قراءت قرآنیہ کا اختلاف کیاقرآن میں اختلاف ہے؟

جواب:

اس بات کی وضاحت سے پہلے یہاں یہ صراحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ قرآن اور قراء تیں دوالگ الگ حقیقیں ہیں جیسا کہ علمائے متقدمین نے لکھا ہے ۔ قرآں و حی ہے جونبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے اور قراء توں سے مراد’ الفاظ وحی کی ادائیگی کی کیفیت میں اختلاف’ ہے۔( ملاخط کیجئے البرہان ۱/۲۱۸)

جہاں نصّ قرآنی کے سلسلے میں اختلاف کیفیتِ ادا تک منحصر نہیں بلکہ خدف و اضافہ یا اختلافِ حروف تک متجا وز ہے ان کا شمار قراء توں میں نہیں بلکہ دونوں نصوص قرآن ہیں یہ آیتیں دونوں طرح سے اتری ہیں اورنبی صلی علیہ وسلم نے دونوں طرح سے کتابت کروائی ہے۔( المرشد الوجیز ص ۱۳۸)

جہاں تک اللہ تعالیٰ کے کلام یعنی قرآن کا تعلق ہے تو اس میں اختلاف تضاد ممکن نہیں اور یہی اس کلام کی حقانیت کی اعلیٰ دلیل ہے۔ یہی قرآن کا چیلنج بھی ہے کہ : ’’ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفا کَثِیْرَا ’’اور اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے آیا ہوتا تو وہ اس کے اَندر بڑا اختلاف پاتے۔‘‘‘‘(النساء:۸۲)

اس آیت کے سلسلے میں یہ واضح کردیں کہ مذکورہ آیت میں اختلاف کا لفظ ’تضاد ‘ (Contradiction) کے معنوں میں آیا ہے نہ کہ اختلاف (Variety) کے معنوں میں۔ اللہ تعالیٰ کے اِرشاد کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجیدکے مضامین اور اس کی تعلیمات میں باہمی کوئی تضاد نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ ایک جگہ توحید کی تعلیم دے اور دوسرے مقام پر شرک کو جائز قرار دے یا کسی جگہ آخرت کا عقیدہ بیان کرے اور کہیں وہ اس عقیدے کی نفی کردے۔ اس کا کوئی مضمون اور اُس کی کوئی تعلیم تضاد سے آلودہ نہیں , تنوع کا اختلاف موجود ہے .عربی زبان کی طرح ہماری اُردو زبان میں بھی اختلاف کا لفظ تنوع کے معنی میں بھی آتا ہے۔ ذوق کا مشہور شعر ہے:

گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن

اے ذوق اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے

اس شعر میں اختلاف کا لفظ تنوع (Variety) کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔قرآن میں اختلاف کا لفظ تنوع کے معنی میں سورۃ الروم آیت ۲۲ میں استعمال ہوا ہے :

’’ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِکُمْ وَأَلْوَانِکُمْ۱ ‘‘’’اور تمہاری بولیوں اور رنگوں کا اختلاف یعنی ایک دوسرے سے مختلف ہونا۔‘‘

قرآن مجید سے متعلق بیسیوں اختلافات موجود ہیں مگر وہ سارے تنوعات (Varieties) کے اعتبار سے ہیں نہ کہ تضادات (Contradictions) کے لحاظ سے اور اس سے اُس کی صداقت اور عصمت پر کوئی حرف نہیں آتا۔مثال کے طور پر قرآن مجید میں درج ذیل ورائٹی کے اختلافات پائے جاتے ہیں:

(١) کوئی سورت چھوٹی ہے اور کوئی بڑی۔

(٢) کوئی رکوع چھوٹا اور کوئی بڑا ہے۔

(٣)کسی سورت میں چند اور کسی میں سینکڑوں آیتیں ہیں

(٤)ایک ہی سورت کے کئی دوسرے نام ہیں جیسے سورۃبنی اسرائیل کو سورۃ الاسراء بھی کہا جاتا ہے۔

(٥ہر سورت کے شروع میں بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ لکھا گیا ہے مگر سورۃ توبہ اس سے خالی ہے)

(٦کوئی سورت حروف مقطعات سے شروع ہوتی ہے، کوئی حمد باری تعالیٰ سے کوئی کسی اور مضمون سے)

(٧کبھی ایک ہی تاریخی واقعہ مختلف مقامات پر مختلف انداز میں بیان ہوا ہے جیسے ’قصۂ آدم و حواo‘ ہر جگہ مختلف انداز اور مضمون کی کمی بیشی کے ساتھ بیان ہوا ہے۔

()۸ حضرت محمدﷺکو خطاب کرنے میں اختلاف آپﷺ کو کسی جگہ ’یٰٓأَیھا الرسول‘ (اے رسولﷺ)، کہیں ’یٰٓأَیھا النبی‘ (اے نبیﷺ) اور کہیں ’یٰٓأَیھا المزمل‘ (اے چادر میں لپٹے ہوئے) کہہ کر خطاب کیا گیا ہے۔

قرآن کی طرح اسکی قراء توں کا اختلاف بھی تنوع (Variety) کا اختلاف ہے تضادکا نہیں ہے۔ کچھ مستشرقین نے قرات کے اختلاف کی بنیاد پر اپنے مفروضوں سے یہ نتیجہ پیش کیا کہ اگر بائبل میں اختلاف ہے تو قرآن میں بھی اختلاف ہے۔پہلی بات یہ کہ بائبل کا قرآن کے ساتھ کسی قسم کا موازنہ بنتا ہی نہیں ، موجودہ بائبل اللہ کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ انسانوں کا کیا گیا انگلش ترجمہ ہے جس کی دو مختلف روایتوں کے نسخے بھی آپس میں نہیں ملتے ۔ پھر بائبل کی ورسز کا یہ اختلاف صحیح سند سے حضرت موسی اور حضرت عیسی سے ثابت نہیں ہے ۔ اگر حضرت موسی اور عیسی اپنے ماننے والوں سے یہ کہیں کہ تم تورات اور انجیل کے فلاں فلاں لفظ کو یوں بھی پڑھ لو اور اس طرح پڑھنے میں معانی میں کوئی تضاد بھی پیدا نہ ہوتا ہو تو اس کے ماننے میں ہم مسلمانوں کو کیا مانع لاحق ہو سکتا ہے؟۔ ایسا کچھ ذکر و سند انکے ہاں موجود نہیں پھر بھی کئی کئی ورزن ہیں اور ان میں تضاد کے ہزاروں اختلافات موجود ہیں ۔جبکہ قرآن کی آیات یا قرات میں اختلاف(تضاد) بالکل بھی نہیں قرات میں جو ورائٹی کا اختلاف ہے اسکے ایک ایک حرف کی آپﷺ تک باقاعدہ سینکڑوں اَسناد موجود ہیں۔

قرات میں اختلاف کیسے پیدا ہوا ؟

اللہ کی طرف سے قرآن کو پڑھنے میں لوگوں کو سہولت دی گئی ، قراء ات قرآنیہ کی اس گنجائش میں آپﷺ نے لوگوں کی سہولت کو دیکھتے ہوئے انہیں مختلف انداز میں قرآن پڑھایا ، آپ نے جس طرح بھی پڑھایا دیگرلوگوں کے لیے بمصداق (فاقرء وا ما تیسَّر ) اِجازت موجود تھی۔صحابہ میں اس حدیث کا مفہوم اتنا واضح تھا کہ کبھی یہ اشکال پیدا نہیں ہوا کہ سبعہ احرف کا مفہوم کیا ہے، حتیٰ کہ آپ روایات دیکھ لیں کہ صحابہ کا حروف وقراء ات کے ضمن میں باہمی اختلاف ہوا اور وہ اللہ کے رسولﷺ کے پاس تصفیہ نزاع کے لیے آئے تو آپؐ نے فرمایا: (أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف)(بخاری:۴۹۹۲) آپﷺ نے تلاوت کے اس اختلاف کی بابت( ہکذا أنزلت،ہکذا أنزلت ) (بخاری:۴۹۹۲) فرما کر اس سب کو ’سبعہ احرف‘ میں شامل کردیا اور صحابہ کو سمجھ آگیا کہ سبعہ احرف سے مراد قراء توں اور تلاوت کے متعدد اَسالیب کا اختلاف ہے اور یہ منزل من اللہ ہے۔بعد میں صحابہ میں جو اختلاف ہوا اسکی نوعیت یہ تھی کہ کچھ لاعلم اور دور دراز کے لوگوں نے عرضۂ اَخیرہ میں منسوخ قرات یا آپﷺکے بعض تفسیری نکات کو بھی قرآن سمجھ کر تلاوت کرنا شروع کردیا تھا ، اس مسئلے کے حل کے لیے حضرت عثمان نے کاتبین اور حفاظ صحابہ کی نگرانی میں ایک ایسا متفقہ نسخہ سرکاری طور پر جاری فرمایاکہ جس میں صحیح قراء ات کو رسم میں جمع کرنے کی کوشش کی گئی ۔یہ کوئی نیا نسخہ متعارف کروانے کی کوشش نہیں تھی ۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ کسی اسلامی ملک میں کثرت سے قرآن شائع ہو رہے ہوں اور چند کمپنیوں نے جو قرآن شائع کیے ہوں‘ ان میں طباعت کی غلطیاں ہوں یا رسم کے اختلافات ہوں اور اسلامی مملکت ایسی غلطیوں سے پاک نسخہ شائع کرکے سب کو ان کا پابند کردے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ کی اس کاوش سے اختلاف کی جڑ کٹ گئی ۔

اس دور کی روایتوں کے سیاق وسباق اور پس منظر کو دیکھا جائے تو ان سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ صحابہ میں جو اختلافات سامنے آئے تھے وہ معانی قرآن اور بیانِ دین سے متعلق نہیں تھے بلکہ تلاوتِ قرآن کے ضمن میں تھے ۔ بعد میں علمائے امت میں جو اختلاف سامنے آئے وہ سبعہ حرف کی تعبیر کے تھے ۔

علماء میں سبعہ حرف کی تعبیر کا اختلاف کیوں پیدا ہوا؟

’ سبعہ اَحرف‘ کی تعبیر سلسلے میں جو کچھ ابہام پیداہوئے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ’’فَاقْرَؤا مَا تَیَسَّر مِنَ الْقُرآن‘‘ (المزمل:۲۰) کے تحت مختلف قراء ات کو آپس میں ملا جلاکر پڑھنے کی دین میں اجازت دی گئی تھی اس کے مطابق صحابہ اور تابعین نے پڑھناشروع کیا ، سبعہ اَحرف جائز قراء ات میں ڈھلے گئے تو اب سینکڑوں سیٹ بن گئے ہیں۔ اس اختلاط کے بعد موجود قراء توں کو سامنے رکھ کر اب جو سبعہ احرف کی تشریح کرنے کی کوشش کررہے ہیں انہیں اس کا مفہوم سمجھنے وسمجھانے میں بڑی دشواری پیش آتی ہے۔اس سلسلہ میں امام الفن ابن جزری رحمہ اللہ کا ایک معروف قول یوں ہے کہ میں تیس سال اس حدیث میں غور کرتارہا، حتی کہ ان اَحادیث کا ایک معنی مجھ پر اللہ تعالیٰ نے منکشف فرمادیا۔ امام جزری رحمہ اللہ، جو قراء حضرات کے مسلمہ امام ہیں، ان کے اس قسم کے انداز سے یہ عام طور پربہت ہی الجھی کہ حدیث سبعہ احرف اتنی ’مشکل‘ ہے کہ امام ابن جزری رحمہ اللہ تیس سال کے عرصہ کے بعد ایک مناسب توجیہ سمجھ جان پائے۔پھر انہوں نے اپنے تیس سال کے حاصل استقراء کو پیش کرتے لغات ولہجات کو ایک حرف اورچھ قسم کے مزید اختلافات کو چھ حروف قرار دیا ہے۔

امام ابن جزری رحمہ اللہ کی طرح جو لوگ سبعہ احرف سے مراد سبعہ اوجہ لیتے ہیں، ان میں سے بعض لوگوں کا حافظ ابن جزری رحمہ اللہ کی سات وجوہ قراء ات سے اگرچہ تعبیر کا کچھ فرق ہے، لیکن اس معمولی اختلاف سے قطع نظر اپنے موقف کے اعتبار سے یہ تمام لوگ ایک ہی تشریح پر متفق ہیں۔ اسی طرح دیگر کئی اہل علم کو اس تشریح سے اتفاق نہیں، لیکن ان کا بھی اختلاف محض سبع حرف کی تعبیر بیان کاہے۔موجودہ قراء ات عشرہ کے بارے میں سارے ہی اس بات پر متفق ہیں کہ سبعہ احرف کا مصداق یہ قراء تیں ہیں، اختلاف صرف سبعہ اَحرف کے تعین میں ہے۔سبعہ احرف کی تشریح کا جو مسئلہ پیداہوا اس بارے میں امام زرکشی رحمہ اللہ اور امام سیوطی رحمہ اللہ وغیرہ نے ۳۵ ،۴۰ کے قریب اقوال نقل کئے ہیں، امام سیوطی رحمہ اللہ الاتقان میں فرماتے ہیں یہ اقوال کئی افراد کی نسبت سے بیان نہیں کئے گئے، بلکہ یہ اقوال صرف چند افراد کے غور وفکر کے احتمالات ہیں۔

جس طرح کسی آیت یا حدیث کا مفہوم متعین کرنا فقہاء ومفسرین کا میدان ہے، اس طرح قرات میں قراء بھی اپنی رائے دے سکتے ہیں، جس طرح مفسرین میں آیات کی تعبیر کا اختلاف ہے اسی طرح امام جزری رحمہ اللہ کا قول ہو یا امام دانی رحمہ اللہ میں سبع حرف کی تعبیر کا اختلاف ہے، باقی سبعہ احرف کے بارے میں سب میں اتفاق موجود ہے کہ وہ موجودہ متواتر قراء ات میں شامل ہیں۔