مستشرقین کو اپنی متذکرہ صدر مساعی سے جو مقاصد مطلوب تھے اور وہ ان میں خاصی حد تک کامیاب رہے ہیں، عالم اسلام میں اصلاح و ترقی کے نام پر تجدد مغربیت کے جتنے علمبردار پیدا ہوئے ہیں ، ان کے افکار و نظریات پر استشراقی چھاپ واضع دکھائی دیتی ہے،مسلم دنیا میں اہل اقتدار طبقہ اور امرا کے علاوہ مسلم سکالرز اور دانشوروں کی بھی بڑی تعداد ان سے متاثر ہے۔ذیل میں مذکورہ طبقوں میں اسکا نفوز و اثر کا مطالعہ مختلف عنوانات کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
اہل اقتدار اور طبقہ امرا:
عالم اسلام میں جہاں تک اہل اقتدار اور طبقہ امرا کا تعلق ہے یہ بلعموم مغرب کے زیر اثر ہے۔یہ لوگ بقول مریم جمیلہ (سابقہ یہودی)اکثرو بیشتر اس کوشش میں رہتے ہیں کہ اصلی اسلام کے بجائے مستشرقین اور عیسائی مشزیوں کا لندن اور امریکہ میں تیا رکردہ اسلام کا ایک جدید ، لبرل اور ترقی پسند ایڈیشن پیش کیا جائے45؎، مسلم معاشروں میں مغربی طرز پر اصلاح و ترقی کے خواہاں زعما اور حکمرانوں نے اپنے معاشروں کو مغربی رنگ میں رنگنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ترکی کے قوم پرست لیڈر ضیا گوک الپ پر مغربی ملحدانہ اثرات تھے کہ وہ کسی بھی قسم کی اچھائی اور برائی کی تمیز کرنے کے لیئے یورپ اور امریکہ کی مکمل نقل کا حواہاں تھا، اس نے عالمگیر اخوت اسلامی کے تصور کو مغربی تصور قومیت سے متصادم قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔وہ کہا کرتا تھا کہ ترکوں کو اپنی سرزمیں کو ہر چیز پر مقدم چاہیئے،ان کے لیے حب الوطنی سے بڑھ کر کوئی اخلاقیات نہیں ہے۔ 46؎مصطفٰی کمال اتاترک، جو عالم اسلام کے طبقہ امراوزعما میں بالعموم ایک آئیڈیل باور کیا گیا ہے، ترکی میں تجدد و مغربیت کا سب سے بڑا نقیب تھا۔اس نے حصول اقتدار کے بعد اسلام کو ترکوں کی عملی زندگی سے بے دخل کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، اس کے خیال میں ترکی کی ترقی اس وقت ممکن نا تھی جب تک اسلام کے اثر نفوذ کو بلکل ختم نا کر دیا جاتا۔اس کے خیالات میں اسلام سے متعلق نفرت و حقارت بہت نمایا ں ہے۔مثلا وہ کہتا ہے:
“ Islam- This is theology of an immoral Arab is a dead thing, possibly it might have been suitable to the tribes in the desert. It is no good for modern progressive state.God’s revelation! There is no God! There are only the chain by which the priests and bad rulers bound the people down”(47).
چناچہ مصطفٰی کمال نے ترکی کو خدا کے بجائے مغربی تہذیب کی شکل میں دیوتا عطا کیا، اس دیوتا کا وہ خود بھی وفادار و خواری تھا بلکہ پرجوش پجاری تھا ، وہ مغربی تہذیب کو ملک کے چپے چپے میں رائج کرنا چاہتا تھا، اس تہذیب کا ذکر کرتے ہوئے اس کی آنکھوں چمک اور اس کے چہرے کی طمانیت دیدنی ہوتی تھی۔48؎ وہ کہا کرتا تھا کہ عالم اسلام کی کم نصیبی اور پس ماندگی کی اصل وجہ خود کو نئی ، روشن اور بلند پایہ مغربی تہذیب میں فٹ نا کر سکنا ہے۔ہم جو اپنے آپ کو بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں تو اسی باعث ہماری ذہنیت بھی بدل رہی ہے ۔49 ؎اور اس نے ترکی کو سیکولر سٹیٹ قرار دے دیا۔مذہب انسان کا ذاتی معاملہ قرار پایا اور خلافت کا ادارہ ختم کر دیا گیا،شرعی اداروں اور محکموں اور اسلامی شریعت کو ملک سے بے دخل کرکے مغربی قوانین نافذ کر دیئے گئے۔ہر وہ چیز جو اسلام سے تعلق رکھتی تھی حرف آخر تک مٹا دی گئی۔عربی کی جگہ لاطینی رسم الخط جاری کر دیا گیا اور تو اور عربی میں اذان تک ممنوع قرار پائی۔مختصر یہ کہ ترکی قوم اور حکومت کی دینی اساس کو توڑپھوڑ کر ختم کر دیا گیا اور قوم کا نقطہ یکسر بدل دیا گیا۔50؎
استشراقی فکر نے صرف ضیا گوک الپ اور مصطفٰی کمال یا دیگر ترک زعما کو اپنی گرفت میں نہیں لیا بلکہ اس کے اثرات تقریبا عالم اسلام کے تمام اعلٰی تعلیم یافتہ ، مقتدر اور صاحب اختیار طبقہ تک ممتد دکھائی دیتے ہیں ۔عالم اسلام میں جہا ں بھی کوئی ملکی تعمیر و ترقی کے لیئے اٹھتا ہے ، بالعموم تجدد و مغربیت اور کمالی طرز کی اصلاحات ہی کو مقصود سمجھتا ہے۔
1986 کا مصری انقلاب اپنی بنیادوں میں مغربی زاویہ لیے ہوئے آیا اس کا مقصد جمال عبدالناصر کے خیال میں یہ تھا کہ مصری عربی معاشرہ ایک ایسی سوسائٹی میں بدل جائے گا جس کے افراد اپنے اجتماعی تعلقات، اخلاقی اقداروں، اور حقوق وغیرہ سے متعلق ایسا نظریہ اختیا کر لیں گے جو جدید فکر سے ہم آہنگ ہو۔صدر ناصر کے پیش کردہ منشور سے اگر مصر اور عرب نکال دیں تو کسی بھی سیکولر سوشلسٹ سٹیٹ کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے۔ رضا پہلوی نے اپنے زمانے میں ایران کو بھی ترکی کے نقش قدم پر مغربیت کے سانچے میں ڈھالنے کو ششیں کیں تھیں، وہ ایران سے مذہبی رجحان کو ختم کرنا اور اسلامی تشخص کو ختم کرنا چاہتا تھا، تاہم اسکی متشدانہ پالیسیاں 1974 میں شیعی انقلاب پر منتج ہوئیں اور شاہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوا۔ انڈونیشیا میں صدر احمد سوئیکارنو کی رہنمائی میں بھی حکمران طبقے نے ملک کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ترکی کے نقش قدم پر چلانے کی کوشش کی، مگر وہاں بھی اس کے خلاف رد عمل ظاہر ہوتا رہا اور اسلامی تحریکیں اٹھیں تاہم متجدانہ سرگرمیاں ہنوز جاری ہیں۔
تیونس میں حبیب بورقیہ نے 1957 میں صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ہی کمالی اصلاحات اور تجدد کا آغاز کر دیا اور مسیحی مشزیوں اور مستشرین کے خیالات سے حددرجہ متاثر ہوا،اس نے قرآن میں تضادات کو ثابت کرنے کی کوششیں کیں اور اسکو خرافات کا مجموعہ قرار دیا۔الجزائر میں1963 میں منتخب ہونے والےصدر احمد بن بلا جمال عبدالناصر کے دوستوں اور ہم خیالوں سے تھے انہوں نے صدر ناصر ہی کی طرز پر دینی ذہن کو محدود کرنے اور حکومت سے دور رکھنے کی سرتوڑ کوششیں کیں۔ صدر کرنل قذافی نے 1969 میں زمام اقتدار سنبھالی اور بعض شرعی حدود کا نفاز کیا تو مغربی پریس میں ان کو ایک کٹر مذہبی ہونے کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔ مستشرین سے رابطہ کی بنا پر ان کا انقلابی دائرہ فکر سیاست سے ہٹ کر دینی انقلاب تک وسیع ہو گیا۔ انہوں نے یہ تصور قائم کر لیا کہ وہ اسلام جو کتاب و سنت سے ماخوذہے اس انقلابی عہد کا ساتھ نہیں دے سکتا، چناچہ انہوں نے اسلام کو اپنے انقلابی ذہن کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کی وہ اسلام کو عبادت تک محدود کر دینا چاہتے تھے مگر عبادت اور عام زندگی کے بارے میں ان کا تصور تیونسی صدر حبیب بورقیہ سے بہت قریب تھا، حبیب بورقیہ نے قرآن پر جو شکوک و شبہات کا ذکر کیا تھا معمر قذافی نے حدیث کو تختہ مشن بناتے ہوئے اسے مشکوک اور ناقابل اعتماد بنانے کی کوشش کی۔الغرض قذافی بھی پورے زور وشور سے تجدد و مغربیت کے راستے پر ہو لیئے -51 ؎لمحہ موجود تک تمام مسلم قیادت تجدد و مغربیت ہی کو کامیابی کا واحد راستہ سمجھتی تھی اور اسی کلیے میں شاید ہی کوئی استثنا نظر آئے۔
جیدید تعلیم یافتہ دانشور اور سکالرز
مسلم دنیا کے دنیا جدید تعلیم یافتہ دانشور اور سکالرز کی بھی ایک قابل لحاظ تعداد مستشرقین کے زیر اثر ہے۔ ان میں ایک بڑی تعداد نے یورپ کی یونیورسٹیوں میں مغربی اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذتہہ کیا اور اپنے اساتذہ کے تصورات و نظریات اپنا لیئے۔52؎ان کے نزدیک بھی مسلمانوں کی ترقی و کامرانی تجدد و مغربیت کے بغیر ممکن نہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ حضورﷺ اور خلافت راشدہ کے زمانے میں اسلام ایک لبرل اور ترقی پسند اور عقلیت مذہب تھا،لیکن بعد میں فقہا اور ملاؤں نے اسے جامد اور متحجر دین بنا دیا۔چناچہ وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ نام نہاد علما و مفسرین ہی ہماری تمام تر حرماں نصیبی اور پسماندگی کا اصل سبب ہیں۔ ایک دانشور لکھتا ہے کہ سعودی عرب سے لے کہ مورطانیہ تک اور انڈونیشیا سے لے کر پاکستان تک ہر مسلم ملک میں اہل اسلام زیست کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ملا مسلمانوں کے تنزل و ادبار کو مغربی اثرات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔وہ اس حقیقت کو فراموش کرتے ہیں کہ جہاں تک مغربی اثرات نہیں پہنچے وہاں بھی اب اسلام کی گھناؤنی تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔کیا اس بات سے انکار کی کوئی معقول وجہ ہے یا سب سے پسماندہ وہ ملک نہیں جہاں یورپی تہذیب کی باد نسیم کے جھونکے نہیں پہنچے بلکہ بدنصیب وہ بلا دوامصار ہیں جہاں زمام اقتدار ملاؤں کے ہاتھ میں ہے اور انہی کور چشموں کے سبب اسلام جمود کا شکار رہا ہے اور اسے وقت کے مطابق ڈھالنے سے روکا جاتا رہا۔ عالم اسلام کو نخوستوں اور لعنتوں سے نجات دلانے کے لیئے ہمیں قرآن کی ان روایتی تعبیرات کو بھول جانا ہوگا جو راسخ العقیدہ ملاؤں نے صدیوں سے مسلط کر رکھی ہیں اور جس دن ہم اپنے طور پر قرآن کو سمجھنے میں کامیات ہو گئے اس دن ہم اسلام بچانے اور عورتوں کو 1400 سال کی محرومی و بد نصیبی سے نکال کر آزادی و مساوات کی روشنی میں لانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔لوگ مجبوری کی بنا پر نہیں بلکہ محبت و مسرت سے مذہب پر عمل کریں گے۔زندگی سے اکتاہت و بوریت ختم ہو جائے گی، نماز بھی ہو گی اور کھیل تماشا بھی۔ ہم ایک دل پسند ہیرے کی طرح اسلام کی خوبصورت تعبیر ملاحظہ کر سکیں گے۔ 53؎
جدید تعلیم یافتہ دانشور اور سکالرز مستشرقین کی ہم نوائی میں اس تصور کے حامی ہو گئےکہ ترقی و تبدیلی ، جو کہ قانون ارتقا کا جزو لاینفک ہے کو اسلام پر بھی لاگو ہونا چاہیئے اور قدیم اسلا م کی جگہ ایک جدید لبرل اسلام کو سامنے لانا چاہیئے۔
“Just as the Martin Luther broke down the barriers of dogma in Christianity and Moses Mendelssohn south the bring a progressive reformed version of Judaism to the jews, so Islam Must also be recognize and given its place the by the orthodox.”(54)
مصر کے معروف دانشور اسکالر ڈاکٹر طہ حسین نے مصریوں کومغربی تہذیب اپنانے کی پرزور دعوت دی، وہ کہا کرتے تھے کہ مصری زندگی اپنے مظاہر کے اختلاف کے ساتھ خالص مغربی ہے اور مصر کو مشرق کا حصہ اور مصری فکر کو ہندوستان یا چین کی طرح مشرقی فکر کہنا کم عقلی اور سطحیت ہے۔ہمیں اہل یورپ کے طریقے پر چلنا ہے، اور انہی کی سیرت و عادات کو اختیا ر کرنا ہے، در حقیقت عصر حاضر میں ہمیں یورپ سے ایسا رابطہ اور قرب چاہیے جو روز بروز بڑھتا رہے یہاں تک کہ ہمیں لفظ اور معنی حقیقت اور شکل ہر اعتبار سے یورپ کا ایک حصہ بن جائیں۔ 55 ؎ڈاکٹر طہٰ عربی ادب کو دینی علوم کے تعلق سے یکسر آزاد کر دینے کے حامی ہیں، وہ اس سلسلہ میں تحقیق پر،قومی احساسات اور مذہبی رجحانات و میلانات کو بالائے طاق رکھ کر اس فلسفیانہ طریقہ کا اطلاق کرنا چاہتے ہیں،جس کی ابتدا ڈیکارٹ نے کی تھی،56؎ڈاکٹر صاحب اس بات سے انکاری ہیں کہ کعبہ کی بنیاد ابراہیم اور اسمٰعیل ؑ نے رکھی تھی، بلکہ ان کے نزدیک تاریخ میں یہ دونوں وجود ہی نہیں رکھتے، آپ کے خیال میں قرآن کی سات مشہور قراتیں بھی حضورﷺ سے ماخوذنہیں ہیں57؎۔
پاکستانی سکالرز اور دانشور ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے نزدیک مسلمانوں کو مغربیت اختیار کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں ہے، مغربی تہذیب اپنانے کے باوجودمسلمان کھل کر رہ سکتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ بعض مسلم اور غیر مسلم اسلام کو ایک مخصوص طرز زندگی سمجھتے ہیں جس میں مشکل ہی سے کوئی تبدیلی ممکن ہے ، حالانکہ اسلام کے بہت سے غیر مسلم طالب علم مثلا پروفیسر گسٹاف اے وان گرونیباکے نزدیک اسلام دراصل کسی تہذیب و ثقافت کا نام نہیں بلکہ قرآن و سنت کے فراہم کردہ اصول و قوانین کا نام ہے،جس میں وقت اور ضرورت سے توافق و تطابق کی گنجائش پائی جاتی ہے۔58؎۔
ڈاکٹر فضل الرحمان قرآن میں بیان کردہ قصص انبیا کی تفصیلات کو بعینہ خداوندی ماننا ضروری خیال نہیں کرتے۔ 59 ؎ان کے مطابق مسلمانوں میں پانچ نمازوں کا تصور حدیث کی بعد میں اٹھنے والی لہر کا نتیجہ ہے، جبکہ قرآن میں یہ کہیں بھی مذکور نہیں ہے۔60؎
چونکہ حدیث اور جدید مغربی تہذیب کو اکٹھا کرنا ممکن نہیں ہے اور بقول علامہ اسد حدیث کو نظر انداز کرکے قرآنی تعلیمات کو آسانی سے مغربی تہذیب کے سانچے میں ڈھالا جا سکتا ہے61؎لہذا حدیث پر اعتراض جدید تعلیم یافتہ مسلم دانشوروں کے ہاں ایک فیشن بن گیا ہے، وہ بڑے زور و شور سے حدیث کو ناقابل اعتبار روایات پر مبنی اسلام کا غیر ضروری حصہ قرار دینے لگے۔ڈاکٹر صاحب کے نزدیک حدیث ایک تاریخی افسانہ ہےجس کا مواد، مختلف ذرائع سے اکھٹا کیا گیا ہے۔62؎۔سنت محض ابتدائی مسلم سوسائٹی کی عملی زندگی کا لفظی اظہار ہے، اور ایک زندہ معاشرے کے طرز عمل وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی ہوتی رہتی ہے ، بنا بریں حدیث کوئی دائمی نمونہ عمل نہیں ہوتا۔63 ؎غلام احمد پرویرز بھی احادیث کو فرضی اور ناقابل اعتبار قرار دیتے ہیں، ان کے مطابق آج ہم کو جو حدیث میں ملتا ہےوہ صرف مسلمانوں کے مروج کی باتیں تھیں، جن کو غلط طور پر محمد ﷺ کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں امام بخاری نے اور دیگر نے ان باتوں کو جمع کر کے کتب کی شکل دے دی۔ 64؎۔مستشرقین سے متاثر ہو کر اور متعدد مسلم دانشوروں نے حدیث کا انکار کیا ہے۔65؎ (موجودہ دور میں بھی کئی مذہبی سکالرز یہی ذمہ داری بخوبی نبھا رہے ہیں)
مفسرین اور انکے متبعین :
عالم اسلام میں تفسیر قرآن کے باب میں بھی استشراقی اثرات نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ بہت سے مسلم اہل تفسیر نے اپنی تعبیراتِ قرآنی کو استشراقی نتائج فکر سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ ان معروف اہل تفسیر کے بہت سے عقیدت مندوں اور متبعین نے بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور وہی طرز تفسیر اپناتے ہوئے استشراقی تصورات سے تطابق کی سعی کی ہے۔ اس سلسلہ میں دنیائے اسلام کے دو نمایاں ترین افراد یعنی مفتی محمد عبدہ اور سرسید احمد خان اور ان کے متبعین اور حلقہ فکر کے لوگوں کے تفسیر ی نکات کا مختصر تذکرہ ضروری آگہی کے لیے کفایت کرے گا۔
عالم عرب میں تجدد کا علم بلند کرنے والوں میں سب سے نمایاں نام مفتی محمد عبدہ کا ہے اور یہ کہنا بجا ہے کہ وہاں تجدد پسند مکتب خیال کا وجود ہی ان کا مرہون منت ہے۔66؎ انہوں نے جدید تصورات سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے قرآنی آیات میں تاویلی امکانات کو نہایت وسیع کر دیا۔ ان کے نزدیک جنات سے جراثیم یا مائیکروب67؎ اور آدم سے ہر نسل کا الگ مورث اعلیٰ68؎ مراد لینے میں کچھ مذائقہ نہیں۔ وہ سورہ العصر کی آیت کی تفسیر میں ‘الصالحات’ کے تصور کو آفاقیت کا رنگ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ صرف حاملانِ شریعت تک ہی محدود نہیں بلکہ ان اقوام تک بھی ممتد ہے جن میں پیغمبر نہیں آئے اور یہی وہ چیز ہے جسے قرآن ‘معروف’ سے تعبیر کرتا ہے۔ 69؎گویا صالح ہونے کے لیے مسلمان ہونا ضروری نہیں۔ مفتی صاحب نے سورہ الفیل میں لشکر ابرہہ کی تباہی کے خارق عادت واقعہ کو عقلیت پسندوں کے لیے قابل قبول بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے کہ عین ممکن ہے کہ جن سنگریزوں سے لشکر ابرہہ کی تباہی ہوئی وہ زہریلی خشک مٹی کے ہوں اور ہوا کے ذریعہ میں مٹی اڑ کر پرندوں کے پاوں سے چمٹ گئ ہواور پھر جب یہ مٹی لشکر کے افراد پر گری ہو تو ان کے مساموں داخل ہو کر آبلے ڈال دیے ہوں اور یوں اعضائے جسمانی سے گوشت جھڑنے لگا ہو۔70؎ مفتی محمد عبدہ کے نظریات بقول Malcolm H. Kerr آئندہ آنے والے اعتذاری مکتبہ خیال کے افراد کے لیے بنیاد کا کام دینے لگے۔71؎ مصنف مذکور نے حاشیہ میں تصریح کی ہے کہ مفتی کے عقائد وتصورات کو بعد ازاں ان کے شاگرد مکمل لادینیت اور سیکولرازم کی طرف لے گئے۔ 72؎
مفتی صاحب کے ایک نامور شاگرد محمد رشید رضا ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن بنیادی طور پر ایک روحانی کتاب ہے جس میں دنیوی امور سے متعلق بہت کم احکام ملتے ہیں۔ زیادہ تر اختیارات ‘اولی الامر’ کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام بہبود عامہ کو پیش نظر رکھ کر فیصلے کیا کرتے تھے۔ گو بعض اوقات ان کے فیصلےسنت کے خلاف بھی ہوتے۔ گویا ان کا عقیدہ یہ تھا کہ شرعی تفصیلات کی بجا آوری ضروری نہیں اور بنیادی مصلحت فلاح عامہ کی رعایت ہے۔73؎ رشید رضا کے نزدیک احادیث بھی بحیثیت مجموعی قابل اعتنا نہیں بلکہ صرف وہی احادیث قابل قبول ہیں جو عملی نوعیت کی ہیں اور جن پر امت مسلمہ میں مسلسل عمل کا ثبوت ملتا ہے۔74؎ معجزات سے متعلق رشید رضا کی رائے تھی کہ اب معجزات کا زمانہ گزر گیا۔ یہ اس وقت کا قصہ ہیں جب انسانیت ابھی عہدطفولیت میں تھی۔ اسلام کی آمد کے ساتھ ہی انسان ذہنی بلوغ کے زمانے میں داخل ہو گیا اور معجزات کا زمانہ جاتارہا۔ ان کے معجزات وخوارق کو عقلی رنگ دینے کی ایک مثال یہ ہے کہ وہ سورہ یوسف کی آیت۹۴کی تفسیر میں خوشبوئے یوسف کے معجزانہ تصور کو قابل التفات نہ سمجھتے ہوئے موقف اختیار کرتے ہیں کہ صاف اور سیدھی سی بات ہے کہ کوئی جنت کی خوشبو نہ تھی بلکہ قمیض کی یہ بو یوسف کے جسم کی بو تھی جیسی کہ بالعموم ہوتی ہے۔ 75؎
مفتی محمد عبدہ کے ایک اور شاگرد قاسم امین نے آزادی نسواں کا علم بلند کرتے ہوئے حجاب کے خاتمے اور یورپی اخلاقیات کو اپنانے کی دعوت دی۔ ان کے مطابق مغرب کی اخلاقیات کو اپنائے بغیر وہاں کی سائنس کو اپنانےکاکچھ فائدہ نہیں۔76؎ قاسم امین نے دعوی کیا کہ بے پردگی کی دعوت میں دین اسلام سے کوئی مخالفت نہیں پائی جاتی۔ ان کا کہنا تھا کہ شریعت کے وہ احکام جو مروجہ عادات و معاملات پر مبنی ہیں ان میں حالات زمانہ کے مطابق تغیر و تبدل کیا جا سکتا ہے۔77؎ وہ مغربی عورتوں کو اپنی خواتین کے لیے بطور نمونہ پیش کرت ہوئے ان کی تقلید کی دعوت دیتے ہیں۔78؎ مفتی محمد عبدہ کہ ایک اور معروف شاگرد علی عبدالرزاق ہیں۔ وہ دین ودنیا کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام کے تمام احکام مذہبی ضابطہ پر مشتمل ہیں جن کا تعلق تمام تر عبادت الٰہی اور نوع انسانی کی مذہبی فلاح و بہبود سے ہے۔ جہاں تک شہری قوانین کا تعلق ہے وہ انسان کی صوابدید پر چھوڑ دیے گئے ہیں اور مذہب کو ان سے کوئی سروکار نہیں۔ دنیاوی انتظام و انصرام کی خاطر خدا نے یہی کافی سمجھا کہ ہمیں ذہن ودماغ عطا کر دیے۔79؎ مفتی کے دبستان فکر کے افراد میں سے محمد رفیق صدقی اور شیخ طنطاوی جوہری نے قرآن کو موجودہ سائنس سے ہم آہنگ کرنے کے لیے آیات قرآنی کی نہایت عجیب و غریب تاویلات کی ہیں۔ 80؎
قرآن کی جس طرز کی متجددانہ تعبیر کی بنیاد عالم عرب میں مفتی محمد عبدہ نے رکھی تھی برصغیر میں اس طرز کی متجددانہ تفسیر قرآن کے بانی سرسید احمد خاں ہیں۔ اہل مغرب اور مستشرقین سے تاثر کے نقطہ نظر سے سرسید عبدہ سے بہت آگے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے قرآنی بیانات کو جدید تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے متفق علیہ تفسیری اصولوں کو بالکل نظرانداز کر دیا۔ ان کی تفسیرالقرآن میں بقول سیدعبداللہ روایات سے بغاوت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی نظر آتی ہے۔81؎ انہوں نے ورک آف گاڈ اور ورڈ آف گاڈ کی مطابقت کا اصول پیش کیااور پھر قرآن میں کسی معجزہ یا خوارق کے تذکرہ کے روایتی تصور کو یکسر مسترد کر دیا۔ ان کے نزدیک قرآن اور دیگر کتب سماوی میں معجزات کا جو زکر ہے وہ تمثیلی و استعاراتی یا افسانوی رنگ لیے ہوئے ہے۔ ڈاکٹر ٹرول کے مطابق سرسید کو انکار معجزات کی راہ دکھانے میں معجزاتی عناصر پرولیم میور کی تنقید نے نمایاں حصہ لیا۔ میور کی تقلید میں سر سید اس بات کے قائل ہو گئے کہ حضور کی پیدائش سے متعلق بیان کیے جانے والے معجزات سب شاعرانہ تخلیق ہیں۔82 سر سید نے سورہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت کی تفسیر میں حضور کے معراج جسمانی سے متعلق تمام احادیث کو ناقابل اعتبار اور ان کے بیان کو خلاف قانون قدرت قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ “واقعات خلاف قانوں فطرت کے وقوع کا ثبوت اگر گواہاں روایت بھی گواہی دیں تو محالات سے ہے” اور اس کے بعد تفصیلی بحث کر کے معراج رسول کو خواب میں پیش آنے والا رویا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔83؎ یہ صرف ایک مثال ہے ورنہ وہ قرآن میں کہیں بھی معجزہ مذکور ماننے سے انکاری ہیں۔ اس سلسلہ میں بنی اسرائیل کے عبور دریا اور موسی ّو عیسیٰ کے دیگر معجزات کی بھی انہوں نے عجیب و غریب اور دورازکارتاویلات کی ہیں۔ 84؎ان کا کہنا ہے کہ حضور کے پاس کوئی معجزہ نہ تھا۔ جن واقعات کو لوگ معروف معنوں میں معجزات کہتے ہیں وہ در حقیقت معجزات نہ تھے بلکہ قانون فطرت کے مطابق وقوع پذیر ہونے والے واقعات تھے۔ 85؎
سرسید کے نزدیک نبوت ایک فطری چیز ہے۔ خدا اور پیغمبر میں بجز اس ملکہ نبوت کے جس کو ناموس اکبر یا جبریل اعظم کہا جاتا ہے کوئی ایلچی یا پیغام پہنچانے والا نہیں ہوتا۔ جس طرح تمام ملکات انسانی کسی محرک کے پیش نظر اپنا کام کرتے ہیں اسی طرح ملکہ نبوت بھی کسی مخصوص امر کے پیش نظر فعال ہو جاتا ہے۔86؎ وہ جس طرح جبرئیل کو ملکہ نبوت کہہ کر جبرئیل کے خارجی وجود سے انکار کرتے ہیں ایسے ہی تمام ملائکہ شیطان اور جنات کا بھی خارجی وجود تسلیم نہیں کرتے۔87؎ تخلیق وہبوط آدم سے متعلق آیات کو ڈاروینی ارتقائیت سے ہم آہنگ کرنے کے لیے آدم کے شخصی وجود سے انکار کرتے ہوئے بڑے زور دار الفاظ میں کہا” آدم کے لفظ سے وہ ذات خاص مراد نہیں جس کو عوام اور مسجد کاملا باوا آدم کہتے ہیں۔ بلکہ اس سے مراد نوع انسانی ہے۔88؎” سرسید حدیث،اجماع اور قیاس وغیرہ کو اصول دین میں شامل نہیں سمجھتے۔ انہوں نے بقول مولانہ حالی اپنے جدید علم کلام کا موضوع اور اسلام کا حقیقی مصداق صرف قرآن مجید کو قرار دیا اور اس کے سوا تمام مجموعہ احادیث کو اس دلیل سے کہ ان میں کوئی حدیث مثل قرآن کے قطعی الثبوت نہیں اور تمام علماء ومفسرین کے اقوال و آراء اور تمام فقہاءو مجتہدین کے قیاسات و اجتہادات کو اس بنا پر کہ ان کے جوابدہ خود علماء و مفسرین اور فقہا و مجتہدین ہیں نہ کہ اسلام اپنی بحث سے خارج کر دیا۔ 89؎
سرسید کے چند اہم معاصر ہم خیالوں اور متبعین میں مولوی چراغ علی ممتاز علی اور سید امیر علی شامل ہیں، مولوی چراغ علی کا کہنا ہے قرآن کو کوئی مخصوص ضابطہ حیات یا سماجی وسیاسی قوانین عطا نہیں کرتا۔ اس کا تعلق محض فرد کی زندگی کے اخلاقی پہلو سے ہے۔ آنحضورﷺنے کوئی سماجی وقانونی ضابطہ مرتب کیا نہ ایسا کرنے کاحکم دیا۔ اس کے برعکس مسلمانوں کو ایسے نظام قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی جو ان کے گردو پیش ہونے والی سیاسی اور معاشرتی تبدیلیوں سے وقت کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگی پیدا کر سکیں۔ کلاسیکی اسلامی قانون بنیادی طور پر شریعت نہیں بلکہ وہ رواجی قانون ہے جس کے اندر ایام جاہلیت کے عربی اداروں کے باقی ماندہ اجزا و عناصر یا وہ احادیث شامل ہیں جو اکثر جعلی ہیں اور غلط طور پر پیغمبر اسلام کی طرف منسوب کر دی گئ ہیں۔ 90؎فقہا اسلامی قانون کے سلسلہ میں مقصود قرآنی کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے قرآن کی روح کو شرعی عمل سے دبا دیا اور وہ ابتدائِی مشرقی روایاتی رسمیں جاری کر دیں جنہیں قرآن در حقیقت مذموم قرار دے چکا تھا۔ 91؎
سرسید کے ایک اورمعاصر پیرو ممتاز علی ہیں۔ ممتاز علی نے عورتوں کی آزادی کے مسلئہ کو خصوصیت سے موضوع بحث بنایا۔ وہ ان روایتی دلائل کو سختی سے مسترد کرتے ہیں جن کے مطابق مرد جسمانی طور پر زیادہ مضبوط زیادہ دانش مند نسبتاًکم جذباتی اور کم توہم پرست ہوتا ہےاور اس بنا پر وہ خدا کے خلیفہ اور نائب ہونے کا اعزاز رکھتا ہے اور کتب سماوی اس کو عورت کے برعکس متعد شادیاں کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔ وہ مرد اور عورت کی مکمل مساوات کے قائل ہیں بلکہ وہ عورت کی مرد پر فوقیت کے حامی ہیں۔ ان کے نزدیک سورہ النساء کی آیت ۳۴ میں قوامون اور فضل کے الفاظ کے تناظر میں عورت کے مقابلہ میں مرد کے تفوق کی کلاسیکی تاویلات قرآن کی صحیح ترجمان ہونے کی بجائے ان ادوار کے مروجہ قوانین کی آئینہ دار ہیں۔ آیت کا مفہوم یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ عورتیں ان مردوں پر فوقیت رکھتی ہیں جو ان کے لیے کام کرتے ہیں۔92؎ ممتاز علی کے خیال میں حوا کے مقابلہ میں آدم کی تخلیقی اولیت اور استحقاقی فوقیت یہودی اور عیسائی عقیدہ ہے نہ کہ قرآنی ۔ تعدد ازواج کو قرآن نے شرطِ عدل کے ذریعہ ناممکن العمل بنا کر منسوخ کر دیا ہے۔93؎ عورت کی آزادی سے معاشرے کے اخلاقی معیارات کے ڈھیلے ہو جانے کے خطرہ کا وا ویلا کیا جاتا ہے حالانکہ خدا نے عورت کو آزاد اور مساوی درجہ پر پیدا کیاہے۔ بداخلاقی کا تعلق عورت کی آزادی کے بجائے مرد کے مسخ شدہ جذبات سے ہے۔ عورت اور مرد کی علیحدگی کے عادی معاشروں کو مخلوط معاشروں کے اخلاقی معیارات پر پورا اترنے کے لیے وقت چاہیے۔ 94؎
سرسید کے ایک معاصر ہم خیال سید امیر علی ہیں۔ یہ مولانہ حالی کے مطابق مغربی اہل الرائے سے اسلام کی عذر خواہیوں اور توضیحات میں اور اسلامی معاشرتی اور مذہبی خیالات کی از سر نو تعمیر اور جدید خیا لات کی ترویج میں سرسید احمد خاں کے پیرو تھے۔ 95؎انکی مشہور تصنیف The Spirit of Islam نے صرف مغرب ہی میں قبولیت عامہ حاصل نہیں کی بلکہ برصغیر اور مصر کے مغربی تعلیم یافتہ مسلمانوں پر بھی گہرے اثرات ڈالے۔96؎ سید امیر علی نے اپنی اسلامی تعبیرات میں استشراقی اور مغربی تصورات سے ہم آہنگی کی جا بجا کوشش کی ہے۔ فرشتوں اور شیطان کا خارجی وجود اور حشر جسمانی کو تسلیم کرنے سے بچنے کے لیے انہوں نے ان چیزوں سے متعلق قرآنی بیانات کو بلاجھجک شاعرانہ اسلوب بیان اور حضورﷺکے دینی شعور کے درجہ کمال سے پہلے کے اورزرتشتی وتلمودی الاصل تصورات سے تعبیر کیاہے۔ سورہ الانفال کی آیت ۹ میں بیان کردہ واقعہ کو اسلوب بیان کی ساحری اور شاعرانہ بلاغت سے تعبیر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ “فرشتوں کے خدا کی طرف سے جنگ کرنے کے تصور میں جو شاعرانہ عنصر ہے اس کے نقش ونگار کو قرآن میں موئے قلم کی جن سادہ جنبشوں سا ابھارا گیا ہے۔ وہ خوبصورتی اور بلاغت میں زبور کی بلیغ ترین عبارتوں کا مقابلہ کرتی ہے۔ اور دونوں میں ایک ہی طرح کی شعریت ہے۔” ملائکہ ایک داخلی تصور ہے۔97؎ جن چیزوں کو آج ہم قوانین فطرت کہتے ہیں پرانے لوگ انہی کو فرشتے یعنی آسمانی کار پرداز خیال کرتے تھے۔ شیطان سے متعلق حضورﷺ کے اقوال کا تجزیہ کریں تو بھی ایک موضوعی تصور سامنے آتا ہے جسے آپﷺنے اپنے پیروکاروں کے فہم کے مطابق الفاظ کا جامہ پہنایا۔ 98؎بعض لوگوں کا یہ خیال کہ رسول عربی نے اپنے ماننے والوں سے حسی لذات کی جنت اور عیش وعشرت کے مختلف مدارج کا وعدہ کیا، جہالت اور تعصب کا نتیجہ ہے۔ اس میں شک نہیں کہ درمیانی دور کی سورتوں میں ، جب کہ معلم اسلام نے ابھی شعور دینی کا درجہ کمال حاصل نہیں کیاتھا اور جب کہ اس بات کی ضرورت تھی کہ عقبی اور جزا وسزا کے تصورات کو ایسے الفاظ کا جامہ پہنایا جائے جو سیدھے سادھے باد یہ نشینوں کی سمجھ میں آ سکیں۔ جنت وجہنم کے واقعیت نما نقشے، جوزرتشتیوں ، صابیوں اور تلمودی یہودیوں کی پادر ہواقیاس آرائیوں پر مبنی تھے۔ پڑھنے والے کی توجہ ضمنی ھاشیہ آرائیوں کے طور پر اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ لیکن ان کے بعد قرآن کا جوہر خالص آتا ہے یعنی کمال عجزومحبت سے خدا کی عبادت۔ حوریں زرتشتی نژاد ہیں۔ اسی طرح جنت بھی زرتشتی الاصل ہے البتہ جہنم عذاب الیم کے مقام کی حیثیت سے ایک تلمودی تخلیق ہے۔ ان کے واقعیت نمامناظر کی بنا پر یہ سمجھنا کہ حضورﷺ اور آپ کے پروکار ان کو واقعی مبنی برحسیت سمجھتے تھے محض ایک افترا ہے۔ 99؎
تعدد ازوج کے حوالے سے سید امیر علی کی رائے ہے کہ یہ مطلق العنان بادشاہوں کے زمانے کی یاد گار ہے جسے ہمارے ترقی یافتہ دور میں بجا طور پر ایک خرابی سمجھا جاتا ہے۔ قرآن نے فی نفسہ اس کی ممانعت کردی ہے۔ ترقی یافتہ مسلم جماعتوںمیں رفتہ رفتہ یہ تصور پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ یہ چیز تعلیمات محمدی کے بھی اس قدر منافی ہے جس قدر جدید تمدن و ترقی کے۔ لہٰذا یورپ کو اس سلسلہ میں قدیم مسلم فقہا کی من مانیوں اور مصلحت کوشیوں پر نہیں جانا چاہیے بلکہ جدید اسلام کا تحمل وہمدردی سے مشاہدہ کرنا چاہیے جس میں قدماپرستی کے بندھنوں سے چھٹکارا حاصل کیا جارہا ہے۔ 100؎
ذرا آگے چل کر سر سید کے مکتبہ خیال سے متعلق دو نمایاں نام محمد علی لاہوری اور غلام احمد پرویز ہیں۔ محمد علی لاہوری نے مولانا ابوالحسن علی ندوی کے بقول سرسید کے لٹریچر اور ان کے تفسیر قرآن کے اسلوب کو پورے طور پر جذب کر لیا تھا۔101؎ وہ اپنی تفسیر میں مختلف مسائل سے متعلق اسی طرح کی تشریحات پیش کرتے ہیں جو جدید نظریات ومعلومات سے متصادم نہ ہوں۔ معجزات وخوارق کا انکار کرتے ہوئے ان کی عقلی تاویلات کرتے ہیں۔ مثلاً بنی اسرائیل کے عبوردریا سے متعلق سرسید کو جوار بھاٹے والا انداز استدلال اپناتے ہوئے اسے ایک عام واقعہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔102؎ موسی کو بارہ چشمے معجزانہ طور پر نہیں بلکہ ایلیم کے ایک پہاڑ سے ملے تھے۔103؎ سورۃ البقرہ کی آیت ۷۲ اور ۷۳ کے حوالے سے عام مفسرین یہ خیال کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص نے اپنے چچا کو پوشیدہ طور پر قتل کر دیا تھا۔ اور اس کا راز جانے کے لیے گائے ذبح کر کرے اس کا ایک ٹکڑا مقتول کے جسم سے لگانے کے لیے کہا گیا تھا حالانکہ یہ معمولی واقعہ نہیں ۔ اس میں حضرت عیسی کے قتل کی طرف اشارہ ہے۔ بعضھا کی ضمیر فعل قتل کی طرف جاتی ہے۔ یعنی بعض قتل سے اس کو ماردو یا فعل قتل اس پر پورا وارد نہ ہونے دو ۔104؎مسیح تین گھنٹے صلیب پر رہے مگر وفات نہیں پائی۔ بعد ازاں طبعی عمر پوری کر کے وفات پائی۔ 105؎مسیح کے کشمیر آنے اور بعد ازوفات وہاں دفن ہونے کےشواہد موجود ہیں۔ 106؎حضرت مسیح پیدا بھی معجزانہ طور پر نہیں بلکہ مریم اور یوسف کے ضمنی تعلق سے عام بچوں کی طرح ہوئے تھے۔ 107؎سورہ آل عمران کی آیت ۴۹ میں حضرت عیسی کے تخلیق طیر سے استعارۃ ایسے لوگ مراد ہیں جو زمیں اور زمینی چیزوں سے اوپر اٹھ کر خدا کی طرف پرواز کر سکیں۔ اور احیائے موتی سے روحانی مردوں کا احیا مراد ہے۔ کیونکہ جسمانی طور پر مرجانے والوں کا اس دنیا میں دوبارہ آنا قرآن کی اصولی تعلیم کے خلاف ہے۔ 108؎حضرت سلیمان کے حوالے سے علمنا منطق الطیر سے پرندوں کی بولیاں جاننا نہیں بلکہ پرندوں کی نامہ بری مراد ہے۔ نملہ کوئی چیونٹی نہیں بلکہ وادی نملہ کی باسی قوم تھی۔ ہد ہد پرندہ نہیں بلکہ سلیمان کے محکمہ خبررسانی کا آدمی تھا۔ عفریت من الجن قوی الحبثہ انسان تھا۔ سلیمان کی ماتحتی میں کام کرنے والے جن ان غیر قوموں کے لوگ تھے جنہوں نے بنی اسرائیل کی ماتحتی کا جوا اٹھایا ہوا تھا۔ 109؎
غلام احمد پرویز مغربی فکر سےتاثر اور سرسید کے زاویہ فکر کو اختیار کر کے مخصوص تناظر میں اسے مزید وسعت دینے میں خاصے نمایاں ہیں۔ پروفیسر عزیز احمد نے انہیں سر سید سے لے کر لمحہ موجود تک کےتمام جدید پسندوں میں مغربی نقطہ نظر کے سب سے زیادہ قریب قرار دیا ہے۔110؎ حدیث کی حجیت و ثقاہت کے حوالے سے انہوں جس طرح استشراقی فکر سے ہم آہنگی اختیار کی اس کا مختصر ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ لیکن یہ صرف ایک پہلو تھا۔ انہوں نے نہایت وسیع پیمانے پر مغربی نتائج فکر ست تطابق کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلہ میں ان کے یہ الفاظ قابل ملا خط ہیں کہ “میں نے انسانی فکر کی اڑھائی ہزار سالہ کدوکاوش کا مطالعہ قرآن کی روشنی میں کیا)یا قرآن کا مطالعہ اس فکر کی روشنی میں کیا( تو ْقرآن کا ایک ایک دعوی زندہ حقیقت بن کر میرےسامنے آ گیا”111؎مذکورہ تناظر میں پرویز نے متعدد موضوعات پر کلام کیا ہے۔ جدید مغرب میں چونکہ کائنات کے عام مشاہد قوانین میں کسی بھی طرح کی ماورائی مداخلت )جس سے خدا کا قادر مطلق ہونا ثابت ہوتا ہے(جہالت ووہم پرستی قرار گیا تھا 112؎چنانچہ پرویز صاحب بھی ایسے تصور کو غلط سمجھتے ہیں جس میں خدا کو اختیار مطلق حاصل ہو اور وہ کسی قاعدے اور ضابطےکا پابند نہ ہو۔ قرآنی الفاظکَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃ 113؎کی تشریح میں پابندی واختیار کے حوالے سے خدا اور بندے کی مختلف حیثیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بندے پر جو پابندی لگائی گئی ہے وہ اس کے خلاف کر سکتا ہے جب کہ خدا نے اپنے اوپر جو پابندی لگائی ہے وہ اس کے برعکس نہیں کرتا” اس اعتبار سے دیکھئے تو انسان صاحبِ اختیار رہتا ہے اور خدا”مجبور”۔” 114؎
رسول اللہ کو پرویز صاحب نے اپنی تعبیرات قرآنی میں نظام حکومت اور مرکزی اتھارٹی کا ہم معنی قرار دیا ہے۔ ایک جگہ لکھا ہے “حالانکہ نظام سے وابستگی اور اطاعت کا تقاضا ہے کہ ایسی باتوں کو رسول )مرکزی اتھارٹی(یا اپنے افسران تک پہنچایا جائے۔” 115؎ملائکہ ان کے نزدیک فطرت کی قوتیں ہیں۔ قصہ آدم میں ملائکہ کا آدم کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا جو ذکر ہے اس سے مراد درحقیقت فطرت کی قوتوں کا بنی نوع انسان کے لیے مسخر کیا جانا ہے۔116؎ شیطان کوئی موجود فی الخارج ہستی یا شخصیت نہیں بلکہ انسان کے اپنے فیصلوں، ارادوں اور جذبات سے عبارت ہے۔117؎ جنات سے قرآن کی مراد جنگلی، صحرائی اور خانہ بدوش انسان ہیں۔118؎ جہنم قرآن کی رو سے کسی گڑھے یا ایسے مقام کا نام نہیں جس میں آگ کے شعلے بھڑک رہے ہوں اور مجرموں کو اس میں جھونک دیا جائے۔ بلکہ دراصل یہ انسان ہی کے قلب سوزاں کی کیفیت اور اعمال بد کے نتیجے میں اسکے اندر پیدا ہو جانے والے اضطراب پیہم اور کرب مسلسل کا نام ہے۔119؎سے عبارت ہے جو قرآن کے اولیں مخاطب عربوں کے لیے متاثر کن تھیں۔ گھنے باغات جن میں صاف شفاف چشمے ہوں اور ان کا ٹھندا پانی چاروں طرف بہہ رہا ہو درخت پھلوں سے لدے دودھ اور شہد کی ایسی افراط کہ گویا ان کی نہریں بہہ رہی ہوں، اعلی درجے کے قالین اور صوفے بچھے ہوئے محلات جن میں حریر واطلس کے پردے آویزاں، بلوریں آفتابے، چاندی سونے کےظروف، لطیف گوشت، خوش ذئقہ مشروبات ہم مزاج ہم رنگ، یک آہنگ احباب کی محفلیں۔ تپتے ہوئے صحراوں کے باسی عربوں کی زندگی ظاہر ہے اسی طرح کی مثالوں سے سجائی جا سکتی تھی۔120؎ انسان اشرف المخلوقات نہیں۔121؎ آدم سے کوئی خاص انسان یا بشر مراد نہیں۔ قصہ آدم خود نوع انسانی کی سرگذشت ہے۔122؎ معجزہ قانون فطرت کے خلاف ہے قرآن کی رو سے کوئی واقعہ خلاف قانون فطرت رونما نہیں ہو سکتا۔ بنا بریں معجزات کا وجود بروئے قرآن غلط ہے۔ 123؎
چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ایک انتہائی سزا ہے جس کے عملی اطلاق کا موقع قریب قریب ناممکن ہے اور قطع ید سے درحقیقت ایسا طریق اختیار کرنا کہ چور چوری سے باز آجائیں ۔124؎ تعدد ازواج ایسی شرائط سے مشروط ہے کہ یہ قریباً ناممکن العمل ہو کر رہ جاتا ہے۔125؎ قرآن نے دراصل ایک وقت میں ایک ہی بیوی کا اصول مقرر کیا ہے۔ اگر کسی وقت بیوی سے نباہ کی صورت نہ رہے تو قرآن کی رو سے اس کی موجودگی میں دوسری بیوی کو اجازت نہیں ہاں البتہ اس کی جگہ دوسری بیوی لائی جاسکتی ہے۔ وَاِنْ اَرَدْتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجِِ مَّکَانَ زَوْجِِ126؎ کا مفہوم یہ ہے کہ “اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانا چاہو تو اس کے لیے پہلی بیوی سے معاہدہ نکاح فسخ کرو” 127؎معیشت کے مسئلے کا حل مارکسی فکر میں پنہاں ہے۔128؎ رزق کا معاملہ خدا نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا۔ یہ مذہبی پیشوائیت کی فریب کاری ہے جو عوام کو اس غلط عقیدہ کی افیون دے کر نظام سرمایہ داری کی جڑیں مضبوط کرتی رہتی ہے۔ صاحبِ اقتدار گروہ وسائل پیداور اپنی ملکیت میں لے لیتا ہے اور پھر دوسرے انسانوں کو روٹی کا محتاج بنا کر ان سے اپنا ہر حکم منواتا ہے۔ جب بھوکے انسان اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں تو مذہبی پیشوائیت انہیں یہ کہہ کر سلا دیتی ہے کہ رزق کی تقسیم خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے وہ جسے چاہتا ہے امیر بنا دیتا جسے چاہتا ہے غریب رکھتا ہے جسے چاہتا رزقِ فراواں عطا کر دیتا ہے جسے چاہتا ہے بھوگا رکھتا ہے کوئی انسان اس فرق کو متا نہیں سکتا۔ 129؎
مرزا غلام احمد قادیانی سے متعلق بھی یہ کہنا بے جا نہیں کہ انہوں نے سرسید احمد خاں اور ان کے مدرسہ فکر سے شہ حاصل کی۔ شیخ محمد اکرم کے مطابق مولوی چراغ علی سے مرزا کی خط و کتابت تھی اور جہاد سے متعلق وہ مولوی صاحب کے ہم خیال تھے۔ اسی طرح حضرت عیسی کے متعلق انہوں نے سر سید کے خیا لات کی پیروی کی۔130؎ نئی نبوت کی گنجائش بھی اہل تجدد نے فراہم کردی تھی۔ بنا بریں یہ بات ناقابل فہم نہیں کہ مرزا قادیانی نے اس سلہسلہ میں انہی کے خیالات سے استفادہ کیا۔ تاہم قادیانیت کے ظہور میں نو آبادیاتی نظام اور انگریزوں کا کردار غیر معمولی ہے۔ مرزا کا عقیدہ تھا کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک کا تعلق خدا سے ہے اور دوسرے کا امن امان قائم کرنے والی حکومت سے۔ امن امان قائم کرنے والی حکومت چونکہ اس وقت حکومت برطانیہ ہے لہذا اس سے سرکشی اسلام سے سرکشی کے مترادف ہے۔ ان میں انگریز پرستی کا جذبہ اس قدر شدید تھا کہ وہ اس معاملے میں اپنے مخالفین کو احمق و نادان بلکہ حرامی اور بدکار قرار دیتے تھے۔ 131؎
نتیجہ بحث:
اوپر کی بحث سے یہ حقیقت واضح ہو رہی ہے کہ مستشرقین نے اہل اسلام کو اپنے دین سے متعلق شکوک شبہات میں مبتلا کرنے، تجدد و مغربیت اختیار کرنے اور عہد نوکے تقاضوں کی دہائی دے کر اسلام کو جدید مغربی نقطہ نظر سے ہم آہنگ کرنے پر مائل کرنے کی بساط بھر کوشش کی ہے۔ ان کی یہ کوشش بے نتیجہ نہیں رہی۔ ان کی فکر نے عالم اسلام میں بہت سے لوگوں کے عقل وشعور اور روح وبدن میں نفوذ حاصل کرلیا ۔ مسلمانوں میں ایسے بہت سے افراد سامنے آنے لگے جنہوں نے اپنی قوموں کو لفظ و معنی اور حقیقت وشکل ہر اعتبار سے مغربی سانچے میں ڈھلنے کی دعوت دی۔ اسلامی احکامات وتعلیمات سے بیزاری پیدا ہونے لگی یا ان کی ایسی تعبیرات پیش کی جانے لگیں جو مغربی معیارات سے زیادہ سے زیادہ مطابقت رکھتی ہوں۔
یہ لوگ اسلامی عقائد واحکام میں ہر اس عقیدہ وحکم کو تاویل کی سان پر چڑھانے یا بدل ڈالنے میں مصروف ہو گئے جو اپنی اصلی شکل میں جدید مغربی یا مغرب متاثر ذہن کے لیے قابل قبول دکھائی نہ دیا۔ یوں بقول کینٹول سمتھ می معذرت خواہ نہ صرف اپنے بلکہ بہت سے دیگر مسلمانوں کے ایماں ویقین میں انتشار وتزلزل کا سبب بنے۔132؎
ڈاکٹر رفیع الدین نے تجدد پسندوں کی خواہش اجتہاد کی حقیقت واضح کرتے ہوئے صحیح کہا ہے کہ ان کی یہ خواہش بالعوم ان کی اسلام سے محبت کا نتیجہ ہونے کی بجائے الٹا اس سے بیزاری اور دیگر افکار ونظریات سے محبت کا ثمر ہے۔ اجتہاد کی اس خواہش کا مقصد اسلام کی بنیادی و حقیقی باتوں کی دریافت و وضاحت نہیں بلکہ اسے دیگر نظریات کے قریب ترلانا ہے تاکہ ان نظریات کے حامل اور دلدادگان کو مطمئن کیا جاسکے۔ یہ شریعت کے اندر سے فطری ارتقاء کے نتیجہ میں سامنے آنے والا اصلی اجتہاد نہیں بلکہ امکانی حد تک اسلام میں اپنے پسندیدہ دیگر افکاروخیالات کے دخول اور شریعت کے تکملہ کی سعی ہے۔ 133؎
ترتیب وار حوالہ جات :
45:Maryam Jameelah, “islam and modernism”, Lahore 1977, p239.
46: Ziya Fokalp, “Turkish Nationalism And Western Cicilization”, New York 1959, p 60, 271, 302.
47:Armstrong, H.G, “The GrayWolf”, New York , capricon books, 1961, p 199-200.
48: Irfan orga margarate, “Ataturk”, London, 1962, p273.
49: Ibid pp237,238,297.
50: دیکھئے: اکمل ایوبی، ڈاکٹر، مستشرقین اور تاریخ ترکی، در، ماہانہ، معارف اعظم گڑھ، اکتوبر 1983، ص251-260۔
51:ص162، 225: کتاب”مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی مشمکش”: مصنف: مولانا ابوالحسن علی ندوی۔
52:Smith, Wilferd Cantwell, Op.Cit.PP.55-73.
53:Jafri, Fareed S, “The Need for a Re-evaluton of islam in Pakistan”, the Pakistan Thimes Lahore, August 11, 1967.
54: Fyzee, Asaf A, “A Modren Approch to Islam”, Bombay, asia publishing House, 1963, p107.
55: طٰہ حسین، ڈاکٹر: مستقبل الثقافت فی مصر، قاہرہ، 1938، ص31-44
56: وہی مصنف ، الادب الجاھلی، قاہرہ، 1927، ص65-68۔
57: چارلس سی آدم، اسلام اور تحریک تجدد مصر میں( مترجم، عبدالحمید سالک)، لاہور، مجلس ترقی ادب، 2002، ص 370، 373، 374۔
58: Fazlu Rahman , Dr, “What is Islamic culture?”, The Light, Lahore, March 24, 1973, p5.
59: Idem, Weidenfield And Nicholson, London, 1966, p16.
60: Ibid, p36
61: Muhammad Asad, “Islam At the cross roads:, Lahore, Arafat publications, 1955, pp.112-130.
62: Fazlu Rahman, Dr Weidenfield And Nicholson, Op.Cit. p14
63: Ibid. p56
64: پرویز غلام احمد، مطالب الفرقان، جلد چہارم، لاہور، ادارہ طلوع اسلام، 1981، ص343-353۔
66؎: چارلس سی آدم حوالہ مذکور،ص 398۔
67؎: ایضاً،ص 199۔200۔
68؎: ایضاً،ص201۔202۔
69؎: مفتی محمدعبدہ ،تفسیر سورہ العصر،قاہرہ،1926،ص19۔
70؎: وہی مصنف،تفسیر جزعم،مطبع مصر،1341ھ،ص158۔
71: Kerr, Malcolm H, Islamic Reforms: The Political and Legal theories of Muhammad Abduh and Rashid Rida, Cambrige University press,
1961, P-105.
72: Ibid.P-106.
73؎: رشید رضا، تفسیر المنار،جلد ششم،قاہرہ،1375ھ،ص562۔
74؎: وہی مصنف ،تفسیر المنار،جلد دوم،1367ھ،ص30۔
75؎:وہی مصنف،تفسیر سورہ یوسف،قاہرہ ،1936ء،ص120،تفسیر المنار،جلد اول،قاہرہ،1373ھ،ص315۔
76: Hourani, Albert, Arabic Thought in the Liberal age, Oxford University press, 1962, P-168,169.
77؎: قاسم امین تحریر المراۃ،قاہرہ،1899ء،ص 169۔
78؎: وہی مصنف،المراۃ الجدیدہ،قاہرہ،1900ء،ص185۔186۔
79؎: علی عبدالرزاق، الاسلام و اصول الحکم، قاہرہ،1925ء، ص84۔85۔
80؎؎: مثال کے طور پر دیکھیے: طنطاوی جوہری، الجواہر فی تفسیرالقرآن،جلد اول،بیروت،1991ء،ص 161، 234۔ چارلس سی آدم،حوالہ مذکور،ص 348، 349، 355۔
81؎: سید عبداللہ،سرسید احمد خاں اور ان کے نامور رفقاء کی اردو نثر کا فنی و فکری جائزہ، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان، 1994ء، ص 30۔32۔
82؎: ٹرول ،ڈاکٹر سی ڈبلیو،سرسید احمد خاں: فکر اسلامی کی تعبیر نو(مترجمین،ڈاکٹر قاضی افضل حسین اور محمد اکرام چغتائی)،لاہور،القمر انٹرپرائزز، 1998ء،206، 207۔
83؎: تفسیرالقرآن مع اصول تفسیر ، لاہور ، دوست ایسوسی ایٹس، 1995ء، ص 1075۔ 1197۔
84؎: ایضاً،ص 147۔162، 399، 413، 426۔427۔
85؎: ایضاً، ص 580۔
86؎: ایضاً، ص90۔96، 565۔575۔
87؎: ایضاً، ص 106۔108، 117، 613۔625۔
88؎: ایضاً، ص 124۔
89؎: حالی، مولاناالطاف حسین، حیات جاوید،لاہور،ھجرہ انٹرنیشنل،1984ء،حصہ اول، ص 231۔
90: Chriragh Ali, The proposed political , legal and social reforms in the Ottoman Empire and other Muhammdan States, Bombay, 1883c,
PP-10-12.
91: Ibid.pp. 112-113.
92؎: ممتازعلی،حقوق نسواں،لاہور، 1898ء، ص 5۔7۔
93؎:ایضاً، ص7۔37۔
94؎: ایضاً، ص 44۔ 94۔
95؎: حالی،مولانا الطاف حسین، حیات جاوید،حوالہ مذکور،ص 163۔
96؎: احمد امین،زعماء الاصلاح فی العصر الحدیث،قاہرہ،1948ء، ص 139۔145۔
97؎: امیر علی، سید ، روح اسلام(مترجم،محمدہادی حسین)، لاہور، ادارہ ثقافت اسلامیہ، 1992ء، ص 152۔
98؎: ایضاً،ص 153۔154۔
99؎: ایضاً،ص326۔
100؎: ایضاً،ص 358، 368، 370، 371۔
101؎: ابو الحسن علی ندوی ، مولانا ، قادیانیت: مطالعہ و جائزہ، کراچی،مجلس نشریات اسلام، 1981ء، ص180۔
102؎: محمد علی لاہوری،بیان القرآن،لاہور،احمدیہ انجمن اشاعت اسلام،جلد اول 1377ھ،ص62،جلد دوم،ص1244،جلد سوم،1342ھ، ص1391۔1392۔
103؎: ایضاً،جلد اول ،ص69۔70۔
104؎: ایضاً،ص78۔79۔
105؎: ایضاً،ص 331۔332، 334، 399، 575۔576،جلد دوم،ص 738، 1262۔
106؎: ایضاً، جلد اول، ص310،جلد دوم ،ص 1323۔
107؎:ایضاً،جلداول،ص314۔315۔
108؎:ایضاً،ص 320۔326۔
109؎: ایضاً،جلد سوم، 1408۔1536۔جلد دوم ، ص 1278۔
110؎: عزیز احمد، پروفیسر، برصغیر میں اسلامی جدیدیت(مترجم، ڈاکٹر جمیل جالبی)، لاہور، ادارہ ثقافت اسلامیہ، 1979ء،ص322۔323۔
111؎: پرویز، غلام احمد، انسان نے کیا سوچا، لاہور،طلوع اسلام ٹرسٹ،1991ء، ص15۔
112: Longman, Green & co; Pub. by , Supernatural Relegion, London, 1874, Vol.II.p.480.
113؎: الانعام 12:6۔
114؎: پرویز،غلام احمد،مطالب الفرقان، لاہور،طلوع اسلام ٹرسٹ،جلد پنجم،ص12۔
115؎: ایضاً،جلد چہارم،ص384۔
116؎:ایضاً،جلد دوم،ص 67۔70۔
117؎: ایضاً،ص50۔52۔
118؎: ایضاً،ص41۔42۔
119؎: ایضاً ،جلد اول ص 327۔328۔
120؎: ایضاً، ص 333۔334۔
121؎: ایضاً،جلد دوم ص 41۔
122؎: ایضاً،ص 62۔
123؎: ایضاً،جلد چہارم،ص93۔
124؎: ایضاً،ص 503۔510۔
125؎: ایضاً،جلد سوم،ص 348۔
126؎: النساء 20:4۔
127؎: پرویز،غلام احمد،مطالب الفرقان،جلد سوم،ص 346۔
128؎: ایضاً،جلد اول،ص 115۔116، 132
129؎: ایضاً،ص107۔
130؎:محمداکرام شیخ، موجِ کوثر،لاہور، ادارہ ثقافت اسلامیہ، 1992ء، ص 178۔
131؎: قاضی جاوید،سرسید سے اقبال تک، لاہور،تخلیقات، 1998ء ، ص 93۔
132: Smith, Wilfred Cantwell , Op. Cit.p.122.
133: Rafi-ud-din , Dr, ” The task of Islamic Research”, The Pakistan times, Lahore, August 2, 1963.
تحریر :ڈاکٹر محمد شہباز منج، لیکچرر ، شعبہ اسلامیات ، یونیورسٹی آف سرگودھا، سرگودھا