سابقہ انبیاء ایک خاص قوم کی طرف مبعوث کئے جاتے تھے، لیکن نبیﷺ کو اللہ نے تمام عربی و عجمی اور سرخ و سفید کی طرف مبعوث فرمایا ۔ اہل عرب جن کی طرف (اولاً) قرآن مجیدنازل کیاگیا تھا مختلف لغات و لہجات رکھتے تھے۔ ان کے لئے مشکل تھاکہ ان کوچھوڑ کر صرف ایک لغت میں قرآن پڑھیں یا اپنی لغت کے علاوہ کوئی اور حرف اداکریں بلکہ ان میں سے بعض تو ایسے بھی تھے جوسیکھنے کے باوجود اس کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور ظاہری بات ہے ان میں بوڑھے بچے عورتیں اور ناخواندہ لوگ بھی تھے جیسا کہ آپﷺ نے اس بات کی طرف اشارہ بھی فرمایا اگر انہیں اپنی زبان چھوڑ کر دوسری لغت یالہجے کاپابند بنا دیاجاتاتو یہ ان پر گراں گزرتا۔حالانکہ اللہ کسی کو اس کی استطاعت سے بڑھ کر تکلیف میں مبتلا نہیں کرتا۔ ‘‘ (النشر :۱؍۲۲)اور ویسے بھی یہ بات اسلام کی آسانی اور ایسی مہربانی، جو مشقت کو دور کرنے اور تکلیف کو لازمی طور پرختم کرنے کی حامی ہے، کے خلاف ہوتی۔ (الابحاث: ص ۱۶)
حضور ﷺ نے اس میں آسانی کے لیے دعا فرمائی اور وہ قبول ہوئی اور یہ رخصت دی گئی ۔شروع میں چونکہ لوگ قرآنِ کریم کے اسلوب کے پوری طرح عادی نہیں تھے، اس لیے انہیں مختلف لہجات اوربلاغت کے متعدد اسالیب مثلا اسماء ، افعال ، الفاظ کی کمی ،تقدیم وتاخیر وغیرہ میں اختلاف کے ساتھ قرأتوں کی اجازت دیدی گئی تھی۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ ہرسال رمضان میں جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کا دَور کیا کرتے تھے، جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی اس سال آپﷺ نے دومرتبہ دَور فرمایا۔(السنن لکبری للنسائی،حدیث نمبر۲۷۹۴)اس دَور کو “عرصۂ اخیرہ” کہتے ہیں، اس موقع پر بہت سی قرأتیں منسوخ کردی گئیں ،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہی مستند قراءت پر امت مسلمہ کو جمع فرمایا تھا ۔ یہی آج تک تواتر کے ساتھ محفوظ چلی آرہی ہیں۔
ان متواتر قراء ت میں جو الفاظ، زیرو زبر کا فرق آیا اس سے پڑھنے میں آسانی کے علاوہ بھی بہت سے فوائد اور حکمتیں سامنے آئیں ۔ چند کا تذکرہ پیش خدمت ہے:
1. تفسیر ومعانی میں نئے نئے نکات
اختلاف قراء ات دو حال سے خالی نہیں۔
(١) اختلاف لفظ سے تبدیلی معنی واقع نہ ہو، جیسے لفظ الصِّراط کو سین اور اشمام کے ساتھ پڑھنے میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی، کیونکہ یہ تو محض لہجات ہیں۔
(٢) لفظ کی تبدیلی سے معنی میں بھی تبدیلی ہوجائے، لیکن ان دونوں میں کوئی ایسی توجیہہ موجود ہو،جو دونوں معانی کواکٹھا کردے۔
متنوع قراء ات ِقرآنیہ کا یہی حال ہے ۔ اس کی وجہ سے احکام فقہ میں اوامر ونواہی اور حلال وحرام میں اختلاف نہیں پیدا ہوا ۔ اختلاف تضاد اور تناقض ممکن نہیں کہ ایک ہی لفظ میں ایک قراء ت کے مطابق کسی کام کے کرنے کا حکم دیا جا رہا ہو اور دوسری قراء ت کے مطابق تقاضا ممانعت کا ہو رہا ہو یا ایک قراء ت میں کسی چیز کو حلال اور دوسری قراء ت میں حرام قرار دیا گیا ہو۔ چند مثالیں
سورت فاتحہ ایک قراءت ’’ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ‘‘ دوسری قراء ت ’’ مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ‘‘ ہے۔ ایک قراء ت کا معنی روز جزاء کا مالک اور دوسری قراء ت کا معنی روز قیامت کا بادشاہ ہے۔ دونوں اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں دونوں قراء توں نے مل کر معنی ومطلب میں وسعت اور مزید نکھار پیدا کر دیا۔
(ا)قرآن مجید میں ارشاد ہے:’’فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ہُوَ خَیْرٌ مِّمَایَجْمَعُوْنَ‘‘(یونس:۵۸)’’اس پر تولوگوں کوخوشی منانی چاہئے ، یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔‘‘
اس آیت میں مزید دو قراء تیں ہیں:
(١) فلیفرحوا …تجمعون
(٢) فلتفرحوا… تجمون
پہلی قراء ۃ کا معنی یہ ہے کہ مومنوں کو قرآن کے ساتھ خوش ہوجانا چاہیے، کیونکہ کافروں کی جمع کردہ چیز(مال) سے یہ بہتر ہے۔ دوسری قراء ت کا معنی یہ ہے کہ ’’ اے کافرو! جو چیز تم جمع کر رہے ہو اس سے قرآن مجید کہیں زیادہ بہتر ہے لہٰذا اس کے ساتھ مومنوں کو خوشی منانی چاہیے ۔‘‘
2. فقہی اَحکام میں جامعیت اور تنوع
(ا) دومختلف حکموں کا جمع ہونا:
قرآن پاک میں ہے’’فَاعْتَزِلُوْا النِّسَائَ فِیْ الْمَحِیْضِ وَلَا تَقْرَبُوْہُنَّ حَتّٰی یَطْہُرْنَ‘‘ یطہرن ایک قراء ت میں طاء کے سکون کے ساتھ ہے اور دوسری قراء ت میں طاء کی تشدید کے ساتھ ہے ۔مشدد کاصیغہ عورتوں کے حیض سے طہارت میں مبالغہ کامعنی دیتا ہے جس سے یہ بات حاصل ہوئی کہ حیض سے پاک ہونے کے بعد عورت جب غسل کرلے اس وقت اس سے قربت کی جائے۔
(ب) دومختلف حالتوں میں دو مختلف شرعی حکموں پر دلالت:
قرآن پاک میں ہے: ’’فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُؤُسِکُمْ وَاَرْجُلِکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ‘‘اس آیت میں ارجلکم کی لام پر ایک قراء ت میں نصب ہے اور دوسری قراء ت میں جر ہے۔نصب کی صورت میں پاؤں دھونے کا حکم ہے جس وقت پاؤں ننگے ہوں اور جرکی صورت میں مسح کرنے کاحکم ہے جبکہ پاؤں پر چمڑے کے موزے پہنے ہوئے ہوں۔ آپﷺ کے قول و فعل نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ پاؤں کا مسح اس وقت ہوگا جب موزے پہنے ہوں گے بصورت دیگر دھونا ہوگا۔ (النشر: ۱؍۲۹، مناھل العرفان: ۱؍۱۴۱)
3.لغات عرب کا تحفظ
قراء ات کے فوائد میں سے ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ ان سے لغات عرب کے ضیاع اور مٹنے سے حفاظت ہوئی ،کیونکہ یہ قراء ات قبائل عرب کی لغات میں سے فصیح الفاظ اور تراکیب واَسالیب اورلہجات کا خلاصہ اورقطعی مراجع ہیں۔عرب کی تقریباً تمام فصیح ترین لغات سبعہ احرف میں آجاتی ہیں اور یہ احرف ان لغات میں استعمال ہونے والی منطق، اسلوب، تراکیب اورلہجات کا خلاصہ ہیں.اِمام ابوعبیدرحمہ اللہ فصیح ترین لغات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ مندرجہ ذیل ہیں:
(١) ہوازن: اس میں مندرجہ ذیل قبائل آتے ہیں :٭ سعد بن بکر٭ جشم بن بکر٭ نصر بن معاویہ ٭ ثقیف
(٢) بنو دارم: یہ وہ لوگ ہیں جنہیں سفلی تمیم کہا جاتا ہے۔ امام ابوعمر و بن العلاء المازنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’عرب کے فصیح ترین قبائل ہوازن اورسفلی تمیم ہیں اور لغت قریش ان تمام سے فصیح وبلیغ ہے، اس کے مندرجہ ذیل اسباب ہیں:
(١) یہ ملک کے درمیان میں واقع ہے۔ (٢) عجمی علاقوں سے بہت زیادہ دور ہے۔(٣)صحرائی علاقوں سے بھی دور ہے۔‘‘
ان اَسباب کی بناء پر اس لغت نے عجمیوں اورصحرائی علاقوں کی زبان کا اثر قبول نہیں کیا اور شائد یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے نبی اور قرآن کی لغت کے لیے پسند فرمایا ہے۔اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قریش کی طرف لوگوں کے دل مائل تھے اور لوگ ہر سال حج کے دنوں میں یہاں آتے جن میں ان کے بڑے بڑے شاعر وادیب بھی ہوتے توقریش ان کی زبان سے اچھی اچھی چیزیں لے لیتے تھے اورردی اور فضول چیزیں چھوڑ دیتے تھے جس سے لغت قریش میں نکھار پیدا ہو گیا اور اس کا ارتقا اچھے طریقے سے ہوا۔
4. اختصار وبلاغت کی انتہاء اورکمال اعجاز وجمال
:
قرآن کریم اپنے مضامین اور معانی و مفاہیم کے اعتبار سے تو معجزہ ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ الفاظ و کلمات، اُسلوب نگارش اور فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے بھی اس قدر عظیم معجزہ ہے کہ قیامت تک آنے والے جن و انس اس کی ایک آیت جیسا کلام بھی بنانے پرقادر نہیں۔
تنوع قراء ات اسلوب بلاغی کی ہی مختلف صورتوں میں سے ہے اور ان کا قرآنی اعجازات پرنمایاں اثر ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر مسئلے کے لیے کوئی نہ کوئی نص اور دلیل ہوتی ہے لیکن وہ صرف اسی مسئلے کے مؤید اور ثابت کرنے والی ہوتی ہے جبکہ قرآن کی ایک ایک نص (آیت) کو کئی مسائل کی دلیل اور مؤید بنایا جاسکتا ہے۔ ایک قراء ت کے مطابق پڑھیں تو اس میں ایک مسئلہ ثابت ہوگا اور جب اسی آیت یالفظ کی دوسری قراء ت کو دیکھیں تو اس سے دیگر مسائل بھی ثابت ہوتے ہیں۔ یہ قرا ء ات کا اعجاز ہے جو قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔چونکہ ہرقراء ت ایک مکمل آیت کی منزلت پر ہے، اس لیے اگر ہرایک کو ایک طرح پڑھنے میں پابند کردیاجاتا تو اس میں ایسی تخفیف نہ ہوتی جو اس تنوع کلمات میں ہے اور نیز یہ کہ ایسی صورت میں یہ ایسی پیچیدگی ہوتی جو قرآن مجید کی فصاحت وبلاغت کے بھی منافی ہوتی۔ اس قرآن کا ہر کلمہ اپنے اندر ایک شیرینی اور مٹھاس رکھتا ہے اور اس کے مختلف خوشے ہیں جو لہلا رہے ہیں اور اس کے موتی بکھرے ہوئے ہیں جو چننے کے قابل ہیں اور اس کے جملوں کااوّل و آخر آپس میں مربوط ہے۔
5. اِعجاز قرآنی کے چیلنج میں توسیع
تعدد قراء ا ت کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آیت ’’قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الاِنْسُ وَالْجِنُّ‘‘پیش کرکے تمام مخلوق کو چیلنج دیا تھا اور کہا تھاکہ تم جس قدر معاونین اور مددگار جمع کرسکتے ہو کرو مگر تم سب مل کربھی قرآن جیسا کلام بنا کر نہیں لاسکتے۔ سبعۃ احرف پرنزول سے قرآن کے طرز ادا میں بے انتہا وسعت ہوگئی۔ اب اس چیلنج کے مخاطب صرف قریش ہی نہیں، بلکہ ہذیل، کنانہ، تمیم، ہوازن، ثقیف، یمن وغیرہ تمام قبائل عرب ہوگئے۔ اب سبعۃ احرف پر نزول سے کسی قبیلہ کو یہ کہنے کی گنجائش نہ رہی کہ اگر قرآن ہماری لغت میں نازل ہوتا تو ہم اس کامثل بنالاتے پس سبعۃ أحرف سے اعجاز قرآنی کے چیلنج میں وسعت ہوئی اور عربوں کی بلکہ تمام مخلوق کی عاجزی مزید دو چند ہوکر منظر عام پر آگئی۔
6. قرآن مجید کے حفظ اور اس کے نقل کو اُمت محمدیہ پرآسان کرنا
قرآن مجید میں جب اس قدر اختصار اوربلاغت ہے تو حفظ کرنے والے کے لئے جب ایک کلمہ میں کئی وجوہ ہوں گی تو اس کے لئے اس کلمہ کو یاد کرنا اورسمجھنا زیادہ آسان ہوگا اور حافظہ کے لئے قراء ات مختلفہ کے معانی کو بیان کرنے میں بھی زیادہ سازگار ہو گا خاص کر جب رسم الخط بھی ایک ہو۔(النشر: ۱؍۵۲،۵۳)
7. آپﷺ کی نبوت اور قرآن کی حقانیت کی دلیل
یہ اختلاف نبیﷺ کی نبوت اور قرآن کی صداقت پر ایک عظیم الشان اور واضح ترین دلیل ہے۔اس لیے کہ جدا جدا قراء توں اور تنوع قراء ات کے باوجود بھی تضاد اورتناقض سے بری ہے اورنہ ہی کوئی قراء ت کسی قراء ت کے مخالف ہے بلکہہرقراء ت سے دوسری قراء ت کی تصدیق و تشریح اور تائید و تفسیرہوتی ہے ۔ ہرعاقل جانتاہے کہ یہ صفت اللہ تعالیٰ ہی کے کلام سے ہوسکتی ہے۔پس جب قرآن کلام الٰہی ہے تو جس نبی ﷺ پر یہ نازل ہوا ہے وہ بھی بغیر کسی شک و شبہ کے صادق ہیں۔ (النشر: ۱؍۵۲)
استفادہ تحریر: ڈاکٹرابو مجاہد عبدالعزیز القاری ، ترجمہ واضافہ: قاری محمد حسین، جبیرۃ الجراحات فی حجیۃ القراء ات از قاری صہیب احمد