مشرکین عرب حضور ﷺ کے اس دعوے پر شدید تنقید کرتے تھے کہ آپ ﷺ پر خدا کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے۔ حقیقت میں وہ تنزیل کے تصور ہی کے خلاف تھے۔ اس سلسلے میں وہ چار پہلوؤں پر تنقید کرتے تھے۔
اوّل
– حضور ﷺ کے مذہبی تجربہ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی پر مبنی نہ سمجھتے تھے اور اس طرح آپ ﷺ کو ذہنی طور پر پریشان کرنے پر کمربستہ تھے۔
دوم
– آپ ﷺ کے مخالفین کسی صورت میں بھی یہ ماننے پر آمادہ نہ تھے کہ انسان جسے مافوقیت کا بھی دعویٰ نہیں، کسی صورت پیغمبر ہو سکتا ہے۔
سوم
– اگر کسی انسان کو یہ بلند مرتبہ حاصل ہونا ہی تھا تو کئی دوسرے اشخاص موجود تھے جو کہ حضور ﷺ سے زیادہ دولت مند اور با اثر تھے۔ چنانچہ مخالفین اسلام یہ دلیل دیتے تھے کہ کیا یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ خدا نے ان سب کو یکسر نظر انداز کر کے ایک بے کس قریشی یتیم کو نبوت سے سرفراز فرما دیا ہو۔
چہارم
– محمد ﷺ کے پاس نہ تو کوئی غیر معمولی اور نہ ہی کوئی ڈرامائی خصوصیت تھی جس سے وہ نبوت کے دعویٰ کو ثابت کر سکتے۔
آپ ﷺ پر عام الزام یہ لگایا جاتا تھا کہ آپ ﷺ ‘جن’ کی قوت کے حامل ایک ‘مجنون’ تھے۔ مزید تہمت یہ تھی کہ آپ ﷺ کاہن یا نجومی یا جادوگر اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپﷺ شاعر ہیں ۔
جدید ناقدین:
اہلِ مکہ جو عام الزامات حضور ﷺ پر لگاتے تھے وہ کم و بیش الفاظ کے ہیر پھیر سے آج بھی دہرائے جاتے ہیں۔ آج کے ان بہتان تراشوں میں سے ماضی قریب کے پروفیسر میکڈانلڈ کا نام سرفہرست پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس دریدہ دہن پروفیسر نے حضور ﷺ کی نبوت کو صرع اور خلل دماغ کی کیفیت کا مظہر ثابت کرنے کی ناکام سعی کی ہے۔ لیکن یہ امر حیران کن ہے کہ وہ بیک وقت حضور ﷺ کو غیر معمولی ذہانت اور اختراعی قوت رکھنے والا انسان بھی قرار دیتا ہے، چنانچہ میکڈانلد اپنے متضاد خیالات کی بنا پر اپنی اس دریدہ دہنی کو ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مختصر یہ کہ ان تمام الزامات کا محور صرف ایک الزام تھا کہ محمد ﷺ عرب کے ایک قدامت پرست شاعر تھے جو کہ ابھی اپنی شاعرانہ مہارت سے پوری طرح فیضیاب نہ ہوئے تھے اور اس لئے انہوں نے اپنی تمام تر توجہ شاعری کی پیغمبرانہ صنف کی طرف مبذول رکھی اور یہ کہ انہوں نے عیسائیت اور یہودیت کے نظریات کو گڈ مڈ کر کے ایسا مواد حاصل کیا جس کو اپنی نبوت کے ثبوت کے طور پر استعمال کر سکیں۔(عبدالحمید صدیقی)
پروفیسر میکڈانلڈ کا یہ نظریہ کہ آپ ﷺ ایک شاعر تھے’ میور کے نظریہ سے قدرے مختلف ہے جس کا دعویٰ یہ تھا کہ فوق الفطرت اثر جس کا کہ محمد ﷺ پر اثر تھا، ممکن ہے کہ وہ شیطان اور اس کے چیلوں سے حاصل ہوا ہو۔ تاہم جس جذبہ سے محمد ﷺ کا شاعرانہ شعور بیدار ہوا وہ قطعاً ایسا نہ تھا۔ میکڈانلڈ کا دعویٰ یہ بھی تھا کہ عرب کے ایک شاعر حسن کی طرح جس پر کہ ”جنی” کا اثر تھا اور جس سے مغلوب ہو کر اس نے اشعار کہے، اسی طرح محمد ﷺ کا ساتھی ”قارن” تھا جو کہ آپ کے روحانی فیض کا ذریعہ بنا۔ محمد ﷺ کسی صورت بھی مطلقاً نبی نہ تھے اور یہ کہ اہلِ یہود کے انبیاء جیسی صفات آپ ﷺ میں ناپید تھیں۔
اعتراضات کے جوابات
شاعر ہونے کا الزام:
پروفیسر میکڈانلڈ کے متذکرہ بالا خیالات پڑھنے سے یہ امر روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ عرصہ دراز گزرنے کے بعد بھی ان الزامات کی نوعیت میں سرِمو فرق رونما نہیں ہوا۔ اسلام کے جدید ناقدین اہل مکہ کی طرح دعویٰ کرتے ہیں کہ حضور ﷺ جس چیز کے الہامی ہونے یا اللہ تعالیٰ کے کلام ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ آپ کے دماغی انتشار کے اظہار اور شاعرانہ ترنگ یا جنوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
قرآن پاک نے اس الزام کی پُرزور تردید کی ہے کہ حضور ﷺ کے فرمان اللہ تعالیٰ کے ارشاداتِ وحی ہیں اور ان کی نوعیت ان لوگوں کے لئے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے جو کہ آپ ﷺ کے پیغمبرانہ اظہار کے سرچشمہ کو جھوٹ پر مبنی خیال کرتے ہیں اور مصلح کی ذہنی کشمکش اور جنونی شاعر کی پُر گوئی تصور کرتے ہیں یا فاتر العقل انسان کی پریشان فکری پر محمول کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ الزام کے آپ ﷺ شاعر ہیں’ قرآن پاک نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ آپ ﷺ کو شاعر کہنا کیوں خلافِ عقل ہے۔ ایک شاعر عام طور پر ایک ذہنی طور پر سرگردان انسان ہوتا ہے جو اپنے تخیلات اور جذبات کا اطہار خوب صورت اشعار میں کر دیتا ہے۔ اس کا تعلق صرف خیالی اور باریک معاملات اور افکار سے ہوتا ہے جن کا انسانی زندگی کے عملی مسائل سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ فرمایا
”رہے شعرا، تو ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ چلا کرتے ہیں۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیں۔” (۲۲۵: xxvi)
اس لئے شاعر جو کچھ کہتا ہے وہ بے ربطگی کا حامل ہوتا ہے۔ جذبات کے اظہار کی بناء پر شاعر کے نظریات میں ہم آہنگی اور ربط مفقود ہوتا ہے۔ مزید برآن شاعر کی عملی زندگی اور اس کے شاعرانہ خیالات میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ اس کی شاعری صرف اس کے سفلی جذبات کی آئینہ دار ہوتی ہے اور اس لئے شاعر کے لئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ اپنے خیالات کو زندہ حقائق کے سانچے میں ڈھالے۔ آیت میں اگے اسی کی طرف اشارہ کیا ”اور پھر وہ (شعراء) وہ کچھ کیوں کہتے ہیں جو کہ وہ کرتے نہیں۔”
دوسری طرف نبی ایک مصلح ہوتا ہے۔ وہ وہی کچھ کہتا ہے جو کہ وہ کرتا ہے اور وہی کچھ کرتا ہے جو کچھ وہ کہتا ہے۔ جس چیز کی وہ تبلیغ کرتا ہے اسے عملی سچائی کے سانچے میں بھی ڈھالتا ہے کیونکہ وہ اصلاحات کا موید ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں نبی کی تعلیمات کے مختلف اجزاء میں مکمل ہم آہنگی اور یکجہتی پائی جاتی ہے۔ اس کا ہر پیغام اس کے سارے الہامات سے مکمل طور پر مرتبط ہوتا ہے۔ اس لئے نبی کے پیغام میں نہ تو کوئی بے ربطگی پائی جاتی ہے اور نہ ہی اس میں کچھ فالتو یا زائد بات ہوتی ہے۔
مزید شعراء کے برعکس نبی کی سرگرمیوں کا اصل مقصد بنی نوع انسان کی اصلاح اور انہیں نیک بنانا رہتا ہے۔
انبیاء قومی تعصبات، طبقاتی کشمکش اور مادیت جیسی برائیوں سے انسانیت کو نجات دلاتے ہیں اور تمام انسانوں کو خدا کے ایک کنبہ کے طور پر مل جل کر اور صلح و آشتی سے رہنا سکھاتے ہیں۔
انبیاء انسانی نسل کے مختلف طبقوں کے مابین امن استوار کرتے ہیں اور انسانوں کے درمیان ربط و ضبط پیدا کرتے ہیں۔
حرص و طمع، خود غرضی، مادی فوائد سے محبت، ہوسِ اقتدار ان تمام سفلی خواہشات کی تطہیر کی جاتی ہے اور ان کی جگہ انسان بے غرض اور خوفِ خدا رکھنے والے بندوں کی طرح رہنا سیکھتے ہیں۔
ان کی عملی میدان میں سب سے بڑی کوشش یہ ہوتی ہے کہ انسانیت کی خدمت کی جائے اور انسانی معاشرے سے ظلم و جور اور بے راہ روی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔
کیا کوئی شاعر یہ سب کر سکتا ہے؟
کیا کوئی شاعر اس قابل ہو سکتا ہے کہ وہ کسی بات کا اظہار اس طور سے کرے کہ وہ اس کی اپنی تعلیمات سے متصادم نہ ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایسے لوگوں کو جو کہ اس کے اشعار پر پروانہ نثار ہوتے ہیں’ کے کردار کو نیکی کی شمع سے منور کر دے۔ انسانی تاریخ اور تجربات اس امر کے شاہد ہیں کہ اس سوال کا جواب واضح طور پر اور لازماًنفی میں ہی ہو گا۔
شیطانی قوتوں کے زیراثر ہونے کا الزام
:
خود قرآن میں ہی اسکی تردید کی گئی کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک انسان جس پر شیطانی روح کا غلبہ ہو یا گھٹیا قسم کی فوق العادت قوت کا مالک ہو اور وہ خالق حقیقی اور مخلوق کی راہ میں ایستادہ توہمات کے بت کو پاش پاش کر سکے۔۔؟
وہ بت پرستی اور مادی گھٹن میں الہام کے مقدس اور متوازن خیال کو کس طرح بحال کر سکتا تھا۔۔۔؟
اس معاشرہ کی اخلاقی تطہیر کا بیڑہ کس طرح اُْٹھا سکتا تھا جو کہ برائیوں اور گمراہیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں گری پڑی تھی۔۔؟
وہ انسانیت کو ایک ایسا ضابطۂ اخلاق کس طرح مرحمت فرما سکتا تھا جس کا مقصد نہ صرف انفرادی اصلاح تھا بلکہ سیاسیات، معاشیات، قانون اور اخلاقیات کی بھی اصلاح تھا۔۔۔؟
جو شخص بھی حضور ﷺ کی حیات طیبہ اور اخلاقِ حمیدہ سے آشنا ہے اور آپ کی تعلیمات اور زندگی کے چلن سے واقف ہے وہ ماسوائے اس پاک ہستی کی تعظیم کے اور کچھ نہیں سوچ سکتا۔
کیا کسی شیطانی قوت کے زیرِ اثر شخص سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کا اس قدر قرب حاصل ہو گا۔ ۔۔اُسے اپنے مشن کی رفعت اور پاکیزگی کا اس قدر خیال ہو گا اور وہ اس کی راہ میں حائل شدید رکاوٹوں کے باوجود اسے کامیاب بنانے کے لئے شب و روز اس طرح کوشاں ہو گا۔۔۔ اپنے دوستوں کے اوصاف سے اس قدر آشنا ہو گا اور اپنے دشمنوں کی ہٹ دھرمی اور گھمنڈ سے بھی واقف ہو گا۔۔۔ دل و دماغ کے یہ گراں بہا اوصاف کسی ایسے شخص کی ذات میں ملنا محال ہیں جو کہ شیطانی قوتوں کے زیرِ اثر ہو۔ تاریخ کسی دوسرے ایک ایسے شخص کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے جس کے پیغام نے دنیا کی ایک انتہائی متوازن اور شریفانہ تہذیب کو جنم دیا۔ قرآن پاک فرماتا ہے:
”لوگو! کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اترا کرتے ہیں؟ وہ ہر جعل ساز بدکار پر اترا کرتے ہیں۔ سنی سنائی باتیں کانوں میں پھونکتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں۔” (۲۲۳-۲۲۱: سورۃ الشعراء)
اسی طرح قرآن اس امر کی بھی پرزور تردید کرتا ہے کہ محمد ﷺ کسی ‘جن’ کے زیر اثر بات کرتے تھے۔
”کیا انہوں نے یہ خیال نہ کیا کہ ان کا رفیق کسی طرح بھی جن کے زیرِ اثر نہ تھا، وہ تو صرف ایک سیدھے سادے خبردار کرنے والے انسان تھے۔”
یہاں رفیق سے مراد محمد ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے۔ قرآن پاک لوگوں کو یہ سوچنے کی دعوت دیتا ہے کہ ایسا انسان جو کہ خود غرضی اور ہوسِ اقتدار سے یکسر عاری تھا اور جس کی ساری زندگی خدا تعالیٰ کی تابعداری اور فرمانبرداری میں بسر ہوئی، جو ہر دلعزیز شخصیت کا حامل تھا اور جو امانت و دیانت کا پیکر تھا۔ اور جس نے نہ صرف زندگی کے ایک پہلو میں انسانیت کی رہنمائی کی بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں انسانوں کو سیدھی راہ دکھائی وہ کس طرح ”جن” کے زیرِ اثر یہ عظیم کامیابی حاصل کر سکتا تھا۔؟
تاریخ کی ورق گردانی کیجیئے اور دیکھیے کہ کیا شیطانی قوتوں کا حامل کوئی شخص اس قابل ہوا ہے کہ وہ اس قدر عظمت حاصل کر سے جو کہ محمد ﷺ کو اپنی نبوت کے ۲۳ سال کی مختصر مدت میں حاصل ہوئی۔ آپ ﷺ کا ظہور قدسی ایسی سر زمین اور لوگوں میں ہوا جو کہ کوئی قابل فخر شاندار ماضی نہ رکھتے تھے۔ یہ صرف آپ ﷺ کی ذاتِ گرامی تھی جس نے ایسی قوم کو بامِ عروج پر پہنچایا، عظیم سلطنتوں کو پاش پاش کر دیا۔ مدت دراز سے قائم شدہ مذاہب کو ختم کر دیا اور لا تعداد مرد و خواتین کے کردار کو بدل کر ایک نئی دنیا’ دنیائے اسلام’کو جنم دیا۔ کیا کوئی ذی ہوش یہ خیال کر سکتا ہے کہ ایسا انقلاب جس نے نہ صرف دنیا کے نقشہ کو بدل کر رکھ دیا ہو بلکہ انسانی اخلاق کو بھی پاکیزہ تر بنایا ہو اور علم کی وسعتوں میں بھی اضافہ کیا ہو، وہ ایک ایسے انسان کا مرہونِ منت ہو سکتا ہے جو کہ ”جن” کے فسوں کے زیرِ اثر ہو۔
یہ مخالفین کا اپنے الزامات کے معاملے میں بھی متفق الرائے نہ ہونا، بذاتِ خود ان الزامات کو جھوٹا قرار دینے کے لئے کافی ہے۔ یہ عقل و خرد سے عاری لوگ محض اس لئے حضور ﷺ کی ذاتِ بابرکات پر کیچڑ اچھالتے ہیں کہ ممکن ہے ان کا کوئی الزام ہی کارگر ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی تنقید کے معاملے میں کوئی ٹھوس اور یکساں طریق کار اختیار نہیں کر سکے۔ وہ اپنے اس ناپاک مقصد کے حصول کے لئے متضاد بہتان تراشتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ ایک شاعر تھے، کبھی آپ کے فرمان کو جوتشی اور جادوگر کی باتیں قرار دیتے تھے۔ یہ امر بلاشبہ اپنی جگہ حیران کن ہے کہ ایک ایسے شخص کو جو کہ غیر تعلیم یافتہ تھا اور جس کو قدیم مذہبی کتب کا کوئی علم نہ تھا، اللہ تعالیٰ نے اس اعزاز سے مشرف فرمایا کہ اس پر قرآن پاک نازل ہوا جو کہ اپنی بے مثال، پاکیزہ تر اور لطیف زبان اور برتر حیثیت کی بنا پر اپنے الہامی ہونے کے لئے بذاتِ خود ایک ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔
حضور مافوق الفطرت قوت کے مالک نہیں :
مخالفین کا آ گروہ ایسے لوگوں پر مشتمل تھا جو کہ یہ خیال کرتے ہیں کہ وحی کا حامل صرف وہی انسان ہو سکتا ہے جو کہ فوق الفطرت قوت رکھتا ہو۔ جب وہ محمد ﷺ کو دیکھتے تھے کہ وہ عام انسانوں کی طرف بازاروں میں چلتے پھرتے تھے، اپنے روز مرّہ کے استعمال کی اشیاء خریدتے تھے، سردیوں میں سرد جھونکوں سے اپنے آپ کو بچاتے تھے اور گرما کی جھلسا دینے والی گرمی سے اپنی حفاظت کا بندوبست کرتے تھے جس طرح کہ دوسرے انسانوں کا خاصہ ہے تو وہ آپ ﷺ کو خدا کا نبی ماننے کے لئے تیار نہ ہوتے تھے کیونکہ وہ آپ ﷺ میں کوئی غیر معمولی صلاحیت نہ پاتے تھے۔ ان کے نزدیک نبی کا مافوقی ہونا از بس ضروری تھا۔ اس لئے کفار حضور ﷺ کی نبوت کو شک کی نظر سے دیکھتے تھے اور کہتے تھے:
”کہتے ہیں، یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے۔ کیوں نہ اس کے پاس کوئی فرشتہ بھیجا گیا جو اس کے ساتھ رہتا اور (نہ ماننے والوں کو) دھمکاتا؟ اور کچھ نہیں تو اس کے لئے خزانہ ہی اتار دیا جاتا، یا اس کے پاس کوئی باغ ہی ہوتا جس سے یہ (اطمینان کی) روزی حاصل کرتا؟ اور ظالم کہتے ہیں کہ تم لوگ تو ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے لگ گئے ہو۔” (۸-۷: xxv)
سورۂ بنی اسرائیل میں فوق الفطرت نشانیوں کا تقاضا اور بھی زیادہ شدید ہے۔
”انہوں نے کہا، ہم تیری بات نہ مانیں گے جب تک کہ تو ہمارے لئے زمین کو پھاڑ کر ایک چشمہ جاری نہ کر دے یا تیرے لئے کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ پیدا ہو اور تو اس میں نہریں رواں کر دے۔ یا تو آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ہمارے اوپر گرا دے جیسا کہ تیرا دعویٰ ہے یا خدا اور فرشتوں کو ُرو در رُو ہمارے سامنے لے آئے یا تیرے لئے سونے کا ایک گھر بن جائے یا تو آسمان پر چڑھ جائے اور تیرے چڑھنے کا بھی ہم یقین نہ کریں گے جب تک تو ہمارے اوپر ایک ایسی تحریر نہ اتار لائے جسے ہم پڑھیں۔” (۹۳-۹۰: xvii)
قرآن پاک میں بہ تفصیل اس امر سے بحث کی گئی ہے اور نتیجتاً یہ بیان کیا گیا ہے کہ انبیاء انسانوں کی رہنمائی کے لئے بھیجے جاتے ہیں۔ وہ انسان ہوتے ہیں اور اس لئے کسی غیر معمولی قوت کے حامل نہیں ہوتے۔ قرآن پاک خود اس امر پر زور دیتا ہے کہ محمد ﷺ انسان تھے۔
”اے محمدؐ! کہو کہ میں ایک انسان ہوں تم ہی جیسا، میری طرف وحی کی جاتی ہے، کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے۔” (۱۱۰: xviii)
”اے نبیؐ! ان سے کہو، میں تو ایک بشر ہوں تم جیسا، مجھے وحی کے ذریعہ سے بتایا جاتا ہے کہ تمہارا خدا تو بس ایک ہی ہے۔ لہٰذا تم سیدھے اسی کا رخ اختیار کرو اور اس سے معافی چاہو۔” (۶: xii)
قرآن پاک اس کی وجہ بھی بیان کرتا ہے کہ کیوں نبی کی پیدائش صرف انسانوں میں ہی ہونی چاہئے۔؟
یہ اس لئے کہ نبی کو انسانیت کی رہنمائی کا فرض سونپا جاتا ہے اور یہ فریضہ صرف انسان ہی سر انجام دے سکتا ہے۔ چنانچہ اس فرض کی احسن ادائیگی کے لئے اسے ایک انسان کی طرح زندگی بسر کرنا ہو گی۔ زندگی کی مسرتوں سے لطف اندوز اور اس کی تکلیفات کو سہنا ہو گا تاکہ اس کے ارد گرد کے انسان اس کے نقشِ قدم پر چل سکیں اور لوگ اس کی ذات میں دینداری اور پرہیزگاری کا ایک زندہ نمونہ پا سکیں۔ اس کی زندگی خالقِ کائنات کی صفات کا مظہر ہو۔ وہ انسانی زندگی کا مثالی نمونہ پیش کرتا ہو۔ یہ مقصد صرف اِسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب نبی انسان ہو۔ اور اپنی عملی زندگی میں صالح سیرت کا مظاہرہ کرے۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ بحیثیت انسان لوگوں کو صراطِ مستقیم دکھا سکے اور ان میں مذہب سے لگاؤ اور زہد و تقویٰ پیدا کر سکے۔
عرصہ دراز سے لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ ایسے انسان کو جس کے پاس کوئی مافوق البشری قوت نہ ہو، کبھی بھی خدا انسانیت کی اصلاح کا فرض تفویض نہیں کر سکتا۔ قرآن اس غلط نظریہ کو رد کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ فرشتے انسانی احساسات اور جذبات سے یکسر عاری ہوتے ہیں اس لئے وہ انسانوں کے لئے اچھے مصلح ثابت نہیں ہو سکتے۔ انسان صرف ایسے اعمال سے ہی سیکھ سکتا ہے جو کہ انسانی احساسات سے وابستہ ہوں اور انسانی زندگی کے مختلف مسائل سے دو چار ہوں۔ چنانچہ یہ صرف انسان ہی ہے جس کو یہ فرض سونپا گیا کہ وہ احکامِ الٰہی کو انسانوں تک پہنچائے اور خالقِ حقیقی کے احکام کے مطابق زندگی گزار کر اس کے عملی مضمرات کی انسانوں کے سامنے وضاحت کرے۔ انبیاء کے قول و فعل ہر لحاظ سے مثالی ہوتے ہیں کیونکہ ان کی زندگیاں اللہ تعالیٰ کی دوستی سے عبارت ہوتی ہیں۔
”لوگوں کے سامنے جب کبھی ہدایت آئی تو اس پر ایمان لانے سے ان کو کسی چیز نے نہیں روکا مگر ان کے اسی قول نے کہ کیا اللہ نے بشر کو پیغمبر بنا کر بھیج دیا۔ ان سے کہو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل رہے ہوتے تو ہم ضرور کسی فرشتے ہی کو ان کے لئے پیغمبر بنا کر بھیجتے۔” (۹۵-۹۴: xvii)
مندرجہ بالا آیات صاف طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ صرف انسان ہی اس قابل ہے کہ انسانوں کی رہنمائی کر سکے کیونکہ اس کی زندگی عملی رہنمائی کا نمونہ پیش کرتی ہے۔ چونکہ یہ دنیا انسانوں کی بستی ہے اور اس لئے ان کی اصلاح کے لئے انبیاء کو انسانوں کے روپ میں بھیجا جاتا ہے۔ چنانچہ صرف انسان ہی اس عظیم فرض کو کامیابی سے نبھا سکتے ہیں۔
”کہتے ہیں اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا۔ اگر کہیں ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہو چکا ہوتا، پھر انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی۔ اور اگر ہم فرشتے کو اتارتے تب بھی اسے انسانی شکل ہی میں اتارتے۔ (۹-۸: vi)
حضور ﷺ کے مخالفین کے پراپیگنڈہ کا ایک اور طریقہ یہ تھا کہ وہ حضور ﷺ کے الہامات کا تمسخر یہ کہہ کر اُڑاتے تھے کہ یہ الہامات مکمل طور پر انسانی ذہن کی پیداوار ہیں۔ یہ یا تو حضور ﷺ کا کام ہے یا پھر یہ حضور ﷺ کے نائبین کا کیا دھرا ہے یا پھر یہ قدیم مذہبی کہانیاں ہیں۔ قرآن پاک نے اس الزام کی پُرزور تردید ان الفاظ میں کی ہے۔
”جن لوگوں نے نبی کی بات ماننے سے انکار کر دیا ہے، کہتے ہیں کہ فرقان ایک من گھڑت چیز ہے جسے اس شخص نے آپ ہی گھڑ لیا ہے اور کچھ دوسرے لوگوں نے اس کام میں اس کی مدد کی ہے۔ بڑا ظلم اور سخت جھوٹ ہے جس پر یہ لوگ اتر آئے ہیں۔ کہتے ہیں یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں۔ اے محمدؐ! ان سے کہو کہ اسے نازل کیا ہے اس نے جو زمین اور آسمانوں کا بھید جانتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ بڑا غفورٌ رحیم ہے۔” (۶-۴: xxv)
ایک اور بے معنی اعتراض یہ ہے کہ محمد ﷺ مطلقاً ایک ایسے شخص نہ تھے جن پر وحی نازل ہوتی۔ وہ بالکل اس کے اہل نہ تھے۔ عام عرب تو اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ ایک ایسا انسان جس کی حیثیت ایک یتیم بچے سے زیادہ نہ تھی جس کے پاس امارت کے دکھاوے کے لئے کچھ نہ تھا۔ اسے نبی کی حیثیت سے سرفراز کیا جا سکتا تھا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ نبوت سے صرف قبائل کے دولتمند سرداروں کو ہی نوازا جا سکتا ہے۔
”کہتے ہیں، اگر صرف اس قرآن کو نازل ہونا ہی تھا تو یہ دو شہروں (مکہ اور طائف) کے بعض بڑے آدمیوں پر نازل ہوتا۔” (۳۱: xiii)
اس تنقید کے رد میں قرآن پاک فرماتا ہے کہ نبوت اللہ تعالیٰ کا خاص انعام ہے اور وہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کس کو ملنی چاہے۔ اس لئے کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ کے انتخاب پر معترض ہو اور اللہ تعالیٰ سے اس امر کی سفارش کرے کہ وہ کس کو اس کے لئے منتخب کرے اور کس کو نظر انداز کرے۔
معجزات کا مطالبہ اور معجزات:
حضور ﷺ صرف ایک خبردار کرنے والے انسان تھے اور اس لئے فوق الفطرت قوت کے مالک نہ تھے۔ زمین کو پھاڑ کر چشمہ جاری کرنا، دریا رواں کرنا، آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے گرانا، سونے کا گھر بنانا، ایک سچے نبی ہونے کے ضروری لوازمات نہیں۔ اس کے برعکس سچے نبی کی خصوصیات یہ ہیں کہ وہ انتہائی نیک اور صالح ہو، راست باز ہو، دیانت دار ہو، بے داغ اور شاندار اخلاق کا حامل ہو، پاک باز، پاک دامن، باعصمت اور باعفت ہو، بے غرض اور انسانیت سے محبت رکھتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی پیروی کرنے والا ہو۔
قرآن پاک میں اس بارے میں کئی ایک جگہ اس بات کا ذکر آیا ہے۔
”اے محمدؐ! ان سے کہو، میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں۔ نہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے۔” (۵۰: vi)
محمد ﷺ کی غیر معمولی پاک زندگی اور بے مثال کتاب جس کا ان پر نزول ہوا بذاتِ خود دو ایسے معجزات ہیں جو کہ آپ ﷺ کے نبوت کے دعویٰ کی تصدیق کرتے ہیں۔ کیا یہ کم معجزہ ہے کہ ایک بے یار و مددگار انسان، جس کے پاس کوئی مادی وسائل نہ تھے، جو سالہا سال تک لوگوں کی شدید نفرت کا نشانہ بنا رہا، جو ایسے مشن کی کامیابی کے لئے سرگرداں تھا جس سے اس کی اپنی کوئی غرض وابستہ نہ تھی اور جب لوگ اس کے ارد گرد جمع ہونے شروع ہو گئے تو اس نے انہیں اپنا غلام بنانے کی بجائے یہ ترغیب دی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہو جائیں جو کہ کل کائنات کا مالک اور پالنے والا ہے۔۔
پھر اس شخص جو کہ غیر تعلیم یافتہ تھا’نے لوگوں کو ایسی کتاب دی جو کہ سراپا رشد و ہدایت ہے، جو کہ انسانی زندگی سے وابستہ قوانین کا ایک نادر مجموعہ ہے، جو عبادت اور اخلاق کا ایک ضابطہ ہے اور آج بھی انسانی نسل کا ایک بہت بڑا حصہ اس کی تعظیم کرتا ہے اور اسے سچائی کا ایک اعجاز خیال کرتا ہے۔ بلاشبہ یہ بہت بڑے معجزات ہیں اور ان معجزات میں شک کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔
قرآن پاک نے اس حقیقت کی بھی نشاندہی کی ہے کہ کفار کا معجزات کے لئے مطالبہ نیک نیتی پر مبنی نہ تھا بلکہ وہ محمد ﷺ اور آپ کے ماننے والوں کے بارے میں فضول باتیں کر کے ان کو ذہنی کوفت پہنچانا چاہتے تھے۔ تمام شکوک و شبہات کے باوجود جب لوگ دینِ حق کی طرف کھنچے چلے جا رہے تھے تو ان کا مفاد آڑے آتا تھا۔ انہیں یہ کسی صورت بھی گوارا نہ تھا کہ اپنا مذہب ترک کر دیں کیونکہ ایسا کرنے سے وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ استحصال کے سارے ذرائع اور مواقع کھو دیں گے۔ انہیں اچھی طرح اس بات کا احساس تھا کہ دینِ اسلام قبول کرنے سے انہیں اپنے عیش و عشرت اور مادی مفادات پر کئی ایک پابندیاں قبول کرنا پڑیں گی جن سے وہ غیر اخلاقی اور ناجائز ذرائع سے عرصہ دراز سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
قرآن پاک میں کئی ایک مثالیں آئی ہیں کہ جب انبیاء نے معجزات دکھائے تو ہٹ دھرم اور ضدی کفار نے انہیں یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ تو سوائے جادو کے کرشمہ کے اور کچھ نہیں۔
”مگر جب ہماری کھلی کھلی نشانیاں ان لوگوں کے سامنے آئیں تو انہوں نے کہا کہ یہ تو کھلا جادو ہے۔ انہوں نے سراسر ظلم اور غرور کی راہ سے ان نشانیوں کا انکار کیا حالانکہ دل ان کے قائل ہو چکے تھے۔ اب دیکھ لو کہ ان مفسدوں کا انجام کیا ہوا؟” (۱۴-۱۳: xxvii)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ وجہ بتلائی ہے کہ کفار کیوں حلقہ بگوشِ اسلام نہ ہوتے تھے۔ یہ محض ان کی ہٹ دھرمی تھی جو کہ انہیں سیدھے راستے سے دور رکھتی تھی، کفار کی ہٹ دھرمی کا یہ حال تھا کہ حضور ﷺ کے اشارہ پر اللہ تعالیٰ نے چاند کو دو ٹکڑے کر دیا تو انہوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی اور اس کو یکسر نظر انداز کر دیا کہ یہ تو محض جادوگری کا کرشمہ ہے۔
”قیامت کی گھڑی قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا مگر ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں منہ موڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو چلتا ہوا جادو ہے۔ انہوں نے (اس کو بھی) جھٹلا دیا اور اپنی خواہشاتِ نفس ہی کی پیروی کی۔ ہر معاملہ کو آخر کار ایک انجام پر پہنچ کر رہنا ہے۔ (۳-۱:iiv)
ایک اور جگہ قرآن پاک کفار کی ہٹ دھرمی کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
”اے پیغمبر! اگر ہم تمہارے او پر کوئی کاغذ میں لکھی لکھائی کتاب بھی اتار دیتے اور لوگ اپنے ہاتھوں سے چھُو کر بھی دیکھ لیتے تب بھی جنہوں نے حق کا انکار کیا ہے وہ یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادو ہے۔” (۷: vi)
حضور ﷺ کی سیرت پاک اور حیاتِ طیبہ کا مصدقہ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ اہلِ مکہ کو یہ احساس اچھی طرح ہو چکا تھا کہ محمد ﷺ اپنے مشن میں کامیاب ہو جائیں گے اس لئے وہ حضور ﷺ کو اکثر بیشتر حیلوں بہانوں سے تنگ کرتے رہتے تھے۔ ایک دن مکہ کے بعض آدمی کعبہ کے ارد گرد جمع ہوئے اور آپ ﷺ کو بلا بھیجا۔ جب آپ ﷺ تشریف لائے تو آپ سے یوں مخاطب ہوئے:
”ہم نے عرب کا کوئی دوسرا آدمی ایسا نہیں دیکھا جو کہ قوم کے لئے اتنی بڑی تباہی لایا ہو جتنی کہ آپ ﷺ لائے ہیں۔ آپ نے ہمارے خداؤں اور مذہب کی توہین کی ہے اور ہمارے آباء و اجداد اور دانشوروں پر بد اخلاقی اور غلط کاری جیسے الزامات لگائے ہیں اور اس طرح ہماری صفوں میں رخنہ ڈال دیا ہے۔ آپ ﷺ نے ہمارے تعلقات میں کشیدگی پیدا کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اگر آپ نے یہ سب کچھ دولت حاصل کرنے کے لئے کیا ہے تو ہم مل کر آپ کو مالا مال کر دیں گے اور اتنی دولت دیں گے کہ کسی قریشی کے پاس اتنی نہ ہو گی۔ اگر آپ ﷺ کی خواہش ہو تو ہم آپ ﷺ کو اپنا سردار بنا لیں گے۔ اگر آپ بادشاہت کی خواہش کرتے ہیں تو ہم آپ کو یہ بھی دینے کے لئے تیار ہیں۔ اگر آپ ﷺ کسی بدروح کے غلبہ میں ہیں اور آپ ﷺ اس سے نجات حاصل نہیں کر سکتے تو ہم ایسے ماہرین کی خدمات حاصل کر لیں گے جو کہ آپ ﷺ کو صحت یاب کر دیں گے۔”
کیا آپ لوگ سب کچھ کہہ چکے ہیں؟ حضور ﷺ نے دریافت فرمایا اور جب انہوں نے اثبات میں جواب دیا تو حضور ﷺ نے فرمایا:
”میں آپ کی طرف سے پیش کی جانے والی کسی چیز کا طلبگار نہیں ہوں۔ میں جو کچھ آپ کے لئے لایا ہوں اس کے بدلے میں کچھ نہیں چاہتا خواہ یہ دولت ہو، اعلیٰ مرتبہ ہو یا بادشاہت ہو۔ میں آپ کی طرف اللہ کا نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں اور آپ کو خبردار کرنے کے لئے آیا ہوں۔ میں نے آپ کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا دیا ہے جو کہ آپ کے لئے ماسوائے ایک اچھی چیز کے اور کچھ نہیں۔ اگر تم اسے قبول کرتے ہو تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اس دنیا میں فائدے میں رہو گے اور آخرت میں بھی سرخرو ہو گے۔ اگر تم اس کا انکار کرو گے تو میں ثابت قدم رہوں گا اور اللہ تعالیٰ کے فیصلے کا انتظار کروں گا۔”
کفار مکہ اور حضور ﷺ کے درمیان ہونے والی متذکرہ بالا گفتگو سے یہ امر روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتا ہے کہ وہ کیوں حضور ﷺ کی مخالفت پر تلے ہوئے تھے۔ اسلام کی مخالفت کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان کے اپنے مفادات خطرے میں پڑ گئے تھے اور وہ دین اسلام کے سیاسی اور معاشی مضمرات سے خوفزدہ تھے۔(عبدالحمید صدیقی)