فکر و شعور اور عقل و منطق کی دنیا میں باطل کو نیست و نابود کر دینے پر بہترین مثال قرآنی اندازِ خطاب خود ہے۔ اِس کی عملی تصویر کسی کو دیکھنا ہو تو وہ محمدﷺ کا معرکۂ حجت و بیان دیکھے۔
اِس کی بے شمار مثالیں آپ کے عہد مکی و مدنی سے پیش کی جا سکتی ہیں مگر ایک مختصر منظر ہم اِن لوگوں کو اہل کتاب کے ساتھ ہونے والے جدال ہی کا دکھائیں گے۔ بائبل کے عہد جدید میں اِنہوں نے مخالفوں کے روبرو مسیح علیہ السلام کا بھی اعتماد دیکھا ہے، جوکہ ایک سچے آدمی کا خاصہ ہوا ہی کرتا ہے۔ ”دلیل“ کی قوت آدمی میں جب بولتی ہے تو اس کا کیا رعب ہوتا ہے، اِس کا اندازہ یقینا مسیح ؑ کی زندگی کو دیکھ کر ہوتا ہے کیونکہ وہ اللہ کا سچا نبی تھا اور ”ایمان بالغیب“ کے داعیِ اولین کو ایک ایسا ہی غیر متزلزل یقین دکھانا ہوتا ہے! وجہ یہ کہ یہ معرکہ ہے ہی ”ایمان بالغیب“ کا جس میں کچھ پردے حائل رکھے جانا ”پلان“ کا حصہ ہے ورنہ بات اگر ”ایمان بالشہادۃ“ کی ہوتی تو اِس ”شدتِ یقین“ کو سامنے لایا جانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ایک ”غیر متزلزل یقین“ جس سے منکر دہل کر رہ جائیں، اِس کی ایک نہایت مختصر جھلکی یہ نبیِ خاتم المرسلینﷺ کی شخصیت میں بھی دیکھیں، کہ یہ جھگڑا، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، ہے ہی ”ایمان بالغیب“ کا:
عرب میں سب سے بڑا کلیسا نجران کے اندر پایا جاتا تھا۔ رومن ایمپائر اِس پر بے تحاشا خرچ کرتی اور اِسے مال ودولت اور وسائل کی کوئی کمی نہ آنے دیتی تھی۔ جزیرۂ عرب میں نجران کے گرجا کو کعبۂ مکہ کے بعد بطورِ عبادت گاہ سب سے نمایاں مقام حاصل تھا۔ بلکہ مقابلے میں لاکر اِس کو ’کعبۂ نجران‘ تک کہا جاتا تھا۔ عرب کا مشہور شاعر، الاعشیٰ یہاں سے ایک بھاری عطیہ پا کر اِس کا قصیدہ کہہ چکا ہے اور وہ آج بھی عربی ادب کا حصہ ہے۔
۹ ہجری میں اِس کلیسا کے اسقفِ اعظم Chief Bishop حارثہ بن علقمہ کو نبیِ آخر الزمان کی جانب سے نامۂ مبارک جاتا ہے کہ ہدایت قبول کریں اور اگر قبول نہ ہو تو جزیہ دے کر مملکتِ اسلام کے زیر نگیں ہوں۔ عرب کی یہ سب سے بڑی عیسائی مذہبی شخصیت تب نجران کی دو چوٹی کی شخصیتوں کو لے کر، کہ جو مشترکہ طور پر امورِ مملکت انجام دیتے تھے ایک عبد المسیح جس کا لقب عاقب تھا اور دوسرا اَیہم یا شرحبیل جس کا لقب سید تھا، بمع 24 سردارانِ نجران مدینہ پہنچتی ہے، جبکہ وفد کی کل تعداد ساٹھ ہے۔ سورۃ آلِ عمران کا ابتدائی حصہ اِسی موقعہ پر نازل ہوا، لہٰذا بقیہ واقعہ ہم تفسیر کے مشہور نام ابن کثیرؒ، اور سیرت کے مشہور نام زاد المعاد از ابن قیمؒ سے اپنے الفاظ میں مختصر طور پر نقل کریں گے:
نجران کے اِس وفد کو اعزاز واکرام کے ساتھ مسجد نبوی میں ٹھہرایا گیا۔ نجران کے ساٹھ عیسائی نمائندے بشمول عرب کا سب سے بڑا عیسائی عالم اور بشپ مسجدِ نبوی کے مہمان! اِن نصاریٰ کے اپنے مذہب کے مطابق نماز پڑھنے کا وقت ہو جاتا ہے اور وہ مسجدِ نبوی کے اندر ہی اپنی نماز پڑھنے لگتے ہیں۔ مسجد نبوی کے اندر نصاریٰ کی نماز! لوگ انہیں روکنے کیلئے بھاگتے ہیں، مگر نبی آخر الزمانﷺ روکنے والوں کو روک دیتے ہیں کہ دَعُو ´ہُم ´ ”اِن کو چھوڑ دو“۔ تب یہ لوگ مشرق کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔آخر نبیﷺ کی ان کے ساتھ مجلس ہوئی۔ دو چوٹی کے عیسائی عالم وفد نجران کی جانب سے گفتگو کر رہے تھے۔
نبیﷺ نے ان دونوں کو مخاطب کر کے فرمایا: اسلِمَا یعنی ”خدا کے فرماں بردار بندے بن جاؤ“۔
دونوں نے جواب دیا:اَسلَمنَا ’ہم خدا کے فرماں بردار ہیں‘۔
آپ نے فرمایا: اَنَّکُمَا لَم تُسلِمَا فَاَسلِمَا ”تم خدا کے فرماں بردار نہیں ہو، یکسو ہوکر خدا کے فرماں بردار بن جاؤ“۔
وہ بولے: بلَیٰ قَد اَسلَمنَا قبلکَ ’کیوں نہیں، ہم آپ سے پہلے کے فرماں بردار ہیں‘۔
فرمایا: کَذِبتُمَا، یَمنَعُکُمَا مِنَ الاَسلامِ ادّعَاؤکُمَا لِلّٰہِ وَلَدًا وَعِبَادَتُکُمَا الصَلِیبَ وَ اَکلُکُمَا الخِنزِیرَ ”غلط کہتے ہو۔ خدا کی (یکسو) بندگی کیسی جب تمہارا دعویٰ ہے کہ خدا کا بچہ ہے، جب تم صلیب کو پوجتے ہو اور خنزیر کھاتے ہو“۔
تب وہ دونوں بولے: ’تو پھر اے محمد! مسیح ؑکا باپ کون ہے‘؟ اِس کا جواب آپ نے فوری نہ دیا، کہ اِس کا جواب قرآن کو خود دینا تھا۔ تب سورۂ آل عمران کی ابتدا کی اَسی سے اوپر آیتیں نازل ہوئیں (جن میں مسیح ؑ کی حقیقت ہی نہایت تفصیل کے ساتھ بیان ہوئی ہے)۔ یہ آیات ان کو پڑھ کر سنا دی گئیں۔ خاص طور اس سلسلۂ آیات کا یہ حصہ:
” عیسیٰ ؑ کی مثال خدا کے ہاں ایسی ہی تو ہے جیسی آدم ؑ کی، جسے اُس نے مٹی سے بنا ڈالا تھا اور پھر کہا تھا ’ہوجا‘ سو وہ ہو گیا! حق تیرے رب کی طرف سے ہے، پس تو شک میں پڑنے والوں میں نہ ہو۔ تو پھر اب بھی جو شخص تجھ سے اِس معاملہ میں جھگڑنے پر (مصر) ہے، جبکہ یقینی علم تیرے پاس پہنچ چکا ہے، تو پھر کہہ دے: ’آجاؤ، ہم بلا لاتے ہیں اپنے اپنے فرزندوں کو اور اپنی اپنی عورتوں کو اور خود اپنے آپ کو، پھر ہم (مل کر) مباہلہ کرتے ہیں اور باطل بات کرنے والوں پر خدا کی لعنت بھیج ڈالتے ہیں‘۔ یہی ہے حق کا ٹھیک ٹھیک بیان، اور نہیں ہے کوئی الٰہ مگر ایک خدا ہی، اور بے شک اللہ ہی طاقتور ہے اور حکمت کا مالک“۔(آل عمران: ۹۵-۲۶)
اِسی سلسلۂ آیات میں وہ مشہور آیت تھی جو اہل کتاب کو دعوت دی جانے کی بنیاد ہے، اور جسے آپ نے ملوکِ نصاریٰ کو اپنے خطوط میں بھی لکھ کر بھیجا تھا:
”اے اہل کتاب! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہم میں اور تم میں یکساں ہے، یہ کہ نہ عبادت کریں ہم مگر ایک اللہ کی، اور نہ شریک کریں اُس کے ساتھ کسی چیز کو، اور نہ پکڑیں ہم اپنے میں سے کسی کو اللہ کے ماسوا، رب۔ تو اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم لوگ کہہ دو کہ پھر گواہ رہو، ہم تو صرف اللہ ہی کو اپنا رخ بندگی سونپ دینے والے ہیں“(آل عمران: ۴۶)
اسی دوران، نجران کے نصاریٰ کا سن کر احبارِ یہود بھی آ پہنچے۔ اب یہود اور نصاریٰ کے مابین بھی بحثیں ہونے لگیں۔ نصاریٰ اور یہود دونوں ابراہیم ؑ پر اپنا حق جتا رہے تھے۔ اِس پر ان دونوں کو قرآن کی آیت سنائی گئی:
”اے اہل کتاب! تم کیوں حجت کرتے ہو ابراہیم ؑ کے بارہ میں، حالانکہ نہیں نازل کی گئی تھی تورات اور نہ انجیل مگر ابراہیم ؑ کے بہت بعد، تو کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟ (آل عمران: ۵۶)
اور اس سے ذرا بعد:
”ابراہیم نہ کبھی یہودی تھا اور نہ عیسائی، وہ تو تھا خدا کا یکسو فرماں بردار۔ اور نہ تھا وہ مشرکین میں سے۔ ابراہیم ؑ پر سب سے بڑھ کر حق تو ان کا ہے جو اس کی پیروی کر کے دکھائیں۔۔۔۔“ (آل عمران: ۵۶)
یہ بھی مذکور ہے کہ اِس موقعہ پر یہود اور نصاریٰ دونوں کے مجمعے نبیﷺ کو مخاطب کر کے کہنے لگے: ’تو اے محمد صاحب! کیا آپ کی چاہت ہے کہ مسیح ؑ کو چھوڑیں اور آپ کو پوجنے لگیں؟‘
آپ کا جواب تھا: ”اللہ کی پناہ کہ ہم اللہ کے ماسوا کسی کو پوجیں یا اُس کے ماسوا کسی کو پوجنے کی دعوت دیں۔ اُس نے مجھے اِس چیز کے ساتھ مبعوث نہیں کیا نہ مجھے یہ مشن سونپا ہے!“۔ اور پھر سورۂ آل عمران کے اسی سلسلۂ آیات کا یہ حصہ سنایا گیا:
”کسی بشر سے کبھی یہ بات نہیں ہو سکتی ہے کہ اللہ اُسے کتاب اور فہم اور نبوت عطا فرمائے اور پھر وہ لوگوں سے کہنے لگے: خدا کو چھوڑ تم میرے ہی بندے بن جاؤ، وہ تو یہی کہے گا کہ تم اللہ والے بنو۔۔۔۔“(آل عمران: ۹۷)
غرض معاملہ کو آخری حد تک واضح کر دیا گیا کہ مسئلہ خدا کی کبریائی اور مسیح ؑ کی عبدیت کا ہے۔ مسیح ؑ خدا کی برگزیدہ مخلوق ہے مگر خدا کا شریک کوئی نہیں۔ خدا کی کبریائی محمدﷺ اور امتِ محمدﷺ کا سب سے بڑا موضوع ہے۔مباہلہ :
پھر مباہلہ کی نوبت آئی اور مباہلہ کی آیت نجران کے بشپ اور علمائے نصاریٰ کو سنا دی گئی۔
آیت :فَمَنْ حَاۗجَّكَ فِيْهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَاۗءَنَا وَاَبْنَاۗءَكُمْ وَنِسَاۗءَنَا وَنِسَاۗءَكُمْ وَاَنْفُسَنَا وَاَنْفُسَكُمْ ۣ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَي الْكٰذِبِيْنَ 61﴾ ( آل عمران)
ترجمہ: ”پھر اگر کوئی شخص علم (وحی)آجانے کے بعد اس بارے میں جھگڑا کرے تو آپ اسے کہیے :آؤ ہم اور تم اپنے اپنے بچوں کو اور بیویوں کو بلالیں اور خود بھی حاضر ہوکر اللہ سے گڑ گڑا کر دعا کریں کہ ”جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو ۔”
ان کو سوچنے کیلئے پورا ایک دن دے دیا گیا۔ سارا دن وہ ان آیات اور اس جدال پر غور و فکر کرتے رہے۔ اگلی صبح نبیﷺ نکلے، اپنے ساتھ اپنے نواسوں حسنؓ اور حسینؓ اور چچیرے بھائی علیؓ کو لیا، پیچھے پیچھے نبی کی صاحبزادی فاطمہؓ چل رہی تھیں۔ یوں اپنا یہ خانوادہ ساتھ لئے آپ مباہلہ کیلئے تیار ہو کر نکل آئے۔ اب مسیح ؑ کو خدا کا بیٹا کہنے والے بشپ اور دیگر علمائے نصاریٰ کی باری تھی کہ مقابلے پر نکلیں اور اپنے اس عقیدہ پر کہ ’خدا کی کوئی اولاد ہوئی ہے‘ باطل بات کہنے والے فریق پر خدا کی لعنت ہو جانے کی دعا میں شامل ہوں۔ نبیﷺ نکل چکے تھے اور اساقفۂ نصاریٰ کے منتظر تھے۔ وفد نے خدا کی وحدانیت کے موضوع پر نبیﷺ کو اِس قدر سنجیدہ اور مباہلہ کیلئے اس قدر تیار دیکھاتو عاقب اور سید ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشی کرنے لگے: تم جانتے ہو جس قوم نے بھی کسی نبی سے مباہلہ کیا نہ ان کا کوئی بڑا بچا اور نہ ان کے کسی چھوٹے نے نشو و نما پائی۔ اگر مباہلہ کر لیتے ہیں تو اپنا کچھ بھی نہ بچے گا۔ اپنے دین پہ قائم ہی رہنا ہے تو اِس کے ساتھ صلح کی شروط طے کر لو اور واپس اپنے گھر چلے جاؤ۔ تب انہوں نے مباہلہ سے انکار کیا اور اپنے دین پر قرار رہتے ہوئے جزیہ تسلیم کر کے واپسی کا عزم کیا۔
بشپ کے اپنے بھائی کرز بن علقمہ نے نبیﷺ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا۔ واپسی سے کچھ ہی دیر بعد عاقب اور سید بھی مسلمان ہو چکے تھے۔ اپنی جانب سے افسرِ مجاز کے طور پر نبی ﷺ نے پہلے حضرت ابو عبیدہ بن الجراحؓ اور بعد ازاں حضرت علی بن ابی طالبؓ کو نجران بھیجا، جن کی تعلیم اور حسن تعامل کے زیر اثر، کچھ ہی دیر میں نجران سے آنے والا ’جزیہ‘ ”زکات“ میں بدلنے لگا، یعنی نجران مسلمان ہو گیا۔۔۔۔ جبکہ اہل نجران کو اپنے دین پر باقی رہنے کی آزادی دینے کیلئے جو وثیقہ لکھ کر دیا گیا تھا وہ بھی خاص طور پر حق رکھتا ہے کہ ’محمدﷺ کی تلوار‘ کا چرچا کرنے والے اسے بغور پڑھیں:
ِ ”شروع اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے۔ نبی محمدﷺ کی طرف سے برائے بشپ ابو الحارث ودیگر اساقفۂ نجران، علاوہ ازیں وہاں کے کاہنوں، راہبوں، گرجا گھروں کے لوگوں، ان کے خدام، ان کے اہل ملت اور ان کے گلی کوچوں کے لوگوں کیلئے۔ ہر وہ چیز جو ان کے ہاتھ میں ہے چاہے کم ہے چاہے زیادہ اس پر ان کو اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے تحفظ حاصل ہوگا۔ ان کا کوئی بشپ نہ بدلا جائے گا۔ ان کا کوئی راہب اور کوئی کاہن نہ بدلا جائے گا۔ ان کے حقوق میں سے کوئی حق موقوف نہ کیا جائے گا اور نہ ان کے افسران میں سے کوئی تبدیل کیا جائے گا۔ وہ جس طریقے پر رہتے آئے ہیں ان کو اس سے ہٹایا نہ جائے گا۔ اِس پر اُن کو اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے حاصل تحفظ برقرار رہے گا جب تک کہ وہ اخلاص اور بہتری کی راہ پر قائم رہیں، نہ کسی ظالم کے ساتھ مل کر پھریں اور نہ خود ظلم کی راہ پر چلنے لگیں“(از زاد المعاد، مؤلفہ ابن القیم)
کیا یہ اہل کتاب بھی اپنی تاریخ سے عدل اور انصاف اور احسان پر مبنی ایسا کوئی وثیقہ لا کر دکھا سکتے ہیں جس طرح کے وثیقے محمدﷺ کی طرف سے صلح پر آمادہ قوموں کو جاری کر کے دیے جاتے تھے؟ ؟؟
آج جو لوگ ’محمدﷺ کی تلوار‘ کو بنیاد بنا کر اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں، کون نہیں جانتا ان کو اصل تکلیف ’محمدﷺ کی تلوار‘ سے نہیں بلکہ ان کی اصل تکلیف یہ ہے کہ اِنکے سامنے ایک ایسا حق ہے جسے نہ یہ قبول کرنے کیلئے تیار ہیں اور نہ زمین میں اُسکا راستہ چھوڑ دینے پر۔البتہ یہ ایک ایسا حق ہے جس کے مقابلے پرآنے کی یہ ہمت بھی نہیں رکھتے! ”محمدﷺ کی دلیل“ کے بارے میں تو یہ اپنا اظہارِ تکلیف کرنے سے رہے، لے دے کر ’تلوار‘ بچ جاتی ہے اسی کے خلاف بول بول کر دل کا غم تو ہلکا کیا جاسکتا ہے!