دنیا کی تمام مذہبی کتب ِمقدسہ پر قرآن کو ہر حیثیت سے برتری حاصل ہے۔عہد نامہ قدیم و جدید کی تدوین میں تقریباً ڈیڑھ ہزار سال کا عرصہ لگا۔ بادشاہوں سے لے کر فقیروں تک ہزاروں اَفراد نے اس کی تدوین میں حصہ لیا۔ اس کا مستند ترین حصہ تورات دو جداگانہ کتب (الوہی اور یہوی) کا اشتراک ہے اور تحریف و تصریف سے پُر ہے اسے حضرت موسیٰ سے منسوب کیا جاتا ہے جبکہ اس میں وہ واقعات بھی درج ہیں جو ان کے بعد وقوع پذیر ہوئے۔ عہد نامہ قدیم کی حقیقی اہمیت صرف یہ ہے کہ وہ یہود کی مذہبی تاریخ کو بیان کرتا ہے۔
عہد نامہ جدید کی حقیقی نوعیت یہ ہے کہ متعدد نامعلوم افراد نے حضرت عیسیٰ کی سوانح حیات اپنے اپنے نقطہ نظر سے ترتیب دی ہے، یہ مؤلفین خود عینی شاہد تک نہیں ہے۔ صدیوں بعد سنی سنائی باتوں کو واقعاتی رنگ دیا اور یہ کتب آسمانی قرا رپاگئیں جبکہ قرآن ایک فرد واحد پر نازل شدہ وحی الٰہی کا مجموعہ ہے۔ جس کی حفاظت کا شعوری اہتمام دورِ نبوی سے ہی کیا جارہا ہے نہ صرف اسے تحریری طور پر محفوظ کیا گیا بلکہ نبی مہربانﷺسے لے کر آج تک کروڑوں افراد نے اسے سینوں میں محفوظ کیا۔ حضور اکرمﷺکے اس دُنیا سے رخصت ہونے کے بعد، دو سال کے اَندر اندر، خلیفۂ اوّل نے اس کے تمام اَجزاء کو جمع کرکے اس کا مکمل نسخہ مدون کیا۔ دنیا میں پایا جانے والا کوئی نسخہ اس اوّلین نسخے سے ادنی سا بھی اختلاف نہیں رکھتا۔
قرآنِ عظیم تقدس کا حامل، جس کی قراء ت باعث ثواب، جس پر عمل باعث نجات اور جس نے اَربوں کھربوں اَفراد کو گذشتہ چودہ سو سال میں ملکوتی فعالیت عطا کی اور جس کے توسط سے یہ ہم تک پہنچا اس نے خود اس کے مصنف ہونے سے اِنکار کیا لیکن مستشرقین اس کو تصنیف ِنبوی قرار دینے پر مصر ہیں، اس کی تعلیمات اور اخلاق پر حملہ آور ہیں اور اس کی بیان کردہ نعمتوں پر طنز کرتے ہیں۔ مشہور مستشرق کا رلائل جس نے آنحضورﷺکو انبیاء کا ہیرو تسلیم کیا، جو اسلام کی موافقت میں قلم اٹھانے میں سرفہرست ہے جب قرآن کا ذکر آتا ہے تو ساری خوش فہمی رفع کردیتا ہے۔ اس نے لکھا ۔ (نعوذ باللہ)
As toilsome reading as everundertook, a wearisome confused Jumble, crude, incordite, aerdless iterations, long-windness, entanglements, most curde incondite, insupportable stufidity, in short nothing but a sence of duty could carry any European through Koran: “Thomas Karlyle; on Heros, Hero-worship and Heroic in the Histtory, P 64, 65”
’’میری زندگی کی سب سے محنت طلب خواندگی، ایک اکتا دینے والا، پریشان بے ترتیب مجموعۂ خام، ناپختہ، لامتناہی تکرار، طویل گفتگو، الجھاؤ، انتہائی خام اور غیر نفیس ناقابل دفاع حماقت، مختصراً یہ کہ سوائے ادائے فرض کے احساس کے، کسی یورپین کو کوئی چیز قران کو پڑھنے پر آمادہ نہیں کرسکتی۔‘‘ (صفحہ ۶۴،۶۵)
پیشتر متشرقین کی مشترکہ رائے ہے کہ قرآن داعی اسلام کی تصنیف ہے۔
لیکن ایسے مستشرقین کی تعداد بھی کم نہیں جو اپنے ہم مذہب و مسلک مستشرقین کی رائے کے برعکس یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن وحی الٰہی ہے جو حضورﷺکے زمانے میں ہی مدون و مرتب ہوچکا تھا اور مسلمانوں نے نہ تو عہد صدیقی میں اور نہ ہی عہد عثمانی میں اس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی اور ترمیم کی ہے بلکہ وہ مسلمانوں کی ان کوششوں کو سراہتے ہیں جومسلمانوں نے قران کریم کی حفاطت کے لیے کیں اور اسے ایک ایسی ناقابل یقین حقیقت قرار دیتے ہیں کہ جس کی مثال اس دنیامیں ناپید ہے۔ ہم ذیل میں ان چند مستشرقین کے اعترافات نقل کررہے ہیں جو باقی مستشرقین کے برعکس تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن کریم وحی الٰہی ہے اور نبی مہربانﷺکے زمانے میں ہی مرتب و مدون ہوچکا تھا۔
ولیم میور کا اِعتراف
ولیم میور اسلام دشمنی میں مشہور ہے اور حضور اکرمﷺ کی سیرت طیبہ اور دین اسلام پر حملے کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ وہ قرآن کریم کو کلام الٰہی تسلیم کرنے کے لیے ذہنی طور پر آمادہ نہیں لیکن یہ بات تسلیم کرتا ہے کہ آج مسلمانوں کے ہاتھوں میں جو قرآن کریم ہے یہ وہی ہے جو حضورﷺکے دور میں تھا۔ ولیم میور لکھتا ہے:
But the preservation of the Koran during the life of Muhammad (SAW) was not dependent on any such uncertain archives, the devine revelation was the cornor stone of Islam… during his life time, repeat with accuracy the entirerevelation screipulous. P. 5/1.
اس اقتباس سے یہ نتائج سامنے آتے ہیں:
(١) عہد نبوی میں قرآن محض منتشر و متفرق ٹکڑوں پر ہی نہ تھا۔
(٢) وحی الٰہی مسلمانون کی زندگیوں کی بنیاد تھی نمازوں میں قرآن پڑھنا فرض تھا اور بہت سے لوگوں کے حافظوں میں موجود تھا اس وقت قدرو منزلت کا معیار یہ تھا کہ کس کو کتنا قرآن زبانی یاد ہے۔
(٣) عرب حفظ کرنے کے عادی تھے اور ان کا حافظہ غیر معمولی تھا۔ قرآن سے غیر معمولی لگاؤ تھا اور اسے سرگرمی سے حفظ کرنے لگے تھے۔
(٤) ان کی قوت حافظہ اس قدر قوی تھی کہ حضورﷺ کی حیات طیبہ کے اندر ہی وحی الٰہی کمال صحت کے ساتھ ان کو حفظ ہوگئی تھیں۔ ایک اور جگہ ولیم میور (William Muir) ایک دوسرے مستشرق (Vun Hammer) کے اَلفاظ نقل کرتا ہے:
That we hold the Koran to be as surely Muhammad word, as the Muhammadans hold it to be the word of God.
’’ہمیں اس بات پر کہ قرآن محمد کے الفاظ ہیں، اتنا ہی یقین ہے جتنا مسلمانوں کو اس بات پر کہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔‘‘
منٹگمری واٹ کا شمار بھی ان متعصب مستشرقین میں ہوتا ہے جو اسلام پر نشتر زنی کرتے ہیں لیکن وہ بھی نیم دلی سے یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہے کہ ملت اسلامیہ نے صحیفہ آسمانی کی حفاظت کے لیے بے مثال کوششیں کیں۔
“Muhammad conntinued to recieve revolation at prequent interals. He and his followers memorized them and they were repeated in the ritual worship or prayer which he introduced most of them were probobly written down during Muhammad life time.”
’’محمدﷺپر مختلف وقفوں کے ساتھ وحی آتی رہی ہے آپ اور آپ کے متبعین اسے یاد کرتے اور انہیں اپنی نمازوں میں دھراتے تھے۔ غالباً وحی کا اکثر حصہ محمدﷺ کی زندگی میں ہی لکھا جاچکا تھا۔‘‘
پھر ترتیب قران کے حوالے سے لکھا ہے:
It seems likely that to a great extent the surahs or chapters of Quran were given their present form by Muhammad him self.
’’یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ قران کی سورتوں کو موجودہ ترتیب محمدﷺنے خود دی تھی۔‘‘
ایک اور مستشرق T.W.Arnold اس موضوع پر لکھتے ہیں:
The text of recension substantly corrosponds to the actual utter of Muhammad him self.
’’قرآن پاک کا متن کسی انتہائی نادر چیز کی طرح الفاظ کے اعتبار سے بالکل محفوظ ہے۔‘‘
ڈاکٹر مورس بوکائے رقم طراز ہیں:
Thanks to its undisputed authenticity, the text of the Quran holds a unique place among the text books of revelation.
’’ممنون ہیں کہ قرآن کا مستند ہونا ایک تسلیم شدہ مسئلہ ہے اس لیے اس کتاب کو الٰہامی کتابوں میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔‘‘
روڈی پرٹ (Rudi Paret) لکھتا ہے:
’’ہمارے لیے یہ یقین رکھنے کا کوئی سبب نہیں کہ قرآن کریم میں کوئی آیت ایسی بھی ہے جو حضرت محمدﷺسے مروی نہیں۔‘‘
یورپ کا مشہور مستشرق Baroness Magrate Vontein قرآن کریم کے حوالے سے لکھتا ہے:
’’اگرچہ تمام مذہبی صحائف اللہ کی طرف سے نازل ہوئے تاہم صرف قرآن ہی ایک ایسا آسمانی صحیفہ ہے جس میں ذرا بھی ردوبدل نہیں ہوا اور وہ اپنی اصل شکل میں موجود ہے۔‘‘
کونٹ بزی دی کاسٹر اپنی کتاب ’الاسلام‘ میں،جو کہ فرانسیسی زبان میں لکھی گئی اور عربی ترجمہ کے ساتھ ۱۸۹۸ء میں مصر سے شائع ہوئی، لکھتے ہیں:
’’اس کلام نے نوع انسانی کو لفظاً و معناً ہر لحاظ سے اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز کیا ہے۔ وہی کلام ہے جس کی بلند انشاء پردازی نے عمر بن الخطاب کو مطمئن کیا اور وہ خدا کے معترف ہوگئے۔ یہ وہی کلام ہے کہ جب عیسیٰ کی ولادت کے متعلق اس کے جملے جعفر بن ابی طالب نے نجاشی کے سامنے پڑھے تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور بشپ چلا اٹھا کہ یہ کلام اس سرچشمہ سے نکلا ہے جس سے عیسیٰ کا کلام نکلا تھا۔‘‘
پالمر (Palmer) اگرچہ عثمانی دور سے قبل کے قرآن میں تو کئی ایک شکوک پیدا کرتا ہے لیکن مصحف عثمانی کی تیاری کے بعد لکھتا ہے:
Othman’s recension had remained. The authorised text…. from the time it was made until the present day.
’’مصحف عثمانی اپنے آغاز سے لے کر اب تک ایک مستند متن کے طور پر باقی ہے۔‘‘
- وھیری اپنی تفسیرقرآن میں لکھتا ہے:
’’تمام قدیم صحیفوں میں قرآن زیادہ غیرمخلوط اور خالص ہے۔‘‘
(٢) قرآن کامعروف انگریزی مترجم پامر(Palmor)کہتا ہے۔
’’سیدناعثمان کا ترتیب دیا ہوامتن اس وقت سے آج تک طے شدہ اور مسلم صحیفہ رہاہے۔‘‘
(٣) لین پول (Lanepoole)کہتا ہے۔
’’قرآن کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اسکی اصلیت میں کوئی شبہ نہیں ہے ہر حرف جو ہم آج پڑھتے ہیں اس پر اعتماد کر سکتے ہیں کہ یہ تیرہ صدیوں سے غیر مبدل رہا ہے۔‘‘ (مجلہ فہم القرآن لاہور، اپریل ۲۰۰۱ء بحوالہ مضمون ابو الحسن ندوی)
میونخ یونیورسٹی جرمنی میں قران مجید میں تبدیلی نہ ملنے کا واقعہ
مشہور عالم دین اور محقق ڈاکٹر حمید اللہ ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جو کہ ان کی کتاب خطبات بہاولپور میں بھی مذکور ہے۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں :
۱۹۳۳ء میں میونخ یونیورسٹی نے ایک ادارہ قرآن مجید کی تحقیق کے لیے قائم کیا۔ ڈاکٹر آٹو پریکشل (Auto prctizel) اس ادارے کے تیسرے ڈائریکٹر تھے۔ اس ادارے نے قرآن کریم کے قدیم سے قدیم ترین نسخے دنیا کے مختلف ممالک سے اکٹھے کئے کچھ نسخے ایک سو سال کے ، کوئی دو سو سال پہلے کے، تیسری ، چوتھی اور پانچویں صدی کے غرض یہ جتنے بھی نسخے مختلف میوزیم اور لائبریریوں سے جمع ہوسکتے تھے، اصل یا فوٹو کاپی کی شکل میں جمع کرلئے۔ اس طرح کل ۴۲۰۰۰ نسخے اکٹھے کئے گئے۔ علماء اور محققین کی ایک بڑی جماعت کو ان نسخوں پر بٹھایا انہوں نے ایک طویل عرصہ تک مقابلہ اور موازنہ کیا تاکہ ایک نسخے کا دوسرے نسخے سے اختلاف یا فرق ڈھونڈ سکے، اس تحقیق پر کئی سال لگے اور بعد میں اس کی عارضی رپورٹ بھی شائع کی گئی۔ ان بیالیس ہزار نسخوں میں صرف دو جگہ کتابت کی غلطی نظر آئی۔ ایک جگہ تو یہ فرق نظر آیا کہ بسم اللہ میں ایک جگہ الرحمن کا لفط چھوٹا تھا اور دوسرا یہ کہ کہیں الف لام (تعریف) لکھی ہوئی تھی اور کہیں نہیں لیکن الفاط وہی تھے ان میں کوئی فرق نہیں تھا۔
ایسی ہی تحقیق جرمنی میں بائبل کے بارے میں بھی کی گئی اور صرف یونانی زبان کے نسخے جمع کئے گئے۔ اس لیے کہ یونانی زبان سے قبل بائبل کا کسی اور زبان میں سراغ نہیں ملتا، اور باقی تمام زبانوں کے نسخوں سے صرف نظر کیا گیا۔ اس کے باوجود صرف یونانی بائبل کے نسخوں میں ہی دو لاکھ غلطیاں برآمد ہوئیں۔
مذکورہ بالا اقتباسات سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ قرآن کریم کی صداقت صرف ہمارے نزدیک ہی مسلّم نہیں ہے بلکہ متعصب سے متعصب معاندین بھی اپنی تمام کوششوں کی ناکامیوں کے بعد ان عظیم حقائق کے معترف ہوگئے ہیں کہ قرآن کریم ہی واحد آسمانی صحیفہ ہے جو تحریف و تبدیلی سے محفوظ ہے اور اپنی اصلی شکل میں موجود ہے۔
(١) عہد حاضر کے نقاد اس پر متفق ہیں کہ قرآن کے موجودہ نسخے اس نسخہ کا ہوبہو عکس ہیں جسے نبیﷺنے لکھا کر دیا تھا۔
(٢) یورپ کے محققین کی وہ تمام کوششیں قطعاً ناکام رہی ہیں جو قرآن کے اندر بعد کے زمانہ میں کسی اضافہ وغیرہ کو ثابت کرنے کے لیے کی گئی تھیں۔
(٣) قرآن حکیم کا متن بعینہٖ وہی ہے جو نبی کریمﷺ نے امت کو دیا تھا اور جو خود آپﷺکے استعمال میں رہتا تھا۔
یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ جس کتاب کی حفاطت کے لیے اتنی کوششیں کی گئیں اس کتاب کی صحت کو مشکوک ثابت کرنے کی کوشش کی جائے۔ قرآن مجید کی صحت پر مستشرقین کے اعتراضات اور ان کی بدگمانیوں کا ایک سبب یہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب پر قرآن مجید کو قیاس کیاہے، حالانکہ قرآن کو ایسے حالات کبھی بھی پیش نہیں آئے کہ قرآن مجید کے حفاظ کبھی مفقود ہوئے ہوں یا اس کے نسخے ختم ہوگئے ہوں یااس پر ایسی آفت آئی ہو کہ اس کی زبان ختم ہوگئی ہو اس کے برعکس مسیحیوں نے سمجھ لیا کہ ہماری طرح ان کی کتاب بھی ضائع ہوتی رہی ہے اور نئے سرے سے اس کے متن کا کھوج لگا کر ہربار مرتب کی جاتی رہی ہے۔
ان تمام حقائق کے اعتراف کے باوجود اس حقیقت سے بھی اِنکار نہیں کہ یورپ کا کوئی مستشرق کتنا ہی صاف اور کھلے دل کا نظر آئے، اس کے اَندر اسلام دشمنی کا جرثومہ ضرور ہوتا ہے اور وہ اپنی بظاہر غیر جانبدارانہ اور غیر متعصبانہ تحقیق میں کہیں نہ کہیں اسلام کے خلاف ضرور بات کرے گا اور پادریوں سے وراثت میں ملنے والا مرض ابھی تک ختم نہیں ہوا۔
جن مستشرقین نے قرآن کے وحی الٰہی ہونے اور تحریف سے مبرا ہونے کا اقرار کیاہے، ڈاکٹر موریس بوکائے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’قرآن مجید میں دو نمایاں حیثیتیں ہیں اور ان دونوں حیثیتوں میں وہ تمام آسمانی کتابوں پر فائق ہے۔ پہلی حیثیت یہ کہ اس کے انتساب کی صحت میں کوئی شک نہیں اور یہ کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ پیغمبر عربﷺسے اس کی نسبت صحیح نہیں۔ دوسری حیثیت یہ ہے کہ قرآن کو مسلمان عربی زبان کی حفاظت کا مرجع سمجھتے ہیں اور اپنے مذہبی اصول کی تطبیق کا مآخذ مانتے ہیں۔‘‘
مستشرقین کے قلم سے اس بات کا اعتراف کہ قرآن مجید محفوظ اور تحریف و تبدیلی سے پاک ہے اس حقیقت کا بین ثبوت ہے کہ عصمت و صیانت قرآن ایک ایسی قوی حقیقت ہے جو دشمنوں سے بھی اپنا آپ کو منوا لیتی ہے۔
کتابیات
- Arnold, T.W; The preaching of Islam, Constable,1913, London.
- Palmer, E; The Quran, Oxford University press, London, 1928.
- Bucaille, Maurice; The Bible, The Quran secience. London.
- Karlyle Thomas;On Heros, Hero-worship and Heroic in the history; London.
- W, Montgomery & Richard Bell; Bell’s introduction to Quran, Edin Burgh, London, 2005.
- Mur, William, The life of Muhammad, smith, London, 1860.
- Wherry, E.M; A comprehencive commentry on the Quran comprising sales translation Kegan Paul, Trubner & Co. London, 1896.
- ثناء اللہ خان، مرتب، قرآن حکیم اور مستشرقین، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی۔ اسلام آباد
- ڈاکٹر عبدالقادر حسن، اسلام، پیغمبر اسلام اور مستشرقین مغرب کا انداز فکر، بیت الحکمت، لاہور، 2006ء