ایک عالی نسب ،خوبرو اور نیک نام شخص جس کے لئے جوانی میں متعدد شادیاں کرنے میں معاشر تی اور معاشی لحاظ سے کوئی ممانعت نہ ہو۔ ۔ ۔اس کے زمانے میں ایک سے زائد شادیوں کو کسی طرح کا کوئی عیب بھی نا سمجھا جاتا ہو پھر بھی وہ اپنے سے پندرہ سال بڑی ایک بیوہ عورت کےساتھ زندگی کے بہترین سال (25- 50)گزار دے۔ ۔ ۔
پھر پچاس سال کی عمر کے بعد شادیاں کرے بھی تو مختلف خاندانوں اور قبائل کی اکثر ان بیوہ عورتوں سے ہی جو فطری طور پر جنسی تحریک کے لئے کوئی خاص رغبت بھی نہ رکھتی ہوں ۔ ۔ ۔پھر بھی کوئی یہ کہے کہ یہ متعدد شادیاں تو اس نے خواہشات نفسانی کی وجہ سے کی تھیں’ کتنی غیر حقیقی اور ناانصافی والی بات ہوگی… ؟ !
اگر صرف یہی اک وجہ تهی توپچاس سال بعد جو شادیاں کیں وہ تو کم از کم انہیں خوبصورت کنواری لڑکیوں سے کرنی چاہیے تهیں جب کہ انکے پاس حکومت و طاقت بھی تھی ،حکومت بھی عام نہیں کہ چند علاقوں پر ہو، وہ تو لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے تھے ۔ ۔ لوگ ان پر جانیں قربان کرنے کو تیار تھے۔۔!!(صلی اللہ علیہ وسلم)
حقیقت میں جس طرح حضورﷺ کے باقی ہر عمل کے پیچھے بھی کوئی نا کوئی حکمت ہوتی تھی اسی طرح آپ کی زندگی کایہ پہلو بھی حکمتوں سے آزاد نہ تھا ، حضور ﷺ کی ازواج کی کچھ اہم حکمتوں کا تذکرہ پیش خدمت ہے ۔
1. اسلامی انقلاب کی وسعت تک پہونچنے کیلئے تعلقات کی وسعت اور مختلف خاندانوں اور بااثر قبائل کا تعاون ایک بنیادی ضرورت تھی ، اس غرض سے حضور نے بہت سی شادیا ں کیں ، یہ سب نکاح مختلف قبائل سے تھے ، جن میں سے اکثر کاسبب تالیف ِقلب یا سہارا دینا تھا، یا اس خاندان سے تعلق ورشتہ کی مزید گہرائی مقصود تھی ، یا ان رشتو ں سے اسلام کو تقویت اور اللہ کی خوشنودی مقصود تھی ۔حضرت عائشہ ایک ایسے محبوب ترین رفیق اور دوست سے رشتہ کی استواری تھی ، جس نے مکہ کے مشکل ترین دور میں آپ کاساتھ دیا ، معراج کی حیران کن خبر سب سے پہلے آپ نے کی ۔غار ثور کی ہولناک تاریکی میں آپ کا ساتھ دیا ، جس نے آپ پر اپنی ہر متاع عزیز لٹانے کی کوشش کی ۔ جوآپکے اولین جانشین ہوئے اور مزاج نبوت کی حامل صحابی اور رفیق رسول تھے ۔انکے ساتھ رشتہ کاتعلق قائم کرنا ان کے احسانات ومحبت کا قلبی وعملی اعتراف تھا ۔اس کے علاوہ حضرت عائشہ کے ساتھ شادی میں حکمت یہ تھی کہ آپ صلى الله علیه وسلم کے حرم میں کوئی ایسی چھوٹی عمر کی خاتون داخل ہو جس نے اپنی آنکھ اسلامی ماحول میں ہی کھولی ہو پھر نبی صلى الله علیه وسلم کے گھرانے میں آ کر پروان چڑھے ، تاکہ اس کی تعلیم و تربیت ہر لحاظ سے مکمل اور مثالی طریقہ پر ہو اور وہ مسلمان عورتوں اور مردوں میں اسلامی تعلیمات پھیلانے کا موٴثر ترین ذریعہ بن سکے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے اپنی اس نوعمری میں کتاب وسنت کے علوم میں گہری بصیرت حاصل کی۔ اسوئہ حسنہ اور آنحضور صلى الله علیه وسلم کے اعمال و ارشادات کا بہت بڑا ذخیرہ اپنے ذہن میں محفوظ رکھا اور درس و تدریس اور نقل و روایت کے ذریعہ سے اُسے پوری امت کے حوالہ کردیا۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے اپنے اقوال و آثار کے علاوہ اُن سے دوہزار دو سو دس (۲۲۱۰) مرفوع احادیث صحیحہ مروی ہیں۔ اور حضرت ابوہریرہ رضی الله عنه کو چھوڑ کر صحابہ وصحابیات میں سے کسی کی بھی تعدادِ حدیث اس سے زائد نہیں۔۔ حضرت عائشہ کے کم عمری کے نکاح پر اعتراض کا مکمل جواب اس لنک سے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
http://ilhaad.com/2015/04/age-ayesha-mustashriqeen/
اسی طرح حضرت عمر فاروق (رض) کی صاحبزادی حضرت حفصہ(رض) سے شادی کی، جوبیوہ تھیں انکے شوہر خنیس بن حذافہ جنگ احد میں شہید ہوئے تو حضرت عمر(رض) ان کی بیوگی سے بہت پریشان ہوگئے اور چند اکابر صحابہ کرام (رض)سے اس کا تذکرہ بھی کیالیکن انھوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا ۔ یہاں تک کہ خود حضور اکرم نے ان سے نکاح کرلیا ، یہ رشتہ حضرت عمر (رض) سے تعلق کا مزیدگہرائی کا ذریعہ بن گیا ۔ اور ان کی دل جوئی اور معاونت کا سبب بھی بنا ، اس طرح اسلامی تحریک کے درجہ اول کے دو اہم ترین سے حضور اکرم کا رشتہ کا قریب ترین تعلق پیداہوگیا ۔ ظاہر ہے کہ نکاح برائے عشرت اس طرح کے نہیں کئے جاتے یہ صریحا تعلقات کی مضبوطی گہرائی امداد وتعاون تالیف قلب اعتراف خدمت اسلامی اور سہارا دینے کیئے دکھائی دیتے ہیں ۔اپنی پہلی شادی اپنے بھر پور عالم شباب میں ایک چالیس سالہ بیوہ خاتون سے کر کے آپ ﷺ نے اپنے اوپر کسی جنسی جذبے کے غلبے کی مکمل نفی کردی تھی جو ہمارے مستشرق کے دماغ پر باالعموم سوار رہتا ہے۔
2. متعدد شادیوں کی ایک ظاہری حکمت یہ بھی تھی کہ حضور ﷺکو ایک سخت نا ترشیدہ قوم سے سابقہ تھا جو تہذیب وتمدن میں بہت پیچھے تھی اور جسکی معاشرتی زندگی بہت ہی غیر منظم بے ہنگم تھی ،حضور ﷺ کے پیش نظر اس قوم کی تربیت تھی اور انکے گھروں تک اسلامی قوانین و تعلیم پہنچانے کاذریعہ یہی امہات المؤمنین تھیں ، امہات المؤمنین ہی دوسری مسلمان خواتین کی تعلیم کا ذریعہ بنیں ۔حضور ﷺ کی ذاتی اور گھریلو زندگی کے معمولات امہات المومنین خصوصا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے ذریعے ہی امت کے سامنے آئے۔
3. پہلے جنگ بدر پھر جنگ اُحد میں بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے ۔ نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہوگئے ، بیوگان اور یتیمو ں کا کوئی سہا را نہ رہا تھا ۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحا بہ رضی اللہ عنہ کو بیوگان سے شادی کرنے کو کہا ، لو گو ں کو تر غیب دینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہ سے مختلف اوقات میں نکا ح کیے ۔ آپ کو دیکھا دیکھی صحا بہ کرام رضی اللہ عنہ نے بیوگان سے شا دیا ں کیں جس کی وجہ سے بے آسرا گھرا نے آبا د ہوگئے ۔سودہ رضی اللہ تعالی عنہا کا خاوند فوت ہوچکا تھا ، اوریہ مشرک قوم کے درمیان رہائش پذیر تھیں ۔ یہ پچاس سال کی عمر اوپر سے بیوہ ، اس قابل نہیں تھی کہ کو ئی ان سے شادی کرتا اوران کا معاشی اور معاشرتی سہارا بنتا ، اپنے گھر جاتیں تو ان کے گھر والے کفار تھے اور جیسے دوسرے مؤمنین کو وہ اذیتیں دے رہے تھے انہیں بھی اذیتوں میں مبتلا کردیتے، اور دوبارہ کفر میں داخل ہونے پر زبردستی کرتے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کر لیا۔حضرت ام سلمہ کے شو ہر بھی جنگ احد میں شہید ہوگئے تھے ، انھوں نے اور ان کے شوہر نے اللہ کے راستہ میں بہت زیادہ صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں ، انکا یوں بے یار ومددگار رہ جانا بہت بڑا حادثہ تھا ۔ حضور اکرم نے بچوں سمیت ان کے سہارے کیلئے ان سے نکاح کر لیا ، اس طرح حضرت زینب بنت خزیمہ سے نکا ح کیا ، انکے شوہر بھی جنگ احد میں شہید ہوگئے تھے ، حضور ﷺ نے ان سے شادی کرلی ۔
4. اس قبائلی معاشرہ میں آپ ﷺ نے مختلف قبائل کی خواتین سے نکاح کے ذریعے ان قبائل سے اپنے معاشرتی تعلقات استوار کیے جس سے بہت قبائلی دشمنیاں آپ ﷺ کے خلاف سرد پڑگئیں ۔عربو ں میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داما د بن جاتاا س کے خلا ف جنگ کر نا اپنی عزت کے خلا ف سمجھتے ۔ جنا ب ابو سفیان رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید ترین مخالف تھے ۔ مگر جب ان کی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہ سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکا ح ہو اتو یہ دشمنی کم ہوگئی۔ اس طرح حضرت جو یر یہ رضی اللہ عنہ کا وا لد قبیلہ معطلق کا سر دار تھا۔ یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے درمیان رہتا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلہ سے جہا د کیا ، ان کا سر دار ما را گیا ۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہ قید ہو کر آئیں ، ان سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نکاح فرمایا۔ان سے نکاح کے نتیجہ میں مسلمانوں نے بنی المصطلق کے سب قیدی رہا کر دیئے ۔ اور وہ بعد میں سب مسلمان بھی ہو گئے ۔اسی طرح حضر ت صفیہ رضی اللہ عنہا سے شادی ہوئی۔ خیبر کی لڑائی میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ قید ہو کر آئیں، یہ حضرت ہارون علیہ السلام کے خاندان سے تھیں اور مشہور یہودی سردار حی بن اخطب کی صاحب زادی تھی ۔ انکا شوہر مارا گیا تھا ،حضور ﷺ نے انکو لونڈی بننے نہیں دیا بلکہ انکو آزاد کر کے نکاح کر لیا ان کے ذریعہ یہود کے قبیلوں میں اسلام کے اچھے اثرات پھیلے ۔
5. ان شا دیو ں کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آسکیں ، اخلاقِ نبی کا مطالعہ کر سکیں تاکہ انہیں راہ ہدایت نصیب ہو ۔حضور ﷺ کے نکاح کے ذریعے مختلف قبائل سے رشتے قائم ہوئے اور بہت سی قبائلی عصبیتوں کا قلع قمع ہوا ۔ اس کی ایک مثال میمونہ رضی اللہ عنہ سے نکا ح ہے ، انکی وجہ سے نجد کے علا قہ میں اسلام پھیلا ۔
6. معاشرہ کی جاہلی رسم ورواج کو توڑنا بھی آپ ﷺکے فرائض میں شامل تھا ۔ جاہلی معا شرے میں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹا سمجھاجاتا تھا ۔جو حرمتیں سگے بیٹے سے متعلق ہوتی ہیں وہی حرمتیں منہ بولے بیٹے سے بھی وابستہ ہوتی تھیں، اس جاہلی رسم ورواج کو ختم کرنے کیلئے اللہ نے آپ کا نکاح حضرت زینب بنت جحش سے نکاح کیا ۔ حضرت زینب بنت جحش کا پہلا نکاح آپﷺ منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ (رض)سے ہواتھا۔
غرض حضور ﷺ کا کوئی رشتہ ازدواج بھی محض نکاح کی خاطر نہ تھا بلکہ اس میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ تھیں ۔۔ کوئی ایک نکاح ایسانہیں جس نے اسلامی انقلاب کے لئے راستہ ہموار کر نے میں کوئی مددنہ دی ہو ۔ اس لیے بے شمار دینی، تعلیمی اور دیگر مصلحتوں اور حکمتوں کی بنیاد پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے بھی یہ اجازت خاص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہی تھی۔