عصر حاضر کے متجدِّدین نے یہ طے کررکھا ہے کہ اسلام کا ہر وہ حکم جو مغرب کے لئے باعث تشویش ہے، اسے کسی نہ کسی طرح منسوخ اور ناقابل عمل قرار دے دیا جائے۔ ان کا یہ رویہ نہ جانے مغرب سے مرعوبیت کی وجہ سے ہے یا پھر مستشرقین کی ذمہ داری وہ اسلامی معاشروں میں بیٹھ کر نبھا رہے ہیں، کیونکہ ان کا ہر کام اسلامی تعلیمات کی تشریح و توضیح کے بجائے ان کی تعطیل و تضحیک اور مستشرقین کے گمراہ کن افکار کی تثبیت و توثیق پر مبنی نظرآتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ ہے کہ ایسے افراد کے کار ہائے غلط کی تردید کے لیے ایسی عظیم ہستیوں کوپیدا فرما دیتے ہیں، جو انہی کا سا پس منظر رکھنے کے باوجود اِس قسم کے آوارہ منش مفکرین کے خلاف برسرپیکار ہوجاتے ہیں۔ ہماری رائے میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ بھی ایک ایسی ہی شخصیت ہیں، جنہوں نے بیسویں صدی میں فکر اسلامی کے دفاع کی ذمہ داری بڑ ے احسن انداز سے نبھائی ہے او راسلامی تعلیمات کو دقیانوسی قرار دینے کے بجائے دور جدید کے مطابق ان کی بہترین توجیہہ پیش کی ہے۔ دیگر اُمور کی طرح جب ان سے اختلافِ قراء ات کے بارے میںدریافت کیاگیا تو انہوں نے متجدِّدین کے برعکس اِن کی بھرپور انداز میں توثیق کی او ر انہیں منزل من اللہ قرار دیا۔ ان کا یہ فتویٰ ماہنامہ ترجمان القرآن کے شمارہ بابت جون ۱۹۵۹ء میں شائع ہوا ہے، جسے اتمام فائدہ کے لیے فتوی کے بجائے مضمون کی صورت میں شائع کیا جارہا ہے۔ (ایڈمن)
سوال:
ذیل میں درج شدہ مسئلہ کے متعلق آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔اُمید ہے تفصیلی دلائل سے واضح فرمائیں گے۔قرآن مجیدکے متعلق ایک طرف تویہ کہا جاتا ہے کہ یہ بعینہٖ اُسی صورت میں موجود ہے جس صورت میں حضور اکرمﷺ پرنازل ہواتھا۔ حتیٰ کہ اس میں ایک شوشے یا کسی زیر، زبر کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی، لیکن دوسری طرف بعض معتبر کتب میں یہ درج ہے کہ کسی خاص آیت کی قراء ت مختلف طریقوں سے مروی ہے جن میں اعراب کا فرق عام ہے۔بلکہ بعض جگہ تو بعض عبارات کے اختلاف کاذکر تک کیا گیا ہے۔
اگر پہلی بات صحیح ہو تواختلاف قراء ت ایک مہمل سی بات نظر آتی ہے، لیکن اس صورت میں علماء کا اختلاف قراء ت کی تائید کرناسمجھ میں نہیں آتا اور اگر دوسری بات کوصحیح مانا جائے تو قرآن کی صحت مجروح ہوتی نظر آتی ہے۔ یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ اِعراب کے فرق سے عربی کے معانی میں کتنافرق ہوجاتا ہے۔یہاں میں یہ عرض کردینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ منکرین حدیث کی طرف میرا ذرہ بھر بھی میلان نہیں ہے بلکہ صرف مسئلہ سمجھنے کے لیے آپ کی طرف رجوع کررہا ہوں۔
جواب:
یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ قرآن مجید آج ٹھیک اسی صورت میں موجود ہے جس میں وہ نبیﷺ پر نازل ہواتھا اور اس میں ذرہ برابر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے، لیکن یہ بات بھی اس کے ساتھ قطعی صحیح ہے کہ قرآن میں قراء توں کا اختلاف تھا اور ہے۔ جن لوگوں نے اس مسئلے کا باقاعدہ علمی طریقے پرمطالعہ نہیں کیا ہے وہ محض سطحی نظر سے دیکھ کر بے تکلف فیصلہ کردیتے ہیں کہ یہ دونوں باتیں باہم متضاد ہیں اور ان میں سے لازماً کوئی ایک ہی بات صحیح ہوسکتی ہے،یعنی اگر قرآن صحیح طور پر حضورﷺسے نقل ہوا ہے تو اختلافاتِ قراء ت کی بات غلط ہے اور اگر اختلافِ قراء ت صحیح ہے تو پھر معاذ اللہ قرآن ہم تک صحیح طریقے سے منتقل نہیں ہوا ہے، حالانکہ فیصلے صادر کرنے سے پہلے یہ لوگ کچھ علم حاصل کرنے کی کوشش کریں تو خود بھی غلط فہمی سے بچ جائیں اور دوسروں کوغلط فہمیوں میں مبتلاکرنے کاوبال بھی اپنے سر نہ لیں۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جس رسم الخط میں ابتداء نبیﷺنے وحی کی کتابت کرائی تھی اور جس میں حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے پہلا مصحف مرتب کرایا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جس کی نقل بعد میں شائع کرائی، اس کے اندر نہ صرف یہ کہ اعراب نہ تھے بلکہ نقطے بھی نہ تھے، کیونکہ اس وقت تک یہ علامات ایجاد نہ ہوئی تھیں۔اس رسم الخط میں پورے قرآن کی عبارت یوں لکھی گئی تھی:
کتاب احکمت ایتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر
اس طرز تحریر کی عبارتوں کو اہل زبان اٹکل سے پڑھ لیتے تھے اور بہرحال بامعنی بناکر ہی پڑھا کرتے تھے، لیکن جہاں مفہوم کے اعتبار سے متشابہ الفاظ آجاتے ہیں، یا زبان کے قواعد و محاورہ کی رو سے ایک ہی لفظ کے کئی تلفظ یا اِعراب ممکن ہوتے وہاں خود اہل زبان کو بھی بکثرت اقتباسات پیش آجاتے ہیں اور یہ تعین کرنا مشکل ہوجاتا تھاکہ لکھنے والے کا اصل منشا کیا ہے۔مثلاً ایک فقرہ اگریوں لکھا ہو کہ ربنا بعد بین اسفارنا تو اسے رَبَّنَا بَاعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَابھی پڑھا جاسکتا تھا اور رَبُّنَا بَعَّدَ بَیْنَ اَسْفَارِنَا بھی۔ اسی طرح اگر ایک عبارت یوں لکھی ہو کہ انظر الی العظام کیف ننشزھا تو اسے اُنْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُھَا بھی پڑھاجاسکتا تھا اور کَیْفَ نُنْشِرُھَا بھی۔
یہ اختلافات تو اس رسم الخط کے پڑھنے میں اہل زبان کے درمیان ہوسکتے تھے، لیکن ایک عربی تحریر اگر اسی رسم الخط میں غیر اہل زبان کو پڑھنی پڑ جاتی تو وہ اس میں ایسی سخت غلطیاں کرجاتے جو قائل کے منشا کے بالکل برعکس معنی دیتی تھیں۔مثلاً ایک دفعہ ایک عجمی نے آیت إنَّ اﷲَ بَرِیٌٔ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَرَسُوْلُہُ میں لفظ وَرَسُوْلُہُ کا اعراب ٓوَرَسُوْلِہِ پڑھا جس سے معنی یہ بن گئے کہ ’’اللہ بری الذمہ ہے مشرکین سے اور اپنے رسول سے۔‘‘ معاذ اﷲ
پھر یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ قرآن میں اعراب لگانے کی ضرورت سب سے پہلے بصرے کے گورنر زیادرحمہ اللہ نے محسوس کی جو ۴۵ھ سے ۵۳ ھ تک وہاں کا گورنر رہا تھا۔ اس نے ابوالاسود دؤلی رحمہ اللہ سے فرمائش کی کہ وہ اعراب کے لیے علامات تجویز کریں اور انہوں نے یہ تجویز کیا کہ مفتح حرف کے اوپر، مکسور حرف کے نیچے اورمضموم حرف کے بیچ میں ایک ایک نقطہ لگا دیا جائے۔اس کے بعد عبدالملک بن مروان رحمہ اللہ ۶۵ھ تا ۸۶ ھ کے عہد حکومت میں حجاج بن یوسف رحمہ اللہ والی عراق نے دو علماء کو اس کام پرمامور کیا کہ وہ قرآن کے متشابہ حروف میں تمیز کرنے کی کوئی صورت تجویز کریں۔چنانچہ انہوں نے پہلی مرتبہ عربی زبان کے حروف میں بعض کو منقوط اور بعض کو غیرمنقوط کرکے اورمنقوط حروف کے اوپر یانیچے ایک سے لے کر تین تک نقطے لگاکر فرق پیدا کیا اور ابوالاسودرحمہ اللہ کے طریقے کو بدل کر اعراب کے لیے نقطوں کے بجائے زیر، زبر، پیش کی وہ حرکات تجویز کیں جو آج مستعمل ہیں۔
ان دو تاریخی حقیقتوں کونگاہ میں رکھ کر دیکھئے کہ اگر قرآن کی اشاعت کا دار ومدار صرف تحریر پر ہوتا توجس رسم الخط میں اُمت کو یہ کتاب ملی تھی اس کو پڑھنے میں تلفظ اور اعراب ہی کے نہیں متشابہ حروف کے بھی کتنے بے شمار اختلافات ہوگئے ہوتے۔ محض زبان اور اس کے قواعد کی بناپر خود اہل زبان بھی اگر نقطے اور اعراب لگانے بیٹھتے تو قرآن کی ایک ایک سطر میں بیسیوں اختلافات کی گنجائش نکل سکتی تھی اور کسی ذریعہ سے یہ فیصلہ نہ کیا جاسکتاتھا کہ اصل عبارت جو نبی1 پر نازل ہوئی تھی وہ کیا تھی۔ اس کااندازہ آپ خود اس طرح کرسکتے ہیں کہ اُردو زبان کی کوئی عبارت بے نقطہ لکھ کر دس بیس زبان داں اصحاب کے سامنے رکھ دیں۔ آپ دیکھیں گے کہ ان میں سے کسی کی قراء ت بھی کسی دوسرے کی قراء ت کے مطابق نہ ہوگی۔اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن میں نقطے اور اعراب لگانے کا کام محض لغت اور قواعد زبان کی مہارت کے بل بوتے پرنہیں کیا جاسکتاتھا، کیونکہ اس طرح ایک مصحف نہیں،بے شمار مصاحف تیار ہوجاتے جن میں الفاظ اور اعراب کے اَن گنت اختلافات ہوتے اور کسی نسخے کے متعلق بھی یہ دعویٰ نہ کیاجاسکتا کہ یہ ٹھیک اس تنزیل کے مطابق ہے جو نبیﷺ پر نازل ہوئی تھی۔
اب وہ کیا چیز ہے جس کی بدولت آج دنیابھر میں ہم قرآن کا ایک ہی متفق علیہ متن پارہے ہیں اور جس کی بدولت قراء توں کے اختلافات امکانی وسعتوں تک پھیلنے کے بجائے صرف چند متواتر یامشہور اختلافات تک محدود رہ گئے؟یہ اُسی نعمت کا صدقہ ہے جس کی قدر گھٹانے اورجس پر سے اعتماد اٹھانے کے لیے منکرین حدیث ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں یعنی روایت۔
اوپر جن دو تاریخی حقیقتوں کاذکر کیا گیا ہے ان کے علاوہ ایک تیسری اہم ترین تاریخی حقیقت بھی ہے، اور وہ یہ ہے کہ قرآن کی اشاعت ابتداًء تحریر کی صورت میں نہیں بلکہ زبانی تلقین کی صورت میں ہوئی تھی۔ نبیﷺنے قرآن کی عبارت کو کاتبانِ وحی سے لکھوا کر محفوظ تو ضرور کرا دیاتھا، لیکن عوام میں اس کے پھیلنے کا اصل ذریعہ یہ تھا کہ لوگ براہِ راست حضورﷺ کی زبان سے قرآن کوسن کر یاد کرتے تھے اور پھر حضورﷺسے سیکھنے والے آگے دوسروں کوسکھاتے اور حفظ کراتے تھے۔اس طرح قرآن کاصحیح تلفظ اور صحیح اعراب،جو عین تنزیل کے مطابق تھا ہزارہا آدمیوں کو حضورﷺسے معلوم ہوا اور پھر لاکھوں آدمیوں کو حضورﷺکے شاگردوں کی زبانی تعلیم سے حاصل ہوا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایک معتدبہ گروہ ایسے اصحاب کاتھاجنہوں نے پوراقرآن لفظ بلفظ حضورﷺ سے سنااور یاد کیاتھا۔ ہزارہا اصحاب ایسے تھے جو قرآن کے مختلف اجزاء حضورﷺ سے سن کر یاد کرچکے تھے اور ایک بہت بڑی تعداد ان صحابیوں کی تھی جنہوں نے حضورﷺ کی حیاتِ طیبہ میں تو آپ سے صرف بعض اجزاء قرآن کی تعلیم حاصل کی تھی، مگر آپ کے بعد پورے قرآن کی قراء ت لفظ بلفظ اُن اصحاب سے سیکھی جو حضورﷺسے اس کو سیکھ چکے تھے۔ یہی اصحاب وہ اصل ذریعہ تھے جن کی طرف بعد کی نسل نے قرآن کی صحیح قراء ت (Reading)معلوم کرنے کے لیے رجوع کیا۔ اس قراء ت کا حصول محض لکھے ہوئے مصحف سے ممکن نہ تھا۔ یہ چیز صرف اسی طرح حاصل ہوسکتی تھی کہ مصحف مکتوب کو ان جیتے جاگتے مصاحف سے پڑھ کر اس کی اصلی عبارت تک رسائی حاصل کی جائے۔
یہ بات تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کے جومستند نسخے لکھوا کر مملکت کے مختلف مراکز میں رکھوائے تھے ان کے ساتھ ایک ایک ماہر قراء ت کو بھی مقرر کیاتھا تاکہ وہ ان نسخوں کوٹھیک طریقے سے پڑھنا لوگوں کو سکھائے۔ مدینہ میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اس خدمت پر مقرر تھے۔ مکہ میں حضرت عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ کو خاص طور پر اسی کام کے لیے بھیجا گیا تھا۔ شام میں مغیرہ بن شہاب رضی اللہ عنہ، کوفہ میں ابوعبدالرحمن السلمی رضی اللہ عنہ اور بصرہ میں عامر بن عبدالقیس رضی اللہ عنہ اس منصب پر مامور کئے گئے تھے۔ ان کے علاوہ جہاں جو صحابی بھی حضورﷺسے براہ راست یا آپ کے بعد قراء صحابہ سے قرآن کی پوری قراء ت سیکھے ہوئے تھے، ان کی طرف ہزارہا آدمی اس مقصد کے لیے رجوع کرتے تھے کہ قرآن کا صحیح تلفظ اور صحیح اعراب لفظ بلفظ ان سے سیکھیں۔
ان عام متعلمین قرآن کے علاوہ تابعین و تبع تابعین کے عہد میں ایک گروہ ایسے بزرگوں کابھی پیدا ہوگیا جنہوں نے خصوصیت کے ساتھ قراء ت قرآن میں اختصاص پیدا کیا۔ یہ لوگ ایک ایک لفظ کے تلفظ، طریق ادا اور اعراب کومعلوم کرنے کے لیے سفر کرکے ایسے اَساتذہ کے پاس پہنچے جو رسو ل اللہﷺسے قریب تر نسبت تلمذ رکھتے تھے اور ہر ہر لفظ کی قراء ت کے متعلق یہ نوٹ کیا کہ اسے انہوں نے کس سے سیکھا ہے اور اس کے استاد نے کس سے سیکھا تھا۔اسی مرحلے میں یہ بات تحقیق ہوئی کہ مختلف صحابیوں رضی اللہ عنہم اور ان کے شاگردوں کی قراء ت میں کہاں کہاں اور کیا اختلافات ہیں۔ ان میں سے کون سے اختلافات شاذ ہیں ، کون سے مشہور ہیں، کون سے متواتر ہیں رحمہ اللہ اور ہر ایک کی سند کیا ہے۔
پہلی صدی کے دورِ آخر سے لے کردوسری صدی تک اس طرح کے ماہرین قراء ت کا ایک گروہ کثیر دنیائے اسلام میں موجود تھا۔ مگر ان میں خاص طور پر جن لوگوں کا کمال علم تمام اُمت میں تسلیم کیا گیا وہ حسب ذیل سات اَصحاب ہیں جوقراء سبعہ کے نام سے مشہور ہیں:
(١) نافع بن عبدالرحمن رحمہ اللہ متوفی ۱۶۹ھ یہ اپنے وقت میں مدینہ کے رئیس القراء مانے جاتے تھے ان کا سب سے زیادہ معتبر سلسلہ تلمذیہ تھا کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پورا قرآن پڑھا۔ انہوں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے رسول اللہﷺسے۔
(٢) عبداللہ بن کثیررحمہ اللہ یہ مکہ کے امام قراء ت تھے۔ ۴۵ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۲۰ ھ میں وفات پائی۔ ان کے خاص استاد عبداللہ بن سائب مخزومی رضی اللہ عنہ تھے جنہیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قرآن کے سرکاری نسخے کے ساتھ تعلیم دینے کے لیے مکہ بھیجا تھا اور عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہ وہ بزرگ تھے جنہوں نے حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پورا قرآن پڑھا تھا۔
(٣) ابوعمرو بن العلاء البصری رحمہ اللہ۶۸ھ میں پیداہوئے اور ۱۵۵ ھ میں وفات پائی۔حرمین اور کوفہ و بصرہ کے کثیر التعداد ائمہ قراء ت سے علم حاصل کیا۔ ان کے سب سے زیادہ معتبر سلسلہ تلمذ دو تھے۔ایک مجاہدرحمہ اللہ اور سعید بن جبیررحمہ اللہ کا سلسلہ جو حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ تک پہنچتا تھا۔ دوسرا حسن بصری رحمہ اللہ کا سلسلہ جن کے اساتذہ ابوالعالیہ تھے اور وہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے۔
(٤) عبداللہ بن عامررحمہ اللہ۔یہ اہل شام میں قراء ت کے امام مانے گئے۔ ۸ ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۱۸ میں وفات پائی۔ بڑے بڑے صحابہ سے قراء ت سیکھی تھی۔ ان کے خاص استاذ مغیرہ بن شہاب مخزومی رحمہ اللہ تھے جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے قراء ت کا علم حاصل کیاتھا۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں قرآن کاجو سرکاری نسخہ شام بھیجا گیا تھا اس کے ساتھ یہی مغیرہ بن شہاب رحمہ اللہ تعلیم قراء ت پر مامور کرکے بھیجے گئے تھے۔
(٥) حمزہ بن حبیب الکوفی رحمہ اللہ ۸۰ ھ میں پیداہوئے اور ۱۵۷ھ میں وفات پائی۔ ان کاخاص سلسلۂ سندعن الاعمش، عن یحییٰ بن وثاب، عن زر بن حبیش، عن علی و عثمان و ابن مسعودرضی اللہ عنہم ہے۔ اپنے وقت میں یہ کوفہ کے امام اہل قراء ت مانے جاتے تھے۔
(٦) علی الکسائی رحمہ اللہ۔ یہ حمزہ کے بعد کوفہ کے امام قراء ت مانے گئے۔ یہ بیک وقت نحو کے امام بھی تھے اور قراء ت کے امام بھی۔ان کی مجلس میں سینکڑوں آدمی اپنے اپنے مصاحف لے کر بیٹھ جاتے اور یہ قرآن کے ایک ایک لفظ کا صحیح تلفظ، طریق اَداء اور اعراب بتاتے جاتے تھے۔ ۱۸۹ ھ میں وفات پائی۔
(٧) عاصم بن ابی النجودرحمہ اللہ۔کوفہ کے شیخ القراء ،۱۲۷ ھ میں وفات پائی۔ان کے معتبر ترین ذریعہ علم قراء ت دو تھے۔ ایک زر بن حبیش رحمہ اللہ جنہوں نے حضرات علی و عثمان و عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہم سے قراء ت کا علم حاصل کیا تھا۔ دوسرے عبداللہ بن حبیبالسلمی رحمہ اللہ جنہوں نے حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے قرآن کی تعلیم حاصل کی تھی اور بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کو امام حسن رضی اللہ عنہ اور امام حسین رضی اللہ عنہ کامعلم قراء ت مقرر کیا تھا۔ آج قرآن کاجونسخہ ہمارے ہاتھوں میں ہے وہ انہی عاصم بن ابی النجودرحمہ اللہ کے مشہور ترین شاگرد حفص رحمہ اللہ (۹۰ھ، ۱۸۰ھ)کی روایت کے مطابق ہے۔
ان سات اصحاب کے علاوہ مزید جن اَصحاب کی قراء توں نے شہرت حاصل کی وہ یہ ہیں:
٭ابوجعفر ٭ یعقوب ٭ خلف ٭ حسن بصری ٭ ابن محیصن ٭ یحییٰ الیزیدی اور ٭الشنبوذی رحمہم اللہ
ان قراء کے زمانے میں سینکڑوں ہزاروں آدمی ایسے موجود تھے جنہیں انہی ذرائع اور سندوں سے یہ قراء تیں پہنچی تھیں جن سے وہ ان کو پہنچی تھیں وہ بھی انہی استادوں کے شاگرد تھے جن کے یہ لوگ شاگرد تھے اور ان سب کے پاس ہر ایک قراء ت کے لیے پورا سلسلۂ اسناد موجود تھا جو کسی صحابی کے واسطے سے رسول اللہﷺ تک پہنچتا تھا۔ اس لیے ان میں سے کسی امام قراء ت کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپنی قراء ت کی روایت میں منفرد تھا۔ دراصل ہر ایک کی قراء ت کے بکثرت گواہ دنیائے اسلام کے ہر حصے میں پائے جاتے تھے، اسی وجہ سے ان اماموں کی قراء تیں اُمت میں مسلّم مانی گئیں۔
مختلف قراء توں کو ردّ یا قبول کرنے کے لیے اہل فن کے درمیان جن شرائط پر قریب قریب مکمل اتفاق پایا جاتاہے وہ یہ ہیں:
اوّل: یہ کہ جو قراء ت بھی ہو وہ مصحف عثمانی کے رسم الخط سے مطابقت رکھتی ہو۔ اس رسم الخط میں جس قراء ت کی گنجائش نہ ہو وہ کسی حال میں قبول نہیں کی جائے گی، مثلاً مصحف عثمانی میں اگر ایک لفظ بعد لکھاگیا ہے تو اس کی قراء ت بٰعِدْاور بَعَّدَ تو قبول کی جاسکتی ہے مگر بَعَّدْتَ قبول نہیں کی جاسکتی کیونکہ وہ مستند سرکاری متن کے خلاف پڑتی ہے۔
دوم:یہ کہ قراء ت ایسی ہو جو لغت، محاورے اور قواعد زبان کے خلاف نہ ہو اور عبارت کے سیاق و سباق سے مناسبت رکھتی ہو۔
ان دونوں شرطوں کے ساتھ تیسری اہم ترین شرط یہ ہے کہ ایک قراء ت اسی صورت میں قابل قبول ہوگی جب کہ اس کی سند معتبر اور مسلسل واسطوں سے نبیﷺ تک پہنچتی ہو۔ ورنہ محض یہ بات کہ ایک قراء ت کے لیے مصحف کے رسم الخط میں گنجائش ہے اور قواعد زبان کے لحاظ سے بھی ایک سیاق و سباق میں کوئی لفظ اس طرح پڑھا جاسکتا ہے ، اس کو قبول کرلینے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ہر قراء ت کے لیے اس امر کا ثبوت لازما ہوناچاہئے کہ اس لفظ یا اس عبارت کو حضورﷺنے اس طرح پڑھا تھایا کسی صحابی کو اس طرح پڑھایا تھا۔ یہی آخری شرط وہ اصل نعمت ہے جس کی بدولت قراء توں کے وہ بے شمار ممکن اختلافات، جن کی گنجائش مصحف عثمانی کے رسم الخط اور زبان و محاورہ میں نکل سکتی تھی، گھٹ کر چند مستند اختلافات تک محدود ہوگئے اور ہم کو یہ سعادت میسر ہوئی کہ قرآن جیسا نبیﷺ نے پڑھایا ویسا ہی آج ہم پڑھ سکیں۔
اب رہ گیا یہ سوال کہ معتبر قاریوں کے واسطہ سے متواتر اور مشہور سندوں کے ساتھ جو مختلف قراء تیں ہم تک پہنچی ہیں ان کے اختلافات کی نوعیت کیا ہے؟کیا فی الواقع حضورﷺ نے خود ہی بعض الفاظ کو مختلف طریقوں سے پڑھا اور پڑھایا تھا یا ان میں سے کسی قراء ت کو حضورﷺ کی طرف غلط نسبت دے دی گئی ہے؟ اور کیا یہ قراء تیں معنی کے لحاظ سے متضاد ہیں یا ان میں کوئی مطابقت پائی جاتی ہے؟ اس کاجواب یہ ہے کہ فی الواقع حضورﷺ ہی نے بعض الفاظ مختلف طریقوں سے پڑھے اور پڑھائے ہیں اور ان مختلف قراء توں میں درحقیقت تضاد نہیں ہے بلکہ غور کرنے سے ان میں بڑی گہری معنوی مناسبت اور اِفادیت پائی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر ملک یوم الدین کی دو متواتر قراء تیں ہیں۔ عاصم، کسائی، خلف اور یعقوب رحمہم اللہ نے کثیر التعداد صحابہ کی سند سے اس کو مٰلِکِ یوم الدین روایت کیاہے، اور دوسرے قاریوں نے بہت سے صحابہ سے اسکی قراء ت مَلِکِ یوم الدین نقل کی ہے۔ ایک قراء ت کی رُو سے ترجمہ ہوگا’’روز جزاء کامالک‘‘اور دوسری قراء ت کا ترجمہ ’’روز جزاء کابادشاہ‘‘ غور کیجئے کیا ان دونوں میں تضاد ہے؟ درحقیقت ان دو قراء توں نے مل کر تو معنی کو اور زیادہ وسعت دے دی اور مدعا کو پوری طرح نکھار دیا۔ سند سے قطع نظر ، عقل بھی کہتی ہے کہ جبریل علیہ السلام نے دونوں قراء توں کے ساتھ یہ لفظ حضورﷺ کوسکھایا ہوگا اور حضورﷺاس لفظ کو کبھی ایک طرح اورکبھی دوسری طرح پڑھتے ہوں گے۔
ایک اور مثال آیت وضوء کی ہے جس میں ارجلکم کی دو متواتر قراء تیں منقول ہوئی ہیں۔نافع، عبداللہ بن عامر، حفص، کسائی اور یعقوب رحمہم اللہ کی قراء ت اَرْجُلَکُمْ ہے جس سے پاؤں دھونے کاحکم ثابت ہوتاہے اور عبداللہ بن کثیر، حمزہ بن حبیب، ابوعمرو بن العلاء اور عاصم رحمہم اللہ کی قراء ت اَرْجُلِکُمْ ہے جس سے پاؤں پرمسح کرنے کاحکم نکلتا ہے۔ بظاہر ایک شخص محسوس کرے گا کہ یہ دونوں قراء تیں متضاد ہیں، لیکن نبیﷺکے عمل سے معلوم ہوگیاکہ دراصل ان میں تضاد نہیں ہے بلکہ یہ دو مختلف حالتوں کے لیے دو الگ الگ اَحکام کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔بے وضو آدمی کووضو کرنا ہوتو اسے پاؤں دھونا چاہئے۔باوضو اگر تجدید وضو کرے تو وہ صرف مسح پراکتفاکرسکتا ہے۔ وضو کرکے اگر آدمی پاؤں دھونے کے بعد موزے پہن چکا ہو تو پھر بحالت قیام ایک شب وروز تک اور بحالت سفر تین شب و روز تک وہ صرف موزوں پر مسح کرسکتا ہے۔ حکم کی یہ وسعت ان دو قراء توں کی بدولت ہی واضح ہوتی ہے۔
اسی طرح دوسرے جن جن مقامات پر بھی قرآن کی متواتر اور مشہور قراء توں میں اختلافات پائے جاتے ہیں ان میں کسی جگہ بھی آپ تضاد اور تصادم نہ پائیں گے۔ہرقراء ت دوسری قراء ت کے ساتھ ایک نیافائدہ دیتی ہے جو تھوڑے سے غور و فکر اور تحقیق سے آپ کو معلوم ہوسکتا ہے۔ (بشکریہ:ماہنامہ ترجمان القرآن)