علامہ تمنا عمادی کے انکارِ قراءت کے نظریات کا تفصیلی جائزہ

اِفادات : قاری محمد طاہر رحیمی

جمع و ترتیب: قاری محمد صفدر

علم قراء ات کو اردو زبان میں منتقل کرنے میں پانی پتی سلسلہ کے مشائخ ِقراء ات کی خدمات برصغیر کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اس سلسلہ کی نمایاں شخصیات(شیخ المشائخ قاری محی الاسلام عثمانی پانی پتی رحمہ اللہ، شیخ القراء قاری محمد فتح اعمی پانی پتی رحمہ اللہ، شیخ القراء قاری رحیم بخش پانی پتی رحمہ اللہ اور شیخ القراء قاری محمدطاہر رحیمی رحمہ اللہ) کے نام اپنی عظیم خدمات کی بنا پرآب ِزر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ ان مشائخ میں آخر الذکر اس اعتبار سے فائق ہیں کہ علم تجوید و قراء ات کے علاوہ دیگر علوم میں بھی مہارت تامہ رکھتے تھے۔ درس نظامی، عالمیہ کے امتحانات میں انہوں نے ’وفاق المدارس العربیہ‘ میں پاکستان بھر میں اَول پوزیشن حاصل کی۔ اسی وجہ سے علم ِقراء ات کے تعارف، حجیت وثبوت وغیرہ پر انہوں نے مفصلا قلم اٹھایا۔ کشف النظر اردو ترجمہ کتاب النشر کا ساڑھے چار سو صفحات پر لکھا گیا مقدمہ ہویا علامہ تمنا عمادی کے انکارِ قراء ات کے نظریات کا تفصیلی رد، ان کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

مجلس التحقیق الاسلامی کے رفیق کار جناب قاری محمد صفدر حفظہ اللہ نے علامہ تمنا عمادی کی کتاب ’اعجاز قرآن واختلاف قراء ات‘ پر شیخ القراء قاری طاہر رحیمی رحمہ اللہ کی تقریبا ہزار صفحات پر مشتمل مفصل کتاب ’دفاع قراء ات‘ کی یہ تلخیص کی ہے ۔ اس سے علامہ تمنا کے نمایاں اعتراضات وشبہات کا شافی جواب سامنے آگیا ہے۔ تفصیلی نقد کے شائقین اصل کتاب کی طرف رجوع فرما سکتے ہیں۔


منکر قراء ات علامہ تمناعمادی کے نظریات کاجائزہ

اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ماضیہ ہے کہ اس نے انسانوں کی رشد وہدایت اور راہنمائی کے لیے انبیاء کاسلسلہ جاری فرمایا اور انہیں تعلیمات سے نوازا تاکہ وہ بغیر کسی ٹیڑھ اور کج رَوی کے لوگوں کو ظلمت کے گھٹاٹوپ اندھیروں سے نکال کر ہدایت اورروشنی دکھائیں۔اس سلسلہ کی آخری کڑی جناب محمد رسول اللہﷺ کو قرآنی معجزہ کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ یہ ہردور کے لوگوں کی روِش رہی ہے کہ انہوں نے تعلیمات انبیاء کا انکار اور استہزاء کیا۔جب آپﷺ نے اپنی نبوت کا اِعلان کیا اور مشرکین مکہ پر قرآن پیش کیاتو وہ آپﷺ کے درپے ہوگئے اور آپ کی تعلیمات کااِنکار کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے تراشنے لگے،کبھی تو آپﷺ کی ذات مبارکہ پر طعن و تشنیع کرتے ہوئے آپ کو مجنون،جادوگر اور مخبوط الحواس کہا اور کبھی انکار قرآن کے لیے اسے اَساطیر الاولین، اَقوام عالم کے قصے کہانیاں اور اختراعی باتیں قرار دیا، لیکن وہ اپنے ارادوں میں ناکام رہے۔

کفر کی پیشانی پہ ہے خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

جس طرح ماضی میں اعداء اسلام نے قرآن اور اس کی تعلیمات کو تارِ عنکبوت ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی۔ اسی طرح موجودہ زمانہ میں بھی مستشرقین نے اپنی بھرپور کوشش اور وسائل کو صرف کیا جس کی وجہ سے چند ضعیف الاعتقادات اورسطحی علم رکھنے والے ’’علامہ صاحبان بھی ان باطل نظریات و عقائد کے نہ صرف حامی ہوئے بلکہ ان کی ترویج و اِشاعت میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ انہی میں سے ایک علامہ تمنا عمادی ہیں جنہوں نے اس کارِ خیر میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے ’جمع قرآن اوراعجاز القرآن ‘ نامی کتب تحریر کیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں خاب وخاسر اور ناکام ونامراد کرنے کے لیے ایسے افراد پیدا کئے، جنہوں نے قرآن اور اس کے متعلقہ علوم معارف کو خوب اَحسن طریقے سے لوگوں کے سامنے واضح کیا۔

ان کتب میں موصوف نے قراء اتِ قرآنیہ کو باطل ثابت کرنے کے لیے کبھی تو انہیں اختراع قراء کہا اور کبھی ناقلین پر جرح کی اور کبھی روایات جمع و تدوین قرآن اوراَحادیث سبعہ اَحرف کو روافض وملاحدہ کی طرف سے وضع کردہ قرار دیا۔

زیر نظر مضمون میں ہم انہی کے اعتراضات کا جائزہ پیش کریں گے۔ موصوف کے اِعتراضات بنیادی طور پر دو طرح کے ہیں:

(١) قراء اتِ قرآنیہ اختراع روافض و ملاحدہ ہیں۔

(٢) قراء و ناقلین قراء ات پرجرح۔

ذیل میں ہم انہی کو بیان کرتے ہیں:

پہلی قسم کے اعتراضات اور ان کے جوابات

قراء اتِ قرآنیہ کے موضوع ہونے کے دلائل دیتے ہوئے کہتے ہیں:

(١) مصاحف کا غیر منقوط اور غیر معرب ہونا اختلاف قراء ات کی دلیل نہیں بن سکتا اور یہ کہنا غلط ہے کہ قرآنی نقاط و اِعراب بعد کی ایجاد ہیں۔اگر نقطے بعدمیں ایجاد کئے گئے تو عرب متشابہ الصور حروف میں تمیز کیسے کرتے تھے۔ جب عربی حروف وضع کئے گئے اسی وقت سے نقطے بھی وضع کئے گئے ہیں، کیونکہ ابن عباس5 کا قول ہے سب سے پہلے نقطے عامر بن جدرہ نے وضع کئے اس قول کو ابن ندیم نے الفہرست ص۷ میں نقل کیا ہے، اسی طرح عثمان جنی نے أمالي میں عہد جاہلیت کاایک شعر بطورِ استشہاد نقل کیا ہے کہ نقطے پہلے سے ہی ہیں۔ وہ شعر یہ ہے:

رعتنی بسھم نقطت منہ جفتنی

وإذ نفطت عین نذرف کالغین

اس کام کے کرنے کے نسبت حجاج جیسے فاسق فاجر کی طرف کی جاتی ہے اور ایسے آدمی سے اسلام کے لیے خیر کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے۔ ؟ (ملخصاً اعجاز القرآن)

جوابات


مذکورہ بالااعتراضات کے جواب مندرجہ ذیل ہیں:

(١) قرآن مجید کے لفظ اور اعراب کی موجودہ شکل قطعاً قبل از اسلام موجود نہ تھی اور اس بات کا جناب کو بھی اِعتراف ہے۔علامہ موصوف اپنی کتاب ’إعجاز القرآن‘ میں جہاں مصاحف کا تعارف کرواتے ہیں وہاں جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مصحف کا تعارف پیش کیا تو اس میں یہ بات لکھی ہے کہ اس مصحف پرجسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے تحریر کیا تھا،اعراب موجودہ شکل میں نہیں بلکہ سرخ روشنائی سے نقطوں کی صورت میں لگے ہوئے ہیں۔(إعجاز القرآن)

(٢) علامہ عبدالعظیم زرقانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’یہ بات معروف ہے کہ مصاحف عثمانیہ نقطوں سے خالی تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ تمام منقول وجوہ قراء ات اس سے اَخذ کی جاسکیں۔ اگرچہ وضع نقاط میں مؤرخین کااختلاف ہے، لیکن یہ بات بالکل درست ہے کہ مصاحف میں موجودہ نقطوں کا کام عبدالملک بن مروان کے عہد میں ان کے حکم سے حجاج بن یوسف نے،یحییٰ بن یعمر اور نصر بن عاصم سے لگوائے۔‘‘ (ملخصاً مناھل العرفان: ۱؍۳۹۹،۴۰۰)

(٣) علاماتِ اعراب کے متعلق علامہ زرقانی رحمہ اللہ کاقول :

’’اس بات پر مؤرخین کا اتفاق ہے کہ عرب اولاً حروف و کلمات کے اِعراب سے ناآشنا تھے وہ زبان دانی میں ماہر تھے۔ اس لیے اس کی ضرورت محسوس نہ کرتے تھے۔ہاں جب عجمی مسلمان ہوئے تو قرآن و لغت قرآن پر زیادتی کرنے لگے اور ابوالاسود الدؤلی والا واقعہ بیان کیاہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو ’’إن اﷲ برئ من المشرکین ورسولہٖ‘‘ غلط پڑھتے سنا تو زیاد کے حکم کوبجا لاتے ہوئے زبر، زیر اور پیش وغیرہ کی علامات مقرر کیں جو نقطوں پر مشتمل تھیں ۔بعد میں عبدالمالک بن مروان نے اِعراب اور نقطوں کی موجودہ صورتیں وضع کروائیں۔ ( ملخصاً مناہل :۱؍۴۰۱،۴۰۰)

(٤) خزینۃ الاسرارص۱۴ میں روح البیان کے حوالہ سے بھی یہی بات تاریخی پس منظر کے ساتھ موجود ہے۔ صاحب اسرار نے باب قائم کیا ہے’’أول من وضع الاعراب والنقط الذین فی المصاحف العظیم‘‘

دلیل نمبر ۲ کا جواب:


سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ عربوں میں لکھے پڑھے افراد بہت کم تھے ان میں زیادہ تر حفظ پر اعتماد تھا (اور جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے وہ قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ ملکہ کے ساتھ ان میں امتیاز کرلیتے تھے) جب ان کا عام معاملہ حفظ سے ہوتا تھا تو پھر نہ کتابت رہی نہ ممتاز کرنے کی ضروت پیش آئی۔ دوسری بات یہ کہ اس وقت ان میں امتیاز کے لیے موجودہ نقطے استعمال نہیں کئے جاتے تھے بلکہ کسی کے شوشے کو موڑا ہوا ہوتا کسی کے شوشے کو بڑھایاہوا ہوتا۔

دلیل نمبر ۳:


سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ نقطے حجاج نے خود نہیں لگائے بلکہ اس وقت کے علماء نے لگائے۔دوسری بات یہ کہ نقطے حجاج کے حکم پر نہیں عبدالملک بن مروان کے حکم پر لگوائے گئے ۔ حجاج محض سرکاری نگران تھا۔ اگر حجاج نے لگائے یا لگوائے ہوں تب بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اگر یہ کام غلط ہوتا تو اس وقت کے علماء اس کی ضرور مخالفت کرتے کہ اس نے قرآن میں معاذ اللہ تحریف لفظی یا معنوی کی ہے۔ بھلے حجاج جیسا آدمی بھی ہو، لیکن اللہ تعالیٰ اس دین کی نصرت کبھی فاسق آدمی سے بھی کرواتے ہیں ،جس طرح شیطان نے آیۃ الکرسی کاوظیفہ بتایا۔

تیسری بات یہ کہ ایک طرف تو محترم سعید بن جبیر اور عاصم بن ابی النجود کے اقوال کی بنا پر حجاج کو فاسق بنا رہے ہیں اور دوسری طرف جب قراء پر جرح کرتے ہیں تو اسی فاسق آدمی (بقول ان کے) کی جرح سے مذکورین کو مجروح قرار دیتے ہیں۔

دلیل نمبر

 ۴:

شعر جاہلی

موصوف نے اپنی اس بات کی ایک دلیل یہ دی ہے کہ کتاب ’الامالی‘میں ابن جنی متوفی ۳۹۳ھ نے بھی ابتداء سے ہی عربی حروف پرنقطوں کا دعویٰ کرتے ہوئے دلیل کے طور پر یہ شعر نقل کیا ہے۔

رمتنی بسھم نقطت منہ جفنتی

واذ نفطت عین نذرف کالعین

’’ جب کسی آنکھ پر نقطہ جیسا زخم لگا تو وہ بادل کے برسنے کی مانند رونے لگی۔‘‘

جواب:

اس شعر میں نقطہ کا ذکر ہے وہ موجودہ نقطوں کی بات نہیں ہے اور مزید یہ کہ نقطے صرف متشابہ حروف میں امتیاز کے لیے نہیں بلکہ اعتبارو محوس کی علامات کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔

دلیل نمبر ۵: ابن ندیم کا کہنا کہ عامر نے نقطے لگائے؟

سب سے پہلے تو ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول کی استنادی حیثیت کیا ہے؟ دوسرا یہ کہ اس قول کی صحت ثابت بھی ہوجائے تو صرف یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک مؤقف یہ بھی تھا، لیکن جمہور مؤرخین و محققین کے ہاں معتبر مذہب دوسرا ہے اور اس مؤقف کوبھی سامنے رکھا جائے تو اس میں حالیہ نقطوں کی بات نہیں ہورہی اور مزید یہ کہ تاریخی شواہد، آنحضرتﷺ کے مکتوباتِ گرامی اور دیگر تحریرات بھی اس بات پر دلیل ہیں کہ اس وقت حروف نقطوں سے اور کلام اِعراب سے خالی ہوتی تھی۔

اِعتراض نمبر

 

۲


: اختلاف قراء ت کا سبب مصاحف کا نقطوں اور اعراب سے خالی ہونا ہے نہ کہ رسول اللہﷺ سے منقول ہونا، کیونکہ رسول اللہﷺ کی تعلیمات لوگوں کے لیے مختلف نہیں ہوسکتیں۔

جواب

: یہ عجیب منطق ہے کہ ایک طرف تو علامہ موصوف مصاحف کے نقاط و اعراب کے قائل ہیں اور دوسری طرف یہ بات کررہے ہیں کہ اختلاف قراء ت نقطے و اعراب نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ دوسری بات یہ کہ اختلاف قراء ت اگر مصاحف کے خالی از نقاط و اعراب کے سبب وجود میں آیا تو اس طرح تو اور بہت سارے اختلاف ہوسکتے تھے اور رسم میں ان کی گنجائش بھی موجود تھی لیکن وہ اختلافات نہ کسی نے پڑھے اور نہ نقل کئے مثلاً سورہ بقرہ:۴۸ میں ہے۔’’یَوْمَ لَا تَنْفَعُھَا شَفَاعَۃٌ‘‘ اور اسی سورۃ کی آیت نمبر :۱۲۳ میں دیکھیں تو ’’یَنْصُرُوْنَ‘‘ ان کو نہ کسی نے ینفعھااور نہ کسی نےتنصرون نقل کیاہے۔

اس سے اور اس جیسی دیگر مثالوں سے یہ بات واضح ہوئی کہ اختلاف قراء ت کا سبب مصاحف کا نقطوں سے خالی ہونا نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اختلاف قراء ت کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن کا خاص رسم اختیار کیاگیا۔ نیز یہ کہ اختلاف قراء ت کا اصل مدار زبانی تلقین و تعلیم پر ہے جس کی زبردست دلیل یہ ہے۔ قرآن مجید میں بے شمار ایسے کلمات ہیں جن میں ایک طرح سے زائد ادائیگی کے احتمالات ہیں لیکن انہیں صرف ایک طرح پڑھا گیاہے اسی طرح بہت سے کلمات مرسومہ کا تلفظ رسم کے خلاف ہے مثلاً جآء ئ مثلاً ’الم‘ کیااس کو کبھی کسی نے الم پڑھا ہے لاذبحنّہ، کو کبھی کسی نے لا اذبحنہ پڑھا ہے ، نہیں تو اس کا مطلب سوائے اس کے کیا ہے کہ اختلاف قراء ت محض رسم پر منطبق نہیں ہوتا۔

اسی طرح وہ روایات جن میں صحابہ کے اختلاف قراء ت کی بات ہے وہ بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ رسم مصاحف کی وجہ سے اختلاف قراء ت رونما نہیں ہوا بلکہ یہ تو اس سے بہت پہلے کی بات ہے کیونکہ مصاحف تو اس وقت موجود نہ تھے۔معلوم یہ ہوا کہ اختلاف قراء ت مصاحف میں نقطے اور اعراب نہ ہونے پر منحصر نہیں ہے بلکہ صحیح سند اور سماع پر محمول ہے اس میں ذاتی رائے یا اجتہاد کو کوئی عمل دخل نہیں ہے۔جیسا کہ امام شاطبی قصیدہ شاطبیہ کے باب قراء ات میں فرماتے ہیں۔

وما لقیاس فی القراء ۃ مدخل

فدونک ما فیہ الرضا متکفلا

اور اسی طرح امام نافع اور ابوعمرو بصری سے بھی منقول ہے کہ اگر قراء ات میں نقل و روایت کی پابندی نہ ہوتی تو میں فلاں حرف کو فلاں طرح اور فلاں کو فلاں طرح پڑھتا۔ (النشر:۱؍۱۷، إبراز المعانی ص۴)

اِعتراض نمبر

 ۳:

اِختلاف قراء ات کوفہ میں روافض کے ایجنٹوں نے گھڑ کر مختلف وضعی سلسلہ اَسانید کے ساتھ ان کو معروف کیا۔

جواب

: قراء ات اسلامی مراکز میں بطورِ حجت تسلیم کی جاتی تھیں۔

علامہ موصوف کے اعتراض کے پہلے حصے پراگر غور کیاجائے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ قراء ات اسلامی مراکز میں بطورِ حجت شرعیہ اور قرآن کے تسلیم شدہ تھیں۔ تب ہی تو لوگوں نے قراء ات وضع کرنا شروع کیں تاکہ منقول قراء ات کے مقابلہ میں خود ساختہ پیش کرکے اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کیا جاسکے۔اگر قراء ات حجت ہی نہ تھیں،ان کا کوئی وجود ہی سرے سے نہ تھا تو ان کو گھڑنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی، کیونکہ جب ایک نئی چیز جو غیرقرآن تھی، قرآن کے طور پر پیش کی جاتی تو لوگ اسے کیونکر قبول اور تسلیم کرتے؟

(١)کیا مروجہ قراء ات روافض اور ملاحدہ نے اپنے مقاصد کے لیے گھڑیں؟

اگر قراء ات مروّجہ ملاحدہ رافضیوں نے اپنے مقاصد کے لیے گھڑی ہیں تو سوال یہ ہے کہ ان موجودہ قراء ات سے ان کے کس عقیدہ کی تائید ہے؟ان کے کس مقصد کی تکمیل ہے؟ جواب نفی میں ہے۔جب ان کے مقاصد ان سے پورے نہیں ہورہے تو پھر انہیں اس اختراع کاکیا فائدہ تھا؟کیا وہ ایک لاحاصل اور بے مقصد چیز کے لیے ان کو گھڑتے رہے؟ معلوم ہوا کہ مروجہ قراء ات اختراع روافض نہیں۔ ہاں ان کی خواہش اور تمنا ضرور یہ تھی کہ وہ منقول قراء ت کو خلط ملط کرکے یا اختلاف قراء ت کے نام پر اپنے مقاصد حاصل کریں، لیکن اس میں انہیں منہ کی کھانا پڑی۔

(٢)اگر قراء ات من گھڑت تھیں تو اُمت نے ان کو قبول کیوں کیا؟

اگر واقعتا بات ایسی تھی تو اُمت میں سے کسی شخص نے ان کا انکارکیوں نہ کیا؟بلکہ محدثین اور مفسرین نے ان قراء ات کو نہ صرف نقل کیا بلکہ ان سے مسائل بھی اَخذ کئے۔ تب سے اب تک اُمت میں قراء ات کی غیر معمولی مقبولیت اور مقام اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قراء ات اختراع روافض نہیں بلکہ منزل من اﷲ اورمنقول عن الرسول ہیں ۔

رسول کریمﷺ کی بابت سے قرآن میں یہ بات کہی گئی کہ

’’لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الاَقَاوِیْلِ٭ لَاَخَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنِ٭ ثُمَّ لَقَطَعْنَامِنْہُ الْوَتِیْنَ‘‘ (الحاقۃ:۴۴تا۴۶)

’’یعنی اگر پیغمبر بھی کوئی بات گھڑ کر ہماری طرف منسوب کرتا تو ہم دائیں ہاتھ سے اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔‘‘

اگر رسول قراء ت گھڑے تو اس کا تو یہ انجام ہو اور اگر کوئی عام آدمی قراء ات گھڑے تو کیاوہ احترام و اکرام سے نوازا جائے؟قراء ات اگر ان قراء نے گھڑی ہوتیں تو اللہ ضرور انجام سے دوچار کرتے۔

٭ قراء ات مخترعہ کے شائع اور مقبول ہونے کے باوجود حفظ قرآن کا ربانی وعدہ اپنی جگہ قائم ہے؟

اگر قراء ات گھڑی گئیں تھیں تو پھر اُمت کے ہاں انہیں یہ مقام کیسے ملا؟ آیا ان کے معروف اور شائع ہونے کے باوجود اللہ کا وعدہ ’’إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحٰفِظُوْنَ‘‘ سچا ہے؟ ’’ لَایَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہِ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ‘‘

٭ عدم تناقض قراء ات کے منزل ہونے کی دلیل ہے؟

امام جزری اسی بات کو قراء ات کے منزل ہونے کی زبردست دلیل گردانتے ہوئے فرماتے ہیں : آپﷺ کی نبوت اور قرآن کی صداقت پر یہ عظیم الشان اور واضح ترین قطعی دلیل ہے کہ قسم قسم کے اختلافات کے باوجود قراء ات میں تناقض نہیں بلکہ ایک قراء ت دوسری کی تصدیق اور تشریح کرتی ہے اور ہر سمجھدار یہ جانتا ہے کہ ایسا صرف کلام الٰہی میں ہی ہوسکتا ہے۔ (النشر :۲؍۵۲)

اگر قراء ات کلام انسان ہوتیں تو ان میں ضرورضدیت اور تناقض ہوتا،کیونکہ فرمان ربانی ہے: ’’ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِاﷲِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافاً کَثِیْرًا ‘‘

٭ کیا اَسانید قراء ات بھی گھڑی گئیں تھیں؟

سند دین میں انتہائی اہمیت کی حامل چیزہے جیسا کہ صحیح مسلم کے مقدمہ میں ابن مبارک کا قول ہے:’’لو لا الإسناد لقال من شاء ما شاء‘‘ تو سند ہمیشہ سے قراء اور محدثین کے ہاں بنیادی اور غیرمعمولی اہمیت کی حامل رہی ہے۔اس لیے اس کی جانچ پرکھ کے مختلف اصول و ضوابط واضح کئے گئے۔ سو زبان سے کہہ دینا کہ قراء ات اسناد گھڑی گئی ہیں اس کی کوئی دلیل نہیں۔بلکہ ثبوت اسناد قراء ات کے بہت سے دلائل ہیں۔ ثانیاً یہ کہ کسی بھی محدث و مقری کو اس بات کا علم نہ ہوسکا جو آپ پر القاء ہواہے۔

اِعتراض : حدیث سبعہ پہلی صدی کے آخر یا دوسری کے شروع میں گھڑی گئی۔ نیز تیسری صدی ہجری سے قبل قراء ات کا وجود نہ تھا صرف چند سازشی مصنفین شاذو نادر اپنی کتابوں میں نقل کردیتے تھے۔

جواب: اس اعتراض میں تین باتوں کا تذکرہ ہے:

(١) حدیث سبعہ موضوع ہے۔ کیا ثبوت قرآن ثبوت حدیث سے ہے؟

(٢) قراء ات تیسری صدی کے بعد کی ایجاد ہیں۔

(٣) تیسری صدی سے قبل چند سازشی لوگ نقل کرتے تھے۔

حدیث سبعہ اَحرف تقریباً بیس صحابہ کرام سے منقول اور مروی ہے (النشر :۱؍۲۱) یہ حدیث ہر طبقہ اور ہر ہر دور میں حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہے۔بلکہ صحابہ کے ہاں بھی متواتر تھی جیسا کہ مسند ابی یعلی الموصلی میں ہے کہ ایک دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اللہ کا واسطہ دے کر اس حدیث کے متعلق پوچھا کہ کس کس نے آپﷺ سے یہ حدیث سنی ہے تو بے شمار لوگ کھڑے ہوگئے پھرفرمایا: میں نے بھی یہ حدیث آپﷺ سے سنی ہے۔ (مسند أبویعلی :۱؍۱۵۳، مسند عثمان نمبر ۲)

نیز یہ کہ کئی محدثین مثلاً جزری نے موضوعات ، امام مروزی نے ’علل الحدیث‘ اور امام دارقطنی نے’العلل‘ کے نام سے موضوعات پرالگ الگ کتب تصنیف فرمائی ہیں، لیکن کسی نے بھی اس حدیث کو موضوعات میں شمار نہیں کیا۔معلوم ہواکہ حدیث سبعہ موضوع نہیں۔جب حدیث سبعہ کو موضوع کہنا غلط ہے تو یہ بات واضح ہوگئی کہ جن اَحادیث میں مخاصمہ ہوا وہ عہد نبوی میں ہوا نہ کہ پہلی صدی کے آخر یا دوسری صدی کے شروع میں۔ تیسری صدی سے قبل بھی قراء ات نقل کی جاتی تھیں بلکہ قراء ات پرالگ مستقل کتابیں موجود تھیں۔سب سے پہلے یحییٰ بن یعمر نے پہلی صدی میں ایک کتاب تالیف کی جس میں مصاحف عثمانیہ کے اِختلافات کو جمع کیا گیا۔ دوسری صدی میں اَبان بن تغلب کوفی متوفی ۱۴۱ھ نے القراء ات، مقاتل بن سلیمان متوفی ۱۵۰ھ اور زائدہ بن قدامہ ثقفی متوفی ۱۶۱ھ نے بھی القراء اتنامی کتاب لکھی۔اسی طرح ابن عامریحصبی متوفی ۱۱۸ھ نے اختلاف مصاحف الشام والحجاز والعراق نامی۔ حمزہ زیات متوفی ۱۵۹ھ نے القراء ۃ اور ہارون نحوی متوفی ۱۷۰ھ نے القراء ات نامی کتب تحریر کیں۔ (بحوالہ جبیرۃ الجراحات فی حجیۃ القراء ات)

معلوم ہوا تیسری صدی سے قبل یہ چند لوگ نہ تھے بلکہ بہت سے لوگ تھے جو قراء ات نقل کرتے تھے اور اپنی کتب میں انہیں تحریر بھی کرتے تھے۔


روایات جمع القرآن کا موضوع ہونا

’علامہ ‘ صاحب نے قراء ت کو مشکوک اور من گھڑت بنانے کے لیے ہر وہ کوشش کی جو ان سے قبل ملاحدہ اور مستشرقین نے بھی نہیں کی۔ موصوف کبھی تو حدیث سبعہ احرف کو موضوع اور من گھڑت قرار دیتے ہیں اور کبھی روایات جمع قرآن کو موضوع قراردیتے ہیں۔

موصوف نے امام طبری کے قول ’چھ حروف کے ترک کردینے‘‘ کو بنیاد بناکر قراء ات کاانکار کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر جمع و تدوین قراء ات والی ساری روایات ہی موضوع ہیں تو طبری کے قول کو انکار قراء ت پر پیش کرنے کا جواز نہیں بنتااور دوسری بات یہ کہ ایک ہزار سال میںکسی بھی محدث فقیہ اور عالم کو اس بات کا علم نہ ہوسکا، محدثین نے اپنی کتب میں جمع قرآن عہد نبوی، صدیقی اورعثمانی والی روایات نقل کیں ہیں۔اسی طرح انہوں نے موضوعات کے لیے الگ الگ کتب تحریرکیں وہ اس بات سے قطعاً بے خبر رہے کہ احادیث جمع قرآن موضوع ہیں۔ نہ جانے علامہ صاحب کے پاس وہ کون سا ذریعہ علم تھا جس سے انہیں معلوم ہوا کہ ایک ہزار سال سے زائد امت اسلامیہ گمراہی میں جکڑی ہوئی ہے لہٰذا مجھے ان کی راہنمائی کرنی چاہیے۔

٭ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے جمع عثمانی سے اختلاف کیا اور اپنے شاگردوں کو مصاحف تبدیل نہ کرنے کی تلقین کی۔

جواب : ایک طرف تو جناب کے ہاں روایات جمع القرآن موضوع ہیں اگر بقول آپ کے وہ روایات من گھڑت ہیں تو حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کااختلاف اور شاگردوں کو تلقین کرنے کے کیا معانی؟دوسری بات یہ کہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ نے اگرچہ شروع میں ناراضی کا اظہارکیا جس کی کئی ایک وجوہات ہیں (جوکہ ہمارا موضوع نہیں) لیکن بعد میں جب انہیں حضرت عثمان نے بلایا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے شاگردوں سے فرمایا کہ وہ ہمارے امیرہیں ان کی اطاعت ہم پرفرض ہے۔ (سیر:۱؍۴۸۹) نیز جب انہیں اپنے رائے کے منفرد ہونے کا علم ہوا تو انہوں نے رجوع کرلیاتھا۔(سیر: ۱؍۴۸۸)

تیسری بات یہ کہ قراء ات منقولہ متواترہ غیر منسوخہ کے تنوع کا تعلق مصحف ابن مسعود سے نہیں بلکہ یہ اختلاف وتنوع مصاحف عثمانیہ سے منقول ہے۔

دوسری نوعیت کے اعتراضات

علامہ صاحب نے قراء ات کو ناقابل اعتبار اور موضوع بنانے کے لیے ائمہ قراء ات پر بڑے شدومد کے ساتھ جرح نقل کی ہے۔ان کی نقل کردہ جرح کی اصل کیا ہے ہم اپنے مضمون کے اس حصہ میں اس پر روشنی ڈالیں گے۔

اِمام نافع پر اعتراضات :

امام موصوف پر مندرجہ ذیل اِعتراضات اٹھائے گئے ہیں:

(١) ان کے استاد عبدالرحمن بن ھرمز موالی (آزاد کردہ غلام) ہیں۔

(٢) نیز امام ابوجعفر استاد نافع کے شیخ ابن بالی ربیعہ مجہول الحال ہیں۔ <ص۳۴۳، قاع>undefined

(٣) ابن ھرمز کے استاد قراء ت کے عالم نہیں۔

(٤) ابن ھرمزسے صرف نافع اکیلے نے نقل کیا۔

(٥) امام نافع کے ستر تابعین سے پڑھنے والی روایت میں ابوحمہ مجہول ہے اور ابو قرہ منفرد ہے۔یہ دونوں قاری نہیں تھے۔نیز نافع نے ابوقرہ کو اپنی قراء ۃ کے متعلق تنہائی میں بتایاہوگا؟

(٦) نافع کوفی ایجنٹ تھے جو مدینہ میں بٹھا دیئے گئے۔

(٧) نافع نے موالی ہونے کے ساتھ اکابر تابعین سے کسب علم نہیں کیااور نہ ہی اکابر یا اَصاغر صحابہ کی اولاد نے ان سے پڑھا ہے بلکہ صرف اَعرج اور ابوجعفر سے عرضہ اَخیرہ نقل کیا۔

(٨) قراء ت نافع کی سنت مخدوش ہے۔نیز کیا یہ قراء ت نافع پڑھتے تھے؟

(٩) قراء ت نافع مصاحف صحابہ کے موافق نہیں۔

(١٠) مصر میں قراء ت نافع نہ چل سکی۔

(١١) بعض اَکابرین کی طرف قراء ت نافع کی مدح کی نسبت درست نہیں اور نہ ہی متاخرین کی مدح قابل اعتبار ہے۔

(١٢) کسی مدنی نے امام نافع سے قراء ات نہیں حاصل کی انہیں اِمامت کاعہدہ ان کی وفات کے ڈیڑھ سال بعد دیاگیا۔

(١٣) امام نافع کی قراء ت صرف دو گمنام (قالون اور ورش) نے ہی نقل کی۔

جوابات : یہاں ہم مذکورہ اعتراضات کے جوابات تحریر کرتے ہیں:

(1)نافع اور ان کے اَساتذہ کا موالی اعجام ہونا:

سب سے پہلی بات تو یہ کہ قرآن کی کسی آیت، کسی حدیث یامحدثین وفقہاء میں سے کسی نے نقل قرآن کے لیے عربی ہونے یا آزاد ہونے کی شرط لگائی ہے؟ کیاآپ نے عجمیوں یا غلاموں کوقرآن کی تعلیم نہیں دی۔ اگر قرآن وسنت یامتقدمین نے یہ شرط نہیں لگائی تو اس اعتراض کی کیا حیثیت ہے؟اس شرط کے برعکس شریعت میں بہت سے ایسے دلائل موجود ہیں جس سے ایسے تفرقے کی نفی اور حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔

(١) ’’یٰاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّاخَلَقْنٰکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثَی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اﷲِ اَتْقَاکُمْ‘‘ (الحجرات:۱۳)

(٢) آپﷺ نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا:(لافضل للعربی علی العجمی۔ألا إن أکرمکم عند اﷲ أتقاکم)

(٣) آپﷺ نے آزادکردہ غلاموں کو قرآنی تعلیمات سکھلائی جیسا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو مؤذن مقررکرنا اور اسی طرح سلمان فارسی5 اور صہیب رومی رضی اللہ عنہ بھی خالص عجمی النسل تھے۔ سالم مولیٰ ابی حذیفہ کو قرآن سکھانا وغیرہ۔

(٤) عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضرت عمر5 نے نافع بن عبدالحارث کومکہ کا والی بنایا، لیکن انہیں مقام عسقان پر دیکھ کر فرمایا : پیچھے کس کو مقرر کیا؟ فرمایا: ابن ابزیٰ کو۔وہ کون ہے؟ فرمایا: مولیٰ عن موالینا (وہ ہمارے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک ہے) عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا کیاایک غلام کو امیر مقرر کر آئے ہو؟ فرمایا وہ کتاب اللہ کاقاری اور علم وراثت کا ماہر ہے تو حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا: سچ فرمایا: رسول اللہﷺ نے (إن اﷲ یرفع بھذا الکتاب ویضع بہ اٰخرین ) (صحیح مسلم :۱۳۵۳)

معلوم ہوا قرآن مجید کی تعلیم نے غلاموں کو آقا بنادیا۔ انہیں پستیوں سے اٹھاکر اوج ثریاکی بلندیوںتک پہنچا دیا۔

(٥) اصل میں یہ اعتراض کوئی نیا نہیں بلکہ جب آپﷺ نے لوگوں پر قرآن پیش کیا تو اس وقت بھی یار لوگوں نے یہی کہاکہ یہ تو ایک عجمی کی گھڑنت ہے جو محمد ﷺ ہمیں اللہ کا کلام بتاکرسناتے ہیں: ’’وَلَقَدْ نَعْلَمُ أنَّھُمْ یَقُوْلُوْنَ إنَّمَا یُعَلِّمُہُ بَشَرٌ لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْہِ أعْجَمِیٌّ وَّھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ ‘‘(النحل:۱۰۳)

معلوم ہوا اسلام تعلیماتِ اسلام کے نقل کے لیے آزاد، عربی یاعجمی کی کوئی شرط مقرر نہیں کرتا۔ جب یہ ضروری نہیں تو قراء کا عجمی النسل موالی ہونا نقل قرآن میں بالکل بھی مضر نہیں ہے لہٰذا یہ اعتراض یونہی فضول ہے۔

(٢)دوسرا اعتراض: ابن ھرمز الاعرج کے استاد قراء ت کا معلوم نہ ہونا اور صرف نافع اکیلے کا نقل کرنا:

امام ذہبی رحمہ اللہ متوفی۷۴۸ھ فرماتے ہیں: ’’عبدالرحمن بن ھرمز الاعرج ابوداؤد مدنی، محمد بن ربیعہ کے آزاد کردہ غلام ہیں۔انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عیاش رضی اللہ عنہ سے عرضاً (سناکر) قراء ت حاصل کی۔ (معرفۃ القراء الکبار:۱؍۶۳،۶۴)

امام جزری رضی اللہ عنہ متوفی ۸۳۳ھ نے بھی یہ بات نقل کی ہے مزید فرماتے ہیں:

’’ابن ھرمز کی زیادہ تر وایات ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہے اور ان سے نافع اور اسید بن ابی اسیدنے قراء ت نقل کی۔‘‘ ( ملخصاً طبقات القراء :۱؍۱۸۱)

معلوم ہوا ابن ھرمز نے کبار صحابہ سے علم حاصل کیااورنافع کے علاوہ اسید بن ابی اُسید نے بھی ان سے اختلاف قراء ت نقل کیا ہے۔

)٢)امام نافع کے استاد (ابوجعفر) کے استاد ابن ابی ربیعہ مجہول الحال ہیں:

جواب: عبداللہ بن عیاش بن ابی ربیعہ کوئی مجہول الحال شخص نہیں بلکہ اہل مدینہ کے سب سے زیادہ قراء ت جاننے والے اور کبار صحابہ ابی بن کعب اور حضرت عمر کے شاگرد تھے۔

امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ابن ابی ربیعہ تابعی کبیر ہیں انہوں نے حضرت ابی سے عرضاً قراء ت حاصل کی اور حضرت عمررضی اللہ عنہ سے سماع کیا۔ اپنے وقت میں مدینہ کے سب سے بڑے قاری تھے۔‘‘ (طبقات القراء ۱؍۳۴۰،۳۳۹)

(٤)امام نافع کے ستر تابعین سے پڑھنے والی روایت:

قراء ات کی روایات تواتر کے قبیل سے ہیں جن کو ہر ہر دور میں بہت بڑی بڑی جماعتوں نے نقل کیا اور متواتر روایت کے رجال سے بحث نہیں کی جاتی جیساکہ ابن صلاح نے لکھا:

’’متواتر روایت کے رجال پر بحث نہیں کی جاتی۔ ‘‘ (مقدمہ ابن الصلاح )

لہٰذا اگر نافع اعرج سے نقل کرنے میں منفرد ہوں تب بھی کوئی مضائقہ نہیں اور دوسری بات یہ کہ اگر کسی راوی کی توثیق یا تنقیدمعلوم نہ ہو تو اس کے بارہ میں حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اس کی روایت مقبول ہی خیال کی جاتی ہے۔ یہاں تو ابوحمہ ایک تاریخی روایت بیان کررہے ہیں تو اس میں تو بطریق اولیٰ ان کی جہالت قطعاً مضر نہیں ہونی چاہئے۔

رہی بات ابوقرہ کے منفرد ہونے کی تو اس کی کئی مؤیدات ہیں مثلاً اسحاق مسیبی امام نافع کا قول نقل کرتے:

’’میں نے کئی تابعین کے درمیان اختلاف پایا،جس اختلاف میں دو کااتفاق ہوا میں نے اسی کو لے لیااور منفرد اختلاف کو چھوڑ دیا یونہی میں نے اپنی قراء ۃ ترتیب دی۔‘‘ (سیرأعلام النبلاء :۱؍۳۳۷)

نیز امام نافع نے ابوقرہ کو تنہائی میں نہیں پڑھایا۔ اگر تنہائی میں پڑھایا ہوتاتو یہ روایت معروف کیوں ہوتی۔ایک معروف عربی شعر ہے:

وعلم فی القرطاس لیس ضاع

وشر جاوز الاثنین شاع

’’ کاغذوں میں لکھا جانے والا علم ضائع نہیں ہوتا اور جو راز دو سے زائد آدمیوں تک پہنچ جائے وہ معروف ہوجاتاہے، پھیل جاتاہے۔‘‘

٭ ابوحمہ اور ابوقرہ کے قاری نہ ہونے والے اعتراض کے متعلق امام جزری رحمہ اللہ نے لکھاہے:

’’ابوحمہ نے اختلاف قراء ت ابوقرہ سے نقل کیاہے اورعبدالرزاق سے بھی سماع کیااور ان سے ابن جندی نے نقل کیا ہے۔‘‘( طبقات :۲؍۳۱۹)

٭ ابوقرہ نے نافع سے عرضاً قراء ت حاصل کی اور ان سے ان کے بیٹے نے طارق اور علی بن زبان نے قراء ت نقل کی۔( طبقات :۲؍۳۳۱)معلوم ہوا ابوحمہ اور ابوقرہ قاری تھے۔

(٥) امام نافع چپ چاپ مدینے میں کوفی ایجنٹ بٹھادیئے گئے:

امام نافع تبع تابعی ہیں ان کا زمانہ خیر القرون کا زمانہ ہے۔ امام نافع مدینہ میں۷۰ سال تک قراء ات کی تعلیمات دیتے رہے۔ اس کے باوجود کہ مدینہ کو غیر معمولی اہمیت حاصل تھی یہاں پر لوگوں کاہر وقت آجانا تھا۔یہاں کبارعلماء موجود تھے، لیکن اس کے باوجود کسی ایک آدمی کو بھی اس بات کا علم نہ ہوا کہ نافع تو یہاں کوفی ایجنٹ ہیں اور قرآن مجید میں غیر قرآنی کلمات کو داخل کررہے ہیں۔امام جزری رحمہ اللہ، ابن حیان سے نقل کرتے ہیں۔

یہ بات صحیح نقل سے ثابت ہے کہ نافع نے ابوجعفر سے قراء ت حاصل کی۔ ابوجعفر معزز تابعین مدینہ میں سے تھے۔ ان کے زمانہ میں مدینہ میں بہت بڑے علماء موجود تھے۔ آپ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ سے کسب فیض کیا۔ یہ بات ناممکن ہے کہ اتنے بڑے مرتبے کا آدمی قرآن میں کوئی ناجائز چیز پڑھے حالانکہ جب انہوں نے صحابہ سے قراء ات حاصل کیں اس وقت قراء ات ابھی تازہ تھیں، سندیں طویل نہ تھیں ، ابھی غیر ضابطہ لوگ بھی سلسلہ سند میں داخل نہیں ہوئے تھے اور صحابہ خود بھی غلطی سے محفوظ اورمامون تھے۔ (النشر :۱؍۴۱)

امام مالک رحمہ اللہ،امام نافع رحمہ اللہ کوقراء ت کا امام قرار دیتے ہیں اور مسائل قراء ت میں انہی کی طرف رجوع کرتے تھے۔ ایک مرتبہ امام مالک سے بسم اﷲ کے متعلق سوال کیا گیا تو فرمایا: ’’لو سلوا عن کل علم أھلہ ونافع إمام الناس فی القراء ۃ ‘‘ (طبقات :۱؍۳۳۱)

٭ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’نافع ثقہ آدمی ہیں۔‘‘

٭ نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ لا بأس ہیں۔‘‘

٭ ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ یہ سچے آدمی تھے۔‘‘

٭ ائمہ کے ہاں امام نافع کا یہ مقام اور مرتبہ تھا کسی ایک صاحب علم کونافع کی کوفی ایجنٹی کا علم نہ ہوسکا ہوا تو صرف ناقد کوایک ہزار سال کے بعد۔

(٦) امام نافع نے صرف ابوجعفر اور اَعرج سے نقل کیا۔ انہوں نے اکابر تابعین سے کچھ حاصل نہیں کیا۔

جواب : امام جزری رحمہ اللہ، نافع کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’نافع نے اعرج، ابوجعفر، شیبہ بن نصفاح، یزید بن روما، مسلم بن جندب، صالح بن خوات، اصبغ نحوی، عبدالرحمن بن قاسم اور زہری سے قراء ت پڑھ کر حاصل کی۔ ابوقرہ فرماتے ہیں میں نے نافع سے سنا کہ میں نے ستر تابعین سے قرآن پڑھا۔ امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں مذکورہ پہلے پانچ سے تو نافع کی قراء ت ہم تک بطریق تواتر پہنچی ہے۔‘‘ (طبقات: ۲؍۳۳۰)

معلوم ہوا امام نافع رحمہ اللہ نے ستر (۷۰) تابعین سے قراء ت حاصل کی۔اسی طرح امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے تابعین کی ایک جماعت سے قراء ت نقل کی۔ (معرفۃ القراء الکبار:۱؍۸۹)اولاد صحابہ یا تابعین نے نافع سے کبھی بھی نہیں پڑھا۔صحابہ کا دور امام نافع نے دیکھانہیں بلکہ یہ تبع تابعین میں سے ہیں ہاں چند اصاغر تبع تابعین نے ان سے ضرور قراء ت پڑھیں۔ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’امام دانی رحمہ اللہ نے امام مالک کو طبقات القراء میں شامل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ انہوں نے نافع بن ابی نعیم سے قراء ت حاصل کی تھی (سیراعلام النبلاء:۸؍۹۵)اور طبقات القراء میں بہت سے قدماء اور متأخرین کے نام ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں ان سے بہت سی مخلوق نے نقل کیا ہے۔ (معرفۃ القراء الکبار:ص۱؍۹۰)

(٧)قراء ت نافع کی سنیت کا مخدوش ہونا:

جواب: قراء ۃ نافع کو سنت کہنے کا مسئلہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے بلا سند ایک حرف بھی نقل نہیں کیا اور جو قراء ت انہوں نے اختیار کی وہ وجوہ مروجہ متصلہ ہیں۔ امام جزری رحمہ اللہ نے امام نافع کا ایک قول نقل کیاہے جس میں وہ اسی حقیقت کو بیان کرتے ہیں فرماتے ہیں:

’’اگر یہ پابندی نہ ہوتی کہ جس طرح پڑھا ہے اسی طرح پڑھوں تو میں فلاں حرف کو فلاں طرح اور فلاں حرف کوفلاں طرح پڑھتا ۔ (النشر:۱؍۱۷) امام مجاہد فرماتے ہیں: نافع قراء ت کی تمام وجوہ و علل کو پہچانتے تھے اور وہ ائمہ متقدمین مدینین کے آثار کے متبع تھے ۔ (طبقات:۲؍۳۳۱) اور امام ابراہیم مسعدی شرح مقدمہ میں ایک واقعہ منقولہ میں امام نافع کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ہماری قراء ات تواکابر اصحاب رسول کے مطابق ہے۔‘‘ (الفوائد التجوید ،ص۴۹۔ بحوالہ دفاع قراء ات،ص۳۶۹)

مذکورہ بالا تقریر سے یہ بات واضح ہوئی کہ قراء ۃ نافع کو سنت کہنے کا مطلب کیا ہے۔

٭ رہی یہ بات صحابہ کا قراء ت نافع نہ پڑھناتو یہ بات حقیقت ہے کہ صحابہ قراء ۃ نافع نہیں پڑھتے تھے بلکہ امام نافع قراء ۃ صحابہ پڑھتے تھے جیسا کہ پہلے نقل کیا گیا ہے۔ امام نافع کی طرف قراء ۃ کی نسبت محض اختیاری اور لزومی ہے نہ کہ ایجادی اور اختراعی ہے۔

(٨)قراۃ نافع اور مصاحف کی عدم مطابقت:

جواب:امام نافع رحمہ اللہ کی قراء ت مجمع علیہ مصحف، جسے کئی ہزار صحابہ کے اجماع سے نقل کیاگیا ہے، کے مطابق ہے۔امام نافع کی قراء ۃ مصحف مدینہ کے مطابق ہے۔مثلاً عثمانی مصحف مدینہ میں سورۃ المائدہ کی آیت ۸ ’’یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَرْتَدَّ مِنْکُمْ‘‘ میں یرتدَّ دو دالوں کے ساتھ یرتدد لکھاہوا ہے۔ اسی طرح ’’وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَاراً‘‘(التوبۃ :۱۳) میں الذین واؤ کے اضافہ کے بغیر ہے۔معلوم ہوا قراۃ نافع مصحف صحابہ کے عین مطابق ہے۔

(٩) مصر میں قراء ۃ نافع:

جواب:یہ بات جان لینی چاہئے کہ دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف قراء ات معروف اورشائع ہیں لیکن پڑھائی تمام قراء ات جاتی ہیں۔ جزائر اور تیونس وغیرہ قالون عن نافع اور ورش عن نافع معروف ہیں۔لیبیا میں روایت قالون، سوڈان میں روایت بصری اور اکثر مشرقی ممالک میں حفص عن عاصم متداول ہیں، لیکن یہ بات یاد رہنی چاہئے کہ آج بھی مصر میں روایت ورش عن نافع معروف ہے، اگر وہاں یہ روایت نہیں چل سکی تھی تو آج یہ روایت وہاں کیسے پہنچی یا ان لوگوں نے خود ہی اس روایت کو گھڑ کر امام نافع کی طرف منسوب کردیا۔

(١٠) امام نافع کی مدح

جواب: امام نافع کی مدح متقدمین و متاخرین ہردو نے کی۔ بطورِ چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے:

نافع کے متعلق امام مالک فرماتے ہیں آپ قراء ۃ میں لوگوں کے امام تھے۔ (معرفۃ القراء :۱؍۸۹)

سعیدبن منصو ررحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’میں نے امام مالک کو کہتے سنا امام نافع کی قراء ت سنت (کے مطابق) ہے۔ ‘‘ (سیرأعلام النبلاء:۷؍۳۳۷)

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’نافع قراء ت میں پختہ آدمی تھے۔‘‘ (میزان الاعتدال :۴؍۲۴۶)

لیث بن سعدرحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ نافع قراء ۃ میں آج کل کے لوگوں کے امام ہیں۔ ‘‘ <طبقات ابن سعد>undefined

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’انہوں نے اپنے مشائخ کی زندگی میں ہی قراء ت پڑھانے کا کام شروع کردیا بلکہ اسی وقت سے منصب امامت پر فائز ہیں۔‘‘ (سیر:۷؍۳۳۷)مزید تفصیل شرح سبعہ :۱؍۸۰+۹۹)

(١٠)کوئی مدنی امام نافع کاشاگرد نہیں اور ان کو منصب امامت ان کی وفات کے بعد دیا گیا۔

جواب: امام نافع کے کئی مدنی شاگرد تھے، امام جزری رحمہ اللہ مندرجہ ذیل بیس نام اَصحاب نافع شمار کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔یہ سب کے سب مدنی تھے۔نام حسب ذیل ہیں:

اسماعیل بن جعفر، عیسیٰ بن وردان، سلیمان بن مسلم بن جماز، مالک بن انس، اسحاق بن محمد ابوبکر بن ابی اویس، اسماعیل بن ابی اویس، یعقوب بن جعفر، عبدالرحمن بن ابی الزناد، عیسیٰ بن مینا، قالون، سعد اور یعقوب بن ابراہیم، محمد بن عمر واقدی، زبیر بن عامر، خلف بن وصاح، محمد بن یحییٰ، ابوالعجلان، ابوغسان محمد بن یحییٰ، صفوان، محمد بن ابراہیم رحمہم اللہ ، لہٰذا یہ کہنا کہ امام نافع کے مدنی شاگرد نہ تھے غلط بات ہے۔

رہی بات ان کی امانت کی تو ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ امام مالک رحمہ اللہ انہیں قراء ۃ کا امام ان کی زندگی میں کہاکرتے تھے۔

(١١)قالون اور ورش۔کاگمنام ہونا:

جواب: اگر ان کی گمنامی کو تسلیم بھی کرلیاجائے تو صرف دو شاگردوں سے ان کی جہالت دور ہوجاتی جیساکہ اصول حدیث کا مسلمہ قاعدہ ہے۔قالون کے اٹھارہ (۱۸) شاگردوں کا تذکرہ امام جزری نے کیا ہے۔(طبقات: ۱؍۱۶۔۶۱۵) گیارہ تلامذہ کا امام ذہبی نے (معرفۃ القراء الکبار:۱؍۱۲۹) میں کیا ہے۔بلکہ امام ذہبی چند شاگردوں کا نام لینے کے بعد لکھتے ہیں:

’’وعدد کثیر وکان ثقۃ في الحروف حجۃ‘‘

’’اس کثرت کے ساتھ لوگوں نے ان سے نقل کیاکہ وہ مرجع خلائق بنے رہے۔‘‘

کیا یہ گمنامی ہے؟ہاں اگر حدیث کے معاملہ میں کوئی یہ کہے تو کسی درجہ بات سمجھ آتی ہے۔ وہ حدیث میں مہارت تامہ نہیں رکھتے تھے جیسا کہ ذہبی نے کہا ’’الحدیث فما رأینا لہ شیئاً‘‘ ہم نے ان سے کوئی حدیث نہیں دیکھی۔

نوٹ: یہ بات بھی ذہن میں رہے کسی ایک فن میں کمزوری کسی دوسری فن میں کمزوری کی دلیل نہیں اور اس بات کا تمنا عمادی بھی اعتراف کرتے ہیں، فرماتے ہیں:’’ابن جنی بلاغت میں امام تھے مگر منطق نہیں جانتے تھے۔ ‘‘ (اعجاز القرآن: ص۳۷۱)

(١٣)نہ حلوانی،قالون کا نہ اصبھانی ورش کا اور نہ ہی مطوعی، اصبھانی کا شاگرد ہے:

جواب: لسان المیزان میں ہی حلوانی کو صاحب قالون لکھا ہوا ہے۔ (۱؍۲۲۷)

امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حلوانی نے مکہ میں قواس اور مدینہ میں قالون سے پڑھا۔‘‘ (طبقات:۱؍۱۴۹)

نوٹ: حلوانی احمد بن یزید ہیں نہ کہ احمدبن علی۔

اسی طرح اصبھانی بھی دو ہیں:ایک محدثین کے ہاں اور وہ ہیں:قتیبہ بن مہران جبکہ ورش کے شاگرد اصبہانی سے مراد محمد بن عبدالرحیم، متوفی۲۹۶ھ ہیں۔

رہی بات مطوعی کی شاگردی کی تو سنیے ! امام جزری نے مطوعی کے ۳۷ اساتذہ قراء ت کا ذکر کیا ان میں اصبھانی بھی شامل ہیں۔ (طبقات القراء :۱؍۲۱۳)


عبداللہ بن کثیر مکی رحمہ اللہ


ان پر مندرجہ ذیل اعتراضات ہیں:

(١) صرف دانی نے عبداللہ بن سائب مخزومی کو مکی کا استاد لکھا ہے۔

(٢) مکی نے صرف ابن مجاہد سے قراء ت حاصل کی۔

(٣) مکی نے ابن سائب سے نہیں پڑھا کیونکہ ان کی وفات کے وقت وہ کمسن تھے۔

(٤) دانی متاخرہیں ان سے زیادہ بخاری وغیرہ متقدمین کی رائے زیادہ معتبر ہیں۔

(٥) قنبل نے براہ راست مکی سے نہیں پڑھا اور آخری عمر میں مختل الحواس ہوگئے تھے نیز قنبل کا استاد اور اس کا شیخ دونوں نامعلوم اور مجہول ہیں۔

(٦) بزی منکر الحدیث ہیں اور حدیث منکر بھی موضوع ہوتی ہے۔یہ بھی بالواسطہ مکی سے نقل کرتے ہیں ان کے استاد اسماعیل بن عبداللہ مسطنطین عرف قسط مجہول ہے۔

ذیل میں مذکورہ اعتراضات کے جوابات تحریرکئے جاتے ہیں:

(١) مکی نے صرف ابن جبیر سے پڑھا نہ کہ عبداللہ بن سائب مخرومی سے۔

جواب: اصل میں بات یہ ہے کہ ابن جبیر مکی اتفاقی اور اجماعی طور پراستاذ ہیں جبکہ ابن سائب مختلف فیہ ہیں، لیکن صحیح بات یہی ہے کہ مکی نے ان سے بھی نقل کیا ہے۔اگر بالفرض براہ راست نقل نہ بھی کیا ہو تو ابن جبیرنے تو ابن سائب سے نقل کیا ہے لہٰذا اس طریق سے مکی ابن سائب سے ہی نقل کرنے والے ہیں اور یہی مطلوب ہے۔

٭ بخاری کی توضیح:

جواب: ناقد لکھتے ہیں کہ بخاری نے یہی لکھا ہے کہ مکی نے صرف ابن جبیر سے قراء ت حاصل کی ہے۔ یہ بات سراسر غلط اور علمی خیانت ہے۔ بخاری نے ابن جبیر کو مکی کااستادِ قراء ت نہیں استادِ حدیث بتایا ہے۔چنانچہ ابن حجرلکھتے ہیں:

’’امام بخاری نے کہا ہے کہ مکی نے مجاہد سے سنا اور ان سے ابن جریج نے نقل کیا۔‘‘(تہذیب التہذیب:۲؍۴۰۸)

٭ دانی کے مقابلہ میں بخاری مقدم ہیں لہٰذا ان کی بات زیادہ معتبر ہے؟

بخاری کی بابت ہم نے واضح کیاکہ انہوں نے ابن جبیر کو مکی کا استادِ حدیث لکھا ہے۔ رہی بات تقدیم و تاخیر والی تو ہمدانی جو مکی سے ساڑھے چار سو برس بعد کے آدمی ہیں، نے ابن سائب کا مکی کااستاد ہونا مجروح قراردیا ہے تو ان کے مقابلہ میں امام شافعی جو ہمدانی سے بہت پہلے کے ہیں ان کی رائے زیادہ معتبر ہونی چاہئے۔ انہوں نے ابن سائب کو مکی کا استاد لکھا ہے۔ معلوم ہوا مکی نے ابن سائب سے بھی قراء ت حاصل کی۔نیز امام جزری نے طبقات: ۱؍۴۴۳ میں، علامہ ذہبی نے معرفۃ القراء:۱؍۷۱ میں اور سیراعلام :۲؍۳۱۸ میں اس بات کی تصریح کی ہے۔

(٢)وفات ابن سائب کے وقت مکی کا کمسن ہونا:

یہ بات بھی سراسر غلط ہے کہ مکی اس وقت کمسن تھے بلکہ اس وقت تقریباً بیس (۲۰) سالہ نوجوان تھے۔ابن سائب کی وفات ۶۵ھ میں ہوئی جبکہ مکی کی ولادت ۴۵ھ میں ہوئی۔

(٣)قنبل اور مکی کا انقطاع اور قنبل کا آخری عمر میں مخبوط الحواس ہونا:

یہ بات ٹھیک ہے کہ قنبل نے براہ راست مکی سے نہیں پڑھا لیکن انہوں نے مکی کی قراء ت میں اس قدر ہمت صرف کی کہ براہ راست نقل کرنے والوں سے بھی سبقت لے گئے اور رہی بات آخری عمر میں حافظہ کی کمزوری کی تو آخری عمر میں انہوں نے قراء ت پڑھنا چھوڑ دی تھی ان سے جتنی بھی قراء ۃ نقل کی گئی اس سے پہلے کی ہے۔

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’آخری عمر میں حافظہ کمزور ہوگیا تو انہوں نے احتیاط کے پیش نظر اپنی وفات سے سات سال قبل قراء ۃ کی تعلیم موقوف کردی تھی‘‘ (سیراعلام:۱۴؍۸۴)

معلوم ہوا یہ انقطاع یا کمزوری حافظہ قراء ت پر اثر انداز نہیں ہوئے۔

(٤)قنبل کے استاد اور ان کے شیخ کا نامعلوم ہونا:

جواب: قنبل کے استاد ابوالاخریط اور ان کے اساتذہ گمنام اورمجہول الحال نہیں ہیں بلکہ امام ذہبی نے انہیں کبار قراء میں شمار کیاہے۔ (معرفۃ القراء الکبار، ص۱/۱۲۱)

(٥)بزی کا منکر الحدیث ہونا۔ استادِ بزی کامجہول ہونا:

جواب: ہم پہلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ اس بات کا توتمنا عمادی کو اعتراف ہے کہ ایک فن کی کمزوری دوسرے فن کی کمزوری کی دلیل نہیں ہے۔ امام بزی کی قراء ۃ کی توثیق ابن حجر نے لسان المیزان: ۱؍۴۲۵ اور امام ذہبی نے میزان الاعتدال :۱؍۱۴۴ میں کی ہے۔ نیز اگر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ بزی حدیث میں بھی منکر نہیں بلکہ راجح قول کے مطابق ثقہ ہیں چنانچہ ابن حجر فرماتے ہیں:

’’ذکرہ ابن حبان فی الثقات‘‘ (لسان المیزان :۱؍۴۲۶)

٭ بزی کے استاد کا مجہول ہونا :

جواب: بزی کے استاد عکرمہ بن سلیمان سے یہی بات صحیح ہے اور اسی بات کو خود تمنا عمادی نے اعجاز القرآن ص۶۸۰ پر نقل کیا ہے کہ بزی، عکرمہ بن سلیمان کا اور عکرمہ اسماعیل قسط کے شاگرد ہیں اور یہاں آپ اس بات کاانکار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کااستاد نامعلوم ہے۔ اسماعیل قُسط کے بارہ میں یہ کہنا کہ ابن حجر اور ذہبی نے ان کا کوئی تذکرہ نہیں کیا تو یہ ’علمی وسعت‘ہے۔ ذہبی نے معرفۃ القراء طبقہ رابعہ میں اسماعیل قسط کا مفصل ترجمہ نقل کیا ہے۔

ابوعمرو بصری رحمہ اللہ

(١) حمید بن قیس جو کہ بصری کے استاد ہیں، کا قاری ہونا اور ان کے قراء اساتذہ کامجہول ہونا۔

(٢) بصری کے استاد یحییٰ بن یعمر شراب منصف پیتے تھے۔ بصری کا ان سے پڑھنا ذرا مشکوک ہے۔

(٣) ابوعمرو کا سعید بن جبیر سے قراء ت پڑھنا ناممکن ہے نیز سعد بن جبیر قاری بھی نہ تھے۔

(٤) عکرمہ البرمری جو استادِ ابوعمرو ہیں کو یحییٰ بن سعید قطان نے کذاب کہا ہے۔ابن عمر نے جھوٹا کہا ہے مالک سخت ناپسند سمجھتے تھے۔ یہ قاری بھی نہ تھے۔

(٥) روایت بصری کی نسبت مکی کی طرف کیوں نہیں حالانکہ وہ بصری کے براہ راست شاگرد ہیں۔

جوابات

(١)بصری کے استاد کا مجہول ہونا اورقاری نہ ہونا:

جواب: امام جزری رحمہ اللہ نے طبقات القراء میں فرمایا ہے: حمید بن قیس الاعرج ابوصفوان مکی ثقہ قاری ہیں۔انہوں نے قراء ت مجاہد بن جبیر سے حاصل کی اور انہیں ترپن(۵۳) مرتبہ قرآن مجید سنایا۔ان سے بصری نے نقل کیا۔ حمیدنے ۱۳۰ھ میں وفات پائی۔ (طبقات:۱؍۲۶۵)

معلوم ہوا حمید بصری کے استاد ہیں اور ثقہ قاری ہیں۔اسی طرح امام ذہبی رحمہ اللہ نے معرفۃ القراء الکبار: ۱؍۸۰ میں حمیدکو استاد بصری اور قاری کہا ہے۔

(٢)یحییٰ بن یعمر کاشراب پینا اور استادِ بصری نہ ہونا:

جواب: پہلی بات تو یہ کہ شراب پینے والا قول ابن حجر نے صیغہ تمریص (قیل) کے ساتھ نقل کیا ہے جو اس کے ضعف پر دلالت کرتاہے۔موصوف فرماتے ہیں:’’وقیل ان قتیبۃ عزلہ لما بلغہ انہ یشرب المنصف‘‘

’’اور کہاگیا ہے جب قتیبہ بن مسلم کو یحییٰ کے منصف پینے کی خبر ملی تو اس نے اسے معزول کردیا۔‘‘

دوسری بات یہ کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ بصیغہ جزم فرماتے ہیں:

’’اسے ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا اورفرمایا ہے کہ وہ انتہائی پرہیزگار، فصحاء اور کثیر العلم علماء میں سے تھے۔‘‘ (تہذیب التہذیب:۱؍۳۸۱)

رہی بات بصری کے حمید سے پڑھنے کی تو اس میں تو جناب کو بھی ذرا سا شک ہی ہے۔ یہ شک بالکل غلط ہے، کیونکہ یحییٰ کی وفات کے وقت بصری کی عمر ۲۱ برس تھی۔

(٣) ابوعمرو کا سعید بن جبیر سے قراء ت نہ پڑھنا اور ابن جبیر کا قاری نہ ہونا:

جواب: علامہ عمادی رحمہ اللہ ابن جبیر کے استادِ بصری ہونے سے اس لیے انکاری ہیں کہ ۷۲ھ کے بعد وہ میدان سیاست میں آگئے جبکہ اس وقت بصری چار برس کے تھے پھر ۹۲ھ میں قتل تک۲۳ برس مکہ میں روپوش رہے۔

ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ ۲۳ برس مکہ میں روپوش ہوتے ہوئے اگر ان سے حدیث نقل کی جاسکتی ہے تو قراء ت کیوں نہیں؟دوسرا یہ کہ اس وقت ائمہ اس طرح نقل نہیں کرتے تھے کہ الف سے یا تک ابتداء سے انتہاء تک کی تعلیم حاصل کرتے بلکہ وہ ابتدائی تعلیم صغار اَساتذہ سے حاصل کرتے پھر کبار اساتذہ سے کسب فیض کرتے تاکہ اداء ٹھیک ہوسکے اور سلسلہ مسندمیں داخل ہوسکیں۔ اور اس طرح تعلیم حاصل کرنے کے لیے کوئی بہت طویل عرصہ درکار نہیں ہوتا تھا بلکہ مختصر عرصہ میں یہ کام ہوجاتا تھا۔ امام جزری رحمہ اللہ نے اس کی کئی مثالیں پیش کی ہیں:

(١) حضرمی نے سلام طویل سے ڈیڑھ سال میں قرآن پڑھا (۲) ابن مومن نے صائغ سے صرف سترہ دنوں میں متعدد کتب کے طرق سے جمعاًقرآن مجید سنایا۔ (نشر:۲؍۱۹۸)

(٤) عکرمہ (استادِ بصری) پر جرح:

جواب:(١)یحییٰ القطان نے جو جرح کی وہ حدیث کے متعلق کی ہے نہ کہ قراء ت کے متعلق۔

(٢) خود امام موصوف (یحییٰ) نے عکرمہ کو ابن عباس کے خصوصی تلامذہ میں نقل کیا ہے۔ (سیراعلام :۵؍۱۸)

ابن عمرؓ کاکہنا: ’’ اتق اﷲ (یا نافع) ویحک لاتکذب… ‘‘

’’ اے نافع اللہ سے ڈرنا اور میری بابت جھوٹی بات نہ کہنا جس طرح عکرمہ نے ابن عباس کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کردی ہیں‘‘ (سیر:۵؍۲۲)

جواب: امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس روایت میں یحییٰ بکاء بالاتفاق متروک ہے اور مجروح آدمی کی بات سے کسی عادل پر جرح نہیں کی جاسکتی۔ دوسرا یہ کہ عکرمہ تو ابن عمر کے زمانہ میں روایت ہی نہ کرتے تھے پھر ان کے متعلق یہ قول کیسے ہوسکتا ہے؟ اور تیسرا یہ کہ اہل حجاز بسااوقات کذب کا اطلاق خطاء پربھی کرتے ہیں تو اس وقت اس کامعنی ہوگا غلطی سے بچنا۔

امام مالک رحمہ اللہ کی جرح

حافظ ابن حجر عکرمہ کادفاع کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’کسی بھی قطعی دلیل سے یہ بات ثابت نہیں کہ عکرمہ خوارج کی رائے رکھتے تھے۔ ہاں بعض مسائل میں ان کے موافق تھے جس کی وجہ سے انہیں خارجی کہا گیا۔‘‘ (مقدمۃ فتح الباری، ص۴۲۷)

امام مالک رحمہ اللہ نے بھی ان سے روایت نقل کی بعض جگہ رجل کہہ کر اور بعض جگہ صریح نام بول کر۔

جب حدیث میں صحیح نہیں تو قرآن ان سے کیوں نہیں نقل کیا جاسکتا؟ رہی بات عکرمہ کے قاری نہ ہونے کی تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے انہیں (معرفۃ القراء:۱؍۸۳) میں قاری شمار کیا ہے۔

(٥) روایت مکی ان کی طرف منسوب کیوں نہیں:

جواب: چونکہ دونوں نے مجاہد بن جبیر سے پڑھا ہے اس لیے انہیں بھی درجہ امامت حاصل ہوا۔

عبداللہ بن عامر شامی

شامی پر مندرجہ ذیل اعتراضات کئے گئے ہیں:

(١) مغیرہ بن ابی شہاب (اُستاذ شامی) مجہول الحال ہیں، نیز مغیرہ نے کسی صحابی اور شامی نے مغیرہ کے علاوہ کسی اور اُستاد سے نہیں پڑھا۔

(٢) شامی نے ابوالدرداء سے قرآن نہیں پڑھا، نیز شامی ۸ ہجری میں پیدا نہیں ہوئے۔

جوابات

(١)مغیرہ کا مجہول ہونا:

جواب: مغیرہ بن ابی شہاب مجہول شخص نہیں کہ جن کے حالات زندگی کا علم نہ ہوسکا ہو۔ امام ذہبی نے مغیرہ کے ترجمہ میں یہ بات لکھی ہے کہ مغیرہ نے عثمان سے اورمغیرہ سے ابن عامر شامی نے پڑھا( معرفۃ القراء :۱؍۴۳) اور امام جزری رحمہ اللہ نے بھی طبقات میں ان کا ترجمہ نقل کیاہے۔(طبقات القراء :۲؍۳۰۵)

٭ رہی بات مغیرہ کے کسی صحابی سے نہ پڑھنے کی تو انہوں نے ابودردائ، واثلہ بن اسقع، اور فضالہ بن عبید سے شرف تلمذ حاصل کیا۔ (معرفۃ :۱؍۶۷، طبقات :۱؍۴۲۴)

٭ اور شامی نے مغیرہ کے علاوہ قاضی دمشق فضالہ بن عبید سے پڑھا (سیر:۵؍۲۹۲) اور امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’یہ قول انتہائی گرا ہوا ہے کہ جن شیوخ سے شامی نے پڑھا ان کا علم نہیں۔اس قول کا جواب دینا ہی لغو بات ہے۔ ‘‘ (طبقات:۱؍۴۲۴)

(٢) ابودرداء استادِ شامی نہیں ہیں:

جواب: امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’یہ بات ہم نے قوی سند کے ساتھ نقل کی ہے کہ شامی نے ابودرداء سے پڑھاہے۔‘‘ (سیر :۵؍۲۹۲)

امام دانی رحمہ اللہ نے بھی شامی کا ابودرداء سے پڑھنا ثابت کیاہے۔ امام جزری رحمہ اللہ دانی کے اس قول کے متعلق فرماتے ہیں اس معاملہ میں دانی کی شخصیت ہی کافی و وافی ہے۔ (طبقات القراء :۱؍۴۲۴)

٭ رہی بات شامی کے ۸ ہجری میں پیدانہ ہونے کی۔ تو ابن عامر خود فرماتے ہیں:

’’کہ میں رحلت نبویﷺ سے دو برس قبل۸ ہجری میں پیداہوا اور جب دمشق فتح ہوا تو میں اس وقت نو(۹) برس کا تھا میں وہیں (دمشق)میں منتقل ہوگیا۔ امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ۲۱ ہجری کے مقابلہ میں یہ قول زیادہ درست ہے، کیونکہ یہ خود شامی سے منقول ہے۔ (طبقات القراء :۱؍۴۵۲)

امام عاصم :

(١) عاصم اور ان کے شاگرد شعبہ و حفص شیعہ تھے۔

(٢) عاصم کاحافظہ کمزور تھا اور یہ ثقہ بھی نہ تھے۔

(٣) ابوعبدالرحمن سلمی کے (عاصم کے استاد کے) والد صحابی نہ تھے۔

(٤) سلمی کی وفات کے وقت عاصم کی عمر صرف سات سال تھی جو حصول قراء ت کے لیے موزوں نہیں۔

(٥) حفص حدیث میں ضعیف ہیں۔

امام عاصم اور ان کے تلامذہ کے متعلق مذکورہ بالامعروف اعتراضات کے ذیل میں جوابات تحریر کئے جاتے ہیں:

جوابات

(١)عاصم اور ان کے شاگردوں کاشیعہ ہونا:

جواب: نہ تو امام عاصم شیعہ تھے اورنہ ہی ان کے دونوں ناقل شاگرد شیعہ تھے۔امام عاصم سنی اور عثمانی تھے۔امام عجلی فرماتے ہیں: ’’حفص عثمانی تھے(نہ کہ شیعہ)‘‘ (تہذیب :۲؍۲۵۱)

موسیٰ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے عاصم سے حدیث علی رضی اللہ عنہ کے متعلق سوال کیا۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں:

’’ نبیؐ کے بعد ابوبکر وعمر کامقام ہے اور تیسرے آدمی کے مقام کو بھی میں جانتا ہوں ان کی تیسرے سے مراد کیاہے، فرمایا ان کی مراد حضرت عثمان تھے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقام اس سے کہیں اونچا ہے کہ وہ تیسرے سے اپنی ذات مراد لیتے۔ ‘‘ (معرفۃ القراء :۱؍۷۶، سیر:۵؍۲۵۹)

٭ اِمام حفص بھی سنی تھے۔ابوہشام رفاعی کہتے ہیں حفص قراء ۃ عاصم کے سب سے بڑے عالم و ماہر تھے۔ ابن منادی کہتے ہیں حفص قراء ۃ عاصم کے اختلافات کے ضابط تھے۔ (معرفۃ القراء :۱؍۱۱۷) جب یہ عاصم کی قراء ۃ کے ماہر تھے تو عاصم سنی تھے لہٰذا یہ بھی سنی تھے۔

٭ اِمام شعبہ سنی تھے۔رفاعی کہتے ہیں ، میں نے شعبہ کو یہ کہتے سنا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بنص قرآنی خلیفہ ہیں۔ (سیر اعلام:۸؍۵۰۰)

معلوم ہواشعبہ بھی سنی تھے۔

(٢) عاصم کا ضعیف الحفظ ہونا:

جواب: عاصم امام قراء ت، ثقہ اور ثابت تھے۔

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’امام عاصم قراء ۃ میں ثقہ اور حدیث میں سچے ہیں۔‘‘(سیر:۵؍۲۶۰)اور یہی بات انہوں نے میزان الاعتدال :۲؍۳۵۷ میں کہی ہے۔

(٣) والد سلمی کی صحابیت :

جواب:ابوعبدالرحمن عبداللہ بن حبیب السلمی کے والد صحابی تھے۔ ذہبی فرماتے ہیں۔ سلمی اولادصحابہ میں سے ہیں۔ان کی ولادت عہد نبوی میں ہوئی۔ ابن حجررحمہ اللہ نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے۔ (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ:۲؍۱۷)

معلوم ہوا سلمی کے والد صحابی تھے۔

(٤) امام عاصم کی عمر سات برس تھی:

جواب:امام عاصم خود فرماتے ہیں کہ جب ہم سلمی کے پاس پڑھنے کے لیے آتے تو ہم قریب البلوغ تھے۔ (معرفۃ القراء :۱؍۷۵)

یہ تو اس وقت کی بات ہے جب وہ زمانہ طالب علمی میں تھے جبکہ عاصم کی فراغت کے بعد بھی کافی عرصہ سلمی زندہ رہے ہیں۔لہٰذا یہ کہنا کہ سلمی کی وفات کے وقت عاصم صرف سات سال کے تھے اور یہ عمر فن قراء ت سیکھنے کی نہیں ہے۔ گویاناقد یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ امام عاصم نے جناب سلمی سے کچھ بھی نہیں پڑھا۔ اگر پڑھا بھی ہے تو محض تھوڑا سا صرف تبرک حاصل کرنے کے لئے۔ حالانکہ یہ بات بالکل درست نہیں کیونکہ امام عاصم خود فرماتے ہیں، میں نے پورے کا پورا قرآن امام سلمیؒ کو سنایا۔ (طبقات:۱؍۳۴۸)

(٥) حفص کا حدیث میں ضعیف ہونا:

جواب: بات قراء ت کی ہے حدیث کی نہیں۔امام حفص قراء ت میں ثقہ اور حجت ہیں جیساکہ پہلے گزر چکاہے دوسری بات جیسے پہلے گزر چکا کہ ایک فن کی کمزوری دوسرے فن کے لیے مضر نہیں۔

امام حمزہ کوفی

(١) قراء ۃ حمزہ پربعض محدثین کی جرح اور ناپسندیدگی۔

(٢) حمزہ تابعی نہیں لہٰذا اثر صحابی کو سامنے رکھ کر حمزہ کا قراء ت اختیار کرنا صحیح نہیں ہے۔

(٣) قراء ۃ حمزہ کی صفائی صرف سفیان ثوری نے دی۔

ذیل میں مذکورہ بالا اعتراضات کے جوابات تحریر کئے جاتے ہیں۔

جوابات

(١) محدثین کی جرح:

جواب: محدثین نے قراء ت حمزہ پرناپسندی کااظہار اس لیے کیا کہ حمزہ کے بعض شاگردوں نے ادغام اور مد وغیرہ میں تکلفات اور غلو سے کام لینا شروع کردیا تھا، لیکن جب انہوں نے امام حمزہ کی طرف رجوع کیا تو انہوں نے ان تکلفات اور غلو کی تردید کی جس کے بعد یہ بات واضح ہوگئی اوربالاخر حمزہ کی قراء ت پر امت کااتفاق ہے۔

امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’شافعی اور احمد بن حنبل کی قراء ۃ نافع کے متعلق اظہار ناپسندیدگی اس وجہ سے ہے کہ ان میں سے جس نے بھی تلاوت سنی وہ قراء ت حمزہ میں غلطی کامرتکب تھا، کیونکہ روایات میں غلطی ناقلین کی طرف سے ہی ہوتی ہے نہ کہ جن سے نقل کی جارہی ہے۔ چنانچہ محمد بن ہیثم کہتے ہیں قراء ۃ حمزہ کی کراہت کی وجہ یہ ہے کہ حمزہ کا کوئی شاگرد شافعی کی مجلس میں آیا اور اس نے خلاف قواعد مدوں کی مقدار وغیرہ میں غلطی کی جس کو امام صاحب نے ناپسند کیا۔ مزید فرماتے ہیں امام حمزہ اپنے شاگردوں کو اس طرح کی غلطیوں سے باز رکھتے تھے جب ان کے سامنے کوئی تلاوت کرتے ہوئے غلو سے کام لیتا تو اسے فرماتے کیا تمہیں معلوم نہیں سفیدی حد سے بڑھ جائے تو برص کہلاتی ہے اور زلفوں میں خم زیادہ ہو تو وہ الجھاؤ کہلاتا ہے لہٰذا اس طرح مت پڑھو۔‘‘ (طبقات القراء:۱؍۲۳۶)

(٢) حمزہ کا اختیار قرآن:

جواب:علامہ تمناعمادی کو شاید قول سفیان سمجھتے میں خطاہوئی ہے۔قول سفیان ہے:

’’ماقرأ حمزۃ حرفاً الا بأثر‘‘ ’’حمزہ نے بغیر نقل کے کوئی بھی اختلاف روایت نہیں کیا۔ ‘‘

تو یہاں ’اثر‘ کالفظ دیکھ کر جناب نے یہ سمجھا کہ اثارصحابہ سے اپنی قراء ت اختیار کی حالانکہ یہ غلط ہے۔

امام سفیان کا قول تو خود حمزہ کی قراء ت کے منقول ہونے کی دلیل ہے۔

(٣)ثوری کی اکیلی گواہی :

جواب: امام حمزہ کی توثیق صرف سفیان ثوری نے نہیں کی بلکہ متعدد علماء نے کی ہے بطورمثال چند درج ذیل ہیں:

٭ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’حمزہ قراء ات و میراث میں لوگوں پر غالب آگئے۔‘‘ (تہذیب:۱؍۴۸۹)

٭ شعیب بن حرب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’تم مجھ سے موتیوں جیسی قراء ت حمزہ کے متعلق سوال کیوں نہیں کرتے۔‘‘(سیر :۵؍۹۱)

٭ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’آپ امام، مقتداء، شیخ القراء اورکتاب اللہ کے مخلص اور مستعد خادم تھے۔‘‘ (سیر:۷؍۹۰)

٭ امام نسائی نے فرمایا:

’’ حمزہ میں کچھ مضائقہ نہیں ۔‘‘ (تہذیب:۱؍۴۸۸)

٭ امام الجرح والتعدیل یحییٰ بن معین فرماتے ہیں:

’’حمزہ ثقہ آدمی ہے۔ ‘‘ (تہذیب:۱؍۴۸۸)

معلوم ہواحمزہ کی توثیق ثوری کے علاوہ بھی بہت سارے لوگوں سے منقول ہے۔

امام کسائی

(١) امام کسائی کے اساتذہ ابن ابی لیلیٰ اور اعمش، شیعہ تھے۔

(٢) ابوبکر بن عیاش (استاذ کسائی) روایت میں بہت غلطیاں کرتے تھے۔

جوابات

(١) ابی لیلیٰ اور اعمش کا شیعہ ہونا:

جواب: عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کو ائمہ رجال میں سے کسی نے بھی رافض نہیں کیا، بلکہ اس کے برعکس وہ سنی تھے۔عجلی کہتے ہیں: ’’وہ فقیہ سنی اور قرآن کے عالم تھے اور دوسری بات یہ کہ ان پر جرح حدیث میں ہے فقہ، قضاء اور قرآن و قراء ت میں نہیں۔‘‘

٭ رہی بات اعمش کی تو کتب رجال میں کسی نے بھی کسائی کو اعمش کاشاگرد نہیں لکھا بلکہ وہ زائدہ بن قدامہ کے شاگرد ہیں اورزائدہ اعمش کے شاگرد ہیں۔ (طبقات القراء :۱؍۵۳۵)

امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’اعمش ثقات میں سے ایک ثقہ ہیں ان کا شمار صغار تابعین میں ہوتاہے ان پر محدثین کے ہاں صرف تدلیس(عن الضعفاء)کا عیب ہے۔‘‘ (میزان الاعتدال:۲؍۲۲۴)

معلوم ہوا اعمش ثقہ اور عادل و ضابط ہیں۔ ان کی تدلیس صرف محدثین کے ہاں ہے۔ قراء ت میں تدلیس کا سوال ہی پیدانہیں ہوسکتا، کیونکہ قراء ات کی اسانید متواترہ ہیں لہٰذا اعمش کی قراء ت حجت ہے۔

٭ رہی بات ان کے رفض کی تو وہ بھی صرف حب علی کی حد تک ہے جو مضر اور قادح نہیں ہے۔

(٢) ابن عیاش کا کثیر الاغلاط ہونا:

جواب:علامہ ذہبی رحمہ اللہ اس جرح پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’یہ قراء ت میں ثقہ تھے لیکن حدیث میں کمزور تھے۔ ‘‘ (سیراعلام:۸؍۴۹۷)

معلوم ہوا قراء ت میں وہ پختہ تھے لہٰذاقراء ت میں غلطی ممکن نہیں ہے۔

(بشکریہ ماہنامہ رشد)