غیر مسلم اکثر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ عام مسلمان کو 4 شادیوں کی اجازت ہے جبکہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس ایک وقت میں اس سے زیادہ ازواج تھیں۔ کچھ تو فحش کلمات تک بک دیتے ہیں کہ (معاذاللہ) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے یہ شوق تھے جنہوں نے آپکو چندگان بنایا۔ کیا اس سے بڑا بھی کوئی جھوٹ ہو سکتا ہے؟
اس معاملے کو مکمل طور پر سمجھنے کیلئے، درج ذیل نقاط کو سمجھنا ہوگا؛
کچھ چیزیں صرف رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہی لئے تھیں:
یہ بات واضح رہے کہ رسولِ اقدس (صلی اللہ علیہ وسلم) سے متعلق یہی ایک بات ہی غیر معمولی نہ تھی، درحقیقت ایسی بہت سی باتیں ہیں۔ مثلاً، جیسا کہ ہم مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ صلاۃ التہجد تقوی کا ایک عظیم عمل ہے، لیکن اسکے باوجود عام مسلمانوں کیلئے، یہ فرض نہیں ہے۔ لیکن رسولِ اقدس (صلی اللہ علیہ وسلم) پر لازم تھی جیسا کہ (قران 17:79, 73:2-4) سے واضح ہے۔ اور نصف رات میں صلاۃ التہجد کیلئے بلا ناغہ بستر چھوڑنا بڑا سخت کام ہے۔ یہ محض اس تصور کی تردید بتایا جا رہا ہے کہ رسولِ اقدس (صلی اللہ علیہ وسلم) نے (معاذاللہ) اپنے لئے کچھ چیزیں خود سے مستثنی کر لیں۔
رسولِ اقدس (صلی اللہ علیہ وسلم) نے شادی اپنی جسمانی خواہشات کی تسکین کیلئے نہیں کی:
54 سال کی عمر تک آپکی ایک بیوی تھی، یہ اس بات کی نفی کرتا ہے کہ آپکی شادیوں کی وجہ آپکی جسمانی خواہشات تھیں۔ 50 سال کی عمر تک آپکے پاس ایک ہی بیوی تھی سیدہ خدیجه (رضی اللہ تعالی عنہہ) جو کہ عمر میں آپ سے 15 سال نہ صرف بڑی تھیں بلکہ پہلے سے ہی دو بار بیوہ ہو چکی تھیں۔ اور اگلے 4 سال تک آپکی ایک ہی بیوی تھیں، سیدہ سودة (رضی اللہ تعالی عنہہ)، وہ بھی عمر رسیدہ خاتون۔ تمام ازواج سوائے ایک کے، یا تو طلاق شدہ تھیں یا پھر بیوہ۔ یہ 55 سال کی عمر میں ہی ایسا ہوا کہ چار بیویاں ان کے نکاح میں جمع ہو گئیں۔
“John Bagot Glubb” اس حقیقت کو درج ذیل الفاظ میں تسلیم کرتے ہیں؛
“یہ، البتہ، قابلِ غور ہے کہ انکی تمام بیویوں میں سے، صِرف عائشہ (رضی اللہ تعالی عنہہ) ہی کنواری تھیں جب آپ سے نکاح ہوا۔ زینب بنت جحش (رضی اللہ تعالی عنہہ) اور باقی تمام بیویاں طلاق یافتہ یا بیوائیں تھیں، کچھ ان میں سے، یوں لگتا ہے جیسے، خاص دلکش بھی نہ تھیں۔ اسکے علاوہ جب خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنہہ) سے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شادی ہوئی تو آپکی (انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کی عمر 25 سال تھی جبکہ وہ نہ صرف بیوہ تھیں بلکہ عمر میں بھی آپ سے خاصی بڑی تھیں۔ وہ ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم) ان (یعنی خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہہ) کیساتھ 25 سال، انکی وفات تک مکمل طور پر وفادار رہے۔ ”
-(The Life and Times of Muhammad p.237, pub. Stein And Day, New York, 1971)
مزید لکھتے ہیں؛
“مدینہ میں، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس اوقاتِ فراغت کم سے کم ہوا کرتے تھے اور اکثر اوقات وہ ذہنی و جسمانی طور پر تھکے ہوتے تھے، بلخصوص جب وہ پچاس اور بعد میں ساٹھویں سال میں تھے۔ یہ وہ حالات نہیں ہوتے کہ جن میں مرد جنسی تسکین میں دلچسپی رکھتا ہو۔ یہ فرض کرنا کہ باسٹھ سال کی عمر میں جب انہوں نے وفات پائی تو انکی گیارہ بیویاں تھیں اور اسلئے وہ نفس کی پیروی کرنے والے تھے، چنانچہ کسی بھی طور حتمی نتیجہ طے نہیں پائے گا، جیسا کہ بہت لوگ فرض کرتے ہیں۔ ایسا بلخصوص اس امر کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہ پچاس سال کی عمر تک آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس ایک ہی بیوی تھی۔”
-(صفحہ.239)
یہ سب اس مفروضے کی تردید کرتا ہے کہ آخری پیغمبرِ اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) نے شادیاں جسمانی خواہشات کی تسکین کیلئے کیں۔ John Davenport ایک بےحد جائز سوال پوچھتے ہیں؛
“.. اور تب یہ پوچھا جائے، کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ایک انتہائی نفس پرست مرد، ایک ایسے ملک میں جہاں کثیر شادیاں کرنا ایک معمولی عمل تھا، پچیس سال تک ایک ہی بیوی کیساتھ رہے، اور وہ بھی وہ بیوی جو اس سے پندرہ سال بڑی ہو؛<؟>undefined”
-(An Apology for Muhammed and the Koran p.26 pub. J. Davy and Sons, London)
Stanely Lane Poole بھی لکھتے ہیں؛
“… یہ کہنا غلط ہوگا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) (معاذ اللہ) عیاش تھے۔ اسکی روزمرہ کی انتہائی سادہ زندگی، آخر تک اسکا ایک سخت چٹائی پر سونا، اسکی سادہ غذا، اپنا مشقت بھرا کام بھی جان بوجھ کر خود سے کرنا، سب اسکے زاہدانہ ہونے کیطرف اشارہ کرتا ہے نہ کہ عیاش۔”
-(Studies in a Mosque p.77, pub. W. H. Allen & Co. London, 1883)
ایک اور یورپین، Thomas Carlyle، رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اکثر دہرائے جانے والے جھوٹ پر تبصرہ کرتے ہیں؛
“محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بذات خود، اس سے متعلق جو بھی کہا جائے، ایک نفس پرست آدمی نہیں تھا۔ ہم اسکو (معاذ اللہ) ایک عیاش آدمی سمجھ کر وسیع غلطی کریں گے — خواہ کسی بھی طرح کی عیاشی ہی بھلے کیوں نہ ہو۔”
-(On Heroes, Hero-Worship, and the Heroic in History p.65 Lecture II, pub. Champan and Hall, London, 1840)
آپکی شادیوں میں پوشیدہ حکمت:
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تمام شادیوں کے پیچھے ایک بڑی حکمت تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عملاً اسلام میں شادی کیلئے تمام جائز پہلوؤں کو واضح کر کے دکھایا اور اس میں ابتدائی مسلم کمیونٹی کیلئے غیرمعمولی سیاسی فوائد بھی تھے۔
1- خدیجه (رضی اللہ تعالی عنہہ) سے آپکی شادی نے اس بات کو واضح کیا کہ ایک کنوارہ ایک بیوہ سے شادی کر سکتا ہے، اپنے سے بڑی عمر کی خاتون سے شادی کر سکتا ہے، ایک غریب یتیم مرد کیلئے ایک مالدار خاتون سے شادی کرنا یا ایک ملازم کا اپنی مالکن سے، شادی کرنا جائز ہے۔ رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے آپکی زندگی میں کسی سے شادی نہیں کی، یہ امر ہی ان تمام نفس پرستی کے الزامات کی تردید کرتا ہے۔ کچھ یرقان زدہ آنکھوں والے ناقدین یہاں تک کہہ گئے کہ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی معاشی مجبوریاں تھیں جنہوں نے خدیجه (رضی اللہ تعالی عنہہ) کی زندگی میں آپکو مزید شادی سے روکے رکھا۔
Stanely Lane Pool نے اسلام کا تلخ ناقد ہونے کے باوجود، ایسے دعوے کی نامعقولیت کو تسلیم کیا۔ وہ لکھتا ہے؛
” خدیجه کیلئے محمد کی صداقت و وفاداری کی وجہ مال و دولت قرار دی گئی ہے۔ وہ(معترضین) کہتے ہیں کہ محمد ایک غریب شخص تھا جبکہ خدیجه دولتمند اور اثر و رسوخ والی خاتون تھی؛ خاوند کی جانب سے کہیں اور کسی بھی طرح کی ‘دل لگی’ طلاق کا سبب بنتی اور ساتھ ہی ساتھ جائیداد اور مقام کو بھی نقصان پہنچتا۔ اس بات کی نشاندہی کی ضرورت نہیں ہے کہ غربت کا خوف ( اس وقت عرب میں رہنے والے کیلئے ایک معمولی انجام ہوگا )ایک حقیقی نفس پرست آدمی کو پچیس سال تک نہیں روکا جا سکتا؛ بلخصوص جب کسی بھی اعتبار سے لازم بھی نہیں کہ خدیجه جو اسکو پورے دل سے محبت کرتی تھی’کبھی اس وجہ سے طلاق کا سوچتی بھی۔ اور ابھی اس وضاحت میں محمد کا محبت میں اپنی بوڑھی بیوی خدیجه کو(اسکی وفات کے بعد ) یاد کرنا شامل نہیں ہے۔ اگر محض اسکی دولت ہی نے پچیس سال تک اسکو روکے رکھا ہوتا، تو کوئی بھی یہ امید کر سکتا ہے کہ اسکی موت کے بعد وہ یہ لبادہ اتار پھینکتا، اور شکر شکر کرتے پھر سے یہی سب دہراتا۔ مگر محمد نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔ ”
-(Studies in a Mosque p.79, pub. W. H. Allen & Co. London, 1883)
پھر دولت ، حسین لڑکی سے شادی، سرداری کی آفرین تو قریش کئی دفعہ انکو پیش کرچکے تھے کہ شاید یہ یہی کچھ چاہتے ہیں ۔ پہلے ڈائریکٹ پھر حضرت ابوطالب کے سامنے آفر دی گئی جس کا تذکرہ تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے ، آپ نے جواب میں فرمایا تھا کہ اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر چاند دوسرے پر سورج بھی رکھ دیں میں یہ دعوت کا کام نہیں چھوڑ سکتا۔ تفصیل کے لیے یہ تحریر دیکھیے
2- حضرت سودة بنت زمعة (رضی اللہ تعالی عنہہ) سے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شادی سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک أرمل اگر ایک درمیانہ عمر کی، خوش اخلاق، رحم دل اور ہنسی مذاق کرنے والی بیوہ خاتون سے نکاح کرنا چاہے جو کہ اسکے بچوں کی دیکھ بھال کر سکے، تو کر سکتا ہے۔ یہ بلکہ شائد ضروری تھا کہ رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک ہم عمر خاتون سے نکاح کرتے کیونکہ تب انکو ضرورت تھی کہ کوئی انکے اہل و عیال کی دیکھ بھال کر سکے۔
3- آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جوان و ذہین عائشہ بنت ابوبکر (رضی اللہ تعالی عنہہ) سے شادی کی کہ وہ شادی اور دیگر مسائل سے متعلق تمام معاملات کو یاد رکھ سکیں اور بعد میں امت کی رہنمائی ہو۔ اس شادی کا ایک اور مقصد ابو بکر (رضی اللہ تعالی عنہہ) کیساتھ آپکے دوستانہ تعلقات کو مزید تقویت دینا بھی تھا۔
4- آپ (صلی علیہ وسلم) نے حفصہ (رضی اللہ تعالی عنہا) سے نکاح کیا، وہ بیوہ ہوچکی تھیں اور عمر رضی اللہ عنہ انکےسلسلے میں فکر مند تھے ۔ عمر رضی اللہ عنہ کی دل جوئی او ران سے تعلقات کی مضبوطی کے لیے حضصہ رضی اللہ عنہا سے خود شادی فرمالی۔
5-زينب بنت خزيمة (رضی اللہ تعالی عنہا) عبیدہ (رضی اللہ تعالی عنہہ) کی بیوہ تھی وہ غزوہِ بدر میں شہید ہو گئے تھے، ان سے شادی بیواؤں کیلئے آپکے احساس کو ظاہر کرتا ہے اور مسلمانوں کیلئے عملی نمونہ تھا کہ جو لوگ خدمتِ اسلام میں شہید ہوئے انکے اہل و عیال کا خیال رکھیں۔
6- آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے امِ حبیبہ (رضی اللہ تعالی عنہہ) سے شادی کی، جو رئیسِ مکه، ابو سفیان کی بیٹی تھیں۔ اس شادی نے آپکو بنو امیہ کے قریب لا ٹھہرایا جو کہ قریش کے نزدیک ایک اہم خاندان تھا۔ بلکہ اس سے بغیر خون بہے فتح مکہ کیلئے راہ ہموار ہوئی۔ William Muir اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛
“<رسول (صلی اللہ علیہ وسلم>undefined شائد وقتِ بعید میں ابو سفیان، (یعنی) امِ حبیبہ کے باپ، کو اپنے مقصد کے حصول کیلئے سودمند بنانا چاہتے تھے۔”
-(The Life of Mahomet, vol. 4 p.59 pub. Smith, Elder and Co. London, 1861)
(John Bagot Glubb (a.k.a Glubb Pasha بھی ایک دلچسپ مشاہدہ کرتے ہیں؛
“انہوں نے حبشہ کے شہنشاہ کو امِ حبیبہ کیلئے خط لکھنے کی زحمت کی۔ اگر مقصد محض عورت کا حصول ہوتا، تو اس وقت سینکڑوں ان سے کہیں زیادہ دلکش و حسین عورتیں عرب میں موجود ہونگی، کسی سے بھی نکاح کیا جا سکتا تھا۔ ممکن ہے کہ انہوں نے ابو سفیان سے بہتر تعلقات استوار کرنے کیلئے امِ حبیبہ کا انتخاب کیا۔”
-(The Life and Times of Muhammad p.304)
7- أم سلمة (رضی اللہ تعالی عنہہ) سے آپکی شادی۔ یہ سابقہ شادی سے بھی اولاد اپنے ساتھ لائیں۔ تاہم، رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے عملاً ایک مثال قائم کی کہ کسطرح سے بیوی کی (سابقہ شادی سے) اولاد کا خیال رکھا جائے۔ أم سلمة (رضی اللہ تعالی عنہہ) اس قبیلے سے تھیں کہ جو رسولِ اقدس (صلی اللہ علیہ وسلم) کے شدت سے خلاف تھے پر اب چونکہ ایک رشتہ قائم ہو چکا تھا تو اس شادی نے انکو بہت حد تک ٹھنڈا کر دیا اور اپنی مخالفت پر دوبارہ سے سوچنا شروع کر دیا۔
8- زينب بنت جحش (رضی اللہ تعالی عنہہ) سے آپ نے شادی اسلئے کی تاکہ عرب کی اس بے بنیاد اور فرسودہ رویت کو جڑ سے اکھاڑا جا سکے کہ گود لئے گئے (نہ کہ حقیقی) بیٹے کی طلاق شدہ بیوی سے شادی نہیں کی جا سکتی۔ اسلام اس بات کو منواتا ہے کہ چاہے کتنا ہی کوئی عزیز کیوں نہ ہو مگر حقیقی بیٹے سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا۔ Montgomery Watt لکھتے ہیں؛
” … (اس سب میں) سماجی مقصد سیاسی مقصد سے زیادہ وزن رکھتا ہے اُن (زينب بنت جحش رضی اللہ تعالی عنہہ) کے معاملے میں – تاکہ یہ واضح کیا جائے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پرانی تہمات کو توڑ چکا ہے۔”
-(Muhammad at Medina p.288, pub. Oxford, 1956)
9- جويرية بنت الحارث (رضی اللہ تعالی عنہہ) سے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شادی، اہم یہودی قبیلوں کیساتھ بہتر تعلقات استوار اور یہ ظاہر کرنے کے لیے تھی کہ اسلام سماجی حیثیت کی بنیاد پر شادیوں کی اجازت دیتا ہے۔ حضور نے انکو غلام بننے دینے کے بجائے ان سے خود شادی کی اور انہیں “امہات المؤمنین” کے مقام پر فائز کر دیا۔ اس شادی کے سیاسی فوائد کے متعلق John Bagot Glubb اپنی مذکورہ بالا کتاب میں لکھتے ہیں؛
“… یہ خالصاً سیاسی شادی تھی، کہ اس سے بنی مستالق کو جنگ کی بجاۓ نسبتاً زیادہ بہتر طریقے سے جیت لیا گیا۔” (p.263)
10- صفية بنت حيي (رضی اللہ تعالی عنہہ)، جو یہودی قبیلہ بنو النضير کی بیٹی تھیں، سے شادی نے شمالی عرب کے یہودیوں کی ایک کثیر تعداد کے قدرے سخت جذبات کو بے اثر بنا کر ایک بڑی کامیابی ثابت ہوئی۔
Watt لکھتے ہیں؛
“یہاں ممکنہ طور پر ريحانة بنت زيد اور صفية بنت حيي سے تعلق قائم کرنے کے پیچھے سیاسی مقاصد شامل تھے۔”
-(Muhammad at Medina p.288)
11- ميمونة بنت الحارث (رضی اللہ تعالی عنہہ) سے شادی، کچھ انتہائی قابلِ قدر لوگوں کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کا سبب بنی۔ Washington Irving کے الفاز میں؛
“یہ شادی بلاشبہ ایک حکمت عملی تھی، کہ ميمونة 51 سالہ بیوہ خاتون تھیں، مگر اس تعلق نے انہیں (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو) دو طاقتور اثر و رسوخ والے جدید الایمان ساتھی عطا کئے۔ ان میں سے ایک بیوہ کا بھتیجہ خالد ابن الولید، ایک نڈر جنگجو … اور دوسرا خالد کا دوست عمرو بن العاص؛”
-(The Life of Mahomet p.183 pub. Bernhard Tachnitz, Leipzig 1850)
درحقیقت رسولِ اقدس (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شادیوں کی وجوہات شہوت پرستی نہ تھی اور اس بات کو D.S. Margoliouth جیسے متعصب ناقد نے بھی تسلیم کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے؛
“ان بیشتر شادیوں میں باآسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ سیاسی تحفظات غالب تھے۔”
-Encyclopedia of Religion and Ethics, Article: Muhammad. vol. 8 p.879 pub. T. & T. Clark, Edinburgh, 1915)
اگر اللہ عزوجل نے آپکو متعدد شادیوں کی اجازت نہ دی ہوتی تو بہت سے مسلمان ان فوائد سے محروم رہتے جو انکو ملے۔ بہت سے طاقتور دشمنان کیساتھ امن نہ ہو پاتا۔ بہت سے شرعی مسائل کی بہتر طریقے سے وضاحت نہ ہو پاتی۔ یہ صرف آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ازواجِ مطہرات ہی تھیں جنہوں نے ہم تک ازدواجی زندگی سے متعلق گھریلو معاملات ہمیں سکھائے۔ یہاں پر ایک بات قابلِ غور ہے کہ رسولِ اقدس (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بیٹوں میں سے کوئی بھی بلوغت تک زندہ نہ رہا اور آپکی بیٹیوں میں سے، صرف حضرت فاطمہ (رضی اللہ تعالی عنہہ) ہی آپکی وفات کے بعد زندہ رہیں اور وہ بھی صرف 6 ماہ تک۔ ایسی صورتحال میں یہ امتِ مسلمہ کیلئے کسی بڑی آفت سے کم نہ ہوتا اگر ازواجِ مطہرات نہ ہوتیں، کہ بہت سی تعلیمات ہم سے پوشیدہ رہ جاتیں۔
مندرجہ بالا تمام تفصیلات اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپکی شادیاں جسمانی خواہشات کے سبب نہ تھیں بلکہ بلاشبہ کم از کم مسلمانوں کے حق میں بہتر تھیں جیسا کہ انکے نتائج سے واضح ہے اور انکے پیچھے نیک مقاصد شامل تھے۔درحقیقت رسولِ اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تمام شادیوں کے پیچھے عظیم حکمت شامل تھی، نہ صرف اُس وقت کیلئے بلکہ آگے آنے والے وقت کیلئے بھی۔ امتِ مسلمہ کی روحانی اور سماجی بہبود پر اسکا گہرا اثر رہا اور بلاشبہ جہاں تک خاندانی نظام کا تعلق ہے، امت مسلمہ باقی تمام اقوام سے بہتر ہے۔
نہ جانے غیر مسلموں کو ایک سادہ سی حقیقت کو تسلیم کرنے میں کونسی آفت کا سامنا ہے کہ رسولِ اقدس (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شادیوں کا سبب شھوت پرستی نہ تھی بلکہ مصلحت تھی۔ اگر Martin Luther یہ کہہ سکتا ہے؛
The polygamy of the patriarchs, Gideon, David, Solomon & c., was a matter of necessity, not of libertinism.” (Table Talk, DCCXLII.p.304 Translated by William Hazlitt, Bell & Daldy, London 1872)
تو ٹھیک یہی رسولِ اقدس (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شادیوں کے متعلق کیوں نہیں خیال کیا جا سکتا؟ حالانکہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سخت ترین ناقدین نے بھی اس معاملے میں “وقت کی ضرورت” کو تسلیم کیا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اگر لوگ تعصب کا چشمہ اتارکر دیکھیں تو انکو حقیقت ضرور نظر آئیگی۔
اردو ترجمہ انگلش آرٹیکل
http://www.letmeturnthetables.com/2008/06/why-prophet-muhammad-married-more-times.html