امام ابن جزری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ تیس سال تک میرے غورکے نتیجہ جو معنی مجھ پر منکشف ہوا وہ یہ ہے کہ سبعہ احرف سے مراد اختلافِ قراء ات کی سات وجوہ ہیں ۔ ان کے مطابق مروّجہ قراء ات کے مجموعہ اختلاف میں غور کیا جائے تومعلوم ہوگا کہ یہ تمام قراء ات سات وجوہ اختلافات سے باہر نہیں ۔ پھر انہوں نے اپنے تیس سال کے حاصل استقراء کو پیش کرتے لغات ولہجات کو ایک حرف اورچھ قسم کے مزید اختلافات کو چھ حروف قرار دیا ۔
امام ابن جزری رحمہ اللہ کی طرح جو لوگ سبعہ احرف سے مراد سبعہ اوجہ لیتے ہیں ، ان میں سے بعض لوگوں کا حافظ ابن جزری رحمہ اللہ کی سات وجوہ قراء ات سے اگرچہ تعبیر کا کچھ فرق ہے، لیکن اس معمولی اختلاف سے قطع نظر اپنے موقف کے اعتبار سے یہ تمام لوگ ایک ہی تشریح پر متفق ہیں ۔دیگر کئی اہل علم کو اس تشریح سے اتفاق نہیں ، لیکن ان کا یہ اختلاف تضاد کا نہیں ،بلکہ محض تعبیر بیان کاہے، کیونکہ موجودہ قراء ات عشرہ کے بارے میں سارے ہی اس بات پر متفق ہیں کہ سبعہ احرف کا مصداق یہ قراء تیں ہیں ، اختلاف صرف سبعہ اَحرف کے تعین میں ہے۔
سبعہ لہجات یا سبعہ وجوہ :
گزشتہ تحریر میں ہم نے سبعہ احرف کی تعیین اَساس سے کرنے کی کوشش کی ہیں ۔جو رائے ہم نے بیان کی وہ کوئی غیر معروف نہیں اور اس کے قائلین کو اہل علم واہل فن کے ہاں نمایاں ترین مقام حاصل ہے، بلکہ اس رائے کا امتیاز ہی یہ ہے کہ اس کے قائلین مثلاً ابو محمد مکی ابن طالب القیسی، امام ابو عمرو دانی، امام طبری رحمہم اللہ وغیرہ بالعموم ابتدائی دور کے لوگ ہیں ۔البتہ پہلے قول کی طرح ان لوگوں کی آراء میں بھی ذیلی طور پر معمولی اختلاف ہے، لیکن بالعموم یہ تمام لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ سبعہ احرف سے مراد سبعہ لغات(لہجے) ہیں ۔ہماری رائے میں بھی یہ توجیہ و رائے ہی قوی ہے۔ اس رائے کے ذیادہ قوی ہونے کے کچھ دلائل ہم نے گزشتہ تحاریر میں پیش کیے یہاں انکا خلاصہ کے ساتھ مزید چند نقاط پیش کیں۔
1۔ اقوام عالم کی تمام زبانوں کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ ہر تیس میل کے بعد زبان کا لہجہ بدل جاتا ہے۔ اسی طرح عربوں میں بے شمار قبائل تھے اور ان میں لہجوں کا فرق موجود تھا۔ ان قبائل کے اعتبار سے ان کے لہجے ایک نہیں تھے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے فریاد کی کہ
( إن أمَّتی لا تطیق ذلک ) <مسلم:۸۲۱>undefined
یعنی میری امت ایک لہجے وحرف پر پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ سبعہ وجوہ کے قائلین کے متعین کردہ لہجات ولغات کے ایک حرف کے ماسوا باقی چھ حروف ، مثلا حذف و زیارت، تقدیم وتاخیر، غیب وخطاب، تذکیر وتانیث، حرکات وسکنات وغیرہ کے اختلاف میں تو ایسی کوئی مشکل نہیں کہ ان کو پڑھنے میں اہل عرب کو کئی مشکل ہوتی۔ جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرکر کے حروف وقراء ات کے اختلاف کو مانگ رہے ہیں ۔ اُمت اس چیز کی کسی طرح طاقت نہیں رکھتی کہ ایک حرف کو مؤخر اوردوسرے کو مقدم کرکے پڑھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں بچے، عورتیں اور بوڑھے لوگ ہیں ،یہ تمام لوگ اپنی متعدد مشکلات کے باعث ایک حرف یعنی ایک لہجہ پر توقرآن کو پڑھ نہیں سکتے، حالانکہ یہ لوگ مذکورہ قسموں کے اختلاف کو توبغیر کسی دشواری کے پڑھ سکتے تھے۔
اصل مسئلہ لغتوں اور لہجوں کا تھا۔ اصل میں مشکل یہ تھی جیسے دیہاتی شہر آتے ہیں تو اردو والا لہجہ بڑی مشکل سے اختیار کرناممکن ہوتا ہے، اسی طرح اردو دان طبقہ کے لیے انگریزی سٹائل میں انگریزی بولنا بہت محنت کا متقاضی ہوتا ہے۔ اور پھر لہجے کے اسلوب کو اگر ۱۰۰ فیصدلحونِ عرب کے مطابق ادا کرنا بھی شرط ہو تو یہ اور بھی مشکل ہے۔ سات حرفوں کے نازل ہونے کی اصل وجہ یہی تھی کہ بچے اس لیے نہیں پڑھ سکتے کہ وہ ابھی چھوٹے ہیں ۔ماں کی گود سے جو انہوں نے لہجہ سیکھا ہے وہ لہجہ ان کے لیے آسان ہے۔ بوڑھے اس لیے نہیں کہ وہ ساری زندگی گزار چکے ہیں ،اب وہ کیسے صحیح کریں ۔عورتیں اس لیے نہیں کہ عورتوں نے گھروں میں رہنا ہے، انہیں اس سارے معاملہ کے لیے وقت درکار نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ فرمایا: ( إنَّ أمَّتی لا تطیق ذلک ) <مسلم:۸۲۱ رضوان اللہ علیہم اجمعین واضح ہوا کہ جس بنیادی وجہ سے سبعہ احرف اترے، اس کا اصل تعلق لغات یا لہجات سے ہے۔
2۔ سبعہ احرف کی جو تشریح سبعہ اوجہ والے لوگ کرتے ہیں اس پر بنیادی اعتراض یہ لازم آتا ہے کہ سبعہ احرف بمراد سبعہ اوجہ کی تعبیر کے مطابق ہر ہر حرف اختلافِ قراء ات کے ایک ایک جوڑے پر مشتمل ہے اور کوئی ایک حرف بھی ایسا نہیں جس کو اگر پڑھا جائے تو تلاوت قرآن کا ایک انداز مکمل ہو۔ یعنی اس تعبیر میں مخصوص کلمات کو متعدد طرح پڑھنے کا تذکرہ تو ہے لیکن کوئی ایک حرف بھی تلاوتِ قرآن کا مکمل سیٹ نہیں بن سکتا،بلکہ ہم تو کہیں گے کہ تمام حروف بھی ملا لیے جائیں تو بھی قرآن کی تلاوت کا ایک مکمل انداز سامنے نہیں آتا۔ مثلاًہم سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کرنا چاہتے ہیں تو کسی ایک حرف یا تمام حروف کو بھی ملا لیں تو ان میں سورۃ الفاتحہ کے مختلف فیہ مقامات کا ذکر تو آجاتا ہے، لیکن سورۃ کے متفق فیہ کلمات کا تذکرہ ہی نہیں آتا۔
مزید جب ہم اس بات کو اس تناظر میں دیکھتے ہیں کہ قرآن مجیدکا نزول تومکہ میں ہوا اور عام شہرت کے مطابق اس وقت قرآن لغت قریش کے مطابق تھا، جبکہ قراء توں کا اختلاف مدینہ میں اترا ہے، کیونکہ حدیث جبریل ومیکائیل اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کا ان سے مکالمہ بنی غفار کے تالاب کے پاس ہوا تھا اور بنی غفار مدینہ میں بسنے والے ایک قبیلہ کا نام ہے۔اسی طرح قراء توں کے ضمن میں صحابہ میں جو اختلاف ہوا وہ مسجد میں ہوا تھا، جبکہ مسجدیں مکہ میں نہیں تھیں ۔ مکہ مکرمہ میں صحابہ کرام تیرہ سال قرآن کریم پڑھتے رہے، تو وہ قرآن کے کسی نہ کسی حرف کی تلاوت توتھی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حروف کی تفسیر سبعہ اوجہ سے کی جائے تو امام ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ کے مطابق کوئی ایک حرف بھی لے لیں تو ثابت ہوتا ہے کہ مکہ میں ابتدائے نزولِ قرآن ہی سے صحابہ متعدد قراء توں میں پڑھتے تھے۔ مکہ میں قرآن کریم کے پڑھنے کا انداز کوئی ایک حرف لے لیں تو وہ یاتو تقدیم وتاخیر کا حرف بنتا ہے یا حذف واثبات کا حرف بنتا ہے یا تبدیلی حرکات کا حرف بنتا ہے یا متعدد لہجوں کا حرف بنتا ہے، قرآن کریم کا کوئی ایک سیٹ بہرحال نہیں بنتا۔ مکہ میں قرآن کریم تو اس طرح سے پڑھا جاتا تھا کہ جب قرآن پڑھیں تو وہ قرآن کی پوری سورت بننی چاہئے، مثلاً سورۃ الفرقان مکی ہے تو مکہ میں سورۃ الفرقان پڑھی جاتی تھی تو اس وقت یہ ایک حرف پر پڑھی جاتی تھی۔ وہ ایک حرف کون سا تھا؟ اگر آپ ان سات میں سے کوئی ایک حرف لے لیں تو سورۃ الفرقان نہیں بنتی، کیونکہ سات حرفوں میں سے کوئی حرف پورے قرآن کے اعتبار سے حرف کی تشریح نہیں ہے۔ اس ضمن میں حدیث سبعہ احرف میں وارد الفاظ( کلّہن شاف کاف )[نسائی:۹۴۱>undefined
2۔ سبعہ احرف کی جو تشریح سبعہ اوجہ والے لوگ کرتے ہیں اس پر بنیادی اعتراض یہ لازم آتا ہے کہ سبعہ احرف بمراد سبعہ اوجہ کی تعبیر کے مطابق ہر ہر حرف اختلافِ قراء ات کے ایک ایک جوڑے پر مشتمل ہے اور کوئی ایک حرف بھی ایسا نہیں جس کو اگر پڑھا جائے تو تلاوت قرآن کا ایک انداز مکمل ہو۔ یعنی اس تعبیر میں مخصوص کلمات کو متعدد طرح پڑھنے کا تذکرہ تو ہے لیکن کوئی ایک حرف بھی تلاوتِ قرآن کا مکمل سیٹ نہیں بن سکتا،بلکہ ہم تو کہیں گے کہ تمام حروف بھی ملا لیے جائیں تو بھی قرآن کی تلاوت کا ایک مکمل انداز سامنے نہیں آتا۔ مثلاًہم سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کرنا چاہتے ہیں تو کسی ایک حرف یا تمام حروف کو بھی ملا لیں تو ان میں سورۃ الفاتحہ کے مختلف فیہ مقامات کا ذکر تو آجاتا ہے، لیکن سورۃ کے متفق فیہ کلمات کا تذکرہ ہی نہیں آتا۔
مزید جب ہم اس بات کو اس تناظر میں دیکھتے ہیں کہ قرآن مجیدکا نزول تومکہ میں ہوا اور عام شہرت کے مطابق اس وقت قرآن لغت قریش کے مطابق تھا، جبکہ قراء توں کا اختلاف مدینہ میں اترا ہے، کیونکہ حدیث جبریل ومیکائیل اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کا ان سے مکالمہ بنی غفار کے تالاب کے پاس ہوا تھا اور بنی غفار مدینہ میں بسنے والے ایک قبیلہ کا نام ہے۔اسی طرح قراء توں کے ضمن میں صحابہ میں جو اختلاف ہوا وہ مسجد میں ہوا تھا، جبکہ مسجدیں مکہ میں نہیں تھیں ۔ مکہ مکرمہ میں صحابہ کرام تیرہ سال قرآن کریم پڑھتے رہے، تو وہ قرآن کے کسی نہ کسی حرف کی تلاوت توتھی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حروف کی تفسیر سبعہ اوجہ سے کی جائے تو امام ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ کے مطابق کوئی ایک حرف بھی لے لیں تو ثابت ہوتا ہے کہ مکہ میں ابتدائے نزولِ قرآن ہی سے صحابہ متعدد قراء توں میں پڑھتے تھے۔ مکہ میں قرآن کریم کے پڑھنے کا انداز کوئی ایک حرف لے لیں تو وہ یاتو تقدیم وتاخیر کا حرف بنتا ہے یا حذف واثبات کا حرف بنتا ہے یا تبدیلی حرکات کا حرف بنتا ہے یا متعدد لہجوں کا حرف بنتا ہے، قرآن کریم کا کوئی ایک سیٹ بہرحال نہیں بنتا۔ مکہ میں قرآن کریم تو اس طرح سے پڑھا جاتا تھا کہ جب قرآن پڑھیں تو وہ قرآن کی پوری سورت بننی چاہئے، مثلاً سورۃ الفرقان مکی ہے تو مکہ میں سورۃ الفرقان پڑھی جاتی تھی تو اس وقت یہ ایک حرف پر پڑھی جاتی تھی۔ وہ ایک حرف کون سا تھا؟ اگر آپ ان سات میں سے کوئی ایک حرف لے لیں تو سورۃ الفرقان نہیں بنتی، کیونکہ سات حرفوں میں سے کوئی حرف پورے قرآن کے اعتبار سے حرف کی تشریح نہیں ہے۔ اس ضمن میں حدیث سبعہ احرف میں وارد الفاظ( کلّہن شاف کاف )[نسائی:۹۴۱>بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں ، کیونکہ ان سے مقصود یہ ہے کہ حروف سبعہ میں سے ہر حرف تلاوتِ قرآن سے کفائت کرتا ہے۔ جب ہم حروف کی تفسیر ایک مکمل سیٹ کے اعتبار سے نہیں کرتے تواعتراض پیدا ہوتا ہے کہ( کلہن شاف کاف) <نسائی:۹۴۱>undefined کا معنی کیا ہوگا؟
بات کو سمجھانے کے لیے عملی اعتبار سے کچھ مزید وضاحت کرتا ہوں کہ مثلا اگر سبعہ اوجہ والا قول سبعہ احر ف کی تشریح مانیں تومکہ میں تو بہرحال ایک حرف پر قرآن پڑھا جاتا تھا۔ اب اگر آپ وہ حرف غیب وخطاب والا لے لیں تو یہ بات بہرحال قطعی ہے کہ یعلمون،تعلمون دونوں مکہ کے اندر نہیں تھے، مکہ میں تو صرف ایک تھا۔ اسی طرح اگر آپ حرکات وسکنات کے اختلاف کا حرف لے لیں تو یَکْذِبون، یُکَذِّبُون دونوں میں سے کوئی ایک مکہ میں مقروء تھی دوسری نہیں ۔اسی طرح اگر آپ متعدد لہجات والا ایک حرف مراد لہجات لیتے ہیں ، تو لہجات میں تسہیل و تحقیق ، امالہ و عدم امالہ، ادغام واظہار وغیرہ لہجات شامل ہیں ۔اب مکہ میں پڑھے جانے والے قرآن میں یہ سارے لہجات قطعی طور پر مقروء نہیں تھے۔
سبعہ احرف بمراد وجوہ سبعہ دراصل سبعہ احرف کی تشریح نہیں بلکہ پورے قرآن کے اندر استقصاء واستقراء کے بعد اضافی طور پر متنوع اختلافات کی ایک توجیہہ ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ حروفِ سبعہ سے اصل مراد لغات ولہجات کا اختلاف تھا، جن میں ضمنی طور پر لغات ہی کے قبیل سے بلاغت سے متعلق بعض دیگر اختلافات بھی آگئے تھے اور مکہ میں جس حرف کے مطابق قریشی ودیگر قرآن کی تلاوت کرتے تھے وہ لغت(لہجہ) قریش تھا، ناکہ سبعہ اوجہ میں سے کوئی وجۂ اختلاف۔
3۔ اہل علم جانتے ہیں کہ ابتداءً قرآن کریم میں اختلاف قراء ت موجود نہیں تھا بلکہ بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں سے نازل کیا گیا۔ اس سلسلہ میں معروف روایت حدیث جبریل ومکائیل ہے کہ وہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنی غفار کے تالاب کے پاس تشریف لائے۔ حضرت میکائیل نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اللہ تعالیٰ سے اپنی اُمت کی آسانی کے لیے ایک حرف سے زائد پر قرآن کریم کو پڑھنے کی دعا کیجیے۔ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے باقاعدہ دعا کرکے ان حروف کو لیا۔اب دوسرا حرف آیا،پھر تیسرا آیا اور چوتھا آیا، پھر پانچواں ، پھر چھٹا اور پھر ساتواں حرف آیا۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ سات حروف جو ایک ایک کرکے اترے ہیں ، یہ ایک ایک مکمل قرآن کے حروف تھے یا سات حروف ان شکلوں پر اتر ے، جو سبعہ اوجہ کے قائلین بیان کرتے ہیں ۔ اگر یہاں مراد یہ سات اوجہ والی تفسیر لی جائے توغیر مناسب معلوم ہوتی ہے، کیونکہ یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ حدیث جبریل ومکائیل تقاضا کرتی ہے کہ ہر ایک حرف آسمانوں سے منفصل نازل ہوا ہے۔منفصل کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی دعا پر پہلے ایک حرف پر پوراقرآن اترا، پھر دوسرا اترا، پھر تیسرا اترا۔ یہ نہیں ہوا کہ پہلی باردعا کی: ( إن أمتی لاتطیق ذلک) <مسلم:۸۲۱>undefined توحذف و زیادت کا حرف اتر آیا۔ آپ نے پھر کہاکہ امت ابھی بھی طاقت نہیں رکھتی تو اس کے بعد تقدیم و تاخیر کا حرف اتر آیا، مزیدکہا کہ طاقت نہیں رکھتی توحرکات کے اختلاف کا حرف اتر آیا۔
اگرروایات کو دیکھیں تو وہ بیان کرتیں ہیں کہ سبعہ احرف کا ہر حرف مکمل قرآن کی تلاوت کا ایک کامل سیٹ ہے اور ہر ایک حرف دوسرے سے منفصل حالت میں اترا ہے اور آپ کی بار بار دعا کے نتیجہ میں ایک ایک کرکے حروف کی بالآخر سات تک پہنچ گئی تو آپ نے مزید دعا نہیں کی۔ یہ سات انداز تلاوت قرآن مجید کے سات مستقل اسلوبِ تلاوت تھے، یہ نہیں کہ تمام کو ملا کر ایک اندازِتلاوت بنتا تھا یا تمام کو ملاکر دو اندازِ تلاوت بنتے تھے وغیرہ۔ سبعہ احرف بمراد سبعہ اوجہ کی تعبیر کے مطابق بنیادی حرج ہی یہ واقع ہوتا ہے کہ جب تک تمام وجوہ سبعہ کو ملایا نہ جائے، قرآن کا ایک مکمل سیٹ بھی نہیں بن پاتا۔ قراء ات عشرہ متواترہ کی بیس کی بیس روایات ہوں یا ان کے ذیلی اسی طرق، ان تمام اوجہ کو یک مشت ملائے بغیر کوئی ایک کامل حرف بھی تلاوت قرآن کا ایک مکمل سیٹ نہیں بنتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے سبعہ احرف سے سبعہ اوجہ کو مراد لیا ہے انہوں نے دراصل اختلاط کے بعد وجود میں آنے والی روایات کا تجزیہ کرتے ہوئے مجموعہ روایات کے اختلاف کااستقراء کرتے ہوئے سات قسم کی وجوہ قراء ات کی توجیہ کی، جبکہ قبل از اختلاط نازل ہونے والے سبعہ اَحرف میں سے ہر ایک حرف تلاوت قرآن کا ایک مکمل سیٹ تھا۔
4۔ سبعہ احرف بمراد سبعہ لغات یا سبعہ لہجات کی تفسیر سبعہ اَحرف کے شان نزول سے ثابت ہے، جبکہ سبعہ احرف بمراد سبعہ اوجہ استقرائی تشریح ہے۔اُصول تفسیرپڑھنے پڑھانے والے جانتے ہیں کہ شان نزول سے آیت کی تشریح تفسیر کا ایک مسلمہ اُسلوب ہے۔ اسی بنیاد پر سلف کے ہاں تفسیر صحابہ تفسیر بالماثور میں داخل ہوتی ہے، کیونکہ شان نزول اگرچہ حدیث نہیں ہوتا، لیکن نزول قرآن کا عرف ہوتا ہے جو فہم قرآن یا فہم حدیث میں انتہائی مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے مقدمہ اصول تفسیر میں واضح کیا ہے کہ علمائے اصول کا اتفاق ہے کہ جب کسی آیت کی تشریح میں دو مختلف باتوں کا امکان ہو تو شان نزول کے ذریعے جو معنی متعین ہوگا اسے بہرحال ترجیح ہوگی۔امام صاحب رحمہ اللہ نے مثال پیش کی ہے کہ اگر کسی جگہ قسم کے بارے میں کوئی اختلاف ہوجائے اور قسم کی نوعیت کا تعین نہ ہورہا ہو کہ قسم کھانے والے نے کس نوعیت سے قسم کھائی ہے اور قاضی کے سامنے اس کا فیصلہ چلا جائے تو قاضی اس نوعیت کا فیصلہ اس سے کرے گا کہ قسم کھانے کی تحریک کس وجہ سے واقع ہوئی تھی اور جس وجہ سے قسم کھانے کی تحریک واقع ہوگی اس تناظر میں قسم کی نوعیت کا تعین کیا جائے گا اور اس کی روشنی میں قاضی فیصلہ کرے گا۔ سبعہ احرف یا قراء توں کے شان نزول کے سلسلہ میں اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ نزولِ سبعہ احرف کا سبب مختلف قبائلِ عرب کے بولنے کے متنوع اَسالیب کا فرق بنا تھا۔ اسی طرح یہ بات بھی واضح ہے کہ سبعہ احرف کی تشریح میں موجود مختلف اقوال سبعہ احرف کی مراد کے سلسلہ میں معنوی احتمالات کے قبیل سے تعلق رکھتے ہیں ، چنانچہ جس تشریح کو شان نزول کی تائید حاصل ہے اسے ہی بہرحال ترجیح ہونی چاہیے۔
اہل علم نے قبائل عرب میں سے ان بڑے قبائل کا تعین کرنے کی کوشش بھی کی ہے ، جن کی رعائت رکھتے ہوئے سات لغات اتریں ۔ اسی طرح موجودہ قراء ات عشرہ میں موجود لہجوں سے متعلق اختلافات ، جنہیں اہل فن اختلاف قراء ات کے اصولی اختلافات کا نام دیتے ہیں ،کے بارے میں محنت کی ہے کہ واضح کریں کہ کونسا کونسا اختلاف کس کس قبیلہ کی لغت سے تعلق رکھتا تھا ۔
المختصر سبعہ احرف کامصداق موجودہ قراء ات عشرہ ہیں ، کیونکہ سبعہ احرف انہی قراء ات و روایات میں ڈھل کر ہم تک پہنچے ہیں ۔ امام ابو محمد مکی رحمہ اللہ اور امام دانی رحمہ اللہ وغیرہ کا قول عام فہم اور سمجھنے کے اعتبار سے زیادہ سہل ہے اور اس میں الحمد للہ بے جاتکلف بھی نہیں ہے۔
استفادہ تحریر :تعارُف علم قراء ات- اہم سوالات وجوابات، حافظ حمزہ مدنی